Eyeopner
Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Eyeopner, Journalist, The Islamia universty of, Bahawalpur.
نواسے کی یونیورسٹی کی ڈگری تقریب میں پورے خاندان کی شرکت بھی عوام کے پیسوں پر۔۔۔کوئی ملتان کا غریب بلوں کی وجہ سے جان دے رہا ہوگا یہ یہاں اس کے خون سے ٹکٹ خرید کر پتہ نہیں فیسیں بھی دے دیتے ہیں۔
معاشرے کی ایک تلخ حقیقت۔۔۔۔
بیوی غیر مرد کی طرف کب اور کیوں جاتی ہے۔
اگر کسی کو پوسٹ بڑی لگے تو میری طرف سے معذرت
کروٹ بدل کے آنکھیں بند کیے ہی اس نے تکیے کے نیچے سے فون نکالاجو مسلسل وائیبریٹ کر رہا تھا۔ آنکھ کھولی اور فون کی سکرین پہ بلنک کرتا ہوا جانا پہچانا نمبر دیکھ کے اسے کوفت ہوئی۔ ” اس وقت اسے کیا مصیبت پڑی ہے” کچھ بڑبڑاتے اس نے کال کاٹ دی اور میسج ٹائپ کیا” اس وقت بات نہیں کر سکتا، وہ ساتھ سو رہی ہے”میسج سینڈ کرکے کے وہ جواب کا انتظار کرنے لگا۔ فون کی سکرین لائیٹ جو آف ہوگئی تھی میسج ریپلائی آنے پہ آن ہوئی۔ اس نے جلدی سے میسج دیکھا اور ساتھ ہی اپنے بستر سے اٹھ بیٹھا۔ بنا کوئی آواز کیے بالکل آہستہ سے وہ بستر سے اٹھا اور اندھیرے میں ہی چپل ڈھونڈنے لگا۔ چپل ملی تو اس نے آگے بڑھ کے دھیرے سے دروازہ کھولا ۔
باہر کی لائیٹ آن تھی ، دروازہ کھلنے سے کمرے میں ہلکی سی روشنی ہوئی اس نے مڑ کے پیچھے دیکھا کہ کہیں وہ جاگ نہ گئی ہوئی، پر جب بستر پہ نظر پڑی تو بستر خالی تھا۔ “یہ کہاں چلی گئی؟” اسکے دماغ نے کئی سوالوں کو جنم دیا۔ واش روم کا دروازہ بھی کھلا تھا۔ شش وپنج میں مبتلا وہ کیچن کی طرف گیا، وہاں کی لائٹ بھی آف تھی۔ اگلے دس منٹ میں اس نے پورا گھر چھان لیا لیکن اسکا کچھ پتا نہ چلا۔ آواز دے کے پکارنے سے اجتناب کیا کہ کہیں ساتھ والے کمرے میں سوئی ماں جی کی آنکھ نہ کھل جائے۔ حیرانی ایک دم سے پریشانی اور غصے میں بدلی۔ اسکا فون دوبارہ وائیبریٹ کرنے لگا، بڑی بے دلی سے کال کاٹ کے وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ سوچوں میں گم ماں کی بات اسکے خیالوں میں گونجی”بیٹا ! آجکل تیری بیوی کے لچھن مجھے ٹھیک نہیں لگ رہے، گھنٹوں کمرے کا دروازہ بند کرکے پتا نہیں کس سے فون پہ لگی رہیتی ہے” ابھی کچھ دن پہلے ہی ماں جی نے اپنے شک کا اظہار کیا تھا، لیکن اس نے اس بات پہ دھیان نہ دیا۔ کہیں چھت پہ نہ ہو، دماغ میں سوالوں کا انبار لیے وہ سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ ابھی اسکا پاؤں آخری سیڑھی پہ نہیں پڑا تھا ، ایک سرگوشی سن کے وہ وہیں رک گیا۔ ۔
“میں اسکی بیوی تو بن گئی لیکن اسے مجھ میں دلچسپی نام کی نہیں ہے، ہمارے بیچ زور زبردستی کا رشتہ چل رہا ہے ۔ جب پہلی بار میں نے انکے فون میں کسی لڑکی کے غیر اخلاقی میسج پڑھے تو بہت روئی ۔ دل کیا ان سے کہوں پر ڈر گئی کہ کہیں غصے میں آکے طلاق ہی نہ دے دیں ۔ جب میں سو جاتی تو وہ گھنٹوں کسی سے فون پہ باتیں کرتے رہیتے ۔ میں اپنے آپکو اندر سے کھاتی رہی۔ لیکن کتنی دیر برداشت کرتی۔ کوئی تو ہو جو میرے دل کی بات سنے۔ پر جب سے تم میری زندگی میں آئے ہو تو لگتا ہے کوئی اپنا ہے ، جو پرواہ کرتا ہے۔ میں جب بھی پریشان ہوتی ہوں تو تمہیں یاد کرتی ہوں ۔ تم سے بات کرکے دل کا بوجھ ہلکا ہوجو جاتا ہے، وہ اگر اپنے دل کی باتیں کسی اور سے کرتے ہیں تو میرے دل کی باتیں سننے کے لیے میرے پاس تم ہو”۔
سرگوشیاں ابھی جاری تھیں لیکن اس کی برداشت کم پڑ گئی۔ غیرت کے سمندر میں طوفان اٹھا اور اس نے قدم آگے بڑھایا کہ آج تو اسے اس دھوکے کی سزا مل کے رہے گی۔ اتنے میں اسکے فون نے پھر سے وائبریٹ کرنا شروع کیا۔ سارے جذبات ایک دم ڈھنڈے پڑ گئے۔ ایک پل کے لیے جیسے سب کچھ رک گیا ہو۔ جیسے کسی نے اسکی زبان جکڑ لی۔ پاؤں آگے نہ بڑھ پائے۔ وہ کسی شکست خوردہ انسان کی طرح واپس سیڑھیاں اترنے لگا ۔ سرگوشیاں اب بھی کانوں میں پڑتی رہیں جو کلیجہ چھلنی کررہی تھیں۔ اپنا فون پاور آف کرکے وہ بستر پہ لیٹ گیا۔ آج تو آرام دہ بستر پہ بھی کانٹے چبھ رہے تھے۔ جس گناہ کا مرتکب وہ خود تھا کیسے کسی اور کو اسی گناہ کی سزا دیتا۔ اگر کوئی سزاوار تھا تو وہ خود تھا۔ “کبھی کبھی ہم اس بات سے انجان ہوتے ہیں کہ ہماری کی ہوئی چھوٹی سی ایک غلطی کیسے بھیانک طوفان کا پیش خیمہ بنتی ہے
لمحہ فکریہ!!!!!
تحریر:محمداظہرشیخ
ایک سروے کے مطابق
2018 سے لے کر 2022 تک صرف پاکستان میں دولاکھ 23 ھزار لڑکیاں فیس بک سے محبت کر کیمردوں کی ھوس کا نشانہ بنیں
اور تین لاکھ سے زیادہ لڑکیوں نے اپنی نیوڈ پکس اور ویڈیو لڑکوں کو دیں
3 ھزار لڑکیاں ایسی ھیں جو محبت کے نام پہ ملنیگیئں اور لڑکوں نے اللہ کی قسم, ماما کی قسم, ڈیلیٹ کردوں گا کا ڈرامہ کر کے پورن ویڈیو بنائی اور بعد میں ان کو اس ویڈیو کے زریعے بلیک میل کیا.
بارہا اپنی ھوس پوری کی پیسے لیے اور دوستوں کی بھی ھوس پوری کروائی .
کتنی ھی لڑکیوں نے خودکشی کی.
کتنی ھی لڑکیوں کی ویڈیو اب بھی مختلف ویب سائٹ پہ گردش کررھی ھیں.
کتنے ایسے کیس ھیں جو رپورٹ ہی نھیں ھوتے اور ماں باپ اپنی عزت کے مارے اپنی بیٹیوں کو مار دیتے ھیں
کہتے ھیں انسان اپنی غلطیوں سے سیکھتا ھے اور دوسروں کی غلطیوں سے بھی سیکھتا ھے
مگر افسوس یہ ھے کہ اتنے کیس رپورٹ ھونے کے باوجود بھی لڑکیوں کو ھوش نھیں آیا
وہ مسلسل اپنی عزت نیلام کرنے پہ تلی ھوئی ھیں
صرف اک جملے کے آسرے پہ کہ "میرے والا ایسا نھیں" اور جب سب کچھ لٹا بیٹھتی ھیں تو سمجھ آتی ھے کہ میرے والا بھی ایسا ھی گھٹیا ھے.
سوچنے کی بات یہ ھے کہ
اگر میرے والا یا تیرے والا اتنا ھی اچھا ھوتا تو میرا رب نامحرم رشتے حلال قرار دیتا جب دیور, جیٹھ, سارے کزن, خالو, پھوپھا جیسے رشتے جن کو آپ جانتی ھیں ان کو نامحرم قرار کیوں دیتا؟
تو آپ سوشل میڈیا پہ گردش کرتے مردوں پہ کیسے بھروسہ کرسکتی ھیں؟
اس پر لکھنے کو بھت کچھ ھے مگر فائدہ کوئی نھیں, کیوں کہ اب لڑکیوں کی بڑی تعداد سوشل میڈیا یوز کررھی ھے
آپ کو بھی حالات کی سنگینی کا اچھے سے علم ھے.
اگر آپ کسی کو اچھا سمجھ کے دوستی یا محبت کررھی ھیں تو یہ آپ کی زمے داری ھے .
اور مرد کی نفسانی خواھش کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ھے کہ اس کو چار شادیون تک کی بیک وقت اجازت ھے
مرد کے مقابلے میں عورت کی زمے داری زیادہ ھے کہ وہ اپنے آپ کو بچا کے رکھے
تو یاد رکھیں چاھے سوشل میڈیا ھو یا ریئل لائف آپ سب ھی محفوظ ھیں جب تک کہ آپ کے لہجے میں کسی نامحرم کے لیے کوئی نرمی نہ ہو.
اپنے آپ پر احسان کرو اپنا آپ بچالو . اللہ پاک ہماری بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں کی حفاظت فرماۓ۔۔۔
آمین
ٹھری میرواہ کے جوگی کی بیٹی ایم بی بی ایس ڈاکٹر بن گئیں، ساری زندگی جوگی بن کر گزارنے والے ہوشو جوگی کی بیٹی ہمدان جوگی نے اپنی یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرکے MBBS کی ڈگری حاصل کر لی، میرے والدین نے خود بھوکے رہ کر مجھے پڑھایا، غربت کیا ہوتی ہے اس کا مجھے بخوبی اندازہ ہے، غریب عوام کی خدمت میرا مشن ہے،
ہمدان جوگی
❣️❣️
یہ ایک لڑکی کی کہانی ہے جس کی عمر 34 سال ہے.. اس کی شادی کو دیر ہو چکی ہے، 34 سال کی عمر میں بھی اس کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ اور پھر آخر کار کوئی سامنے آیا، وہ یقیناً بہت بہت خوش تھی، اس کے لیے یہ ایک سنہری موقع تھا (آخری موقع نہ کہنا)۔ تو وہ اس آدمی میں بہت دلچسپی لیتی رہی
بہت خوش... منگیتر اس کی عمر کے قریب تھا، اس لیے وہ دونوں شادی کی جلدی میں تھے، انہوں نے شادی کی تاریخ طے کی، لیکن شادی کا دن جتنا قریب آتا، منگیتر کی ماں اتنی ہی زیادہ ناخوش اور مایوس دکھائی دے رہے تھے...
پھر شادی کی تاریخ سے عین پہلے منگیتر کی ماں نے ملاقات کا اہتمام کرنے کو کہا۔
وہ چاہتی تھی کہ سب موجود ہوں:
وہ، اس کا بیٹا، مستقبل کی دلہن اور اس کی ماں۔ اس نے سب کو ایک کمرے میں بٹھا دیا۔ پھر اس نے ایک ایسا کام کیا جس نے دل توڑ دیا۔ جب وہ سب کمرے میں بیٹھے تھے،
اس نے ہونے والی دلہن سے کہا "میں نے آپ کی شناخت ابھی تک نہیں دیکھی... کیا آپ مجھے دکھا سکتے ہیں؟"
لڑکی سمجھ نہیں پائی... اس نے ماں سے پوچھا کوئی مسئلہ ہے؟"
منگیتر کی ماں نے اس سے کہا "میں اسے دیکھنا چاہتی ہوں"
لڑکی نے اسے اپنی شناخت دی۔ منگیتر کی ماں نے تاریخ پیدائش پڑھی۔
اس پر نشان لگایا، پھر اس نے کہا "اولالا کیا آپ کی عمر 34 سال ہے؟ نہیں... نہیں... نہیں... مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ اتنے بوڑھے ہو گئے ہیں۔
میں چاہوں گی کہ میرا بیٹا 5 سال سے چھوٹی بیٹی سے شادی کرے، اور 34 سالہ عورت سے نہیں، کیونکہ چھوٹے بچے پیدا کرنا چاہتی ہوں...
مجھے یقین نہیں ہے کہ آپ اپنی عمر میں حاملہ ہو جائیں گی ' پھر وہ اپنے بیٹے کو لے کر چلی گئیں...
اس کا بیٹا ایک لفظ کہے بغیر ماں کے پیچھے چلا گیا۔
₩اپنے والدین کی بات ماننے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ناانصافی کو قبول کریں یا دل توڑنے کے لیے قبول کریں، بیٹے کو اس سے بہتر ردعمل کی ضرورت تھی
اس حالت میں۔ لیکن وہ اپنی ماں کے پیچھے چلا، اور وہ چلے گئے۔ غریب لڑکی ڈپریشن میں داخل ہو گئی ہے۔
سنگین ڈپریشن. وہ کافی دنوں سے ڈپریشن کا شکار ہے،
پھر اس نے عمرہ پر جانے کا فیصلہ کیا، چنانچہ وہ عمرہ کرنے چلی گئیں۔ وہ بہت روئی، بہت دعائیں کیں،
اس نے قرآن مجید کی اس آیت کو بہت دہرایا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ {اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو}
سورہ 39-الزمر: گروہ
پھر وہ عمرہ سے فارغ ہوگئ اور گھر چلی گئی۔
جب وہ جہاز سے اتر رہی تھی، پیکنگ کرنا چاہتی تھی، ایک آدمی اس کی مدد کے لیے آیا، اسے لگا کہ وہ بہت شائستہ ہے، اس نے اپنا بیگ اٹھایا، پھر چلی گئی۔ ہوائی اڈے سے باہر نکلتے ہوئے، اس نے اپنی بہن اور اس کی بہن کے شوہر کو پایا جو تھا
اس کے انتظار میں، وہ گاڑی میں بیٹھ گئی،
تب محترمہ بہن کے شوہر نے کہا "تھوڑا انتظار کرو، کیونکہ میرا ایک دوست اسی فلائٹ میں تھا، ہم اسے چھوڑ دیں گے" اور یہ دوست کون تھا؟
یہ وہ شخص تھا جس نے محترمہ کی سوٹ کیس میں مدد کی تھی، وہ گاڑی میں بیٹھا، ان سے ان کی جان پہچان ہوئی، کچھ ایک ڈیڑھ م ینے بعد ان کی شادی ہوگئی،
اور بڑی حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ ٹرپل سے حاملہ ہو گئی... 1 بچہ نہیں... جڑواں نہیں... بلکہ ایک ہی شاٹ میں 3!
اس نے انہیں الحسن۔ الحسین اور فاطمہ۔۔نام دیا
یہ لڑکی اپنی زندگی میں خوش تھی۔
لیکن ایک اور حیرت ہے جو میں نے نہیں بتائی... وہ شخص جس نے اسے چھوڑ دیا اس نے بھی شادی کر لی،
لیکن اب تک اس کے ہاں اولاد نہیں ہوئی...
اسے پتہ چلا کہ وہ جراثیم سے پاک ہے۔
: لوگوں کے دل مت توڑو، کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ بہترین بدلہ لینےوالا ہے،
اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوں۔
اللہ تعالیٰ ہی فضل عطا کرنے والا ہے اس کی شہرت اور نام ہمیشہ بلند رہے ان شاء اللہ آمین
تحریر:محمداظہرشیخ
1950 میں ہاورڈ یونیورسٹی میں ایک عجیب تجربہ ہوا. انہوں نے کچھ چوہوں کو پانی کے ادھ بھرے جار میں ڈال دیا. چوہوں نے ڈوبنے سے بچنے کیلئے ہاتھ پیر مارنے شروع کردئے. جو چوہا مایوس ہو کر ڈوبنے لگتا یہ اسے باہر نکال دیتے. ان کی اس بقا کی مشقت کا دورانیہ کتنا تھا.؟
یہ ایوریج پندرہ منٹ تھے. اس کے بعد مایوسی نے غلبہ پا کر ان کو ڈوبنے پر راضی کر لیا.
لیکن تجربہ یہاں ختم نہیں ہوا. انہوں نے کچھ دیر کا آرام دے کر چوہوں کو دوبارہ جار میں ڈال دیا. چوہوں نے دوبارہ بچنے کی کوشش شروع کردی. کیا آپ کو پتہ ہے. اس بار ان کی اس کوشش کا دورانیہ کیا تھا.؟
یہ 60 گھنٹے کی لگاتار کوشش تھی. پندرہ منٹ کے بعد مایوسی کا شکار ہوجانے والے چوہوں کو جار سے نکال دئے جانے کی اُمید نے اب ان کو ایک طویل دور کی ہمت دی. اُمید وہ مافوق الفطرت طاقت ہے جو ایک عام انسان کو طاقت کی وہ معراج دیتی ہے جس کے آگے منطق دلیل سب ہاتھ جوڑ دیتی ہیں.
تو اُمید کیا ہے.؟ اُمید آپ کے خوبصورت خواب ہیں. ان کو مایوسی کے اندھیروں میں گُم نہ ہونے دیں۔
محمّد اظہرشیخ
ایک عورت اور وکیل کی گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئیں، حادثہ اتنا زور دار تھا کہ دونوں گاڑیاں تقریبا تباہ ہںو گئیں۔
لیکن حیرت انگیز طور پر دونوں بالکل بچ گئے۔ باہر نکل کر وکیل نے عورت سے کہا: یقین نہیں آتا کہ ہںم دونوں کی گاڑیاں تباہ ہںو گئی ہیں اور ہںم دونوں بالکل خیریت سے ہیں ایسا لگتا ہںے کہ شاید قدرت کو ہںماری ملاقات مقصود تھی کہ ہںم دونوں دوست بن جائیں...
مجھے بھی ایسا ہںی لگتا ہںے کہ شاید قدرت ہںمیں ملانا چاہتی تھی، عورت نے جواب دیا۔
وکیل نے کہا کہ ایک اور معجزہ دیکھو کہ میری گاڑی تو تباہ ہںو گئی ہںے لیکن اس میں رکھی شیمپئن کی بوتل بالکل محفوظ ہںے۔ چلو مل کر اس حادثاتی ملاقات کو انجوائے کرتے ہیں، وکیل نے بوتل عورت کے حوالے کرتے ہںوئے کہا...
عورت نے بوتل کھولی اور غٹا غٹ آدھی پی گئی اور پھر نشیلی آنکھوں سے وکیل کا جائزہ لیتے ہںوئے بوتل واپس وکیل کے حوالے کر دی، وکیل نے بوتل کا ڈھکن بند کیا اور بوتل عورت کی گاڑی کی ڈگی میں رکھ دی،
عورت نے حیرت سے پوچھا کیا آپ نہیں پیو گے؟
وکیل نے کندھے اچکاتے ہںوئے جواب دیا…
میں پولیس کا انتظار کر رہا ہںوں کہ آکر دیکھے کہ نشے میں گاڑی کون چلا رہا تھا !
انمول ہیرا۔۔۔۔۔۔
تحریر: محمد اظہر شیخ
ایک نوجوان تھا جس کی والدہ اس کی شادی سے دو ماہ قبل بیماری کی وجہ سے وفات پا گئی۔ اس نے اپنی شادی کی تاریخ ایک سال کے لیے مؤخر کر دی۔ شادی کے بعد وہ اپنے والد کو گھر میں اکیلا چھوڑ کر اپنی نئی زندگی گزارنے لگا کیونکہ اس کے والد کے علاوہ اس کا اور کوئی بہن بھائی نہیں تھا
پانچ سال سے زیادہ عرصہ تک وہ اپنی بیوی کے ساتھ اپنی نئی زندگی میں مگن رہا۔ وہ کبھی کبھار اپنے والد سے ملنے جاتا اور کبھی اس کی بیوی بھی اس کے ساتھ جاتی، لیکن کبھی وہ اپنے والد سے ملنے جاتا تو اس کی بیوی اپنے والدین کے گھر چلی جاتی۔ اس کی بیوی اسے مجبور کرتی کہ وہ اس کے والدین سے ملنے جائے، لیکن وہ اپنی بیوی کو مجبور نہیں کر پایا کہ وہ اس کے بیمار والد سے ملے۔
جب اس کا والد بیماری سے نڈھال ہو گیا تو بیٹے نے فیصلہ کیا کہ وہ اسے اپنے گھر لے آئے تاکہ وہ اس کی مکمل دیکھ بھال کر سکے۔ والد نے اس خیال کو قبول نہیں کیا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی بیوی کے سامنے وہ ایک ناپسندیدہ مہمان بنے۔ لیکن بیٹے کے اصرار پر والد نے اس کی بات مان لی اور اس کے گھر آ گیا۔
یہ بات اس کی بیوی کے دل پر بھاری تھی۔ وہ ایک ہی قسم کا کھانا پکاتی اور بیمار والد کے لیے کوئی الگ کھانا نہیں بناتی، اور اسے ان کے ساتھ ہی کھانے پر مجبور کرتی۔ وہ اس سے بدتمیزی سے پیش آتی اور اس کا شوہر اس بات پر الجھن میں پڑ جاتا کہ وہ اپنے والد کو راضی کرے یا اپنی بیوی کو۔
آخر کار، اس کی بیوی نے اسے مجبور کیا کہ وہ اپنے والد کی شادی کروا دے تاکہ کوئی اور اس کی دیکھ بھال کر سکے۔ جب بیٹے نے اس خیال کو اس کے والد کی عمر اور بیماری کی وجہ سے مسترد کر دیا، تو بات یہاں تک پہنچی کہ وہ اپنے والد کو ایک بزرگوں کے گھر لے جائیں گے تاکہ وہاں اس کی دیکھ بھال ہو سکے۔
بیٹا دل شکستہ ہو گیا جب اس نے اپنے والد کو بزرگوں کے گھر چھوڑا۔ ایک ہفتے بعد، اس نے اپنے والد سے ملنے کا فیصلہ کیا، لیکن وہاں پہنچ کر اس نے پایا کہ اس کا والد شدید ذہنی افسردگی کی وجہ سے وفات پا چکا ہے۔ اس نے اپنے بیٹے کے لیے ایک خط چھوڑا تھا جس میں لکھا تھا:
"میرے پیارے بیٹے، میں نے تمہیں اپنے آپ سے زیادہ محبت کی ہے۔ میری زندگی کے سب سے خوشگوار لمحات وہ تھے جب میں اپنے کام سے واپس آتا اور تمہارے لیے وہ کھلونا ٹرین یا مٹھائیاں لاتا جو تمہیں پسند تھیں۔ میری سب سے خوشگوار لمحات وہ تھے جب میں نے تمہیں تیرنا سکھایا، جب میں تمہیں اپنے کام پر لے گیا اور تم میرے کاغذات پھاڑ دیتے اور میں تمہاری مسکراہٹ دیکھتا۔
میری زندگی کے سب سے خوشگوار لمحات وہ تھے جب میں تمہیں اپنی جیب میں موجود ساری رقم دیتا تاکہ تم اپنی پسند کے کپڑے خرید سکو، اور میں خود اپنے پھٹے ہوئے جوتے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا رہا۔
میں تمہیں ملامت نہیں کر رہا، بلکہ میں تمہیں لکھ رہا ہوں اور میرے آنسو خود پر افسوس میں بہہ رہے ہیں۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میری زندگی کا اختتام تمہاری گود میں نہ ہو، اور تم میری آخری رسومات ادا نہ کرو۔
میں تم سے محبت کرتا ہوں اور اب بھی کرتا ہوں... تمہارا وفادار والد۔
اگر تمہاری شادی ایسی لڑکی سے ہو تو اس کے سامنے اپنے والدین کی قیمت پر کمزور نہ ہو۔ اور اگر تمہارا شوہر تمہیں اپنے خاندان سے دور کرتا ہے تو اس کے سامنے اپنے والدین کی قیمت پر کمزور نہ ہو۔
ہمیں قیمتی جواہرات کی قدر تب ہی آتی ہے جب ہم انہیں کھو دیتے ہیں۔ کتنا مشکل ہے جب آپ کسی کو پیغام دینا چاہتے ہیں اور وہ آپ کو سن نہیں سکتا، نہ کہ وہ آپ کو نظرانداز کر رہا ہو بلکہ اس لیے کہ وہ دنیا سے رخصت ہو چکا ہے۔
ہمارے محنت کو ضائع نہ کریں، آپ کے ساتھ ہم ترقی کرتے ہیں، آپ کے ساتھ ہم بڑے ہوتے ہیں، اور آپ کے ساتھ ہماری خوشی مکمل ہوتی ہے۔ ان ذہین عقلوں کا شکریہ جو ہمارے ساتھ ہیں۔"
پاکستان کے طویل القامت شخص ضیاء رشید طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان کے طویل القامت شخص ضیا رشید کئی عرصے سے گھٹنوں کی بیماری میں مبتلا تھے تاہم آج ان کا انتقال ہوگیا ، مرحوم کی نماز جنازہ وہاڑی میں ادا کی گئی جس میں شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی ـ
ضیا رشیدکی عمر26 سال اور قد 8 فٹ 3 انچ تھا، دنیا کے دوسرے طویل القامت شخص کا اعزاز ضیا رشید کے حصے میں آیا تھا۔
#
کیا آپ ایک حقیقت جانتے ہیں؟
تحریر: محمد اظہر شیخ
پورے پاکستان سے جتنے بھی سیاح سکردو آتے ہیں اُن میں سے صرف 10% لوگ بلتستان کی خوبصورت جگہیں وزٹ کرتے ہیں باقی 90% لوگ صرف کچورا اور شنگریلا سے ہو کر واپس چلے جاتے ہیں۔ جو جگہیں سیاح دیکھے بغیر واپس جاتے ہیں اُن میں سے سب سے خوبصورت جگہیں
وادی تھلے ضلع گانچھے
ننگما ویلی ضلع گانچھے
ہوشے ویلی ضلع گانچھے
وادی ارندو ضلع شگر
بلامیک تھورسے روندو
باقی قراقرم کے وہ پہاڑی رینج جن کی وجہ سے پوری دنیا میں پاکستان کا نام جانا جاتا ہے ۔
وسط قراقرم کی تمام بلند پہاڑی چوٹیاں ضلع گانچھے اور شگر میں واقع ہے۔ غیر ملکی سیاح جو ایڈوینچر کے شوقین ہیں وہ سیدھا گانچھے کے ہوشے ویلی اور شگر بلترو کا رخ کرتے ہیں۔
شگر اور گانچھے کے ٹریکنگ پوائنٹس:
کنکورڈیا
کے ٹو بیس کیمپ
گونڈوگورو پاس
کے سکس، کے سیون بیس کیمپ ہوشے۔
یہ بھی پاکستان ہے۔🇵🇰
ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل پیر محل کا گاؤں چک نمبر 755 گ ب کے پاس سے گزرتا ہوا نجی کمپنی کا ٹریلر ہائی وے پر الٹ گیا۔ گاؤں والوں نے متعلقہ افراد کا بھرپور ساتھ دیا۔ کھانا چائے بستر اور پھر وہاں بیٹھ کر نگرانی کی۔ مجال ہے اگر کسی نے ایک بوتل بھی اٹھائی ہو یا کوشش کی ہو۔
سارا پاکستان چور نہیں ہے۔ اس ملک میں اچھے لوگ بھی ہیں۔اچھےبرےلوگ ہرجگہ ہرملک ہرشہرہرصوبےمیں پائےجاتے ہیں ۔
شاہراہ قراقرم -محض ایک سڑک نہیں !
تحریر: محمد اظہر شیخ
اس عظیم الشان سڑک کی تعمیر کا آغاز 1966 میں ہوا اور تکمیل 1978 میں ہوئی۔ شاہراہ قراقرم کی کُل لمبائی 1,300 کلومیٹر ہے جسکا 887 کلو میٹر حصہ پاکستان میں ہے اور 413 کلومیٹر چین میں ہے۔ یہ شاہراہ پاکستان میں حسن ابدال سے شروع ہوتی ہے اور ہری پور ہزارہ, ایبٹ آباد, مانسہرہ, بشام, داسو, چلاس, جگلوٹ, گلگت, ہنزہ نگر, سست اور خنجراب پاس سے ہوتی ہوئی چائنہ میں کاشغر کے مقام تک جاتی ہے۔
اس سڑک کی تعمیر نے دنیا کو حیران کر دیا کیونکہ ایک عرصے تک دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں یہ کام کرنے سے عاجز رہیں۔ ایک یورپ کی مشہور کمپنی نے تو فضائی سروے کے بعد اس کی تعمیر کو ناممکن قرار دے دیا تھا۔ موسموں کی شدت, شدید برف باری اور لینڈ سلائڈنگ جیسے خطرات کے باوجود اس سڑک کا بنایا جانا بہرحال ایک عجوبہ ہے جسے پاکستان اور چین نے مل کر ممکن بنایا۔
ایک سروے کے مطابق اس کی تعمیر میں 810 پاکستانی اور 82 چینی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ رپورٹ کے مطابق شاہراہ قراقرم کے سخت اور پتھریلے سینے کو چیرنے کے لیے 8 ہزار ٹن ڈائنامائیٹ استعمال کیا گیا اور اسکی تکمیل تک 30 ملین کیوسک میٹر سنگلاخ پہاڑوں کو کاٹا گیا۔
یہ شاہراہ کیا ہے؟ بس عجوبہ ہی عجوبہ!
کہیں دلکش تو کہیں پُراسرار, کہیں پُرسکون تو کہیں بل کھاتی شور مچاتی, کہیں سوال کرتی تو کہیں جواب دیتی۔۔۔۔۔
یہ سڑک اپنے اندر سینکڑوں داستانیں سموئے ہوئے ہے, محبت, نفرت, خوف, پسماندگی اور ترقی کی داستانیں!!
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ
"انقلاب فکر و شعور کے راستے آیا کرتے ہیں لیکن گلگت بلتستان کا انقلاب تو سڑک کے راستے آیا"
شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے آپ کا تجسس بڑھتا ہی جاتا ہے کبھی پہاڑوں کے پرے کیا ہے یہ دیکھنے کا تجسس تو کبھی یہ جاننے کا تجسس کہ جب یہ سڑک نہیں تھی تو کیا تھا؟ کیسے تھا؟ اسی سڑک کنارے صدیوں سے بسنے والے لوگوں کی کہانیاں سننے کا تجسس تو کبھی سڑک کے ساتھ ساتھ پتھروں پر سر پٹختے دریائے سندھ کی تاریخ جاننے کا تجسس !!
شاہراہ قراقرم کا نقطہ آغاز ضلع ہزارہ میں ہے جہاں کے ہرے بھرے نظارے اور بارونق وادیاں "تھاکوٹ" تک آپ کا ساتھ دیتی ہیں۔
تھاکوٹ سے دریائے سندھ بل کھاتا ہوا شاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ جگلوٹ تک چلتا ہے پھر سکردو کی طرف مُڑ جاتا ہے۔
تھاکوٹ کے بعد کوہستان کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے جہاں جگہ جگہ دور بلندیوں سے اترتی پانی کی ندیاں سفر کو یادگار اور دلچسپ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔کوہستان کے بعد چلاس کا علاقہ شروع ہوتا ہے جوکہ سنگلاخ پہاڑوں پر مشتمل علاقہ ہے۔ چلاس ضلع دیا میر کا ایک اہم علاقہ ہے اسکو گلگت بلتستان کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ ناران سے بذریعہ بابو سر ٹاپ بھی چلاس تک پہنچا جا سکتا ہے۔ چلاس کے بعد شاہراہ قراقرم نانگا پربت کے گرد گھومنے لگ جاتی ہے اور پھر رائے کوٹ کا پُل آجاتا ہے یہ وہی مقام ہے جہاں سے فیری میڈوز اور نانگا پربت بیس کیمپ جانے کے لیے جیپیں کرائے پر ملتی ہیں۔
رائے کوٹ کے بعد نانگا پربت, دریائے سندھ اور شاہراہ قراقرم کا ایک ایسا حسین امتزاج بنتا ہے کہ جو سیاحوں کو کچھ وقت کے لیے خاموش ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔
اس کے بعد گلگت ڈویژن کا آغاز ہوجاتا ہے جس کے بعد پہلا اہم مقام جگلوٹ آتا ہے جگلوٹ سے استور, دیوسائی اور سکردو بلتستان کا راستہ جاتا ہے۔ جگلوٹ کے نمایاں ہونے میں ایک اور بات بھی ہے کہ یہاں پر دنیا کے تین عظیم ترین پہاڑی سلسلے کوہ ہمالیہ, کوہ ہندوکش اور قراقرم اکھٹے ہوتے ہیں اور دنیا میں ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں تین بڑے سلسلے اکھٹے ہوتے ہوں۔
جگلوٹ کے بعد شمالی علاقہ جات کے صدر مقام گلگت شہر کا آغاز ہوتا ہے جو تجارتی, سیاسی اور معاشرتی خصوصیات کے باعث نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ نلتر, اشکومن, غذر اور شیندور وغیرہ بذریعہ جیپ یہیں سے جایا جاتا ہے۔
گلگت سے آگے نگر کا علاقہ شروع ہوتا ہے جس کی پہچان راکا پوشی چوٹی ہے۔ آپکو اس خوبصورت اور دیوہیکل چوٹی کا نظارہ شاہراہ قراقرم پر جگہ جگہ دیکھنے کو ملے گا۔
نگر اور ہنزہ شاہراہ قراقرم کے دونوں اطراف میں آباد ہیں۔ یہاں پر آکر شاہراہ قراقرم کا حُسن اپنے پورے جوبن پر ہوتا ہے میرا نہیں خیال کہ شاہراہ کے اس مقام پر پہنچ کر کوئی سیاح حیرت سے اپنی انگلیاں دانتوں میں نا دباتا ہو۔ "پاسو کونز" اس بات کی بہترین مثال ہیں۔
ہنزہ اور نگر کا علاقہ نہایت خوبصورتی کا حامل ہے۔ بلند چوٹیاں, گلیشیئرز, آبشاریں اور دریا اس علاقے کا خاصہ ہیں۔ اس علاقے کے راکاپوشی, التر, بتورہ, کنیانگ کش, دستگیل سر اور پسو نمایاں پہاڑ ہیں۔
عطاآباد کے نام سے 21 کلومیٹر لمبائی رکھنے والی ایک مصنوعی لیکن انتہائی دلکش جھیل بھی ہے جو کہ پہاڑ کے گرنے سے وجود میں آئی۔
ہنزہ کا علاقہ "سست" پاک چین تجارت کے حوالے سے مشہور ہے اور یہ چائنہ سے درآمد اشیاء کی مارکیٹ ہے۔
سست کے بعد شاہراہ قراقرم کا پاکستان میں آخری مقام خنجراب پاس آتا ہے۔
سست سے خنجراب تک کا علاقہ بے آباد, دشوار پہاڑوں اور مسلسل چڑھائی پر مشتمل ہے۔ خنجراب پاس پر شاہراہ قراقرم کی اونچائی 4,693 میٹر ہے اسی بنا پر اسکو دنیا کے بلند ترین شاہراہ کہا جاتا ہے۔ خنجراب میں دنیا کے منفرد جانور پائے جاتے ہیں جس میں مارکوپولو بھیڑیں, برفانی چیتے, مارموٹ, ریچھ, یاک, مارخور اور نیل گائے وغیرہ شامل ہیں۔
اسی بنا پر خنجراب کو نیشنل پارک کا درجہ مل گیا ہے۔
اس سڑک پر آپکو سرسبز پہاڑوں کے ساتھ ساتھ پتھریلے و بنجر پہاڑی سلسلے اور دیوقامت برفانی چوٹیوں, دریاؤں کی بہتات, آبشاریں, چراگاہیں اور گلیشیئر سمیت ہر طرح کے جغرافیائی نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں جو نا صرف آپکا سفر خوبصورت بناتے ہیں بلکہ آپ کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔
شاہراہِ قراقرم محض ایک سڑک نہیں ہے
بلکہ یہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہے,
یہ تہذیب و تمدن کی امین ہے, یہ پسماندگی سے نکلنے کا زریعہ ہے, یہ ہر سال ہزاروں سیاحوں کی سیاحت کی پیاس بجھانے کا آلہ کار ہے, یہ محبت و دوستی کی علامت ہے, یہ سینکڑوں مزدوروں کے لہو سے سینچی وہ لکیر ہے جس نے پورے گلگت بلتستان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنیوں کے سفر پر ڈالا۔
بلاشبہ یہ شاہراہ ایک شاہکار ہے۔
وسائل پر قابض لوگ،
غریبوں کو بتاتے ہیں کہ بھوک
خدا کی طرف سے آزمائش ھے۔۔۔۔۔
خاموش عورت !
جب ایکـــ لڑکی تُم سے بحث کرتی ہـے۔۔۔۔
چلاتی ہے، ناراض ہوتی ہـے۔۔۔۔
تمہاری وجہ سے روتی ہـے۔۔۔۔
بولتی، بولتی اور بولتی جاتی ہـے۔۔۔۔
اور اُس کی آنکھوں سـے آنسو ٹپکنـے لگتـے ہیں۔۔۔۔
اور جب تمہیں مجبور کر دیتی ہـے کہ اُس کی بات سُنو۔۔۔۔
تم خوش ہو جایا کرو !
تم اُس کـے لیـے کُچھ ہو تو ایسا کرتی ہے۔۔۔۔
گر تمہیں ہر وقت بلاتی ہے تو اگر اُس سـے پیار کرتـے ہو۔۔۔۔
بـےقرار ہو جاؤ کیوں کہ وہ تم سـے بُہت پیار کرتی ہـے۔۔۔۔
ایکـــ عورت کی خاموشی بہت بامعنی ہوتی ہـے۔۔۔۔
یعنی تھکـــ گئی ہـے۔۔۔۔
یعنی اب اُس میں لڑنـے کا حوصلہ نہیں۔۔۔۔
یعنی ختم ہو چکی ہـے، یعنی نا اُمیدی۔۔۔۔
اگر مرد ہو۔۔۔ اگر عاشق ہو۔۔۔ تو اُس کی مُحبّت کی قدرکرو۔۔
اُسـے اظہارِ مُحبّت سـے قوت حاصل کرنـے دو۔۔۔۔
اسـے اپنـے اوپر ہنسنـے دو۔۔۔۔
اور اُسے احساس دلاؤ کہ اُس کا ہنسنا کتنا پیارا ہـے۔۔۔۔
اُسـے بتاؤ کہ اُس سـے کتنا پیار کرتـے ہو۔۔۔۔
عورت کو بس اتنی سی بات سـے سُکون آجاتا ہـے!✨
باؤباب دنیا کا سب سے چوڑا تنا ہے! اس کھوکھلے تنے کا قطر 20 میٹر سے زیادہ ہے اور یہ 120,000 لیٹر پانی ذخیرہ کر سکتا ہے۔ اس کا سائز اتنا وسیع و عریض ہے کہ بعض اوقات باؤباب کو رہائش، شیڈ یا جانوروں کی پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ درختوں کی یہ نسل ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔
ان درختوں کے دستیاب تنوں کے قطر کے حساب سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ وہ دو ہزار سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ اس کا سائنسی نام Adansônia Digitata ہے، لیکن انہیں baobabs، baobabs یا calabeiras کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
یہ درخت واقعی بہت طاقتور ہے: اس کے بڑے تنوں میں بیک وقت سینکڑوں جانور، پرندے اور کیڑے مکوڑے رہتے ہیں۔ اس کے پھول 20 سینٹی میٹر لمبے ہوتے ہیں اور راتوں رات کھلتے ہیں، لیکن ان میں امرت اور پھل ہوتے ہیں جو کہ قبائل اور جانوروں کے لیے خوراک کا کام کرتے ہیں، اور ساتھ ہی ملیریا کے علاج کے لیے بھی ان کے استعمال کے اشارے ملتے ہیں۔
اس درخت کے رس سے ایک خاص تیل نکالا جاتا ہے۔ اس کے تنے سے، مڈغاسکر کے مقامی باشندے کینو بناتے ہیں (لمبی کینو کی قسم)؛ اور اس کے کارک میں مرگی سے لڑنے کے لیے ایک دواؤں کا مرکب ہوتا ہے۔ حیرت کی بات نہیں، افریقہ میں، باؤباب زندگی کی نمائندگی کرتے ہیں: انھیں ذرخیزی، کثرت اناج اور شفا کی علامت ہیں۔
ہم سب کے لیے ایک اچھا پیغام!!!!
تحریر: محمد اظہر شیخ
یہ ہے جان ڈی راک فیلر یہ کبھی دنیا کے امیر ترین آدمی تھے۔ دنیا کا پہلا ارب پتی۔ 25 سال کی عمر میں، اس نے امریکہ کی سب سے بڑی آئل ریفائنریوں میں سے ایک کو کنٹرول کیا۔ 31 سال کی عمر میں، وہ دنیا کا سب سے بڑا تیل صاف کرنے والا بن گیا تھا۔ 38 سال کی عمر میں، اس نے امریکہ میں 90 فیصد تیل کو صاف کیا۔
50 تک، وہ ملک کا سب سے امیر آدمی تھا۔ ایک نوجوان کے طور پر، ہر فیصلہ، رویہ، اور رشتہ اس کی ذاتی طاقت اور دولت پیدا کرنے کے لئے تیار کیا گیا تھا.
لیکن 53 سال کی عمر میں وہ بیمار ہو گئے۔ اس کا پورا جسم درد سے لرز گیا اور اس کے سارے بال جھڑ گئے۔ مکمل اذیت میں، دنیا کا واحد ارب پتی اپنی مرضی کے مطابق کچھ بھی خرید سکتا تھا، لیکن وہ صرف سوپ اور کریکر ہضم کر سکتا تھا۔ ایک ساتھی نے لکھا، وہ سو نہیں سکتا تھا، مسکرا نہیں سکتا تھا اور زندگی میں کوئی بھی چیز اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔ اس کے ذاتی، انتہائی ماہر ڈاکٹروں نے پیش گوئی کی تھی کہ وہ ایک سال کے اندر مر جائے گا۔ وہ سال اذیت سے آہستہ آہستہ گزر گیا۔
جب وہ موت کے قریب پہنچا تو وہ ایک صبح اس مبہم احساس کے ساتھ بیدار ہوا کہ وہ اپنی دولت میں سے کچھ بھی اپنے ساتھ اگلے جہان میں لے جانے کے قابل نہیں ہے۔ وہ آدمی جو کاروباری دنیا کو کنٹرول کر سکتا تھا، اچانک احساس ہوا کہ وہ اپنی زندگی کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ اس کے پاس ایک انتخاب رہ گیا تھا۔
اس نے اپنے اٹارنی، اکاؤنٹنٹ، اور مینیجرز کو بلایا اور اعلان کیا کہ وہ اپنے اثاثوں کو ہسپتالوں، تحقیق اور خیراتی کاموں میں منتقل کرنا چاہتے ہیں۔
جان ڈی راک فیلر نے اپنی فاؤنڈیشن قائم کی۔ یہ نئی سمت بالآخر پینسلین کی دریافت کا باعث بنی، ملیریا، تپ دق اور خناق کا علاج۔
لیکن شاید راک فیلر کی کہانی کا سب سے حیرت انگیز حصہ یہ ہے کہ جس لمحے اس نے اپنی کمائی ہوئی تمام چیزوں کا ایک حصہ واپس دینا شروع کیا، اس کےجسم کی کیمسٹری میں اس قدر نمایاں تبدیلی آتی چلی گئی کہ وہ بہتر سے بہتر ہوتا چلا گیا۔ ایک وقت تھا کہ ایسا لگتا تھا وہ 53 سال کی عمر میں ہی مر جائے گا۔ لیکن وہ 98 سال کی عمر تک زندہ رہا۔ مال خیرات کرنے سے وہ تندرست ہو گیا۔ گویا یہ خیرات نام کی چیز بھی ایک طریق علاج ہے۔ اسے بھی آزما کر دیکھ لیجئے .
اپنی موت سے پہلے، اس نے اپنی ڈائری میں لکھا،
*"سپریم انرجی نے مجھے سکھایا، کہ سب کچھ اس کا ہے، اور میں اس کی خواہشات کی تعمیل کرنے کے لیے صرف ایک چینل ہوں۔* _
میری زندگی ایک طویل، خوشگوار چھٹی رہی؛ کام اور کھیل سے بھرپور۔
میں نے پریشانی کو راستے میں چھوڑ دیا اب میں تھا اور میرا خدا تھا_
_میرے لیے ہر دن اچھا تھا۔"_
🥀تقریباً آج سے 1450 سال پہلے نبی کریم صل اللہ علیہ والہ وسلم نے امت کو بتایا تھا کہ اپنی بیماریوں کا علاج صدقہ سے کیا کرو 💞
*شادی شُدہ جوڑوں سے گزارش!*
اگر آپ ایسا سوچتے تو ہر گز ایسا مت سوچیں، کہ ہماری”بےجوڑ“ شادی ہوئی ھے کیونکہ میرا جیون ساتھی مُجھ سے بالکل مُختلف بلکہ میری الٹ ھے.
یعنی میرے جیسا نہیں.
*تو جان لیجئے!!*
جوڑا ہمیشہ الٹ ہی ہوتا ھے تب ہی جوڑا بنتا ھے.
کُچھ نہیں تو اپنے جوتوں پر ہی غور کر لیجیے.
دونوں بظاہر ”پرفیکٹ“ لگتے ہیں لیکن غور کیجیے تو دونوں ہی ایک دوسرے سے مُختلف ہیں.
ایک جیسے ہوں تو انکا جوڑ پھر کوئی دوسرا ھے.
یاد رکھئے...!!
دیکھیں ۔۔۔۔!!!
ہم اپنے دائیں ہاتھ میں دوسرے کا دائیاں ہاتھ لے کر ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ۔۔
کیا چل سکتے ہے ۔۔۔؟؟
نہیں نا ۔۔۔
تو یاد رکھیں ۔۔۔
ہم سب”پزل“ میں پیدا ہوئے ہیں اور جُڑ کر ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں.
ایک کی کمی دُوسرا پُوری کرتا ھے.
اس لئے اپنا جیون کسی غلط فہمی میں برباد نہ کریں.
چیزوں کو قبول کرنا سیکھیں.۔۔۔
نکاح کے وقت "قبول ھے" محض الفاظ نہ تھے بلکہ یہ عہد تھا کہ تمام کمی بیشی کے ساتھ سب کچھ قبول ھے.۔۔۔
دیکھیں ”Idealism“ ایک دھوکہ ھے، فریب ھے، سراب ھے، زندگی رومانوی ناولوں، ڈائجسٹوں کے فرضی قصے کہانیوں، ڈراموں اور فلموں سے یکسر مُختلف ہوتی ھے.
ایک دُوسرے کو ”جیسا ھے، جہاں ھے“ کی بُنیاد پر قبول کیجیے.
یہی قبولیت، یہی ایکسیپٹینس زندگی میں سکون لاتی ھے.
ایکسیپٹ کرنا سیکھئے. ایکسیپٹ کر لیئے جائیں گے.۔۔۔۔
خُوابوں اور سرابوں کے پیچھے دوڑنے والے بالآخر ”بند گلی“ میں جا پہنچتے ہیں جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا، واپسی کی ساری راہیں مفقود ہو جاتی ہیں.
اپنی سو فیصد پسند کا جوڑا بنانے کی جُستجو کرنا ایک مقبول فلسفہ ھے.
لیکن...
اگر ازدواجی زندگی کی رعنائیوں کو انجوائے کرنا ھے تو مقبولیت نہیں، قبولیت کو معیار بنائیے، زندگی آسان ہوجائے گی.
سدا خوش رہیں۔۔۔۔
الله ربّ العزت آپ کو صالح بنائے اور صالحین کا ساتھ دے دنیا و آخرت میں۔ آپکو ایسے زوج (ساتھی) سے نوازے جو آپکے ایمان کی تقویت، رب کے تقرب کا زریعہ بنے؛ جسکے ساتھ چلتے آپکا ہر لمحہ ربّ کی اطاعت میں بسر ہو ۔۔
آمین ۔۔۔۔ثم آمین۔۔
محمّد اظہر شیخ
شادی کےتین سال کے بعد ساس نے بہو سے پوچھا.:
بہو مجھے ایک بات تو بتا. میں تجھے اتنی خراب اور کھری کھری باتیں سناتی ہوں اور تو پلٹ کر جواب بھی نہیں دیتی اور غصہ بھی نہیں کرتی اور بس ہنستی رہتی ہے۔
بہو کو تو جیسے سنانے کو کہانی مل گئی۔۔۔
کہنے لگی :
اماں جی آپ کو ایک بات سناتی ہوں۔ میں جب چھوٹی تھی تو مجھے ہمیشہ ایسا لگتا تھا کہ میری ماں میری سگی ماں نہیں۔ کیوں کہ وہ مجھ سے گھر کے سارے کام کرواتی تھی اور کوئی کام غلط ہو جاتا تو مجھے ڈانٹ بھی پڑتی اور کبھی کبھی مار بھی دیتی تھی لیکن ماں تھی وہ میری۔ مجھے ان سے ڈر بھی لگتا تھا اور میں نے ان سے کبھی غصہ نہیں کیا۔۔۔
یہاں تک کہ میں کالج سے تھکی ہوئی واپس آتی تو آتے ہی کچھ دیر آرام کے بعد مجھے کام کرنے ہوتے تھے۔
پھر جب میری بھابیاں آئیں تب تو جیسے میرے کام زیادہ ہی بڑھ گئے۔ ہونا تو چاہیے تھا کہ بہو آئی تو ساری ذمہ داریاں اس پر ڈال جاتی۔ لیکن میری امی نے پھر بھی مجھ سے سارا کام کروایا اور کبھی بھی بھابھیوں کو نہیں ڈانٹا بلکہ ان کے کام بھی مجھے کہتی تھیں کہ کر دو خیر ہے۔ "پھر کیا ہوتا ہے" ان کا یہ ایک جملہ ہمیشہ مجھے یاد رہتا ہے۔
وہ کہتی تھی خیر ہے بیٹی اگلے گھر جاکر تجھے مشکل نہیں ہوگی اور میں اِس جملے سے چِڑ گئی تھی۔
جب میری شادی تھی تو دو دن پہلے مجھے امی نے پیار سے اپنے پاس بٹھایا اور بولیں :
بیٹا آج تک سمجھ میں تیری ساس تھی۔ میں نے تجھے پریکٹس کروا دی ہے اور تجھے بتا دیا ہے کے ساس کیسی ہوتی ہے۔ اب آج سے میں تیری ماں ہوں۔ اب تیری شادی ہو رہی ہے تو بیٹا جب تمھاری ساس تمہیں کچھ کہے تو سمجھنا کہ جیسے میں کہتی تھی ویسے ہی تیری ماں تجھے ڈانٹ رہی ہے۔ بس یہ ہی بات تھی کہ مجھے آپ کی باتیں بری نہیں لگتی۔ کیوں کہ میری امی نے مجھے پریکٹس کروا کے بهیجا ہے۔۔۔ اور اماں جی آپ نے تو کبھی اتنا ڈانٹا ہی نہیں جتنا امی ڈانٹتی تھیں۔۔ توبہ توبہ۔۔۔۔۔
بہو ہنستی ہوئی کچن میں چلی گئی۔۔۔
اور ساس سوچتی رہی کہ کیا واقعی بیٹیوں کی تربیت ایسی کرنی چاہیئے۔۔۔؟؟
رب تعالی تمام بہن بیٹیوں کے نصیب اچھے فرماۓ۔ آمین
دوستوں فالو بھی کر دیا کریں حوصلہ افزائی کلیئے
محمّد اظہر شیخ
سنیما کی تاریخ کا سب سے بڑا مزاحیہ اداکار چارلی چیپلن اپنا ایک واقعہ بیان کرتا ہے:
بچپن میں ایک بار میں اپنے والد کے ساتھ سرکس کا شو دیکھنے گیا ہم لوگ سرکس کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔ ہم سے آگے ایک فیملی تھی،جس میں چھ بچے اور ان کے والدین تھے،
یہ لوگ دیکھنے میں خستہ حال تھے، ان کے بدن پر پرانے،مگر صاف ستھرے کپڑے تھے، بچے بہت خوش تھے
اور سرکس کے بارے میں باتیں کر رہے تھے،
جب ان کا نمبر آیا،تو ان کا باپ ٹکٹ کاؤنٹر کی طرف بڑھا اور ٹکٹ کے دام پوچھےجب ٹکٹ بیچنے والے نے اسے ٹکٹ کے دام بتائے،تو وہ ہکلاتے ہوئے پیچھے کو مڑا
اور اپنی بیوی کے کان میں کچھ کہا،اس کے چہرے سے اضطراب عیاں تھا
۔
تبھی میں نے اپنے والد کو دیکھا کہ انھوں نے اپنی جیب سے بیس ڈالر کا نوٹ نکالا، اسے زمین پر پھینکا،
پھر جھک کر اسے اٹھایا اور اس شخص کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا:جناب! آپ کے پیسے گر گئے ہیں، لے لیں۔
اشک آلود آنکھوں سے اس شخص نے میرے والد کو دیکھا اور کہا:شکریہ محترم!
جب وہ فیملی اندر داخل ہوگئی، تو میرے والد نے میرا ہاتھ پکڑ کر قطار سے باہر کھینچ لیا
اور ہم واپس ہوگئے؛کیوں کہ میرے والد کے پاس وہی بیس ڈالر تھے، جو انھوں نے اس شخص کو دے دیے ۔
اس دن سے مجھے اپنے والد پر فخر ہے،
وہ منظر میری زندگی کا سب سے خوب صورت شو تھا،
اس شو سے بھی زیادہ، جو ہم اس دن سرکس میں نہیں دیکھ سکے!
اور تبھی سے میرا یہ ماننا ہے کہ تربیت کا تعلق عملی نمونے سے ہے، محض کتابی نظریات سے نہیں!
محمّد اظہر شیخ
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Category
Telephone
Website
Address
Bahawalpur
BAHAWALPUR