Ghareeb AL-Nawaz Hazrat Qazi Sultan Mehmood Awani RA
We'll let you know about the Spiritual Life of Ghareeb AL Nawaz Hazrat Qazi Sultan Mehmood Awani RA
سبحان الله
تمام والدین کو اسی طرح شفقت سے اپنے بچوں کو نماز کی عادت ڈالنی چاہیے . ❤️
ایک دفعہ حضرت صاحبزادہ محبوبِ عالم رح سے غریب النواز حضرت قاضی سُلطان محمود آوانی رح نے پوچھا کہ نماز پڑھتے ہو؟ انہوں نے فرمایا نہیں. پوچھا کیوں نہیں؟ فرمایا جی نہیں چاہتا. چند روز کے بعد حضرت قاضی صاحب رح نے یہی سوال کیا. اور صاحبزادہ صاحب رح نے بھی یہی جواب دیا اس طرح کئی بار ہوا.
غریب النواز حضرت قاضی سُلطان محمود آوانی رح نے فرمایا محبوب، فرض ہی پڑھ لیا کرو. کچھ عرصے بعد پھر حضرت قاضی صاحب رح نے نماز کے متعلق پوچھا انہوں نے وہی جواب دیا کہ جی نہیں چاہتا. فرمایا محبوب، صرف وضو ہی کر لیا کرو. اس بار صاحبزادہ محبوبِ عالم رح نے تعمیل ارشاد کی ہامی بھر لی. بالآخر حضرت قاضی صاحب رح کی شفقت کا نتیجہ یہ ہوا کہ صاحبزادہ محبوبِ عالم رح نماز کے ایسے پابند ہوئے کہ پھر سنگی حضرات کو بھی نماز کی پابندی کا درس دیتے رہے.
#باب3
#حُلیہ_عادات_اخلاق
(حصہ-4)
:
آپ رح کے قلب مبارک میں نہ کینہ تھا اور نہ کسی کی مخالفت اگر کبھی کسی سے ناخوش ہوتے تو صرف اللّٰه تعالیٰ کے واسطے ہوتے.
آپ رح کے قلب میں آتشِ عشق کی سوزش اتنی تھی کہ سردیوں میں بھی ٹھنڈے پانی سے نہاتے.
:
آپ رح کسی کی دل آزاری کو نہایت ناپسند فرماتے تھے. مولف ہذا کے سامنے ایسی کئی مثالیں ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ رح یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ کوئی کسی کا دل دکھائے.
:
ایک دفعہ غریب النواز حضرت قاضی سُلطان محمود آوانی رح حضرت صاحبزادہ محبوبِ عالم رح اور پانچ چھ سنگیوں کے ہمراہ گجرات شہر سے آوان شریف آ رہے تھے کہ بہت تیز بارش ہونا شروع ہوگئی. راستے میں ایک نالہ تھا. جس کو حضرت صاحب بہت جلدی پار کرنا چاہتے تھے. بالآخر آپ رح نے صاحبزادہ صاحب اور سنگی حضرات کے ہمراہ نالہ پار کیا اور جلالپور جٹاں کے قریب اڈے پر جو مسجد تھی وہاں قیام کرنا چاہا.
آپ رح نے وہاں کہانا بھی نوش فرمایا.
جب بارش تھم گئی تو آوان شریف کی جانب سفر شروع کیا تو غریب النواز حضرت قاضی سُلطان محمود آوانی رح کا پیر کیچڑ میں دھنس گیا. صاحبزادہ محبوبِ عالم رح نے آپ رح کا پیر مبارک نکالا اور کونوے سے پانے لا کر صاف کیا. اور پھر حضرت قاضی صاحب رح نے ایک ڈوپٹہ اتارا اور اسکی چار تہیں بنائیں اور صاحبزادہ محبوبِ عالم رح کو بیٹھنے کے لیے فرمایا. (صاحبزادہ صاحب 17 سال کے تھے جبکہ حضرت صاحب 72 یا 73 کے تھے). صاحبزادہ صاحب مسکرائے اور ارض کیا کہ حضور میں؟ آپ رح نے فرمایا محبوب آپ تھک گئے ہو گے بیٹھ جاؤ. صاحبزادہ محبوبِ عالم رح فرماتے ہیں، آپ رح نے اپنی تھکاوٹ کا خیال نہ کرتے ہوئے مجھ پر خوب شفقت فرمائی.آوان شریف کے بچے آپ رح کو جب آوان شریف کے بازار میں دیکھتے تو بابا جی بابا جی پکارتے اور آپ رح کی سواری پر سوار ہو جاتے. آپ رح بھی بچوں کو دیکھ کر ٹہر جاتے اور شفقت فرماتے اور ان بچوں کے ساتھ باتیں کرتے اور دعائے فرماتے.
:
آپ رح کسی پر ظلم ہوتا نہیں دیکھ سکتے تھے اور خلق اللّٰه سے بے حد ہمدردی فرماتے تھے. مولوی عبدالقادر لاہوری صاحب کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ (اگر تم بندگانِ خدا پر کرم کی نگاہ رکھو گے تو اللّٰه تعالیٰ تمہیں جزائے خیر دے گا).
آپ رح کبھی بھی دنیا دار اور اعلیٰ عہدہ داروں کو اپنی ذات کے لیے سفارش نہ کرتے لیکن جب کسی مظلوم کا حال بھی تو پھر افسران کو سفارش کرتے کہ اس مظلوم کے حالات پر کچھ غور کرو.
:
#حوالہ:
کتاب:( #مقاماتِ_محمود)
مؤلف : (خلیفہ مجاز غریب النواز حضرت قاضی سُلطان محمود آوانی رح حضرت نواب معشوق یار جنگ بہادر رح)
#نوٹ: 3 باب (حُلیہ، عادات اور اخلاق) یہاں پرختم نہیں ہوا.
انشاءالله اگلی پوسٹ پر 3 باب (حُلیہ ، عادات اور اخلاق) کا (پانچواں حصہ) تحریر کیا جائے گا.
#باب3 #حُلیہ_عادات_اخلاق
(حصہ-3)
:
حکیم احمد دین صاحب فرماتے ہیں کہ وائی ریاست جموں کشمیر مہاراجہ رنبیر سنگھ کو آپ رح سے ملنا کا بہت شوق تھا. مگر آپ رح نے اسے ملنا نہ چاہا. ایک دنیاداری شخص نے آپ رح کو کشمیر کے راجہ سے ملنے کے لیے آمادہ کیا تھا. آپ رح نے فرمایا ان دنیاداروں کو میرے سے دور رکھو. لیکن آپ رح کو کوئی سیاسی بندہ بے غیر کسی مقصد کے لیے ملنے آتا تو اسکو مل لیتے.
جیسا کہ دیوانِ کشمیر کشمیر پنڈت اننت رام جو آپ رح کا ذوق و علم کو جانتا تھا. اس نے آپ رح کی جموں کی مسجد محلہ پٹھاناں میں قدم بوسی بھی کی ہے. اور 500 روپے ہدیہ دینا چاہا لیکن آپ رح نے انکار کر دیا. آپ رح ہدیہ و مہمدہ شریف چندے اکھٹے نہیں کیا کرتے تھے.
حکیم احمد دین صاحب فرماتے ہیں، ایک دفعہ غریب النواز حضرت قاضی سُلطان محمود آوانی رح حاجیوالہ میں طالب علموں کو پڑھا رہے تھے کہ ایک آدمی نے بڑے فخر سے آپ رح کو ایک سیبوں کی پیٹی پیش کی اور کہا کہ یہ وائی کشمیر نے آپ رح کو بھیجی ہے آپ رح کو اسکا پڑھائی کہ دوران آنا سخت ناگوار لگا. آپ رح نے گسے سے پیٹی کو ٹھوکر ماری اور سیب لڑھکتے ہوئے دور تک چلے گئے اور فرمایا کہ مجھے ان چیزوں کی حاجت نہیں ہے.
:
عمر کے آخری حصے میں آپ رح جب بیمار ہوئے تو جو بھی حکیم دوا دیتا اسکو باقاعدگی سے استعمال فرماتے. ایک بار دہلی کے مشہور طبیب حکیم محمد اجمل خان مرحوم بھی آپ رح کے علاج کے لیے دہلی سے گجرات تشریف لائے تھے.
#سفر:
آپ رح نے اکثر سفر پیدل فرمایا ہے. خاص مجبوری کی بنا پر بذریعہ ریل میں بھی سفر فرمایا ہے.لیکن اکونومی کلاس میں.
پیدل سفر میں ایک آدمی آگے چلتا تاکہ راستہ نہ بھول جائیں اور اکثر سفر میں ہاتھ میں پنکھا ہوتا تھا.
عمر کے آخری حصہ میں جب قوت نہ رہی تو پالکی میں بھی سفر فرمایا. پالکی کے اٹھانے والے چار شخص تھے. چوہدری غلام احمد آف ڈھینڈہ کلاں ، چوہدری نور احمد آف ڈھینڈہ کلاں، چوہدری کرم الہی آف کھٹانہ اور چوہدری فضل دین آف باہروال کے رہنے والے تھے. یہ چاروں سنگی گجر خاندان کے اور اپنے علاقے کے بڑے امیر زمیندار تھے. ان کے ہمراہ ملازمیں بھی ہوتے لیکن پالکی وہ چاروں سنگی خود اٹھاتے تھے.
چوہدری الہ دین مرحوم نے آپ رح کے لیے سفر کا ایک تھیلا بھی بنا رکھا تھا. جس میں پانچ جانے آگے اور پانچ پیچھے تھے. اس میں سے کسی میں دوا کی بوتلیں اور کسی میں کنگھی اور سرمہ دانی اور کسی میں سنگیوں کے لیے کھانے کی اشیاء رہتی تھی.
:
ایک دفعہ آپ رح موضع میانی سے گزر رہے تھے کہ وہاں پر ایک سنگی مفتی غلام محمد کے گھر رات گزاری اور کھانا نوش فرمایا. صبح جب آپ رح وہاں سے نکلنے لگے تو چوہدری آلہ دین کو فرمایا کہ دو روٹیاں ساتھ رکھ لو.
جب ریلوے سٹیشن پہنچے. تو وہاں آپ رح کا ایک سنگی نور محمد (مستری ریل) جو کہ دور سے سفر کرتا ہوا آ رہا تھا آپ رح کے ساتھ ریل میں ہو گیا. ملک وال پہنچ کر آپ رح نے چوہدری آلہ دین کو فرمایا وہ دو روٹیاں نور محمد کو دے دو. چوہدری آلہ دین کہتے مجھے اچھا معلوم نہ ہوا کہ آپ رح نے اس بات کو راز میں رکھا. جب آپ رح کو میرا حال معلوم ہوا تو فرمایا کہ اسرار الہی کو بیان نہیں کرتے پھرتے. آپ رح نے فرمایا اگر میں آپ سے یہ پہلے کہہ ريتا کہ نور محمد نے آنا ہے اور اسکے لیے دو روٹیاں رکھ لو اور اگر وہ نہ آتا تو اپنے مجھے جھوٹا سمجھنا تھا. غریب النواز حضرت قاضی سُلطان محمود آوانی رح راز کی باتیں کسی سے نہیں کرتے تھے. پھر آپ فرمانے لگے ہاں میں دعا کرتا ہوں کہ میرے سنگیوں پر بھی اللّٰه چند باتیں نازل فرما دے جیسے مجھ پر فرمائی ہیں. مختصر یہ کہ آپ رح سراپا حکمت تھے اور آپ رح کی کوئی بات حکمت سے خالی نہیں ہوتی تھی.
:
#حوالہ:
کتاب:( #مقاماتِ_محمود)
مؤلف : (خلیفہ مجاز غریب النواز حضرت قاضی سُلطان محمود آوانی رح حضرت نواب معشوق یار جنگ بہادر رح)
#نوٹ: 3 باب (حُلیہ، عادات اور اخلاق) یہاں پرختم نہیں ہوا.
انشاءالله اگلی پوسٹ پر 3 باب (حُلیہ ، عادات اور اخلاق) کا (چوتھا حصہ) تحریر کیا جائے گا.
URS MUBARAK Ghareeb AL-Nawaz Hazrat Qazi Sultan Mehmood Awani RA
#باب3 #حُلیہ_عادات_اخلاق
(حصہ-2)
:
ایک دفعہ آپ رح کے پاس چند رشتہ دار آئے. جو فخریہ یہ کہنے لگے. ہم ایسا ایسا کھاتے ہیں اور ایسا پہنتے ہیں. یعنی آپنی شان دیکھانےلگے. آپ رح نے فرمایا میرے پاس تویہی نمک مرچ ہے. جو بلا تکلّف میسر آجاتا ہے. اگر تمہیں امیرانہ کھانوں کا شوق ہے. تو آپ امیروں کے پاس جائیں. آوان شریف کے ایک بڑے زمیندار سونے کے زیورات پہنا کرتے تھے. آپ رح اس کو جب دیکھتے تو نہ پسند فرماتے اور اسے حاضری کی اجازت بھی نہیں تھی. اور نہ اُسے خُد سے حاضر ہونے کی جرأت ہوئی.
:
حضرت صاحب قدس سرہ العزیز کی نظر ظاہری رسم و عادات پر کبھی نہ تھی. آپ رح ہر شے کے باطن کو دیکھتے تھے. آپ رح اکثر مولف کتاب نواب صاحب کو فرماتے ظاہر کو مت دیکھو، باطن کو دیکھو. اس پر اعتماد کرو.
آپ رح سے مریدوں اور غیر مریدوں کو فیض پہنچتا تھا. آپ رح کی وسعت نظر کا یہ حال تھا کہ کبھی کسی کلمہ گو اور صاحب قبلہ کو کافر نہیں کہا. بحثا بحثی اور مناظروں سے کوسوں میل دور رہتے تھے.
شروع شروع میں احکام کے اجراء میں بہت تشدد تھا. یہ سختی بھی رفتہ رفتہ کم ہوتی گئی اور نرمی پیدا ہو گئی جو بالآخر خلق اللّٰه پر شفقت کی صورت میں ظاہر ہوئی.
:
ایک دفعہ آپ رح لیٹے ہی تھے کہ ایک آدمی اچانک آپ رح کے کمرے میں داخل ہو گیا. اور آپ رح کے پاس بیٹھ گیا. چند لمحے بعد آپ رح نے اس کا نام لے کر فرمایا باہر چلے جاؤ. کیونکہ تمہاری موجودگی سے طبیعت میں بے چینی ہو رہی ہے. اس بندے نے آگے سے کہا میں آپ کے آرام میں خلل تو نہیں کر رہا.آپ رح نے دوبارہ فرمایا کہ باہر چلے بھی جاؤ. مجھے کیوں بیزار کر رہے ہو. آخر اسے باہر نکلنا پڑا.
:
ایک دفعہ ایک شادی بیاہ کے جھگڑے میں ارادتمندوں نے آپ رح کو بیچ میں ڈالنا چاہا. تو آپ رح نے فرمایا، تم یہاں خدا کا نام سیکھنے آئے ہو یا لوگوں کے شادی بیاہ کے جھگڑے چکانے. مجھے تم میں سے کسی کی فکر نہیں. میں باجرے کی روٹی اور ساگ کھاتا ہوں اور چھٹائی پر سوتا ہوں مجھے کسی کی ضرورت نہیں ہے.
ایسی غیر متعلقہ باتیں کرنی ہوں تو میرے پاس سے چلے جاؤ.
آپ رح کی تمام عمر دنیا سے بے تعلقی رہی. ایک بار کچھ لوگ آپ کے پاس زمینداری کی باتیں کرنے آئے تھے. آپ نے جھڑک دیا اور فرمایا کہ مجھ سے اور ان باتوں سے کیا تعلق نہ آپ رح نے کبھی کوئی دنیاوی شے طلب کی نہ کبھی آپ رح کے باطن می خواستِ دنیا کا ارادہ یا خیال آیا. بلکہ جس قدر دنیا پاس تھی. اسے بھی ترک کر دیا.
:
#حوالہ:
کتاب:( #مقاماتِ_محمود)
مؤلف : (خلیفہ مجاز غریب النواز حضرت قاضی سُلطان محمود آوانی رح حضرت نواب معشوق یار جنگ بہادر رح)
#نوٹ: 3 باب (حُلیہ، عادات اور اخلاق) یہاں پرختم نہیں ہوا.
انشاءالله اگلی پوسٹ پر 3 باب (حُلیہ ، عادات اور اخلاق) کا (تیسرا حصہ) تحریر کیا جائے گا.
#باب3 #حُلیہ_عادات_اخلاق
(حصہ-1)
#حُلیہ_مبارک :
آپ رح کا قَد نہایت موزوں تھا. چھب نہایت دل آویز اور سراپا متناسب تھا. سر پر ہمیشہ بال رکھتے. اور بیچ میں سے مانگ نکالتے تھے. عمامہ باندھتے، سُرمہ لگاتے، خوشبو کو پسند کرتے تھے. جوانی میں رنگ گندم گوں تھا. مگر آخر عمر میں ریاضت، سفر کی مشقت اور آفتاب کی تمازت سے سانولا ہو گیا تھا.
حضرت صاحبزادہ محبوبِ عالم رح فرماتے ہیں، کہ آپ رح خاصے مضبوط تھے، بازو بھرے بھرے پنڈلیاں سخت اور مضبوط، سینہ چوڑا، اور جسم پو گوشت تھا. چلنے میں سبک رفتار اور تیزگام تھے.
:
آپ رح کبھی سفید تہمد باندھتے اور بدن پر ایک ململ کا کُرتہ ہوتا تھا. کُرتہ پہنتے وقت آستین کو چڑھانا ہوتا تو لوگوں کو ہٹا دیتے اور کلائیوں تک کو برہنہ نہیں ہونے دیتے تھے. کبھی کبھی آپ رح نے فرغل کی طرح کا کُرتہ بھی پہنا ہے.عمامہ پہنتے تھے، جس کا شملہ چھوٹا ہوتا تھا.
حکیم احمد دین صاحب رح فرماتے ہیں، کہ سفر میں سفید کپڑوں کے علاوہ دو سیاہ چادریں بھی ہمراہ رہتی تھیں. ایک رات کے وقت تہمد کی طرح باندھ لیتے. اور دوسری کو اوڑھ لیتے تھے. اگر کوئی آدمی آپ رح کو خوشبو لگا دیتا.تو خوشنودی کا اظہار کرتے.
:
آپ رح کی غزا بہت تھوڑی اور بالکل سادہ تھی تھی. سبزیوں میں آپ رح کو مولی بہت پسند تھی. کبھی آپ رح نے صرف باجرے کے خوشے بھنواکر اور دانے نکلوا کر بھی کھائے ہیں. ساگ بہت پسند تھا. گیہوں کے آٹے کا پھلکا جو کم و بیش چھٹانگ بھر کا ہوتا خالی دال یا مکھن کے ساتھ لگا کر کھاتے اور لسی سے نوالہ کو نیچے اتار لیا کرتے تھے. گوشت بھی آپ رح نے کھایا ہے.
سفر پر کبھی کبھی دو تین تولے بُھنے ہوئے چنے بھی کھائے ہیں. روزے اکثر لسی سے افطار کرتے. خربوزہ آپ رح نے کھایا ہے.
آپ عوام میں بیٹھ کر کھانا کہانا ناپسند فرماتے تھے. چوہدری آلہ دین کہتے تھے، کہ میں اس چیز کا خیال رکھتا تھا کہ کوئی بھی سنگی آپ رح کے پاس کھانا کھاتے وقت نہ آئے.
:
آپ کی طبیعت میں بہت سادگی تھی. ایک دفعہ چوہدری آلہ دین (جو کہ آپ رح کے سنگی تھے) فرماتے ہیں، کہ آپ رح میرے گاؤں کئی بار تشریف لائے. مگر ہمیشہ پیدل اور کمال سادگی سے آئے. ایک دفعہ مجھ سے فرمانے لگے کہ اتنی مرتبہ میں تمہارے پاس آیا ہوں. تم بھی کبھی میرے پاس آؤ. میں عرض کیا بہت اچھا! حاضر ہوں گا. پھر میں آوان شریف ایک دن حاضر ہوا.میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر آیا تھا جسے سنگیوں نے پسند نہیں کیا. پھر چوہدری آلہ دین صاحب رح جب دوبارہ آوان شریف آئے تو پیدل آئے اور آپ رح نے انکو اپنے خادمین میں آوان شریف میں رکھ لیا. چوہدری آلہ دین صاحب فرماتے ہیں، جب کوئی آدمی غریب النواز حضرت قاضی سُلطان محمود آوانی رح کی موجودگی میں عربی یا فارسی پڑھتا تو آپ رح فرماتے کہ تم عرب میں بیٹھے ہو یا ایران میں. بھائی یہ پنجاب ہے پنجابی میں بات کرو. جبکہ آپ رح کو عربی اور فارسی پر پورا ابور حاصل تھا.
:
#حوالہ:
کتاب:( #مقاماتِ_محمود)
مؤلف : (خلیفہ مجاز غریب النواز حضرت قاضی سُلطان محمود آوانی رح حضرت نواب معشوق یار جنگ بہادر رح)
#نوٹ: 3 باب (حُلیہ، عادات اور اخلاق) یہاں پرختم نہیں ہوا.
انشاءالله اگلی پوسٹ پر 3 باب (حُلیہ ، عادات اور اخلاق) کا (دوسرا حصہ) تحریر کیا جائے گا.
#باب2 (حصہ-3)
:
حضرت قاضی سُلطان محمود آوانی رح ایک ذہین طالب علم تھے. اور اِس پر محنت سہاگے کا کام دیتی تھی. جبھی تو آپ رح کے استاد نے آپ رح کو قاضی کہنا شروع کیا تھا.
جب اثنائے تدریس و تعلیم میں آپ ہمہ تن علوم باطنی کی طرف متوجہ ہو گئے تو اس سلسلے میں علوم ظاہری کے پڑھانے کی کچھ عرصہ کے لئے ممانعت ہو گئی. اس سے آپ رح کے دل میں بہت قلق ہوا. اور آپ نے ایسا محسوس کیا. کہ ایک نعمتِ عظمیٰ آپ سے چھن گئی. پھر جب آپ کو علم پڑھانے کی اجازت ملی تو آپ رح کے دل میں تازگی پیدا ہوئی اور اس کو غیر مترقبہ سمجھا.
حضرت قبلہ صاحبزادہ محبوبِ عالم رح فرماتے ہیں،کہ اگرچہ آپ نے میرے تعلیم کیلئے مسلّم اور مستند اساتذہ رکھے. جو بلا شبہ امامِ فن کہے جانے کے لائق تھے. لیکن حضرت قاضی صاحب رح کی تعلیم کا انداز ہی نرالا تھا. کہ مجھ جیسا کھلنڈرا طالب علم بھی سبق میں دلچسپی محسوس کرنے لگتا تھا.
آپ رح کے طالب علموں کو اہلِ علاقہ (حضرت قاضی صاحب رح کے درویش کہا کرتے تھے. تعلیم بلا معاوضہ دیتے تھے. بلکہ کسی سے زبانی شکریہ کی توقع بھی نہیں رکھتے تھے.
:
حکیم احمد دین صاحب فرماتے ہیں. کہ جب آپ رح کو درس و تدریس کی اجازت ملی. تو پھر آپ رح نے طلبہ کوآنے اور پڑھنے کی اجازت دی. بعض اوقات سفر میں طلبہ کو اپنے ساتھ رکھتے اور سبق چلتے چلتے پڑھاتے جاتے تھے. اگر راستے میں کسی طالب علم کا گھر آ جاتا تو اس کی دل جوئی کے لیے اسکے گھر بھی تشریف لے جاتے.
ایک دفعہ آپکا گزر آہی گاؤں سے ہوا تو وہاں ایک غریب شاگرد محمد سعید (برکت علی شہید کے بڑے بھائی) کے گھر تشریف لے گئے.محمد سعید کے والد نے آپ رح کے لیے فوراً چارپائی بچھائی اور بکری کا دودھ پیش کیا. آپ نے نوش فرمایا اور بقیہ اپنے درویش کو مرحمت فرمایا. آپ آہی کے ایک معزور شاگرد کو خد آہی گاؤں میں سے جب گزرتے تو اس کو بھی سبق دیتے.
آپ رح چاہتے تھے کہ لوگو میں زیادہ سے زیادہ دین اسلام کی تعلیم پہنچے. آپ رح اپنے طلبہ سے بےحد پیار کرتے تھے. اس سے طلبہ میں تعلیم حاصل کرنے کا مزید شوق پیدا ہوتا.
طالب علموں کے لیے خود آپ رح کی حرم محترم لنگر پکا کر بھیجا کرتی تھیں. لوگ انہیں (ٹھٹھہ والی بی بی صاحبہ) کہا کرتے تھے.
:
#حوالہ:
کتاب:( #مقاماتِ_محمود)
مؤلف : (خلیفہ مجاز غریب النواز حضرت قاضی سُلطان محمود آوانی رح حضرت نواب معشوق یار جنگ بہادر رح)
#نوٹ: 2 باب (ولادت، تعلیم و تربیت، علم) یہاں ختم ہو گیا ہے.
انشاءالله اگلی پوسٹ پر 3 باب (حُلیہ ، عادات اور اخلاق) تحریر کیا جائے گا.
#باب2 (حصہ-2)
#تجرعلمی :
حضرت قاضی سُلطان محمود آوانی رح کا علم اس قدر وافر تھا. کہ آپ رح ایک مسلّم فرد تھے. آپ رح کا کتب خانہ لاجواب اور بے نظیر تھا. جس میں مختلف علوم کی نادر کتب قلمی اور غیر مطبوعہ موجود تھیں.
حکیم احمد دین صاحب رح فرماتے ہیں کہ آپ رح کو ہر فن کی ایک نہ ایک کتاب کا متن زبانی یاد تھا.
حکیم غلام مصطفیٰ صاحب جو گولیکی ضلع گجرات کے رہنے والے تھے. حضرت صاحب رح کا علاج بھی وقتاً فوقتاً کیا ہو ہے. وہ ایک دفعہ آپ رح کی خدمت میں آوان شریف حاضر ہوئے اور التجا کی کہ مجھے شرح چغمینی کا ایک مقام سمجھ میں نہیں آتا. سمجھایا جائے. آپ رح اس وقت مدت سے پڑھنا پڑھانا چھوڑ چکے تھے. آپ رح نے حکیم صاحب کو فرمایا اگر چہ مجھے کچھ یاد نہیں مدت کا پڑھا بھول چکا ہے لیکن پوچھو! حکیم صاحب نے ایک کتاب کی ایک عبارت پڑھی اور کہا اس کی سمجھ نہیں آ رہی مجھے. آپ رح نے عبارت سن کر فرمایا کہ فلاں لفظ سے فلاں لفظ تک عبارت کاٹ دو کیونکہ یہ عبارت مصنف کی نہیں ہے. بلکہ الحاقی ہے. حکیم صاحب نے ایسا ہی کیا اور مسئلہ آئینے کی طرح روشن ہو گیا. حکیم صاحب باہر آ کر حضرت صاحبزادہ محبوبِ عالم رح کو کہنے لگے کہ میں حضرت قاضی صاحب رح کی روحانیت پر تو کچھ کہ نہیں سکتا لیکن ہاں میں یہ ضرور مانتا ہوں کے حضرت قاضی صاحب رح غضب کے عالم ہیں.
:
علمائے عصر سب آپ کے تجر علمی کے معترف تھے. اور ان کی نظر میں آپ کا بڑا مرتبہ تھا. جو لوگ مشرب میں آپ سے اختلاف رکھتے تھے. وہ بھی آپ کو ایک عالمِ با عمل اور رہنمائے خلائق سمجھتے تھے.
ایک مرتبہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی (انڈیا)(اُس زمانے کے غیر مقلدوں اور اہلِ حدیث کے پیشوا سمجھے جاتے تھے) گجرات تشریف لائے. اور حضرت قاضی صاحب رح کے فقر و درویشی کا شہرہ سنا تو آپ رح سے ملنے آوان شریف تشریف لے گئے. لیکن حضرت قاضی صاحب رح کہیں باہر تشریف لے گئے تھے. اس لیے ملاقات نہ ہوئی مولوی صاحب نے حضرت قاضی صاحب رح کی قیام گاہ دیکھنے کی خواہش کی. جو ان کو دکھائی گئی. قیام گاہ کو دیکھ کر بے ساختہ ان کی زبان سے کلمہ نکل گیا کہ "جس شخص کے بیٹھنے کی یہ جگہ ہے تو پھر یقیناً اس کا نفس بے شر ہے ".
جب آپ رح اپنے مرشد خانے سیدو شریف سے دستارِ فضیلت لے کر گھر واپس آئے تو آپ رح کی فاضلیت اور جامعیت کو آپ رح کے اساتذہ اکرام نے بھی تسلیم کیا اور آپ رح کے ہاں آمد و رفت شروع کر دی.
مولوی عبدالله صاحب ساکن عمر چک تحصیل کھاریاں جو خود بھی ایک عالم تھے اور گجرات کی عدالت میں قاضی تھے. فرمایا کرتے ہیں. کہ "اگر حضرت قاضی سُلطان محمود آوانی رح پوری طرح سے علومِ باطنی کی طرف متوجہ نہ ہو جاتے تو ہمیں کوئی بھی نہ پوچھتا. اور سب لوگ حضرت قاضی سُلطان محمود آوانی رح کی طرف رجوع کرتے. یعنی ان کے مقابلے میں ہماری کوئی اہمیت نہ ہوتی".
:
#حوالہ:
کتاب:( #مقاماتِ_محمود)
مؤلف : (خلیفہ مجاز غریب النواز حضرت قاضی سُلطان محمود آوانی رح حضرت نواب معشوق یار جنگ بہادر رح)
#نوٹ: 2 باب (ولادت، تعلیم و تربیت، علم) یہاں پر ابھی ختم نہیں ہوا.
انشاءالله اگلی پوسٹ پر 2 باب (ولادت، تربیت اور تعلیم، علم) کا بقيا حصہ تحریر کیا جائے گا.
#ولادت:
حریم قدس سے جہانِ آب و گل میں تشریف آوری کی شان تو دیکھو کہ والدہ ماجدہ ابھی اُمید سے ہی تھیں. کہ ایک رات نیند کے تڑکے کیا خواب دیکھتی ہیں کہ انکے گھر کی طرف سید طائفہ حضرت جنيد بغداد رح کی سواری آ رہی ہے. اس بشارت کی تعبیر میں بیساکھ (مئی) کا مہینہ تھا. حضرت غلام غوث رح کا غنغوانِ شباب تھا. کہ آپ کے مشکوئے معلی میں فرزندِ ارجمند کے پیدا ہونے کی خبر دادا جان رح نے سنی. یہ حضرت غلام مصطفی رح (حضرت قاضی صاحب رح کے دادا جان) کا آخری زمانہ تھا. جن کے حسنِ خلق اور جود و کرم کا گھر گھر شہرہ تھا. اس اخترِ برجِ سعادت اور ماہتابِ اوجِ ولایت نے اس عالم رنگ و بو میں قدم رکھا. گھر ایک شادی کا گھر ہو گا. اور لوگوں نے مبارکباد دینا شروع کر دی.
قبلہ دادا جان حضرت غلام مصطفیٰ نے (سلطان محمود رح) نام مبارک رکھا. کسے معلوم تھا کہ یہ نومولود ایک روز عالمِ ولایت کا سلطان اور خلق کے لیے محمود غزنوی ثابت ہوگا.
:
ابھی آپ رح کی عمر تین چار سال کی ہوگی کہ آپ رح کے دادا جان رح وصال فرما گئے. حضرت قاضی صاحب رح لکھتے ہیں کہ ان کی وفات کی باتیں مجھے اب تک یاد ہیں. باپ کی نظر اپنے فرزند کی تعلیم و تربیت کی طرف بہت تھی. جس کا نتیجہ موضع آوان شریف میں آفتابِ علم کی ضیا پاشی کی صورت میں ظہور پذیر ہوا.
غریب النواز حضرت قاضی سُلطان محمود آوانی رح خود فرماتے ہیں، کہ (مجھ نادان کو علم ظاہر کے جو یہ چند حروف آتے ہیں. وہ سب حضرت والد ماجد کی کمال سعی و ہمت و کوشش سے نصیب ہوئے تھے. حضرت قاضی صاحب رح نے نسخ و نستعلیق دونوں خطوں کی مشق جناب والد ماجد قدس سرہ کی زیرِ نگرانی کی. مؤلف کی نظر سے آپ رح کی قلمی تحریریں گزری ہیں. حرفوں میں ایسی آب نظر آتی ہے جیسے کہ گویا موتیوں کی لڑیاں پرو دی گئی ہیں. خود غریب النواز حضرت قاضی سُلطان محمود آوانی رح تحصیلِ علم کی طرف اس قدر شوق تھا. کہ سب طرف سے بے تعلق ہو کر اسی ایک جانب جھک گئے تھے. گو آپ رح کی تعلیم گھر میں شروع ہوئی تھی. مگر تکمیلِ تعلیم کے لیے گھر سے باہر جانا پڑا. چنانچہ حاجیوالہ (گجرات) ،ملکہ (کھاریاں)، چنن گکھڑ (گجرات)، کھائی (جہلم)، تھوکر محرم خان، چکی، غور غشی،شمس آباد، پشاور وغیرہ کا سفر کرنا پڑا.
25 26 سال کی عمر میں حضرت قاضی صاحب رح فارغالتحصیل ہو چکے تھے.
:
#حوالہ:
کتاب:( #مقاماتِ_محمود)
مؤلف : (خلیفہ مجاز غریب النواز حضرت قاضی سُلطان محمود آوانی رح حضرت نواب معشوق یار جنگ بہادر رح)
#نوٹ: 2 باب (ولادت، تعلیم و تربیت، علم) یہاں پر ابھی ختم نہیں ہوا.
انشاءالله اگلی پوسٹ پر 2 باب (ولادت، تربیت اور تعلیم، علم) کا بقيا حصہ تحریر کیا جائے گا.
#١باب
#وطن :
مغربی پاکستان کے ضلع گجرات میں جو اپنی عمدہ آب و ہوا کے لیے مشہور ہے. آزاد کشمیر کی سرحد پر ایک موضع آوان شریف آباد ہے. پہلے یہ موضع (محمد پور) کے نام سے موسوم تھا. لیکن کثرتِ استعمال کے باعث محمد پور کا لفظ متروک ہو گیا. بعد میں دو گاؤں آہی اور وان کو ملا کر آوان کے نام سے معروف ہوا. لیکن غریب النواز رح کی وجہ سے جو شرف حاصل ہو گیا. تو پبلک کی زبان پر اور ڈاک خانے کی مہر پر بھی (آوان شریف) نام ہوا.یہ گاؤں گجرات شہر سے 22 میل کے فاصلے پر ہے.
گاؤں کے اکثر باشندے تو ذات کے اعوان ہیں. مگر یہاں عرصہ دراز سے کھوکھر گوت کے راجپوتوں کا ایک خاندان بھی سکونت پزیر تھا.جس کے اکثر افراد عالم، حافظ اور صالح تھے. ہمارے پیرِ طریقت غریب النواز حضرت قاضی سُلطان محمود قدس اللّٰه العزيز اُسی خاندان کے چشم و چراغ تھے. آپ رح کا معاش زمینداری تھا.
#اجداد :
حضرت قاضی صاحب قدس الله العزيز کے والدِ بزرگوار کا اسم شریف حضرت غلام غوث رح تھا. نسب نامہ ذیل ہے.
حضرت قاضی سُلطان محمود آوانی رح بن حضرت غلام غوث رح بن حضرت غلام مصطفی رح بن حضرت غلام محمد رح بن حضرت حافظ محمد محفوظ رح بن حضرت حافظ محمد جمیل رح بن حضرت حافظ محمد جمال رح بن حضرت حافظ ضیالدین گنج بخش رح.
یہ تمام بزرگ اپنے اپنے زمانے میں ولی اللّٰه مانے جاتے تھے. گویا ہمارے غریب النواز حضرت قاضی سُلطان محمود آوانی رح کے ظہور پاک سے پہلے 6 پوشتوں تک روحانی انوار اسی خمیر میں مرکوز ہوتے رہے. پھر اللّٰه تعالیٰ کے فضل و کرم سے حضرت قاضی سُلطان محمود آوانی رح ہم سب کے لیے زینتِ مسندِ ہدایت بن کر آوان شریف میں تشریف لائے.
:
#حوالہ:
کتاب: ( #مقاماتِ_محمود)
مؤلف : (خلیفہ مجاز غریب النواز حضرت قاضی سُلطان محمود آوانی رح حضرت نواب معشوق یار جنگ بہادر رح)
#نوٹ: 1 باب (وطن و اجداد) یہاں پر ختم ہو گیا ہے.
انشاءالله اگلی پوسٹ پر 2 باب (ولادت، تربیت و تعلیم، علم) تحریر ہو گا.
Click here to claim your Sponsored Listing.
Category
Website
Address
Gujrat
57000
Idara Noor Ul Islam Kafeel Street Rehman Shaheed Road Mohallah Nizam Abbad
Gujrat
Idara Noor Ul Islam is an institute dedicated to teaching Islamic principles and strengthening the belief in Khatme Nabuwat.
Office No. 83, 2nd Floor, Lawyers Complex, District Courts
Gujrat, 50700
Learn Quran Online