Reboot society By Sharjeel Tariq
Join us to create a new life theme Join us it will change your life
ہم جنس پرستی کے ہمارے بچوں پر وار (خنساء سعید)
ہم جنس پرستی یعنی عورت کی عورت اور مرد کی مرد سے جنسی محبت کو کہا جاتا ہے ۔ہم جنسیت کے حامل افراد ایک دوسرے کے لیے ایک خاص قسم کی رومانوی کشش رکھتےہیں ۔انگریزی میں اس کے لیے ہوموسیکشویلٹی ( Homosexuality) کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ۔ہم جنس پسند مردوں کے لیے (گے) ، (Gay) کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ ہم جنس پرست عورتوں کے لیے لیسبینزم (Le***anism) کا لفظ زبانِ زدِ عام ہے ۔اس کی ابتداء کے بارے میں بعض محققین کا خیال ہے کہ اس کی ابتدا مصر قدیم سے ہوئی جہاں دیوی ماتا آئسس کے معبد میں ہیجڑے پجاری رہتے تھے جن سے زائرین تمتع کرتے تھے ۔اس کے علاوہ قدیم یونان کے فلاسفہ نے ہم جنس عشق کی تعریف و تو صیف میں منطقی دلائل دیے اور یونانِ قدیم کے شاعروں نے اس کی کشش کے گیت بھی گائے ۔جیسے ہی دنیا میں (Capitallism ) نے پنجے گاڑھنا شروع کیے یورپ اور امریکہ کی سماجی زندگی میں ہم جنس پرستی عام ہونے لگی ،جبکہ وہاں پر موجود مذہبی طبقہ اس کو ایک سماجی لعنت اور مکروہ ہی سمجھتا تھا ۔1950 سے ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے مختلف تنظیمیں سر گرداں رہیں، مگر 1978 میں بننے والی ایک عالمی تنظیم International Le***an, Gay, Bisexual, Trans and Intersex Association (آئی ایل جی اے ) نے ہم جنس پرستوں کی آواز باقاعدہ حکومت کے ایوانوں تک پہنچائی اور 2008میں اقوام متحدہ نے ہم جنس پرستوں کو ان کے باقاعدہ حقوق بھی دئیے اور ان کو تخفظ بھی فراہم کیا ۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لڑکوں کو لڑکوں سے اور لڑکیوں کو لڑکیوں سے باقاعدہ شادی کرنے کی اجازت مل گئی اور آج امریکہ اور یورپ کی نئی نسل اس تذبذب کا شکار ہے کہ آیا وہ ایک لڑکی ہے یا لڑکا اس کو ماہرین نے ( Extreme gender identity crisis ) کا نام دیا ہے ۔
ہم جنس پرستی اس وقت پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے جس کی زد میں مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک بھی آچکے ہیں ۔پاکستان میں ہم جنس پرستی کا آغاز مشرف دور میں ہی ہو چکا تھا ،مگر اُس وقت اس کو زیادہ اہمیت نا دی گئی بعد میں Transgender Persons (Protection of Rights)Act, 2018 اسمبلی سے پاس ہو کر ہم جنس پرستوں کو اُن کی آزادی کا مژ دہ سنا گیا ۔اس قانون کے مطابق اگر کوئی عورت اپنی جنس سے خوش نہیں تو وہ آسانی سے اپنی جنس بدل سکتی ہے اسی طرح ایک مرد بھی آسانی اور آزادی سے اپنی جنس بدل سکتا ہے ۔اس کے علاوہ ہم جنس پرست بغیر کسی ڈر اور خوف کے آپس میں شادی کر سکتے ہیں ۔یہ ہی وجہ کہ آج ہمیں اپنے تعلیمی اداروں میں چاہے وہ سکول ،کالج،یونیورسٹی ہو یا مدرسے ہر جگہ ہمیں ایک بڑی تعداد میں ہم جنس پرست نظر آتے ہیں ۔اب تو ہمارے بڑے بڑے نجی تعلیمی اداروں میں بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ ہم جنس پرستی انسانی حقوق میں شامل ہے ۔اور حیرت کی بات تو یہ کہ بڑے بڑے ہم جنس پرست جو کہ اچھے خاصے مکمل مرد ہونے کے باوجود ٹرانسجنڈر بنے پھرتے ہیں اُن کو ہمارے معصوم بچوں کے سامنے رول ماڈل بنا کر پیش کیا جاتا ہے جو پاکستان میں رہتے ہوئے مغرب کا کھاتے ہیں اور مغربی ایجنڈے کے تحت ہمارے بچوں کو ہم جنس پرستی کا درس دے رہے ہیں ، ہمارے بچوں کو بڑی مہارت سے اس ایک لعنت کی طرف راغب کیا جا رہا ہے ۔بی بی سی نے تو یہاں تک کہہ دیا ہےکہ کراچی ہم جنس پرستوں کی جنت ہے ۔
اس وقت پاکستان میں کوریا کا ایک میوزک بینڈ جس کا نام بی ٹی ایس ( BTS) ہے بہت مقبول ہے ۔یہ بینڈ 2013 میں بنا اس کا تعلق کوریا کے شہر سیول سے ہے۔اس کو پسند کرنے والی نئی نسل پوری ایک آرمی کی شکل میں پاکستان میں موجود ہے یہ بینڈ ہمارے ٹین ایجرز کو ناچ گانا تو سیکھا ہی رہا ہے ساتھ ساتھ اس بینڈ میں شامل ہم جنس پرست نوجوان اپنے دیکھنے والوں کو ہم جنس پرستی بھی سیکھا رہے ہیں ۔
پاکستان میں ہم جنس پرستی کے حامی بہت سے لوگ اس کے حق میں مختلف دلائل دیتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ ایک نفسیاتی عارضہ ہے تو کوئی کہتا ہے کہ ہم جنس پرستی جینیاتی وجوہات کی بنا پر عین فطرت ہے ۔کسی کا کہنا ہے کہ ہم جیسوں سے اُنسیت کہاں کا جرم ہے ۔اگر یہ ایک نفسیاتی عارضہ ہے تو اس کا علاج ممکن ہے ۔جینزاور فطرت والی بات بالکل ایسے ہے جیسے کسی داستان میں مافوق الفطرت عناصر ہوں کیوں کہ سائنسی تحقیق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جنسی رجحانات میں صرف جینز کا ہی عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ ہارمونز ،انسان کی ابتدائی تربیت ،سماجی اثرات بھی اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ٹرانسجنڈر ایکٹ 2018 میں ہم جنس پرستی ایک جرم ہو یا نا ہو مگریہ ایک گناہ ضرور ہے ،وہ ہی گناہ جس نے آج سے ایک ہزار نو سو تیتالیس سال قبل پومیئی شہر کے ہم جنس پرستوں کو جلا کر راکھ بنا دیا تھا ،وہ جس حالت میں جلے آج بھی پومیئی شہر میں اُسی حالت میں پڑے ہیں تاکہ بعد میں آنے والوں کے لیے عبرت کا نشان بن سکیں ۔سچ تو یہ ہے کہ یہ قوم لوط کا فتنہ ہے جس کا اللہ تعالی نے کئی مقامات پر قرآن پاک میں ذکر کیا ۔سورت نمل میں فرمایا "کیا تم لوگ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے شہوت رانی کرتے ہو! بلکہ تم بڑے ہی جاہل ہو۔"سورت شعراء میں اللہ تعالی فرماتے ہیں ؛"کیا تم خلق میں سے مردوں سے شہوت رانی کرتے ہو۔ اور تمہارے رب نے تمہارے لیے جو بیویاں پیدا کی ہیں ان کو چھوڑتے ہو۔ بلکہ تم لوگ نہایت ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو۔ وہ بولے کہ اے لوط ! اگر تم باز نہ آئے تو تم لازماً یہاں سے نکال چھوڑے جاؤ گے۔ اس نے کہا، میں تمہارے اس عمل سے سخت بیزار ہوں۔ اے رب! تو مجھے اور میرے اہل کو ان کے عمل کے انجام سے نجات دے۔ "
یاد رہے ہم جنس پرستی صرف اسلام میں ہی نہیں بلکہ دیگر بڑے الہامی مذاہب میں بھی گناہ اور حرام ہے ۔اللہ تعالی نے بائبل کے شروع میں قوم لوط کا واقعہ بیان کر دیا ہے تاکہ لوگ اس سے عبرت پکڑیں اس کے علاوہ یہودیت میں جنسیت کے حوالے سے واضح تعلیمات توریت میں موجود ہیں اس میں لکھا گیا ہے "کوئی مرد کسی دوسرے مرد سے اس طرح ہم بستری نا کرے جیسے وہ عورت کے ساتھ کرتا ہے. "
(کتاب احبار)
اس کے علاوہ بدمت ،سکھ مت ،بہایئت میں بھی ہم جنس پرستی کی واضح الفاظ میں ممانعت موجود ہے ۔
فتنوں سے بھر ے اس دو ر میں ہمیں اپنوں بچوں کو اس لعنت کے بارے میں ایجوکیٹ کرنا بہت ضروری ہے ۔والدین کو چاہیئے کہ بچوں پر تشدد نا کریں بچوں سے پیار اور محبت سے پیش آئیں ،اُن کے ساتھ اپنے باہمی تعلقات مضبوط رکھیں ۔والدین پر یہ بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے تعلیمی اداروں میں ہونے والے سیمینارز اور ٹاک شوز کے بارے میں با خبر رہیں ۔والدین اس بات کا دھیان رکھیں کہ بچے موبائل پر کیا دیکھ رہے ہیں کیوں آجکل کارٹونز میں اورخاص کر (Disney) ڈیزنی موویز میں (LGBTQ) کے اس فتنے کوایک قوس قزح کے نشان سے دیکھایا جا رہا ہے جس کو یہ لوگ (pride) پرائڈ کا نام دیتے ہیں ۔بچوں پر نظر رکھیں کہ وہ کس قسم کا لٹریچر پڑھ رہے ہیں اُن کی دوستی کس قسم کے لوگوں سے ہے۔نسل نو کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ قرآن پاک ترجمہ تفسیر کے ساتھ پڑھیں تا کہ وہ خود جان سکیں کہ قوم لوط کیوں جل کر راکھ ہوئی ،قوم سبا کی تباہی کا سبب کیا تھا ،قوم نوح کیوں ملیا میٹ ہوئی ۔ہمارے ٹین ایجرز کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہو چکا ہے کہ اللہ تعالی نے مرد کو عورت اور عورت کو مرد کے بنایا ہے دونوں کو ایک دوسرے کے لیے نہیں بنایا گیا یہ ہی عین فطرت ہے اور جو کوئی بھی فطرت سے بغاوت کرے گا ذلیل و رسوا ہو جائے گا، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلیں فطرت سے بغاوت نا کریں اور ہم جنس پرستی جیسی لعنت سے دور رہیں تو ہمیں مل کر اس کے خلاف آواز اُٹھانی ہو گئی۔
مضمون نگار : خنساء سعید
فحش ویب سائٹس پر حقیقی زندگی کا شاید ہی کوئی ایسا شعبہ یا تعلق ہو جسے جنسیت کا موضوع نہ بنایا گیا ہو حتی کہ محرم رشتوں کو بھی نہیں بخشاگیا۔ کوئی بھی رشتہ اور معاشرتی تعلق محفوظ نہیں چھوڑا گیا۔ ہر چلتی پھرتی عورت کو ایک "موقع" بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
اب آپ خود سوچیں کہ یہ سب گند جو اب اسقدر عام ہے اور نہایت آسانی سے موبائل، ٹیب، لیپ ٹاپ وغیرہ پر محض دو چار کلکس کے فاصلے پر ہے ، اسے دیکھ کر ایک نوجوان جب گھر سے نکلے گا تو خواتین کو کس نظر سے دیکھے گا؟ اور خاص طور پر ان خواتین کو جنکا حلیہ بھی ان سے ملتا جلتا ہو جن کو دیکھ کر ابھی وہ ہٹا ہے؟ اور وہ نوجوان جسکی شادی میں سو قسم کی رکاوٹیں ہیں؟
باہر کو تو چھوڑیں، جھرجھری تو یہ سوچ کر آتی ہے کہ وہ اپنے گھر کی خواتین کو کس نظر سے دیکھتا ہو گا؟ اپنی ملازمہ کے بارے میں کیا سوچتا ہو گا؟ ہر لڑکی کو "بکاؤ مال" کیوں نہ سمجھے گا؟
ایک لڑکی کو ہر جگہ سیکشؤل ہراسمنٹ کا دھڑکا کیوں لگا رہتا ہے؟ "می ٹو" کی اتنی بھرمار کیوں ہو گئی ہے؟
شوہر کی بیوی سے اور بیوی کی شوہر سے "توقعات" اتنی غیر حقیقت پسندانہ کیوں ہو گئی ہیں؟ شوہر باہر کیوں منہ ماری کرتا ہے؟ بیوی میں طوائف کیوں تلاش کرتا ہے؟ بیوی کو دوسرے مردوں میں کشش کیوں محسوس ہوتی ہے؟
سکول، کالج، یونیورسٹی، آفس، ورکشاپ، فیکٹری، حتی کہ عبادت گاہیں،چرچ مندر تک رقص ابلیس سے کیوں آلودہ ہیں؟
ہم کس پستی تک پہنچ چکے ہیں اور کہاں تک مزید گرنا ہے، اسکی وجہ آپکے ہاتھ میں ہے۔
آئیے ! اپنی اصلاح کریں۔ اولاد پہ نظر رکھیں۔ دین کی تعلیم دیں تاکہ وہ والدین کو بوجھ نہیں ذمہ داری سمجھیں۔ بے شک بہت کچھ بگڑ چکا ہے مگر بہت کچھ بگڑنے سے بچایا جا سکتا ہے تاکہ مزید درندے پیدا نہ ہوں۔
اللہ ہم سب کو پاکیزہ اور صالح زندگی نصیب فرمائے۔ آمین
Click here to claim your Sponsored Listing.
Category
Contact the practice
Website
Address
Jhelum
Consulting and treating health issues. Conveying true and authentic information. Spreading smiles.
Nai Abadi Kareempura, Kameela Road
Jhelum, 49600
Online clinic that offers holistic approach to health and wellness. Provides natural healing solution
Jhelum
Jhelum, 49600
I am Online business consultant providing you a best opportunity from which you can earn and learn
GT Road
Jhelum
THQ hospital Sohawa is situated at GT road . This health facility provides 24/7 emergency services under the supervision of Medical Superintendent and administration team.
Jhelum
Zahid Hussain is qualified, experienced Nutritionist (BS-17) at Punjab Health Department who accesse