Aroob Akram Novelist

typically reply within few hours

13/04/2021

Ramadan Mubarak all of you💖💖

20/09/2020

گلابو کی پکار پر ثمینہ بیگم نے مڑ کر دیکھا ۔۔۔

" اماں کیا جن لڑکیوں کے بھائی نہیں ہوتے ان کا محافظ کوئی نہیں ہوتا ۔۔۔ کیا کوئ اس کے لیے لوگوں سے سوال کرنے والا نہیں ہوتا ۔۔۔۔ ؟"

🍁🍁🍁

14/09/2020

رِض سٹول پر کھڑا کسی کیس کی فائل ڈھونڈ رہا تھا ۔ جب سپاہی اندر آیا ۔۔۔

"سر!"
سپاہی نے مودب انداز میں اسے مخاطب کیا۔۔۔

"یس مسٹر حسن؟"
رِض نے وہیں سے گردن موڑ کر اسے دیکھا ۔۔۔

"سر میڈم کی کال ہے۔۔۔"
سپاہی نے مودب انداز میں کہا۔۔

" میڈم؟ کون میڈم ؟"
رِض حیران ہوتے ہوۓ بولا ۔۔۔

"سر آپ کے گھر سے کال ہے۔۔۔وہ کہہ رہی ہیں آپ ان کی کال اٹینڈ نہیں کر رہے۔۔اس لیے انہوں نے سٹیشن فون کیا ہے۔۔"

سپاہی نے ساری بات بتائی۔۔۔

"اچھا میرے لینڈ لائن سے کنیکٹ کرو اور فون سپیکر پر لگاؤ ۔۔۔"

رِض نے وہیں سے کھڑے کھڑے آرڈر دیا ۔۔۔

"ہیلو!"

فون کے سپیکر پر گلابو کی آواز ابھری ۔۔۔جسے سن کر رِض خاصا بدمزہ ہو گیا۔۔۔

" ہمم بولو کیوں فون کیا ہے؟"

اس نے ناک سے مکھی اڑانے والے انداز میں کہا ۔۔۔ جیسے گلابو نے فون کر کے ناجانے اس کے کون سے اہم کام میں خلل ڈالا ہو۔۔۔

لیکن وہ بھی گلابو تھی ۔۔اس نے تو فون ہی اسی مقصد سے کیا تھا۔ کسی بھی بات کی پرواہ کیے بغیر اس نے اپنی بات شروع کی۔۔۔

" ڈیئر ہسبینڈ مجھے یہ پوچھنا تھا کہ پیاز کہاں پڑے ہیں ۔۔۔"

لاپرواہی سے کہہ کر بامشکل اس نے اپنی ہنسی روکی تھی۔۔۔

اس کی بات سن کر رِض کا تو منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ۔۔ مطلب اب اس کام کے لیے اسے کال کی گئی ۔۔۔

" مجھ سے کیوں پوچھ رہی ہو یہ سب ۔۔"

اس نے بھی بھڑکتے ہوۓ جواب دیا لیکن وہ یہ تو بھول ہی گیا کہ کوئی اور بھی آفس میں کھڑا تھا۔

" ارے بھول گئے تم ہی نے تو کہا تھا۔ گلابو اپنے ان نازک ہاتھوں کو تکلیف مت دینا اب سے کھانا میں خود بناؤں گا ۔۔۔ میں تو بس تمہاری مدد کے لیے چیزیں اکھٹی کر رہی تھی۔۔۔"

اس کے چہرے کے تاثرات کا سوچ کر ہی اس کا دل خوشی سے جھوم رہا تھا۔ اور اب اس کے لیے اپنی ہنسی روکنا محال ہو رہا تھا۔۔۔

سونے پہ سہاگہ بیچارے سپاہی کی بھی ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا ۔

" جسٹ شٹ اپ!"

وہ غصے سے چلایا جس سے سپاہی کہ ہنسی کو فوراً بریک لگی ہی لگی دوسری طرف گلابو کا بھی حلق خشک ہوا تھا۔ آج جو اس کے ساتھ ہونے والا تھا اس کے بارے میں سوچ کر اب اسے گھبراہٹ ہوئی تھی۔۔

" گیٹ لاسٹ! آئی ول سی یو.."

غصے سے اس کی آنکھیں سرخ ہو گئی تھیں ۔۔۔ وہ اس کی الٹی سیدھی حرکتیں اکثر برداشت کرتا تھا۔۔۔لیکن سٹاف کے سامنے اپنی بےعزتی نہیں ۔۔۔

غصے سے سٹول سے اتر کر رسیور اٹھایا۔۔۔۔

" گیٹ ریڈی ڈئیر وائف! بہت شوق ہے نا تمہیں خود کو بہادر ثابت کرنے کا۔۔۔اب دیکھو میں کیا کرتا ہوں ۔۔۔"

اپنی بات کہہ کر رسیور پٹختے ہوۓ کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر اپنا غصہ کم کرنے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔۔جبکہ گلابو کو حلق میں کانٹے چبھتے محسوس ہو رہے تھے ۔۔۔

لیکن وہ بھی اتنی جلدی کہاں ہار ماننے والوں میں سے تھی۔۔۔ پوری تیاری کر کے بیٹھی تھی۔۔۔

🍁🍁🍁

ASSALAMWALAIKUM dear reader's kasa ho sb... Sneak peek kasa lga... Ap sb k lya good news h k ab sy novel FB pe aayega Urdu Novels Platform Group me taky ap sb prh skain...ab khush ho jain sb r dil khol k like comment krain....jitny zyada like comment hn gy utni jldi epi post ho gi warna.....🙄🙄🙄mana epi to khar dani hi h OK phr naraz ho jana h😂😂😂 chlo to phr acha sa response do taky jldi epi post ho😍😍😍

13/09/2020

🚫







" کیا مصیبت ہے اماں کوئ صبح اس گھر میں خیر سے ہو سکتی ہے؟"
نیند خراب ہونے کی وجہ سے اس کا موڈ خاصا خراب ہو گیا تھا ۔

" چپ کر جا گلابو کل دے تیری زبان کچھ زیادہ ہی چل رہی ہے۔۔ جا جا کے تیار ہو سکول کے لیے اور جان چھوڑ میری ۔۔۔"

ثمینہ بیگم پہلے ہی آگ بگولہ ہوئی بیٹھی تھیں ۔۔ اس لے اسے بھی جھڑک دیا۔۔۔

" جا ہی رہی ہوں۔ اس گھر میں تو سکون ہے ہی نہیں ۔۔ "
بڑڑاتے ہوۓ وہ واشروم میں گھس گئی ۔۔۔

تیار ہو کر جانے لگی تو کسی خیال کے تحت کچن کی جانب چل دی۔۔۔

" اب وہاں کہاں جا رہی ہے ۔۔ دروازہ ادھر ہے۔۔"
اس کچن کی طرف جاتے دیکھ ثمینہ بیگم نے کہا ۔۔۔اور اس کے پیچھے کچن میں آ گئیں ۔۔۔

" یہ چھری کس لیے اٹھائی ہے؟"
اس کے ہاتھ میں چھری دیکھ کر انہوں نے بھنویں سکیڑتے ہوۓ پوچھا ۔۔۔

" اماں سیب لے کے جا رہی ہوں بھوک لگ جاتی ہے اس سے سیب کا قتل کرنا ہے۔۔۔"
لاپرواہی سے ماں کی بات کا جواب دیتے اب وہ فریج میں سے سیب نکالنے لگی۔۔۔

" تو اس کے لیے چھری کی کیا ضرورت ہے آج کل تو تیری زبان بھی کافی چلنے لگی ہے۔۔۔"
اس کا جواب سن کر ثمینہ بیگم نے تپے ہوۓ انداز میں جواب دیا ۔۔۔۔

" کیا کروں پیاری اماں اب اللّٰه نے تیرے حصے کی زبان بھی مجھے دے دی ہے تو ؟"
ایک آئبرو اوپر کرتے ہوۓ اس نے ماں کو دیکھا ۔۔۔اور کچن سے نکل کر دروازے پر پہنچ کے رک گئی ۔۔۔

Like comment hi kr dia kro zalimo koi response hi ni h 🙄🙄🙄🙄

12/09/2020

"ار۔۔ارحم بھ بھائی ۔۔۔مجھ مجھے جانے دیں ۔۔۔اماں پریشان ہو رہی ہوں گی۔۔"
اس کے اس طرح بازو پکڑ کر یہ سب کہنے سے وہ بری طرح گھبرا گئ تھی۔۔۔ آج سے پہلے کبھی کسی نے اس کا راستہ نہیں روکا تھا ۔

" پھر سے بھائی ۔۔۔"
وہ اس کے بازو کو دبوچتے ہوئے دھاڑا تھا۔ جس سے اس پندرہ سالہ بچی کا دل کسی پتے کی مانند کانپ کر رہ گیا ۔۔۔۔
ڈر کر اس نے آنکھیں میچ لی تھیں ۔۔۔

" ارے ارے! ڈیئر گُل ڈر کیوں رہی ہو۔۔۔ آہاں دیکھو میں تمہیں کھا تھوڑی جاؤں گا ۔ مجھے اپنا دوست ہی سمجھو ۔۔"
خباثت سے کہتا وہ اس پر مزید جھکتے ہوۓ بولا ۔۔۔گلابو ایک دم سے پیچھے ہٹی تھی۔۔۔

" اور ہمیں بھی اپنا دوست ہی سمجھو۔۔۔"
وہ دونوں لڑکے جو اس کے پیچھے آئے تھے خباثت سے کہتے ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوۓ بولے ۔۔۔

" ارحم بھائی مجھے جانے دیں پلیز میں آپ کی بہنوں کی طرح ہوں ۔۔۔"
آخر ہمت کر کے وہ صرف اتنا ہی بول پائی تھی۔۔۔

" چپ بلکل چپ !"
وہ دھاڑا تھا۔۔۔

🍁🍁🍁

Han g to kasi lgi sneak peek...jldi jldi like comment kr k btain😍😍

12/09/2020

نی اج کل کملے نئی لبدے ۔۔۔۔
تے دنیا بہت سیانی آاا۔۔۔۔۔۔۔
نی کا دا مان راجیاں دا ۔۔۔۔۔
بدلدے نت ہی رانی آاا۔۔۔۔۔۔۔

09/09/2020

https://bonzernovelians.blogspot.com/2020/09/bonzer-novelians-muhphat-by-aroob-akram_7.html

کیسی لگی ایپی لائک کمنٹ کر کے ضرور بتائیں۔۔۔

06/09/2020
03/09/2020

۔copy_paste_not_allowed_strictly_prohibited #





" رُکو کہاں جا رہے ہو؟ واپس آؤ ادھر۔۔۔"
وہ جو گھر آتے ہی جان بچانے کے لیے دبے پاؤں اوپر اپنے روم کی طرف جا رہا تھا ۔۔مسز سلمان کی آواز سن کر اس کے بڑھتے قدم رُکے تھے۔۔

" شٹ یار! بُرا پھس گیا لگتا ہے آج تو اگلی پچھلی ساری قصر نکلنے والی ہے ۔۔۔ "
ہاتھ کا مکہ بنا کر ریلنگ پر مارتا ہوا منہ میں بڑبڑایا۔۔۔

" تم نے سنا نہیں ادھر آؤ!"
مسز سلمان کی غصے سے ہانپتی آواز سن کر وہ واپس مڑا۔۔

" آ ہی رہا تھا ۔۔۔ حوصلہ رکھیں۔۔"
اطمینان سے کہتا پلٹا ۔ ایک دو زینے اتر کر ان کی پہنچ سے دور آخری سیڑھی پر رُک گیا۔۔۔

" حوصلے کے بچے! تمہیں تو میں سیدھا کرتی ہوں ۔۔"
وہ غصے سے کہتی اس کی جانب بڑھیں۔۔

" دیکھیں امی! دور سے بات کریں ۔۔۔ مجھے سنائی دیتا ہے ۔۔ آپ وہیں سے کہہ دیں جو کہنا ہے ۔۔"
وہ ان کا انداز سمجھتے ہوئے جلدی سے بولتا انہیں مزید طیش دلا گیا تھا ۔

" تم جیسی نکمی اولاد ۔۔۔۔"
اس سے آگے کی ہر بات وہ خود بھی ان کے ساتھ مکمل کرنے لگا۔۔۔

" تم جیسی نکمی اولاد کسی کی نہ ہو۔۔ جب سے پیدا ہوۓ ہو سوائے شرمندہ کروانے کے اور کچھ نہیں کیا۔۔۔ہر جگہ ناک کٹوا کر رکھ دی۔۔( ویسے امی یہ بات غلط ہے آپ کی ناک صحیح سلامت آپ کے ساتھ ہ ہے) یہ بات دل میں کہی ورنہ فلائنگ چپل ریسیو ہونی تھی ۔۔۔ کوئ کام تو صحیح سے کر لیا کرو ( حالانکہ انہیں ذلیل کروانے کا کام وہ بخوبی انجام دے رہا تھا ۔۔) اتنا ڈھیٹ انسان میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا ( غلط بلکل غلط پچھلے بیس سال سے دیکھتی آ رہیں ہیں پھر بھی ہر بار کہتی ہیں زندگی میں نہیں دیکھا)... "

🍁🍁🍁

So kn kn prhna chahta h🤗🤗

31/08/2020

عبداللہ کیا ہوا ہے کیوں منہ لٹکا ئے بیٹھے ہو ؟"
بہت دیر تک جب وہ یونہی بیٹھا رہا تھا تو گلابو سے مزید برداشت نہ ہوا ۔۔

پچھلے پانچ منٹ میں وہ دس بار یہی سوال دہرا چکی تھی ۔ اور عبداللہ جو پچھلے آدھے گھنٹے سے منہ سُجائے بیٹھا تھا اب اس کے بار بار پوچھنے پر اس کی طرف مڑا تھا۔

"کچھ نہیں ہوا مجھے اکیلا چھوڑ دو ۔۔"
اس کے بار بار پوچھنے پر وہ اکتا گیا تھا ۔اسی لیے زرا سخت لہجے میں کہا تھا ۔۔

لیکن یہ بھی جانتا تھا کہ وہ اتنی آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑنے والی۔۔

" اب تم مجھ سے بھی اس لہجے میں بات کرو گے ؟"
وہ روہانسی ہو کر بولی تھی۔ اور یہ اس کا واحد طریقہ تھا۔ اس سے کوئ بھی بات اگلوانے کا۔۔۔

" اچھا یار اب رونا مت شروع کر دینا ۔۔۔ تمہیں پتہ ہے تم روتے ہوئے کتنی بُری لگتی ہو ۔۔!"
عبداللہ نے اس کی جانب رخ کر کے کہا جو اب گھٹنوں میں منہ دیے رونے کی تیاریوں میں تھی۔

" کیا مطلب !"
عبداللہ کی اس بات پر حیرت سے اس کا منہ ہی تو کُھل گیا تھا ۔ اس نے منہ اٹھا کے اسے پوری آنکھیں پھیلا کر دیکھا جیسے یقین کر رہی ہے جو اس نے سنا وہ صحیح ہے ۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
Aslam o alikum piyare piyare readers ap sb ki duaon sy bht achy paper's ho gay mere...😍😍 wasa kisi ny dua ki bhi thi🤔🤔 khar ab ma free hn r ap logo ka intezar hoa khtm ...😁😁😁 zyada intezar k lya mazrt jldi epi post ho gi lkn lkn..... PDF form ma ay gi epi... Ab yae mt poochna q 🙄🙄 q k is q ka jwab mjhy bhi ni pta😂😂 bs zyada comment kro taky jldi epi dn😁😁😁 duaon ma yad rkhna gussa na krna

30/08/2020

سارے یزید دشت میں حیرت سے مر گئے ۔۔۔۔
سر کٹ گیا حسینؓ کا لیکن جھکا نہیں ۔۔۔

14/08/2020

If you’re not ready to die for it, put the word ‘freedom’ out of your vocabulary. Happy Independence Day of Pakistan
_________________________________💚🇵🇰

14/08/2020

Plz do respect your flag...🇵🇰

14/08/2020

Happy independence day💚🇵🇰

08/08/2020

میری قوس قزاح سی زندگی میں
آٹھواں رنگ اداسیوں کا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

05/08/2020

از قلم:

اک عرصے تک نبھایا ہے وہ تعلق تم سے ۔۔۔۔

جو حقیقت میں کبھی تھا ہی نہیں تم سے ۔۔۔۔۔

04/08/2020

کچھ لوگ کہتے ہیں محبت انسان کو جھکنا سکھا دیتی ہے ۔۔۔ یعنی انسان اپنی "میں" مار دیتا ہے ۔۔۔عزتِ نفس کو پسِ پشت ڈال دیتا ہے ۔۔۔

کچھ کہتے ہیں عزت کے بغیر محبت کا کوئ وجود نہیں ۔۔۔۔یعنی عزتِ نفس کا تحفظ ضروری ہے ۔۔۔۔

میں کہتی ہوں محبت میں دونوں چیزیں لازم و ملزوم ہیں ۔۔۔ محبت میں انسان کو جھک جانا چاہئے ۔۔۔ لیکن عزتِ نفس پر سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے ۔۔۔

اب سوچ رہیں ہوں گے بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ جھک بھی جاؤ اور اپنی عزتِ نفس بھی بچاؤ۔۔

کیا کبھی اپنے رب سے محبت کہ ہے ؟
اس کہ محبت میں جھکو گے تو وہ تمہیں معتبر کر دے گا۔۔۔ اپنی نظر میں ۔۔۔۔ تمہاری عزت پر کبھی حرف نہیں آنے دے گا۔۔۔۔ چاہے جتنی غلطیاں یا گناہ کر لو۔۔۔ کبھی دیکھا ہے کہ تم نے گناہ کیا اور تمہارے رب نے تمہیں بے سہارا چھوڑ دیا تم اس کی طرف پلٹو وہ تمہیں تھام لے گا رسوا نہیں کرے گا۔۔۔

اب دیکھو کبھی کسی انسان سے محبت کی ؟

اس کے آگے جھکو تو جو مرتبہ ہے تمہارا اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھو گے۔۔۔۔ اس کی نظر میں معتبر نہیں ہو گے۔۔۔ بلکہ ایک ایسا وجود ہو گے جسے وہ محبت کی بھیک دے۔۔۔ اور بھیک میں ملی ہوئی محبت ۔۔محبت نہیں احسان ہوتا ہے ۔۔ اور احسان کبھی محبت نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔ کبھی دیکھا ہے تم اسے چھوڑ کر کسی اور کے پاس چلے جاؤ۔۔ اور جب لٹے ہوئے واپس پلٹو تو وہ آگے بڑھ کر تمہیں تھام لے ؟..... تمہاری غلطیوں اور عیبوں سمیت تمہیں اپنا لے۔۔۔بلکہ وہ تو اس وقت انا کے غرور میں تمہاری عزتِ نفس کو کچل دے گا ۔۔۔ تمہاری محبت اپنے پیروں تلے روند دے گا ۔۔۔۔ اور تمہیں رسوا کر دے گا۔۔۔۔

اب دونوں کا موازنہ خود کرو اور سوچو کس کی محبت اول درجے کی ہے ۔۔۔ رب کی محبت کا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں تو پھر کیوں ہم اپنے رب کو بھول کر ان مٹی کے پتلوں سے محبت کرنے لگتے ہیں جو اس کے حقدار تک نہیں ۔۔۔ تمہاری سانسوں ۔۔۔ تمہارے دل پر اس رب کا حق ہے ۔۔۔ تمہیں ساری دنیا سے ٹھکرائے جانے کے بعد اسی کی طرف پلٹنا ہے ۔۔۔ جب انسان کی محبت میں چوٹ کھا کر اس رب کے پاس جاتے ہیں وہ تب بھی تمہیں تھام لیتا ہے ۔۔۔ وہ نہیں کہتا کہ تو مجھے چھوڑ کر ان مٹی کے پتلوں میں وفا ڈھونڈنے کیوں نکلا ہے ۔۔۔ وہ تمہیں تمہاری ہر کمزوری اور عیب کے باوجود پورے خلوص سے تھام لیتا ہے ۔۔۔

میں جتنا اس بارے میں لکھتی جا رہی ہوں اتنا کم پڑتا جا رہا ہے ۔۔۔ الفاظ جیسے ختم ہوں۔۔ رب کی محبت بیان کرتے ہوئے ۔۔۔ لیکن دل نہیں بھر رہا ۔۔۔ میں اور لکھنا چاہتی ہوں لیکن میرے الفاظ ان کیفیات کو بیان کرنے میں ناکام سے ہو رہے ہیں ۔۔۔۔ ایک چھوٹی سی کوشش کی ہے اپنی بات سب تک پہنچانے کی ۔۔۔ امید ہے اگر کہیں کوئ غلطی ہوئی ہے تو آپ لوگ اسے مثبت انداز میں درست کریں گے۔۔۔۔

کسی کو کوئ بات بری لگی تو دل سے معذرت ۔۔۔

آپ کا اس سب کے بارے میں کیا خیال ہے ۔۔ اپنی رائے سے آگاہ کیجیئے ۔۔۔۔

ازقلم: عروب اکرم

30/07/2020

Thanks to dear Qureshi for this precious pic😍😍

30/07/2020

" دیکھ چاچی !منہ نہ لگ میرے ورنہ تیرے سارے کچےچٹھے چاچا کے سامنے کھول کے رکھ دوں گی۔"
گلابو اپنی ازلی زبان درازی کے جوہر دکھاتے ہوئے بولی تھی ۔۔

" دیکھ لے بھابھی یہ لچھن ہیں تیری بیٹی کے۔۔۔ ارے تبھی تو وہ اسے طلاق دے کر گیا ہے ۔۔۔۔ ورنہ میں بھی بولوں ایسی کیا آفت آ گئی کہ بچپن کا نکاح وہ یوں منٹوں میں ختم کر گیا"
سامنے بھی رضیہ سلطانہ تھی جو طنز کے نشتر چلانے میں ماہر تھی ۔۔ تبھی تو اس کی دکھتی رگ کو چھیڑ گئی تھی ۔۔۔

" نام نہ لیو میرے سامنے اس مردود کا۔۔۔۔ وہ اس قابل ہی نہیں تھا کہ گلابو جیسی لڑکی اس کے نصیب میں ہوتی۔"

وہ بھی اپنے نام کی ایک تھی ۔ خود پر اٹھنے والی زبانوں کو لگام دینا جانتی تھی ۔۔

" ارے ارے دیکھو! کیسی دیدہ دلیری سے بول رہی ہے زرا لاج نہ آئی اس کو رخصتی سے پہلے طلاق لے کر بیٹھ گئ لیکن زبان کو لگام نہ ڈالی۔"
رضیہ سلطانہ بھی کوئی وار خالی نہیں چھوڑنا چاہتی تھی ۔۔۔

" ہاں ساری شرم لاج مجھے دکھانا خود کو مت سکھانا۔۔۔۔۔ مجھے تو رخصتی سے پہلے طلاق ہوئی نہ تم تو شادی کے دوسرے روز ہی میکے آ کر بیٹھ گئیں تھیں۔۔۔ اور پھر اللّٰه جانے کون کون سے جادو ٹونے کروا کے میرے چاچا کو پھسا لیا تم نے۔۔۔"
گلابو نے بھی فوراً حساب برابر کیا تھا ۔۔۔

" دیکھو ! دیکھو محلے والو کیسی لڑکی ہے زرا شرم حیا نہیں باپ کو مرے دو دن نہ گزرے کہ گز بھر لمبی زبان باہر نکال لی۔۔۔۔ ہائے میرے تو نصیب دیکھو ساری زندگی ان لوگوں کی خدمت کی۔۔۔ آج یہ صلہ دے رہی ہے ۔۔ مجھے طعنے دے رہی ہے ۔۔۔"

رضیہ سلطانہ کو تو مانو آگ لگ گئی تھی ۔۔ فوراً بین کرنے لگی تھی ۔۔۔

" ارے خدا کا واسطہ چپ کر جا رضیہ کیوں محلے والوں کو تماشہ دکھا رہی ہے ۔۔کچھ تو ہوش کر ماتم کا گھر ہے۔۔۔"

ثمینہ بیگم جو گلابو کی ماں تھی اس کے بین سے گھبرا کر فوراً بولی تھیں۔۔۔

" بھابھی اپنی بیٹی کو سنبھال لو خاک ڈال کر اڑ جائے گی تمہارے سر پر پھر بیٹھ کے روتی رہنا کہ کاششش رضیہ سلطانہ کی بات سن لی ہوتی۔۔۔"

رضیہ سلطانہ ہنوز بین کرتے ہوئے ان سے بولی۔۔۔

" ارے یہ موئی میری سنتی ہی کہاں ہے ۔۔۔ ہزار بار بولا ہے ہر ایرے غیرے کے منہ نہ لگا کر ۔۔۔ مگر مجال ہے وہ گلابو ہی کیا جو کسی کی سن لے۔۔۔"
ثمینہ بیگم سر پر ہاتھ رکھتی صحن میں پڑے تخت پر بیٹھ گئی تھیں ۔۔۔

یہ تو روز کا معمول تھا۔ گلابو کسی نہ کسی کے گڑھے مردے اکھاڑ کر آ جاتی اور پھر ثمینہ بیگم لوگوں کو صفائیاں دیتی پھرتیں۔۔۔۔

🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁

نوٹ: -السلام عليكم ممبرز کیسی لگی آپ کو یہ سنیک؟ یہ ناول ہماری ایک پیاری ممبر نے گروپ کے لیے لکھا ہے جو کے صرف اردو نولز پلیٹ فارم میں آئے گا۔ کیا آپ سب پڑھیں گے؟ کمنٹس کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کریں اپنی موجودگی کا احساس دلائیں اور کاپی پیسٹ کی پرمیشن نہیں یہ نول بس اسی گروپ میں آئے گا۔یہ نیو رائیٹرز کا پلیٹ فارم ہے یہاں ہر کوئی اپنا ناول اپنی تحریر پوسٹ کرسکتا ہے نیو رائٹرز کو ہم پروموٹ کرتے ہیں آپ کے لیے ہی گروپ ہے اور اب ہماری نیو ممبر اس گروپ کے ذریعے آپ سب تک اپنی لکھی تحریر شیرکر رہی ہیں۔۔۔۔

27/07/2020

My all novels FB and PDF Link's are bellow 👇🏻

Novel 1

"Wo Hamsafr Tha" fb link👇🏻
H
https://www.facebook.com/105655324518635/posts/134819081602259/

PDF link of " Wo Hamsafar Tha "

# وہ ہمسفر تھا
#قسط نمبر ۔1
# ازقلم -عروب اکرم
🚫 don't copy paste without my permission🚫
وہ پھولتی سانسوں کے ساتھ گھر میں داخل ہوئ اور اندر آتے ہی دروازہ بند کر دیا اور وہیں بیٹھ گئ جبکہ اس کے ساتھ موجود ننھا ہادی بس منہ بسور رہا تھا کیونکہ وہ اُسے اُس کی پسند کی چیزیں دلانے لے کر گئی تھی لیکن ایسے ہی واپس آ گئی تھی۔
"ماما آپ نے مجھے کھلونے کیوں نہیں لے کر دیے ؟آپ نے پڑامس (پرامس) کیا تھا لیکن پھر بھی نہیں لے کر دیے ۔ وہ انکل کون تھے ماما؟" ہادی کو بس اپنے کھلونوں کی فکر تھی لیکن ساتھ ہی وہ اُس سے وہ سوال بھی کر گیا جس سے وہ خود بھاگ رہی تھی ۔
اُس نے ہادی کی جانب دیکھا او ر ایک سرد آہ بھر کے رہ گئی ۔
"میں آپ کو دوبارہ لے جاوں گی بیٹا ابھی تنگ نہیں کرو ماما کو" اُس نے ہادی کو ٹالنا چاہا۔ لیکن ہادی کی سُوئ وہیں اٹکی ہوئی تھی ۔ وہ پہلے ہی کافی پریشان تھی ۔اس لیے اُس کا دھیان بٹانے کی کوشش کرنے لگی ۔"
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
"وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاوں کا عالم رہا جدائ نہ تھی ۔۔"
اُس نے گاڑی چلاتے ہوئے ریڈیو آن کیا جہاں یہ گانا لگا ہوا تھا۔ ماضی کے کئ لمحے اُس کے سامنے سے گزرنے لگے تب ہی اُس نے گھبرا کر بریک پر پاؤں رکھا ۔ ٹائروں کی آواز کے ساتھ گاڑی رُک گئی ۔اُس نے ڈیش بورڈ پہ پڑا موبائل اُٹھایا اور کوئ نمبر ملانے لگا ۔ بیل جاتے ہی کال ریسیو کر لی گئی ۔"
"ہیلو! جی کمال صاحب ایک ضروری کام تھا آپ سے۔"
دوسری جانب سے کچھ پوچھا گیا اور فوراً اُس نے جواب دیا" جی آج یا کل تک میں آپ کے آفس آ کر ساری تفصیل بتاتا ہوں. " اور فون بند کر دیا ۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
صبح کے دس بج چکے تھے لیکن وہ ابھی تک نہیں اُٹھی تھی ۔ زینب بیگم کئ بار اُسے جگا چکی تھیں لیکن وہ بھی اپنے نام کی ایک تھی ۔ اب کی بار زینب بیگم نے پانی سے بھرا گلاس اُس کے اوپر اُنڈیل دیا جس سے وہ فوراً ہڑبڑا کے اُٹھ بیٹھی۔
"کیا ہے اماں! سکون سے سونے بھی نہیں دیتی ۔ مہینے میں تین دن کی تو چُھٹی آتی ہوں گھر اُس میں بھی سکون نصیب نہیں ۔"اُس نے بیزاریت سے مُنہ بناتے ہوئے آتی ہوی جمائ کو روک کر کہا۔
"تو کون سا ہم پر احسان کر رہی ہو اپنا ہی شوق پُورا کر رہی ہو۔" زینب بیگم چڑتے ہوئے بولیں۔
ارے کیا صبح صبح شور مچا رکھا ہے بھئ ۔ کیوں اِس بیچاری کے پیچھے پڑ گئی ہو۔ اتنے عرصے بعد تو آتی ہے میری بیٹی۔" اظہار صاحب دونوں کی بحث کی آواز سُن کر اندر داخل ہوتے ہوئے بولے ۔
زینب بیگم کے تو جیسے سر پہ لگی اور پاؤں پہ بُجھی۔ وہ غصے میں بولیں ۔"ہاں بس ایک آپ اور آپ کی بیٹی ہی صحیح ہے باقی سب تو جیسے دُشمن ہوں۔" اور پیر پٹختی باہر چکی گئیں ۔
"کیوں تنگ کرتی ہو ماں کو ؟" زینب بیگم کے جاتے ہی اظہار صاحب نے اُس سے پوچھا۔ جس پر وہ منہ بنا کر بولی ۔
" میں کہاں تنگ کرتی ہو بابا !وہ تو خود ہی تنگ ہو جاتی ہیں" اور ساتھ میں ایک شرارتی مُسکراہٹ اُن کی طرف اُچھالتی ہوئ واش روم میں گُھس گئی ۔ اظہار صاحب بھی مُسکرا کر اُٹھ گئے ۔ اُن کے جاتے ہی رانیہ اندر داخل ہوئ۔
"ہانی آپی جلدی باہر آئیں اماں بُلا رہی ہیں ۔"اور واپس باہر چلی گئی ۔
"میں نہیں آؤں گی کہہ دو اماں کو ." ہانی نے ماں کو چِڑانے کے لیے کہا " لیکن رانیہ نے سُنا ہی نہیں کیونکہ وہ جا چُکی تھی ۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
اظہار صاحب اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے ۔ اُن کی شادی اپنی خالہ ذاد زینب بیگم سے ہوئ تھی ۔جو اخلاق کی بہت اچھی تھیں مگر غُصےکی ذرا تیز تھیں ۔لیکن پھر بھی اُن کی زندگی بہت خوشگوار گُزر دہی تھی ۔ اظہار صاحب اور زینب بیگم کے تین بچے تھے ۔ سب سے بڑا بیٹا ذولقرنین تھا جو کہ ایم۔ بی ۔اے کر کے اب فارغ ہوا تھا ۔ اُس سے چھوٹی ہانی تھی جو بی۔ایس کر رہی تھی اور سب سے چھوٹی رانیہ تھی جو ابھی ایف۔ایس۔سی میں تھی ۔ ہانی اسلام آباد میں یونیورسٹی میں ہڑھتی تھی اور ہاسٹل میں رہتی تھی ۔ اظہار صاحب کا تعلق ایک گاؤں سے تھا جہاں لوگوں کی توجہ پڑھنے لکھنے کی طرف کم تھی۔ پھر بھی ایسے ماحول کے باوجود انہوں نے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوای۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
یار تم ہم دوستوں میں ہمیشہ سب سے لیٹ ہوتے ہو ۔مانا کہ تمہارا جو بیک گراؤنڈ ہے اُس میں تمہیں لوگوں کو اپنے آگے پیچھے گھمانے کی عادت ہے لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ اب دوستوں کے ساتھ بھی تم یہی سب کرتے پھرو ۔" زین کے آتے ہی شجاع کے ہمیشہ کی طرح شکوے شکایتیں شروع ہو چکے تھے جن کو ختم کرنا ناممکن تھا ۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
زین کا تعلق وڈیروں کے خاندان سے تھا۔ زین کے والدین کا انتقال اُس کے بچپن میں ہی ہو گیا تھا۔ زین سے دو سال چھوٹا حنین تھا ۔ دونوں کو ان کی دادی نے پالا تھا جن کو وہ بی جان کہتے تھے ۔ حنین اپنی سٹڈی کے لیے لندن چلا گیا تھا جبکہ زین نے اپنی سٹڈی ختم ہوتے ہی اپنا بزنس سنبھل لیا تھا ۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

URDU NOVELS PLATFORM : Woh Hamsafar Tha By Aroob Akram COMPLETE pdf 26/07/2020

PDF link of " Wo Hamsafr Tha"👇🏻

https://urdunovelsplatform.blogspot.com/2020/07/urdu-novels-platform-woh-hamsafar-tha.html

URDU NOVELS PLATFORM : Woh Hamsafar Tha By Aroob Akram COMPLETE pdf Woh Hamsafar Tha By Aroob Akram 💕 💕 💕 ONE OF THE ROMANTIC NOVEL 💕 Written by Aroob .. This is Aroob's 1st novel so read and give...

25/07/2020

#وہ #ہمسفر #تھا
#قسط نمبر 27 ( آخری حصہ )
#ازقلم ۔عروب اکرم
🚫 Don't copy paste without my permission🚫

" ہانی!"
سمیرا نے خوشگوار حیرت سے اسے گلے لگایا تھا ۔۔۔ دونوں ایک دوسرے کو اتنے عرصےبعد دیکھ کر بہت خوش ہوئیں تھیں۔۔۔ اس لیے آنکھوں میں آنسو بھی آ گئے ۔۔۔

جبکہ یہ سارامنظر ہادی کافی ناگواری سے دیکھ رہا تھا۔ اسے ان دونوں کے ایسے رونے سے الجھن ہو رہی تھی ۔۔۔

" ماما چلیں نا ؟ آئسکریم بھی کھانی ہے ۔"
تنگ آ کے ہادی نے اس کا دوپٹا کھینچتے ہوئے بولا تھا ۔۔

" ہانی یہ تمہارا بیٹا ہے ؟"
سمیرا نے پیار سے ہادی کے گال چھوتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔

" ہاں ! ہادی سلام کرو آنٹی کو."
ہانی نے ایک وقت میں ہی سمیرا کو جواب دیتے ہوئے ہادی سے بھی کہا جو اس وقت خاصا ناراض لگ رہا تھا ۔۔ کیونکہ آئسکریم پارلر کے سامنے اسے آئسکریم کا ویٹ کروایا جا رہا تھا ۔۔اس لیے اس نے ہانی کی بات سرے سے نظر انداز کر دی تھی ۔۔

" ارے یہ تو بلکل تم پر نہیں گیا ہے ۔ کتنا کیوٹ ہے نا گولو مولو سا! اور ایک تم بکلک سوکھا تیلا۔۔"
ہانی اب ہادی کو گھور رہی تھی جب سمیرا نے اس کا دھیان ہادی سے ہٹانے کے لیے اسے چھیڑا تھا ۔۔۔

لیکن یہ سچ ہی تھا۔ ہادی زین کی کاپی تھا۔ اور اسی بات سے ہانی کو چڑ ہو گئی وہ ابھی کچھ بولنے ہی والی تھی ۔۔ جب نین نے سمیرا کو آواز دی تھی ۔۔

" طلع بھی سمیرا ۔۔ پری کب سے رو رہی ہے ۔"
نین نے اسے بلاتے ہوئے اپنی تین سالہ بیٹی کا ذکر کیا جو نین نقش میں بلکل ہانی کے جیسی تھی ۔ لیکن اس کی آنکھیں نین کی طرح گرین تھیں۔۔

ہانی نے پلٹ کے اس آواز کی طرف دیکھا تو حیران رہ گئی ۔ کیا ایک ہی دن میں اللّٰه نے اسے سب اپنے ملوانے تھے ۔

نین بھی ہانی کو سامنے دیکھ کر ششدر ہی رہ گیا تھا ۔ جب ہانی سے دماغ نے کام کیا۔۔

" کیا یہ سمیرا کو بلا رہا تھا ؟"
ہانی نے خود سے سوال کرتے ہوئے سمیرا کی جانب دیکھا جس نے اب پری کو نین سے لے کر خود اٹھا لیا تھا ۔۔۔

" ہانی ! کہاں چلی گئی تھی تم۔۔۔ پتہ ہے کتنا ڈھونڈا ہے میں نے تمہیں ۔"
نین ایک دم آگے بڑھا اور اس کو گلے سے لگا کر خود کو یقین دلانے لگا کہ انہیں ان کل ہانی مل گئی تھی ۔۔ وہ ےو امید ہی چھوڑ چکا تھا ۔۔۔

کافی دیر جب وہ دونوں یونہی کھڑے رہے تو سمیرا نے انہیں مخاطب کیا۔۔

" اہممم کیا بات ہے سارا دن بہن بھائی نے یونہی کھڑے رہنا ہے یا پھر ہانی کو گھر بھی لے کر چلنا ہے ۔"
سمیرا نے انہیں یاد دلایا کہ وہ اس وقت پبلک پلیس پر کھڑے تھے ۔۔۔

" ہاں کیوں نہیں چلو ہانی سب تم سے مل کر بہت خوش ہونگے۔۔۔"
نین اسے ساتھ لگائے گاڑی کی طرف بڑھا جبکہ ہادی اور پری کو ان سمیرا بیچاری اکیلے بامشکل گھسیٹتے ہوئے ساتھ لا رہی تھی ۔۔

" ویسے تم میرے بھائی کے ساتھ کیا کر رہی ہو ؟"
ہانی نے آئبرو اچکا کر سمیرا سے پوچھا ۔۔

" شوہر نامدار ہیں میرے اور میری ایک عدد بیٹی کے باپ بھی ۔۔"
سمیرا کہاں چپ رہنے والوں میں سے تھی فوراً جواب دیا تھا۔


" کیاااااا!"
ہانی اتنے زور سے چلائ تھی کہ سب کو اپنے کانوں پر ہاتھ رکھنا پڑا تھا ۔۔۔

" ماما آپ کو مینرز نہیں ہیں کیا؟"
ہادی نے ماں کو دیکھتے ہوئے اس سے حساب برابر کیا تھا۔ وہ بھی تو ہر بات پر اسے مینرز سکھاتی رہتی تھی ۔۔۔

جبکہ ہانی نے اب اسے ایک گھوری دے نوازا تھا ۔۔ جو بہت مزے سے اپنی ماں کو سب کے سامنے بے عزت کر رہا تھا ۔۔۔

باقی کا راستہ سب نے خاموشی سے کاٹا تھا ۔۔۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

ہانی نے ڈرتے ہوئے قدم اندر رکھے تھے ۔ اس تمام عرصے میں اظہار صاحب دے اسے جو بھی گلے تھے وہ خود ہی ُتم ہو گئے تھے ۔۔۔

" ماما ! بابا! رانیہ دیکھو تو کون آیا ہے میرے ساتھ ۔"
اندر آتے ہی نین نے سب کو اونچی آواز میں پکارا تھا ۔۔۔ اس کی آواز سن کر سب باہر آ گئے تھے ۔۔

اپنی سامنے ہانی کو دیکھ کر سب ہی بس حیرت سے اپنی آنکھوں پر یقین کرنے لگے کہ کہیں وہ کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہے ۔۔۔

لیکن وہ خواب نہیں حقیقت تھی ۔۔۔ زینب بیگم نے آگے بڑھ کو اسے گلے سے لگایا اور پھوٹ پھوٹ کر رو دیں۔۔ کتنا ترسی تھیں۔۔ وہ اسے اپنے سامنے دیکھنے کے لیے۔۔۔ گلے لگانے کے لیے۔۔

" بس کر دو بیگم اب مجھے بھی میری بیٹی سے ملنے دو گی کہ ُود ہی قبضہ جمانے کا ارادہ ہے ۔۔"
اظہار صاحب جو کب سے اس سے ملنے کو بے تاب تھے لیکن ان کی بڑھتی محبت اور آنسوؤں کی رفتار دیکھ کر سمجھ گئے تھے کہ اتنی آسانی دے وہ دونوں الگ نہیں ہونے والی۔۔۔

" اوہ ماما ڈانٹ یو فیل بابا آپ سے جیلس ہو رہے ہیں ۔"
رانیہ بھی کہاں چپ رہنے والوں میں سے تھی اس لیے اس سب میں اپنا حصہ ڈالنا ضروری سمجھا تھا ۔۔۔

جبکہ ہادی کو اپنا یوں اگنور کیے جانا سخت برا لگا تھا ۔۔

" ماما کون ہیں یہ لوگ؟"
وہ منہ پھلائے حمنہ سے پوچھ رہا تھا ۔۔۔

" ہانی یہ تمہارا بیٹا ہے ؟"
زینب بیگم نے ہادی کو دیکھتے ہوئے پوچھا اور اسے گلے سے لگا کر پیار دینے لگیں ۔۔۔

جب ہادی تنگ آ گیا۔۔

" میرا سارا منہ گندا کر دیا ہے آپ نے!"
ہادی اپنا گال صاف کرتے ہوئے بولا تھا جہاں ابھی زینب بیگم نے اسے پیار کیا تھا ۔۔

" بری بات ہادی!"
ہانی نے اسے غصے سے دیکھا جبکہ ہادی کی بات سن کر سب اب ہس رہے تھے ۔۔

" ہانی آپی آپ کے بیٹے کے نخرے بلکل آپ جیسے ہیں."
رانیہ نے ہانی لر چوٹ کی۔۔

" رانیہ مت تنگ کرو بہن کو ۔"
اظہار صاحب ن رانیہ کو گھر کر چپ کروایا جبکہ رانیہ کا منہ بن گیا ۔۔

" ہانی بیٹا اپنے بابا کو معاف کر دینا۔۔۔ اس وقت میں نے جو بھی کیا تھا صرف تمہاری بہتری کے لیے کیا تھا ۔"
اظہار صاحب شرمندہ سے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کے بیٹھے تھے ۔۔۔

" بابا پلیز! گنہگار تو نہ کریں مجھے ۔۔۔ اور آپ کو معافی مانگنے کی ضرورت بلکل نہیں ہے ۔۔۔۔
جس کو ہے اس کی تو اکڑ ہی ختم نہیں ہوتی۔۔۔"
ہانی نے ان کے ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا جبکہ آخری بات زیر لب بڑبڑائی جو کسی نے نہیں سنی تھی ۔۔۔

" ہانی بیٹا زیم کو بھی بلا لو آج تم لوگ ہماری طرف رکو گے۔"
اظہار صاحب نے کچھ سوچتے ہوۓ ہانی سے کہا تھا ۔ وہ زیم سے ملنے چاہتے تھے ۔۔۔

" جی بابا !"
ان کی بات سن کر ہانی کے چہرے پر سایہ لہرایا تھا ۔۔۔ اس کے ہاس تو زین کا نمبر ہی نہیں تھا ۔۔۔

" میں ابھی انہیں کال کر کے آئی۔۔۔"
ہانی فوراً وہاں سے اٹھ کر باہر آئی تھی ۔۔ کافی دیر بعد سوچنے کے بعد جب کوئی سرا ہاتھ نا لگا تو یہاں وہاں ٹہلتے ہوئے گھر کا جائزہ لینے لگی تاکہ واپس جا کے کوئ اچھا سا بہانہ بنا سکے۔۔۔۔

" بابا وہ میری بات ہوئی وہ کہہ رہے ہیں کہ۔۔۔"
اگلی بات ہانی کے منہ میں ہی رہ گئی کیونکہ سامنے شاہ صاحب اس کے گھر والوں کے ساتھ براجمان خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔۔۔

" آپ کیا کہہ رہی تھیں؟"
ہانی کو چپ ہوتے دیکھ کر فوراً ہی شاہ نے اس کا جھوٹ پکڑا تھا اسی لیے اب سب کے سامنے پوچھ رہا تھا ۔۔

جبکہ ہانی بس کلس کر رہ گئی ۔۔

" یہ شخص مجھے زلیل کروانے کے ارادے میں لگتا ہے ۔ لیکن فکر نہ کرو آج تمہیں سبق ضرور سکھاؤں گی۔"
ہانی دل میں مصمم ارادے بناتی وہاں سے چلی گئی جبکہ اسے یوں غصے میں دیکھ کر زین مسکرا دیا تھا ۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

ہادی نے جامے دے پہلے ہی زین کو فون پر بتا دیا تھا کہ ہانی اسے باہر لے جانے کے لیے راضی ہع گئی تھی ۔۔۔

لیکن جب زین وہاں پہنچا تو اسے سمیرا اور نین کے ساتھ دیکھ کر ساۃیڈ پر ہو گیا تھا اور پھر ان کا پیچھا کرتے ہوئے یہاں تک پہنچ گیا تھا ۔۔

" سمیرا! رانیہ! کیا بنا رہی ہو تم لوگ؟"
ہانی نے کچن میں جھانک کر انہیں کوکنگ کرتے دیکھ کر پوچھا تھا ۔۔۔

" رات کے لیے کھانا بنا رہے ہیں ۔"
سمیرا نے مصروف سے انداز میں جواب دیا۔۔

" اچھا سنو!"
ہانی نے اسے دوبارہ بلایا۔۔۔

" ہاں بولو۔۔"
سمیرا نے آئل پین میں ڈالتے ہوئے کہا ۔۔۔

" کھانے میں زرا مرچی تیز رکھنا۔۔۔ زین کو تیز مصالحہ پسند ہے ۔"
ہانی نے اپنی ہسی روکتے ہوئے کہا جانتی تھی وہ تیز مرچ برداشت نہیں کر سکتا اسی لیے بدلہ لینے کا یہ طریقہ سوچا تھا ۔۔۔

" شکر ہے تم نے بتا دیا ورنہ میں مرچ کم رکھتی۔۔"
سمیرا نے اس کی طرف دیکھ کر کہا تھا ۔۔۔

" کوئی بات نہیں میں نے سوچا تمہیں بتا دوں تاکہ بعد میں مسئلہ نہ ہو۔"
ہانی مسکین سی شکل بناتی کچن سے نکل گئ۔۔

" اب مزہ آئے گا زین شاہ! تمہیں بھی تو پتا چلے کس سے پنگا لیا ہے تم نے"
ہانی چہرے پر شرارتی مسکراہٹ سجائے زینب بیگم کے ساتھ لاؤنج میں بیٹھ گئ۔ جہاں باقی سب بیٹھے باتیں کر رہے تھے ۔۔۔

اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر زین کو گڑ بڑ کا احساس ہوا لیکن وہ کیا کرنے والی تھی یہ وہ نہیں جان پایا تھا ۔۔۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

رات کا کھانا لگ چکا تھا ۔۔۔ ہانی کی مسکراہٹ چہرے سے جدا ہی نہیں ہو رہی تھی ۔۔

" زین آپ یہ ڈش ضرور ٹرائی کریں ۔۔ بہت مزے کا بناتی ہے سمیرا۔۔"
ہانی زین کے سامنے ڈشز کرتے ہوئے کہہ رہی تھی جبکہ زین تو اس کے انداز پر ہی حیران رہ گیا تھا ۔۔۔

" آخر ہوا کیا ہے اسے یہ کایا کیسے پلٹی۔۔"
زین حیرانی سے زیر لب بڑبڑاتا ہوا ایک لقمہ منہ میں رکھنے لگا۔۔ لیکن اگلے ہی پل اس کی ساری حیرت ختم ہوئی تھی ۔۔۔

" پپ پانی!"
زین بامشکل بول پایا تھا ۔۔۔

" کیا ہوا آپ کو؟"
ہانی آنکھیں پھیلائے اس سے پوچھ رہی تھی جیسے اسے زین کی بہت فکر ہو۔ لیکن دل میں وہ کتنی خوش تھی یہ صرف وہی جانتی تھی ۔۔۔

" پانی!"
زین بس اتنا ہی بول پایا تھا ۔۔

" ایک منٹ میں دیتی ہوں ۔"
ہانی نے جلدی سے گلاس میں پانی ڈال کر آگے کیا۔۔۔ لیکن جیسے ہی زین اسے پکڑنے لگا ہانی نے فوراً گلاس الٹا کر دیا اور سارا پانی زین پر گرا دیا تھا ۔۔۔

" اوہ ! ایکسکیوز می میں ابھی آیا۔۔"
تھوڑا سکون آیا تو زین فوراً اٹھ کر واش روم کی طرف چل دیا۔۔۔

" میں دیکھ کر آتی ہوں۔"
یہ کہہ کر ہانی بھی اس کے پیچھے ہی چل دی۔۔۔۔

" ہاہاہاہاہاہا ! کیسا لگ رہا ہے مسٹر زین۔۔۔"
وہ ٹشو سے کپڑے صاف کر رہا تھا جب اس کی آواز سن کر پلٹا تھا۔

" پتہ تھا مجھے تمہاری ہی حرکت ہو گی۔۔"
زین نے آگے بڑھ کر فوراً اسے بازوں سے پکڑا تھا ۔۔
جبکہ ہانی اس کے ایکدم یوں قریب آنے پر گھبرا گئی تھی ۔۔۔

" وو وہ مجھے کوئی کام یاد آ گیا ہے ۔"
ہانی کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا تھا اسی لیے فوراً بہانہ بنایا۔۔۔

" ایسے کیسے اپنی حصے کی سزا بھی تو لے کر جاؤ۔"
زین نے ذومعنی انداز میں اسے اشارہ کیا۔ اس کی بات سن کر ہانی مزید گھبرا گئ تھی ۔۔

" پلیز آپ جو بھی کہیں گے میں کروں گی مجھے جانے دیں۔۔۔"
ہانی نے التجائہ کہا تھا ۔۔

" جو کہوں گا؟"
اب کی بار زین نے سنجیدگی سے پوچھا تھا ۔۔

" جج جی!"
ہانی نے مشکل سے الفاظ ادا کیے۔۔۔

" معافی !"
ہانی نے ایک دم سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا ۔۔

" معافی چاہئے مجھے تم سے اپنی ہر غلطی کی ۔۔۔ ہانی پلیز میں اپنی زندگی تمہارے اور ہادی کے ساتھ سے مکمل کرنا چاہتا ہوں ۔"
شاہ نے منت بھرے لہجے میں کہا تھا ۔۔ نمی اس کی آنکھوں میں تیر رہی تھی ۔۔۔ ہانی نے نظریں چرا لیں۔۔۔

" میں نے آپ کو معاف کیا۔۔۔"
مشکل سے یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے وہ اپنے آنسو روک پائی تھی ۔۔

" نہیں ہانی ! ایسے نہیں مجھے دل سے معافی چاہئے ایسے زبردستی نہیں اور میں اس کے لیے اپنی آخری سانس تک انتظار کروں گا۔"
یہ کہہ کر وہ رکا نہیں تھا اور ہانی بس آنکھوں میں آنسو لیے اسے جاتا دیکھتی رہ گئی ۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

آج ہانی نے رانیہ کو اپنے گھر بلوایا ہوا تھا ۔۔۔ وہ اکیلی بور ہو رہی تھی تو رانیہ کو کمپنی دینے کے کیے بلوا لیا۔۔۔

ہانی کچن میں چائے بنانے گئی تھی ۔۔۔ جب لاؤنج میں کوئی چپکے سے چھپتے ہوئے داخل ہوا۔۔۔ لیکن ہائے رے قسمت رانیہ کی نظر پڑ گئی ۔۔

" کون ہو تم اور یہاں کیا کر رہے ہو ؟ کہیں چوری کرنے تو نہیں آئے۔۔۔ ویسے حلیے سے لگ تو نہیں رہے چور لیکن لگتا ہے آج کل چوروں کا سٹینڈرڈ بھی ہائی ہو گیا ہے ۔۔۔ ویسے میرے ہوتے ہوئے تم ایک چیز کع بھی نہیں چھو سکتے۔۔۔۔"

رانیہ تع نا سٹاپ شروع ہو گئی تھی جبکہ سامنے کھڑا شخص حیرت سے اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو اسے اسی کے گھر میں چور کہہ کر بلا رہی تھی اوپر سے اس کی پٹر پٹر چلتی زبان ۔۔۔۔۔

" کیا ہوا رانیہ کون ہے کس سے باتیں کر رہی ہو؟"
اس کی آوازیّں سن کر ہانی کچن سے باہر آئی تھی لیکن سامنے حنین کو دیکھ کر خوشی اور حیرت کے ملے جلے تاثرات لیے اس کی طرف بڑھی۔۔۔

" حنی تم! وٹ آ سرپرائز۔۔۔ آنے سے پہلے بتا ہی دیتے ۔۔۔"
ہانی اس کے قریب آ کر بولی۔۔۔

" آپی آپ اس کو جانتی ہیں ؟"
رانیہ نے سن دونوں کو یوں بے تکلفی سے بات کرتے دیکھ کر پوچھا ۔۔۔

" رانیہ یپ حنین ہے زین کا چھوٹا بھائی۔۔۔ اور حنین یہ رانیہ ہے میری چھوٹی بہن۔۔۔"
ہانی نے دونوں کا تعارف کروایا۔۔۔

" رئیلی نائس ٹو میٹ یو۔۔۔"
حنی نے مسکراتے ہوئے ہاتھ رانیہ کی نظر بڑھایا تھا ۔۔۔ جسے رانیہ نے گھوری کے ساتھ تھاما تھا ۔۔

" ویسے بھابھی آپ کی بہن سنگل ہیں ۔۔"
حنک نے اچانک سو کیا تھا۔
" ہاں کیوں ؟"
ہانی نے حیرت سے پوچھا ۔

" نہیں میں سوچ رہا تھا اس بار یہاں رہنے کا کوئی پکا بندوبست کروں اور ایک وجہ ڈھونڈوں۔۔۔"
حنی نے ہامی کو جواب دیتے ہوئے رانیہ کو دیکھ کر انکھ دبائی۔۔۔ اور ہانی مسکرا دی وہ اس کا مطلب سمجھ گئ تھی ۔۔۔

" حنی تم یار بہت بری بات ہے بھائی سے پہلے بھابھی سے مل رہے ہو ۔۔"
زین جو ابھی آفس سے ایس تھا حنی کو دیکھتے ہوئے نارمل انداز میں کہا ۔۔۔

" آپ کو پتہ تھا کہ یہ آ رہا ہے ؟"
ہامی اس کے انداز پر سمجھ گئ تھی کہ وہ پہلے سے جانتا ہے ۔۔

جس پر دونوں بھائیوں نے کندھے اچکا دیے۔۔۔۔

" زین آپ فریش ہو جائیں میں آپ کے لیے چائے لاتی ہوں ۔"
ہانی زین کو حیرتوں کے سمندر میں غوطہ لگاتے چھوڑ کے کچن میں چلی گئی ۔۔۔

جبکہ وہ حیران سا کمرے میں چلا گیا۔۔۔

فریش ہو کر باہر نکلا تو ہانی اسی کے انتظار میں کھڑی تھی ۔ وہ کچھ نروس اور کنفیوز لگ رہی تھی ۔۔ چائے سامنے ٹیبل پر ہی پڑی تھی ۔۔۔

زین نے خاموشی سے چائے اٹھائی اور اللّٰه کا نام لے کر پینے کے لیے چا ئے منہ سے لگائی۔ کہ نا جانے اب کیا ملایا ہو اس نے۔۔۔

لیکن مشید حیرت تب ہوئی جب چائے بلکل ٹھیک تھی ۔۔

" ہانی تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا ۔"
زین چائے واپس رکھتا اس کے قریب آ کر اب اس کا ماتھا چھو کر دیکھ رہا تھا کہ کہیں اسے بخار تو نہیں ۔۔۔

" پلیز زین ایک تو میں پہلے اتنی نروس ہو رہی ہوں اوپر سے آپ میرا مزاو مت بنائیں۔"
ہانی نے جھنجلاتے ہوۓ اس کے ہاتھ پیچھے کیے۔۔۔۔

" اچھا تو کیوں نروس ہیں مس ہانی!"
زین سینے پر بازو باندھ کر کھڑا ہو گیا اور غور سے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے آئبرو اچکا کر پوچھا ۔۔۔

" وہ میں آپ ۔۔نہیں مکرا مطلب آپ مجھ سے۔۔۔ اہووو مجھے سمجھ نہیں آ رہی میں کیسے بولوں۔"
ہانی بے بسی سے اس دیکھ کر رہ گئی ۔۔۔

" کچھ بھی مت بولو ہانی! ہر بات کہنے کے لیے الفاظ ضروری نہیں ہوتے۔۔۔ کچھ باتوں کو آنکھوں سے پڑھ لینا چاہیے ۔۔۔ کچھ باتوں کو دل سے محسوس کرنا چاہیے۔۔۔"

آہستہ سے کہتا وہ اس کے قریب ہوا اور اسے اپنے بازؤں کے حصار میں لے چکا تھا ۔۔۔ اور آہستہ سے اس کے در پر اپنی مہر محبت ثبت کی تھی ۔۔

ہانی نے سر اد کے سینے پر ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔۔۔ بے شک محبت کو الفاظ کی ضرورت نہیں ہوتی ۔۔۔ ادے تو محسوس کیا جاتا ہے ۔۔۔ بنا بولے دوسرے کے دل کا حال جان لینا ہی محبت ہے۔۔۔

اور وہ ہمسفر ہی کیا جو اپنے ساتھی کے دل کی بات بنا سنے نہ جان پائے۔۔۔۔

اس حصار کو ہادی کی آواز نے توڑا تھا ۔۔۔

" ہاااااا! بابا کتنے بے سرم ( بے شرم) ہیں آپ لود ( لوگ)..."
ہادی نے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا۔

" کیوں کیا ہوا ؟ اور کس نے یہ باتیں سکھائ آپ کو؟"
ہامی نے آگے بڑھ کے اس کا گال چھوتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

" وہ ابھی تی وی( ٹی وی) پر بھی دو لود ( لوگ ) ایسے ہی کھرے ( کھڑے ) تھے تو آنی نے کہا یہ بے سرمی ( بے شرمی ) ہے ایسی چیزیں مت دیکھا کرو۔۔ اور میں نے آپ کو بھی نہیں دیکھا ۔۔۔"
ہادی نے پوری بات بتاتے ہوئے آخر میں ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ لیا۔۔۔

اس کے اس انداز پر ہانی کھلکھلا کر ہس دی جبکہ زین بھی مسکرا دیا ۔۔۔

اس کی فیملی آج مکمل ہو گئی تھی ۔۔۔ اسے اس کی ہمسفر کا ساتھ مل گیا تھا ۔۔۔
سکون سے اس نے اپنی آنکھیں موند لیں۔۔۔۔

ختم شد!
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

Han g to kasa lga complete novel bht sary likes r comments kr k btain taky mera bhi dil khush ho jay r apny lmby lmby reviews bhi dain is k bary ma... Jldi mulakat ho gi nay novel k sath❤❤😍😍 tb tk apna khayal rkhye ga sb🌹🌹

Want your public figure to be the top-listed Public Figure in Chakwal?
Click here to claim your Sponsored Listing.

Address

Chakwal

Other Chakwal public figures (show all)
M IQBAL HUSSAIN BALOCH - (Chacha Bali) M IQBAL HUSSAIN BALOCH - (Chacha Bali)
Chakwal

اللھم لعن قتل الامام الحسینؑ و اولاد الحسینؑ و اصحاب الحسینؑ

Nasir__Studio Nasir__Studio
Chakwal

Slowd And Reverb all category songs

Motu Patlu Motu Patlu
Chakwal

Motu patlu �

Criminal minded Criminal minded
Chakwal

This page create For entertainment so like this page people of asia �

PUBG Sikandar PUBG Sikandar
Chakwal

dhol Master Irfan Fani dhol Master Irfan Fani
Chetal
Chakwal, 786

dhol

M***i Pir Syed Luqman Shah Offical M***i Pir Syed Luqman Shah Offical
Chakwal
Chakwal

اسلامک سکالر

Vedio page Vedio page
Chakwal

Abdullah Asad Chakwal Abdullah Asad Chakwal
Chakwal

I am Abdullah Asad.

MG-MART.com MG-MART.com
Chakwal

This is "MG-STUDIOS" Official page

خطیب آل محمد سید جعفرعمارنقوی خطیب آل محمد سید جعفرعمارنقوی
District Chakwal Tahseel Choa Sayedan Shah Basharat
Chakwal, 48800

I am a little servant of Al-Muhammad as

Qasimツ Qasimツ
Chakwal, CHAKWAL

"" is an Islamic page that works to spread the teachings of Ahlebait AS throughout the world in easiest way. Support us to share Islamic knowledge in all over the World. Follow ou...