Advocate Rehan A Khan

Family Law Attorney,
criminal lawyer and providing legal services

15/03/2024

#الحمدللہ
PRESIDENT HIGH COURT BAR MULTAN HAS NOMINATED ME
(Mr. Advocate Rehan A KhanSULEMANKHEL AHC)AS HONORARY MEMBER EXECUTIVE.
THANK FOR TRUSTING IN ME.

Everyone

15/03/2024

مفروری،
ضمانت کی راہ میں رکاوٹ نہ ہے۔
2024 SCMR 464

15/03/2024

۔
1۔ دیوانی قیدی۔
2۔ ریاستی قیدی۔
3. بچے اور نو عمر قیدی۔
4۔ خواتین قیدی ۔
5. ملزم قیدی ۔
6۔ سزائے موت کے قیدی۔
7. ذہنی مریض قیدی ۔
Advocate Rehan A Khan
سلیمان خیل لاء چیمبر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس کروڑ
📞03336455124

13/03/2024

منشیات کے کیسز میں ویڈیو گرافی کے حوالے سے سپریم کورٹ کا پہلا اور انتہائی اہم فیصلہ !

فیصلے کی تفصیل میں جانے سے پہلے کیس کے مختصر حقائق کچھ یوں ہیں کہ :

انتیس مئ دو ہزار تئیس کو تھانہ سیکرٹریٹ اسلام آباد نے زاہد سرفراز گل نامی ملزم کو انسداد منشیات ایکٹ کے دفعہ نو ( سی ) کے تحت اٹھارہ سو تینتیس گرام چرس رکھنے کے جرم میں گرفتار کیا جس کے لئے قانون میں کم سے کم سزا نو سال جبکہ زیادہ سے زیادہ چودہ سال قید و جرمانہ ہے۔ ایف آئی آر کے اندراج کے بعد نچلی تمام عدالتوں سے درخواست ضمانت خارج ہونے کے بعد یہ کیس سپریم کورٹ پہنچا اور سپریم کورٹ میں یہ کیس تین رکنی بینچ جن میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ صاحب شامل تھے کے سامنے مقرر ہوا۔

ملزم کے وکیل کی جانب سے عدالت میں پہلا نکتہ یہ اٹھایا گیا کہ ایک بے بنیاد اور غلط کیس ہے اور ملزم کو اس کیس میں صرف اس وجہ سے نامزد کیا گیا ہے کہ ملزم نے پولیس کے کچھ حکام کے خلاف سترہ مئ کو ایک درخواست دی تھی جس کے جواب میں ملزم کو اس ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا اور اس کے علاؤہ یہ اہم نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ جائے وقوعہ پر بوقت وقوعہ ملزم کی موجودگی بھی نہیں ہے۔ ریاست کی جانب سے سٹیٹ کونسل نے سپریم کورٹ میں یہ دلائل دئے کہ ملزم کو رنگے ہاتھوں دن دیہاڑے چھ بجے ایک عوامی پارک سے گرفتار کیا گیا ہے تو اس لئے ملزم کے خلاف کیس ثابت ہوتا ہے جس کے جواب میں ملزم کے وکیل نے یہ نکتہ اٹھایا کہ چھ بجے ایک عوامی پارک میں ملزم کو گرفتار کیا گیا لیکن اس کے باوجود وقوعہ کے عینی شاہدین صرف پولیس والے ہیں اور اس کے علاؤہ نہ تو کوئ فوٹو گرافی اور نہ ہی کوئی ویڈیو گرافی کی گئ اور یہی بات پولیس کے کردار کو مشکوک بناتی ہے۔

سپریم کورٹ نے فریقین کے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد پہلے ہی فرصت میں اس کیس کو مزید انکوائری کا کیس قرار دے ملزم کی درخواست ضمانت کو منظور کرتے ہوئے ملزم کو ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا۔ عدالت نے یہ فیصلہ سنانے کے بعد ایک نہایت ہی خوبصورت بحث کا آغاز کیا ہے اور وہی بحث ہی اس کیس کی تلخیص کا باعث بنا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے بحث کا آغاز اس نکتے سے کیا ہے کہ انسداد منشیات ایکٹ کے دفعہ پچیس کی تنفیذ کے بعد منشیات کے کیسز میں ضابطہ فوجداری کے دفعہ ایک سو تین کا اثر ختم ہوگیا ہے جس کے تحت پولیس پر یہ لازمی تھا کہ پولیس اپنے ساتھ تلاشی کے وقت دو پرائویٹ گواہ رکھنے کی پابند تھی۔ یہاں پر عدالت نے اس امر پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ آخر کیوں پولیس اور انسداد منشیات فورس تلاشی کے وقت فوٹو گرافی کیوں نہیں کرتی حالانکہ قانون شہادت آرڈر کا آرٹیکل ایک سو چونسٹھ اس حوالے سے بڑا واضح ہے۔ عدالت نے یہاں پر اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ انسداد منشیات کے کیسز میں عمومی طور پر استغاثہ کے گواہان سرکاری ہوتے ہیں جن کے پاس موبائل فون موجود ہی ہوتے ہیں تو وہ آخر کیوں فوٹو گرافی و ویڈیو گرافی نہیں کرتے کیونکہ اس سے نہ صرف جائے وقوعہ پر ملزم کی موجودگی جانچنے میں آسانی ہوگی بلکہ اس سے انسداد منشیات فورس کے خلاف قائم اس تصور کا خاتمہ بھی ہوسکے گا کہ وہ غلط کیسز بناتے ہیں۔ عدالت نے اس کے بعد اس بات کا بھی زکر کیا ہے کہ منشیات فروش اپنے خریداروں کو عادی بنا کر نہ صرف ان کو تباہ کرتی ہے بلکہ ان کے خاندان کو بھی تباہی کے دہانے پر پہنچا دیتے ہیں اور چونکہ انسداد منشیات فورس کو تنخواہیں سرکاری فنڈ سے جاتی ہیں تو اس لئے ان پر لازمی ہے کہ وہ اس مکروہ دھندے کی روک تھام بہر صورت کرے۔ عدالت نے آخر میں تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ ہم سب حقیقی شہادت یعنی ثبوت کے حصول کے لئے ہر ممکن راہ اپنائیں۔

عدالت نے فیصلے کے آخر میں یہ فیصلہ تمام متعلقہ اداروں کو بھیجنے کا حکم دیتے ہوئے لکھا ہے کہ پولیس اور انسداد منشیات فورس اپنے متعلقہ قوانین میں ویڈیو گرافی اور فوٹو گرافی کے حوالے سے مناسب ترامیم پر بھی غور کر سکتی ہے۔

اس انتہائی اہم فیصلے کا خلاصہ یہ ہے کہ انسداد منشیات کے کیسز میں پولیس و انسداد منشیات فورس ملزمان کے خلاف حقیقی ثبوت و شواہد کے لئے ویڈیو گرافی و فوٹو گرافی کرے کیونکہ اس سے نہ صرف غلط کیسز کا خاتمہ ہوگا بلکہ حقیقی مجرمان اپنے پایہ تکمیل تک بھی پہنچ پائیں گے۔

یہ فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے لکھا ہے اور ان کے ساتھ جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ صاحب نے اتفاق کیا ہے اور یہ فیصلہ کریمنل پیٹیشن نمبر گیارہ سو بیانوے پر پڑھا جا سکتا ہے۔

12/03/2024

*روزہ رکھنے کی دعا*
وَبِصَوْمِ غَدٍ ثَوَيْتُ مِنْ شَهْرٍ رَمَضَانَ۔
اور میں نے ماہ رمضان کا روزے کی نیت کی۔

11/03/2024

Framing of Charge--- Duty of Trial Court--- Object and purpose of section 265-D, Cr.P.C. stated .

In our criminal justice system, the provisions of Chapter XXII-A of the Code are mandatory in nature, which provide a procedure for the Courts to ensure a just and fair trial for the accused, the prosecution as well as the complainant, therefore, the same must be complied with in their true letter and spirit. One of the provisions of the said chapter is section 265-D, which casts a duty upon the Trial Court to frame a charge. A charge is a gist and precise statement of the allegation(s) made against a person(s), which is the foundation of a criminal trial. It specifies the offence with which an accused is charged, by giving a specific name, if any, and the relevant provision(s) of law(s). Section 265-D provides that before framing of a charge, the Court must consider the FIR, the police report, all the documents, and the statements of the witnesses filed by the prosecution available before it in order to determine whether it has jurisdiction to take cognizance of the matter. If the Court is of the opinion that it is competent to take cognizance and prima facie reasonable grounds exist for proceeding with the trial of the accused, only then, charge has to be framed. Its object and purpose are to enable the Court to initiate judicial proceedings against an accused. It is a fundamental right of the accused to know the exact allegation(s) and offence(s) with which they are charged, in order to defend themselves so as to prevent prejudice. Upon considering all the material available before it, if the Court is of the opinion that it lacks jurisdiction and sufficient material or there exist no grounds for proceeding with the trial of the accused, it should refrain itself from framing charge, so as to avoid a purposeless and frivolous prosecution and abuse of process of the Court.

Crl.P.L.A.225/2023
Ammad Yousaf v. The State through Advocate General, Islamabad and another
P L D 2024 Supreme Court 273

11/03/2024

صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم ۔

11/03/2024

شُکر الحمدللہ اور استغفار کا ذکر کثرت سے کریں۔
Advocate Rehan A Khan

03336455124

10/03/2024

موت کی سرگوشی............
کتاب:: جُونا گڑھ کا قاضی اور دکن کا مولوی.
بغداد میں ایک تاجر رہتا تھا.. ایک دن اس نے اپنے ملازم کو بازار بھیجا کہ وہ کچھ چیزیں خرید لائے.. کچھ دیر بعد وہ ملازم واپس لوٹا تو حواس باختہ تھا خوف سے کانپ رہا تھا۔
مالک کے استفسار پر ملازم بولا:" میرے آقا! جب میں بازار میں داخل ہی ہوا تھا تو مجمع میں سے ایک خاتون مجھ سے بری طرح ٹکرائی، خاتون نے مڑ کر کر دیکھا تو ایک لمحے میں میں سمجھ گیا کہ ٹکرانے والی دراصل میری موت ہے۔"
نوکر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا:"میرے آقا اس عورت نے ٹکرانے کے بعد میری طرف دیکھا اور پھر دھمکی آمیز اشارے کیے، اب آپ مجھے اپنا گھوڑا دے دیں، میں اس شہر سے فوراً فرار ہونا چاہتا ہوں، میں موت سے بھاگنا چاہتا ہوں۔
نوکر بولا کہ گھوڑا لے کر سامرہ چلا جائے گا، وہاں اسے موت نہیں ڈھونڈ سکے گی( سامرہ بغداد سے ایک سو پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک عراقی شہر ہے)
یہ باتیں سن کر مالک نے موت سے خوفزدہ ہو کر فرار ہونے والے نوکر کو اپنا گھوڑا دے دیا.. نوکر گھوڑے پر بیٹھا اور اسے جتنا تیزی سے دوڑا سکتا تھا، دوڑایا اور شہر سے باہر نکل گیا۔
نوکر کے چلے جانے کے بعد مالک خود بازار گیا.. اس نے ہجوم میں اسی موت کو کھڑے ہوئے دیکھا.. مالک سیدھا اس کے پاس گیا اور بولا: " صبح تم نے میرے نوکر کو کیوں دھمکی آمیز اشارے کیے تھے؟" موت بولی:" میں نے تو کوئی دھمکی آمیز اشارے نہیں کیے، دراصل میں تو اسے دیکھ کر حیران رہ گئی تھی کہ وہ بغداد کے بازار میں کیا کر رہا ہے۔ میری تو اس کے ساتھ ملاقات آج رات سامرہ میں طے تھی!"

**یہ کہانی جیفری آرچر کے افسانوں کے مجموعے کی پہلی کہانی ہے اس کا عنوان Death Speaks رکھا ہے یہ کہانی عربی سے ترجمعہ کی گئی ہے آرچر کہتا ہے کہ اس سے بہتر کہانی اب تک کوئی نہیں لکھی گئی۔

10/03/2024
10/03/2024

*INTRODUCTION OF LAW*
سلیمان خیل لاء چیمبر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس کروڑ پنجاب
*(1) ACT: -* An Act means a law passed by the Parliament through adopting proper legislative procedure/bussiness, after obtaining approval and consent of the Parliamentary Committee, Lower House & Upper Houses of the Parliament, for example Ant-Terrorism Act*
Chohan Law Associates
(2) ORDINANCE:
A law made by the President/Competent Authority in absence of Legislature/Parliament or in acute emergency state for a specific period which later-on expires or the Parliament gives consent which becomes a permanent law. It has life of 120 days and It is extendable one time by the President and Parliament may reject, set-aside or may give consent to it, Parliament may convert it into act by adopting/passing in the Parliament

(3) CODE:
A set of secondary laws (other then Constitution) especially made and uniformed in a single code/bare aiming at effective applicability and regulating the procedure of Forums/courts and specified outcomes/punishment for example, Pakistan Penal Code and Crl Procedure Code.

(4) STATUTE:
A Comprehensive Term used for different laws including Act, Ordinance and Orders. In other words, laws having protection of the Constitution.

(5) MANUAL:
It is neither a legal term nor a kind of law but it is a general term used for a compendium/compilation/ins-cyclopedia of laws of specific filed/profession or department, containing all the relevant laws and rules. For example, Manual of Jail Laws, Manual of Military Laws.

(6) ARTICLE:
A legal term used for division-ing and and portioning of basic and fundamental laws/direct legislation by a Parliament, within a Major/Primary Law of a country or a company. For example Constitution of Pakistan, Articles of Association of any company/organisation etc.

(7) SECTION:
A term used for division-ing and and portioning of secondary laws of a state ,next to the constitution, providing definitions, regulating procedures and the punishment etc. For example Section 302 of Pakistan Penal Code and 154 of Criminal Procedure Code
(8) RULE: A legal term used for division and partition of laws made by the Competent Authority having delegated powers of Legislation for regulating the internal affairs of the department/organisation to achieve tasks assigned by the Constitution. For example, Under Article 191, the Constitution empowers the Supreme Court for making Rules of procedures. Similarly the National Assembly may make adopt Business of Rules.

(9) PARA:
A term used for a minute and further division of the above mentioned terms of laws aiming at attraction of the Reader for similarities and contradiction in law if exists any.

(10) PROVISION:
A legal term used for additional part of the above mentioned terms for exception/protection regarding applicability of law. In other words, after defining the principal theme/subject of law, some exceptions are provided to safeguard others from mis-use of law and avoid technicalities and procedural flaws in ex*****on of the said law. For example. A High Court Judge may be posted in Federal Shari-at Court by transfer,,,,,Provided that the consent of the said Judge shall be obtained. Second part of this example is PROVISION. Now many question/objections arise, for example,
(A) Why Article has been used in Qanoon-E-Shahadat Order 1984 ?
(B) Why Order and Ordinances in Pakistan still intact as law for the last 3 decades although Ordinace/Order expires after 120 days suo moto? The answers go as under: In Pakistan almost majority of Ordinances/orders have been issued in Martial Law Period so these Ordinances/orders have been given protection by the Parliament under LFO/legal Frame Work Order and have now become permanent law. Second It depends on the Legislature/Drafter of the Law, they may use term of Article in Order passed by the President.

10/03/2024

Few Grounds for dismissal of a suit for specific performance
-----------------------------------
1. Handwriting expert reported that signature are forged. (2012 CLC 1699)
2. Two attested witnesses were not produced. (2006 CLC 571)
3. Agreement was written by unlicensed person. (2006 CLC 571)
4. Stamp paper was not issued by stamp vendor . (2012 MLD 535)
5. Dates of purchasing stamp paper and endorsement were different. (2011 YLR 404)
6. Purchaser of stamp paper was not produced as witness. (2011 MLD 404)
7. Stamp paper was issued on one date in favour of an unknown person and was executed on another date. (PLD 2008 Queta 01)
8. Payment of whole consideration was paid before ex*****on. (2006 YLR 2446)
9. Scribe was not a registered Waseeqa Navees. (2006 CLC 1444)
10. Register of scribe belongs to another person wherein various pages and serial number were missing. (2006 CLC 1444)
11. Contradiction as to vanue where bargain took place. (2006 CLC 1444)
12. Contradiction as to person who obtained stamp paper. (2006 CLC 1444)
13. Plaintiff failed to produce bank record as to payment of half money. 2006 MLD 886
14. Date, Time, Month and Place of transaction was not given in pleading or evidence. (2005 YLR 2655)
15. Number of N.I.C was different from number on agreement. (2002 CLC 942)
16. Land was situated at a place whereas stamp paper was purchased from another place. (2002 CLC 942)
17. Neither vendor of stamp paper nor scribe was produced. (2001 YLR 2145)
18. Agreement was scribed on plain paper and was written by unlicensed petition-writer whereas both were available as nearby place. ( 1996 MLD 562)
19. Stamp paper was purchased at one date and executed after one week, stamp paper neither showed name of stamp vendor nor the place from where it was purchased. (1992 CLC 2193)
20. Failure to deposit balance amount. (PLD 2002 Lah 88, 2012 CLC 1392)
21. Two marginal witnesses were not produced. (2013 YLR 903, 2009 SCMR 740)
22. Payment of consideration not proved.(2006 YLR 1039 )
23. Document was not put before witness. (2006 MLD 1622)
24. One witness was not produced without any reason/ explanation. (2006 MLD 1622)
25. Scribe admitted that alleged promisor was not present at the time of ex*****on neither he signed before him. (2006 MLD 1622)
26. Claim of plaintiff valuing 25 lac was based on a document which was not registered. (2011 CLC 309)
27. Agreement was signed twice. (2011 CLC 309)
28. Original agreement to sell not produced…loss of agreement not pleaded….no attempt was made to produce secondary evidence…plaintiff was not confronted with…Executant defendant was not identified by anyone. (2005 YLR 463)
29. National Identity Card number was not written. (2005 YLR 3163)
30. Lost of original document not proved. (1995 SCMR 1237)
31. It is doubtful that plaintiff paid whole consideration but did not insist for registered sale deed in his favour. (2006 YLR 2779)
——————————
Advocate Rehan A Khan

10/03/2024

پاکستان کا صدراتی عہد تاریخ کے تناظر میں۔۔۔
#تحریر:
ریحان اے خان سُلیمانخیل ایڈووکیٹ ہائی کورٹ ۔

صدر کا عہدہ 1956 کے آئین کے نفاذ کے بعد وجود میں آیا
پاکستانی نظام حکومت میں عہدہ صدارت انتہائی اہمیت کا حامل ہے، تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری تاریخ میں سویلین شخصیا ت تو ایک سے زائد مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے لیکن عہدہ صدارت پر اب تک دوبارہ کسی کو یہ موقع نہیں ملا۔
گزشتہ 13 صدور میں سے پانچ کا تعلق فوج سے، ایک بیوروکریٹ، ایک جج اور باقی سیاست سے تعلق رکھتے تھے، پاکستان نظام حکومت میں صدر کا عہدہ آزادی کے قریباً 9 سال بعد 1956 ملک کے پہلے آئین کے نفاذ کے بعد عمل میں آیا ۔
1973 کے آئین سے پہلے تینوں صدر کو مستعفی ہونا پڑا تھا لیکن 1973 کے آئین کے نفاذ کے بعد چار سویلین صدر نے کامیابی سے اپنی صدر کی مدت میعاد مکمل کی جبکہ باقی 6 صدور کو کسی نہ کسی موقع پر قبل ازوقت مستعفی ہونا پڑ اتھا۔
ملک میں عہدہ صدارت کا آغاز پہلے آئین کے نفاذسے شروع ہوا، چار مارچ 1956 کو بلامقابلہ منتخب ہونے کے بعد 23 مارچ 1956 ملک کے تیسرے گورنر جنرل میجر جنرل اسکندر مرزا نے صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا، وہ 27 اکتوبر 1956 تک برقرار رہے، وہ اپنی مدت پوری کرنے سے پہلے مستعفی ہوگئے تھے، جس کے بعد آرمی چیف جنرل ایوب خان نے یہ عہدہ ازخود سنبھال لیا تھا وہ 25 مارچ 1969 اس عہدے پر کام کرتے ہوئے مستعفی ہوگئے تھے، وہ بنیادی جمہوریت طریقہ انتخاب کے ذریعے دومرتبہ منتخب ہوئے تھے۔
25 مارچ کو تیسرے صدر آرمی چیف جنر ل یحییٰ خان بنے جو 20 دسمبر 1971 تک اپنی خدمات انجام دیتے رہے ، یہ بھی مستعفی ہوئے جبکہ 20 دسمبر 1971 کو چوتھے صدر پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین رکن قومی اسمبلی ذوالفقار علی بھٹو بنے، یہ پاکستان کی تاریخ میں صدر بننے والے پہلی سیاسی شخصیت تھے، جو 14 اگست 1973 تک اس عہدے پر فائز رہے اور ملک کا پہلے متفقہ آئین نافذ کرنے کے بعد عہدے صدارت سے مستعفی ہو کر وزیر اعظم پاکستان بن گئے تھے۔
اسی دن متفقہ آئین کے تحت پاکستانی تاریخ کے پہلے اور مجموعی طور پر پانچویں صدر فضل الہٰی چوہدری منتخب ہوئے یہ بھی رکن قومی اسمبلی تھے، انہیں تاریخ میں پہلی بار دستور کے تحت پارلیمنٹ کے دونوں ایوان کے ارکان نے ووٹ دیا تھا، انہوں نے نیپ کے امیدوار امیر زادہ خان کو شکست دی تھی۔یہ 16ستمبر 1978 تک اپنی مدت کے مکمل ہونے کے بعد رخصت ہوئے تھے۔
16 ستمبر 1978 کو چیف مارشل لا ایڈمسٹریٹر آرمی چیف جنرل ضیاالحق نے صدارت کا حلف اٹھالیا تھا وہ اس عہدے پر اپنے حادثاتی انتقال 17 اگست 1988 تک موجود رہے، انہوں نے اپنی مدت کے دوران ایک صدارتی ریفرنڈم کرا کر خود کو منتخب کرایا تھا، ضیاالحق کے اچانک انتقال کے سبب چیئرمین سینیٹ غلام اسحق خان نے قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھال لیا تھا۔ نومبر 1988 کو ملک میں الیکشن ہوئے تو وہ اگلی مدت کے لیے نواب زادہ نصراللہ خان اور دیگر دو امیدواروں کو شکست دے کر ملک کے ساتویں صدر منتخب ہوگئے، اپنی میعاد مکمل ہونے سے چند ماہ پہلے سیاسی چپقلش کے باعث 8 جولائی 1993 کو انہیں مستعفی ہونا پڑا تھا۔
8 جولائی 1993 کو آئین کی روح سے چیئرمین سینٹ وسیم سجاد نے قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھالا، اکتوبر 1993 کے الیکشن کے بعد نئی اسمبلی وجود میں آئی تو 13 نومبر 1993 کو نئے صدر کا انتخاب عمل میں آیا، پی پی کے حمایت یافتہ فاروق خان لغاری وسیم سجاد کو شکست دے کر ملک کے آٹھویں صدر منتخب ہوئے، وہ سیاسی چپقلش کے باعث 2 دسمبر 1997 کو اپنی مدت سے پہلے مستعفی ہوگئے تھے، چیئرمین سینٹ وسیم سجاد دوسری مرتبہ قائم مقام صدر تھے۔
یکم جنوری 1998 سابق چیف جسٹس اور ن لیگ کے حمایت یافتہ رفیق تارڑ نویں صدر منتخب ہوئے، انہوں نے پی پی کے آفتاب شعبان میرانی، مولانا خان محمد شیرانی، سمیت دیگر امیدواروں کو شکست دی تھی، بدقسمتی سے صدر رفیق تارڈ بھی اپنی مدت میعاد مکمل نہیں کر سکے تھے اور 20 جون2001 کو ان کو سبکدوش کردیا گیا تھا۔
اگلے صدر آرمی چیف پرویز مشرف تھے وہ اس عہدے پر 18اگست 2008 تک موجود رہے، اس دورا ن انہوں نے خود کو ریفرنڈم اور اسمبلی سے منتخب کروایا تھا انہیں بھی اپنی مدت میعاد سے بہت پہلے مستعفی ہونا پڑا تھا۔
9 ستمبر 2008 کو ملک کے گیارہویں صدر رکن قومی اسمبلی آصف علی زرداری بنے انہوں نے صدارتی انتخاب میں مسلم لیگ ن کے جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی اور ق لیگ کے مشاہد حسین سید کو شکست دی تھی، آصف زرداری نے اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کی اور 9ستمبر 2013 تک اس عہدے پر فائرز رہے تھے۔
9 ستمبر 2013 کو ن لیگ کے حمایت یافتہ امیدوار ممنون حسین پی ٹی آئی کے وجیہ الدین کو شکست دے کر بارہویں صدر منتخب ہوئے، پی پی، اے این پی اور ق لیگ نے انتخاب کا بائیکاٹ کیا تھا۔ ممنون حسین نو ستمبر 2018 اپنی مدت مکمل ہونے تک اس عہدے پر براجمان رہے۔
نو ستمبر 2018 کو تحریک انصاف کے حمایت یافتہ رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عارف علوی تیرہویں صدر منتخب ہوئے، انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن اور اعتزاز احسن کو شکست دی تھی۔
Advocate Rehan A Khan .

09/03/2024

عدالتی نظام انصاف میں کورٹ فیس غیر اسلامی ہے۔
PLD2023 SC 470
PLD 1992 FSC 195

09/03/2024

#صدرپاکستان۔
تحریر:
ریحان اے خان سلیمان خیل ایڈووکیٹ ہائی کورٹ ۔
صدرِ پاکستان کا انتخاب کیسے ہوتا ہے اور اُن کے پاس کیا آئینی و قانونی اختیارات ہوتے ہیں؟
آج پاکستان کے 14ویں صدر کا انتخاب ہونے جا رہا ہے۔ حکومتی اتحاد کی جانب سے سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری صدارتی امیدوار ہیں۔ اُن کا مقابلہ سُنی اتحاد کونسل کے حمایت یافتہ اور پشتونخوا مِلی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی سے ہے۔
گذشتہ روز (جمعہ) کو صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کو الوداعی گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔
پاکستان تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عارف علوی نے 9 ستمبر 2018 کو پاکستان کے 13ویں صدر کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔
مگر اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان میں صدر کا انتخاب کیسے ہوتا ہے اور پاکستان کے جمہوری نظام میں ان کا کردار کیا ہوتا ہے۔
صدرِ پاکستان کو عوام کے منتخب نمائندے یعنی ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبران خفیہ رائے شماری کے ذریعے منتخب کرتے ہیں۔
اس مقصد کے لیے صدر کے انتخاب والے دن ان تمام ایوانوں (قومی اسمبلی، چاروں صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ آف پاکستان) کو پولنگ سٹیشن کا درجہ دیا جاتا ہے اور پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر صدر پاکستان کے انتخاب میں ریٹرنگ آفیسر کے فرائض سرانجام دیتے ہیں اور پولنگ کے تمام تر عمل کی نگرانی کرتے ہیں۔
صدارتی الیکشن جیتنے کے لیے آئین کے مطابق پارلیمان کے دونوں ایوانوں اور چاروں صوبائی اسمبلیوں سے سادہ اکثریت یا 349 اراکین کی حمایت درکار ہوتی ہے۔
آئین کے مطابق، صدارتی انتخاب میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ہر رکن کا ایک ووٹ گنا جاتا ہے۔
صدارتی انتخاب کا طریقہ کار
تمام صوبائی اسمبلیوں کو یکساں نمائندگی دینے کے لیے ملک کی تین بڑی صوبائی اسمبلیوں کو ملک کی سب سے چھوٹی، بلوچستان اسمبلی کے اراکین کی تعداد کے برابر 65 ووٹ حاصل ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ بلوچستان اسمبلی کے ہر رکن کا ایک ووٹ گنا جاتا ہے جبکہ باقی تینوں اسمبلیوں میں سے ہر ایک اسمبلی کی تعداد کو بلوچستان اسمبلی کی تعداد پر تقسیم کیا جاتا ہے اور جو عدد آتا ہے، اس اسمبلی کے اتنے اراکین کا مل کر ایک ووٹ بنتا ہے۔
مثلاً، پنجاب اسمبلی کی 371 نشستوں 65 سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کا جواب 5.7 آتا ہے۔ اس کا مطلب پنجاب اسمبلی کے 5.7 ارکان مل کر صدارتی الیکشن کا ایک ووٹ بناتے ہیں۔
تاہم اس وقت اسمبلیوں کے ارکان کی تعداد مکمل نہیں۔ الیکشن میں آزاد حیثیت سے منتخب ہونے والے پاکستان تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں نے بعد از انتخابات سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کر لی جس کے بعد سنی اتحاد کونسل نے اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کے لیے مختص نشستیں میں اپنا حصہ حاصل کرنے کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے رجوع کیا تھا۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے سُنی اتحاد کونسل کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد، سنی اتحاد کونسل نے اس اقدام کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ جس پر عدالت نے سپیکر قومی اسمبلی کو خیبرپختونخوا کے کوٹے سے منتخب ہونے والی نو خواتین اراکینِ قومی اسمبلی، جو کہ مخصوص نشستوں پر منتخب ہوئی تھیں، کو حلف لینے سے روک دیا ہے۔۔

شیئر کریں تاکہ معلومات کی غرض سے سب کو علم ہو۔
Advocate Rehan A Khan

Everyone

07/03/2024

زکوۃ کی کٹوتی کا نصاب جاری
بینکوں میں ایک لاکھ 35 ہزار 179 روپے ہونے پر زکوۃ کی کٹوتی ہوگی.

07/03/2024

صغراں بی بی کیس

سپریم کورٹ کے سامنے سوال یہ تھا کہ کیا ایک وقوعہ کے ایک سے زیادہ ایف آئی آر درج کی جا سکتی ہیں یا نہیں..
اس سے قبل مختلف ہائی کورٹس کے مختلف اور متضاد فیصلے موجود تھے
اس سوال کے جواب کی تلاش میں سپریم کورٹ نے سات رکنی لارجربینچ تشکیل دیا..
جس نے تمام سابقہ کیس لاز کو دیکھا اور متفقہ طور پر فیصلہ کیا کے
ضابطہ فوجداری میں لفظ ایف آئی آر استعمال ہوا ہے تو ایک ہی واقعہ کی ایک ہی ایف آئی آر درج ہوگی اور باقی جتنے بھی ورشن ہونگے انکو تفتیشی افسر 161 کے بیان میں لکھے گا...
اور پولیس رولز کے مطابق تفتیش کرکے سچ کو تلاش کرکے انکی علیحدہ علیحدہ چالان پیش کرے گا
اس کے بعد سیکنڈ ایف آئی آر کو بارڈ کر دیا گیا اور ایک ہی نمبر کی ایف آئی آر میں تمام بیان بذریعہ 161 ض ف
کراس ورشن میں شامل کیا گیا

اس سے قبل ایک مقدمہ کی دو سے زائد ایف آئی آر درج کر لی جاتی تھی
اب بیان سب کا ریکارڈ ہوتا ہے
مگر ایف آئی آر ایک ہی فریق کی مدعیت میں درج ہوتی.
Advocate Rehan A Khan

07/03/2024

جج کے پاس اختیار حاصل ہوتاہے۔ کہ کیس کا درست فیصلہ کرنے کے لیے فریقین کے وکلاء کے علاؤہ کوئی تیسرا وکیل بھی عدالتی معاونت کے لیے مقرر کرے۔ اور ایسے وکیل کو
Amicus curiae کہتے ہیں
(2024 SCMR 318)

07/03/2024

فوجداری مقدمات میں فرد جرم کی اہمیت اور فرد جرم عائد کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کی ذمہ داریوں کے بارے سپریم کورٹ آف پاکستان کا رہنما فیصلہ۔
VVVI.MUST READ JUDGEMENT.

Framing of charge is the foundation of trial; section 221 of Cr.P.C. provides an elaborate procedure for framing of charge; it is the responsibility of the Trial Judge to take all necessary and possible steps to ensure compliance of law with regard to framing of proper and unambiguous charge; if necessary ingredients of the offences with which the accused is charged, are not mentioned in the charge, or it is framed in an incomplete, defective or vague manner, it might mislead the accused, which would be a failure of justice.

Under the criminal administration of justice, a criminal case is initiated upon registration of an FIR and a police officer is appointed as an I.O. to undertake a formal investigation into the complaint of breach of law. If the I.O. finds that there is no sufficient evidence or reasonable grounds of suspicion to justify the forwarding of a person in custody to a Magistrate, the I.O. by exercising power under section 169 of the Code of Criminal Procedure (“Cr.P.C.”) release him on his executing a bond with or without sureties. If the I.O. finds that there is sufficient evidence or reasonable grounds of suspicion in support of the allegations, he shall forward a police report under section 173 of the Cr.P.C. known as Challan, within the stipulated period, along with the person under custody to a Magistrate empowered to take cognizance of the offence. The Trial Court then initiates proceedings in a manner, provided by Chapter XXII-A of the Cr.P.C. Section 265-D of the said Chapter of the Cr.P.C. provides that if, after perusing the police report or, as the case may be, the complaint, and all other documents and statements filed by the prosecution, the court is of opinion that there is ground for proceeding with the trial of the accused, it shall frame in writing a charge against the accused. Framing of charge is the foundation of trial, with a purpose and object to enable accused to know the exact nature of allegations and the offences with which he is charged, so that he is given reasonable opportunity to prepare his case and defend himself. Similarly, it enables the prosecution to produce relevant evidence in support of its case against the accused in order to prove the charge. Framing of proper charge is, therefore, significant for the court concerned to be cautious regarding the real points in issue, so that evidence could be confined to such points and to reach a correct conclusion.
Shared by: Rehan A khan
Section 221 of the Cr.P.C. has provided an elaborate procedure for framing of charge. It requires that all material particulars as to time, place, as well as specific name of the alleged offence, if any; the relevant law, its applicable section(s), sub-section(s) and clause(s) in respect of which the offence is said to have been committed, shall be mentioned in the charge. Where any particular section of law with which a person is intended to be charged contains several parts, the relevant part of that section which depicts from the police report and the material available on record, should be mentioned therein. It is the responsibility of the Trial Judge to take all necessary and possible steps to ensure compliance of law with regard to framing of proper and unambiguous charge. Steps should also be taken to explain the charge to the accused to a possible extent, enabling him to fully understand the nature of allegations against him. If necessary ingredients of the offences with which the accused is charged, are not mentioned in the charge, or it is framed in an incomplete, defective or vague manner, it might mislead the accused, which would be a failure of justice. It is, however, to be noted that every omission in a charge cannot be regarded as material illegality or irregularity, unless the accused is in fact misled by such error or omission and it has occasioned a failure of justice, as provided by section 225 of the Cr.P.C.

Crl.P.L.A.29-K/2022
Zain Shahid v. The State & another
Mr. Justice Jamal Khan Mandokhail
Short Order: 29-12-2023
Detailed Judgement: 05-03-2024

07/03/2024

اگر مالک مکان اور کرایہ دار کا ایگریمنٹ expire ہو چکا ہو اور نیا ایگریمنٹ نہ ہوا ہو تو تمام شرائط جو پچھلےایگریمنٹ میں تھی وہی تصور کی جاہے گی۔
2023 CLC 1279

28/02/2024

Arrest how made.
گرفتار کیسے کیا جائے۔
جب کسی بھی کیس میں پولیس کسی بھی شخص کو گرفتار کرنا چاھتی ہے تو محض اُس کو پابند کرے صرف اس کے جسم کو چھونے سے کہ آپ کو زیر حراست میں لینے لگے ہیں۔ جبکہ اس کی بھی ضرورت نہیں اگر گرفتار ہونے والا شخص اپنے الفاظ یا عمل کے ذریعے خود اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کر رہا ہو۔ ہتھکڑی تک لگانے کے ضرورت نہ ہے کیونکہ ہتھکڑی اس وقت لگائی جاتی ہے کہ جب ملزم کے بھاگ جانے کا امکان ہو۔
ملزم اگر اپنی گرفتاری کے کے وقت مذہمت کرتا ہے یعنی گرفتاری بھی نہیں دیتا اور مذہمت بھی کرتا ہے گرفتار نہ ہونے کے لیے تو اس پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 224 کا اطلاق ہوگا جو الگ سے چلے گا جس کہ 2 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
Advocate Rehan A Khan
Everyone
📞03336455124

Photos from Advocate Rehan A Khan's post 23/02/2024

PUNJAB REGISTRATION OF CHRISTIAN DIVORCE RULES 2024

23/02/2024

اس کرہ ارض میں
اشھد ان لا الہٰ الله واشھد ان محمد رسول اللہ
کے سوا ہر چیز فانی ہے.
شیئر کیجئے

Photos from Advocate Rehan A Khan's post 21/02/2024

#شیئرکیجئے
میرا ایمان ھے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانے بنا کوئی دائرہ اسلام میں داخل ہی نہیں ہو سکتا۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی نا مانے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا۔

اَنَا خَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ لَا نَبِيَ بَعْدِيْ.

”میں خاتم النبیّین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔”
Advocate Rehan A Khan

21/02/2024

ایک بزرگ وکیل نے جب نئے وکیل کو نصیحت کی تو اسے کہا کہ اگر کبھی ایسا وقت آئے کہ تم مقدمہ ہار جاو لیکن تمھارا سائل تمھارا معتقد یعنی تم پر تمہارے محنت کی وجہ سے راضی ہو جائے تو سمجھ لو کہ تم نے کچھ نہیں کھویا".
ایس-ایم- ظفر

Photos from Advocate Rehan A Khan's post 20/02/2024

اسلام آبادہائیکورٹ کا ڈی سی اسلام آباد کو گرفتار کرکے کل مورخہ 21 فروری کو پیش کرنے کا حکمنامہ

17/02/2024

جانور پرندے اور کیڑے بھی طبی موت مرتے ہیں مگر ان کی لاشیں کہاں چلی جاتی ہیں ؟؟
حضرت امام جعفر صادقؓ نے سیکڑوں سال قبل دنگ کر دینے والا راز بتاتے ہوئے کیابتایا تھا ؟ جانئے حیران کن معلومات

امام جعفر صادقؓ نے جانوروں کے بارے میں ایک حیران کر دینے والی بات بتائی آپ نے فرمایا "پرندے،کیڑے اور جانور بھی یقینی طور پر طبی موت مرتے ہیں لیکن ان طبعی موت مرنے والے پرندوں کے مردہ جسم کسی کو نظر نہیں آتے آخر یہ لاشیں کہاں چلی جاتی ہیں ؟ مثلا ہمارے علاقوں میں بےشمار پرندے ،بلیاں ، چوہے اور دوسرے جانور پائے جاتے ہیں یہ جانور بھی اپنی طبی موت مرتے ہیں۔روزانہ ہزاروں پرندے اور دوسرے جانور مرتے ہوں گے *لیکن انکے مردہ جسم ہمیں کہیں نظر نہیں آتےالبتہ ان مردہ جانوروں کی لاشیں ہمیں نظر آتی
ہیں جو قید میں مر جائیں یا انہیں زہر دے دیا ہو یا شکاری نے یا کسی دوسرے پرندے نے اسے گھائل کیا ہو،آہستہ آہستہ دم نکلتے ہوئے اپنے کسی جانور کو نہیں دیکھا ہوگا یہاں تک کہ کسی چیونٹی کو بھی نہیں۔
امام جعفر صادقؓ نے فرمایا "
یہ مردہ اجسام تمھیں اس لئے نظر نہیں آتے کہ چوپایوں ، پرندوں اور دوسرے جانوروں کو اپنی موت کا علم اللہ کی طرف سے پہلے ہی ہو جاتا ہے وہ اس مقرر وقت سے پہلے پہلے پہاڑوں کی غاروں ، کھووں ، درختوں کے کھوکھلے تنوں ، زمین کے سوراخوں یا گہرے گڑھوں میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں اور وہیں مر جاتے ہیں ۔
یہ اللہ کا نظام ہے جس کی وجہ سے آج انسان سکون سے سانس لے رہا ہے ورنہ اگر باقی جانوروں ،کیڑوں کو چھوڑ کر صرف پرندوں کو لیا جائے تو ایک اندازے کے مطابق دنیا میں پرندوں کی تعداد 700 ارب ہے اگر یہ پرندے سرے عام طبعی موت مرتے تو زمین پر قدم رکھنے تک کی جگہ نہ ملتی ہر طرف انکے مردہ جسم ہوتے جو گندگی اور بے شمار بیماریوں کا سبب بنتے۔

"اور تم اپنے پروردگار کی
کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاو گے " ۔
Advocate Rehan A Khan

Want your practice to be the top-listed Law Practice in Islamabad?
Click here to claim your Sponsored Listing.

Videos (show all)

اس پیج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اس میں قانون کی بات ہوگی۔ عدلیہ کی کاروائی وکلاء کی اقدام وغیرہ ۔کیا نواز شریف تاحیات ...
امریکی عدالت میں سزا سنانے پر ملزم نے خاتون جج پر حملہ کر دیا۔
سبحان اللہ ۔نہ لاکھوں کا کُرتا نہ ہزاروں کا میک اپ۔ نہ گلے کی صفائی کے لیے ولایتی الکوحل کا استعمال۔ پاک گھرانے کے لیے ع...
والد کا طلاق کے بعد گھر واپسی پر بیٹی کا بارات کی طرح شاندار استقبالجھاڑ کھنڈ (سوسائٹی نیوز)بھارتی ریاست جھاڑکھنڈ میں ای...
اصل کہانی ہے کیا آپ بھی جانئے۔۔۔لاہور بار کے سیکرٹری  نے پنجاب پولیس کے اعلیٰ افسر ایس پی سٹی رضا تنویر کو عدالتی احاطے ...
مسلمان لڑکی کو اغوا کر کے ہندو بنانے والوں کے خلاف بھارتی عدالت کا برہم ۔یہ عدالتیں ہیں ۔جہاں فیصلہ نہیں انصاف ہوتا ھے ۔
کتنی بلندیوں پہ ہے ایوان فاطمہ۔سبحان اللہ ۔میرے ماں باپ بھی قربان اس پاک گھرانے پر۔ Advocate Rehan A Khan
Mr Muhtehsan Ahmad Minhas . Additional Dist and session judge kasur., He use to recite the Holy Quran by Himself prior t...
What is Police to prevent cognizable offences? What is information of design to commit cognizable offences? What is arre...
PPC ISQAT E HAML, ISQATE JANIN. lecture by Sir Umar Latif Bhutta
Abortion is Haram in Islam or not ?See,It's been told by Allah's Messenger or Allah himself Told, that in the stage of c...
شیئر پلیزموجودہ ملکی صورتحال کے پیشِ نظر میں نے اپنی قانونی خدمات اس صورت حال سے متاثرہ افراد جو (پنجاب مینٹیننس آف پبلک...

Telephone

Website

Address

Madia Town Fateh Pur
Islamabad

Opening Hours

Monday 09:00 - 16:00
Tuesday 09:00 - 16:00
Wednesday 09:00 - 16:00
Thursday 09:00 - 16:00
Friday 09:00 - 13:00
Saturday 09:00 - 16:00

Other Islamabad law practices (show all)
Advocate High Court Islamabad Advocate High Court Islamabad
F-8 Markaz
Islamabad

Deals with Civil, Criminal, Family and Corporate Law...

Paracha Law Associates Paracha Law Associates
F 8 Markaz
Islamabad

A page of professionals, where you can find out solutions for your legal complications, specialialy

Nexis Law Associates Nexis Law Associates
Office No. 106, 2nd Floor, Golden Heights, Business Square Block C, Gulberg Greens
Islamabad, 44000

We provide legal services to the individuals and corporations at local and at International Level.

Karlal  Law Associates Karlal Law Associates
Islamabad, 44000

Chachar Law Firm Chachar Law Firm
Islamabad, 44000

We provide legal services related to Service Matters, Corporate, family, civil and FIA

Zaman Law & Associates Zaman Law & Associates
Islamabad

Zaman law & Associate is a legal firm.

Secret Part Whitening Cream Price in Pakistan #03000552883 Secret Part Whitening Cream Price in Pakistan #03000552883
Islamabad

✔ 100% Genuine Product ✔ Easy & Secure Payment ✔ Absolutely Safe and No Side Effect ✔ Cash On Delivery All Over in Pakistan ✔ Call & Whatsapp ✔ 03000552883 ✔ Visit Website ✔ https...

Advocate - Mushtaq Ahmad Zengi Advocate - Mushtaq Ahmad Zengi
Chamber # 11, Haroon Block, Near National Bank Of Pakistan, District Courts
Islamabad, 44000

I'm Professional Lawyer since 2001. My this YouTube channel is about legal issues and its solutions.

Civil and Tax Litigation Civil and Tax Litigation
4-B LDA Apartments Lawrence Road Lahore
Islamabad, 246724

Guys. I am here for you to give you any type of legal advice in Civil as well as Criminal Cases. Yo

Height Growth Supplements in Pakistan #03000552883 Height Growth Supplements in Pakistan #03000552883
I 10
Islamabad, 6500

✔ 100% Genuine Product ✔ Easy & Secure Payment ✔ Absolutely Safe and No Side Effect ✔ Cash O

Syed Abdullah Nawaz Gillani Syed Abdullah Nawaz Gillani
Jhangi Syedan
Islamabad, 44000

Social Worker & Law Student