Dera Discovery
Our aim is to highlight history and expose the new generation to history in an authentic way.
سمانہ گاؤں ریاست پٹیالہ انڈیا سے اج سے کئی سال پہلے ایک خاتون جس کا نام اوشا تھا ۔ اس نے پوسٹ افس خوشاب کے پتے پر ایک خط بھیجا تھا ۔ معلوم نہیں وہ خط اب کہاں ہوگا ؟مجھے ایک دوست کی وساطت سے اس خط کا مضمون معلوم ہوا تو اپنے الفاظ میں اسے اوشا کی زبانی اپ تک پہنچا رہا ہوں ۔
محترم پوسٹ ماسٹر صاحب
اداب عرض
اپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں یہ خط اپ کو کیوں لکھ رہی ہوں ؟اور اپ سے میرا کیا واسطہ ہے ۔ جی تو سنیے اپ کے پاس بہت سے ہرکارے (ڈاکیے) ہیں ۔ جو خوشاب کے مختلف محلوں میں دنیا بھر سے ائی ہوئی ڈاک پہنچاتے ہیں ۔ ان ہرکاروں میں سے ایک ہرکارا بڑا خوش قسمت ہے ۔ جو روز اس دربار کی زیارت کر کے اتا ہے ۔ جس کی زیارت کو تا عمر میری نگاہیں ترستی رہیں گی ۔ محلے سے مراد گلی ملکہ والی ہے ۔ اور دربار سے مراد اس محلے میں واقع میرا وہ گھر ہے جس کی خوشبو کے جھونکے ہر ساعت میرے دل پر دستک دیتے ہیں ۔ اپنے ہرکارے سے کہیے یا خود تشریف لے جائیے ۔ اپ ملکہ والی گلی میں داخل ہوئے ۔ دائیں طرف سے مکان گنیے ۔ جب اپ دسویں دروازے پر پہنچیں گے ۔ تو اپنے قدموں کو روک لیجئے ۔ ہولے ہولے بڑے پیار سے قدم اٹھائیے اگلا گھر اوشا کا گھر ہے ۔ ہائے یہ کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو اتا ہےکہ اوشا سے خوشاب شہر اور یہ گھر چھوٹ گیا ہے۔ اوشا اب خوشاب میں نہیں ہے ۔ اب خوشاب اوشا میں ہے ۔ پوسٹ ماسٹر صاحب اگے کا خط اس گھر کی نئی مالکن کے نام ہے۔ ۔ اپ دروازے پر دستک دیجئے اس گھر کی مالکن تک میرا خط پہنچائیے ۔ اپ کی بڑی مہربانی اپ کی نوازش کے اپ نے میرا خط اس گھر تک پہنچایا۔
میری بہن۔
کاش میں اپ سے ملی ہوتی کاش میں نے اپ کو دیکھا ہوتا ۔ شاید دنیا میں مجھے کسی دوسرے شخص سے ملنے کی اتنی تڑپ نہ ہو جتنی اپ سے ہے ۔ جس گھر میں اپ رہ رہی ہیں یقین جانیں اپ بڑی خوش قسمت ہیں کہ اپ کو رہنے کے لیے اوشا کا گھر ملا ۔ مجھے تو یقین ہی نہیں اتا کہ خوشاب مجھ سے چھوٹ گیا ہے ۔ صبح کو جب بھی جاگ اتی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میں خوشاب میں ہوں ۔ پھر دھیرے دھیرے حقیقت کھلتی ہے کہ میں خوشاب سے بہت دور سمانہ میں ہوں ۔ درمیان میں نہ جانے کتنے دریا ہیں نہ جانے کتنے پہاڑ ہیں صحرا شہر اور ابادیاں ہیں ۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وقت ہمیں ایسا پلٹا دے گا ۔ بہت جی کرتا ہے کہ پر لگ جائیں اور میں ۔۔۔۔۔۔۔
شاید اب تو عمر بھر یہ ارمان پورا نہ ہو ۔ عمر بھر اسی کسک اور حسرت سے جینا پڑے گا ۔۔۔۔۔
میں اپنا دکھڑا لے کر بیٹھ گئی بہنا تم بھی نہ جانے کس دیس سے , اور کتنی کٹھنائی سہ کر اوشا کے گھر پہنچی ہوگی , شاید میری طرح یہ اجنبی گھر تمہیں بھی ڈستا ہو , شاید تم بھی راتوں کو اٹھ اٹھ کر فریادیں کرتی ہوں , شاید تمہارا بھی ہر پل بے قراری میں گزرتا ہو , میری بہنا تم بھی میری طرح مجبور ہو گی میں اپنے لیے کچھ نہیں کر سکتی تو تو تمہارے لیے کیا کر سکتی ہوں ۔ ہاں مجھے تم سے ہمدردی ضرور رہے گی ۔اور میری دعا ہوگی کہ تمہارا دل اوشا کے گھر میں لگ جائے ۔
بہنا اتنا تو تمہیں پتہ چل گیا ہوگا کہ اوشا نے یہ خط تمھیں کسی غرض کی بنا پر لکھا ہے۔ تمہاری محرومیاں اور بے بسیاں اپنی جگہ کچھ پل کے لیے اوشا کے دل کا حال سن لو ۔ بہنا یہ گھر مجھے بہت پیارا ہے ۔ میری تمنا ہے کہ اس گھر میں تمہیں ڈھیر ساری خوشیاں ملیں ۔ تمہارے سر کا سائیں سلامت رہے تمہارے بچوں کی خیر ہو ۔ اگر ہو سکے تو اس گھر سے محبت کرنا . نچلی منزل میں تین کمرے اور ایک کچن ہے ۔ دائیں طرف کے کمرے کی ایک کھڑکی کچن کی طرف کھلتی ہے ۔ اس کمرے کو اپنا مسکن بنانا اس کے دو فائدے ہوں گے ۔ اپ کے لیے کچن کی امد و رفت اسان ہوگی ۔ دوسرا باہر کا صدر دروازہ جب کھٹکھٹایا جاتا ہے۔ تو اپ کو دستک اسانی سے سنائی دے گی اس کمرے میں ملکیت کے عناصر بہت زیادہ ہیں ۔ درمیان کا کمرہ بچوں کو اور بائیں جانب کا کمرہ بزرگ یا دوسری خواتین کے لیے خاص کر دیجئے گا ۔ کچن میں کسی کی قسم کی تبدیلی مت کیجیے گا ۔ برامدے کے اگے انگور کی بیل لگی ہوئی تھی اگر نامساعد حالات سے وہ فنا ہو گئی ہو تو دوسری بیل منگوا لیجے ۔ انگن میں میرے سر تاج کبھی کبھی کلہاڑی سے لکڑیاں چیرتے تھے ۔ میرا اکثر ان سے اس بات پر جھگڑا ہوتا ۔ اس وجہ سے انگن کے کچھ ٹائل خراب ہو گئے تھے مجھے امید ہے اپ نے انگن کے ٹائل بدلوا لیے ہوں گے ۔ اوپر والی چھت کو اپ اپنا دوسرا گھر سمجھیں ۔ اگر کبھی صاحب سے لڑائی یا جھگڑا ہو جائے تو اور کہیں جانے کی ضرورت نہیں انکھ بچا کر اوپر چلی جائیے ۔ ہو سکتا ہے انہیں تمہیں منانا ہو اب نچلی منزل میں وہ سب کے سامنے تمہیں تھوڑی منا سکتے ہیں اسکے علاوہ اگر اپ کے گھر میں افراد زیادہ ہیں تو اپ اوپر والی چھت کے دو کمرے بھی استعمال کر سکتے ہیں ۔ جنوب کی طرف کی پڑوسیوں سے ملحق دیوار تھوڑی سی اونچی کروا لیجیے
گرمیوں میں رات کو اگر اوپر والی چھت پر سونا ہو تو شام سے پہلے پانی کا چھڑکاؤ ضرور کیجئے گا ۔ مجھے امید ہے اپ کے دائیں بائیں اور سامنے والے پڑوسی سب ہی بہت اچھے ہوں گے ۔ دن اور رات میں ایک ادھ مرتبہ ان سے سلام دعا ضرور کیجئے گا۔ اوشا کی روح چونکہ ابھی تک وہی ہے اس لیے اس سے بھی ملتے جلتی رہیے گا۔ اس سے شاید اوشا کو کچھ قرار سا ا جائے ۔ سال کے بعد ہم اپنے گھر کی چونا صفائی کرتے تھے۔ مجھے دروازوں کے لیے ہرا رنگ پسند تھا اور صاحب کو گلابی تو طے یہ ہوا تھا کہ ایک سال دروازے ہرے رہیں گے اور اگلے سال ان پر گلابی پینٹ ہوگا ۔ کمروں کے اندر ہلکا سبز رنگ کی مٹی کا برش دیا جاتا ۔ تمام کمروں میں برتنوں کی لیے کانس اور باورچی خانے میں ایک بہت بڑا نعمت خانہ موجود تھا ۔ نعمت خانہ کی جالی بہت مضبوط تھی ۔ مجھے امید ہے اس نعمت خانے کو سو سال تک کچھ نہیں ہونے والا , اگر اپ کے پاس بجلی کا فالتو پنکھا ہو تو نعمت خانے کی بائیں جانب کی جالی کی طرف سے سخت گرمیوں میں لگا دیجئے گا ۔
صبح صبح ایک دو انے اپنے گھر اور بچوں کا صدقہ ضرور اتاریے گا ۔
دعا ہے کہ سرحدوں کے تنازعےختم ہوں اور ہم ایک دوسرے کے پاس جا کر رہ سکیں ۔ بتائے دیتی ہوں اگر خوش قسمتی سے کہیں ایسا موقع ائے تو میں مہمان بن کر چھت پر نہیں ٹھہروں گی ۔ اپنے کمرے میں ہی ٹھہروں گی مجھے امید ہے چند دن کے لیے اپ مجھے برداشت کر لیں گی ۔
ہجرت بہت بڑا عذاب ہے ۔ یہ درد وہی محسوس کر سکتا ہے ۔ جو اس درد سے گزرا ہو , بہت سی قربانیاں دینا پڑتی ہیں ۔
اوشا
اندرون لاہور ٹکسالی دروازہ سے مین بازار میں داخل ہو تو چند قدم کے فاصلے پر بایئں جانب نیلے رنگ کے خوبصورت نقش ونگار اور بالکنیوں پر مشتمل ایک قدیمی مکان واقع ہے۔ جس کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ اپنے زمانے کا خوبصورت ترین مکان ہو گا۔ اس مکان کی وجہ شہرت یہ ہے کہ مشہور گلوکارہ و اداکارہ ملکہ ترنم نور جہاں 1938 تا 1942 اس مکان میں رہائش پزیر رہیں۔ مکان کے نیچے دکانیں بن چکی ہیں۔ یہ خوبصورت مکان اب کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے اور ویران پڑا ہے۔ اس مکان کے متعلق مزید کوئی معلومات دستیاب نہ ہو سکی ہیں۔
یہ ڈیڑھ منٹ کی ویڈیو بچپن کی یادوں سے ہوتے ہوئے آپ کو آپ کے ماضی (Nostalgia) کے دور میں لے جائے گی اور آپ بہت حسین محسوس کرنے لگیں گے۔
آواز کسی اور کی ہے لیکن ایڈیٹنگ میری ہے ہاں آواز جس کسی کی بھی ہی کمال کی یادیں دوہرا گیا ہے 🌹❤️
پٹودی کے نواب اپنی دلہن ساجدہ سلطان بھوپال کے ساتھ ان کی شادی کے دن 1939 میں۔
علیراج پور کا راجواڈا محل۔
علیراج پور وسطی ہندوستان میں راٹھور راجپوت خاندان کی ایک پرنسلی ریاست تھی۔
مدھیہ پردیش، انڈیا۔
تخت طاؤس، میور تخت مغلوں کا شاہی تخت سمجھا جاتا تھا۔ اس تخت میں قیمتی پتھر کے ہیرے اور سونا رکھا گیا تھا، اس کو بنانے میں 1150 کلو سونا استعمال کیا گیا تھا۔ سونے کے علاوہ 230 کلو قیمتی پتھر بھی لے گئے۔
شاہجہاں تخت طاؤس پر بیٹھنے والے آخری شہنشاہ تھے، اس کی قیمت تقریباً 4.5 ارب روپے تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ تاج محل سے بھی زیادہ لاگت پر تعمیر کیا گیا تھا، جس کی تعمیر میں نادر شاہ تخت طاؤس کو 1739 میں سات سال لگے تھے، اسے لوٹ کر ایران لے جایا گیا تھا۔
ٹیپو سلطان کے دور کا سکہ
سرگودھا کی تحصیل شاہپور شہر میں موجود ایک اور قدیم ہندووں کا مندر جس میں کیلی گرافی ورک اور ہندوؤں کے دیوی دیوتاؤں کی تصاویر اور ہندی زبان کے کچھ الفاظ ابھی تک موجود ہیں یہی خیال کیا جاتا ہے کہ ان علاقوں جن میں ، سرگودھا ، بھیرہ ، سلانوالی ان سب میں موجود جتنے بھی مندر ہیں ان سب میں سے یہ سب سے قدیم مندر ہے ۔ ۔ ۔ ❤💛💙
ایک صوفی بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو سلفی باغی کے طور پر سزا سنائی گئی۔
کورٹ مارشل آخری بار 9 مارچ (1858) کو بیٹھا اور صبح 11 بجے، بھیڑ بھاڑ والے کمرہ عدالت کے سامنے، ہیریئٹ نے اپنی اختتامی تقریر کی۔ ڈھائی گھنٹے تک انہوں نے بغاوت کے بین الاقوامی اسلامی سازش ہونے کے اپنے نظریہ کو دوبارہ واضح کیا۔ 'میں نے نشاندہی کرنے کی کوشش کی ہے'، اس نے اعلان کیا، 'قیدی، ہندوستان میں محمڈن عقیدے کے سربراہ کے طور پر، اس سازش کی تنظیم سے، یا تو اس کے لیڈر یا اس کے بے ایمان ساتھی کے طور پر، کس قدر گہرائی سے جڑا ہوا ہے۔
سہ پہر 3 بجے سے ٹھیک پہلے، جج اپنے فیصلے پر غور کرنے کے لیے ریٹائر ہو گئے۔ چند منٹوں کے بعد، وہ متفقہ طور پر ظفر کو 'سب اور ان کے خلاف لگائے گئے الزامات کے ہر حصے کا مجرم قرار دینے کے لیے واپس آئے۔]
صوفی بادشاہ بہادر شاہ ظفر 7 نومبر 1862 بروز جمعہ صبح 5 بجے 87 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔
ظفر کی موت کی خبر پندرہ دن بعد 20 نومبر کو دہلی پہنچی۔ غالب نے اودھ اخبار میں خبر پڑھی، اسی دن اعلان ہوا کہ جامع مسجد آخر کار دہلی کے مسلمانوں کو واپس دے دی جائے گی۔ بہت ساری دیگر اموات اور سانحات کی خبروں سے پہلے ہی بے ہوش، غالب کا رد عمل مستعفی ہو گیا اور خاموش ہو گیا۔ 7 نومبر بروز جمعہ اور 14 جمادی الاول کو ابو ظفر سراج الدین بہادر شاہ پردیسی اور جسم فروشی کے بندھنوں سے آزاد ہوئے۔ ’’بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور یقیناً ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔]
ولیم ڈیلریمپل کی کتاب 'دی لاسٹ مغل' پی پی 442-443 اور 475 سے۔
چنانچہ بیچارے صوفی بادشاہ کو کینگرو کی عدالت میں سلفی مجرم کے طور پر سزا سنائی گئی۔ ان پر ہندوستان اور بیرون ملک برطانوی سلطنت کے خلاف عوامی فوجی بغاوت کا الزام لگایا گیا تھا۔ ہم برصغیر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مضبوط سماجی تانے بانے کو مضبوط کرنے میں صوفیانہ ہندوستانی صوفیاء کے کردار سے انکار نہیں کر سکتے۔ تاہم انگریزوں کے خلاف انفرادی بازو کی جدوجہد سلفی نے شروع کی تھی جس سے ہم انکار نہیں کر سکتے۔
ہمیں خوشامد اور الزام تراشی سے گریز کرنا چاہیے، دونوں مسلم فرقوں نے ہمارے معاشرے اور ہماری جدوجہد آزادی کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ حملہ آور ہمیں الزام دینے اور سزا دینے کے لیے ہمیشہ کچھ وجوہات تلاش کریں گے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم کس فرقے یا حکم پر عمل کرتے ہیں۔
ذیل میں بہادر شاہ ظفر کی ان کے دو زندہ بچ جانے والے بیٹے اور ایک انگریز، غالباً مسٹر ہیریئٹ کے ساتھ نایاب تصویر ہے۔
*میرے گھر کا نلکا نہیں ہے ہر روز باہر سے پانی بھرنا پڑتا ہے جب کبھی میں گھر میں نہیں ہوتا گھر والوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے مزدوری پیشہ فرد ہوں*
السلام علیکم
ڈیرہ اسماعیل خان انڈس کالونی میں ایک انتہائی غریب ترین گھرانے کے لیے ایک عدد ہینڈ پمپ( نلکا ) لگوا کے دینا ہے جس کے لیے اپ تمام دوست احباب کا خصوصی تعاون ہمیں چاہیے ۔
نوٹ:اگر کوئی دوست ہینڈ پمپ لگوا کے دینا چاہے تو درج ذیل نمبر پر رابطہ فرمائیں۔
رابطہ نمبر:03453937041
ایزی پیسہ ڈونیشن نمبر:
03414641750
اکاؤنٹ نام: غلام یسین
مسلم سائنس دانوں کا جو حشر مسلمانوں کے ہاتھوں ہوا وہ عوام کو نہیں بتایا جاتا۔ آج بڑے فخر سے کہا جاتا ہے کہ وہ ہمارے مسلم سائنس دان تھے اگرچہ علم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ان میں سے چھ سائنسدانوں کا مختصر احوال پیش خدمت ہے
یعقوب الکندی
فلسفے، طبیعات، ریاضی، طب، موسیقی، کیمیا اور فلکیات کا ماہر تھا۔ الکندی کی فکر کے مخالف خلیفہ کو اقتدار ملا تو مُلّا کو خوش کرنے کی خاطر الکندی کا کتب خانہ ضبط کر کے اس کو ساٹھ برس کی عمر میں سرعام کوڑے مارے گئے۔ ہر کوڑے پر الکندی تکلیف سے چیخ مارتا تھا اورتماش بین عوام قہقہہ لگاتے تھے۔
ابن رشد
یورپ کی نشاۃ ثانیہ میں کلیدی کردار ادا کرنے والے اندلس کے مشہورعالم ابن رشد کو بے دین قراردے کراس کی کتابیں نذرآتش کر دی گئیں۔ ایک روایت کے مطابق اسے جامع مسجد کے ستون سے باندھا گیا اورنمازیوں نے اس کے منہ پر تھوکا۔ اس عظیم عالم نے زندگی کے آخری دن ذلت اور گمنامی کی حالت میں بسر کیے۔
ابن سینا
جدید طب کے بانی ابن سینا کو بھی گمراہی کا مرتکب اورمرتد قراردیا گیا۔ مختلف حکمران اس کے تعاقب میں رہے اوروہ جان بچا کر چھپتا پھرتا رہا۔ اس نے اپنی وہ کتاب جو چھ سو سال تک مشرق اورمغرب کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی گئی، یعنی القانون فی الطب، حالت روپوشی میں لکھی۔
ذکریا الرازی
عظیم فلسفی، کیمیا دان، فلکیات دان اور طبیب زکریا الرازی کوجھوٹا، ملحد اورکافر قرار دیا گیا۔ حاکم وقت نے حکم سنایا کہ رازی کی کتاب اس وقت تک اس کے سر پر ماری جائے جب تک یا تو کتاب نہیں پھٹ جاتی یا رازی کا سر۔ اس طرح باربارکتابیں سرپہ مارے جانے کی وجہ سے رازی اندھا ہو گیا اوراس کے بعد موت تک کبھی نہ دیکھ سکا۔
جابر ابن حیان
جسے مغربی دنیا انہیں جدید کیمیاء کا فادر کہتے ہیں جس نے کیماء ، طب ، فلسفہ اور فلکیات پر کام کیا۔ جس کی کتاب الکینیاء اور کتاب السابعین صرف مظرب کی لائبریریوں میں ملتی ہے ۔ جابر بن حیان کا سے انتقامی سلوک : حکومت وقت کو جابر کی بڑھتی ہوئی شہرت کھٹکنے لگی۔ جابر کا خراسان میں رہنا مشکل ہو گیا۔ اس کی والدہ کو کوڑے مار مار کر شہید کر دیا گیا۔ جابر اپنی کتابوں اور لیبارٹری کا مختصر سامان سمیٹ کر عراق کے شہر بصرہ چلا گیا۔ بصرہ کے لوگ جابر کے علم کے گرویدہ ہو گئے۔ جابر جیسی کیمیا گری اور علمی گفتگو انہوں نے اس سے قبل کبھی نہیں سنی تھی۔
جابر نے انہیں زمین سے آسمان اور زمین سے اس کی تہوں تک کا سفر کروا دیا۔ حاکم بصرہ کو بھی اس کی شہرت برداشت نہ ہوئی ۔ حاکم کے درباری جابر کی بڑھتی ہوئی علمی شہرت اور مسلکی اختلاف کو حکومت کے لیے خطرہ سمجھنے لگے۔ ایک دن جابر کو الزامات کی زد میں لا کر قاضی بصرہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ قاضی نے حاکم کی ایما پر جابر کو سزائے موت سنا دی۔ اور یوں جس جابر بن حیان کو آج مغرب بابائے کیمیا ”Father of Chemistry“ کہتی ہے، اس کی کیمیا گری، علم اور سائنسی ایجادات کو اس کے اپنے ہم مذہبوں نے جادوگری، کذب اور کفر قرار دے دیا۔۔
Copied
نیلی وہیل، جس کی لمبائی 29.9 میٹر (98 فٹ) تک ہے اور اس کا زیادہ سے زیادہ ریکارڈ شدہ وزن 173 ٹن ہے، یہ اب تک کا سب سے بڑا جانور ہے۔
یہ تصویر، کیلیفورنیا میں لی گئی ایک فوٹیج کا حصہ ہے، جو نیلی وہیل کا پیمانہ دیتی ہے۔
السلام علیکم
معزز دوست احباب یہ ویڈیو ہمارے ایک بہت ہی پیارے دوست جناب ملک جاوید بھٹی صاحب نے بڑی محنت اور خلوص سے بنائی ہے اگر اپ دوستوں کو یہ ویڈیو اچھی لگے تو اس کو اگے لازمی شیئر کیجئے۔
انسان کی زندگی کب بدلتی ہے۔؟
سقراط: جب وہ جانتا ہے کہ وہ نہیں جانتا۔
سینکا: جب وہ اپنی قابلیت کی حدوں کو جانتا ہے۔
فیوڈور دوستوفسکی: جب وہ تنہائی کا شکار ہوتا ہے۔
فریڈرک نطشے: جب وہ خود سے آگے نکل جاتا ہے۔
سارتر: جب وہ اپنی آزادی پر یقین رکھتا ہے۔
فرینک وکٹر: جب وہ اپنی زندگی میں معنی تلاش کرتا ہے۔
شوپن ہاور: جب وہ اپنی مرضی سے تجاوز کرتا ہے۔
سائوران: جب وہ مر جاتا ہے۔
اسپینوزا: ہم اپنی آزادی کے جواب میں نہیں بلکہ ضرورت کے تقاضوں کے مطابق بدلتے ہیں۔
میلان کنڈیرا: ہم تب بدلتے ہیں جب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یہ دنیا مرمت سے باہر ہے۔
سیمون ڈی بیوویر: جب کوئی شخص اپنے دل کو الٹی کرتا ہے۔
کارل جنگ: جب ہم خود کو سمجھتے ہیں اور اس کے تاریک پہلو اور برائی کے بیج دیکھتے ہیں۔
اور آپ سب کیا کہتے ہیں۔؟؟
18ویں صدی کی اس چھوٹی سی پینٹنگ، جس کا مناسب عنوان ہے "Lovers in a Landscape"، مغل آرٹسٹ میر کلان خان کی ایک نوجوان جوڑے کو ایک لمبی گردن والی عورت کی کارکردگی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ جوڑا 150 سال پہلے اصفہان، ایران کے فارسی ملبوسات میں ملبوس ہے، جب کہ تفریح کرنے والا ہندوستانی ہے اور دائیں طرف کے درخت یورپی ہیں۔ یہ شمالی ہندوستان کے شہر لکھنؤ کے ثقافتی تنوع کی ایک مثال ہے، جو 18ویں صدی تک عروج پر پہنچ گیا، جس نے بہت سے فارسی، جنوبی ایشیائی، برطانوی اور یورپی باشندوں کو اپنی خوشحالی سے اپنی طرف متوجہ کیا۔ ہمارے جنوری-فروری 2011 کے شمارے میں، کیوریٹر توشارا بندو گوڈے نے لکھنؤ کے کاسموپولیٹن مغل دارالحکومت کے فن کی تفصیلات بیان کیں، جس نے اسٹائلسٹک محاوروں کے اسپیکٹرم کو اپنایا۔ رسائی کے لیے، https://shorturl.at/gslps ملاحظہ کریں۔ تصویر: میر کلاں خان (سرکا 1734–1770)، "Lovers in a Landscape"، انڈیا، اتر پردیش، لکھنؤ، سرکا 1760–1770، کاغذ پر مبہم واٹر کلر، ڈیوڈ کلیکشن (ڈیوڈس سیملنگ)
بارود کی سلطنتیں:
شکاگو یونیورسٹی میں مارشل جی ایس ہڈسن اور ولیم ایچ میک نیل نے تین ابتدائی جدید مسلم سلطنتوں کا حوالہ دینے کے لیے "گن پاؤڈر ایمپائرز" یا اسلامی گن پاؤڈر ایمپائرز کی اصطلاح بنائی:
1. سلطنت عثمانیہ،
2. صفوی سلطنت، اور
3. مغلیہ سلطنت،
یہ سلطنتیں 16ویں صدی کے وسط سے 18ویں صدی کے اوائل تک پروان چڑھیں۔ یہ تینوں سلطنتیں ابتدائی جدید دور کی سب سے زیادہ مستحکم تھیں، جس کے نتیجے میں تجارتی توسیع اور ثقافتی سرپرستی حاصل ہوئی، جبکہ ان کے سیاسی اور عدالتی نظام تیزی سے مرکزیت اختیار کرتے گئے۔ ان کا تعلق وسطی یورپ اور مغرب میں شمالی افریقہ سے لے کر مشرق میں بنگال اور اراکان تک تھا۔
ہڈسن کے ساتھی ولیم ایچ میک نیل نے اپنی کتاب "دی ایج آف گن پاؤڈر ایمپائرز" میں مشرقی ایشیائی، جنوبی ایشیائی اور یورپی سلطنتوں سمیت متعدد تہذیبوں میں بارود کے استعمال کی تاریخ کو وسعت دی۔
بارود کی سلطنتوں نے سامراجی توسیع کے دوران نئی ایجاد کردہ بندوقوں، خاص طور پر توپ اور چھوٹے ہتھیاروں کے استعمال اور ترقی کے ذریعے وسیع پیمانے پر زمین پر قبضہ کر لیا۔ یورپ کی طرح، بارود کے ہتھیاروں کے تعارف نے مرکزی بادشاہی ریاستوں کے عروج جیسی پیش رفت کو فروغ دیا۔
ذیل میں گن پاؤڈر سلطنتوں کا نقشہ ہے جس میں ان کی مشہور توپیں شامل ہیں۔
1. مغل توپ
2. عثمانی توپ قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔
3. صفوی توپ۔
19ویں جیپ ریلی چولستان میں مشہور ریسر نادر مگسی کی گاڑی کو حادثہ۔
حادثے کی ویڈیو ملاحظہ فرمائیں
اکثر دیکھا گیا ہے کہ عوام الناس گاڑیوں کے بہت قریب اپنی بائی سائیکل و موٹر سائیکل وغیرہ ٹریک کے بالکل قریب لے جاتے ہیں اور بعض اوقات ڈرفٹنگ کے باعث ایسی گاڑیاں حادثے کا شکار ہو جاتی ہیں جس میں قیمتی جانے اکثر ضائع ہو جاتی ہیں
میندھا ٹوپ: اورنگ زیب کی توپ۔
دولت آباد قلعہ پر مغلوں نے 1633 میں قبضہ کر لیا تھا۔ جب اورنگزیب نے خود کو شہنشاہ قرار دیا تو اس کے دو اہم فرائض تھے: اپنے تمام مخالفین کو زیر کرنا اور اپنی سلطنت کی سرحد کو محفوظ بنانا۔ دولت آباد قلعہ مرہٹوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک اہم چوکی تھی۔
اس قلعے کو مزید مضبوط بنانے کے لیے، اس نے ہندوستان میں استعمال ہونے والے ایک خاص مرکب سے بنی دوسری سب سے بڑی توپ نصب کرنے کا حکم دیا، جسے 'میندھا ٹوپ' یا 'رام ہیڈ کینن' کہا جاتا ہے، یہ توپ خاص طور پر افغانستان میں شہنشاہ اورنگزیب کے لیے کاریگر محمد نے تیار کی تھی۔ حسین عرب۔ توپ پر اورنگ زیب کا نام بھی کندہ ہے۔
توپ پر جانوروں کی چند تصویریں کھدی ہوئی ہیں:
1. کینن کے نایاب سرے کی شکل ایک مینڈھے کے سر کی طرح ہے۔ رام کو علامت کے طور پر کیوں چنا گیا؟ رام بغیر کسی تھکاوٹ کے مسلسل لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
2. توپ پر دو شیر طاقت اور ظلم کی نمائندگی کرتے ہیں۔
توپ کی خاص خصوصیات:
1. جھٹکا جذب کرنے والا نظام۔
2. ایک اچھا زاویہ کا احاطہ کرنے کے لئے صرف 180 ڈگری گردش؛ تاہم، اگر حملہ آور توپ کو پکڑ لیتے ہیں، تو وہ اسے دولت آباد قلعہ کی طرف موڑ نہیں سکیں گے۔
3. پہاڑی غیظ و غضب سے آگے لمبی دوری تک فائر کرنے کی طاقت۔ دشمنوں کو دور رکھنے کے لیے۔
4. قلعہ کے کنارے پر ٹاور پر رکھا۔
سامنے کی ایک اور کندہ کاری کہتی ہے، نَﺼْﺮٌ ﻣِّﻦ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﻭَﻓَﺘْﺢٌ ﻗَﺮِﻳﺐٌ۔
ذیل میں چند تصاویر ہیں۔
بہادر شاہ ظفر کا تاج - آخری بادشاہ 👑~ 1857 کی ہندوستانی بغاوت کے بعد بہادر شاہ (1775-1862)، برائے نام آخری مغل شہنشاہ اور دہلی کا بادشاہ، معزول کر دیا گیا۔ اور برما جلاوطن ہو گئے، اور حکومت ہند میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی شمولیت بند ہو گئی۔ دہلی میں مغل سلطنت کا باضابطہ خاتمہ بہادر شاہ کے دربار کے زیورات اور دیگر قیمتی آثار کی نیلامی سے نشان زد ہوا۔ اس طرح کے تین آثار، شہنشاہ کا نام نہاد تاج اور دو تخت کرسیاں، میجر رابرٹ ٹائٹلر (1818-72) نے 38ویں رجمنٹ آف مقامی انفنٹری (بنگال) کے میجر رابرٹ ٹائٹلر (1818-72) نے خریدے تھے، جنہوں نے دہلی کے محاصرے میں حصہ لیا تھا۔ 1860 میں انگلینڈ واپسی پر ٹائٹلر نے ایک بانڈ اسٹریٹ جیولر کی طرف سے تاج کے لیے £1,000 سے انکار کر دیا، اس کے بجائے ملکہ وکٹوریہ کو آثار پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ 3 جنوری 1861 کو، سر چارلس ووڈ (1800-1885؛ بعد میں ویزکاؤنٹ ہیلی فیکس)، سکریٹری آف اسٹیٹ فار انڈیا، نے انڈیا آفس سے پرنس البرٹ کو خط لکھا، جس میں خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے ٹائلر کے آثار سے متعلق ایک یادداشت منسلک تھی۔ سر کے لباس کا ایک مضمون جو یہاں لایا گیا ہے … تاہم اسے تاج نہیں کہا جا سکتا۔ یہ ایک بہت ہی بھرپور کھوپڑی کی ٹوپی ہے جو شہنشاہ کے سر پر پہنی جاتی ہے، اور اس کے نچلے حصے کے گرد جس کے پگڑی کو زخم تھا - اور پگڑی کے زیورات میں رکھا گیا تھا۔‘‘ سر چارلس نے ریکارڈ کیا کہ سر جان لارنس (1811-79، ہندوستان کی کونسل کا رکن اور بعد میں وائسرائے)۔ نام نہاد تاج دیکھا تھا 'اور اس میں کوئی شک نہیں کہ شہنشاہ نے اصل میں کیا پہنا تھا'۔ جواب میں، شہزادہ (جس نے فوری طور پر اوشیشوں کی عظیم علامتی قدر اور تاریخی دلچسپی کو پہچان لیا) نے سر چارلس سے یہ معلوم کرنے کو کہا کہ مالک کو تاج اور دو تخت کرسیوں کے لیے کیا توقع ہے جن کا ذکر بھی کیا گیا تھا۔ 8 جنوری کو ووڈ نے شہزادے کو اطلاع دی کہ تاج ملکہ کے معائنہ کے لیے ونڈسر کو بھیجا گیا ہے۔ تاج اور تخت کی کرسیاں دونوں بعد میں ملکہ نے خرید لیں۔ جیسا کہ بعد کے سالوں میں اس کی اہلیہ نے بیان کیا، ٹائٹلر نے محسوس کیا کہ سر چارلس کی طرف سے تاج اور دو تخت کرسیوں کے لیے پیش کردہ £500 کا اعداد و شمار بہت کم تھا، لیکن جب وہ ہندوستان واپس آیا تو مناسب تقرری کے وعدے پر ہچکچاتے ہوئے اس پر راضی ہوگیا۔ ایسی کوئی تقرری آنے والی نہیں تھی، اور چالیس سال سے زیادہ عرصے بعد اپنی یادداشتیں لکھتے ہوئے سر چارلس کے ساتھ لین دین کی غیر اطمینان بخش نوعیت ہیریئٹ ٹائٹلر کے ساتھ چلتی رہی۔ وکٹوریہ اور البرٹ سے اخذ کردہ متن: آرٹ اینڈ لو، لندن، 2010 کوئین وکٹوریہ کے ذریعہ خریدا گیا، رائل کلیکشن ٹرسٹ کی 1861 پراپرٹی۔
آج کل کے سیاسی اور واڈیروں نے اپنی طاقت کے زور پر غریب لوگوں کو ذہنی غلام بنایا ہوا ہے.
story written by Malik aqib Garri
قازقستان ملک میں انے والے زلزلے کی سی سی ٹی وی فوٹیج
اللہ تعالی ہم تمام مسلمانوں کو اپنی خصوصی حفظ و امان میں رکھے امین ثم امین
رومی سلطنت کا عروج و زوال - 7 منٹ میں جانیے
وہ سلطنت جو 2000 سال سے زیادہ عرصے تک قائم رہی
جسے حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ اور بعد میں سلطان محمد فاتح نے انجام تک پہنچایا۔
ملیے ڈرامہ سیرہل کابلی پلاٶ کے باران سے۔ جن کی اداکاری ہی نہیں بلکہ ان کے ریستوران ” یارک ثوبت گھر “ نے بھی چند ماہ میں دھوم مچا دی۔
انڈیا میں امرتسر سے تقریباً 35 کلو میٹر دور واہگہ باڈر کی جانب ایک "پُل کنجری" ہے۔ جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی محبوبہ، بیوی مہارانی موراں سرکار کے لیے بنایا تھا۔
کہانی کچھ یُوں ہے کہ موراں اپنے زمانے کی ایک مشہور مسلمان طوائف تھی۔ رقص کے چرچے دور دور تک تھے۔ ایک مرتبہ "شاہی برادری" میں ناچ کے لیے بلایا گیا، وہاں اکیس سالہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اس کو دیکھا اور دل کے ہاتھوں مجبور ہوگیا۔
موراں، مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فرمائش پر رقص کے لیے شاہی برادری، لاہور آنے جانے لگی۔ ایک مرتبہ شاہی برادری پر رقص کے لیے آ رہی تھی تو ہنسالی نہر میں موراں کا جوتا گِر گیا۔ جب ننگے پاؤں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار میں پہنچی، مہارجہ نے احوال سن کر بنسالی نہر پر فوراً "پل موراں" بنا دیا تا کہ آنے جانے میں آسانی رہے۔
دونوں کے درمیان ملاقاتیں ہونے لگیں، امرتسر یا لاہور میں ملتے تو روائتی و مذہبی سماج کے لیے یہ تعلق ناقابلِ برداشت تھا لہذا ان دونوں شہروں کے درمیان "پل موراں" کے قریب ایک جگہ پر ملاقات کے لیے مقام بنایا گیا۔ کچھ ہی عرصہ کے بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ نے موراں سے شادی کے لیے کہا تو اس نے اپنے والد سے اجازت کے بعد مہاراجہ سے شادی کر لی جو کہ سکھ مذہبی حلقوں میں ہلچل مچا گئی کہ ایک سکھ مہاراجہ کسی مسلمان طوائف سے کیسے شادی کر سکتا ہے۔ اس جرم کی سزا کے طور پر مہاراجہ رنجیت سنگھ کو کوڑے پڑے اور کچھ جرمانہ بھی ادا کرنا پڑا لیکن وہ اپنے انتخاب پر قائم رہا۔ موراں کو سرکاری نام "موراں سرکار" دیا گیا۔ چونکہ یہ کشمیری رقص کے فن کی ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ ذہین بھی تھی سو مہاراجہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے موراں سے مشورہ لیتا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی چھیالیس بیویوں میں سے ایک موراں ہی تھی جس کے نام کے سکے بھی چلے۔
موراں خود ایک طوائف تھی اس لیے اس نے طوائفوں کے مسائل کو مہاراجہ رنجیت کی مدد سے حل کروانے کی کوشش کی، انہیں سماج میں انسانی وقار دلوایا۔ اپنی حویلی میں روز عدالت لگاتی، عام لوگ اس کے پاس آ کر اپنے دکھ سناتے، وہ جس حد تک ممکن ہوتا مدد کرتی۔ کسی نے آ کر کہا مسجد بنوا دو، موراں نے مسجد بنوا دی، کسی نے آ کر کہا کہ مندر بنوا دو، اس نے مندر بنوا دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ موراں نے عوام میں اپنا پُروقار مقام بنا لیا اور عوام کے دِلوں پر راج کرنے لگی۔
لاہور شاہ عالمی کے قریب آج بھی مسجدِ طوائف موجود ہے، جس کا نام کچھ سال پہلے مسجدِ موراں کیساتھ تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح پُل کنجری کو بھی اب پُل موراں کہا جاتا ہے۔موراں محبت، انکسار و عجز کی داستان کے طور پر ہر روپ میں لوگوں کے درمیان زندہ ہے۔ کوئی اسے کنجری کہتا ہے، کوئی طوائف، کوئی مائی موراں، کوئی موراں سرکار اور کوئی عوامی ملکہ۔۔۔
***COPIED***
سلطان غیاث الدین بلبن
خاندان غلاماں کا آخری طاقتور حکمران
بلبن نے 1266 سے 1286 عیسوی نے ہندوستان پر حکومت کی۔
اس سے پہلے 1246 سے 1266 عیسوی تک سلطان ناصر الدین محمود کے وزیر کی حیثیت سے کام کیا ۔
منگولوں کے حملوں کو ناکام بنایا۔
امو رجہا نبانی متعارف کرانے۔
عدل و انصاف سے حکومت کی۔
اس کے عہد کا اہم درباری شاعر امیر خسرو تھے
بلبن نے منگولوں کے حملوں کی روک تھام کیلئے باقاعدہ سرحدی پالیسی بنائی۔
حکومت کرنے کے لیے باقاعدہ قواعدوضوابط بنوائے۔
1286 میں انتقال ہوا
M***i Mahmood leads Zuhr's prayers in Dera Ismail Khan. Gen. Ziaul Haq stands in the front row
Courtesy: The Friday Times.
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Category
Contact the business
Telephone
Address
Dera Ismail Khan
Opening Hours
Monday | 09:00 - 17:00 |
Tuesday | 09:00 - 17:00 |
Wednesday | 09:00 - 17:00 |
Thursday | 09:00 - 17:00 |
Friday | 09:00 - 17:00 |
Saturday | 09:00 - 17:00 |
Dera Ismail Khan
Who says that our Government Educational Institutions lack lusture in their performance ? Just Visit
Abdullah Medical Cantre Shop 4
Dera Ismail Khan, 29050
We are a leading Destination Management Company with an exclusive team and a full- fledged tour operator in the UAE.
New Bannu Chungi, Fahim Jan Makrket
Dera Ismail Khan
Waqar e madina travel & tour is the largest umrah coy in world
Main Fowara Chowk Opposite Al-Habib Bank. Beside Hilton Hotel
Dera Ismail Khan
We deals with best packages of hajj and umrah in town to make ur worships easy�
Zafarabad Colony
Dera Ismail Khan, 29111
ڈیرہ اسماعیل خان شہر اور مضافات کیلۓ مناسب قیمت پر گاڑی دستیاب ہے
EAST CIRCULAR Road DERA ISMAIL KHAN
Dera Ismail Khan, 29111