Qureshi Status
Qureshi status 💛
Azadari page 👍
𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵:𝓣𝓪𝓵𝓪𝓪𝓼𝓱 𝓱𝓪𝓲 𝓗𝓪𝓶𝓭𝓪𝓻𝓭 𝓴𝓲
𝓦𝓻𝓲𝓽𝓮𝓻:𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲.
•————•°•𝓛𝓪𝓼𝓽 𝐸𝓅𝒾𝓈𝑜𝒹𝑒 𝟧7•°•————•
🅘🅢🅜🅐🅗 🅠🅤🅡🅔🅢🅗🅘 🅝🅞🅥🅔🅛🅢
تہذیب پنک کلر کی کیوٹ سی باربی فراک پہنے منہ پھلائے کمرے میں بیٹھی تھی۔کیونکہ اس کا میچنگ دوپٹہ لانا زاویار صاحب بھول گۓ تھے۔وہ باضد تھی کہ اب کیک کٹ کرنے بھی نہیں آۓ گی۔یہاں کوئ اسے اب بلاتا تو وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگتی۔۔!!!!
شاہویز صاحب نے اس کے کان کھینچ کر اسے دوپٹہ لانے کو بھیجاکہ چاہے وہ اب پاتال سے دوپٹہ لاۓ یا پھر مریح سے پر بغیر دوپٹے کے وہ اب گھر میں قدم بھی نہیں رکھ پاۓ گا۔۔۔!!!!
پورے دو گھنٹے مالز کی خاک چھان کر اسے میچنگ نہ سہی پر گزارے لائق ڈوپٹہ مل ہی گیا تھا۔گاڑی گھر کے باہر روک کر چوروں کی طرح دبے قدموں وہ سب سے چھپتا چھپاتا گھر میں داخل ہوا۔
"شکر ہے یہاں کوئ موجود نہیں۔۔!!!"
خالی لاؤنج دیکھ کر اس کی جان میں جان آئ۔شکر کا کلمہ پڑھ کر وہ اپنی سرپھری بیوی کو منانے کے لیے اس کے کمرے کی طرف بڑھ گیا ورنہ اسے گھر بدر کردیا جاتا۔
اس نے کمرے میں جھانکا وہ اسے سامنے بیڈ پر سر جھکاۓ بیٹھی دکھی۔
"تابی۔!!!!!" مشکل سے ڈرتے ہوۓ اس نے پکارا۔اس کی آواز سن کر تہزیب نے بھی اسی کی طرف خفگی سے دیکھا۔
"جاؤ یہاں سے ۔۔۔!!!!!" پاس پڑا تکیہ اٹھا کر اس نے زور سے زاویار کو مارا جو بیچارا مجرموں کی طرح وہیں کھڑا رہا۔تکیہ اس کے منہ پر لگا۔پر وہ ہلا بھی نا۔اسے مار کر تہذیب خود رونے لگی۔۔!!!
"اووو۔۔۔!!!!! میری پیاری سی بیوی۔۔!!! رو کیوں رہی ہو۔۔۔!!!سارا میک اپ خراب ہوجاۓ گا۔چڑیل لگو گی چڑیل۔۔۔!!!!"
لہجے میں فکر سموۓ زاویار اس کے پاس بیڈ پر بیٹھا۔تہذیب اس وقت خود کے لیے چڑیل کا لفظ سن کر مزید زور و شور سے رونے لگی۔
"تم ج۔جان بوجھ کر کرتے ہو نا یہ سب ۔۔۔!!!! کیونکہ میں تمہیں اچھی نہیں لگتی ۔مجھے تنگ کرکے تمہیں مزہ آ۔آتا ہے۔خوش ہوجاؤ۔تم جو چاہتے تھے ہوگیا۔۔۔!!!!!"
کاجل پھیل کر اس کی آنکھوں کو مزید دلکش بنا رہا تھا۔اس نے نم آواز سے شکوہ کیا۔پھر اپنے آنسو پونچھے۔اسے غصہ آیا کہ اس کا اتنا خاص دن زاویار کی وجہ سے خراب ہوگیا ۔
زاویار نے اسے روتے دیکھا تو اس نے دل میں خود کو کوسا۔وہ اسے تنگ ضرور کرتا تھا پر اتنی تکلیف نہیں دے سکتا تھا۔
"ماۓ ڈیئرسٹ وائف۔۔۔!!!! بھلا زاویار کی مجال جو تمہیں تنگ کرے۔قسم لے لو یار۔۔!!!! سچ میں میں تب وہ دوپٹہ وہیں بھول آیا تھا۔لیکن اب لے آیا ہوں۔تو رونا بند کرو۔۔!!! اور یہ دوپٹہ دیکھو۔سارے شہر کے مال چھان مارنے کے بعد مجھے کہیں جاکر یہ دوپٹہ ملا ہے۔۔!!!!"
اس کے آنسو صاف کرکے۔اس نے دوپٹہ نکال کر اس کے سر پر دیا ۔اور پیار سے اسے دیکھا جو رونے کی وجہ سے اب ہلکا ہلکا کانپ رہی تھی۔
جب اس نے یہ دوپٹہ لیا تھا تب اس کے ڈریس کی پک سے میچ کرکے دیکھا تھا۔ ذرا بھی میچ نہیں ہوا تھا یہ دوپٹہ تب۔اور اب لگ رہا تھا یہ بنا ہی اس کے لیے ہو۔۔!!!!
تہذیب نم آنکھوں سے مسکرائی ۔وہ اسی پوزیشن میں بیٹھی اس دوپٹے کو دیکھ رہی تھی۔جو کافی خوبصورت تھا۔
"یہاں آؤ۔۔!!!" زاویار نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے مقابل کھڑا کیا۔جو خاموشی سے کھڑی ہوگئ۔پھر اس کا فیس واش کروا کر۔اس نے میک اپ کرنے میں اس کی مدد کی۔اسے اچھا خاصہ تجربہ تھا میک اپ کرنے کا۔۔۔!!!!
سالوں سے وہ اس کی مدد کرتا آیا تھا اب تو ایکسپرٹ بن چکا تھا۔وہ اس کے یونہی لاڈ اٹھاتا تھا۔
اس لڑکی کے سامنے جھک کر اس جیسا بن کر اسے زندگی خوشگوار لگتی تھی۔اپنی بیوی کے لاڈ اٹھا کر اس کا مرتبہ پہلے سے بھی بڑھ جاتا تھا۔
زاویار نے اس کا حجاب پن اپ کیا۔
"میری بلی تو اب تیار بھی ہوگئ۔پھر کیوں رورہی ہے۔۔۔!!!!" اسے بہلاتے اس نے اسے بیڈ پر بٹھایا اور خود اس کے سامنے نیچے بیٹھا۔
"تمہاری وجہ سے میں اتنا روئ۔۔۔!!! اتنا ہرٹ ہوئ میں۔۔!!! اپنی سالگرہ والے دن کون روتا ہے بھلا میرے سوا۔۔۔!!!" شکایت کرتے اس نے خفگی سے اسے گھورا جس نے اپنا کان پکڑا۔
"سوری۔۔۔!!!!! گفٹ نہیں چاہیے کیا۔۔۔!!!!!" تہذیب اور اس وقت گفٹ سے انکار کرے ناممکن۔۔!!!!
"تم گفٹ بھی لاۓ ہو۔لاؤ دو۔!!!!"
گفٹ کا سنتے ہی اس کی آنکھیں چمکیں۔زاویار نے اپنے کوٹ کی پاکٹ سے مخروطی باکس نکالا۔تہذیب کا تجسس بڑھا کہ اب وہ اسے کیا دینے والا ہے۔
باکس میں چمکتی ہوئی پازیب تھیں۔زاویار نے ایک پازیب نکال کر باکس اس کے ہاتھ پر رکھا اور اس کے پاؤں میں پہنا دی۔
پھر باکس بند کرکے اپنے کوٹ میں واپس رکھا۔
"دوسری بھی تو دو۔۔!!!" تہزیب نے منہ بناتے کہا۔
"نہیں یہ والی میرے پاس ہی رہنے دو۔جب تک رخصتی نہیں ہوتی تب تک۔۔۔!!!! جب تم میرے پاس آجاؤں گی تب یہ دوسری بھی پہنادوں گا۔اوکے۔۔!!!!!"
زاویار نے اسے سمجھایا۔جسے نے سمجھنے والے انداز میں ہاں کی۔پھر نظر اس کے کان پر پڑی جو اچھا خاصہ سرخ تھا۔
"زاور ۔۔!!! تمہارا کام اتنا ریڈ کیوں ہورہا ہے۔۔!!!" اس نے اس کے کان کو تکلیف سے چھوا۔
"میری ہیر تمہارا یہ رانجھا تمہاری محبت میں اپنے باپ سے کان کھچوا کر آیا ہے۔۔!!!! یار بہت درد ہورہا ہے لگ رہا ہے کان اکھڑ گیا ہو۔۔!!!'
اسے اپنے لیے فکر مند ہوتا دیکھ کر زاویار نے درد کی اخیر ایکٹنگ کی۔بیچاری تہذیب کو شرمندگی ہوئ ۔اس نے سوچا کہ اسے اتنا اوور ری ایکٹ نہیں کرنا چاہیے تھا۔پتہ نہیں زاویار کو کتنا درد ہوا ہوگا۔
صرف اس کی وجہ سے وہ اتنا خوار ہوا۔ مار بھی کھائ۔ڈانٹ سنی اور اب یہاں بیٹھ کر اسے منا بھی رہا ہے۔
"سوری زاور۔۔!!!! یہ کان تو بہت زیادہ ریڈ ہورہا ہے۔سویلنگ ہوگئ ہے ۔!!!! میں آئنمنٹ لگادیتی ہوں تم یہاں آکر بیٹھو۔۔!!!"
تہزیب نے اسے وہاں سے اٹھنے کو کہا جو تابعداری سے اٹھ گیا۔اور وہ فرسٹ ایڈ باکس لینے چلی گئ۔
وہیں زاویار تو تہزیب کی اتنی فکر پانے کے لیے مرنے کو بھی تیار تھا۔وہ بس خاموش تھا دیکھنا چاہتا تھا تہذیب اس سے کتنی محبت کرتی ہے
تہزیب نے ایک کریم نکالی جو درد کم کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔پھر اس کے پاس بیٹھ کر بہت ہی احتیاط سے اس کے کان کے ارد گرد اس کریم سے مساج کی۔سویلنگ کافی زیادہ تھی۔اس کی کنپٹی تک اس تشدد کے اثرات تھے۔شاہویز صاحب نے آج کسر نکال کررکھ دی تھی۔
"نیکسٹ ٹائم مجھے تم سے کوئ مسئلہ ہوا تو میں چچا جان کو اس میں کبھی انوالو نہیں کروں گی۔وہ بہت زور سے مارتے ہیں تمہیں۔۔!!!! بھلا ایسا بھی کوئ کرتا ہے تم فکر نہیں کرو۔آئندہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔"
تہذیب نے پختہ ارادہ کیا۔پھر اس کی آنکھوں میں دیکھ کر اسے تسلی بھی دی۔جو غش کھانے کے قریب تھا۔اتنا درد تو اسے نہیں ہوا تھا جتنا تہذیب کو ہورہا تھا۔
"داداجان اور بھائ کو بھی نا بتانا۔۔!!!! وہ بھی کوئ لحاظ نہیں کرتے۔یہ دوسرا کان داداجان کے نشانے پر تھا ۔ !!!!"
اس کی معصومیت میں بہتے اس نے دوسرا کان بھی سامنے کردیا۔جس کا حشر اس سے بھی برا تھا۔تہذیب نے اس کے درد کا سوچتے وہ ائنمنٹ اس کان کے قریب بھی لگائ۔
یہ رانجھا اپنی اسی ہیر کی وجہ سے مار کھانے کے بعد اب مرہم پٹی بھی اسی ہیر سے کروا رہا تھا۔ساتھ میں ہمدردیاں بھی بٹور رہا تھا.
"میں بہت بری ہوں نا۔۔۔!!!! ہمیشہ تمہیں ہرٹ کرتی ہوں۔تمہیں میری وجہ سے مار پڑتی ہے۔پھر بھی تم مجھے کچھ نہیں کہتے تم بہت اچھے ہو۔۔۔!!!! بہت اچھے۔۔!!!!"
روتے ہوۓ اس نے اس کے کندھے پر سر رکھ دیا۔جو اس کی فکر میں کھویا ہوا تھا۔اب دوبارہ اس کے رونے پر بوکھلا گیا۔
"ڈونٹ کراۓ تہذیب۔۔۔!!!!! تب تو درد نہیں ہوا تھا ۔پر تمہیں روتا دیکھ کر ضرور درد ہورہا ہے۔تمہارے لیے تو جان بھی حاضر۔۔!!!! میری بیوی اتنا نا روؤں میں بھی رو پڑوں گا۔۔۔!!!"
زاویار نے اس کا سر سہلاتے کہا جو آنسو صاف کرکے بیٹھ گئ۔
اب ہم اپنی پرابلمز خود سالو کیا کریں گے۔جو لوگ زیادہ مارتے ہیں انہیں نہیں بتائیں گے۔۔ !!!!"
اس نے سنجیدگی سے کہا۔تو زاویار زیر لب ہنسا۔اسے پتہ تھا ایسا کچھ نہیں ہونے والا یہ مار تہذیب جہیز میں بھی لاۓ گی۔اس کے سسرال والے تو سارے ہی آئرن مین کے لگتے ہیں۔
"چلو نیچے چلتے ہیں۔۔!!! سب ویٹ کررہے ہوں گے۔!!!!"
اس کا ہاتھ پکڑتے وہ اسے اپنے ساتھ نیچے لان کی طرف لے گیا۔ان کی زندگی ایسی ہی تھی پہلے زاویار اسے تنگ کرتا پھر تہذیب روتی اور زاویار کے سسرال والے دل کھول کر اس سے بدلہ لیتے۔پھر جب وہ تہذیب کے پاس آکر اسے مناتا تو وہ خود ان زخموں پر مرہم لگاتی۔وہ تو اتنے میں ہی خوش ہوجاتا تھا۔
🅘🅢🅜🅐🅗 🅠🅤🅡🅔🅢🅗🅘 🅝🅞🅥🅔🅛🅢
"اسمارا میری جان کیسی ہو تم۔۔۔!!!؛" اسمارا کی امی نے اسے گلے لگایا پھر اس کی پیشانی پر بوسہ دیا۔آج کتنے مہینوں بعد وہ ان سے ملی تھی۔فون ہر بات تو وہ کرتی رہتی تھی لیکن ولیمے کے بعد ملاقات آج ہی ہوئ تھی۔
امی میں ٹھیک ہوں ۔۔!!!!" اسمارا نے انہیں تسلی دی۔جو اب شاہزیب کو دیکھ رہی تھیں۔
"السلام علیکم آنٹی ۔!!!!" انہوں نے شاہزیب کے سر پر ہاتھ رکھا۔جو مسکرادیا۔
"وعلیکم السلام بیٹا کیسے ہو آپ۔۔۔!!!! آپ تو ہم سے ملنے ہی نہیں آتے ۔۔!!!" محبت بھری نگاہ دونوں پر ڈال کر انہوں نے شکوہ کیا۔
"الحمد اللہ آنٹی ٹھیک ہوں۔۔!!!!! بس مصروفیت ہی اتنی ہوتی ہے۔وقت نکال ہی نہیں پاتا ۔لیکن اب آپ نے کہہ دیا ہے تو بے فکر رہیں جلد آپ کی بیٹی کو آپ سے ملوانے آپ کے گھر لاؤں گا۔۔۔!!"
اس نے ان کا شکوہ دور کیا۔وہ اسمارا کی بیماری سے ناواقف تھیں۔انہیں کسی نے نہیں بتایا تھا۔جب سب ٹھیک ہورہا تھا تو ان کا بےفکر رہنا ہی مناسب تھا۔
شاہزیب کی نظریں سعد پر ٹکی تھیں ۔جو ابھی بس اپنی امی کو یہاں چھوڑنے آیا تھا۔کچھ ہی دیر میں واپس چلا جاتا۔اسے آفس میں کچھ کام تھا ۔اس کا سر ابھی بھی جھکا ہوا تھا۔بھلے ہی اسمارا اسے معاف کرچکی تھی۔پر اپنی نظروں میں وہ تب تک سرخرو نا ہوتا جب تک ایک اچھا بھائ بن کر اپنے گناہوں کی تلافی نا کردیتا۔
"السلام علیکم ۔۔!!!! سالے صاحب۔۔۔۔!!!!! مجھے پہچانا یا اب بھی کہیں گے آپ کون۔۔۔!!!!! وہ آنٹی کچھ مہینے پہلے میں آپ کے گھر کے سامنے سے گزر رہا تھا تو سوچا آپ سے ہی مل لوں۔آخر داماد ہوں میں آپ کا۔۔۔!!!!! لیکن سالے صاحب نے تو مجھے پہچاننے سے ہی انکار کردیا۔میں نے بتایا بھی کہ میں شاہزیب ہوں۔اسمارا کا شوہر۔۔۔!!!!!! تو کہنے لگے نکاح نامہ یا شادی کی تصویر دکھاؤ۔بغیر کسی ثبوت کے میں تمہیں گھر میں آنے نہیں دے سکتا۔اور مجھے وہیں سے واپس لوٹادیا۔۔۔۔!!!!!! آپ بتائیں یہ کوئ اچھی بات تھی ۔اکلوتا داماد دروازے سے ہی واپس لوٹ جاۓ۔۔۔۔!!!!!!"
سعد سے ہاتھ ملانے کے بعد اس نے صبأ صاحبہ سے شکایت کی۔جن کا منہ یہ بات سن کر صدمے سے کھل گیا۔وہیں سعد خود اس بات پر حیران تھا کہ اس نے کب اسے دروازے سے واپس لوٹا دیا تھا۔جتنا وہ جانتا تھا شاہزیب تو اس کے گھر آکر اسے مار کر گیا تھا۔
"وہ امی میں نے انہیں شادی کے بعد پہلی دفعہ دیکھا تھا۔اس لیے پہچان نا سکا۔آپ بھی گھر پر نہیں تھیں تو مجھے کچھ سمجھ ہی نہیں آیا کیا کروں۔۔۔!!!! میں نے تو بعد میں روکا تھا یہ رکے ہی نہیں۔۔۔!!!!"
نظریں پھیر کر سعد نے اس کے جھوٹ پر مہر لگادی۔اب اگر کہتا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے تو شاہزیب اس پر چڑھ دوڑتا۔اسمارا بھی ان دونوں کی باتیں سن رہی تھی اسے یاد آیا جب سعد نے اس سے کہا تھا تمہارے شوہر کا ہاتھ لوہا ہے۔میرا وہ لحاظ نہیں کرے گا۔اسے لمحہ لگا تھا سب سمجھنے میں۔پر وہ بھی چپ ہی رہی ان دونوں کا آپسی مسئلہ تھا۔ نا وہ شوہر کے خلاف جاکر اس کا دل توڑنا چاہتی تھی نا بھائ کو جھوٹا کہنا چاہتی تھی۔اس نے کندھے اچکادیے کہ دونوں کا معاملہ وہ خود سنبھالیں۔
"غلط بیانی نہیں کریں سالے صاحب۔۔۔!!!!! آپ نے تو ایک پانی کا گلاس بھی نہیں پلایا تھا۔لوگ تو اپنے داماد کی خاطر داری میں کسر نہیں چھوڑتے اور آپ نے تو مجھے مشکوک بنانے میں کسر نہیں چھوڑی ۔۔۔!!!!! سوری آنٹی پر آپ کے بیٹے کو مجھ سے کوئ مسئلہ ہے۔میں صرف آپ کی خاطر چپ کرگیا۔کہ کہیں اتنی سویٹ آنٹی کو تکلیف نا ہو۔پر آپ کا بیٹا ابھی بھی مجھے ہی غلط کہہ رہا ہے۔۔۔!!!!"
معصوم سی صورت بناتے اس نے صبأ صاحبہ کی ہمدردیاں بٹوریں۔جو اس کی کہانی کو سچا مان چکی تھیں۔
"بیٹا آپ جیسا داماد تو قسمت والوں کو ہی ملتا ہے۔اتنا کچھ ہونے کے باوجود آپ اب بھی کوئ شکوہ نہیں کررہے۔کوئ اور ہوتا تو ہمیں ہماری بیٹی سے بھی نا ملنے دیتا۔اور اس سعد کی باتوں کی وجہ سے دل چھوٹا نا کرنا۔یہ تو ہے ہی نکما۔۔۔!!!!! پتہ نہیں کس دنیا میں رہتا ہے۔ ذرا بتاؤ گھر آئے داماد کے ساتھ ایسا سلوک کون کرتا ہے۔بہن کا احساس ہے تمہیں یا نہیں۔۔۔!!!!!"
صبأ صاحبہ نے پہلے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا پھر سعد کا کان پکڑا۔جو اب شاہزیب کو رحم طلب نظروں سے دیکھ رہا تھا۔کہ کیوں میرے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گۓ ہو۔پر شاہزیب تو ایسا ہی تھا جب وہ اپنے جگری یار کو بے عزت کرسکتا ہے تو سعد تو پھر بھی اس کا ناپسندیدہ سالا تھا۔
"امی معاف کردیں ۔آئندہ ایسی غلطی نہیں ہوگی۔ شاہزیب آئ ایم ریلی ریلی سوری۔"
اپنا کان چھڑوانے کی تگ و دو کرتے اس نے شاہزیب سے بھی ناکردہ جرم کی معافی مانگی۔
"آنٹی چھوڑ دیں۔مجھے واقعی برا نہیں لگا تھا۔میں انشأ اللہ اب وقت نکال کر آپ کے گھر آؤں گا آپ کی اس کیوٹ سی بیٹی کے ہمراہ آپ کے ہاتھ کا بنا کھانا کھانے۔۔۔۔!!!!! "
ایک بار پھر فرمانبردار بنتے اس نے انہیں خوش کیا اپنی بات سے۔جو سعد کا کان چھوڑ کر اس کے صدقے واری جانے لگیں۔سعد نے وہاں سے نکلنے میں ہی عافیت جانی۔وہاں رہتا تو شاہزیب یہی ٹاپک پھر سے شروع کردیتا۔
پیچھے صبأ صاحبہ ان دونوں سے باتوں میں مصروف ہوگئیں۔اسمارا تو شاہزیب پہ حیران تھی۔وہ ان سے یوں گھل مل گیا تھا جیسے سالوں سے انہیں جانتا ہوں۔وہیں شاہزیب انہیں مطمئن کرنا چاہتا تھا کہ وہ بے فکر رہیں ان کا یہ داماد ان کی بیٹی کا خیال اچھے سے رکھ رہا ہے۔
🅘🅢🅜🅐🅗 🅠🅤🅡🅔🅢🅗🅘 🅝🅞🅥🅔🅛🅢
"کیوں پکڑ کے رکھا ہے مجھے۔۔۔۔!!!!!!! وجہ تو بتادو ۔۔۔۔!!!!!!"
اپنی آنکھوں پر بندھی پٹی کی وجہ سے وہ شخص اپنے سامنے بیٹھے ان دو لوگوں کو نا دیکھ سکا۔جو اس کی چیخوں سے مخظوض ہورہے تھے۔
"ویسے یار اس کا قصور تو باس نے بتایا نہیں۔۔۔!!!! پچھلے دو مہینوں سے یہ ہماری قید میں ہے۔تجھے کیا لگتا ہے اس نے باس کا کیا بگاڑا ہوگا۔۔۔!!!!"
سامنے کرسی پر بیٹھے ایک شخص نے دلچسپی سے دوسرے شخص سے پوچھا ۔تے خانے میں نیم اندھیرا تھا۔وسط میں لٹکتے چھوٹے سے بلب کی روشنی صرف ان دونوں کے چہروں پر ہی پڑ رہی تھی۔
"پتا نہیں یار۔۔۔!!!! بس باس کا حکم ہے اس کی آنکھوں تک روشنی نہیں پہنچنی چاہیے۔۔!!! انہوں نے اسے رلانے کا حکم دیا ہے۔بس یہی کہا ہے۔ یہ بے حس انسان ہے اسے تڑپاؤ۔۔۔!!!!"
چھوٹے سے ٹیبل پر رکھا پانی کا گلاس اٹھا کر پیتے اس نے وہ بات بتائ جو اسے پتہ تھی۔پہلے آدمی نے زمین پر بیٹھے رامش کا مکمل جائزہ لیا۔جس کے دونوں ہاتھ اور پیر بندھے ہوۓ تھے۔جو دو مہینوں سے خود بھی انجان تھا اس کے ساتھ ہوکیا رہا ہے۔
"کچھ تو کیا ہی ہوگا اس نے۔۔۔!!!!! اسی کی سزا ہی بھگت رہا ہے۔۔!!!! چل آ ہم تو کھانا کھا آئیں۔۔!!!"
رامش کا ٹوپک ختم کرتے اس نے اپنے دوسرے ساتھی کو وہاں سے چلنے کا بولا ۔جو اس آخری ںلب کو بھی بجھا کر اس کے پیچھے چل پڑا۔
رامش اب بھی نہیں سدھرا تھا۔بیرون ملک آکر وہ کئ غیر قانونی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہوچکا تھا۔شاہزیب نے اسے اغواہ تو اسمارا کی وجہ سے کروایا تھا۔پھر اسے جب اس کی دیگر حرکتوں کا پتہ چلا تو اس نے اسے تب تک ٹارچر کرنے کا حکم دیا جب تک وہ سدھر نا جاۓ۔
وہ اسمارا کی ایک ایک تکلیف کا اس سے بدلا لینا چاہتا تھا ۔جیسے وہ بےحس انسان اسے تکلیف میں دیکھ کر خوش ہوتا تھا۔شاہ زیب اسے اس سے دگنی اذیت دینا چاہتا تھا۔
رامش جیسے لوگوں کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے۔اگر وہ سدھر گیا ہوتا تو شاید اب آزاد فضا میں سانس لے رہا ہوتا ۔
"مجھے باہر نکالو۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!! کیوں بند کر رکھا ہے مجھے۔۔۔۔۔!!!!!!!!! کوئ ہے یہاں۔۔۔۔!!!!!! "
تنگ آکر اس نے خاموشی اختیار کی۔اور وہیں دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
🅘🅢🅜🅐🅗 🅠🅤🅡🅔🅢🅗🅘 🅝🅞🅥🅔🅛🅢
پہلے تہذیب کی سالگرہ کا کیک کٹ ہوا۔پھر اسمارا کی ہالف اینیورسری کا۔۔۔!!!!!
انہوں نے بلایا تو ہاشم اور ایمان کو بھی تھا۔لیکن وہ دونوں اس وقت ملک سے باہر تھے۔جس شادی کو کرنے کے لیے وہ تیار ہی نہیں تھی اب اسی شادی کی وجہ سے وہ بے حد ہوش تھی۔ہاشم جتنا لاپرواہ شاہزیب کو لگتا تھا وہ اتنا ہی کیرنگ ثابت ہوا اس کے معاملے میں۔اسمارا ان دونوں کی پکس دیکھ کر خوش ہوگئ تھی۔
پھر وعدہ بھی لیا تھا وہ اب اس کی اینیورسری پر ضرور آئیں گے۔
سب کی زندگیوں میں اب خوشی ہی خوشی تھی۔شاہزرصاحب نے طے کیا کہ تہذیب پڑھنے والی لڑکی ہے ہی نہیں۔اگر وہ لوگ اسی انتظار میں رہے کہ کب وہ ڈگری مکمل کرے گی اور کب وہ اس کی رخصتی کریں گے تو یہ اس دنیا میں تو ممکن ہی نہیں۔
اس لیے جب زاویار اپنا آفس مینج کرنے کے قابل ہوجاۓ گا وہ تب اس کی رخصتی کروا دیں گے۔اور زاویار کو اب امید تھی یہ دن بھی جلد آہی جاۓ گا۔کیونکہ وہ کافی ذہین تھا۔بس تھوڑا سا لاپرواہ تھا اور اسے یہی لاپرواہی ختم کرنی تھی۔
تہذیب تو اتنے میں ہی خوش تھی کہ اس کی جان اب پڑھائ سے چھوٹنے والی ہے۔جلد وہ بھی آزاد ہو گی اس یونیورسٹی والے جھنجھٹ سے۔۔۔۔!!!!! باقی سب کو بھی امید تھی کہ ان دونوں کی شادی اب ضرور ہوجاۓ گی۔
لاسٹ میں ایک فیملی پک بنائ گئ۔جس میں سب کے چہروں پر خوشی تھی ۔شاہزرصاحب درمیان میں۔ان کے دائیں جانب کھڑے تھے شاہمیر صاحب اور ان کی بیگم۔بائیں جانب کھڑے تھے شاہویز صاحب اور ان کی بیگم۔۔۔!!!!
ہمیشہ کی طرح کیوٹ کپل اب بھی ڈیسنٹ طریقے سے حیأ صاحبہ کے برابر میں کھڑا تھا۔جب شاہزیب کی کسی بات پر اسمارا مسکرا اٹھی۔اور اسے دیکھتے ہی شاہزیب کی مسکراہٹ گہری ہوئ ۔۔!!!! وہ دونوں حد سے زیادہ خوبصورت لگ رہے تھے ایک دوسرے کے ساتھ۔
جبکہ تصویر کلک ہونے سے پہلے ہی تہزیب زاویار کے بالوں میں سنو سپرے کرچکی تھی۔جس کا منہ حیرت سے اپنے حال پر کھلا تھا۔اور تہذیب کی شرارتی مسکان اسے جلانے کا کام کررہی تھی۔اس خوبصورت لمحے کو کیمرے نے کیپچر کرلیا۔
پھر ان دونوں کی حرکت کے بعد تصویر دوبارہ کلک ہونے لگی۔جب آخری لمحے زاویار نے وہ سنو سپرے تہزیب کے چہرے پر سپرے کرنا چاہا پر تہذیب وہاں سے ہٹ گئ اور سپرے بالکل سنو کی طرح قطار میں کھڑے ان سب لوگوں کے بالوں میں چپک گیا۔زاویار بیچاری سی صورت لیے کھڑا تھا۔جبکہ تہذیب کا ہنس ہنس ہر برا حال تھا۔اسمارا شاہزیب۔ کے بالوں میں بالکل برف کی مانند سجا سپرے دیکھ رہی تھی۔اور یہ لمحہ بھی محفوظ ہوگیا۔
البتہ شاہزر صاحب اگلی تصویر میں کسر نکال چکے تھے۔وہ سپرے تہذیب اور زاویار کے بالوں پر ختم کرکے۔وہ دونوں نمونے بنے تصویر کھنچوا چکے تھے۔اور شاہزر صاحب کا کہنا تھا یہ تصویر لاؤنج میں بڑی سی فریم میں لگوائ جاۓ گی۔تاکہ دن رات ان کے کارنامے کو سراہا جاسکے۔اور یہ بھی یاد رکھا جاۓ کہ سرکس کے نمونے ان کے گھر پیدا ہوگۓ ہیں۔
زاویار نے منتیں ترلے کرنے کے بعد انہیں منانا چاہا کہ وہ ایسا ظلم نا کریں ۔بھلا اس کی کیا عزت رہ جاۓ گی۔انہیں ان کی مرحوم بیوی کے واسطے دینے کے بعد اس نے مسکین صورت بنائ جو آخر کار مان ہی گۓ۔
اگلے پانچ منٹ میں اپنا حلیہ سنوار کر ایک خوبصورت سی تصویر انہوں نے کلک کرواہی لی۔جو سلطان فیملی کی مکمل تصویر تھی۔
🅘🅢🅜🅐🅗 🅠🅤🅡🅔🅢🅗🅘 🅝🅞🅥🅔🅛🅢
تقریب ختم ہونے کے بعد سب اپنے اپنے گھروں کو جاچکے تھے اسمارا بھی چینج کرکے بیٹھی موبائل پر گیم کھیل رہی تھی۔موبائل استعمال کرنے کی اجازت بڑی مشکل سے اس نے شاہ زیب سے لی تھی۔یہ کہہ کر کہ اسے اپنی امی سے بات کرنی ہوتی ہے۔وہ بس بات ہی کیا کرے گی۔فضول میں سکرولنگ نہیں کرے گی۔شاہزیب کے کمرے میں آنے کی دیر تھی اس نے فون بند کرکے سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔
"سوئی نہیں ابھی تک آپ۔۔۔!!!!" شاہزیب نے اپنا کوٹ اتار کر صوفے پر رکھا۔پھر اس کے پاس آکھڑا ہوا۔
"نہیں ابھی نیند نہیں آرہی مجھے۔۔۔!!!!! " اس نے مسکراتے ہوۓ جواب دیا۔شاہ زیب نے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر ٹمپریچر چیک کیا۔
"طبیعت ٹھیک ہے نا آپ کی۔۔۔!!!!" بخار تو اسے نہیں تھا۔پھر بھی اس نے پوچھنا ضروری سمجھنا۔اور اسکے سامنے بیٹھا۔
"طبیعت آپ کے رہتے خراب ہوبھی نہیں سکتی۔۔۔!!!!! مسٹر شاہزیب سلطان۔۔۔!!!!"
اسمارا کی بات سن کر اس نے اس کی ناک دبائ اور آٹھ کر اپنی سائیڈ آکر بیٹھ گیا۔
"خراب ہونی بھی نہیں چاہیے.مسز شاہزیب سلطان۔۔۔۔!!!!"
ڈرار سے کچھ نکالتے اس نے اسے جتایا۔جو اسی کی طرف پر تجسس نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔
"اگر جان کی امان پاؤں ملکہ عالیہ تو کیا میں آپ کی خدمت میں کچھ پیش کرسکتا ہوں۔۔۔!!!!"
ایک چھوٹا سا باکس نکال کر وہ وہیں بیٹھ گیا۔اسمارا نے ہاتھ کے اشارے سے اجازت دی۔
"اجازت ہے سلطان صاحب۔۔۔!!!! آپ کی جان کو کوئ خطرہ نہیں جو چاہیں پیش کریں۔۔۔!!!!"
شاہزیب نے سر کو خم دیا اور باکس سے بریسلیٹ نکال کر اسے اپنا ہاتھ آگے کرنے کو کہا۔اسمارا اس گفٹ کو دیکھ کر خوش ہوئ تھی۔
"یہ میرے لیے ہے۔۔۔۔!!!!!"
اس نے یقین کرنا چاہا۔پہلی بار وہ اس کی دی کسی چیز کو لے کر خوش ہوئ تھی۔کیونکہ اب وہ اس کا شوہر ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین دوست بھی بن چکا تھا۔اور اس کی طرف سے دی گئ چیزیں اسے سپیشل فیل کرواتی تھیں۔
"جی مسز۔۔۔!!!!! آپ کے لیے ہی ہے۔۔۔!!!" اس کے ہاتھ پر وہ بریسلیٹ پہناتے اس نے تصدیق کی۔جو اسی بریسلیٹ کو دیکھتی ہی رہی۔
شاہزیب نے ایک اور باکس نکال کر اس کے سامنے رکھا۔
"یہ بھی میرے لیے ہے۔۔۔!!!!" اس نے حیرت کے مارے پوچھا۔
"صرف یہ نہیں اور بھی بہت سارے ہیں۔ان گزرے اڑھائ سے تین سالوں میں میں ناچاہتے ہوۓ بھی بہت کچھ اکٹھا کر چکا ہوں۔۔۔!!!!"
اس کے کہنے کی دیر تھی اسمارا اس کی سائیڈ پر آئ اور جھک کر ڈرار کا نچلا خانہ دیکھا جو ان باکسز سے بھرا ہوا تھا۔یہ وہ باکسز تھے جو اس دن شاہزیب نے اس کے تاثرات دیکھتے دینے کی ہمت نہیں کی تھی۔(منہ دکھائ کے تخفے دیتے وقت)
تب اس نے سوچا تھا ایک دن یہ سارے گفٹس اسے ضرور دے گا اور وہ آج یہ سارے گفٹس اسے دے رہا تھا۔
"اتنے سارے۔پر ہمیں ملے تو ابھی چھ مہینے ہوۓ ہیں پھر آپ دو,تین سالوں سے چیزیں اکٹھی کیوں کررہے ہیں۔۔۔!!!!"
اس نے خوشی کے مارے پوچھا۔تو شاہزیب نے مسکراتے ہوے نفی میں سر ہلایا۔
"صرف یہ نہیں ابھی ڈریسنگ روم میں بھی بہت کچھ رکھا ہے۔۔۔!!!! اور میں آپ کو پہلے سے جانتا ہوں۔۔!!!! ادھر آئیں پھر بتاؤں گا۔۔۔!!!! "
اسے اپنے پاس بٹھاتے اس نے وہ ڈرار بند کیا۔
اسمارا اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
"وہی سال جن میں آپ نے مجھے پل پل خیالوں میں آکر ستایا تھا۔اتنا تنگ کیا تھا کہ میں آپ کو اللہ سے مانگنے پر مجبور ہوگیا۔پھر ان دو سالوں کی دعاؤں کے بعد اللہ نے مجھے آپ سے پھر ملوادیا اور شاہزیب نے موقع کو غنیمت جانتے آپ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس رشتے میں قید کرلیا۔یہ جو آپ کی آنکھیں ہیں نا انہوں نے مجھے اپنا دیوانہ بنایا تھا۔۔۔۔!!!!"
اس نے پھر شروع سے لے کر آخر تک اسے سب کچھ بتادیا۔شاپنگ مال ،ایئر پورٹ کے راستے میں اتفاقا ہوئ ملاقات،پھر جب گھر والوں نے اسے اس کی پسند سمجھا تو اس نے اسے اپنانے کا فیصلہ کرلیا۔۔۔!!!!!
اسمارا کو اپنا آپ بہت خاص محسوس ہوا۔کہ وہ اس شخص کی محبت نہیں عشق ہے۔۔۔!!!!!
"تو پہلے کیوں نہیں بتایا تھا۔اگر میں اتنی ہی اچھی لگتی تھی تو سیدھا رشتہ بھیجتے نا آپ نے تو کنٹریکٹ سائن کیا تھا۔۔۔!!!
اس نے منہ بنا کر شکوہ کیا۔
"مسز رشتہ بھی بھیجا تھا اور منگنی بھی ہوئ تھی،نکاح،رخصتی اور ولیمہ سب کچھ ہوا تھا۔اگر آپ کو یاد ہو تو۔۔۔!!!!!
میں تو پورے مان سے آپ کو اپنی زندگی میں لایا تھا۔اور کنٹریکٹ بس ایک فارمیلیٹی تھی۔میں چاہتا تھا جیسے میں آپ کو پسند کرتا ہوں آپ بھی مجھے ویسے ہی پسند کریں۔۔۔!!!!"
اس نے وضاحت دی ۔تو اسمارا بھی حیران ہوئ وہ یہ سب سچ ہی تو کہہ رہا تھا۔جو اس نے اس دن پڑھا تھا وہ کنٹریکٹ تو نہیں تھا۔وہ تو محبت نامہ ہی تھا۔۔۔!!!!
'اچھا چھوڑیں ساری باتیں۔۔۔!!!! مجھے گفٹس دکھائیں۔۔۔!!!" اس کے سامنے آکر بیٹھتے اس نے ہاتھ آگے کیا۔
"چلیں آپ اپنے گفٹس دیکھیں اور ٹراۓ بھی کریں۔۔۔!!!! ہر چیز میں میری بے انتہا محبت شامل ہے۔۔۔!!!"
اپنے دل پر ہاتھ رکھتے اس نے آنکھیں بند کرکے کہا۔جب اسمارا اس کے انداز پر ہنسنے لگی۔
"محبت سامنے بیٹھی ہے اور آپ پتہ نہیں کس کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔۔۔!!!! "
"میری کیوٹی۔۔۔!!!! اب تو ہر جگہ آپ ہی آپ ہو۔۔۔!!! دل میں آنکھوں میں،ذہن میں ،سامنے بس اس ناچیز کا سب کچھ آپ ہو۔آپ بتائیں آپ کے لیے میں کیا ہوں۔۔!!!!"
اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے اس نے محبت سے بتایا۔
"میری زندگی کی ضمانت آپ ہو۔۔۔!!!!! اس سے زیادہ مجھے کچھ نہیں کہنا۔۔۔!!!"
اپنا ہاتھ چھڑوا کر اس نے چھوٹا سا اقرار کیا اور خود ہی ڈرار سے باکسز نکالنے لگی۔شاہزیب اس چھوٹے سے اقرار پر بھی بہت خوش تھا۔
اپنی چیزیں دیکھتے اس نے کیوٹ سے کومپلیمنٹ بھی دیے ۔
اس لڑکی کی زندگی ابتدا میں جتنی تکلیف دہ تھی ۔اس ہمدرد کے ملنے کے بعد اتنی ہی خوبصورت ہوچکی تھی۔وہ خوش تھی بے انتہا خوش اس کے سنگ۔۔۔!!!!!
شاہزیب نے اسے کہا تھا اگر وہ آگے پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتی ہے۔پر اسمارا نے خود ہی منع کردیا۔اسے اب سکون بھری زندگی گزارنی تھی۔اور اس کی صحت بھی اجازت نہیں دیتی تھی کہ اسے اب کسی بھی قسم کا کوئ بھی سٹریس ملے۔
عبیرہ نے حسد کے چلتے اپنا سب کچھ گنوا دیا تھا۔وہ تنہا ضرور تھی پر اللہ نے اسے اپنی عبادت کی لذت دے دی تھی۔اور اس لذت کے ملتے اسے کسی اور دنیاوی شے کی ضرورت ہی نا تھی۔
التمش اب پاکستان سے اپنا بزنس وائنڈ آپ کرکے یہاں سے جانا چاہتا تھا۔اپنے بھائ کے پاس نا سہی وہ کسی اور ملک جاسکتا تھا۔کیونکہ وہ اپنے بھائ کی زندگی میں اپنے آنے کی وجہ سے کوئ ڈسٹربینس نہیں چاہتا تھا۔
جس یکطرفہ محبت نے اسے تکلیف دی وہ اس محبت کو بھول جانا چاہتا تھا۔اور ایک نا ایک دن بھول بھی جاتا۔
سعد جتنا پتھر دل تھا۔اب وہ اتنا ہی نرم دل بن چکا تھا۔اب اس کی زندگی کا مقصد ایک اچھا بیٹا اور اچھا بھائ بننا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔💝
تیرا لہجہ تیری باتیں اچھی لگتی ہیں
تیری سوچیں تیری یادیں اچھی لگتی ہیں
تو دے اب الــزام یا دے اپنــی چاہت
اب تیری ساری سوغاتیں اچھی لگتی ہیں
جس دن سے دل تیرے نام پہ___ دھڑکا ہے
اس دن سے ہمیں اپنی سانسیں اچھی لگتی ہیں
🅘🅢🅜🅐🅗 🅠🅤🅡🅔🅢🅗🅘 🅝🅞🅥🅔🅛🅢
صبح اسمارا کی آنکھ کھلی تو اس نے کمرے میں دیکھا۔شاہ زیب نہیں تھا۔پر سائیڈ ٹیبل پر ایک کاغذ رکھا تھا۔ساتھ میں پھول بھی۔
اس نے وہ کاغذ اٹھا کر دیکھا۔جس پر لکھا تھا
کہ وہ دوپہر کو تیار رہے انہیں کسی خاص جگہ جانا ہے۔۔!!!!!
اسمارا متجسس ہوئ کہ کونسی خاص جگہ وہ اسے لے کر جانا چاہتا ہے۔
دوپہر کے وقت وہ تیار تھی۔اور شاہزیب اسے پک کرکے لے جاچکا تھا۔
"ہم کہاں جارہے ہیں۔۔۔!!!!' اسمارا نے اس کے بازو پر سر رکھتے پوچھا ۔
"جب ہم پہنچیں گے تب دیکھ لیجۓ گا۔۔۔!!!!" اس نے بھی تجسس برقرار رکھا۔
گاڑی عالیشان عمارت کے سامنے رکی۔اسمارا اس طرف ابھی دیکھنے ہی والی تھی کہ شاہزیب اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ گیا۔
"یہ چیٹنگ ہے شاہزیب۔۔۔!!!!! مجھے دیکھنے تو دیتے۔۔۔!!!!' اسمارا نے خفا ہوتے کہا۔
"آپ کو دیکھانی ہے یہ جگہ اسی لیے تو لایا ہوں۔۔۔!!!!"
اس کا گال کھینچتے وہ گاڑی سے نکلا اور اس کی طرف آکر اسے گاڑی سے باہر نکلنے میں مدد دی۔نظر تو اسے کچھ آنہیں رہا تھا۔اس لیے وہ اسے جس سمت لے گیا وہ اسی سمت جانے لگی۔
"بس اب اپنا سر پرائز دیکھنے کے لیے تیار ہوجائیں۔۔۔۔!!!!"
گیٹ سے اندر داخل ہوکر اس نے اس کی آنکھوں کے آگے سے پٹی ہٹائ۔اسمارا نے آنکھیں کھولیں۔ تو نظریں خودبخود چاروں اطراف کا طواف کرنے لگیں۔
وہ ایک شاندار محل کے سامنے کھڑے تھے۔جو بالکل سلطان ولا جیسا تھا۔
"یہ کس کا گھر ہے۔۔۔!!!!!"
شاہزیب کو دیکھ کر اس نے سوال کیا۔
"میری بیوی کا گھر ہے یہ۔۔۔!!!!!" اس نے پیار سے کہا۔اسمارا اس بات کو کوئ اور مطلب سمجھ گئ
"آپ نے دوسری شادی کرلی۔۔۔!!!! کیسے کرسکتے ہیں آپ یہ سب میرے ساتھ۔۔۔!!!! رہیں اس کے ساتھ ہی میں جارہی ہوں۔۔۔!!!"
آنکھوں میں موتی چمکے اور وہ وہاں سے جانے لگی جب شاہزیب اسکی ناسمجھی پر ششدر رہ گیا۔
"محترمہ آپ ہی ہیں میری بیوی۔۔۔!!!! آپ کا گھر ہے یہ۔۔۔!!!!! یہی سمجھیں میں نے اپنی ملکہ کا محل بنوایا ہے۔۔۔!!!!!"
اسے روکتے اس نے فورا وضاحت دی۔جو رونے کو تیار تھی۔
اسمارا نے یہ بات سنتے ہی بے یقینی سے اس گھر کو دوبارا دیکھا۔
"میرا گھر۔۔۔۔!!!!!! یہ میرا گھر ہے۔۔۔!!!!!" ہنستے ہوۓ اس نے تصدیق چاہی۔جب معاملہ سنبھلتے ہی شاہزیب نے بھی ہاں کہا۔تو وہ خوشی سے اچھل پڑی۔
"مجھے یقین نہیں ہورہا کہ اب میرا اپنا ایک گھر ہے۔تھینک یو سو مچ شاہزیب ۔۔۔!!!!"
رنگ برنگے پھول دیکھتے اس نے اپنی نم آنکھیں صاف کیں۔وہ ہمیشہ یہ شکایت کرتی تھی کہ اس کا اپنا کوئ گھر نہیں ۔۔۔!!!!!
اور اب اس کا اپنا گھر تھا۔ایک ایسی جگہ جو اس کی ملکیت تھی۔
"آلویز ویلکم ماۓ وائف۔۔۔!!!!!"
سر کو خم دیتے اس وقت اسمارا کو وہ شخص اپنا سب کچھ لگ رہا تھا۔وہ اس گھر کے اندر داخل ہوئ۔اور ہر چیز کو چھونے لگی۔یہ خوشی ہی الگ تھی اس کے لیے۔۔۔!!!!!
شاہزیب بھی اس کی مسکراہٹ کی بدولت خوش تھا۔اور اس کی مسکان دیکھتے وہاں کھلے ڈھیروں گلاب کے پھول بھی مسکرا اٹھے تھے۔
"ختم شد "
یہ کہانی تھی ایک مثالی محبت کی۔کسی کے حسد کی تو کسی کی نفرت کی۔کسی کی شرارتوں کی تو کسی کی تکلیف کی۔۔!!!!!!
کچھ محبتیں ایسی بھی ہوتیں ہیں خوبصورت اسمارا اور شاہزیب کی طرح۔تو کچھ لوگوں کی محبت شروع ہی جھگڑے سے ہوتی ہے زاویار اور تہذیب کی طرح۔۔۔!!!!!!
حسد کا انجام بربادی ہی ہے۔اور خود غرضی بھی انسان کو کچھ حاصل ہونے نہیں دیتی ۔۔!!!
اگر کوئ کسی کو تکلیف دینے کی خواہش کرے اسے برباد کرنا چاہے تو آخر میں وہ تنہا ہی رہ جاۓ گا۔۔۔!!!
ہم ضرور سمجھیں گے اسمارا اور شاہزیب بس کردار تھے کوئ ایسا حقیقت میں نہیں ہوسکتا۔پر سچ یہ ہے یہ کردار حقیقت میں بھی ہوسکتے ہیں۔۔!!!!
اگر ہم ہر رشتے کو اتنے ہی خلوص سے نبھائیں۔ہر کسی کا خیال رکھیں۔بے لوث محبت کریں۔ تو ہم بھی ان جیسے بن سکتے ہیں۔۔۔!!!!
خوشیاں چاہنے سے اچھا ہے آپ کسی کی خوشی کی وجہ بن جاؤ۔۔۔!!!!
مسکرانے سے زیادہ کوشش کرو کوئ آپ کی وجہ سے مسکراۓ۔
اگر آپ کسی کو اہمیت دو گے تو بدلے میں آپ کو اللہ کی ذات اتنی خوشیوں سے نوازے گی جن کو شمار کرنا بھی مشکل ہوگا۔بھلے اس دنیا میں نہ سہی پر آخرت میں اس کا اجر آپ کو ملے گا۔
خوش رہیں ۔۔!!!!
کوئ غلطی ہوئ ہو تو معاف کردیجۓ گا۔
اللہ حافظ۔۔!!!!!
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ❤️
𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵:𝓣𝓪𝓵𝓪𝓪𝓼𝓱 𝓱𝓪𝓲 𝓗𝓪𝓶𝓭𝓪𝓻𝓭 𝓴𝓲
𝓦𝓻𝓲𝓽𝓮𝓻:𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲.
•————•°•𝓛𝓪𝓼𝓽 𝐸𝓅𝒾𝓈𝑜𝒹𝑒 𝟧7•°•————•
محبت پھول ہوتی ہے، کہو تو
پھول بن جاؤں۔۔۔!!!!!
تمہاری زندگی کا اِک حسیں
اصول بن جاؤں....!!!!!
سُنا ہے ریت پہ چل کے تم اکثر
مہک جاتے ہو۔۔۔۔!!!!!
کہو تو اب کے بار میں زمیں کی
دھول بن جاؤں.....!!!!!
بہت نایاب ہوتے ہیں جنہیں تم
اپنا کہتے ہو.....!!!!!
اجازت دو کہ میں بھی اس قدر
انمول بن جاؤ....!!!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسمارا کمرے میں بیٹھی تھی۔دوپہر کا وقت تھا۔شاہزیب ابھی آفس گیا ہوا تھا۔اب وہ اسمارا کی خاطر شام کو ہی گھر آجاتا تاکہ اس کا خیال رکھ سکے۔اسمارا پہلے سے کافی بہتر تھی اب۔شاہزیب جتنا اسے خوش رکھ سکتا تھا وہ اسے اس سے بھی زیادہ خوش رکھنے کی کوشش کرتا تھا۔روز گھنٹوں تک وہ خاموش مزاج شخص اس سے باتیں کرتا،کچھ اس کی سنتا کچھ اپنی سناتا۔
آفس کا ٹائم وہ مینج کرچکا تھا۔اس لیے اسے کوئ ایشو نہیں تھا اب۔اسمارا اپنی زندگی میں بہت خوش تھی۔اتنا خوش جتنا خوش ہونے کا اس نے تصور بھی نہیں کیا تھا کبھی۔
بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے۔
وہ ابھی شاہزیب کے ہی خیالوں میں مگن تھی جب ڈور ناک ہوا۔اسمارا نے اپنا دوپٹہ سر پر سیٹ کیا۔اور بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئ۔
"آجائیں۔۔۔!!!!!" اس نے باہر کھڑے شخص کو اندر آنے کی اجازت دی۔دروازہ آہستہ سے کھلا اور عبیرہ اس کے کمرے میں داخل ہوئ۔
آج کافی دنوں کے بعد ہمت کرکے وہ اپنے کمرے سے نکلی تھی۔طلاق والی بات سب جان چکے تھے۔انہیں اس کے لیے برا بھی لگا تھا۔وہ جیسی بھی تھی کسی نے کبھی نہیں چاہا تھا اس کا گھر خراب ہو۔اور یہ گھر اس نے خود ہی خراب کیا تھا۔۔۔۔!!!!!!
ماہرہ صاحبہ پھر بھی اس سے ملنے نہیں گئ تھیں۔ماہرہ صاحبہ تو کیا وہ خود ہی کسی سے نہیں ملتی تھی۔اس کا کمرہ اس کے لیے قید خانہ بن چکا تھا۔اور یہ تنہائ بہترین دوست
۔۔۔!!!!!
جو اسے تکلیف بھی دیتی تھی ۔تو سکون بھی اسے اسی تنہائ سے ہی ملتا تھا۔
"اگر تم فری ہو تو کیا میں تھوڑی دیر تم سے بات کرسکتی ہوں۔پلیز ۔۔۔!!!! میں صرف بات کرنے ہی آئ ہوں۔بے فکر رہو۔۔۔۔!!!!!"
اسمارا اسے اتنے دنوں بعد اپنے سامنے دیکھ کر حیران تھی۔اسے یاد تھا کیسے اس دن عبیرہ نے اس کے کردار پر سوال اٹھاۓ تھے۔اسی کی وجہ سے اسمارا کتنی تکلیف سے گزری تھی۔اسمارا کے تاثرات سخت تھے۔اسے امید نہیں تھی کہ وہ دوبارہ عبیرہ سے ملے گی۔
عبیرہ نے اس کے چہرے کے تاثرات سے باخوبی اندازہ لگا لیا کہ اسمارا کو اس کا یہاں ہونا عجیب لگا ہے۔اس لیے اس نے وضاحت دی۔اسے ڈر تھا کہیں اس کی وجہ سے اسمارا کی طبیعت خراب نہ ہوجاۓ۔
اسمارا نے چہرے کا زاویہ بدلا اور ریلیکس رہنے کی خاطر آنکھیں بند کرکے گہرا سانس خارج کیا۔کہ اب ناجانے کیا ہوگا اس کے ساتھ۔۔!!!!!
وہ عبیرہ کی طالاق والی بات سے انجان تھی۔گھر میں کوئ عبیرہ کا ذکر بھی نہیں کرتا تھا تو وہ کیسے جان لیتی۔
"ضرور۔۔۔!!!!! آپ یہاں بیٹھ جائیں۔۔۔!!!!"
اسمارا نے اپنے سامنے موجود خالی جگہ کی طرف اشارہ کیا۔عبیرہ کی بات سنے بغیر وہ اسے واپس نہیں بھیجنا چاہتی تھی۔اجازت ملنے کی دیر تھی عبیرہ آکر اس کے سامنے بیٹھی۔اسمارا کی نظر غیر ارادی طور پر عبیرہ کے چہرے پر پڑی۔اس کی آنکھوں کے نیچے ہلقے تھے۔چہرے پر وہ پہلے والی چمک نہیں تھی اب۔۔۔!!!!!!
وہ جو ہمیشہ تیار ہوکر رہتی تھی۔آج اس کا حلیہ سادہ سا تھا۔سب سے حیران کن اسے اس کا یہ بدلا ہوا لہجہ لگا۔ہمیشہ سر اٹھا کر بات کرنے والی اس لڑکی کا سر آج جھکا ہوا تھا۔
"کیا بات کرنی ہے آپ نے۔۔۔!!!!!! "
اس کے چہرے سے نظریں پھیر کر اس نے پوچھا ۔لہجہ سپاٹ تھا۔عبیرہ کی یہ حالت دیکھ کر اس کا دل نرم پڑا تھا۔وہ اتنے برے حال کو پہنچے گی اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔اسے لگا تھا وہ اپنے گھر جاچکی ہے۔اور وہاں خوش بھی ہے۔
"اسمارا ۔۔۔!!!!! میں تم سے م۔معافی مانگنا چاہتی ہوں۔۔!!!! میں نے جو کیا وہ معافی کے قابل نہیں تھا۔میں نے جان بوجھ کر تمہیں تکلیف دی۔صرف اپنی انا کی خاطر۔۔۔!!!!! "
عبیرہ کا سر مزید جھکا۔اسمارا تو اس کے منہ سے معافی کا لفظ سن کر ششدر رہ گئ۔اسے حیرت ہوئ کہ عبیرہ کسی سے معافی بھی مانگ سکتی ہے۔پر وہ مانگ رہی تھی۔۔۔!!!!!
"میں نے تمہیں اغواہ کروایا۔۔۔!!!! گھر والوں کی نظروں میں گرانا چاہا۔۔۔!!!!! تم پر بہتان لگاۓ۔اور بھی ناجانے کیا کیا میں تمہارے ساتھ کرچکی ہوں۔۔۔۔۔!!!!!! میں معافی کے قابل ہوں ہی نہیں۔۔!!!! پر پھر بھی آج ہمت کرکے تمہارے سامنے آئ ہوں۔ہوسکے تو مجھے معاف کردو۔۔۔!!!! معافی نا سہی کوئ سزا ہی دے دو۔۔۔!!!! میں ہر سزا کے لیے تیار ہوں۔بس کچھ تو ایسا کہہ دو مجھے سکون مل جاۓ۔۔۔!!!!"۔
اس نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر جیسے تڑپ کر التجا کی تھی۔اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔اسے سکون نہیں ملتا تھا۔وہ روتی تھی اپنے کیے پر۔۔!!!! نا اسے کوئ تسلی ملتی تھی نا درد کم ہوتا تھا۔اسمارا نے اس کے آنسو دیکھے تو وہ شاکڈ ہوئ۔
اسے یہ سب کسی خیال یا وہم جیسا لگا۔اس کے سامنے بیٹھی یہ لڑکی عبیرہ تو ہرگز نہیں ہوسکتی تھی۔اس کی زبان کو تالا لگ گیا۔وہ بغیر پلک جھپکاۓ اسے دیکھتی رہی۔
"پلیز اسمارا کچھ تو بولو۔۔۔!!!! مجھ پر غصہ کرلو۔۔۔!!!! چیخ لو۔۔۔!!!!! مار لو۔۔۔!!!! پر پلیز چپ نا رہو۔میں تنگ آگئ ہوں اس خاموشی سے ۔۔۔!!!! اپنی لگائ آگ میں میں خود جل گئ ہوں۔مجھ پر ترس ہی کھالو۔۔!!!!! "
عبیرہ نے اپنے ہاتھ اس کے سامنے جوڑ دیے۔اسمارا ابھی بھی شاکڈ ہی تھی کہ یہ کیا ہورہا ہے۔یہ عبیرا ہی ہے نا۔۔۔۔!!!!!!!
اس کی سسکیوں کی آواز سن کر وہ ہوش میں آئ اور خلق تر کرکے۔اس کا جھکا سر دیکھا۔
"کیا ہوا ہے آپ کو۔۔۔!!!!! کسی نے کچھ کہا ہے کیا۔۔۔!!!!!! مجھے آپ کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔۔!!!!! آپ اس وقت شاید اپنے ہوش میں نہیں ہیں۔آپ رو کیوں رہی ہیں۔۔!!!"
اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر کھولتے اس نے اس نے سائیڈ سے پانی کا گلاس اٹھا کر اسے تھمایا۔عبیرہ نے نفی میں سر ہلایا ۔اور گلاس وہیں واپس رکھ دیا۔اس کی ہمت جواب دے رہی تھی
ابھی اگر اسے اسمارا کے پاؤں پکڑ کر بھی معافی مانگنی پڑتی تو وہ مانگتی۔
عبیرہ نے مختصراً اسے وہ سب بتادیا جو اس کے ساتھ ہوا تھا۔اس کی ہچکیاں بندھ گئ۔اس کا سر اب بھی جھکا ہوا تھا۔اسمارا کی آنکھیں نم ہوئیں۔اس نے کبھی نہیں چاہا تھا جس تکلیف سے وہ گزرتی رہی کوئ اور اسی تکلیف سے گزرے۔
اس کا دل مقابل لڑکی کی حالت پر دکھا تھا ۔اسے واقعی ترس آیا۔ ناچاہتے ہوۓ بھی اس کی آنکھیں نم ہوئیں۔جب وہ اپنے بھائ کو معاف کرسکتی تھی تو عبیرا کو معاف کرنا بھی آسان تھا۔عبیرا کا جرم اس کے بھائ کے جرم جیسا ہی تھا۔الزام وہ بھی اس پر لگا چکا تھا۔اغواہ تو اس نے بھی اسے کروایا تھا۔اپنے بھائ کا پچھتاوا دیکھتے جیسے اس کا دل دکھا تھا ابھی بھی اسے ویسی ہی تکلیف ہورہی تھی۔
عبیرہ حیران ہوئ۔کیونکہ اسمارا اسے چپ کروانے کی خاطر اس کے گلے لگی تھی۔اس کی آنکھیں ساکت رہ گئیں۔
"بھول جائیں سب۔۔۔!!!!!! جب ایک انسان کو اپنی غلطی ریلائز ہوجاۓ اور وہ شرمندہ ہو تو ہمیں اسے معاف کر دینا چاہیے۔جب ہم خود اللہ سے معافی ملنے کی امید رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے بڑے سے بڑے گناہ کو بھی معاف کردے تو ہمیں اس کے بندوں کو بھی معاف کر دینا چاہیے۔۔۔!!!!! اس لیے میں نے آپ کو معاف کیا۔۔۔!!!!"
دونوں آنکھیں بند کیے اس نے وہ جملہ بول دیا جو عبیرہ سننا چاہتی تھی۔یا پھر وہ یہ نہیں سننا چاہتی تھی۔پتہ نہیں پر عبیرہ کو اب بھی مکمل سکون نہیں ملا تھا۔
"مجھے آسانی سے معاف مت کرو اسمارا۔۔۔!!!!" عبیرہ نے لب بھینچے۔آنسو تھم چکے تھے۔
"میں آسانی سے معاف کروں گی بھی نہیں۔۔!!!!! کسی بھول میں نہ رہیے گا۔۔۔!!!!! میری ایک شرط ہے۔وہ شرط آپ کو ہر حال میں ماننی ہوگی۔۔!!!"
اس سے الگ ہوتے اس نے سنجیدگی سے کہا۔اور اپنی آنکھیں صاف کیں۔اکیلے رونے کا دکھ وہ اچھے سے جانتی تھی۔اسے اندازا تھا تنہائ کتنی تکلیف دہ ہے۔اور جس تکلیف سے ہم خود گزرے ہوں ہم کبھی کسی دوسرے کو اس تکلیف سے نہیں گزار سکتے۔۔۔!!!!!
عبیرہ کو سزا مل چکی تھی۔اب اسمارا سنگ دلی دکھاتی تو یہ نا انصافی ہوتی۔
اگر ہمارے ارد گرد کوئ شخص ایسا موجود ہو جو ماضی میں سنگین غلطیاں کرچکا ہوں اس کی وجہ سے ہمیں تکلیف پہنچی ہوں۔اور اب وہ شرمندہ ہو ہم سے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔وہ ارادہ کرچکا ہو کہ اب وہ دوبارا وہ سب نہیں دہراۓ گا تو ہمیں دل بڑا کرکے معاف کر دینا چاہیے۔
بعض اوقات ہماری دی گئ چھوٹی سی معافی کسی کی دنیا اور آخرت دونوں سنوار سکتی ہے۔اور معاف کردینے والے لوگ اللہ کے بے حد قریب ہوتے ہیں۔وہ بھی تو غفور الرحیم ہے۔۔۔!!!!!
وہ بھی معاف کردینے والوں کو پسند کرتا ہے۔اور انہیں اجر بھی دیتا ہے۔
عبیرہ نے شرط کا سنا تو ہاں میں سر ہلایا وہ تیار تھی کسی بھی شرط کو ماننے کے لیے۔
"تم جو کہو گی مجھے منظور ہے۔۔۔!!!!" عبیرہ کی بات سن کر اسمارا نے مسکراہٹ روکی۔اس نے جو شرط رکھی تھی اسے سن کر عبیرہ ہکا بکا رہ گئ۔کہ کیا یہ کوئ شرط ہے۔۔۔!!!!
"آپ شاہزیب کو بھائ کہیں گی۔۔!!!! ایسے آپ کو بھائ مل جاۓ اور مجھے تسلی۔۔۔!!!!! دیکھیں شاہزیب سے بھلے میرا نکاح جلد بازی میں ہوا۔پر وہ صرف میرے ہیں۔۔۔۔!!!!!!!!!
میں انہیں کسی کو نہیں دوں گی۔اور ہماری لڑائ بھی اسی بات کو کے کر ہی تھی۔آج یہ وجہ ہی ختم کردیں انہیں اپنا بھائ مان کر۔۔۔!!!!!!"
اسمارا نے اسے گویا حکم سنایا تھا۔پھر اس نے یہ بات واضح بھی کی۔اگر وہ اسے معاف کرنا چاہ رہی تھی تو ضروری تھا کہ اپنا دل بھی مطمئن کرتی شاہزیب کو لے کر۔۔۔!!!!!
"وہ ویسے بھی آپ سے بڑے ہیں۔اور بڑوں کو نام سے نہیں بلانا چاہیے۔میں بھی تو زاور بھائ کو بھائ کہتی ہوں تو اب سے آپ بھی میرے شوہر کو بھائ ہی کہیں گی۔پھر ایسے جھگڑے کی کوئ وجہ بھی نہیں بچے تھی۔اور ہماری زندگیاں سکون میں آجائیں گی۔۔۔!!!!!"
بات کو مزید واضح کرکے اسمارا نے جواب کا انتظار کیا۔ عبیرہ نے اپنے آنسو پونچھے۔وہ تیار تھی اس کی بچکانہ شرط کو ماننے کے لیے۔
"ٹھیک ہے میں اب سے شاہزیب کو اپنا بھائ ہی سمجھوں گی۔سمجھنا کیا ہے اب سے وہ میرا بھائ ہی ہے۔۔۔!!!!!! شاہزیب بھائ۔۔۔!!!! اب خوش ہو تم۔۔۔!!!!!"
عبیرہ نے اس کے چہرے کی چمک دیکھی تھی کہ اس کی بات سنتے وہ کتنا خوش ہوئ تھی۔اسمارا کی تو اب ہر خوشی ہر دکھ شاہزیب سے ہی جڑا تھا۔ 𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼
"ویری گڈ۔۔۔۔!!!!!!!" اسمارا کی مسکرائی ۔اور عبیرہ اس کے اتنی جلدی مان جانے پر خوش بھی ہوئ۔اسے اب مزید خود پر ایک بار پھر غصہ آیا تھا کہ یہ لڑکی اتنی نفرت ڈیزرو نہیں کرتی تھی جتنی اس نے اس سے کی تھی۔
وہ بس اس کا دکھ سن کر اسے معاف کرگئ کوئ اور ہوتا تو عبیرہ کی معافی کو ڈھونگ ہی سمجھتا۔
اسے تو اسکی سگی ماں نے بھی اب تک معاف نہیں کیا تھا۔۔۔۔!!!!!!
کچھ دیر تک اس کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے کے بعد وہ واپس اپنے اسی قید خانے کی طرف چلی گئ۔جہاں کی تنہائ اس کی منتظر تھی۔
🅘🅢🅜🅐🅗 🅠🅤🅡🅔🅢🅗🅘 🅝🅞🅥🅔🅛🅢
شاہزیب شام کے وقت گھر میں داخل ہوا۔اسے لاؤنج میں شاہزر صاحب بیٹھے دکھے۔وہ اسمارا کو واپس تو لے آیا تھا۔پر خود وہ سب سے کھچا کھچا ہی رہتا تھا۔وہ اگر کچھ پوچھتے تو جواب دے دیتا ورنہ پاس سے ہی گزر جاتا۔اسمارا تو ایک ایک کو معاف کرچکی تھی پر وہ اتنے بڑے دل کا مالک نہیں تھا۔
جتنی بے بسی اس نے ہاسپٹل میں بیٹھے اس کے بےجان ہوتے وجود کو دیکھتے محسوس کی تھی جتنا وہ رویا تھا جتنی فریادیں اس نے کی تھیں جتنی تکلیف سے وہ شب و روز گزارے تھے وہ اتنی آسانی سے کچھ بھی نہیں بھول سکتا تھا۔
"سلطان۔۔۔!!!!!! ہم سے کیا اب بات بھی نہیں کرو گے۔۔۔!!!!" شاہزر صاحب نے اسے گزرتے دیکھا تو پکار بیٹھے۔ان کے لہجے میں دکھ تھا۔اپنی جان سے پیارے پوتے کی بے رخی پر دکھ۔۔۔!!!!
شاہزیب وہیں سے واپس پلٹا اور انہیں سلام کرکے ان کے پاس بیٹھ گیا۔اس کا ناراض ہونے کا طریقہ یہی تھا۔وہ اجنبی بن گیا ان سب کے لیے۔جو نا ان کی بے ادبی کرتا نا ہی مروت دکھاتا۔
"بیٹا اس دن جو بھی ہوا سب اچانک ہوا تھا۔ہم غصے میں تھے۔ورنہ وہ بچی ہمیں بھی اتنی ہی پیاری ہے جتنی باقی سب کو ۔۔۔!!!! اب ہمیں اندازا ہوگیا ہے کہ ہم سے کتنی بڑی بھول ہوئ تھی۔وہ ہمیں معاف کرچکی ہے تو تم کیوں اپنا دل صاف نہیں کرلیتے ہماری طرف تھے۔۔۔!!!!"
انہوں نے تکلیف سے کہا۔وہیں شاہزیب انہیں خاموشی سے سن رہا تھا۔حیاء صاحبہ اور سلمی صاحبہ بھی وہاں سے گزر رہی تھیں۔انہوں نے جب شاہزیب اور شاہزر صاحب کو اکٹھے بیٹھے دیکھا تو وہیں ان کے پاس بیٹھ گئیں۔
اس کی چپ انہیں تکلیف دے رہی تھی۔وہ چیختا چلاتا یا ناراضگی کا اظہار کرتا تو وہ الگ بات ہوتی وہ تو اجنبی بن گیا تھا۔
"وہ تو عبیرہ کو بھی معاف کرچکی ہیں۔۔!!!!! سعد سے بڑا مجرم کوئ نہیں تھا ان کا انہوں نے تو اسے بھی ایک منٹ میں معاف کردیا ۔ان کا حوالہ نا ہی دیں تو بہتر ہے وہ کسی کو تکلیف نہیں دیتیں پھر اگلا چاہے انہیں عرش سے فرش پر ہی کیوں نا لے آۓ۔۔۔!!!"
وہ طنزاً مسکرایا۔اتنے دنوں میں یہ پہلا شکوہ اس نے کیا تھا۔جو جائز تھا۔۔۔۔!!!!!
شاہزر صاحب حیران ہوۓ کہ جس عبیرہ کا وہ نام بھی نہیں سن سکتے۔جس نے اس دن سارا فساد مچایا تھا وہ کیسے اسے بھی معاف کرگئ۔پر وہ اسمارا تھی اس سے اس کام کی امید کی جاسکتی تھی۔
"مجھے تو اب ڈر ہے کسی دن اگر مجھے کچھ ہوگیا تو آپ لوگ تو میری بیوی کو اپنے گھر میں ایک منٹ بھی نہیں رکھیں گے۔۔۔!!!!! اگر میری زندگی میں آپ میری بیوی کو دربدر کرسکتے ہیں تو میرے مرنے کے بعد تو ان کا کوئ سہارا ہی نہیں بچے گا ۔۔۔!!!!! "
مسکراتے ہوۓ وہ ان کے دلوں پر کاری ضرب لگاگیا۔
"اللہ نا کرے ۔۔۔!!!! ایسی باتیں کیوں کررہے ہو۔اللہ تمہیں لمبی زندگی دے۔بہت خوش رکھے تمہیں
۔۔!!!!" حیأ صاحبہ نے فورا تڑپ کرکہا۔ایک ماں کیسے اس کے منہ سے ایسی باتیں برداشت کرلیتی۔
"زندگی کا کوئ بھروسہ نہیں۔۔۔!!!! موت برحق ہے۔اور جتنی حیات میری لکھی ہے مجھے ایک سانس بھی اس سے زیادہ لینے کی مہلت نہیں ملے گی۔بس آپ سب سے ایک التجا کرنا چاہوں گا۔
اگر مجھے کچھ ہوجاۓ تو میری بیوی کو بے سہارا نا کیجۓ گا۔اول تو میں انہیں اتنا فائینینشلی سٹرانگ کرکے جاؤں گا کہ میرے بعد وہ کسی کی محتاج نہ ہوں۔انہیں کسی دوسرے کی طرف دیکھنا بھی نا پڑے۔پھر بھی اگر کچھ ہو تو خدارا جیسے اب منہ پھیرا تھا ویسے دوبارا نا کیجۓ گا۔۔۔!!!!!"
اپنی بات کہہ کر وہ وہاں سے اٹھنے لگا۔وہ سب اس کی باتوں کی وجہ سے تکلیف میں تھے۔کبھی کبھار انجانے میں کی گئ غلطی بھی اتنا شدید نقصان کرتی ہے کہ اس کا خمیازہ انسان کو لمبے عرصے تک بھگتنا پڑتا ہے۔
وہ پہلے جیسا ہوجاتا لیکن آہستہ آہستہ ۔وقت ہر زخم کا مرہم ہوتا ہے۔اس کے دل پر لگے یہ زخم بھی آہستہ آہستہ بھرجاتے۔
وہ شاید اسمارا کو یہاں لاتا ہی نا۔وہ خود ضد کرکے یہاں آئ تھی۔اس کا ماننا تھا انہیں اپنے گھر ہی رہنا چاہیے۔وہ بھی شاہزیب کو اس کے گھروالوں سے دور نہیں کرنا چاہتی تھی۔اس کی ضد کے چلتے انہیں یہاں آنا پڑا۔اور وہ یہاں ان کے پاس ہوتے ہوۓ بھی بہت دور تھا۔
🅘🅢🅜🅐🅗 🅠🅤🅡🅔🅢🅗🅘 🅝🅞🅥🅔🅛🅢
اسی کمرے کی خاموشی میں لائٹ آف کرکے وہ لیٹی آج پھر ایک ہی تکلیف سے گزر رہی تھی۔عجیب تکلیف تھی اس کی جو اب معافی ملنے کے بعد بھی اسے سکون نہیں ملا تھا۔آنسو بہہ کر اس کے بالوں میں جذب ہوتے گۓ۔
اس کے بازو اور پاؤں پر جو چوٹیں لگی تھیں وہ زخم اب پہلے سے کافی حد تک بھر چکے تھے پر وہ نشان اب شاید کبھی نا جاتے۔سب سمجھتے تھے وہ چالاک اور تیز طرار لڑکی ہے۔لیکن حقیقت میں اس سے بڑا بیوقوف کوئ نہیں ہوگا۔جس نے صرف ترس سمجھ کر سب کی محبتوں کو ٹھکرایا تھا۔
بچپن سے لے کر اب تک جب بھی کسی نے اس کا احساس کیا اس نے اس محبت کو ترس سمجھا تھا۔اب وہ اسی محبت کو ترستی تھی۔
ہم برے لوگوں کو برا کہتے ہیں پر یہ نہیں سوچتے ہرکوئی شروع سے ہی برا نہیں ہوتا حالات انسان کو اچھا برا بناتے ہیں۔عبیرا بھی شروع سے حاسد نہیں تھی۔اس نے پہلی بار حسد اس وقت کیا تھا جب اسے اس کا مطلب بھی نہیں پتہ ہوگا۔اسے لگتا تھا جو محبت باقی لوگوں کو ملتی ہے اسے کبھی نہیں مل سکتی کیونکہ وہ ان کے رحم و کرم پر اس گھر میں رہ رہی ہے۔پھر عبیرہ نے خود کو اس راہ کا مسافر بنایا جس کا انجام بربادی ہی تھا۔(دوسروں کو تباہ کرنے کی راہ)
وہ برباد ہوتو گئ تھی اب۔۔۔!!!!!
کچھ یاد آتے ہی اس کمرے کی خاموشی میں اس کے رونے کی آواز گونجی ۔
"میں تنہا ہوگئ ہوں اب۔۔۔!!!! میرے جینے کا کوئ مقصد ہی نہیں بچا۔۔۔!!!!! موم بھی مجھ سے ہی نفرت کرتی ہیں۔کوئ بات بھی نہیں کرنا چاہتا۔۔!!!! میں اکیلی رہ گئ ہوں۔۔۔!!!!"
وہ اٹھ بیٹھی اور چہرہ ہاتھوں میں چھپاکر شدت سے روئ۔درد اب بھی بس بڑھتا ہی گیا۔
"میں کیوں زندہ ہوں اب تک ۔۔!!!! جب میرا اب کوئ ہے ہی نہیں تو۔ یااللہ مجھے موت دے دے۔۔!!!! یہ تنہائ مجھے مار دے گی یا اللہ۔۔۔!!!!
یا اللہ میرا کوئ نہیں رہا۔۔۔!!!!!!" ٹوٹے ہوۓ لہجے میں اس نے شکوہ کیا۔وہ ذات اسی ایک پکار کے انتظار میں تھی ۔اس کا بندہ اسے پکارے اور وہ اس پکار کا جواب نہ دے ناممکن۔۔۔!!!!!
اس مایوسی کے دلدل میں گرتے اس کے کانوں میں فجر کی اذان کی آواز گونجی۔۔۔!!!!!
"اللہ اکبر۔۔۔!!!!!!" یہ صدا اس کے دل کو اپنی طرف کھینچنے لگی۔اس کی روح جیسے لرز اٹھی ہو۔اس نے سر پر دوپٹہ لیا اور لائٹ آن کردی۔کمرے میں لیمپ کی مدھم روشنی تھی۔
اس نے کہا میرا کوئ نہیں جس کے سہارے میں زندہ رہوں۔اسی لمحے آواز آئ کہ اللہ تو ہے نا تمہارا۔۔۔!!!!! اس کا بلاوا آیا تھا۔۔۔!!!!!
اسے محسوس ہوا جیسے اسے تسلی ملی ہو۔اس کے دل کو کسی نے سکون بخشا ہو۔۔۔!!!!!
اس نے آنکھیں بند کیں اور اذان کی اس آواز کو سنتی رہی۔
جو میل ہے تیرے دل میں وہ صاف کردے گا۔۔!!!
تو مانگ تو سہی دل سے وہ معاف کردے گا..!!!!
مولا میری توبہ....!!! مولا میری توبہ ...!!!!!
اس سکون کو اس نے دل میں اتارا سب کھوکر جب آپ کو اللہ مل جاۓ۔تب دل سجدے میں گرنے کو بے تاب ہوتا ہے۔تب جو تعلق اللہ سے بنتا ہے وہ ہر دکھ ہر تکلیف پر غالب آجاتا ہے۔۔!!!!
اذان ختم ہوتے ہی اپنے شکستہ وجود کو تقریبا گھسیٹتے ہوۓ وہ وضو کی نیت سے واش روم گئ۔وضو کرنا اس نے بچپن میں سیکھا تھا۔جتنا اسے سمجھ میں آیا اس نے کرلیا۔
وہ الگ بات تھی اس کا وضو پرفیکٹ نہیں تھا۔پر اس کے دل میں جو تڑپ تھی اللہ کے حضور جھکنے کی وہ نیت اس کے وضو کی پرفیکشن کی محتاج نہ تھی۔
اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔۔۔!!!!!💖
"اک عرض کروں میں سن میرے خدا
میں تو کچھ بھی نہیں ہوں کہیں تیرے سوا..!!"
دل سے ہوئ ہیں جو بھی خطائیں
کرمعاف مجھ کو یہی التجا ہے ۔۔!!!!!
پل پل ہر دم۔۔۔!!!!! اک تو ہم دم۔۔۔۔۔!!!!!!!
بس دل یہی پکارے
مولا میری توبہ..!!!! مولا میری توبہ....!!!!!!
دوپٹہ حجاب کی صورت میں سر پر لپیٹ کر اس نے جاۓ نماز ڈھونڈنا چاہی۔اس نے تو سالوں سے نماز نہیں پڑھی تھی۔لیکن اس کی کبرڈ میں اس کے ڈیڈ کی جاۓ نماز رکھی تھی۔اسے یاد آیا کہ بچپن میں وہ اپنے بابا کو نماز پڑھتے دیکھتی تھی تب اس کا بھی دل کرتا تھا نماز پڑھنے کو۔پھر اس نے نماز سیکھی بھی تھی۔
پندرہ سال کی عمر تک وہ نماز پڑھتی بھی رہی تھی۔ اسے غصہ آتا تھا کہ وہ سب سے کمتر کیوں ہے۔حالنکہ اس وقت بھی وہ سب سے جلتی تھی۔شاہذیب کو تب بھی تنگ کرکے اسے سکون ملتا تھا۔ وہ سمجھ نا سکی کہ یہ بس آزمائش تھی جو گزر جاتی۔لیکن وہ اس آزمائش میں بری طرح ناکام ہوئ تھی۔
جب وہ آؤٹ آف کنٹری گئ تھی تب اس نے نماز چھوڑ دی تھی۔اب تو سال بیت گۓ تھے اسے گمراہی کی زندگی گزارتے۔۔۔!!!!!
اس نے جاۓ نماز ںچھائ۔پھر اسے ہی دیکھتی رہ گئ۔وضو تو اس نے کرلیا پر اب نماز پڑھنے کا طریقہ اسے پوری طرح یاد نہیں تھا۔آنسو پھر سے بہتے گۓ۔
دل نے کہا عبیرہ تم اس قابل بھی نہیں کہ اس ذات کے سامنے جھک سکو۔
اسے شدت سے خود پر غصہ آیا کہ اس نے اپنی زندگی کے کئ سال ضائع کردیے ہیں۔جن کی تلافی ممکن ہی نہیں۔
"میری سانس سانس تیری خدائی "
" کیوں ملی تھی مجھ کو تیری جدائ"
" بگڑی میری تو مولا ذرا سلجھا دے"
اس نے جاۓ نماز وہاں سے اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔وہ پھر مایوس ہوئ۔لیکن ہاتھ آدھے رستے ہی رک گیا۔اس نے حسرت بھری نگاہ جاۓ نماز پر ڈالی وہ ثڑپ رہی تھی اللہ کے سامنے جھکنے کے لیے۔۔۔!!!!!
" یہ جو آگ ہے میں نے خود جلائ"
"نہیں مجھ سے پھر گئ بجھائ "
" اپنے کرم سے مولا رحم برسادے "
"یا اللہ مجھے بھی نماز پڑھنی ہے۔۔۔!!!! میں ایسے نہیں اٹھوں گی۔یہیں بیٹھی رہوں گی جب تک تو مجھے اپنے سامنے جھکنے کا شرف نہیں بخشے گا تب تک۔۔۔!!!!!! "
وہ وہیں بیٹھ گئ۔انداز میں ضد بھی تھی۔کہ وہ خالی دامن واپس نہیں لوٹے گی۔اس کا یہ انداز معصومیت بھرا تھا۔ذہن پر زور دینے کے بعد اسے تھوڑا سا طریقہ یاد آیا نماز پڑھنے کا۔چونکے وہ پہلے بھی نماز پڑھتی رہی تھی اس لیے اس کے ذہن کے پردوں میں وہ طریقہ اب بھی محفوظ تھا۔
وہ نم آنکھوں سے مسکرائ۔
"شکریہ یا اللہ۔۔!!!!! مجھے پتہ تھا چاہے مجھے سب چھوڑ دیں تو مجھے نہیں چھوڑے گا۔۔۔!!!!! آئ لو یو اللہ۔۔۔!!!!"
ہنستے ہوۓ اس نے جھک کر جاۓ نماز چومی۔پھر واپس کھڑے ہوکر نماز ادا کرنا شروع کی۔سورتیں اس کی زبان تک خود آتی جارہی تھیں۔
وہ دنیا کی بجاۓ اللہ سے لو لگا تی جارہی تھی۔
جو اسے یاد آتا گیا وہ پڑھتی گئ۔
نماز مکمل کرنے کے بعد اس کا دل اللہ کے سامنے رونے کو کیا۔اسے اپنا غم بانٹنا تھا۔اور بانٹنا بھی اللہ کے ساتھ تھا۔
"میں تو اپنے لائق نہیں تھا"
"جو ملا ہے تو نے دیا ہے"
" جو کرے تو سب ہے اچھا"
"جو برا ہے میں نے کیا ہے.....!!!!"
"اب کوئ درد نہیں ہے"
"دل کا سکوں ہے تو اے خدا"
تو اے خدا ۔۔۔!!!!!!! تو اے خدا......!!!!!!
تو اے خدا۔۔۔۔!!!!!!!
اس نے ہاتھ دعا کے لیے اٹھاۓ۔اور اپنے دل پر پڑا بوجھ ہلکا کرنے لگی۔
"یا اللہ۔۔۔!!!! مجھے سکون دے دے ۔۔۔!!!!! میں نے خود پر ظلم کیا ہے مالک۔۔۔!!!!! تجھے پنجتن پاک (علیہم السلام )کا واسطہ میرے دل کو اپنی طرف موڑ لے۔۔ !!!!!
مجھے اس کے علاؤہ اب کچھ نہیں چاہیے۔یا اللہ مجھے سکون دے دے۔۔۔!!!!!!"
وہ سجدے میں گری۔اور اپنے آنسو وہاں بہاۓ جہاں آنسو ضائع نہیں ہوتے۔روتے ہوۓ ناجانے اسے کب نیند آئ اسے بھی پتہ نہ چلا۔اور وہ وہیں سوگئ۔
اس سکون کی نیند کے لیے وہ ترس رہی تھی۔جو بغیر کسی خوف کے اسے ملے۔وہ سکون سے سوگئ۔۔!!!!!
اب کوئ گلٹ نہیں تھا اسے وہ اللہ کے سامنے آنے سے پہلے اس کی بندی سے معافی مانگ کر آئ تھی۔جس کی وہ مجرم تھی ۔۔۔!!!!!
اب وہ سکون میں تھی۔۔!!!!
اب چاہے اسے وہ ڈر پھر سے یاد آتے۔اسے تنہائ محسوس ہوتی پر وہ اب ہر بار بس اللہ کے حضور ہی جھکتی۔۔!!!!!
اس کی کہانی کا انجام سب سے الگ تھا۔سب کھو کر اس نے وہ پایا جسے چھوڑ کر لوگ سب پانے نکل پڑتے ہیں ۔۔۔!!!!!
🅘🅢🅜🅐🅗 🅠🅤🅡🅔🅢🅗🅘 🅝🅞🅥🅔🅛🅢
(ایک مہینے بعد۔۔۔!!!!!)
اسمارا بلیک کلر کی میکسی پہنے ہلکے سے میک اپ کے ساتھ سر پر حجاب کیے کھڑی تھی۔جب کہ شاہزیب بھی وائٹ شرٹ پر بلیک سٹائلش کوٹ اور جینز پہنے ہمیشہ کی طرح بہت اٹریکٹو لگ رہا تھا۔ ایک نظر سامنے ڈریسنگ مرر سے اپنا عکس دیکھ کر دونوں مسکراۓ۔۔!!!
"لکنگ ہینڈسم ۔۔!!!!!" اسمارہ نے مسکراہٹ روک کر کہا۔شاہ زیب نے خود پر پرفیوم سپرے کیا اور سر کو نفی میں جنبش دینے لگا ۔
"لکنگ کیوٹ۔۔۔!!!!! "
پھر اس کی طرف دیکھتے ہوۓ اس نے پیار سے اس کا پہلے سے سیٹ حجاب ٹھیک کرتے ہوۓ کہا۔اس کا یہ انداز اب بھی نہیں بدلا تھا۔
"چلیں مسز۔۔۔!!!!" اس کی جانب اپنی ہتھیلی پھیلا کر اس نے باہر کی طرف اشارہ کیا۔جو اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ گئ۔
"اوکے باس۔۔۔!!!!"
آج تہذیب کا برتھ ڈے تھا۔ساتھ میں اسمارا اور شاہ زیب کی ہالف اینیورسری بھی۔زاویار کا کہنا تھا اگر لوگ ہاف برتھ ڈے منا سکتے ہیں تو وہ ہاف اینیورسری کیوں نہیں منا سکتے۔۔۔!!!!!
تقریب میں قریبی رشتے دار ہی مدعو تھے بس۔
اسمارا کی امی اور اس کے بھائ نے بھی آنا تھا۔اسمارا شاہزیب کی ہمراہی میں لان میں آئ۔جسے وائٹ اور پنک تھیم پر ڈیکوریٹ کیا گیا تھا۔اب کی بار خالص ڈیکوریشن برتھ ڈے والی ہی تھی۔کیونکہ یہ سب ایونٹ مینیجر سے آرگنائز کروایا گیا تھا نا کہ زاویار کے خرافاتی دماغ سے۔۔!!!!!
اسمارا اور شاہزیب کو دیکھتے ہی سب نے دل ہی دل میں ان کی نظر اتاری۔۔۔!!!
شاہزیب اب ان سب سے پہلے کی طرح ہی بولتا تھا۔یہ بھی اسمارا کی بدولت ممکن ہوا اس نے اسے گناہ ،ثواب،جنت،دوزخ ،والدین کی عزت اور بڑوں کے احترام پر کوئ ہفتہ لگا کر لیکچر دیا تھا۔یعنی جب جب اسے موقع ملا تب تب۔۔!!!!
آخر کار شاہزیب کو ہتھیار ڈالنا پڑے۔کب تک وہ اسمارا کی باتوں کو ٹالتا ۔۔۔!!!!!
شاہزیب خوش تھا کہ اس کی بیوی کو ہر کسی کی فکر ہے۔وہ الگ ہونے کی بجاۓ ساتھ رہنے کو ترجیح دیتی ہے۔ورنہ اگر اس کا بس چلتا تو کبھی کسی سے نا بولتا۔۔!!!!
ابھی بھی وہ شاہزر صاحب اور باقی سب سے پورے خلوص سے ملا تھا۔
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Category
Website
Address
Gujrat
QURESHISTATUS
Bolly Road Near Shah Jihangir Tomb Gujrat
Gujrat, 50700
For the new, current and old students of Gujrat Group of Colleges. You can share any thing regarding
Gujrat
Kiran Online Quran Academy Chandala is designed for children in Europe who do not have mosques near their children's homes so that they can learn the Qur'an.
Kashmir Plaza Gulzar E Madina Road Near Ramtalai Gujrat
Gujrat
Get admission in top ranked universities of kyrgyzstan. PMC recognized universities. Low budget. Nice hostels.
KotlA Arab Ali Khan
Gujrat
آنلائن قرآن پاک پڑھنے کیلئے رابطہ کریں � +923005350385 مولان?
Office 13A First Floor Zaib Plaza Rehman Shaheed Road Gujrat
Gujrat, 50700
AN ENGLISH LANGUAGE CENTER WHERE YOU CAN PREPARE FOR IELTS SPOLEN ENGLISH MATRIC, FA AND BA ENGLISH EXAMS PREPARATION COMPUTER COURSES ALL COURSES PREPARATION IS ON 50% FEE DISCO...
Gujrat, 50700
An International Online Tutoring Network With A Team Of Highly Qualified And Experienced Teachers Across Pakistan.