Shams Ul Haq
Writer | M***i | 🇵🇰 |MPhil student | viloger |
Human rights & social media activist
خیبر پختون خواہ کی موجودہ صورتحال
خیبر پختون خواہ میں حالات واقعی مایوس کن ہیں، جہاں بد امنی، بدعنوانی، اور بے روزگاری عروج پر ہے۔ یہ صوبہ پچھلی تمام پی ٹی آئی حکومتوں میں سب سے ناکام حکومت کا سامنا کر رہا ہے۔
وزیراعلیٰ خیبر پختون خواہ کے آبائی شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں بیس سے بائیس گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ ایک واضح مثال ہے۔ حالات یہاں تک بگڑ چکے ہیں کہ قریب کے شہر ٹانک میں بدامنی کے پیش نظر تمام سرکاری دفاتر ڈیرہ اسماعیل خان منتقل کرنے پڑے ہیں۔
ترقیاتی کام کا فقدان اس قدر شدید ہے کہ شہر میں کوئی ایک بھی نیا پروجیکٹ نظر نہیں آتا، جس سے عوام کو کسی قسم کی سہولت یا سہارا مل سکے۔
وزیراعلیٰ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ نہ صرف خود کرپشن سے دور رہیں گے بلکہ دوسروں کو بھی کرپشن نہیں کرنے دیں گے۔ مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس نکلی، ان کی قیادت میں نہ صرف بدعنوانی کو فروغ ملا بلکہ صوبے کے معاملات بھی بگڑتے چلے گئے۔ عوام کو ترقی کے وعدے تو کیے گئے لیکن عملی طور پر ان وعدوں کو پورا کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔
پی ٹی آئی کے ورکرز ان تمام حقائق کے باوجود وزیراعلیٰ اور ان کی حکومت کا دفاع کرتے ہیں۔ ان کی پارٹی سے محبت اور وابستگی تو قابل تعریف ہے مگر بدانتظامی اور بدعنوانی سے نظریں چرانا ناقابل قبول ہے۔ اس حقیقت کا سامنا کرنے سے انکار کرنا اصل میں خود کو دھوکہ دینا ہے۔ صوبے کے عوام بہتر انتظام اور شفافیت کے مستحق ہیں، اور ان مسائل کے حل کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے، محض زبانی دعوؤں اور تقریروں سے اب مزید حالات سنبھالنا ممکن نہیں۔
شمس الحق المسعودي
منظور احمد پشتین کا موقف بہت واضح ہے..!
اکثر اعتراضات لا علمی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
اگر دوسروں پر اعتراض کرنے سے پہلے تحقیق کی جائے تو بہت سارے مسائل حل ہو جائیں گے اور اس طرح معاشرے میں افراتفری کے بجائے اتفاق و اتحاد کی فضاء قائم ہوگی۔
یوم شہادت داعی امن..!
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
ایک شخص سارے وزیرستان کو ویران کرگیا
23اگست 2010 (12 رمضان المبارک،بروز جمعہ) یوم شہادت داعی امن، فصاحت و بلاغت کے ماہر، جامع العقول و المنقول، نرم دل ،بحر العلوم ، تلمیذ خاص حضرت مفتی محمود رحمہ اللہ، خلیفہ مجاز حضرت نصیر الدین غور غشتویؒ، و مرید حضرت حافظ حدیث عبد اللہ درخواستی ؒ،صحبت یافتہ وخادم حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ و صحبت یافتہ مولانا احمد علی لاہوری ؒ، ہم درس شیخ الحدیث مولانا موسیٰ خان روحانی البازی ؒ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا نور محمد شہید رحمۃ اللہ علیہ
آج سے ٹھیک 14 سال قبل نماز ظہر اور درس قرآن دینے کے بعد اپنے ہی جامع مسجد کے صحن میں دو درجن کے قریب نمازیوں سمیت شہید کیے گئے۔ (انا للہ وانا لیہ راجعون)
مولانا کی شخصیت اتنی جامع تھی کہ درجنوں کتابوں میں محفوظ کرنا بھی مشکل ہے، سرزمین وزیرستان پر پھر شاید کوئی آپ جیسا پیدا ہو۔
آپ کی جامعیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ جس بھی موضوع پر لب کشائی کرتے تو اس پر نہایت ہی عمدہ اور مدلل گفتگو فرماتے، آپ نقلی دلائل کے ساتھ ساتھ عقلی جدید عصری دلیل سے بھی اپنی گفتگو کو مزین کرتے۔
آپ نے مختلف موضوعات پر درجنوں کتابیں تصنیف فرمائی، آپ کی کتابوں میں ذہنوں کو شعور، دلوں کو سرور اور آنکھوں کو ٹھنڈک ملتا ہے۔
آپ کی کتابوں میں عقلی اور نقلی دلائل کے ساتھ ساتھ حکمت و دانش اور فہم و فراست کے ایسے انمول ہیرے ملتے ہیں جو آپ کو بڑے بڑے فلاسفر کی کتابوں میں نہیں ملیں گے، اس کے علاوہ آپ کی کتابوں میں ادبی چاشنی بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔
آپ اس دور میں وزیرستان میں علم و تعلیم کا دیپ جلایا جس وقت اہلیان وزیرستان علم دانش سے دور تھے، آپ بالعموم اہلیان وزیرستان اور بالخصوص خاص احمدزئی وزیر قبیلے کو جہالت کی اندھیروں سے نکال دور حاضر کے اجالوں میں کھڑا کر دیا۔
آپ نے علاقے میں فروغ تعلیم میں نمایاں کردار ادا کیا، آپ نے لوگوں میں باغبانی اور شجر کاری کی اہمیت اور ضرورت کو اجاگر کیا، آپ علاقے کی امن کے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔
آپ کی جامع شخصیت پر مجھ جیسا کم علم اور کم فہم انسان کیا لکھے گا لیکن تاریخ گواہی دے گی کہ اہلیان وزیرستان کو ایک ایسی شخصیت ملی تھی جو صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں، لیکن ان لوگوں نے اس کی قدر نہیں کی۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کی شہادت کو اپنی بارگاہ قبول فرمائیں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین
شمس الحق المسعودی
#وزیرستان #شمس
مناظر اسلام اور وکیل احناف..!
آج کل جہاں بے جا القابات کا بھرمار ہے، وہاں کچھ ایسے القابات بھی عام استعمال ہوتے ہیں، کہ جو سراسر زیادتی ہے۔
مثلاً فروعی اور مسلکی مسائل کے بارے میں مجادلہ (مناظرہ) کرنے والوں کو بھی مناظر اسلام کا لقب دیا جاتا ہے۔
اس طرح کچھ ایک ہی مسلک کے اندر کسی اختلافی مسئلہ پر مجادلہ کرکے اپنے آپ کو وکیل احناف گردانتے ہیں، حالانکہ اس کو کس نے وکیل مقرر کیا ہے، حالانکہ وکیل بلا توکیل کی وکالت باطل ہوتی ہے۔
آج اسلام کو درپیش چیلنجز میں سب سے بڑا چیلنج "الحاد" ہے، یہاں براہ راست اللہ تعالیٰ کی ذات پر اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں، اس کا مقابلہ کرنا اور اس کیلئے رجال کار تیار کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
نوجوان نسل میں الحاد دن بدن بڑ رہا ہے اور اس کی ایک میں وجہ یہ نام نہاد مناظرین اور نااہل صاحبان منبر و محراب ہیں۔
چھوٹی منہ بڑی بات یہ ہے کہ خدا را اپنی توانائی اس لاحاصل مناظروں پر ضائع مت کرے بلکہ امت کو درپیش چیلنجز کیلئے تیاری کرکے امت مسلمہ کو مزید تقسیم کرنے کے بجائے متفق کرنے کی کوشش کریں۔
شمس الحق المسعودی
معروف ولی اللہ اور سوشل میڈیا کا مثبت استعمال..!
سوشل میڈیا ہمارے زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے، سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو لوگوں کو آپس میں جوڑتا ہے اور انہیں ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنے، معلومات شیئر کرنے اور ایک دوسرے کی زندگیوں میں شامل ہونے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔
سوشل میڈیا کو اگر مثبت استعمال کیا جائے تو اس کے فوائد بے شمار ہیں، لیکن اگر منفی استعمال کیا جائے تو نقصانات بھی بے شمار ہیں۔
دنیا بھر میں سوشل میڈیا کا استعمال کرکے لوگ مختلف قسم کے فوائد حاصل کر رہے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں زیادہ تر لوگ سوشل میڈیا کا منفی استعمال کرتے ہیں، البتہ پھر بھی کچھ لوگ ہیں، جو سوشل میڈیا کا نہ صرف مثبت استعمال کرتے ہیں، بلکہ ہمیشہ دوسروں کی بھلائی کیلئے وہ اس پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہیں۔
ولی اللہ معروف سے تو تقریباً آپ میں سے اکثر لوگ واقف ہوں گے، نہیں تو آئیے ہم ان کا تعارف کراتے ہیں، کہ وہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کیسے کرتے ہیں..!
ولی اللہ معروف جس کو اگر معروف ولی اللہ کہا جائے تو یقیناً مبالغہ آرائی نہیں ہوگی، آپ لاپتہ افراد کیلئے انسانی شکل میں ایک فرشتہ سے کم نہیں ہے۔
ولی اللہ معروف سے تو میرا ذاتی کوئی تعلق نہیں البتہ سوشل میڈیا کے ذریعے آپ سے معرفت ہوئی۔
ولی اللہ معروف ایک عالم دین اور امام مسجد ہیں، آپ کی کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ: آپ کی والدہ نے کہا کہ آپ سوشل میڈیا یا موبائل کو استعمال تو کرتے ہیں، کیا فائدہ ہماری اس پڑوسن کے ورثاء کو ڈھونڈنے کے حوالے کوئی کوشش تو کر لیں، اس خاتون کا تعلق بنگلہ دیش سے تھا اور تقریباً تیس، چالیس سال سے وہ یہاں پاکستان میں تھی اور اپنے خاندان والوں کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں تھا۔
آپ کہتے ہیں کہ، میں نے دل برداشت ہوکر وہ سب کچھ سوشل میڈیا پر ڈال دیا اور کوئی خاص امید بھی نہیں تھی، لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا، کہ کچھ عرصہ بعد اس کے رشتہ دار مل گئے، پھر ان سے رابطہ کرایا اور آخر کار وہ اپنے گھر والوں کے پاس پہنچ گئی۔ وللہ الحمد
یہاں سے ولی اللہ معروف صاحب کو امید کی کرن نظر آئی اور اس نے اس کام (یعنی گمشدہ افراد کے ورثاء کو تلاش کرنا اور ان کے ساتھ ان کا رابطہ کرانا اور آخر کار ان کو وہاں تک پہنچانا) کو اپنا نصب العین بنایا اور اس کیلئے دن رات کوشاں ہوئے، اب تک تقریباً درجنوں افراد کو اپنے رشتہ داروں سے ملوائے ہیں۔
حال ہی میں ایک خاتون جس کا نام شاہدہ تھا، اس حوالے سے وڈیو بنائی اور اپنے سوشل میڈیا پلٹ فورمز پر اپلوڈ کرکے تقریباً پندرہ گھنٹے میں ان کے ورثاء والدہ اور بھائی مل گئے۔
ولی اللہ معروف یقیناً اسم بامسمی ہیں اور یہ نہ صرف ولی اللہ بلکہ ان شاء اللہ معروف بھی ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کے ان تمام مساعی اور خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ آمین
ہمیں بھی چاہیے ہیں کہ ولی اللہ معروف صاحب کی طرح سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کرکے معاشرے اور انسانیت کو فائدہ پہنچائے۔
آپ کے پڑوس میں بھی اگر ایسے افراد ہیں جن کا اپنے رشتہ داروں سے رابطہ نہیں تو آپ اس کا معلومات جمع کرکے ولی اللہ معروف صاحب کو بھیج دیں، شاید اس کے رشتہ دار مل جائے تو آپ کا بھی اس میں حصہ ہوگا۔
ولی اللہ معروف صاحب کو سوشل میڈیا کے تمام پلٹ فورمز پر فالو کیجئے، اس کے اس کام کو سراہیں اور حوصلہ افزائی کیجئے۔
شمس الحق المسعودی
پیج لنک کمنٹ میں👇
رعایت اللہ فاروقی کے نام..!
رعایت اللہ فاروقی کسی تعارف کا محتاج نہیں، آپ سب اس سے بخوبی واقف ہیں کہ موصوف چھوڑنے پر آئے تو اس کا مقابلہ 5G سے کرانا بھی مشکل ہے۔
موصوف اپنی عادت سے مجبور ہیں کہ وہ ہمیشہ منفی پہلو کو لیکر قلمی منافقت کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنی بغض اور عناد کی بنیاد پر پاکستان کے بڑے بڑے شیوخ کو بھی معاف نہیں کیا۔
موصوف نے حالاً ایک تحریر لکھی ہے کہ جس میں اس نے اہلیان وزیرستان اور اہلیان بنوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ اعتراض اٹھایا ہے؛ کہ ہمیشہ اہلیان وزیرستان و بنوں کو ہی امن کا مسئلہ کیوں درپیش ہوتا ہے۔
گویا موصوف یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ سارا مسئلہ انہی لوگوں میں ہے، کراچی گلشن معمار کے عجوہ ہوٹل پر بیٹھ کر چائے کی چسکی لیتے ہوئے یہ بات کہنا بہت آسان ہے، لیکن یہاں کے گراؤنڈ رییلٹز کو عوام کے سامنے پیش کرنے سے بہت ساروں کے پر جلتے ہیں۔
نائن ایلون کے بعد ان علاقوں میں جو حالات یہاں کے باشندوں پر گزرے ہیں،وہ قلم کی نوک پر لانا مشکل نہیں ناممکن ہے، گھر بار، کاروبار، جائیداد، باغات، ساز و سامان سے بھرے مارکیٹ، مال مویشی الغرض یہ کہ سب کچھ چھوڑ کر وہ وہاں سے ننگے پاؤں، بے سر و ساماں، سنگلاخ پہاڑوں میں پیدل ہجرت کرکے ملک کے دوسرے علاقوں میں منتقل ہوگئے۔
ہجرت کے ان غم بھری داستانوں پر کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔
العرض یہ کہ سات آٹھ سال وہ ملک کے مختلف شہروں میں مختلف مشکلات کا سامنا کرکے اور در در کی ٹھوکر کھاتے رہیں پھر جب ریاست نے اعلان کیا کہ ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے اب آپ لوگ واپس جاسکتے ہیں، لوگ جب کلئیر علاقے میں چلے گئے تو ہر کلومیٹر پر چیک پوسٹ، ڈیٹا انٹری فلاں فلاں عام شہریوں کی ذلالت شروع ہوگئی۔
لوگ اپنے آبائی علاقے میں پہنچ تو گئے لیکن گھر ویران و مسمار تھے ، مساجد، مدارس اور اسکول و کالج کے نام و نشان نہیں تھے ، بازار مسمار ہر طرف جنگل کا سماں اور ستم بالائے ستم ہر قدم پر لینڈ مائنز استقبال میں پھٹتے رہے یہاں تک کہ موجودہ اعداد شمار کے مطابق ابھی تک پانچ سو کے قریب لینڈ مائن دھماکے ہوئے، جس کے نتیجے میں درجنوں معصوم بچے ، خواتین اور عام شہری جان بحق اور سینکڑوں افراد دائمی طور پر معذور ہوگئے ہیں۔ جب ابھی تک بھی ہو رہے ہیں!
کراچی کے عجوہ ہوٹل پر چائے کی چسکیاں لینے والے سے کوئی یہ پوچھیں کہ کیا آپ نے اس ایشو کو ان حلقوں تک پہنچایا ہے.؟ جن کو خوشنودی کیلئے آج آپ اس بات پر مجبور ہوگئے ہیں۔
اہلیان وزیرستان و ملحقہ علاقوں نے حکومت سے نہ کبھی علیحدگی کا مطالبہ کیا ہے، نہ ہی ملک سے غداری کی اور نہ ہی بغاوت کا علم بلند کیا بلکہ ہمیشہ ملک کیلئے اپنے جان اور مال کا نذرانہ پیش کیا ہے۔
تو کیا ان کا یہ حق بھی نہیں بنتا کہ وہ اپنے ہی ملک سے امن کا مطالبہ کرے، حکومت کو امن دینے میں کیا دشواری ہے، جب خود کہا تھا کہ ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی تو پھر یہ دہشت گردی کون کر رہا ہے۔
دوسری بات..!
موصوف نے لکھا ہے کہ وزیرستان کا کم از کم دو سو سالہ تاریخ دیکھ لیں..!
موصوف اس جملے سے کیا باور کرانا چاہتے ہیں...؟🤔
اہلیان وزیرستان نے تو انگریز کے قابض افواج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی ہے۔
اہلیان وزیرستان نے کشمیر کی آزادی کیلئے جنگ لڑی ہے۔
اہلیان وزیرستان نے ملکی سالمیت کے خاطر اپنے جان، مال، گھر بار ، جائیداد الغرض یہ کہ سب کچھ کی قربانی دی ہے۔
کیا کسی ملک کا حق نہیں بنتا کہ وہ اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرے.؟
ہاں..!
اہلیان وزیرستان سمیت پورے پشتون بلٹ کو حکومت سے گلہ اور شکوہ ضرور ہے،کہ ریاست تو ماں ہوتی ہے جب کہ یہاں تو یہ ماں ہمارے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک کر رہی ہے۔
موصوف کا کمال یہ ہے کہ کمنٹ کا آپشن بند کرکے اپنے ہمنوا سے واہ واہ سننا چاہتے ہیں، جب کہ اگر کوئی اختلاف رائے کرے تو فوراً بلاک کا آپشن استعمال کرتا ہے۔
شمس الحق المسعودی
امن ہم سب کی ضرورت ہے..!
کسی بھی قوم کی ترقی اور خوشحالی کیلئے امن اور معیشت ضروری ہے، جب کہ یہ دونوں چیزیں لازم ملزوم ہیں، جب امن ہو تو معیشت بہتر ہوگی، جب معیشت ٹھیک ہو تو امن ہوگا۔
پختون قوم کو بھی ان چیلنجز کا سامنا ہے، نائن الیون کے بعد پختون اکثریت علاقوں میں امن ڈائنوسار بن چکا ہے، امن نہ ہونے کی وجہ سے یہاں معیشت اور روزگار کا بھی بیڑا غرق ہے۔
ان دو چیزوں کی ضرورت ہر ذی شعور انسان کو ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی قوم یا قبیلے سے ہو، وہ چاہے دنیا کے کسی بھی مذہب کا پیروکار ہو، گو کہ یہ مسئلہ یہاں کے ہر باسی کا ہے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی پارٹی، جماعت یا تنظیم سے ہو۔
اس طرح اس بدامنی اور دہشت گردی سے یہاں کا ہر طبقہ متاثر ہے، وہ چاہے مذہبی ہو، قوم پرست ہو، سیاسی یا غیر سیاسی سب کے سب اس بدامنی کے لپیٹ میں ہیں۔
جب امن اور معیشت تمام طبقات کا مسئلہ ہے تو اب اس کیلئے تمام طبقات کا باہم متفق ہونا بھی بہت ضروری ہے، اتفاق کیلئے ضروری ہے کہ ہم آپس کے تمام سیاسی اور نظریاتی اختلافات کو ختم کرکے مشترکات پر متفق ہوجائیں، ہر ایک طبقہ ان چیزوں سے اجتناب کرے، جس کی وجہ سے اتفاق و اتحاد کو نقصان پہنچتا ہو۔
باہم اختلاف کو ختم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم جذبات کو پس پشت ڈالیں اور ان ہی مسائل پر غور و فکر کرکے ان کا حل نکالنے کی کوشش کریں۔
لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہر طبقہ سوچ، سمجھ اور غور و فکر کے بجائے جذبات سے کام لیتا ہے، ہمارا سب سے بڑا المیہ بھی یہی ہے کہ ہم ہمیشہ جذبات کا شکار ہوکر ایسے کام کر بیٹھتے ہیں جس کا فائدہ کسی اور کو جب کہ نقصان ہمیں ملتا ہے۔
جب جذبات عقل پر غالب ہوجائے تو پھر انسان اپنے مقررہ حدود سے تجاوز کر جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ نقصان کا شکار ہوجاتا ہے۔
یاد رہے قومیں جذبات سے نہیں بنتی بلکہ شعور، غور و فکر اور اتفاق و اتحاد سے قومیں بنتی اور ترقی کرتی ہیں۔
اس طرح قوم پرست لیڈروں کو چاہیے کہ وہ مزید قوم کو کنفیوز کرنے کے بجائے اصل مسائل بتائیں.... جذباتی نعرے اور روایتی نعروں سے قوم کو نکال کر اس درپیش چیلنجز سے آشنا کرے۔
اس طرح تمام پشتون قیادت کو چاہیے چاہے اس کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو کہ وہ باہم متحد ہو کر ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔
خوش قسمتی تو یہ ہے کہ پختون ایک مذہب تقریباً ایک ہی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں اور سب کو درپیش چیلنجز بھی ایک ہے لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ پشتون قوم کبھی متفق نہیں ہوتے البتہ اتفاق نہ کرنے پر سب کا اتفاق ہے۔
شمس الحق المسعودي
امن اور علماء کرام..!
آج کل سوشل میڈیا پر یہ پوسٹ نقل در نقل ہو رہی ہے کہ: جمعہ کے دن جس مسجد میں امن کی بات نہ ہو وہاں نماز نہ پڑھیں اور چندہ بھی نہ دیں۔
ہمارا مزاج چونکہ نقل (کاپی پیسٹ) کا ہے جہاں دیکھ لیا کہ کسی پوسٹ پر زیادہ لائک آئے ہیں تو فوراً اس کو نقل کرکے ہم بغیر سوچے سمجھے پوسٹ کرتے ہیں۔
میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ایسے پوسٹ کرنے والے اس وقت آتے ہیں جب امام صاحب دوسرا خطبہ شروع کرے اور چندہ تو دور کی بات وہ نماز کے بعد سنتیں بھی نہیں پڑھتے بلکہ فوراً رفوچکر ہوجاتے ہیں۔
علماء کرام نے امن کی قیام کیلئے ہر سو قربانیاں دی ہیں، انہوں نے اپنے جانوں کی نذرانے پیش کیے لیکن امن کی بات وہ آخری دم تک کرتے رہیں۔
وضاحت کیلئے کچھ مثالیں پیش خدمت ہیں:
1-شیخ الحدیث مولانا حسن جان شہید رحمۃ اللہ علیہ
آپ نے اس وقت امن کا علم بلند کیا جس وقت ہر طرف خون کی ہولیاں کھیلیں جا رہی تھیں۔ لیکن آپ نے جان کو ہتھیلی پر رکھ کر امن کی بات کرتے رہیں، آخر کار وہ اسی پاداش میں شہید کر دیے گئے۔
2-شیخ الحدیث مولانا نور محمد شہید رحمۃ اللہ علیہ (وانہ،وزیرستان)
آپ نے جس حالات اور علاقے میں امن کی صدا بلند کی، ایسے حالات میں امن کی بات کرنا یقیناً جان پر کھیلنے کا مترادف ہے لیکن آپ نے جان کی پرواہ نہیں کی بلکہ اپنے علاقے میں امن کی قیام کیلئے جدوجہد کرتے رہیں اور آخر کار اس کے نتیجے میں آپ کو رمضان المبارک کے مہینے میں درس قرآن کے بعد اپنے ہی مسجد تقریباً چالیس افراد کے ساتھ ایک خودکش حملے میں شہید کر دیے گئے۔
3-مولانا معراج الدین قریشی شہید رحمۃ اللہ علیہ
آپ نے بھی نائن الیون کے ہونے والے بد امنی کے خلاف ہر پلیٹ فارم پر امن کیلئے آواز بلندی.... قومی اسمبلی میں بالخصوص اپنے علاقے اور بالعموم پورے خطے کی امن کے لیے جس مؤثر انداز میں جدوجہد کی اس کی مثال ملنا مشکل... آپ نے علاقے میں جاری جنگ اور بدامنی کے کے اسباب اور اس رونما ہونے والے نتائج سے قوم کو بروقت باخبر کیا.... آپ ہمیشہ علاقے میں امن خراب کرنے والے عناصر کیلئے رکاوٹ رہے... جس کے پاداش میں آپ دہشت گردوں نے شہید کر دیا۔
الغرض یہ کہ وزیرستان سے لیکر سوات اور مالاکنڈ تک ہزاروں علماء کرام اور طلبہ عظام نے امن کیلئے قربانیاں دی ہیں...منبر و محراب سے ہمیشہ امن کی صدا بلند ہوئی ہے۔
اس وجہ سے گزارش یہ ہے کہ اس کے پوسٹوں سے پرہیز کرنا چاہیے جس سے باہم تنافر پیدا ہو... بلکہ باہم متفق ہونے کیلئے جدوجہد کرنا چاہیے.... آپ کے حق میں منبر و محراب سے آواز بلند ہوگی... آپ بھی تو منبر و محراب کے تابع ہوجائے....آپ مسائل اور احکامات فیس بُکی دانشوروں سے لے رہے ہیں اور گلہ شکوہ محراب سے کر رہے ہیں۔
شمس الحق المسعودی
یوم شہادت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا پیغام....!
راجح قول کے مطابق "یکم محرم الحرام" عدل و انصاف کا پیکر، خلیفہ دوئم، مُرادِ رسول ﷺ حضرت سیدنا عمر بن خطابؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یومِ شہادت ہے۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام سنتے ہی ذہن میں جو سب پہلی بات آتی ہے وہ آپ ؓ کی بہادری اور مثالی نظام حکومت ہے۔
حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ تاریخ اسلام کی ایسی شخصیت ہیں جن کا دورِ خلافت قیامت تک کے آنے والے حکمرانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپ نے اپنی سیاسی بصیرت سے اسلامی سلطنت کو وسعت دے کر تقریباً ۲۳ لاکھ مربع میل تک پھیلایا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے دس سالہ عہدِ خلافت میں بڑی بڑی سلطنتوں کو اپنے زیرِ نگیں کیا۔
تاریخ کے نامور فاتح سکندرِ اعظم، چنگیز خان اور تیمور لنگ کے ناموں سے کون واقف نہیں۔ انہوں نے بھی بڑی بڑی فتوحات کیں، کئی ممالک کو زیرِ نگیں کیا۔ مگر جب وہ فتوحات سے فارغ ہوتے تو جگہ جگہ انسانی لاشیں، کھوپڑیوں کے پہاڑ، خون کی ندیاں، ہر جگہ ویرانی نظر آتی۔ وہ جہاں سے گزرتے اسے ویران کردیتے۔
مگر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں خون کا ایک قطرہ بھی نہیں گرپایا۔ ایران و روم جیسی سپر پاور سلطنتیں جس انداز اور احتیاط سے فتح ہوئیں کہ بڑے بڑے تاریخ دان ظلم و ستم کی ایک مثال بھی پیش نہ کرسکے۔ فتوحات سے بڑھ کر آپ نے نظام حکومت کو منظم کیا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آپ کے دور میں حکومت اور سلطنت کا باقاعدہ نظام شروع ہوا۔ آپ نے نظام حکومت کو چلانے کے لیے متعدد محکمے اور انتظامی شعبہ جات قائم کیے اور ان سب سے نگران مقرر فرمائے۔ آپ نگران مقرر کرنے کے بعد ان کا احتساب بھی کیاکرتے تھے۔
آپ کے عہد خلافت کا انتظامی ڈھانچہ مندرجہ ذیل ہیں:نظام عدل، نظام قضاء، نظام احتساب، پولیس کا محکمہ، جیل خانہ جات، محکمہ آب پاشی، بیت المال، نظام تعلیم وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
الغرض دورِ فاروقی تاریخِ اسلام کا ایک عظیم اور مثالی دور گزرا ہے جس میں اسلامی ریاست کے انتظام و انصرام کے درست تصور کی عملی تصویر پیش کی گئی۔
اتنی بڑی سلطنت کے حاکم ہونے کے باجود سادگی، عاجزی اور انکساری آپ ؓ کا خاصہ تھی۔ آپ کے پیشِ نظر خدمت خلق کا جذبہ تھا۔ آپ نے رعایا کی خبر گیری کو لازم رکھا اور آپ نے عوام کے لیے اپنا دروازہ کھلا رکھنے کی پالیسی اپنا رکھی تھی، نیز اپنے گورنروں اور دیگر اہلکارو ں کو ہدایت دے رکھی تھی کہ عوام پر اپنے دروازے ہمیشہ کھلے رکھیں او ر مظلوموں کی داد رسی کریں۔یہی وجہ ہے کہ عدل و انصاف اور رعایاکی خبر گیری میں آج بھی دورِ فاروقی کوبطورِ مثال پیش کیاجاتا ہے۔
آپ کی شہادت سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ ہم بھی اسلام کو بطور نظام نافذ کرنے کیلئے جدوجہد کرے، اگر کسی کو اللہ تعالیٰ نے حکمرانی دی ہے تو وہ آپ ؓ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں، انصاف، احتساب اور عوام الناس کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں۔
مسلمان حکمران کیلئے آپ رضی اللہ عنہ کا نظام حکومت اور آپ کی شخصیت مشغل راہ ہے، آج بھی مسلمان حکمران اگر آپ ؓ کے نظام حکومت کو سامنے رکھ کر حکمرانی کے اصول طے کرے تو یقین امن، ترقی، انصاف کا بول بالا ہوگا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں آپ رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
شمس الحق المسعودی
#حرفِ_حق
سوشل میڈیا سے متعلق کچھ باتیں.!
1....کچھ مباحث اور موضوعات اہل علم اور خاص طبقات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، ان مباحث کو سوشل میڈیا کی زینت بنانا بلکل بھی مناسب نہیں ہے۔
کیوں کہ سوشل میڈیا پر مختلف اذہان اور درجات کے لوگ ہوتے ہیں، جو اپنی کمی علمی اور نا سمجھی کی وجہ سے شکوک اور شبہات کا شکار ہوجاتے ہیں۔
2...اس طرح سوشل میڈیا پر تحریر عام فہم اور سادہ ہونی چاہیے، علمی اور منطقی اصطلاحات کو استعمال کرنے سے اجتناب کرنا بہتر ہے، کیوں کہ یہاں ہر سطح کے قاری ہوتے ہیں۔
3...کسی بھی موضوع پر قلم اٹھانے سے پہلے خوب تحقیق و تدقیق کرنی چاہیے، کیونکہ آپ کی لاپرواہی آپ کیلئے رسوائی اور دوسروں کیلئے گمراہی ہوسکتی ہے۔
4...اس طرح سوشل میڈیا پر کوئی بھی تحریر و تحقیق پڑھنے سے پہلے صاحب تحریر کے بارے میں معلومات ہونے چاہیے اور کسی بھی تحقیق کو حرف آخر سمجھنے کے بجائے، اس کے ہر دو پہلو کو دیکھنا چاہیے۔
، 5...دینی مسائل اور احکامات یا تو براہ راست کسی مستند عالم دین یا ادارے سے پوچھنا چاہیے یا پھر ہر قسم کی تحقیق کے بعد مستند ویب سائٹ سے لینا چاہیے، جس کیلئے مادر علمی "جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن" کا ویب سائٹ banuri . edu بہت بہتر ہے۔
اس کے علاوہ بھی کئی جامعات کے ویب سائٹ موجودہ ہیں، جب کہ وٹس ایپ پر بھی مختلف مفتیان کرام کے مسائل سے متعلق گروپ موجود ہیں۔
فی الحال اتنا ہی کافی ہے.... دعاؤں کی درخواست 🤲🏻
شمس الحق المسعودی
ماشاء اللہ...مفتی عبد الرزاق صاحب کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے جنہوں نے جنوبی وزیرستان مکین میں بھی جامعہ آفاق العلوم فتح موڑ ڈیرہ اسماعیل خان کا برانچ کھول دیا۔
ان شاء اللہ اس سے پورے وزیرستان میں علم اور شعور پھیلے گا۔
ساحل عدیم نے اپنی زندگی کے دس سال زونگ کمپنی کی نوکری کرتے گزار دیے جس عمر میں اہل مکتب چٹائیوں میں بیٹھ کر قال اللہ اور قال الرسول پڑھتے اور سمجھتے تھے یہ موصوف اس عمر میں “زونگ سب کہہ دو “ پڑھ رہا تھا -
موصوف زونگ سے نکالے گئے -
ٹیلی نار میں بھی قسمت آزمائی فرمائی ،جب تفسیر ،فقہ اور علوم دینیہ پڑھنے کی عمر تھی موصوف ٹیلی نار کی ھو ھو ھو کالر ٹون لگوانے میں مصروف تھے -
ٹیلی نار سے بھی نکالے گئے -
پاکستان کرکٹ بورڈ میں بھی کچھ عرصہ نوکری کی وہاں سے بھی جلد آؤٹ کیے گئے -
اپنی ٹریننگ کمپنی بنائی وہ بھی فلاپ ہوگئی -
تب موصوف نے مذہب کو کاروبار کا ذریعہ بنایا،انگریزی چونکہ آتی ہے یہ قوم ویسے بھی انگریزی سے جلد متاثر ہوتی ہے،موصوف کا دھندا پانی چلنے لگا -
قرآن مجید کی آیات غلط پڑھتا ہے،آیات کی تفاسیر میں دور کی کوڑی لاتا ہے،سائنس اور اسلام کو ملا کر مضحکہ خیز مسائل دریافت کرکے لبرلز کے ہنسنے کا سامان کرتا ہے -
چنانچہ جاہلوں کی سوسائٹی میں بھائی صاحب اتنے بڑے دانشور بن چکے ہیں کہ
یہ اب صدیوں کے اسلامی لیٹریچر کی چھٹی کروانے کی بات کر رہا ہے،یہ مولوی کی چھٹی کروانے کی بات کر رہا ہے -
مولوی کی سائیکل موصوف کے سینے میں بڑی کھٹکتی ہے کہ مولوی دین کے نام پر عیاشی کر رہا ہے -
البتہ موصوف دین کی غلط سلط تعبیریں اور تاویلیں کرکے لگژری گاڑیوں تک پہنچا یہ درست ہے -
موصوف آج کل ایک اور مشہور فلاپ “کمپنی “ کے پے رول پہ ہے-
ڈسکو پیروں کی طرح ان کا بھی سوشل میڈیا ونگ ہے کچھ دیر تک دیکھنا کمنٹس سیکشن میں وہ دوڑے آئیں گے -
بقلم فردوس جمال !!!
فیس بُکی دانشور اور دودھ بینک..!
ہمارے ہاں سب سے بڑا دانشور اور عقلمند وہ سمجھا جاتا ہے جو ہر موضوع پر بات کرے یعنی ہر فن مُلّا ہی ہمارے معاشرے میں قابل اور عقلمند شمار کیا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر کوئی بغیر علم کے ہر فیلڈ میں عقل کے گھوڑے دوڑانے کی کوشش کرتے ہیں، کیوں کہ یہی یہ چیز ہمارے ہاں دانشوری اور عقل مندی سمجھی جاتی ہے۔
جب کہ دنیا بھر میں یہی اصول ہیں کہ ہر فیلڈ میں اس کے ماہرین کی رائے لی جاتی ہے اور اسی پر عمل کیا جاتا ہے۔
اس کی مثال یو سمجھیں کہ حالیہ "مادر ملک بینک یا دودھ بینک" کے بارے میں شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ کے فتوے پر ہمارے ہر فیس بُکی دانشور نے رائے، پیش کرنے کی جسارت کی۔
ایک صاحب نے لکھا کہ مجبوراً خنزیر کھانا اور شراب پینا جائز ہوجاتا ہے تو دودھ بینک جائز کیوں نہیں ہوسکتے ہیں۔
ماشاء اللہ دانشور صاحب نے کیا استدلال پیش کیا ہے، یقیناً اس باریک نکتے کا پتہ شیخ الاسلام صاحب کو نہیں ہوگا، اب تو مفتی صاحب کو اپنے فتویٰ پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔😁
جب کہ ایک صاحب کی پوسٹ نظر آئی جس میں اس نے لکھا تھا کہ اہلیان کراچی تو بھینسوں کے دودھ پیتے ہیں تو پھر تو بھینسوں کے کٹے ان کے رضاعی بھائی بن گئے۔
موصوف نے شاید طنز کیا ہو لیکن یہ ایک شرعی حکم کیوں کہ دودھ بینک کا مسئلہ اتنا سادہ نہیں ہے جتنا یہ پلاسٹکی دانشور سمجھتے ہیں ، اگر کوئی خاتون کسی کو دودھ پلاتی ہیں یا کوئی بچہ کسی کا دودھ پیتا ہے تو اس کا آپس میں رضاعی ماں اور بیٹے کا تعلق بن جاتا ہے، جس کے ساتھ رضاعت کے کافی سارے مسائل متعلق ہوجاتے ہیں۔
مسائل کی تفصیل کو ذکر کرنا یہاں مشکل ہے لیکن اتنا سمجھنا چاہیے کہ اس خاتون اور اس کے اولاد کا اس بچے کے ساتھ رشتہ کرنا ناجائز ہوتا ہے۔
اب اس دودھ بینک میں کیا پتہ کہ کہ کس کا دودھ کس نے پیا کس کس نے ایک ساتھ پیا کون کون آپس میں رضاعی بھائی و بہن ہے، کون کس کی رضاعی ماں بن گئیں۔
گویا اس طریقے سے شریعت کے ایک بہت بڑے حکم کی حق تلفی ہونے کا امکان ہے۔
جہاں تک ضرورت کی بات ہے تو کوئی ایک واضح خاتون براہ راست کسی بھی بچے کو دودھ پلا سکتی ہے، اس کا سب کچھ معلوم ہوگا، جس پر رضاعت سے متعلق احکامات لاگو ہوں گے۔
لہٰذا فیس بُک کے ان دانشوروں سے دست بستہ درخواست ہے کہ خدارا ہر چیز میں ٹانگ نہ اڑائیں، اپنے فیلڈ ہی سے لوگوں کو مستفید فرمائے ورنہ
"نیم حکیم خطرہ جان اور نیم مُلّا خطرہ"
ہی ثابت ہوں گے۔
شمس الحق المسعودی
آپریشن کے حوالے سے مولانا صاحب کا موقف..!
پھول یوں نہیں کھل جاتے ،بیج کو دفن کرنا پڑتا ہے۔
Click here to claim your Sponsored Listing.