Bukhari Marriage bureau
Mailsi
بہاولپور سے بیٹی ٹیچر گریڈ 16 ایم فل سرائیکی عمر 30 سال کیلئے رشتہ درکار ھے رابطہ: 03337720693
بہاولپور سے بیٹی عمر 23 سال، آرائیں، پنجابی، تعلیم بی بی اے، کیلئے رشتہ درکار ھے۔ رابطہ: 03337720693
*بچوں کو جنسی تشدد سے محفوظ کیسے رکھیں؟؟؟*
📝نائلہ رفیق
(تقریباً سال ڈیڑھ سال پہلے پیاری دوست ماریہ انعام کی فرمائش پہ ایک واٹس ایپ گروپ کے لیے ھفتہ وار لکھا کرتی تھی. تب یہ بھی لکھا تھا دو حصوں میں. اس وقت مجھے اس کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے تو شیئر کر رہی ہوں. نائلہ)
بچوں کا جنسی استحصال ہمارے معاشرے کے گھمبیر ترین مسائل میں سے ایک بنتا جارہا ہے۔اس کی شدت اور وسعت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے"ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا" سوچنے سے آپ کے ہاں خدانخواستہ یہ زیادہ بھیانک ہو سکتا ہے۔لہذا بطور ایک ذمہ دار انسان اپنی آنکھیں کھلی رکھیے۔بچوں کی اس معاملے میں تربیت گود سے شروع کیجیے۔اول تو بچے کو خواہ بچہ ہو یا بچی، ہر گود کی عادت مت ڈالیے۔چاہے بستر یا جھولے میں رہنے کی عادت ڈال دیں لیکن ہر آئے گئے کی گود میں مت ڈالیں۔بچے ذرا بڑے ہو جائیں تو سب سے پہلے انہیں مزاحمت کرنا سکھائیں۔اجنبی کی گود،بو سے یا چمٹانے کی مزاحمت، جاننے والوں کے پاس سونے یا خوامخواہ لپٹا لینے پہ مزاحمت۔اس پہ آپکو سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مثلا آپ کی ساس یا والدہ،چاچو،ماموں کے حوالے سے فاصلہ رکھنے پہ خفا ہو سکتی ہیں۔اسے سلیقے سے ہینڈل کر لیں لیکن ہتھیار نہ ڈالیں۔ کوشش کریں کہ بچے کا ڈائپر خود بدلیں اور ڈائپر بدلنے یا لباس بدلنے کے عمل کو بچے کے لئے *اہم* بنائیں یعنی یہاں تو سب بیٹھے ہیں ہم دوسرے کمرے میں چلتے ہیں یا پھر بہن/بھائی کو ذرا کمرے سے باہر بھیج دوں پھر بدلوں گی وغیرہ اس بنیادی تربیت سےاس میں حیا اور پرائیوسی کا تصور پروان چڑھے گا۔اگر کوئی دوسرا بچہ یا بڑا اس کے سامنے لباس یا ڈائپر کی تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے تو بچے کو وہاں سے ہٹنے کا کہہ دیں تاکہ اسے معلوم رہے کہ دیکھنا بھی برا عمل ہے۔ جب بچہ سکول جانے کی عمر میں آ جائے تو مندرجہ ذیل عوامل پہ توجہ مرکوز کریں۔
👈🏻 بچے کو ٹوائلٹ کی ٹریننگ دیں، خود بیٹھنا اور دھونا سکھائیں
👈🏻اگریہ نہیں ہو سکا تو بچےکوسختی سے تنبیہ کریں کہ سکول میں کسی (male)مرد ملازم کے ساتھ ٹوائلٹ نہ جائے ،نہ دھونے کی اجازت دے
👈🏻سکول میں ایک سے زیادہ بار پرنسپل کو یا ٹیچر کویہ بات کہہ دیں کہ بچوں کو مرد ملازم کے ساتھ ٹوائلٹ نہ بھیجا جائے
👈🏻بچوں کو خود سکول لائیں اور لے جائیں اگر ممکن نہ ہو تو exclusive ٹرانسپورٹ کی بجائے زیادہ بچوں والی وین یا گاڑی میں بھیجیں ۔وین کے ڈرائیور سے خود ملیں اور کچھ دوسرے افراد سے بھی رائے لیں۔اس معاملے میں کسی معمولی سی مشکوک حرکت یا رائے کو بھی غیر اہم نہ سمجھیں۔
👈🏻بچے سے وقتا فوقتا پوچھتے رہیں کہ ڈرائیور سب کو اکٹھے اتارتاہے یا کسی کو زیادہ وقت بٹھا کر بھی رکھتا ہے یا واپسی پہ اتارنے کا کہہ کر ساتھ بٹھا لیتا ہے
👈🏻سکول کے چوکیدار سے کہیں کہ وہ بچوں کو اتارتے ،سوار کرتے وقت وین کے آس پاس موجود رہے
👈🏻ٹیوشن یا کوچنگ کے وقت گھر کا کوئی فرد موجود رہے۔
*یاد رکھیں* ‼
عموما بچے ہی بچوں کا استحصال کرتے ہیں۔یعنی ایک دو یا چند برس بڑے بچے چھوٹے بچوں کو کھیل کھیل میں ایسی حرکات سے آگاہ کرتے ہیں جو آگے چل کر کسی مسئلے یا المیے کا باعث بن سکتی ہیں۔نہ صرف لڑکے بلکہ لڑکیاں بھی خود سے چھوٹے بچوں کا استحصال کرتی ہیں
*لہذا*اگر بچہ کسی رشتہ دار یا پڑوسی،پڑوسن کے پاس بار بار جائے یا جانے کی ضد کرے تو فورا نوٹس لیں۔
👈🏻اگر بچہ کسی خاص فرد سے گھبرائے یا خوفزدہ ہو تو نظر انداز مت کریں۔
👈🏻بچوں کو کسی کے پاس اکیلا مت چھوڑیں۔
👈🏻بچے سکول یا وین بدلنے کی بات کریں تو اسے سنجیدگی سے لیں۔
👈🏻بچہ کسی دن بھی گبھرایا ہوا یا غیر معمولی ایکسائیٹڈ ہو تو نوٹس لیں اور وجہ جانیں۔
👈🏻بچے کو پرائیویٹ باڈی پارٹس کا تصور واضح طور پر سمجھائیں۔
👈🏻بچے کو سکھائیں کہ کسی سے کچھ لے کر نہ کھائے۔
👈🏻بچے کو واضح طور پر بات کرنا سکھائیں یعنی ایسی صورتحال میں جب وہ خدانخواستہ اجنبی جگہ پر ہوں اور کوئی انہیں چھونے یا اٹھانے کی کوشش کرےیا گھر کے اندر بھی تو وہ صرف رونے کی بجائے *بچاؤ بچاؤ* کی آواز لگائیں یا *میں اسے نہیں جانتا* یا یہ *میرے انکل نہیں ہیں* وغیرہ کہے۔تاکہ لوگ متوجہ ہوں۔
👈🏻جاننے والے افراد کی طرف سے کسی غیر معمولی حرکت پہ بچہ *انکل یہ کیا کر رہے ہیں* *میں امی کو بتاؤں گا* وغیرہ کہنا سکھا ئیں۔
👈🏻بچوں سے روزانہ کی سرگرمیاں لازما ڈسکس کریں۔انہیں توجہ اور اعتماد دیں۔
👈🏻 بچوں کو safe circle کا تصور دیں اس سرکل میں سکول،گھر،نانی،دادی کے گھر کا تصور دیں مگر حدود بھی سمجھائیں
👈🏻 ماں باپ بہن بھائیوں اور ٹیچرز کے علاوہ کوئی بھی قابلِ اعتماد متعلقہ شخص جو کسی خاص جگہ ان کے ساتھ موجود ہو گا اسے اس دن کے لیے سیف سرکل کا حصہ بنائیں
👈🏻بچوں کو بتائیں کہ سیف سرکل کے افراد قابل اعتماد ہیں اور کسی بھی مسئلے کی صورت میں فورا اپنے سیف سرکل کو انفارم کرنا ضروری ہے
👈🏻بچوں کو ہلکی پھلکی مارشل آرٹس یا کراٹے کی تربیت ضرور دلوائیں
👈🏻کسی انتہائی صورتحال میں انھیں دانتوں اور ناخنوں کا استعمال کرنے کے بارے میں آگاہی دیں
👈🏻اگر بچہ کسی کم ملنے والے رشتہ دار مثلا بیرون ملک سے آنے والے چچا یا ماموں کو اجنبی سمجھ کر شور مچائے تو بچے کا مذاق نہ اڑائیں ورنہ وہ کسی بھی اجنبی کو بھی یہ سوچ کر اٹھانے یا لپٹانے کی اجازت دے دے گا کہ یہ میرا عزیز ہو سکتا ہے بچے کو سمجھائیں کہ جب تک والدین آپ کو کسی اجنبی شخص کے بارے میں نہ بتائیں کہ یہ ہمارا رشتہ دار ہے اسے اجنبی ہی سمجھے
👈🏻دوران سفر ہو جانے والی دوستیوں سے بچوں کو "یہ خالہ ہیں" "یہ پھپھو ہیں" کہہ کر نہ ملوائیں بچہ ان بے حد وقتی چہروں کے کنفیوژن میں کسی اجنبی کے ہتھے چڑھ سکتا ہے
👈🏻بچی اور بچے دونوں کو حیا کا تصور دیں
👈🏻مرد رشتہ داروں کی خواہ وہ والد ہی کیوں نہ ہوں حدود مقرر کریں
👈🏻بچے کو اپنی غیر موجودگی میں کسی بھی رشتہ دار کے ہاں قیام کی اجازت نہ دیں
👈🏻جوائنٹ فیملی میں رہنے والے بچوں کو مناسب الفاظ میں شروع سے ہی محرم اور نا محرم کا تصور دیں
👈🏻میڈیا کے بے لگام گھوڑے کو اپنے گھر میں نہ دوڑائیں
👈🏻والدین خود بھی بچوں کے سامنے مناسب فاصلہ رکھیں
👈🏻ہو سکے تو بازار کی فارمی مرغی اور انڈوں کا استعمال کم کر دیں یہ بچوں میں قبل از بلوغت اور ہیجان کا بہت بڑا سبب ہیں
👈🏻اگر خدانخواستہ ان تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود بچہ استحصال کا شکار ہو جائے تو بچے کو اعتماد دیں اور ہرگز خاموش نہ رہیں....ایسے معاملات میں خاموشی جرم ہے
👈🏻لباس ساتر کا اہتمام کریں شرعی حدود کا خیال رکھیں محرم اور نا محرم کی تمیز روا رکھیں اپنے گھروں کو اشتہاروں یا ڈراموں کا سیٹ نہ سمجھیں پناہ گاہ بنائیں بچوں کو اذکار کی عادت ڈالیں خود بھی حفاظت کی دعائیں پڑھیں اللہ ہم سب کو اپنی عافیت اور امان کی چادر میں ڈھانپ لے. آمین
*بچوں کو جنسی تشدد سے کیسے بچائیں؟؟؟؟*
*حصہ دوم*
بچے جب ذرا سمجھداری کی عمر میں آ جاتے ہیں تو ان کی عادات ہی نہیں نفسیات بھی بدلتی ہے۔10،11 سال کی عمر کا بچہ توجہ کا مرکز بننا چاہتاہے۔ جبکہ یہی عمر ہے جس میں مائیں ذرا سکھ کا سانس لےکر بچے سے توجہ ہٹا لیتی ھیں۔اس عمر کے بچے نئی دوستیوں اور تجربات کے رسیا ہوتے ہیں۔ ایسے میں ذرا سی لاپرواہی یا عدم توجہی بچے یا بچی کو غلط ہاتھوں تک پہنچا سکتی ہے۔ اس عمر میں جذباتی،جسمانی یا جنسی استحصال کے امکانات اور مواقع بڑھ جاتے ہیں۔ 10 سے 20 سال کی عمر کی عمر
تک کےبچےجذباتی،expressive اور ایڈونچر پسند ہوتے ہیں۔ اس عمر اور اس کے بعد بھی ان کی حفاظت اور شخصیت کی مثبت تعمیر کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات معاون ہو سکتے ہیں۔
👈🏻 بچوں کی جسمانی سرگرمیاں جیسے فٹ بال کھیلنا، رسی کودنا، تیرنا، دوڑ لگانا وغیرہ مہیا کریں۔
👈🏻 سکول، کالج یا کوچنگ سنٹر واپسی پہ ان سے ہلکی پھلکی گفتگو لازما کریں، انھیں سارے دن کی سرگرمیاں بتانے پر اکسائیں۔
👈🏻 چھوٹی چھوٹی ذمہ داریاں ڈال کر انھیں گھدیلو امور میں انوالو اور فعال کریں۔ اس سے انکا ذہن گھر کی طرف مائل ہوگا۔
👈🏻 بچوں کو اعتماد دیں کہ اگر وہ کسی مشکل میں ہوں تو والدین سے بڑھ کر کوئی خیر خواہ نہیں ہو گا۔
👈🏻 ان پر اعتماد کا اظہار کریں لیکن اندھا اعتماد ہرگز نہ کریں۔
👈🏻 بچوں کے دوستوں کے والدین سے ملیں، بڑے بچوں کی دوستیوں کو خاندانی تعلقات میں بدلنا سود مند ہو گا۔لیکن اخلاقی اور مذہبی حدود پار نہ ہونے دیں۔
👈🏻 انھیں اچھا لٹریچر پڑھنے کی تر غیب دیں۔
👈🏻 وہ سارے امور مد نظر رکھیں جو چھوٹے اور کم عمر بچوں کو جنسی استحصال سے بچانے کے لیے کئے گئے ہیں۔
👈🏻 مگر دھیان رکھیں کہ ننھے بچوں کا استحصال کرنے والے عموما قریبی رشتہ دار اور جاننے والے افراد ہوتے ہیں مگر بڑے بچوں کا معاملہ اس کے بر عکس بھی ہو سکتا ہے لہذا ان کی گفتگو میں کسی انجان شخص کا ذکر آئے تو نوٹس لیں۔
👈🏻 جو چیز آپ نے انھیں خرید کر نہیں دی وہ انکے زیر استعمال ہو تو نوٹس لیں۔
👈🏻 انکے دوست آئیں تو چائے پانی کے بہانے ایک دو بار ضرور انھیں دیکھ لیں۔
👈🏻 گفتگو کا یکدم رک جانا یا انکا ہراساں ہو جانا غیر اہم نہ جانیں۔
👈🏻 لیکن بچے کی عزت نفس کا خیال رکھیں اور جو بھی قدم لینا ہے تو بہت عقلمندی سے لیں۔
👈🏻 یہ بات یاد رکھیں کہ بڑی عمر کے بچے کا استحصال عموما اس کی راہ ہموار کرنے کے بعد یا بلیک میلنگ کے ذریعے ہوتا ھے۔ ہر دو صورت میں وہ اسکا اقرار نہیں کرے گا لہذا براہ راست سوالات سے گریز کریں ورنہ وہ مزید محتاط ہو کر کوئی بڑا نقصان کر سکتا ہے۔
👈🏻 دو یا زیادہ بچوں یا بچیوں کو ایک کمرہ دیں لیکن سنگل یا ڈبل بیڈ پر اکٹھے سلانے کی بجائے بنکر لے دیں ۔ یہ اوپر نیچے باہم متصل بیڈ ہوتے ہیں کم جگہ میں ذاتی بستر کا بہترین طریقہ ہے۔
👈🏻 اول تو بچوں کو ذاتی موبائل نہ ہی دیں تو بہتر ہے لیکن اگر ضروری ہےتو یہ اصول بنا لیں فون ڈائیننگ ٹیبل یا کسی بھی ایسی جگہ رہے گا جہاں آپ کی نظر میں رہے۔
👈🏻بچہ فون پر پاسورڈ نہ لگائے۔
👈🏻 بلا ضرورت میموری کارڈ فون سے نکال کر پاس نہ رکھے۔
👈🏻 انٹرنیٹ دروازہ کھلا رکھ کر استعمال کرے لیکن یہ سب نرمی اور محبت سے اپلائے کریں زبردستی غلط نتائج لاتی ہے۔
👈🏻 یاد رکھیں بڑے بچوں کا استحصال video,text یا تصویروں اور graphics سے شروع ہو سکتا ہے۔
👈🏻 بچوں کے رحجانات کا گہری نظر سے جائزہ لیں۔
👈🏻 کوئی مسئلہ نوٹس میں آئے تو فوراً کسی قابل بھروسہ فرد سے مشورہ کر کے تدارک کا عمل شروع کر دیں۔
👈🏻 بچوں سے اخلاقیات پر گفتگو کریں۔ بچوں اور بچیوں کو اکیلے گلی میں کھیلنے ہر گز نہ بھیجیں چاہے گلی کے مختلف افراد بچوں کی نگرانی کی باری لگا لیں مگر نگرانی ضرور کریں.
بچوں کو اکیلے بازار بھیجنے سے گریز کریں بالخصوص ان اوقات میں جب گلیاں سنسان ہوتی ہیں.
👈🏻 *سب سے اہم بات یہ کہ بچوں کی شادیاں بر وقت کر دیں۔شادی کو بچے کی ذمہ داری نہیں بننا چاہیے۔اپنے وسائل میں رہتے ہوئے یہ ذمہ داری پوری کریں۔ یاد رکھیں یہ معاشرے کے سیکڑوں مسائل کا یک نکاتی حل ہے۔*
🥀🍃🥀🍃🥀🍃🥀🍃🥀🍃🥀
قائد اعظم محمد علی جناح
بہاولپور سے بیٹی سید، شیعہ، بی اے، کیلئے برسرِ روزگار سید شیعہ لڑکے کا رشتہ درکار ھے۔ صرف والدین رابطہ کریں: 03007728693
17 رمضان المبارک : غزوہِ بدر کا دن ۔ یوم فرقان
بدر مدینہ منورہ سے مکہ کی جانب تقریباًاسی میل کے فاصلے پر واقع ایک چھوٹی سی آبادی ہے۔ یہاں چند بدووں کے گھر اور پانی کے چشمے یا کنوئیں تھے۔ مکہ معظمہ سے بدر کا فاصلہ جانب شمال تقریباً سوا دو سو میل تھا۔ اس میدان میں تاریخ انسانی کی سب سے معروف جنگ لڑی گئی جسے قرآن مجید نے فیصلہ کن معرکہ قرار دیا۔ جب حضور اکرم میدان بدر میں پہنچے تو آپ نے ایک مقام پر خیمے لگانے کا ارادہ فرمایا۔ اس موقع پر آپ کے 33سالہ صحابی حضرت حباب بن المنذر نے عرض کیا: ”یارسول اﷲ کیا یہ حکم ربانی ہے یا یہ آپ کا حتمی فیصلہ ہے؟ اگر ایسا ہے تو تاب مجال نہیں‘ لیکن اگر ایسا نہیں تو میں عرض کرتا ہوں کہ یہاں خیمے لگانے کے بجائے اس جگہ خیمے لگائے جائیں جہاں بدر کے کنوئیں ہیں۔“حضور اکرم نے فرمایا کہ ”یہ میری رائے ہے اور جنگ میں تو چالیں چلی جاتی ہیں۔“
حضرت حبابؓ نے عرض کیا:”ایک تو پانی پر ہمارا قبضہ ہوگا اور دشمن کی رسائی وہاں تک نہ ہوسکے گی۔ نیز اگر بارش ہوگئی تو وہ جگہ اونچی ہے لہٰذا خشک رہے گی اور یہ جگہ نیچی ہے جو دلدل بن جائے گی“۔آنحضور نے ان کے دلائل سن کر ان کی بہت تعریف کی اور ان کی رائے کے مطابق خیمے لگوائے۔ اسی موقع پر نبی پاک نے حضرت حبابؓ کو ذولرّای (صاحب الرائے) کا لقب عطا فرمایا تھا۔
جنگ بدر میں اہل ایمان کے لےے بے شمار سبق ہیں۔ مندرجہ بالا واقعہ سے اسلام میں مشورے کی اہمیت اور اس کے آداب کا پتہ چلتا ہے۔ اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ مشورہ میں خیر اور بھلائی ہوتی ہے۔ حضور پاک نے ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ جس نے مشورہ کرلیا وہ شرمسار نہ ہوگا۔ دوسرا یہ معلوم ہوا کہ مشورہ دینے والا کوئی بھی ہو صاحب امر کو اس کے مبنی بر صواب ہونے کی صورت میں اپنی رائے سے رجوع کر لینا چاہےے۔ خاتم المرسلین سے بڑا مرتبہ کس کا ہے؟ آپ نے اپنی رائے تبدیل کر کے امت کو ایک عظیم درس سکھایا ہے۔ تیسری بات جو نہایت اہم ہے یہ معلوم ہوئی کہ مشورہ دینے والا جب کسی رائے کا اظہار کرے تو وہ محض خواہش ہی نہ ہونی چاہےے‘ بلکہ اس کے ساتھ دلیل بھی ہونی چاہےے کہ وہ یہ مشورہ کس بنیاد پر دے رہا ہے۔
جنگ ِبدر کے دوران عملاً یہی ہوا کہ بارش ہوگئی اور قریش کے خیموں کی جانب پانی جمع ہوجانے سے دلدل سی بن گئی۔ قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے اس کا ذکر یوں فرمایا ہے: ”اس وقت کو یاد کرو جب اﷲ آسمان سے تمھارے اوپر پانی نازل کر رہا تھا تاکہ تمھیں پاک کرے اور تم سے شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست دور کرے اور تمھاری ہمت بندھائے اور اس کے ذریعے سے تمھارے قدم جمادے۔ “(سورہ الانفال آیت ۱۱)
حضرت سعد بن معاذؓ نے مشورہ دیا کہ حضور اکرم کے لےے ایک نسبتاً بلند اور محفوظ مقام پر عریش (کمان پوسٹ) بنا دی جائے‘ چنانچہ اس مشورے کے مطابق حضرت سعد بن معاذؓ نے خود یہ عریش تیار کرایا اور حضور اس میں جلوہ افروز ہوئے۔ اس عریش میں حضور اکرم نے یوم بدر سے پہلی شب جس گریہ و زاری سے بارگاہ ایزدی میں دعا کی اس کا تذکرہ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں تفصیل سے ملتا ہے۔ عریش کی تجویز اور تیاری پر نبی اکرم نے رئیس اوس سیدنا سعد بن معاذؓ کی بہت تعریف فرمائی اور ان کے حق میں دعا کی۔ اس موقع پر حضور اکرم نے نصرت اور فتح کی بشارت دی تھی۔ اور مسلمانوں کو اس کا یقین بھی تھا‘ مگر اس کے باوجود حزم و احتیاط کا ہر پہلو صحابہ کرامؓ نے ملحوظ رکھا تھا اور جنگ کی حالت میں یہی حکم ربانی ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق پوری احتیاط اور تیاری کا اہتمام کیا جائے۔ (سورہ انفال آیت ۶۰)
حضرت سعد بن معاذؓ نے عریش کے قریب تیز رفتار اونٹنیوں کا بھی انتظام کر رکھا تھا۔ ان کے پیش نظر یہ تھا کہ فتح کی صورت میں اہل مدینہ کو جلد از جلد خوشخبری سنا دی جائے اور اگر خدانخواستہ جنگ کا پانسہ پلٹ جائے تو حضور اکرم کو بحفاظت مدینہ منورہ پہنچایا جائے۔ حضور اکرم نے حضرت سعدؓ کو دعا دی اور مسکراتے ہوئے فرمایا: ”اے سعد اﷲ تعالیٰ تمھارے لےے اچھا ہی فیصلہ کرے گا۔ “یعنی فتح و کامیابی سے ہمکنار فرمائے گا۔ پھر حضور اکرم نے میدان بدر میں ایک چکر لگایا۔ آپ کے دست مبارک میں ایک نیزہ تھا۔ آپ نے نیزے سے میدان کے مختلف مقامات پر نشان لگائے اور فرمایا: ”یہاں ابوجہل کل قتل ہو جائے گا‘ یہاں فلاںسردارقتل ہوگا….“ یہ پیشین گوئی حضرت انس بن مالکؓ کی روایت کے مطابق یوں پوری ہوئی کہ نامزد سرداران قریش میں سے کوئی بھی بالشت بھر ادھر ادھر نہ تھا۔ سبھی اپنے اپنے متعین مقتل ہی پر قتل ہوئے۔
قریش کی فوجوں کی آمد سے قبل حضور اکرم اپنے ساتھیوں سمیت بدر پہنچ گئے تھے۔ ابوسفیان اپنا راستہ بدل کر مکہ کی جانب نکل گیا تھا۔ اس نے مکہ کے قرب و جوار سے ابوجہل کے نام پیغام بھی بھیجا کہ چونکہ کاروان تجارت بخیریت مکہ آگیا ہے اس لیے تم بھی واپس آجاو
¿‘ مگر ابوجہل قوت کے نشے میں بدمست تھا۔ وہ جگہ جگہ تقریریں کرتا رہا تھا کہ مدینہ اور اہل مدینہ کو تباہ و برباد کر کے لوٹے گا۔ راستے میں کئی مقامات پر اس سے مختلف قبائل کے سردار ملے اور اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ اس نے شکرےے کے ساتھ ان کی مدد لینے سے انکار کر دیا۔ اس کے نزدیک اس لشکر جرار کو کسی مزید مدد کی حاجت نہ تھی۔ بنو غفار کے علاقے سے قریش کا گزر ہوا تو رئیس قبیلہ خفاف بن ایماءالغفاری نے اپنے بیٹے کو ابوجہل کے پاس بھیجا۔ وہ اپنے ساتھ ضیافت کے جانور بھی لے کر گیا‘ تاکہ لشکر کی خدمت کی جاسکے۔ پھر اس نے اپنے والد کی طرف سے یہ پیغام پہنچایا کہ اگر ضرورت ہو تو اسلحہ اور جنگجو جوان حاضر ہیں۔ اس کے جواب میں ابوجہل نے کہا: اپنے باپ کو میرا سلام اور شکرےے کا پیغام دے دینا۔ تم لوگوں نے صلہ رحمی کا حق ادا کر دیا ہے اور دوستی کو خوب نبھایا ہے۔میری عمر کی قسم! آج کوئی فوج ہمارے سامنے نہیں ٹھہر سکتی۔
قرآن مجید نے ابوجہل کا نقشہ یوں کھینچا ہے“ اور ان لوگوں کے رنگ ڈھنگ نہ اختیار کر و جو اپنے گھروں سے اتراتے اور لوگوں کو اپنی شان دکھاتے ہوئے نکلے اور جن کی روش یہ ہے کہ اﷲ کے راستے سے روکتے ہیں۔ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ اﷲ کی گرفت سے باہر نہیں ہے۔ ذرا خیال کرو اس وقت کا جبکہ شیطان نے ان لوگوں کے کرتوت ان کی نگاہوں میں خوشنما بنا کر دکھائے تھے اور ان سے کہا تھا کہ آج کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا اور یہ کہ میں تمھارے ساتھ ہوں۔“(سورہ انفال آیات ۴۷-۴۸)
قریش نے بدر کے میدان میں پہنچ کر عمیر بن وہب الجمحی کو بھیجا کہ وہ مسلمانوں کی تعداد کا اندازہ لگائے۔ اس نے گھوڑے پر سوار ہر کر اسلامی لشکر کے گرد چکر لگایا اور آکر بتایا کہ تین سو کے لگ بھگ تعداد ہے۔ پھر اس نے مسلمانوں کی جرات و ہمت کا جو نقشہ کھینچا وہ ناقابل فراموش ہے۔ اس نے کہا کہ یثرب کے اونٹ تمھارے لےے موت کا پیغام اٹھائے ہوئے یہاں پہنچے ہیں۔ ان لوگوں میں سے کوئی شخص زندگی سے محبت کرنے والا نظر نہیں آتا۔ وہ مرنے اور مارنے کے لےے ہی گھروں سے نکلے ہیں۔
عمیر بن وہب کی باتوں سے کئی قریشی سرداروں کے حوصلے پست ہوئے۔ حکیم بن حزام نے عتبہ بن ربیعہ کے پاس جاکر کہا: ”اے ابوالولید بخدا تمھارا قوم کے درمیان ایک عظیم مقام ہے۔ اس موقع پر تم کوئی ایسا کام کر جاو جس کی بدولت ہمیشہ تمھارا نام زندہ ہوجائے“۔
عتبہ نے پوچھا : ”تمھارا مطلب کیا ہے؟“ حکیم نے جواب دیا: ” مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہونے والا عمرو بن الحضرمی تمھارا حلیف تھا۔ تم اس کا خون بہا معاف کر دو اور اپنے دوست ابوالحکم (ابو جہل) کو بھی سمجھاو کہ ہم خونریزی کے بجائے واپس مکہ چلے جائیں۔ ابوجہل کے سوا کوئی بھی اس معاملے میں تمھاری مخالفت نہیں کر سکتا۔“
عتبہ بلاشبہ سمجھدار اور حلیم الطبع انسان تھا۔ یہ بات اس کی سمجھ میں آگئی اور اس نے اپنے گردونواح میں جمع نوجوانوں کو مخاطب کر کے کہا:”اے اہل قریش محمد اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ لڑائی کوئی پسندیدہ اور خوشگوار عمل نہیں ہوگا۔ تمھیں اپنے چچا یا ماموں‘ بھانجے یا بھتیجے‘ بلکہ ممکن ہے باپ یا بیٹے پر تلوار اٹھانی پڑے۔ میرا خیال ہے چلو ہم واپس چلتے ہیں۔اگر محمد دوسرے قبائل سے نبرد آزما ہوا تو وہ اس کا کام تمام کر دینگے اور تم خوش ہوجاو
¿ گے اور اگر اسے فتح مل گئی تو بہر حال وہ تمھارا ہی بھائی بھتیجا ہے۔“
حکیم بن حزام ابوجہل کے پاس گیا اورکہا کہ عتبہ نے اسے بھیجا ہے کہ لڑائی سے اجتناب کیا جائے۔ ابوجہل یہ بات سن کر غصے سے دہاڑا اور کہا۔ خدا کی قسم عتبہ پر محمد کا جادو کام کر گیا ہے۔ بخدا عتبہ اپنے بیٹے ابوحذیفہ کی وجہ سے بھی متزلزل ہوگیا ہے جو محمد کے ساتھ ہے۔ ہم تو اب رب کعبہ کا نام لے کر اس گروہ کا خاتمہ کےے بغیر یہاں سے نہیں ٹلیں گے۔“ پس اگلے دن معرکہ ہوا اور ابوجہل سمیت 70 کفار تہہ تیغ ہوئے اور ستر جنگی قیدی بنا لیے گئے۔
میلسی سے زمیندار گھرانے کی اعلیٰ تعلیم یافتہ 28 سالہ طلاق یافتہ لڑکی کے لیئے ھم پلہ رشتہ درکار ھے رابطہ: 03337720693
رزق کی خاطر اولاد کو قتل نہ کرو، اللّٰہ تعالیٰ تمہیں بھی رزق دیتا ھے اور ان کو بھی
نکاح میری سنت ھے۔ (حدیث شریف)
نکاح اور ولیمہ
Click here to claim your Sponsored Listing.
Category
Contact the business
Telephone
Website
Address
Bahawalpur
63100
Bahawalpur
جانور کی خریوفروخت کے لیے رابطہ کریں۔۔ ہمارے پاس چولست?
Chak 6 BC
Bahawalpur, 63100
This page is about chick's poultry, Deal in:All kinds of poultry like Chick's,Feed, Vaccine,
Bahawalpur, 63100
The main purpose of Z&A poultry farm is to provide Organic eggs to our community.
Gullan Hatii Po Box Rehmana Bad Hazari Wala.
Bahawalpur, 63100
Pure Austrolob The Australorp is a chicken breed of Australian origin, developed as a utility bree
Opposite Islamia University Bahawalpur Baghdad Campus Hasilpur Road
Bahawalpur, 63100
Milk, Yogurt, Sohn Halwa, Khoya, Barfi, Jalebi Our Specialty is Purity.