Prism E-Magazine
آپ سوچ نظر و فکر سے شعور کی آنکھ لگا کر وجدان کے آسمان کو دیکھتے ہیں تو آئیے یہ پیج آپ کے لیے ہے۔
Learn More: https://sourcecode.academy/sub-category/mathematics
The Mathematics course is a 3-4 year course designed for 8 year and above. Our aim is to make every student a master of understanding the mathematical perspective of all the knowledge that he/she will acquire in the future. If he doesn’t have the right base and expertise, he will shy away from core STEM subjects that he needs to conquer.
FATHER OF ROBOTICS: ISMAIL AL-JAZARI (1136–1206)
Ismail Al-Jazari was a polymath: a scholar, inventor, mechanical engineer, artisan, artist, and mathematician from the Artuqid Dynasty of Jazira in Mesopotamia. ‘The Book of Knowledge of Ingenious Mechanical Devices’ is a medieval Arabic book written by Ismail al-Jazari in the 12th century. It describes over fifty mechanical devices and automata, including clocks, water-raising machines, musical automatons, and humanoid robots. Al-Jazari provides detailed instructions for constructing each device and includes anecdotes and historical references. The book had a significant influence on the development of European clockmaking and automata, offering insights into daily life and technological innovations in the Islamic world during the medieval period. It’s his book that influenced key concepts of modern-day robotics.
یلیتنی--- اے کاش
عبداللہ سبق سنا کے کب کا جا چکا تھا لیکن یہ ایک آئت میرے دل و دماغ پہ ٹہر سی گئ تھی ----
یلیتنی کنت ترابا --( النبا40)
کاش میں خاک ہوتا -- مٹی کا ذرہ- - پاوں تلے روند دیا جاتا -- ہوا میں اڑ جاتا ---
درخت کا ایک سوکھا پتہ
جو خزاں میں جھڑ کے فنا ہو جاتا
کاش میں کچھ نہ ہوتا --
ذہن اٹک گیا تھا --
دل سوچ کے ڈوب سا جاتا -- پھر گھر کے روزمرہ کے کام انجام دیتے ہوئے یکدم ایک روتی سسکتی حسرت بھری آواز کانوں میں گونجنے لگتی
یلیتنی کنت ترابا--- اور آنکھیں بہنے لگتیں
ہائے اس بڑے دن کی سختی --
جب عمل کا دور گزر چکا ہو گا نامئہ اعمال بند ہو چکا ہوگا اور ہم حساب کے لئے اپنے اپنے رجسٹر اٹھائے مالک کے روبرو حاضر ہوں گے ---
اور نہ ماننے والے کہیں گے
کاش میں خاک ہو گیا ہوتا --- یہ دن نہ دیکھنا پڑتا
ہائے میری کم بختی -- اب کیا ہو گا --
پھر ایک اور نقشہ ذہن پہ ابھرنے لگتا ہے
- مجرم اس دن اپنے چہروں سے پہچانے جا رہے ہوں گے ----جہنم کھینچ کے لائ جا رہی ہو گی ---
ایک اور حسرت بھری چیخ سنائ دے گی
یلیتنی قدمت لحیاتی----
اے کاش کچھ آگے ہی بھیج دیا ہوتا
کچھ اس زندگی کے لئے کما لیا ہوتا --
ہائے میں تو تباہ ہو گیا --
ہائے یہ میں نے کیا کر دیا
اور پھر وہی درد بھری صدا---
یلیتنی کنت ترابا --
کاش ہائے کاش میں مٹی ہوتا ---
اس آئت نے مجھے جکڑ لیا ہے یہ آئت مجھے بار بار کٹہرے میں لا کے کھڑا کر دیتی ہے ---
رات نماز کی امامت کرواتے وقت اسد نے پھر یہی آئت تلاوت کی ہے تو دل ایک بار پھر دہل گیا ہے ---
میں بھلانا چاہتی ہوں یہ آئت مجھے بھولنے نہیں دیتی میں جھٹک کے کام میں مصروف ہو نا چاہتی یوں یہ آئت مجھے پھر سے اپنی جانب کھنچ لیتی ہے ---
کیا کمایا- کن کاموں میں زندگی گزار دی- رب کی رضا کے لیے یا دنیا میں خوشی اور راحت کے لئے -- دین کی طلب میں یا کسی فانی کی چاہ میں --- کیا جمع کیا --- کیا آگے بھیجا جہاں ہمیشہ رہنا ہے ---
حضرت علی رض یاد آتے ہیں جو کچھ قبروں سے گزرے تو رونے لگے روتے روتے ہچکی بندھ گئ اپنے ساتھیوں سے کہا کہ جانتے ہو یہ قبر والے اگر بول سکتے تو تمہیں بتاتے کہ " بہترین توشہ پرہیز گاری ہے "
آہ -- ہماری لمبی امیدیں اور جھوٹی آرزوئیں--اور گمراہ کر دینے والی خواہشات
حضرت حسن رض کہا کرتے تھے " ان لوگوں پہ تعجب ہے جنہیں کہا گیا کہ زاد راہ لو اور کوچ کی تیاری کرو لوگ جانے کے لیے اکھٹے ہو رہے ہیں اور یہ بیٹھے کھیل رہے ہیں "
حضرت عبداللہ بن عمر رض کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کندھے سے پکڑا اور کہا " دنیا میں اس طرح رہو جیسے کوئ پردیسی یا راہ چلتا مسافر "
بس بےچینی ہے اضطراب ہے گناہوں کا اعتراف ہے توبہ کی آرزو ہے کچھ اچھے کاموں کے لئے نفس کو آمادہ کیا ہے کچھ جمع کرنے کی آرزو ہے دعا کے لئے ہاتھ اٹھے ہوئے ہیں لیکن اپنی بے بسی اور کم مایئگی کا اعتراف ہے اور
نگہ پھر اسی ایک ہستی کی جانب اٹھتی ہے جو میرے لئے ہم سب کے لئے بے چین رہی مضطرب رہی---ہاں وہ ایک رات اور وہ ایک آیت ---جسے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم دہراتے رہے روتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئ --" -اب اگر آپ انہیں سزا دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ غالب اور دانا ہیں " ( سورہ المائدہ)
بس یا رب ہم آپ کے گنہ گار بندے ہیں اور آپ کی بے پایاں رحمت سے بخشش کے طلبگار ہیں
ہمیں معاف فرما دیجئے
ہم پہ رحم کر دیجیئے
ہماری پردہ پوشی فرمایئے
اور ہمیں اس نتیجہ کے دن کی سختی سے اور حسرتوں بچا لجیے گا
ہمیں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا حقدار بنا دیجیئے گا --- یا رب یا رحمان
الھم صلی علی محمد و علی آل محمد --
بچے والدین کے پاس سب سے قیمتی متاع اور اللہ کی امانت ہیں ابتدائی عمر ہی سے جو بیج ہم بویئں گے اسی کا پودا پروان چڑھے گا جس قدر بنیادیں مضبوط آٹھائ جایئں گی اسی قدر عمارت پائیدار ہو گی اگر ہم والدین ابتدائی عمر کے سات سال بچوں پہ محنت نہ کریں انہیں ڈھائی تین سال کی عمر سے اونچی فیسوں والے اداروں کے سپرد کر کے مطمئن اور خوش رہیں کہ بچے آداب بھی سیکھ لیں گے اور انگلش بول چال بھی ---تو پھر بچے محض یہی نہیں سیکھیں گے بلکہ وہ اسی تہذیب میں ڈھلتے جائیں گے جس تہذیب سے یہ نظام تعلیم مستعار لیا گیا ہے پھر فصل کاٹنے کا وقت آئے اور ہم پھولوں کی توقع رکھیں جبکہ بوئے تو کانٹے ہی تھے تو یہ ناممکن ہے -- پھر یہ کہنا کہ بچے تو ہاتھ سے نکل گئے ہیں بات ہی نہیں سنتے تو دراصل بچے اغوا ہو چکے ہیں وہ جسمانی طور پہ آپ کے سامنے اور آپ کے ساتھ ضرور ہیں لیکن ذہنی اور قلبی طور پہ نہیں --- عقائد پختہ اور مظبوط کرنے کا وقت ہاتھ سے پھسل چکا ہوتا ہے جدید تحقیقات بھی یہی بتاتی ہیں کہ ابتدائ عمر کے تین پانچ اور سات سال تک کی عمر میں بنیادی شخصیت کی تعمیر ہو جاتی ہے - - ایک ننھے منے بچے کو ماں پیار سے ساتھ سلاتے وقت پہلا کلمہ طیب سے لے کر انبیا کرام کی ساری قرآنی کہانیاں اس کے اندر انڈیل سکتی ہے اللہ اس کے رسول نبئ پاک محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے محبت دل میں گہری اتار سکتی ہے جنت دوزخ کا تصور پختہ کر سکتی ہے انعام اور سزا کے بارے میں سمجھا سکتی ہے اچھا انسان اور رب کا پسندیدہ بندہ بننے کا طریقہ بتا سکتی ہے بشر طیکہ ماں پوری زمہ داری سے اپنا یہ کردار نبھانے کے لئے تیار ہو اور اس معاملہ میں کوتاہی اور لاپرواہی نہ برتے --
عملی طور پہ تدابیر کیا ہوں اس سلسلہ میں ایک واقعہ نے میری بہت رہنمائ اور مدد کی آپ بھی غور سے پڑھئے
منہا ج القاصدین کے مصنف ابن جوزی رح تحریر کرتے ہیں کہ
حضرت سہل بن عبداللہ نے کہا "
میں تین برس کا تھا اور رات کے وقت کھڑا ہو کر اپنے ماموں محمد بن سوار رح کو نماز پڑھتے دیکھا کرتا تھا ایک دن انہوں نے کہا
" کیا تو اللہ کا ذکر نہیں کرتا جس نے تجھے پیدا کیا "
میں نے کہا میں اس کا ذکر کیسے کروں
تو انہوں نے کہا
" اپنے دل میں بغیر زبان ہلائے تین مرتبہ کہو
اللہ معی( اللہ میرے ساتھ ہے)
اللہ شاھدی( اللہ مجھے دیکھتا ہے )
میں نے کئ رات ایسا ہی کہا
پھر آپ نے کہا " اسے ہر رات گیارہ مرتبہ پڑھو
میں نے ایسا ہی کیا اور میرے دل میں اس کی لذت پیدا ہو نے لگی
پھر ایک سال گذر گیا
تو ماموں نے مجھ سے کہا
" جو میں نے تمہیں سکھایا ہے اسے یاد رکھو اور قبر میں جانے تک اس کی پابندی کرنا
چنانچہ میں نے کئ سال تک اس کی پابندی کی مجھے اپنے باطن میں اس کی لذت محسوس ہوئ
پھر میرے ماموں نے مجھ سے کہا
" اے سہل !جس کے ساتھ اللہ ہو اور وہ اسے دیکھ رہا ہو اور وہ اس کا نگران بھی ہو تو کیا ایسا شخص اللہ کی نافرمانی کر سکتا ہے؟؟پس اللہ کی نا فرمانی سے بچو " "
پھر میں مدرسہ چلا گیا اور میں نے سات سال کی عمر میں قرآن پاک یاد کر لیا اب میں روزے بھی رکھتا اور رات کو قیام بھی کرتا اور میری غذا جو کی روٹی تھی ""
اس واقعہ میں بے شمار سبق پوشیدہ ہیں اسے بار بار پڑھنے سمجھنے اور جہاں تک ممکن ہو عمل کرنے کی ضرورت ہے
اللہ کریم ہمیں اپنے بچوں کی بہترین تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور انہیں ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے آمین
رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا آمین یا رب
سعدیہ نعمان
Why government of Pakistan lifted the ban on this anti humanitarian movie? Not only it’s against human race it is also against our religion, culture & values...
By Arnaldo Liechtenstein, physician:
"Whenever, I teach clinical medicine to students in the fourth year of medicine, I ask the following question:
"What are the causes of mental confusion in the elderly?"
Some answer: "Tumors in the head".
I answer: No!
Others suggest: "Early symptoms of Alzheimer's".
I answer again: No!
With each rejection of their answers, their responses dry up.
And they are even more open-mouthed, when I list the three most common causes:
- uncontrolled diabetes
- urinary infection
- dehydration
It may sound like a joke; but it isn't.
People over 60 generally stop feeling thirsty and consequently, stop drinking fluids.
When no one is around to remind them to drink fluids, they quickly dehydrate.
Dehydration is severe and affects the entire body. It may cause abrupt mental confusion, a drop in blood pressure, increased heart palpitations, angina (chest pain), coma and even death.
This habit of forgetting to drink fluids, begins at age 60, when we have just over 50% of the water we should have in our bodies.
People over 60 have a lower water reserve. This is part of the natural aging process.
But there are more complications. Although they are dehydrated, they don't feel like drinking water, because their internal balance mechanisms don't work very well.
Conclusion:
People over 60 years old dehydrate easily, not only because they have a smaller water supply; but also because they do not feel the lack of water in the body.
Although people over 60 may look healthy, the performance of reactions and chemical functions can damage their entire body.
So here are two alerts:
1) Get into the habit of drinking liquids. Liquids include water, juices, teas, coconut water, milk, soups, and water-rich fruits, such as watermelon, melon, peaches and pineapple; Orange and tangerine also work.
The important thing is that, every two hours, you must drink some liquid.
Remember this!
2) Alert for family members: constantly offer fluids to people over 60. At the same time, observe them.
If you realize that they are rejecting liquids and, from one day to the next, they are irritable, breathless or display a lack of attention, these are almost certainly recurrent symptoms of dehydration.
Inspired to drink more water now??
Send this information out to others! DO IT NOW!
📍.*"توجہ فرمائیے یہ اہم ہے" *
_______________________
📌 8 ستمبر سے 18 ستمبر 2022 کے درمیان ٹورانٹو میں ایک فلم فیسٹیول کا انعقاد ہوتا ہے جہاں ایک پاکستانی فلم ڈائریکٹر saim sadiq اپنی ایک فلم joyland کے نام سے پیش کرتا ہے جسے ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے ، واضح رہے کہ فلم کے لئے کینیڈا نے فنڈ بھی دیا،
اس میں کام کرنے والے نمایاں ناموں میں ثانیہ سعید،ثروت گیلانی ، سہیل سمیر، علی جونیجو ، علینہ خان راستی فاروق و دیگر شامل ہیں
ڈائریکٹر اور اداکار تعریفی نعروں اور تالیوں کی گونج میں خوشی کے آنسو آنکھوں میں لئے بتاتے ہیں کہ اگرچہ پاکستان میں اس موضوع پہ کام کرنا ایک چیلنج ہے لیکن ہم نے یہ جرات کی ہے ، انسانی خواہشات کی ترویج اس کی قبولیت اور انسانیت کی خاطر ہم یہ کام کرتے رہیں گے
(-----A repressed desire and quest of individual freedom )
📌(یہ فلم نومبر میں پاکستانی سینیماز میں آن ایئر جائے گی , سوشل میڈیا ایپس پہ اس فلم سے متعلق تمام تعارف موجود ہے ، جسے دیکھ کے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس فلم کا content کیا ہو گا ، تو کیا پاکستان میں یہ فلم آن ایئر جانی چاہیئے اس کا فیصلہ بھی مجھے اور آپ کو کرنا ہے ، ہم ، میں اور آپ چاہیں تو پر زور احتجاج سے اسے روکا جا سکتا ہے ، ابھی وقت ہے )
اس سے پہلے اسی موضوع سے متعلق پاکستان میں فلمائی گئ ایک series چڑیل churails کے نام سے zee 5 پہ آن ایئر جا چکی ہے،
📌 یہ سب اس قدر sophisticated طریقہ سے پیش کیا جا رہا ہے گویا انسانوں کا تمام درد انہی کے دل میں ہے اورگوہا کہ جو بھی اس سے اختلاف کرے گا وہ ظالم ہے اسے انسانی جذبات و خواہشات کا کوئ پاس نہیں ہے ۔
📌آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب بتانے سے کیا فائدہ ممکن ہے یا ذہن میں یہ خیال ابھرے کہ ہم اس موضوع پہ بات کر کے خواہ مخواہ ان کی تشہیر کا باعث کیوں بنیں ،
لیکن اب یہ سب ڈھکا چھپا نہیں ہے ،
📌ٹرانس جینڈر کا یہ موضوع اب ہمارے میڈیا سے لے کر ہمارے حکومتی ایوانوں تک میں زیربحث ہے ، ہمارے علماء اس پہ بات کر رہے ہیں، ہماری مساجد کے خطبوں میں اس پہ بات ہو رہی ہے
📌، اب کبوتر کی طرح آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں، اب جاننا ہو گا اور علم کے ہتھیار کے ساتھ لیس ہو کے اس فتنہ کا مقابلہ کرنا ہو گا ۔
📌آپ اور میں---- ہم بھی اہم ہیں، ہمارا کردار بھی اہم ہے ، ہمیں بھی choose کرنا ہے کہ ہم کس کے ساتھ ہیں
اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بتائے واضح حکموں کے ساتھ یا دوسری جانب نفسانی خواہشات کی غلامی اور مادر پدر آزاد معاشرہ کے ایجنڈے پہ چلنے والوں کے ساتھ -----
📌میں اور آپ ---- ہم کیا چاہتے ہیں کہ ہماری اولادیں ایک نیک صالح اور پاکیزہ معاشرے میں پروان چڑھیں یا ایک بد بو دار ہر حد سے آزاد معاشرہ کا حصہ بنیں---
میں اور آپ---ہم پاکستان کو ایک اسلامی مملکت قائم دیکھنا چاہتے ہیں یا خدانخواستہ ایک لبرل بے دین ریاست---
میں اور آپ مل کے اس سیلاب کے آگے ایک بند باندھ سکتے ہیں
📌فیصلہ مجھے اور آپ کو کرنا ہے اور جلد کرنا ہے کیونکہ دوسری جانب تو کام تیزی سے جاری ہے دشمن مورچہ سے مسلسل وار کر رہا ہے ، کبھی چھپ کے کبھی کھل کے ،
ہمیں تیاری پکڑنی ہے ،خندقیں کھودنی ہیں، علم و عمل کے ہتھیاروں سے خود کو لیس کرنا ہے ، آواز بلند کرنی ہے ---آیئے مل کے آن آوازوں کو توانا کرتے ہیں جو پہلے مورچہ پہ صف آرا ہیں اور مسلسل مزاحمت کر رہے ہیں
(سعدیہ نعمان )
شیخ یوسف القرضاوی کے افکار و نظریات
از قلم: عبدالصبور شاکر فاروقی
9جون 2017کو سعودی عرب سمیت چار ممالک نے بزرگ مصری عالم جناب شیخ یوسف القرضاوی سمیت 59افراد اور 12اداروں کو دہشت گردی کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔نیز شیخ القرضاوی کی تمام کتب پر بھی پابندی لگا دی ہے۔
شیخ یوسف القرضاوی ایک معروف اسلامی سکالر، عالم دین ، فقیہ اور مفکر ہیں۔ آپ 9ستمبر1926ء کومصر میں پیدا ہوئے۔ جامعہ ازہر قاہرہ سے علوم اسلامی میں مہارت حاصل کی اور مصر کی وزارت مذہبی امور سے منسلک ہو گئے۔ بعد ازاں قطر اور الجزائر کی یونیورسٹیوں میں تدریس کے فرائض بھی سرانجام دیے۔ شیخ القرضاوی ، کئی اداروں سے منسلک ہیں۔ مثلا یورپین کونسل برائے فتاوی اینڈ ریسرچ کے سربراہ، انٹرنیشنل علماء یونین کونسل کے چیرمین، مجمع الفقہ الاسلامی، رابطہ عالمی اسلامی، جامعہ ازہراور اسلام آن لائن کے رکن ہیں۔ نیز آپ الجزیرہ ٹی وی سے بھی منسلک ہیں جہاں آپ کا پروگرام ’’الشریعۃ والحیاۃ‘‘ بہت مقبول ہے جسے تقریبا 60ملین سے زائد لوگ دیکھتے ہیں۔ اسلامی خدمات کی وجہ سے آپ کو کئی ایوارڈ ز سے نوازا جا چکا ہے۔ جن میں سعودی عرب کا ’’شاہ فیصل ایوارڈ‘‘، ’’دبئی انٹرنیشنل ہولی قرآن ایوارڈ‘‘اور ’’سلطان حسن البلقیا ایوارڈ شامل ہیں۔
شیخ القرضاوی فکری طور پر اخوان المسلمین کے بانی ،حسن البناء مرحوم سے متاثر ہیں۔ جن کا اظہار آپ کی 50سے زائد کتب سے ہوتا ہے۔ ان میں مشہورِ عالم ’’اسلام میں حلت و حرمت‘‘، ’’اسلام، مستقبل کی تہذیب‘‘، ’’اسلامی تحریکوں کی ترجیحات‘‘ اور ’’اسلام میں عورت کا مقام ومرتبہ‘‘ ہیں۔ اپنے افکار و نظریات کی وجہ سے کئی مرتبہ آپ کا جیل جانا ہوا۔ آخر 1961ء میں آپ نے قطر کو اپنا مسکن بنا لیا۔
اسلامی دنیا میں آپ کی پہچان ایک معتدل مگر قدامت پسند کی ہے۔ لیکن مغربی ممالک ، اسرائیل اور امریکیوں کے ہاں آپ سخت گیر اسلام پسند ، عالمی انسانی حقوق اور جمہوریت کے مخالف ہیں۔ اس کی وجہ وہ فتوی ہے جس میں آپ نے اسرائیلی فوج پر خود کش حملوں کو جائز قرار دیا ہے۔ آپ نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ’’ اسرائیلی قابض اور غاصب ہیں۔‘‘ لیکن اس کی مزید تشریح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’یہ خود کش حملے اس وقت جائز ہوں گے جب اپنے دفاع کا کوئی راستہ نہ بچے۔ نیز ان حملوں کا جواز صرف اسرائیلی اہداف کے خلاف ہے، دیگر مقامات پر نہیں ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ جب 2000ء میں قطر میں ایک برطانوی شہری جان ایڈمز مارا گیا تو آپ نے اس کی شدید مخالفت کی۔
اسرائیل کے بارے آپ کا موقف اتنا سخت ہے کہ آپ نے 2004ء کو اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا فتوی جاری کیا۔ آپ نے اس بائیکاٹ کی دلیل یہ دی کہ اسرائیل ان مصنوعات کے زرمبادلہ سے معصوم فلسطینی بچوں کے جسم چھلنی کرنے کے لیے گولیاں اور دیگر اسلحہ خریدتا ہے۔ اسرائیلیوں کی مصنوعات خریدنا، دشمن کی وحشت و جارحیت میں ان کی مدد کرنا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم دشمن کو کمزور کریں۔ اگر ان مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے سے وہ کمزور ہوتے ہیں تو ہمیں ایسا کرنا چاہیے۔‘‘ 2006ء میں حزب اللہ، اسرائیل جنگ میں آپ نے حزب اللہ کی حمایت کرنے پر زور دیا۔ کیونکہ وہ ’’شیعہ مسلک‘‘ سے وابستہ ہونے کے باوجود چونکہ یہود کے خلاف برسرپیکار ہیں لہذا ان کی مدد کرنا ضروری ہے۔ نیز امریکہ کے بارے میں کہا کہ ’’وہ دوسرا اسرائیل بن چکا ہے۔ امریکہ اسرائیل کو، فلسطینیوں سے نمٹنے کے لیے رقم اور اسلحہ سمیت سب کچھ فراہم کرتا ہے۔‘‘نیز عراق پر امریکی حملوں کے بارے میں کہا کہ ’’عراق میں جانے والے سارے امریکی ،حملہ آور تصور ہوں گے۔ ان کے درمیان فوجی یا سویلین کی کوئی قید نہیں ہے۔ اس لیے ان کے خلاف جہاد فرض ہے۔ تاکہ وہ عراق سے انخلاء پر مجبور ہو جائیں۔‘‘تاہم نائن الیون والے واقعہ کے بعد آپ نے تمام مسلمانوں سے زخمیوں کی مدد کرنے اور انہیں ہر طرح کی اخلاقی و جانی مدد کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھاکہ ’’اسلام صبر و تحمل والا دین ہے۔ وہ انسانی جانوں کی حفاظت پر زور دیتا ہے۔ معصوم انسانوں پر حملے گناہ عظیم ہیں۔‘‘
2006ء میں جب ڈنمارک کے کچھ لوگوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرتے ہوئے ’’خاکے‘‘ بنانے کا اعلان کیا تو آپ نے شدید غم وغصہ کا اظہار کیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ کا کہنا تھا کہ ’’ان خاکوں کے جواب میں تشدد کرنا جائز نہیں ہے۔‘‘آپ شام پر روسی حملوں کے بھی شدید مخالف ہیں۔ اور روس کے اس اقدام کو دہشت گردی سمجھتے ہیں۔
شیخ القرضاوی کا یہ بھی کہنا ہے کہ تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ گرین وچ کے وقت کو معیاری ماننے کے بجائے مکہ مکرمہ کے وقت کو مدنظررکھیں۔‘‘ آپ کے ہاں تصویر کشی جائز ہے اوراسلامی جمہوریت بھی درست ہے۔ جبکہ آپ مشرق وسطی میں سیاسی اصلاحات کے قائل ہیں۔
اپنے اوپر دہشت گردی کا لیبل چسپاں ہو جانے کے بعد شیخ القرضاوی نے درج ذیل بیان جاری کیا۔
’’بحمداللہ میں قطر میں ہوں اور پہلے سی بلند ہمتی ، عزم و استقلال اور سازشوں سے ماورا، جی رہا ہوں۔ کوئی شخص مجھ پر منافقت کا داغ نہیں لگا سکا۔ اگر میں منافقت کرتا ، سلاطین کا دم چھلا بنتا اور کاسہ لیسی میرا وتیرہ ہوتا تو عیش و عشرت کے ساتھ طبعی موت تک جیتا۔ اور تھوڑی بہت کوشش کے بعد وہ بڑے بڑے مناصب پاتا جن کی مجھے بارہا پیش کش کی جا چکی ہے۔ لیکن میں نے فیصلہ کیا ہے کہ مجھے اپنے دین اور اصل بنیاد کی پیروی کرنی ہے اور اپنے ٹھوس موقف پر جینا ہے۔ اگر ممکن ہے تو میرے ہاتھ میں ہتھکڑیاں ڈال دو اور میری آواز روکنے کے سارے حربے آزما لو۔ میری گردن پر چھری رکھ دو۔ میرے ایمان و استقلال میں ذرا فرق نہ دیکھو گے۔ سچائی کی روشنی میرے دل میں ہے۔ اور میرا دل میرے رب کے قبضہ میں ہے۔ اور میرا رب ہی مجھے استقلال بخشنے والا ہے۔ ‘‘
*اضافہ:* آج یہ روح فرسا خبر سنی کہ اسلام کا یہ بطل جلیل اپنی حق گوئی و بے باکی اور قربانیوں اور ایثار کی لمبی فہرست لے کر اپنے رب کے حضور پیش ہو چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کی لغزشوں سے در گزر فرمائے۔
ہمارے کرنے کا یہ کام ہے کہ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کے چھوڑے علمی اثاثے کے نہ صرف سینوں میں محفوظ کریں بلکہ عملاً اس کے نفاذ کی کوشش بھی کریں۔
*غلطی سے چلا گیا ہوگا*
شوکت تھانوی کی جب پہلی غزل چھپی تو انہوں نے رسالہ کھول کر میز پر رکھ دیا تاکہ آنے جانے والے کی نظر پڑتی رہے۔
مگر شامت اعمال سب سے پہلے ان کے والد صاحب کی نظر پڑی،
انہوں نے یہ غزل پڑھتے ہی ایسا شور مچایا گویا کہ چور پکڑ لیا ہو۔
والدہ صاحبہ کو بلا کر انہوں نے کہا آپ کے صاحبزادے فرماتے ہیں۔
ہمیشہ غیر کی عزت تیری محفل میں ہوتی ہے
تیرے کوچے میں جا کر ہم ذلیل و خوار ہوتے ہیں
میں پوچھتا ہوں یہ وہاں جاتا ہی کیوں ہے کس سے پوچھ کر جاتا ہے؟
والدہ بیچاری خوفزدہ آواز میں بولیں۔ *”غلطی سے چلا گیا ہو گا"*
”ابھی کچھ دیر پہلے تُم نے مجھے معلم کہا ہے۔ ٹھیک ہے، شکریہ۔ لیکن معلم کون ہوتا ہے؟...
معلم وہ نہیں جو تمہیں کچھ بھی سکھا دے۔ بلکہ معلم وہ ہوتا ہے جو تُمہاری رُوح میں پہلے سے موجود صرف تمہارے حصے کے علم کو دریافت کرنے کا طریقہ سکھا دے۔ تب تُم مزے سے اپنے راستے پر چلنا شروع ہو جاتے ہو۔
تمہارا ذاتی علم اُس وقت تک خوابیدہ ہوتا ہے جب تک اُسے جگایا نہ جائے۔ معلم کبھی بھی مچھلی کو اُڑنا نہیں سکھاتا بلکہ وہ سبق بھول چکی مچھلی کو نہایت دلکش انداز میں تیرنے کی جانب راغب کر دیتا ہے۔ شاید مچھلیوں کو اِس علم کی ضرورت نہ پڑے مگر انسان اپنی روح کو بھول جاتا ہے، اُسے ضرورت پڑتی ہے۔
لہذا مَیں نے تمہیں کچھ بھی نیا نہیں سکھایا۔ یہ سب تُم پہلے سے جانتے تھے مگر بُھولے ہوئے تھے۔
معلم | The Master
اقتباس ”تیر انداز کا راستہ“ از پاؤلو کوئیلہو
ترجمہ: شہزاد علی
Begin with the end in mind .....
(7 habits of highly effective families)
بے نام محبت۔۔۔!!
از: طعت نفیس
کیا عمیمہ یہ دو کمرووں کا گھر یہ پرانے زمانے کا کباڑ نما سامان ۔۔۔تمھارا دم نہیں گھٹتا یہاں۔؟
اور اتنی جلدی بھی کیا تھی بچہ پیداکرنے کی اھی تو شادی کو سال بھی نہیں ہوا۔تم نے عمیر سے کیوں شادی کی ؟
تمھیں بھی کوٸ امیر آدمی مل ہی جاتا
میں امی ابا اور خالہ کا دل نہ توڑ سکی ویسے بھی مجھے عمیر شروع سے ہی پسند تھے ۔
مگر تم دونوں کی خواہش پر میں نے قربانی دے دی تھی۔مگر میرےرب نے عمیر مجھے دلوادیا۔عمیمہ تشکر سے بولی
گھومو پھرو۔۔۔مگر تم کہاں گھموگی عمیر کی تو آمدبی ہی اتنی کم ہے و ہ مسلسل اسکی کم ماٸیگی کا احساس دلا رہی تھی۔
بہت سکون ہے آپیالحَمْدُ ِلله میرے گھر میں وہ عمیر کی جان بس ہوٸ ہے مجھ میں بہت پیار کرتے ہیں۔اسکے میک اپ سے عاری چہرے پر ایک الوہی چمک تھی ۔اور اپیا کیسی گزر رہی ہے۔
بہت اچھی سادی دنیا گھوم لی ۔کبھی سوچا بھی نہیں تھا ۔ وہ بناوٹی لہجے میں بول رہی تھی اماں ابا خالہ ہیں۔وہ ادھ ادھر دیکھتے ہوۓ بولی۔وہ عمرہ کرنے گۓ ہیں۔ میں چاۓ کا پانی رکھ آٶں ب۔وہ باورچی خانے میں گٸی ۔کہ
وہ تیزی سےباٸیک لے کرصحن تک آ گیا۔
عمیمہ عمیمہ کہاں ہو اسکی آواز میں چھپی بے قراری نےناعمہ کہ اندر ہلچل مچا دی۔
دروازہ بھی کھلا ہوا ہے اور تم میری باٸیک کی آواز سنکر با ہر بھی نہیں آٸیں۔۔۔میں سمجھا کہ
کہیں ڈاکہ تو نہیں پڑ گیا ۔
تم ٹھیک ۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈراٸنگ رو م سے نکلتی ناعمہ کو دیکھ کر وہ چپ ہو گیا۔
اوہو ۔۔۔یہاں کونسےخزانے ہیں ۔جو ڈاکو لینے آٸینگے وہ تمسخرانہ انداز میں اپنی سونے کی چوڑیوں پر جتانے والے انداز میں انگلی پھیرتی ہوٸ بولی۔
تم ۔۔۔۔ اسکو دیکھ کر عمیر کی پیشانی پر ناگواری سے بل پڑ گۓ
عمیمہ میں بیڈ روم میں جا رہا ہوں جب تمھارے مہمان چلے جاٸیں تو مجھے بلالینا۔اسنے کمرے میں داخل ہوکر دھاڑ سے دروازہ بند کر لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمیمہ اور ناعمہ دونوں سگی بہنیں تھیں۔
انکے والد گورنمنٹ اسکول ٹیچر تھے ۔ امی سلیقہ مند تھیں۔اور انکار سارا سلیقہ چھوٹی
ہونے کے باوجود عمیمہ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔
ناعمہ بہت حسین تھی ۔اسکول کالج ہر جگہ اسکے حسن کے چرچے تھے ۔
جبکہ عمیمہ عام شکل وصورت کی تھی ۔ ۔
عمیر انکی خالہ کا بیٹا جو ناعمہ کی طرحٕ وجاہت کامکمل نمونہ دونوں کا جھکاٶ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوۓ دونوں کی بات طے کردیگٸ تھی ۔ناعمہ پراٸیوٹ یونی ورسٹی سے ایم بی اے کر رہی تھی ۔جہاں پڑھاٸ کے ساتھ دیگر ششکے بہت زیادہ تھے ۔
آجکے فنکشن میں اسکا شہزادی کا مین رول تھا ۔حسین شعلہ جوالہ بنی بجلیاں گرا رہی تھی ۔
تقسیم اسناد کے وقت آنے والےمہمان خصوصی ناعمہ کی تعریف و توصیف کی اسکے حسن کے آگے ریشہ خطمی ہو گۓ۔گھاٸل گھاٸل سے اسکی بلاٸیں لےرہے تھے۔
اور اپنی طرف سے بڑی رقم ناعمہ کو اسکی پرفامنس پر بطور انعام دی ۔
ناعمہ اسکی آنکھوں میں چھپے پیغام کوسمجھ رہی تھی۔شہزادی میرے محل کی ملکہ بنو گی ۔
اسنے بکے تھناتے ہوۓ کان مں سرگوشی کی
_۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کو ناعمہ انکی اواز سنکر اچھل پڑی ۔
میرا نمبر آپکو کہاں سے ملا وہ خوشی سے بولی ۔
اسکے بعد وہ ملازموں کی فوج کے ساتھ سجے سجاۓ مٹھاٸ کے ٹوکروں اوربیش قیمت تحائف کے ساتھ دھوم دھام سے ناعمہ کا رشتہ لیکر آۓ
اماں ابال حیران پریشان مگر ناعمہ نے اسکے سامنے ماں باپکو صاف کہہ دیا کہ اسے کنگلے عمیر سے شادی نہں کرنی وہ بازل شاہ سے شادی کریگی ۔ اسکی کیا بے تحاشہ دولت محل نما کوٹھی پورچ می کھڑی آدھی درجن گاڑیاں
ناعمہ نے تو خواب میں بھی نہ سوچا تھا۔
عمیر کی التجاٶں اور عمیمہ کے سمجھانے کےبا وجود کہ وہ اپنے باپ کی عمر سےبڑے آدمی کے ساتھ ہر گز خوش نہ رہ سکے گی ۔مگر بازل شاہ کی دولت کی چکا چوند نے ہر خونی رشتہ دھندلا دیاتھ۔ ماں باپ نے ا سکو رخصت کرتے ہوۓکہہ دیا تھا کہ وہ ہمارے لیے مر گٸ ہے ۔اور ہمارے تمام ناطے ختم ہوچکے ۔
وہ ہر جیز کی پرواہ کیے بغیر بازل شاہ کے دولت کدےمیں گم ہو گٸ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شادی کےبعداسکو اپنی سب سمجھآگیاتھا۔
پہلی رات ہی بازل شاہ نےناعمہ پر اس شادی کا مقصد سمجھا دیا تھا کہ اسکے چار بچے پہلی بیوی سے ہیں لہذا اسے مزید کوٸ بچہ نہیں چاہیے
۔ گاٶں میں اسکی مکمل فیملی تھی ۔اسکی بیوی بچے ۔دو بڑے بیٹے جو شاید ناعمہ سے بھی بڑے تھے ۔
اسے تو بازل شاہ نے ایک ٹکٹ کے طور پر خریدا تھاشہر میں بزنس کانٹیکٹ کا زریعہ۔
اسلیے اب یہ محل اسکے لیے ایک پنجرہ تھا سوبے کا پنجرہ یہ محل اسکی ہر آساٸش اسکو ڈس رہی تھی۔
عمیر کا ناعمہ کے لیے والہانہ پیار اسکی بے قراری
نے اسکے تن من کو جلا دیا تھا۔
دبیز میکہ اپ اور بھاری جیولری برانڈڈ کپڑوں اور بیش قیمت گاڑیوں کے پیچھے اپنے انرر کا غم چھپانے کی ناکام کوشش کرتی ۔وہ عمیمہ کے مقابلے میں بالکل تہی دامن تھی جب لوگ اسکودیکھ کر رشک کرتےتوا کادل چاہتا کہ اس مطمئن چہرےکے پیچھے چھپے تمام دکھ عیاں کردے۔
ختم شد
بھلا کے ساری اذیتوں کو، اٹھا کے کانٹے گلاب رکھنا۔
از: ماریہ تحسین
بقر عید کے دوران دفاتر بند رہے تھے، ایسے میں سرکاری دفاتر کی پرانی مشینری، بس چلتی رہے تو چلتی رہے، ذرا سا وقفہ کیا آتا ہے، ہر چیز کو چھٹیوں کے بعد آکر چلانا ایک اہم کام بن جاتا ہے۔ جیسے ہی دفتر کا وقت شروع ہوا تو بجلی حسب معمول غائب ۔ اب چھٹیوں کے دوران اکٹھی ہو جانے والی رپورٹس کا انبار لگا ہے، فوری کام کرنے کی ضرورت تھی، تو باس کا فون آیا کہ میڈم جنریٹر چلوائیں۔ جنریٹر چلانے پر مامور ملازم نے اطلاع دی کہ چار روز تک جنریٹر بند رہنے کی وجہ سے بیٹری ختم ہے، اس لیے بیٹری چارج کرنے میں کچھ وقت لگے گا، اب کچھ وقت کا کسی کو اندازہ نہ تھا، آدھا گھنٹہ، ایک گھنٹہ یا دو گھنٹے بھی ہو سکتے تھے۔
اتنے میں باس کی طرف سے بار بار پیغامات وصول ہو رہے تھے کہ فوری جنریٹر چلائیں ۔ ایک گھنٹے تک جنریٹر نہ چل سکا تو باس نے اسے اپنے دفتر بلا کر خوب عزت افزائی کی کہ سٹاف کرتا کیا ہے، ایک جنریٹر کو چیک کر کے نہیں رکھا جا سکتا، وقتا فوقتاً اسے چیک کر کے دیکھا جاتا تو نوبت یہ نہ آتی۔ وہ یہ بتانا چاہتی تھی کہ معمول کے دنوں میں تو جنریٹر کو وقتاً فوقتاً چلا کر چیک کیا جاتا رہا ہے، لیکن عید کی چھٹیوں کی وجہ سے جنریٹر بند رہا، اب عید منانا بھی تو ہر ملازم کا حق ہے لیکن باس کوئی بھی وضاحت سننے کو تیار نہ تھے، سو اس نے خاموشی میں ہی عافیت جانی۔ اب جیسے ہی وہ اپنے آفس میں آئی، اس کے پاس دو راستے تھے یا تو وہ باس کا اپنایا ہوا طریقہ اپناتی کہ آتے ساتھ ہی سٹاف کی جواب طلبی کہ جنریٹر کے ساتھ مسئلہ ہوا ہی کیوں؟ جبکہ وہ اس حقیقت سے واقف تھی کہ سارا سٹاف بہت محنت سے محدود وسائل میں کام کر رہا ہے۔ اس وقت بھی جنریٹر آپریٹر اور دیگر متعلقہ ملازم جنریٹر کو چلانے کی بھرپور کوشش کر رہے تھے۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ مناسب الفاظ میں سٹاف کو کام مزید بہتر طریقے سے کر نے کا کہتی۔ اس نے دوسرے طریقے کو اپنایا کہ عید کے بعد آتے ہی ملازمین کا دل نہ ٹوٹے اور وہ خوشدلی سے کام کرسکیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حمنہ کو اللہ نے بیٹے سے نوازا تو کچھ ہی روز بعد میرب تحفے تحائف کے ساتھ اسے ملنے چلی آئی ۔ ان کے خاندان میں یہ روایت تھی کہ نئے آنے والے بچے کو تحفے تحائف کے ساتھ خوش آمدید کہا جاتا۔ میرب کچھ دیر بعد واپس چلی گئی تو حمنہ سوچنے لگی کہ میرب نے زندگی کے مشکل حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور نہ صرف یہ کہ اتنے مشکل وقت کو برداشت کیا بلکہ خوشی کے ساتھ میرے بیٹے کو دیکھنے اور مبارکباد دینے بھی آئی ہے۔ حمنہ کے دل سے میرب کے لیے بہت دعائیں نکل رہی تھیں کہ اللہ ربی اس کا دامن خوشیوں سے بھر دیں ۔
میرب اور حمنہ چچا زاد بہنیں ہونے کے ساتھ ساتھ بچپن کی سہیلیاں بھی تھیں ۔ ساتھ ساتھ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد قریبی سکول میں تدریس کے فرائض سرانجام دینے لگیں ۔ رشتہ ازدواج میں بھی کچھ دنوں کے وقفے سے ہی منسلک ہوئیں ۔ بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے کی شادی میں شرکت کی۔ لیکن کچھ مسائل کی وجہ سے میرب کا گھر نہ بس سکا، اور طلاق کی صورت میں اس رشتے کا اختتام ہوا ۔ اس معاشرے نے جس طرح سے طلاق کو کلنک کا ٹیکہ بنا دیا ہے، ایسے میں جو وہ فرد اس تلخ تجربے سے گزرتا ہے اسے لوگوں کے نامناسب رویوں کا سامنا رہتا ہے ۔ ان سب حالات کا سامنا کرنے کے باوجود میرب نے اپنے اندر کے خوبصورت انسان کو زندہ رکھا اور آج حمنہ کی خوشیوں میں شامل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، ایک فرد کے کام اور اسکی آمدن پر انحصار کر کے ایک مڈل کلاس فیملی کا گزارہ کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ ایسے میں مائرہ نے سوچا کہ میری پروفیشنل ڈگری آخر کس دن کام آئے گی۔ اسے وہ وقت یاد آیا جب ابا کے سائیکل پہ اپنے گاؤں سے ساتھ والے گاؤں میں سکول پڑھنے جایا کرتی تھی۔ جب وہ سکول سے واپس آتی اور فارغ وقت میں اپنی ہم عمر سہیلیوں سے کھیلنے جاتی تو اسکی سہیلیاں اسے رشک سے دیکھا کرتی تھیں ۔ ذرا بڑی ہوئی تو ابا نے شہر کے ایک معروف کالج میں داخلہ کرا دیا۔ کالج آنے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ تھا تو ایک سکول وین بچوں کو سکول لے جاتی اور واپس چھوڑ جاتی تھی تو اسی سکول وین کا بندوبست مائرہ کے لیے کر دیا۔ اب باقی سب تو ٹھیک تھا لیکن اس کے گاؤں سے زیادہ لڑکیاں کالج نہ جاتی تھیں تو کالج بس نہ جاتی تھی، اور سکول وین میں جانے والے بچوں کے ساتھ اسکے کالج کو اوقات کار مطابقت نہ رکھتے تھے ۔ سکول کھلنے کا وقت کالج سے ایک گھنٹہ پہلے کا ہوتا تھا اور اسی طرح چھٹی کے وقت بھی اسے گھنٹہ بھر انتظار کرنا پڑتا تھا۔ خیر یہ مشکل وقت بھی گزر گیا جب کالج آنا جانا اور راستے میں وقت کا ضیاع، سکول وین کا انتظار ایک بہت بڑی اذیت محسوس ہوتا تھا۔ کچھ سال اور گزرے تو مائرہ پیا گھر سدھار گئی۔
خیر ماضی کے وقت کو سوچتی اور یاد کرنے بیٹھ جاتی تو آج کا سارا دن نکل جاتا۔ اس وقت اہم موضوع گھر کے معاشی حالات کو بہتر کرنا تھا سو اس نے قریبی ٹیکنیکل کالج میں پڑھانے کا فیصلہ کیا۔ کالج میں آسامی بھی خالی تھی، قسمت نے اس کا ساتھ دیا۔ لیکن بہر حال بچوں کو سکول بھیجنا، شوہر کو اس کے کام پہ بھیجنا، خود سارے کام سمیٹ کر کالج پہنچنا، کالج کی سارے دن کی مصروفیت، پھر گھر واپس آکر بچوں کا ہوم ورک مکمل کرانا، کھانا بنانا۔۔۔ مائرہ کے لیے یہ سب ایک چیلنج سے کم نہ تھا۔ سب گھر والوں کو تو اس کی پہلے کی روٹین کی عادت تھی، جب گھر کے کام کاج کے ساتھ اسے کچھ وقت آرام کے لیے مل جاتا تھا لیکن اب کوئی مائرہ کی ذہنی و جسمانی مشقت کو سمجھنے کو تیار نہ تھا۔ تھکاوٹ سے مزاج کچھ چڑچڑا ہونے لگا تھا، گھر میں بچوں اور شوہر کے ساتھ بھی تلخ ہو جاتی اور کبھی معمولی سی غلطی پر کالج کی طالبات کو بھی جھڑک دیا کرتی تھی۔ کچھ دن یوں گزرے تو اسے احساس ہوا کہ اپنے گھر کو معاشی طور پہ کچھ مستحکم کرنے کا فیصلہ بھی تو اس نے اس وقت درپیش مسائل کو دیکھتے ہوئے کیا ہے تو اب اس سب میں بچوں، طالبات اور شوہر کے ساتھ خوش مزاجی سے پیش نہ آنا مسئلے کا حل نہیں ہے ۔ ان سب کو تو مائرہ کی طرف سے ملنے والی بھرپور توجہ کی عادت تھی۔ سو اس نے اپنے روئیے پہ غور کرنا شروع کیا کہ کیسے نامساعد حالات میں اپنی شخصیت کی خوبصورتی کا قائم و دائم رکھنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بظاہر تو درج بالا عام سے واقعات محسوس ہوتے ہیں لیکن یہ اس بات کے عکاس ہیں کہ خود مشکل حالات کا سامنا کرتے ہوئے بھی اپنے آس پاس کے لوگوں کو آسانیاں دی جا سکتی ہیں، ان کے چہروں پہ مسکراہٹ بکھیری جا سکتی ہے ۔
۔
۔
از: محمد اظہر حسن۔
(مظفر گڑھ جنوبی پنجاب)
میں اک کہانی لکھ رہا ہوں کہانی کہہ لیں،ناول کہہ لیں افسانہ یا پھر آب بیتی جس میں اک کردار اپنے ہونے اور نہ ہونے کی الجھن میں الجھا رونے کے ڈر سے قہقہے لگا رہا ہے، مجھے نہیں معلوم یہ کب مکمل ہوگی مگر یہ معلوم ہے مکمل ہونے کے بعد اسے پڑھنے والے پہلے صفحہ سے لے کر آخری صفحہ تک کہیں بات بات پر مسکرائیں گے، کہیں قہقہہ لگائیں گے، کہیں کسی سطر پر اظہارِ اختلاف کرتے ہوئے کہیں گے اس موقعہ پر اسے یہ نہیں یہ کرنا چاہئے تھا، کچھ حقائق آشکار ہونے پر اپنے ناخن چباتے ہوئے ذہن میں سوچیں گے اور کہیں گے "اَن بیلیو ایبل" ایسی صورت میں کوئی کردار زندہ کیسے رہ سکتا ہے۔۔۔؟؟؟ اور پھر آخری سطر پر "اَشک" بہائیں گے۔۔۔۔"
ان اشکوں کا اس کردار کیساتھ بڑا گہرا تعلق ہے، کچھ اشکوں کو دیکھ کر اس میں دوبارہ جینے کی خواہش اجاگر ہوگی جبکہ کچھ اشک اسے دوبارہ مرنے پر مجبور کر دیں گے۔۔۔۔
اس جینے، مرنے اور جی کر پھر مرنے کے سلسلے میں ہی اسے اس کے ہونے اور نہ ہونے والی الجھن کی سلجھن ملے گی۔۔۔۔
پھر وہ ان اشکوں کو اپنے لئے چُن لے گا جنہیں دیکھ کر جینے کی خواہش امڈتی تھی۔۔۔
اور بار بار مرنے پر مجبور کرنے والے اشکوں کو مسکرا کر مبارکباد دے کر کہے گا "تمہاری خواہش پوری ہوئی اور میری الجھن سلجھ گئ جھگڑا ختم کرتے ہیں مینے تم سب کو معاف کیا۔۔۔۔۔۔ مجھے بھی تم لوگ معاف کرو۔۔۔۔۔"
یوں وہ خاک میں مل کر ہمیشہ کیلئے امر ہو جائے گا۔۔۔۔
پل پل ہر لمحہ جینے کی خواہش اجاگر کرنے والوں کے ساتھ۔۔۔
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Category
Contact the organization
Website
Address
Abbottabad University Of Science And Technology
Abbottabad
No one is useless in this world who lightens the burdens of another.You have not lived today until y
ABBOTTABAD
Abbottabad, 22010
hey friendz move forward and explore ur self as u can :)
Urdu Nagar, Village Gojri Mera P/O Qalandarabad
Abbottabad, 22010
Ilama Iqbal Road Public Library Abbottabad
Abbottabad, 22010
This is public library people take the books to use in their home.