Tameer Liaquatabad Welfare

انسانیت کی خدمت ہمارا نصب العین ہے
ہمارا مقصد عوامی مسائل اعلی حکام تک پہنچانا اور ان کو حل کروانا ہے

05/01/2024
04/01/2024

قمر در عقرب
علم نجوم میں قمر کو سیاروں کا نقیب خیال کیا گیا ہے کیونکہ قمر زمین اور سیاروں کے درمیان ایک رابطہ اور وسیلہ پیغام ہے ۔ قمر دوسرے سیاروں کی نسبت ہمارا قریب ترین ہمسایہ بھی ہے غالباً یہی وجہ ہے کہ قمری تاریخوں کو مذہباً اہم قرار دیا گیا ہے اب تو سائنس نے بھی قمر کے اثر کو انسانی ، حیوانی اور نباتی زندگی پر تسلیم کرلیا ہے
قمر خوشیوں ، عروج و ترقی اور تکمیل خواہشات کا ستارہ ہے ۔ صحت و شفاء جسمانی آرام وسکون ، امن و سلامتی وغیرہ بھی اسی سے متعلق ہیں ۔ اس لئے تمام ایسے امور جو خوشی کا باعث بنیں جیسے بیاہ شادی کاروبار ملازمت اور تکمیل حاجات وغیرہ سب مقاصد کیلئے قمرکی اہمیت مسلم ہے
قمر کو شرف برج ثور میں ہوتا ہے اس لئے اس کو عقرب میں ہبوط ہوتا ہے ایسی حالت میں جب سیاروں کا نمائندہ خود کمزور واقع ہو تو پیغام رسائنی میں بھی کمزوری واقع ہوگی یہی وجہ ہے کہ جب قمر برج عقرب میں ہوتا ہے تو اس کو ناقص خیال کیا جاتا ہے اور اس دوران اچھے کاموں سے منع کردیا گیا ہے ۔ اسلیے قمر در عقرب کو بہت نحس قرار دیا گیا ہے یہ وقت ہر ماہ آتا ہے تو جنوری میں یہ وقت 5 جنوری شام 5 تا 7 جنوری رات 10 تک رہے گا
یہ تمام وقت نحوست اثر ہے، اس وقت میں کوئی نیا کام شروع نہ کریں، کوئی وعدہ یا معاہدہ یا کسی بھی کام کا آغاز خصوصاً شادی بیاہ وغیرہ سے گریز کرنا چاہیے۔
قمر کی یہ پوزیشن علاج معالجے کے لیے بہتر ہوتی ہے، اس کے علاوہ اس وقت میں ایسے اعمال کیے جاتے ہیں جو بندش یا رکاوٹ کے لیے ہوں، بری عادتوں سے نجات، مخالفین اور دشمنوں کی زبان بندی، ناجائز تعلقات کا خاتمہ وغیرہ،خاص طور پر دشمنوں سے تحفظ اور حصار کے عملیات کیے جاتے ہیں مگر ایسے اعمال پیش نہیں کیے جا سکتے اس کیلیے پرسنلی رابطہ کر سکتے ہیں

03/01/2024

بصد عجز ونیاز ہدیۂ عقیدت بحضور:
سیدۂِ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراء (سلام اللہ علیھا)

’’اے اہل ِ محشر!اپنی نظریں جھکالو حتی کہ فاطمہ بنت محمد (ﷺ)گزرجائیں ‘‘-
حوالہ: حاکم،محمد بن عبداللہؒ، المستدرك على الصحيحين،بابُ ذِكْرِ مَنَاقِبِ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللہ(ﷺ)، رقم الحدیث:4728
جن شان اور عظمت کا یہ عالَم ہو، اُن کی ذاتِ ستودہ صفات کے بارے نقائص اور تقصیروں سے بھری عقلیں کیا لکھیں-ان کی ذاتِ اقدس پہ کچھ لکھنے یا پڑھنے کے تقاضے پہ اس لئے جسارت کر بیٹھتے ہیں کہ شاید یہی ہمارے لئے آخرت کا توشہ بن جائے ، شاید ان کی ذات پہ کچھ پڑھ کر ہم سچ توبہ کی طرف مائل ہو جائیں، راہِ راست پہ آ جائیں، ہمارے ایمان تقویت پا جائیں، ہماری آنکھیں اور دل دولتِ حیا سے نواز دیئے جائیں، شاید اسی صدقے ہمیں دین پہ استقامت مل جائے، ہدایت کا نُور نصیب ہو جائے، سجدوں میں لذت و گداز مل جائے ، رکوع میں خشوع و خضوع مل جائے ، شاید اسی صدقے ہمارے دل غفلت کی گرد سے پاک ہو جائیں، سینے کے آئینے وسوسوں کی غبار سے صاف ہو جائیں، عقل پہ چڑھا جہالت کا زنگ اتر جائے ، شاید اسی صدقے ہمیں آخری سانس پہ سیدہ پاک کے بابا (ﷺ) کی رسالت کی گواہی نصیب ہو جائے -
وہ سیدہ پاک، خاتون جنت (سلام اللہ علیھا) جنہیں رسول اللہ (ﷺ) اپنے جگر کا ٹکڑا قرار دیتے،جن کی آمد پہ تاجدارِ کائنات، سید دو عالم (ﷺ) اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوتے اور ان کا استقبال فرماتے، اپنی جگہ پہ بٹھاتے،پیشانی مبارکہ پہ بوسہ دیتے، فرشتے جن کی گھر کی چار دیواری کے تقدس کا خیال کرتے، جن کی عفت،تطہیر اورعزت و کرامت پر قرآن مجید میں سند نازل کی گئی، جو پروردہ آغوش نبوت اور اُم الائمہ ہیں،جن کے فقر وفاقہ کو دیکھ کر تاجدارِ فقر (ﷺ) کی چشمان مبارکہ بھر آتیں لیکن صبر کی تلقین فرماتے-حضور شہنشاہِ بغداد(رضی اللہ عنہ) جن کی نسبت پہ فخر کرتے ہیں-
حضور سُلطان العارفین (رحمۃ اللہ علیہ) خود کوآپ (سلام اللہ علیھا) کے فرزندان کے مبارک قدموں کی خاک قرار دیتے اور اس کو اپنے فقر کی معراج قرار دیتے اور اقبال (رحمۃ اللہ علیہ)جن کے مزار مبارک کے طواف اور چوکھٹ پہ سجدہ کی آرزو کرتے لیکن شریعت کی پاسداری آڑے آتی-بلاشبہ آپ (سلام اللہ علیھا) کے فضائل و کمال لکھنے سے نہ صرف قلم قاصر ہیں بلکہ عقل و خردمیں اتنی وسعت و ہمت ہی نہیں کہ آپ(سلام اللہ علیھا)کے مقام و مرتبے کا ادراک کر سکے-محض سعادت دارین اور خفتہ و خوابیدہ بخت کو سنوارنے کیلئے قرآن و سُنت اور اقوال صالحین کی روشنی چند سرخیوں میں اپنی حیاتِ قلبی کا سامان کرتے ہیں: اس دعا کے ساتھ کہ اللہ عزوجل ہم سب کو درِ زہراء (سلام اللہ علیھا) کی دائمی غلامی عطافرمائے -آمین!
اسم گرامی، ولادت باسعادت اور القاب مبارکہ:
آپ (سلام اللہ علیھا) کا اسم مبارک ’’فاطمہ‘‘ہے، علامہ قسطلانی (رحمۃ اللہ علیہ)نے لکھا ہےکہ فاطمہ’’فَطَمَ‘‘ سے بنا ہے -’’فَطَمَ‘‘ کے معنی دودھ پینے سے روکنے کے ہیں-اصطلاح میں اس حوالے سے آپ (سلام اللہ علیھا) کا نام ’’فاطمہ‘‘ ہوا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ (سلام اللہ علیھا) کی اولاد اور محبین کو دوزخ سے دور کر دیا ہے-
علامہ ابن اثیر (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ:
آپ (سلام اللہ علیھا) کا اسم مبارک ’’فاطمہ‘‘ اس لیے رکھا گیا کیونکہ آپ (سلام اللہ علیھا) نے اپنے آپ کو دنیا سے الگ کر کے اللہ عزوجل کی طرف متوجہ کرلیا تھا-
حوالہ: القسطلانی ، المتوفٰی:923هـ)، المواهب اللدنية ،الفصل الثانى فى ذكر أولاده الكرام عليه وعليهم الصلاة والسلام،ج:01،ص:482-
سیدۃ النساء، اُم الحسنین کریمین، پروردہ آغوشِ خدیجۃ الکبرٰی، لختِ جگر حضرت محمد مصطفٰے (ﷺ) حضرت فاطمۃ البتول الزہراء (سلام اللہ علیھا) کی ولادت با سعادت مشہور روایت کے مطابق بعثت نبوی (ﷺ) کے ایک سال بعد (بمطابق 20 جمادی الثانی،بروز جمعۃ المبارک بمقام مکہ مکرمہ) ہوئی-آپ (سلام اللہ علیھا) کے القاب مبارکہ میں سے:
’’فاطمہ اور زہرا، سیدہ، سیدۃ النساء العالمین، بتول، زاکیہ، طیبہ، طاہرہ،شافعہ، شافیہ، مشفعہ، عفیفہ، نفیسہ، زاہدہ، صابرہ، شاکرہ، قاسمہ، واہبہ، راضیہ، مرضیہ، ام ابیھا، مخدومۂ کائنات اورخاتون جنت، خاتونِ قیامت معروف القاب ہیں‘‘-
قرآن مجید اور شان ِ سیدہ خاتون جنت سلام اللہ علیھا :
آیت تطہیر:
’’اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًا ‘‘
’’اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دُور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے ‘‘-
حوالہ: احزاب:33
حضرت ام سلمہ (رضی اللہ عنہا) ارشادفرماتی ہیں کہ:
’’یہ آیت مبارک میرے گھر میں نازل ہوئی- سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت علی المرتضیٰ، سیدہ فاطمۃ الزہراء، حضرت امام حسن اورحضرت امام حسین (رضی اللہ عنہم) کو طلب فرمایا اور آپ (ﷺ) ان کے ساتھ خیبرکی بنی ہوئی چادر میں داخل ہوگئے اور ارشاد فرمایا: ’’یہ میرے اہل بیت ہیں‘‘-
حوالہ: القرطبیؒ،الجامع لأحكام القرآ ن،ایڈیشن دوم،( القاهرة: دار الكتب المصرية،1384ھ) زیرِآیت: الاحزاب:33
اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ(رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریم(ﷺ)ایک صبح باہر تشریف لے گئے:
’’آپ (ﷺ) کے اوپر اون کی مخلوط چادر مبارک تھی، پس حضرت حسن بن علی (رضی اللہ عنہ)تشریف لائے، آپ نے انہیں چادر مبارک میں داخل فرمالیا-پھر حضرت حسین (رضی اللہ عنہ) تشریف لائے اور آپ (ﷺ) نے انہیں بھی اپنی چادر مبارک میں داخل فرما لیا -پھر حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیھا) تشریف لائیں تو آپ (ﷺ) نے انہیں بھی اپنی چادر مبارک میں داخل فرما لیا- پھر حضرت علی (رضی اللہ عنہ) تشریف لائے اور آپ (ﷺ) نے انہیں بھی اپنی چادر مبارک میں داخل فرمالیا-پھر آپ (ﷺ) نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی:
’’اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًا ‘‘
حوالہ: ابن كثير، (المتوفى: 774هـ)، تفسير القرآن العظيم،زیرِآیت الاحزاب:33،4
نجران کے عیسائیوں سے مباہلے کے وقت نازل ہونے والی آیت:
’’فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَاَبْنَآءَکُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ قف ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ‘‘
’’(اے محبوب(ﷺ)!) ان سے فرمادو آؤ ہم تم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں پھر مُباہَلہ کریں تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں ‘‘-
حوالہ: آل عمران:61
حضرت سعد بن ابی وقاص (رضی اللہ عنہ)سے مروی ہے کہ :
’’جب یہ آیت (مباہلہ) نازل ہوئی تو آقا کریم (ﷺ) نے حضرت علی، حضرت فاطمہ،حضرت حسن و حسین (رضی اللہ عنہم) کو بلایا اورآپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: یااللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں ‘‘-
حوالہ: السیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر (المتوفى: 911هـ) ، الدر المنثور - (بیروت : دارالفکر) زیرآیت:آل عمران:61،ج:02،ص:233-
سیدہ خاتون جنت ( ) کا کاشانہ اقدس افضل ترین گھرانوں میں :
’’فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ لا یُسَبِّحُ لَهٗ فِیْهَا بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ‘‘
’’ان گھروں میں جنہیں بلند کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اور ان میں اس کا نام لیا جاتا ہے اللہ کی تسبیح کرتے ہیں ان میں صبح اور شام ‘‘-
حوالہ: النور:36
جب آپ (ﷺ )نے یہ آیت تلاوت فرمائی تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ)!یہ کس کے گھر ہیں؟ حضور نبی رحمت( ﷺ) نےارشاد فرمایا کہ یہ انبیاء کے گھر ہیں -پس آپ (ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کھڑے ہوئے اور عرض گزارہوئے (یارسول اللہ (ﷺ)کیا یہ گھر جس میں حضرت علی ا لمرتضیٰ اور فاطمۃ الزہراء(سلام اللہ علیھا) رہتے ہیں -(یہ گھر مبارک بھی )ان میں شامل ہے تو آقا کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’نعم من افاضلھا‘‘
’’ہاں ! یہ ان بہترین گھروں میں سے ایک ہے ‘‘-
حوالہ: السیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر ، الدر المنثور - (بیروت : دارالفکر)،زیرِآیت:36،سورۃ النور-ج:06،ص:203-
آیتِ مؤدت:
’’ قُلْ لَّآ اَسْـَٔلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی‘‘
’’تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبّت‘‘-
حوالہ: الشورٰی:23
حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہما)سے مروی ہے کہ :
’’جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) نے عرض کیا: یا رسول اللہ(ﷺ)! آپ کی قرابت کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے؟ تو آپ (ﷺ) نے فرمایا: علی، فاطمہ اور ان کے دو بیٹے (حسن و حسین (رضی اللہ عنہم)‘‘-
حوالہ: السیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر ، الدر المنثور - (بیروت : دارالفکر)ج:07،ص:348-ذیرِآیت الشورٰی:23
جگر گوشئہ مصطفٰے(ﷺ):
’’ترمذی شریف ‘‘ میں حضرت عبد اللہ بن زبیر (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’(حضرت) فاطمہ (سلام اللہ علیھا) میرے جگر کا ٹکڑاہے جو بات انہیں تکلیف دیتی ہے وہ مجھے رنج پہنچاتی ہے اور جس بات سےان کو دکھ ہو تا ہے اس سے مجھے بھی دکھ ہو تا ہے‘‘-
حوالہ: الترمذی ،محمد بن عيسى (المتوفى: 279هـ)، سنن الترمذی ،ایڈیشن دوم،(الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفےٰ البابي الحلبي–مصر(1395ه)،بَابُ مَاجَاءَفِي فَضْلِ فَاطِمَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،ج05،ص:698- رقم الحدیث:3869-
سیّدہ زہراء (سلام اللہ علیھا) کی ناراضگی میں اللہ عزوجل کی ناراضگی اور خوشی میں اللہ عزوجل کی رضا و خوشنودی:
حضرت علی المرتضٰی (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے سید ہ فاطمۃ الزہراء (سلام اللہ علیھا) سے ارشاد فرمایا:
’’بے شک تمہارے ناراض ہونے سے اللہ پاک ناراض ہوتا ہے اورتمہارے خوش ہونےسے اللہ پاک خوش ہوتاہے‘‘-
حوالہ: حاکم،محمد بن عبداللہؒ (المتوفى: 405هـ)، المستدرك على الصحيحين،(بيروت ،دار الكتب العلمية 1411ھ)، بابُ ذِكْرِ مَنَاقِبِ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللہ(ﷺ)،ج:03،ص:167،رقم الحدیث:4730-
حضر ت زید بن ارقم (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ:
’’حضور نبی کریم (ﷺ) نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن و حضرت حسین (رضی اللہ عنہم) سے ارشاد فرمایا: تم جس سے جنگ کرو گے میں اس کے ساتھ حالت جنگ میں ہوں اور جس سے تم صلح کرو میں اس سے صلح کر نے والاہوں‘‘-
حوالہ: الترمذی ، (المتوفى: 279هـ)، سنن الترمذی ، بَابُ مَاجَاءَفِي فَضْلِ فَاطِمَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، رقم الحدیث:3870-
اہلِ مؤدت و محبت کیلئے بشارت:
سیدہ فاطمۃ الزہراء (رضی اللہ عنہا)سے عقیدت کادم بھرنے والے صحیح العقیدہ مسلمان ان شاء اللہ روزِ محشر آپ (سلام اللہ علیھا) کی شفاعت سے بہر ہ مند ہونگے-جیساکہ حضرت علی ( ) فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’بے شک سب سے پہلے جو جنت میں داخل ہوں گے وہ مَیں، (سیدہ) فاطمہ اور(سیدنا)حسن وحسین (رضی اللہ عنہم) ہوں گے،میں نے عرض کی یارسول اللہ (ﷺ)پس ہم سے محبت کرنے والوں کا کیا بنے گا؟ تو آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:وہ تمہارے پیچھے پیچھے ہوں گے ‘‘-
حوالہ: حاکم، (المتوفى: 405هـ)، المستدرك على الصحيحين بابُ ذِكْرِ مَنَاقِبِ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللہ(ﷺ)، رقم الحدیث:4723-
عکس شمائل مصطفٰے(ﷺ):
’صحیح بخاری‘ میں اُم المؤمنین سید ہ عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے:
’’ہم رسول اللہ (ﷺ) کی ازواجِ مطہرات (رضی اللہ عنہن)آپ (ﷺ) کی بارگاہ مبارک میں بیٹھیں تھیں اور ہم میں سے کوئی بھی غیرحاضرنہ تھیں توسیدہ فاطمۃ الزہراء(سلام اللہ علیھا)چلتی ہوئی آئیں،اللہ کی قسم!ان کی چال حضور نبی کریم (ﷺ) کی چال مبارک کے مشابہ تھی، حضور نبی کریم (ﷺ) نے آپ (سلام اللہ علیھا)کو دیکھ کرخوش آمدید کہا اور ارشاد فرمایا:’’مَرْحَبًا بِابْنَتِي‘‘-میری بیٹی کو خوش آمدید- پھر رسول اللہ (ﷺ) نے آپ (سلام اللہ علیھا) کو اپنے دائیں یابائیں جانب بٹھایا‘‘-
حوالہ: البخاری ، الجامع الصحیح، كِتَابُ المَنَاقِبِ، رقم الحدیث: 3623
تما م مؤمن عورتوں کی سرداراور افضل:
’صحیح بخاری‘ میں اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا :
’’اے فاطمہ !کیاتم اس سے راضی نہیں کہ تم تمام مؤمن عورتوں کی سردار ہو یا تم اس امت کی عورتوں کی سردار ہو‘‘-
حوالہ: ایضاً،رقم الحدیث:3624-
حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) سےمروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا :
’’تمام جہانوں کی عورتوں میں سے سب سے افضل مریم بنت عمران،آسیہ بنت مزاحم، خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد(ﷺ) ہیں ‘‘-
حوالہ: احمد بن حنبلؒ (المتوفى: 241هـ)،فضائل الصحابة ،فَضَائِلُ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلہٖ وَسَلَّمَ، - رقم الحدیث: 1332-
’ترمذی شریف‘میں حضرت حذیفہ بن یمان (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہےکہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا کہ:
’’ایک فرشتہ جو اس رات سے قبل کبھی زمین پہ نہیں اُترا تھا،اس نے اپنے رب سے اجازت طلب کی کہ مجھے سلام کرے اور مجھے خوشخبری دےکہ(سیدہ) فاطمہ (سلام اللہ علیھا) جنت کی عورتوں کی سردار ہیں اور (سیدنا) حسن وحسین (رضی اللہ عنہما) جنت کے جوانوں کے سردار ہیں‘‘-
حوالہ:الترمذی ، (المتوفى: 279هـ)، سنن الترمذی ، أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلہٖ وَسَلَّمَ، رقم الحدیث:3781-
اللہ عزوجل کے حکم سے نکاح:
مخدومۂ کائنات کے سیدنا علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) سے نکاح کے واقعہ کو امام طبرانی و دیگر محدثین نے روایت کیا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا کہ:
’’اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں (حضرت) فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کا نکاح (حضرت) علی (رضی اللہ عنہ) سے کر دوں‘‘-
حوالہ: الطبرانی،سليمان بن أحمدؒ، المعجم الکبیر،( مكتبة ابن تيمية،القاهرة الطبعة: الثانية)،ج:10،ص:156،رقم الحدیث:10305-
تسبیح فاطمہؓ:
سیّدۃ النساء فاطمۃ الزہراء (سلام اللہ علیھا)نے ایک دفعہ خادم کی عرض کی تو آقا پاک (ﷺ)تشریف لائے اور سیدہ خاتونِ جنت (سلام اللہ علیھا) اور حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) کے درمیان تشریف فرماہوئے اورارشادفرمایا:
’’جب تم دونوں اپنےاپنے بستر پر جانے لگو تو 34 مرتبہ اللہ اکبر ،33 مرتبہ الحمدللہ اور 33مرتبہ سبحان اللہ پڑھا کرو یہ تمہارے لیے اس چیز سے بہتر ہے جس کا تم دونوں نے سوال کیا‘‘-
حوالہ: البخاری، الجامع الصحیح، بَابُ مَنَاقِبِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ القُرَشِيِّ الهَاشِمِيِّ أَبِي الحَسَنِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ،رقم الحدیث:3705-
آج بھی صلحاء واولیاء کرام کا یہ محبوب عمل ہے کہ وہ ہرنماز بالخصوص فرائض کی ادائیگی کے بعد اپنی انگلیوں کے پوروں یا تسبیح پر اس عمل کو بجا لاتے ہیں -
وصال مبارک:
اُم المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) سے مروی ہے :
’’سیدہ خاتونِ جنت (سلام اللہ علیھا) کا انتقال مبارک 3 رمضان المبارک کو حضور رسالت مآب (ﷺ) کے وصال مبارک کے چھ ماہ بعد ہوا(اور اس وقت آپ (سلام اللہ علیھا)کی عمر مبارک 29 برس تھی)‘‘-
حوالہ: حاکم، (المتوفى: 405هـ)، المستدرك على الصحيحين، ذِكْرُ وَفَاةِ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَالِاخْتِلَافُ فِي وَقْتِهَا ، رقم الحدیث:4761-
حضرت اُم سلمہ (رضی اللہ عنہا)نے بیان کیا ہے:
’’سیدۃ النساء خاتونِ جنت فاطمۃ الزہراء (سلام اللہ علیھا) کی طبیعت مبارک ناساز تھی آپ (سلام اللہ علیھا) نے اس میں وصال مبارک فرمایا اور میں تیماردار تھی ، ایک دن صبح سویرے میں نے دیکھا کہ آپ (سلام اللہ علیھا) کو افاقہ نظر آرہا تھا اور حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) کسی کام سے باہر تشریف لے گئے تھے کہ سیدہ فاطمۃ الزہراء(سلام اللہ علیھا)نے فرمایا: اے امی جان! میرے لئے پانی انڈیل دو، (بس ) میں نے پانی تیار کر دیا اور جس طرح آپ (سلام اللہ علیھا) تندرستی میں غسل فرماتی تھیں ویسے ہی خوب غسل فرمایا، پھر آپ (سلام اللہ علیھا) نے نئے کپڑے طلب فرمائے، مَیں نے ان کو نئے کپڑے بھی دے دئیے جو انہوں نے خود پہن کر فرمایا : امی جان ! اب آپ ذرا میرے لئے گھر کے وسط میں بچھونا بچھا دیجئے، میں نے یہ بھی کردیا ، پس آپؓ بستر پر استراحت فرما ہوئیں اور قبلہ کی طرف منہ کرکے اپنا ایک دستِ اقدس اپنے گال کے نیچے رکھ کر کہا: اے امی جان! اب میں اللہ تعالیٰ سے ملنے جا رہی ہوں اور میں نے غسل بھی کر لیا ہے پس اب کو ئی اور مجھ سے کپڑا نہ ہٹائے اور اس کے بعد آپ (سلام اللہ علیھا) کی روح مبارک پرواز کر گئی‘‘-
حوالہ: احمد بن حنبلؒ (المتوفى: 241هـ)،فضائل الصحابة ، کتابُ فَضَائِلُ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَامُ، رقم الحدیث: 1074-
مزار پرانوار:
مشہور روایت کے مطابق سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ (ﷺ) کا مزار پر انوار جنت البقیع میں مرکز انوار و تجلیات ہے-
علامہ محمد اقبال (﷫) کا نذرانہ عقیدت:
مفکر ِاسلام حضرت علامہ اقبال (﷫) سیدہ اُم حسنین (سلام اللہ علیھا) کا مقام اور مرتبہ یوں بیان کرتے ہیں :
رشتہ آئینِ حق زنجیر پا است
پاس فرمانِ جنابِ مصطفےٰ (ﷺ) است
ورنہ گردِ تربتش گردیدمے
سجدہ ہابر خاک او پاشیدمے

’’اللہ عزوجل کے دین (قرآن وسنت) سے تعلق میرے پاؤں کی زنجیر ہے(یعنی مجھے روک رکھا ہے) اور مجھے رسول اللہ (ﷺ) کے فرمان مبارک کا پا س ولحاظ ہے ورنہ میں سیدہ فاطمۃ الزہراء(سلام اللہ علیھا)کے قبر انور کے گرد طواف کرتا اور اس کی خاک مبار ک پر سجدے کرتا‘‘-
ایک اور مقام پہ لکھتے ہیں :
مزرع تسلیم را حاصل بتول
مادران را اسوه کامل بتول

’’تسلیم اور عبودیت کی کھیتی کا حاصل سیّدہ بتول (سلام اللہ علیھا) ہیں اور ماؤں کیلئے نمونۂ کاملہ سیّدہ بتول (رضی اللہ عنہا)ہیں‘‘-
حرف آخر:
بلاشبہ سیدۂ کائنات (سلام اللہ علیھا) کی پاکیزہ تر زندگی مبارک کے ہر پہلو میں انسانیت کی فلاح کا راز مضمر ہے-آج اس پرفتن دور میں عالم اسلام کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کیلیے پیغام ہے کہ وہ سیدہ فاطمۃ الزہراء (سلام اللہ علیھا)کے دامن سے وابستہ ہو کر آپ (سلام اللہ علیھا) کی پاکیزہ و مصفا سیرت پر عمل پیرا ہوں-آخر میں حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال (رحمۃ اللہ علیہ) کے اس پیغام کے ساتھ اپنی معروضات کو سمیٹتے ہیں :
اگر پندی ز درویشی پذیری
ہزار امت بمیرد تو نمیری

’’اگر اس درویش کی نصیحت کو تو یاد رکھے، تو ہزاروں قومیں مر جائیں گی مگر (اے دختر) تیری قوم نہ مرے گی ‘‘-
بتولے باش و پنہاں شو ازیں عصر
کہ در آغوش شبیری بگیری

’’اسوۂ بتول کو اپنا لے اور اس جہاں کی آلودہ نگاہوں سے اپنے آپ کو چھپالے پھر تیری آغوش میں شبیر (حسین) (رضی اللہ عنہ)ہوں گے ‘‘-
٭٭٭

03/01/2024

یوم ولات سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا
20 جمادی الثانی
مریم از یک نسبت عیسی عزیز
از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز
نور چشم رحمة للعالمین
آن امام اولین و آخرین
بانوی آن تاجدار ’’ہل اتے‘‘
مرتضی مشکل گشا شیر خدا
مادر آن مرکز پرگار عشق
مادر آن کاروان سالار عشق
مزرع تسلیم را حاصل بتول
مادران را اسوۂ کامل بتول
رشتۂ آئین حق زنجیر پاست
پاس فرمان جناب مصطفی است
ورنہ گرد تربتش گردیدمی
سجدہ ہا بر خاک او پاشیدمی
(علامہ اقبال)
ترجمہ:
حضرت مریمؑ تو حضرت عیسٰیؑ سے نسبت کی بنا پر عزیز ہیں جبکہ حضرت فاطمہ الزاھرہؑ ایسی تین نسبتوں سے عزیز ہیں۔ پہلی نسبت یہ کہ آپؓ رحمتہ للعالمینﷺ کی نورِنظر ھیں، جو پہلوں اور آخروں کے امام ہیں۔ دوسری نسبت یہ کہ آپؓ " ہل اتی " کے تاجدار کی حرم ھیں۔ جو اللہ کے شیر ہیں اور مشکلیں آسان کر دیتے ہیں۔ تیسری نسبت یہ کہ آپؓ اُن کی ماں ہیں جن میں سے ایک عشقِ حق کی پرکار کے مرکز بنے اور دوسرے عشقِ حق کے قافلے کے سالار بنے۔ حضرت فاطمہؓ تسلیم کی کھیتی کا حاصل تھیں اور آپ مسلمان ماوں کے لئے اسوہ کامل بن گئیں۔ اللہ تعالٰی کی قانون کی ڈوری نے میرے پاوں باندھ رکھے ہیں۔ رسول اللہﷺ کے فرمان کا پاس مجھے روک رہا ہے، ورنہ میں حضرت فاطمہؓ کے مزار کا طواف کرتا اور اس مقام پر سجدہ ریز ہوتا۔

02/01/2024

ّل
ّدہ_طاہرہ_طیبہ_زاہدہ_عابدہ_فاطمة_الزہرہ_سلام_اللّہ_علیہا
تمام انس و جن فرشتے و ملائکہ تمام مومنین و مومنات ذاکرین و ذاکرات محبانِ پنجتن پاک کو سیّدفاطمہ بنتِ محمدؐ کی ولات باسعادت بہت بہت مبارک ہو
ؑ
(01)قال رسول‏ اللَّه صل اللَّه عليه و آله وسلم:
"ابنتى فاطمه، و انها لسيده نساء العالمين فقيل: يا رسول‏ اللَّه! اهى سيده نساء عالمها؟ فقال: ذاك لمريم بنت عمران، فاما ابنتى فاطمۃ فهى سيده نساء العالمين من الاولين و الاخرين و انها لتقوم فى محرايها فيسلم عليها سبعون الف ملك من الملائكه المقربين و ينادونها بمانادت به الملائكه کمريم فيقولون يا فاطمه! ان اللَّه اصطفيك و طهرك و اصطفيك على نساء العالمين”
"میری بیٹی فاطمہ علیھا السلام دونوں جہاں کے عورتوں کی سردار ہیں۔

پوچھا گیا: اے رسول خدا صل اللّہ علیہ و آلہ وسلّم! اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار ہیں ؟

فرمایا:یہ خصوصیت مریم بنت عمران کی ہے لیکن میری بیٹی فاطمہ علیھا السلام دونوں جہاں کی اولین اور آخرین ، تمام عورتوں کی سردار ہیں اور وہ جب محراب عبادت میں کھڑی ہوتی ہیں تو ستّر ہزار مقرب فرشتے ان پر درود و سلام بھیجتے ہیں اور ان سے گفتگو کرتے ہیں جس طرح حضرت مریم علیھا السلام سے گفتگو کرتے تھے، وہ کہتے ہیں؛ اے فاطمہ ؑ! اللّہ تعالی نے تمہیں منتخب کیا ہے اور پاک و منزہ قرار دیا ہے اور تمہیں دونوں جہاں کی تمام خواتین پر فضیلت اور برتری عطا کی ہے۔
(عوالم العلوم، ج 11، ص 99)

(02)قال رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم: "لولا علی لم یکن لفاطمہ کفو”
اگر علیؑ نہ ہوتے تو فاطمہؑ کا کوئی کفو اور ہمسر نہ ہوتا۔
(مقتل الحسین خوارزمی، تحقیق: محمد سماوی، ج١، ص١٠٧، حدیث٣٨، فرائد السمطین، تحقیق: محمد باقر محمودی، ج٢، ص٦٨)

(03)قال رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم:
"يا فاطِمَةُ، مَنْ صَلَّی عَلَیكِ غَفَرَ اللهُ لَهُ وَألْحَقَهُ بي حَيثُ كنْتُ مِن الجَنَّة؛”
اے فاطمہؑ! جو بھی آپ پر صلوات بھیجے، خداوند متعال اس کو بخش دے گا اور میں جنت کے جس حصے میں ہوں گا، اللہ اس کے مجھ سے ملحق کردے گا۔
(کشف الغمۃ، ج2، ص100۔، بحار الأنوار، ج43، ص55، ج97، ص194۔ ، الخصائص الفاطمیۃ، ج2، ص467۔ مستدرک الوسائل، ج10، ص211۔ جامع أحادیث الشیعۃ، ج12، ص266)

(04)"دخلت عائشۃ علی رسول اللہ(صل اللہ علیہ وآلہ وسلّم) وھو یقبل فاطمۃ، فقالت لہ:اتحبھا یا رسول اللہ فقال (ص): ای واللہ، لو تعلمین حبی لھا لازددتِ لھا حباً”

حضرتِ عائشہ رسولِ خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو دیکھا کہ آپؐ فاطمہؑ کا بوسہ لے رہے تھے تو حضرت عائشہ نے عرض کی یا رسول اللہؐ کیا آپؐ فاطمہؑ سے محبت کرتے ہیں تو آپؐ نے فرمایا اللہ کی قسم میں فاطمہؑ سے محبت کرتا ہوں اور اگر تم میری فاطمہؑ سے محبت کو جان لیتی تو تمہاری ان کیلئے محبت میں اضافہ ہوجاتا۔(دلائل الامامۃ، ص147)

(05)قال رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم:
"واما ابنتی فاطمۃ،فانھا سیدۃ نساء العالمین من الاولین و الآخرین،وھی بضعۃ منی وھی نور عینی،وھی ثمرۃ فؤادی،وھی روحی التی بین جنبی ،وھی الحوراء الانسیۃ، متیٰ قامت فی محرابھا بین یدی ربھا جل جلالہ زھر نورھا لملائکۃ السماء کما یزھر نور الکواکب لاھل الارض، ویقول اللہ عز وجل لملائکتہ: یا ملائکتی انظروا الی امتی فاطمۃ سیدۃ امائی، قائمۃ بین یدی ترتعد فرائصھا من خیفتی وقد اقبلت بقلبھا علی عبادتی،اشھدکم انی قد آمنت شیعتھا من النار۔۔۔”

"میری بیٹی فاطمہؑ عالمین میں موجود اولین و آخرین تمام عورتوں کی سردار ہے اور فاطمہؑ میرا ٹکڑا ہے،میری آنکھوں کا نور ہے، میرے دل کا پھل ہے، میری وہ روح ہے جو میرے دونوں پہلوؤں کے درمیان ہےاور فاطمہؑ انسانی شکل میں حور ہےجو جب بھی اپنے رب کے سامنے محرابِ عبادت میں کھڑی ہوتی ہے تو اس کا نور آسمان کے ملائکہ کیلئے ایسے ہی چمکتا ہے جیسے زمین والوں کیلئے آسمان کے تارے چمکتے ہیں اور اس وقت اللہ اپنے ملائکہ سے فرماتا ہے کہ اے میرے ملائکہ میری اس کنیز کی طرف دیکھو جو میری ساری کنیزوں کی سردار ہے جو میرے سامنے کھڑی ہے اور میرے خوف سے جس کا جسم کانپ رہا ہےاور اس کی ساری توجہ میری عبادت کی طرف ہے(اے میرے ملائکہ) میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنی اس کنیز کے شیعوں کو جہنم سے امان عطا کر دی ہے۔”
(امالی شیخ صدوق،ص175 ،بحار الانوار،جلد43، ص172)

(06)قال رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم:

"یا فاطمۃ: ان اللہ یرضی لرضاک ویغضب لغضبک”

بے شک اللہ آپ کے راضی ہونے سے راضی اور آپ کے غضب ناک ہونے سےغضب ناک ہوتا ہے۔
(احتجاج طبرسی ، ج:2 /ص: ۳۵۴، المستدرک، 3 / 167، الرقم : 4730)

(07)قال رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم لعلی: ھل تدری لم سمیت فاطمۃ؟قال علی! لم سمیت فاطمۃ یا رسول اللہ؟ قال: لانھا فطمت ھی وشیعتھا من النار”

"رسولِ خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علیؑ سے فرمایا: یا علیؑ کیا آپ کو معلوم ہے کہ فاطمہؑ کا نام فاطمؑہ کیوں رکھا گیا؟ مولائے کائناتؑ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاطمہؑ کا نام فاطمؑہ کیوں رکھا گیا؟ تو رسولِ خداؐ نے فرمایا: کہ کیونکہ فاطمہؑ اور ان کے شیعوں کو جہنم سے دور رکھا گیا ہے”(بحار الانوار،جلد 43، ص15)

(08)قال رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم :

"إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ نَادَى مُنَادٍ يَا مَعْشَرَ الْخَلَائِقِ غُضُّوا أَبْصَارَكُمْ وَ نَكِّسُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى تَمُرَّ فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ فَتَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُكْسَى وَ تَسْتَقْبِلُهَا مِنَ الْفِرْدَوْسِ اثْنَا عَشَرَ أَلْفَ حَوْرَاءَ وَ خَمْسُونَ أَلْفَ مَلَكٍ عَلَى نَجَائِبَ مِنَ الْيَاقُوتِ أَجْنِحَتُهَا وَ أَزِمَّتُهَا اللُّؤْلُؤُ الرَّطْبُ رُكُبُهَا مِنْ زَبَرْجَدٍ عَلَيْهَا رَحْلٌ مِنَ الدُّرِّ عَلَى كُلِّ رَحْلٍ نُمْرُقَةٌ مِنْ سُنْدُسٍ حَتَّى يَجُوزُوا بِهَا الصِّرَاطَ وَ يَأْتُوا بِهَا الْفِرْدَوْسَ فَيَتَبَاشَرُ بِمَجِيئِهَا أَهْلُ الْجِنَانِ فَتَجْلِسُ عَلَى كُرْسِيٍّ مِنْ نُورٍ وَ يَجْلِسُونَ حَوْلَهَا وَ هِيَ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ الَّتِي سَقْفُهَا عَرْشُ الرَّحْمَنِ وَ فِيهَا قَصْرَانِ قَصْرٌ أَبْيَضُ وَ قَصْرٌ أَصْفَرُ مِنْ لُؤْلُؤَةٍ عَلَى عِرْقٍ وَاحِدٍ فِي الْقَصْرِ الْأَبْيَضِ سَبْعُونَ أَلْفَ دَارٍ مَسَاكِنُ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ فِي الْقَصْرِ الْأَصْفَرِ سَبْعُونَ أَلْفَ دَارٍ مَسَاكِنُ إِبْرَاهِيمَ وَ آلِ إِبْرَاهِيمَ ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ مَلَكاً لَهَا لَمْ يَبْعَثْ لِأَحَدٍ قَبْلَهَا وَ لَا يَبْعَثُ لِأَحَدٍ بَعْدَهَا فَيَقُولُ إِنَّ رَبَّكِ يَقْرَأُ عَلَيْكِ السَّلَامُ وَ يَقُولُ سَلِينِي فَتَقُولُ هُوَ السَّلَامُ وَ مِنْهُ السَّلَامُ قَدْ أَتَمَّ عَلَيَّ نِعْمَتَهُ وَ هَنَّأَنِي كَرَامَتَهُ وَ أَبَاحَنِي جَنَّتَهُ وَ فَضَّلَنِي عَلَى سَائِرِ خَلْقِهِ أَسْأَلُهُ وُلْدِي وَ ذُرِّيَّتِي وَ مَنْ وَدَّهُمْ بَعْدِي وَ حَفِظَهُمْ فِيَّ فَيُوحِي اللَّهُ إِلَى ذَلِكَ الْمَلِكِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَزُولَ مِنْ مَكَانِهِ أَخْبِرْهَا أَنِّي قَدْ شَفَّعْتُهَا فِي وُلْدِهَا وَ ذُرِّيَّتِهَا وَ مَنْ وَدَّهُمْ فِيهَا وَ حَفِظَهُمْ بَعْدَهَا فَتَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنِّي الْحُزْنَ وَ أَقَرَّ عَيْنِي فَيُقِرُّ اللَّهُ بِذَلِكَ عَيْنَ مُحَمَّد”

"جب قیامت کا دن ہوگا تو منادی ندا دے گا اے اہل محشر! اپنی نظریں جھکا لواور اپنے سروں کونیچے کر لو حتیٰ کہ فاطمہؑ بنت محمدؐ گزر جائیں، سیدہؑ پہلی وہ ہستی ہوں گی جن کا یہ استقبال ہوگا کہ بارہ ہزار حورانِ جنت اور پچاس ہزار فرشتے ان کے ارد گرد ہوں گےجو سارے یاقوت سے بنی ہوئی سواریوں پر ہوں گے،جن کے پر اور لگامیں نرم اور لؤلؤ کے ہوں گے، جن کی رکابیں زبرجد کی ہوں گی،جن کی زین نرم و چمکدار ہوگی اور ہر زین پر ریشم کے کپڑے ہونگے (حور و ملک ساتھ ہونگے) یہاں تک کہ سیدہؑ پل صراط سے گزریں گی اور جنت میں داخل ہونگی، بی بیؑ کے آنے سے اہل جنت خوش ہونگے، (اسوقت) سیدہؑ نور کی کرسی پر بیٹھیں گی اور وہ (حوران وملک) ان کے گرد بیٹھ جائیں گے، یہی جنت الفردوس ہوگی کہ جس کا چھت رحمان کا عرش ہوگا اور اس میں دو قصر ہوں گے ایک سفید قصر اور ایک زرد قصرجو لؤلؤ سے بنے ہوئے ہوں گے ایک ہی بنیاد پہ کھڑے ہوں گے، سفید قصر میں ستر ہزار گھر ہوں گے جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و آل محمد علیھم السلام کے رہنے کے لیے ہوں گے اور زرد قصر میں ستر ہزار گھر ہونگے جو ابراہیؑم و آل ابراہیمؑ کے رہنے کے لیے ہونگے، پھر خداوند متعال جناب سیدہؑ کے لیے ایک فرشتہ مبعوث فرمائے گاجسے اس سے پہلے اوربعد میں کسی کے لیے مبعوث نہ کیا ہوگاجو کہے گا (اے بی بیؑ) آپؑ کا رب آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ آپؑ جو چاہیں اس سے سوال کیجیے چنانچہ بی بیؑ کہیں گی خدا خود سلام ہے اور اسی سے سلامتی ملتی ہے بتحقیق اللہ نے مجھ پہ اپنی نعمت کو تمام کیا ، اپنی کریمی سے مجھے مسرور فرمایا ، اپنی جنت کو مجھ پہ مباح فرمایا اور مجھے اپنی تمام مخلوقات پہ فضیلت دی، میں اللہ سے اپنی اولاد و ذریت اور جو ان سے میرے بعد محبت کرتے اور میری وجہ سے ان کے حقوق کی حفاظت کرتے ان کے لیے دستِ سوال دراز کرتی ہوں پس خداوندِ متعال اس فرشتہ کہ جو اپنی جگہ سے حرکت نہ کیےہوگا کی طرف وحی فرمائے گا کہ میری کنیزؑ کو بتلا دو کہ میں نے انہیں ان کی اولاد و ذریت اور جو اِن کی وجہ سے اُن سے محبت اور ان کے حقوق کی رعایت کرتے رہے کے لیے انہیں حق شفاعت عطا کیا ہے پس بی بیؑ کہیں گی حمد ہے اس اللہ کے لیے جس نے میرے غم و حزن کو برطرف کیا اور میری آنکھوں کو ٹھنڈا کیا جس سے رسول خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کو ٹھنڈک ملی۔”
(دلائل الامامۃ، ص153)

(09)عن علي أن النبي سئل ما البتول؟ فانا سمعناك يا رسول الله تقول : "إن مريم بتول وفاطمة بتول ، فقال البتول : التي لم ترحمرة قط أي لم تحض فان الحيض مكروه في بنات الانبياء۔”

حضرت علیؑ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت رسول اکرمؐ سے دریافت کیا گیا کہ بتول کے کیا معنی ہے؟اس لیے کہ یا رسول اللّٰہ! ہم نے آپؐ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حضرت مریم ؑبتول تھیں اور حضرت فاطمؑہ بھی بتول ہیں ۔

آپؐ نے ارشاد فرمایا:بتول وہ عورت ہے جس کو اللّٰہ تعالٰی نجاستِ حیض سے پاک رکھتا ہے۔اس لیے کہ بنات انبیاء ؑ کے لیے حیض مکروہ او ر ناپسندیدہ ہے۔( بحار الأنوارجلد : 43 ص :15)

(01)بالاسانيد الثلاثة عن الرضا ، عن آبائه : قال : قال رسول الله إني سميت ابنتي فاطمة لان الله عزوجل فطمها وفطم من أحبها من النار. .
حضرت امام رضا ؑ نے اپنے آبائے کرام سے روایت کی ہے کہ حضرت رسول خدا ؐ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے اپنی بیٹی کا نام فاطمؑہ اس لیے رکھا ہے کہ اللّٰہ نے اس کو او ر اس کے دوستوں کو جہنم سے بالکل جدا رکھا ہے ۔
( بحار الأنوارجلد : 43 ص :12)

(11)قال رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم :

"فاطمۃ بھجۃ قلبی،وابناھا ثمرۃ فؤادی، وبعلھا نور بصری، والائمۃ من ولدھا امناء ربی وحبلہ الممدود بینہ وبین خلقہ، من اعتصم بہ نجا، ومن تخلف عنہ ھویٰ”

"فاطمہؑ میرے دل کا سکون ہے، ان کے بچے میرے دل کی ٹھنڈک ہیں،ان کے شوہر میری آنکھوں کا نور ہیں،اور ان کی نسل سے معصوم ائمہؑ اللہ کے امین اور اس کے اور مخلوق کے درمیان اس کی سیدھی رسی ہیں جس رسی کا سہارا لینے والے نجات پائیں گے اور روگردانی کرنے والے ہلاک ہوجائیں گے”
(ارشاد القلوب الی الصواب، جلد 2، ص 423)

(12)عن الرضا قال : قال النبي (ص) "لما عرج بي إلى السماء أخذ بيدي جبرئيل فأدخلني الجنة فناولي من رطبها فأكلته فتحول ذلك نطفة في صلبي فلما هبطت إلى الارض واقعت خديجة فحملت بفاطمة ففاطمة حوراء إنسية فكلما اشتقت إلى رائحة الجنة شممت رائحة ابنتي فاطمة.”

امالی شیخ صدوق میں ہے کہ ہروی نے حضرت امام رضا ؑ سے روایت کی ہے کہ حضرت نبی اکرمؐ نے بیان فرمایا کہ جب (شب معراج) مجھے آسمان پر لے جایا گیا تو جبرائیلؑ نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور مجھے جنت میں لے گئے پھر وہاں کے چند رطب مجھے دیے۔میں نے اسے کھایا تو اس نے میرے صلب میں مخصوص جوہرِ حیات کی شکل اختیار کرلی۔جب میں زمین پر واپس آیا تو اسی مخصوص جوہرِ حیات سے حضرت خدیجہؑ کے رحم میں حضرت فاطمہ ؑ کا حمل قرار پایا۔فاطمہؑ انسیہ حوراء ہے۔جب میں جنت کی خوشبوں سونگھنا چاہتا ہوں تو اپنی بیٹی فاطمہ ؑ کی خوشبو سونگھ لیتا ہوں۔
(الاحتجاج – الشيخ الطبرسي – ج ٢ – الصفحة ١٩١، بحار الأنوارجلد : 43 ص : 4)

(13)عن أبي عبدالله ، عن آبائه : قال : قال رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ” خلق نور فاطمة قبل أن يخلق الارض والسماء فقال بعض الناس : يا نبي الله فليست هي إنسية؟ فقال : فاطمة حوراء إنسية قالوا : يا نبي الله وكيف هي حوراء إنسية؟ قال : خلقها الله عزوجل من نوره قبل أن يخلق آدم إذ كانت الارواح فلما خلق الله عزوجل آدم عرضت على آدم. قيل يا نبي الله وأين كانت فاطمة؟ قال : كانت في حقة تحت ساق العرش ، قالوا : يا نبي الله فما كان طعامها؟ قال : التسبيح والتقديس والتهليل والتحميد ، فلما خلق الله عزوجل آدم وأخرجني من صلبه وأحب الله عزوجل أن يخرجها من صلبي جعلها تفاحة في الجنة وأتاني بها جبرئيل فقال لي : السلام عليك ورحمة الله و بركاته يامحمد! قلت : وعليك السلام ورحمة الله حبيبي جبرئيل ، فقال : يا محمد إن ربك يقرئك السلام قلت : منه السلام وإليه يعود السلام قال : يا محمد إن هذه تفاحة أهداها الله عزوجل إليك من الجنة. فأخذتها وضممتها إلى صدري ، قال : يا محمد يقول الله جل جلاله كلها ففلقتها فرأيت نورا ساطعا وفزعت منه فقال : يا محمد مالك لا تأكل كلها ولا تخف فان ذلك النور للمنصورة في السماء وهي في الارض فاطمة قلت : حبيبي جبرئيل ولم سميت في السماء المنصورة وفي الارض فاطمة؟ قال : سميت في الارض فاطمة لانها فطمت شيعتها من النار وفطم أعداؤها عن حبهاوهي في السماء المنصورة وذلك قول الله عزوجل « ويومئذ يفرح المؤمنون بنصر الله ينصر من يشاء يعني نصر فاطمة لمحبيها.

سدیر صیرفی نے حضرت ابو عبداللّٰہ ؑ سے اور انہوں نے اپنے آباو اجداد سے روایت کی ہے کہ حضرت رسول خداؐ نے ارشاد فرمایا: میری بیٹی کا نور زمین اور آسمان کی خلقت سے پہلے خلق ہوا۔کسی نے آپ ؐ سے عرض کیا:یا رسول اللّٰہ ؐ اس کا مطلب یہ ہے کہ پھر جناب فاطمہ ؑ انسانی مخلوق نہیں ہیں ؟آپؐ نے ارشاد فرمایا:فاطمؑہ ایک حور، بشکل انسانی ہے۔اس نے پھر عرض کیا:یہ حورانسانی شکل میں کیسے؟ فرمایا:عالم ارواح میں انسانی خلقت سے پہلے اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے نور سے نورِ فاطمؑہ کو پیدا کیاوہ ایک عرصے تک زیرِ ساقِ عرش ایک قبہء نور میں رہا۔عرض کیا: یانبیؐ ! وہاں پر جناب فاطمہ ؑ کی غذا کیا تھی؟آپؐ نے فرمایا: تسبیح وتقدیس،تہلیل وتمحیدِ پروردگارِ عالم۔مگر جب اللّٰہ نے حضرت آدم ؑ کو پیدا کیااور ان کے صلب سے مجھے پیدا کیااور چاہا کہ میرے صلب سے فاطمؑہ کو پیدا کرےتو اس کے نور کو جنت میں سیب کی شکل میں بنا دیا ۔وہ سیب جبرائیلؑ لے کر آئے اور بولے!السلام علیک ورحمۃ اللّٰہ و برکاتہ میں نے کہا:میرے دوست جبرائیل وعلیک السلام ورحمۃ اللّٰہ انھوں نے کہا اے محمدؐ! اللّٰہ تعالیٰ آپ کو سلام کہتا ہے۔میں نے کہا سلام اسی سے ہے اور اسی کی طرف بازگشت ہے۔جبرائیلؑ نے کہا ،اے محمدؐ ! یہ ایک سیب ہے جو جنت سے اللّٰہ کے لئے بطور تحفہ بھیجا ہے۔میں نے وہ سیب لے کر اپنے سینے سے لگایا۔جبرائیل نے کہا بہتر،پھر میں اسے کھانے لگا تو میں نے دیکھا کہ اس میں سے ایک نور ساطع ہوا۔میں نے ذرا سا توقف کیا۔جبرائیل نے کہا ،اے محمدؐ !آپ اس کو تناول فرمانے میں توقف نہ کریں کیونکہ یہ نور اس (عصمت مآب) کا ہے جس کا نام آسمان پر منصور ہ ہےاور زمین پر فاطمہ ؑ ہے۔میں نے کہا،اے میرے دوست جبرائیل ! اس کانام آسمان پر منصورہ اور زمین پرفاطمہؑ کیوں ہے؟ جبرائیلؑ نے کہا، اس کا نام زمین پر فاطمہ ؑ اس لیے ہے کہ یہ اپنے شیعوں کو جہنم سے چھڑائے گی اور اپنے دشمنوں کو اپنی محبت سے جدا رکھے گی اور آسمان پر اس کا نام منصورہ اس لیے ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے ۔و یومئذ یفرح المؤمنون بنصراللّٰہ ینصر من یّشآء ( اس دن مؤمنین اللّٰہ کی نصرت سے خوش ہوجائینگے اور وہ جس کی چاہے گا نصرت کرے گا) اس کا مطلب یہ ہے کہ (اللّٰہ کی نصرت سے مراد فاطمہؑ ہے) فاطمہ ؑ اپنے دوستوں ،محبوں، اور شیعوں کو اپنی نصرت سے خوش کریں گی۔
( بحار الأنوارجلد : 43 ص:5)

(14)قال رسول الله صل اللہ علیہ وآلہ وسلم:
"الا ان فاطمۃ بابھا بابی وبیتھا بیتی، فمن ھتکہ فقد ھتک حجاب اللہ”

"اے لوگو! خبردار فاطمہؑ کا دروازہ میرا دروازہ ہے اور فاطمہؑ کا گھر میرا گھر ہے جس نے بھی اس گھر کی بے حرمتی کی اس نے اللہ کے حجاب کی توہین کی۔”
(بحار الانوار،جلد22، ص477)

(15)قال رسول الله صل اللہ علیہ وآلہ وسلم

"تحشر ابنتی فاطمۃ علیہ السلام یوم القیامۃ ومعھا ثیاب مصبوغۃ بالدماء تتعلق بقائمۃ من قوائم العرش تقول یا احکم الحاکمین احکم بینی وبین قاتل ولدی قال علی بن ابی طالب علیہ السلام قال رسول اللہ "ص” ویحکم لابنتی فاطمۃ ورب الکعبۃ”

"قیامت کے دن میری بیٹی فاطمہؑ جب میدان محشر میں آئیں گی تو ان کے پاس ایک خون سے بھرا ہوا لباس ہوگا ، فاطمہؑ عرش کے ستونوں میں سے ایک ستون کا سہارا لیں گی اور اپنے رب کے حضور عرض کریں گی: اے بہترین فیصلہ کرنے والے میرے اور میرے بیٹے کے قاتلوں کے درمیان فیصلہ فرما، رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ربِ کعبہ کی قسم اس وقت اللہ میری بیٹی فاطمہؑ کے حق میں فیصلہ فرمائے گا”(عیون اخبار الرضاؑ، جلد 2، باب30، ص12)

(16)قال رسول الله صل اللہ علیہ وآلہ وسلم

"إِذَا اِشْتَقْتُ إِلَى رَائِحَةِ اَلْجَنَّةِ شَمِمْتُ رَائِحَةَ اِبْنَتِي فَاطِمَةَ”

فاطمہؑ انسانی شکل میں حور ہیں جب بھی میں بہشت کی خوشبو کا مشتاق ہوتا ہوں تو اپنی بیٹی فاطمہ زہرؑا کا بوسہ لے لیتا ہوں۔(بحار الأنوار, جلد۴۴ , ص۲۴۰ )

(17)"فَاطِمَةُ حَوْرَاءُ إِنْسِيَّةٌ”

"فاطمہ زہراؑ انسانی شکل میں جنت کی حور ہیں۔”
(بحار الأنوار, جلد۴۴ , ص۲۴۰ )

(18)قال رسول اللّه صل اللہ علیہ وآلہ وسلم "إذا كانَ يَوْمُ القيامَةِ نادي مُنادٍ: يا أَهْلَ الجَمْعِ غُضُّوا أَبْصارَكُمْ حَتي تَمُرَّ فاطِمَةالزھرا سلام اللہ علیھا”
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: روز قیامت ایک منادی نداء دے گا کہ: اے اہل قیامت اپنی آنکھوں کو بند کر لو،کیونکہ اب یہاں سے سیدہ فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیھا کاگزر ہونے والا ہے۔
(كنز العمّال ج 13 ص 91 و93، منتخب كنز العمّال بهامش المسند ج 5 ص 96، الصواعق المحرقة ص 190 أسد الغابة ج 5 ص 523 ،تذكرة الخواص ص 279 ، ذخائر العقبي ص 48 ،
مناقب الإمام علي لابن المغازلي ص 356، . نور الأبصار ص 51 و 52 ،ينابيع المودّة ج 2 باب 56 ص 136)

(19)قال رسول اللّه صل اللہ علیہ وآلہ وسلم حَسْبُك مِنْ نساءِ العالَميَن اربع: مرْيمَ وَآسيَة وَخَديجَة وَفاطِمَة الزھراء سلام اللہ علیہا
"رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: تمام جہانوں میں فقط چار عورتیں بہترین ہیں، مریم، آسیہ، خدیجہ اور فاطمہ (سلام اللہ علیھن)۔”
(مستدرك الصحيحين ج 3 باب مناقب فاطِمَة ص 171 ،سير أعلام النبلاء ج 2 ص 126 ،البداية والنهاية ج 2 ص 59 ،مناقب الإمام علي لابن المغازلي ص 363)

(20)قال رسول اللّه (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم يا عَلِي (علیہ السلام ) هذا جبريلُ (علیہ السلام ) يُخْبِرنِي أَنَّ اللّه (عزوجل )َ زَوَّجَك فاطِمَة الزھراء سلام اللہ علیہا”
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: "اے علی علیہ السلام ابھی مجھے جبرائیل علیہ السلام نے خبر دی ہے کہ خداوند تعالٰی نے سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی شادی تم سے کر دی ہے۔”
(مناقب الإمام علي من الرياض النضرة: ص 141)

(21)قال رسول اللّه صل اللہ علیہ وآلہ وسلم:

” ما رَضِيْتُ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حَتّي رَضِيَتْ فاطِمَة الزھراء سلام اللہ علیہا”
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:میں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کبھی بھی کسی سے راضی نہیں ہوا، مگر یہ کہ سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا اس سے راضی ہو جائے۔
(مناقب الإمام علي لابن المغازلي: ص 342)

(22)قال رسول اللّه صل الله علیہ وآلہ وسلم يا عَلِيّ (علیہ السلام )إِنَّ اللّهَ عزوجل أَمَرَنِي أَنْ أُزَوِّجَكَ فاطِمَة الزھراء سلام اللہ علیہا
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: اے علی (علیہ السلام ) خداوند تعالٰی مجھے حکم دیا ہے کہ میں سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی شادی تم سے کر دوں۔
(الصواعق المحرقة باب 11 ص 142 ذخائر العقبي ص 30 و 31 تذكرة الخواص ص 276 مناقب الإمام علي من الرياض النضرة ص141، نور الأبصار ص53)

(23)قال رسول اللّه صل اللہ علیہ وآلہ وسلم إِنّ اللّهَ زَوَّجَ عَليّاً (علیہ السلام )مِنْ فاطِمَة الزھراء سلام اللہ علیہا
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: خداوند عالم نے علی (علیہ السلام )کی شادی سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا سے کی ہے۔
(الصواعق المحرقة ص 173)

(24)قال رسول اللّه صل اللہ علیہ وآلہ وسلم أَحَبُّ أَهْلِي إِليَّ فاطِمَة۔سلام اللہ علیھا
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: میرے اہل بیت علیھم السلام میں سے میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب، فاطمہ سلام اللہ علیھا ہے۔
(الجامع الصغير ج 1 ح 203 ص 37 الصواعق المحرقة ص 191 ينابيع المودّة ج 2 باب 59 ص 479. كنز العمّال ج 13 ص93)

(25)قال رسول اللّه صل الله علیہ سيّدَةُ نِساءِ أَهْلِ الجَنَّةِ فاطِمَة الزھراء سلام اللہ علیہا
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: جنت کی تمام عورتوں کی سرور و سردار سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا ہیں۔
(كنز العمّال ج13 ص94، صحيح البخاري، كتاب الفضائل، باب مناقب فاطمة، البداية والنهاية ج 2 ص61)

(26)قال رسول اللّه صل الله علیہ وآلہ وسلم "أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الجَنَّةَ: عَليٌّ وَفاطِمَة”
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: جنت میں سب سے پہلے علی علیہ السلام اور سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا داخل ہوں گے۔
(نور الأبصار ص 52/ شبيه به آن در كنز العمّال ج 13 ص 95)

(27)قال رسول اللّه(صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ): أُنْزِلَتْ آيَةُ التطْهِيرِ فِيْ خَمْسَةٍ فِيَّ، وَفِيْ عَليٍّ وَحَسَنٍ وَحُسَيْنٍ وَفاطِمَة۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: آیت تطہیر پنجتن پاک علیھم السلام (میرے، علی، حسن، حسین اور فاطمہ ) سلام اللہ علیھم کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

(اسعاف الراغبين ص 116، صحيح مسلم، كتاب فضائل الصحابة)

(28)قال رسول اللّه (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ): "المَهْدِيِ مِنْ عِتْرَتي مِنْ وُلدِ فاطِمَة الزھراء سلام اللہ علیہا”
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: امام مہدی علیہ السلام میرے اہل بیت علیھم السلام میں سے ہے کہ جو فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کی اولاد میں سے ہیں۔
(الصواعق المحرقة ص237)

(29)قال رسول اللّه (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ):” إنّ اللّهَ عَزَّوَجَلَّ فَطَمَ ابْنَتِي فاطِمَة وَوُلدَها وَمَنْ أَحَبًّهُمْ مِنَ النّارِ فَلِذلِكَ سُمّيَتْ فاطِمَة۔سلام اللہ علیھا”
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:خداوند نے جہنم کی آگ کو میری بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیھا ان کی اولاد اور جو بھی ان سے محبت کرتا ہو گا، دور کیا ہے، پس اسی وجہ سے میری بیٹی کا نام فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیھا رکھا گیا ہے۔(كنز العمال ج6 ص219)

(30)قال رسول اللّه (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ): "یا فاطِمَة الزھراء سلام اللہ علیہا انت أَوَّلُ أَهْلِ بَيْتي لُحُوقاً بِي۔”
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: اے فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیہا میرے وصال کے بعد میرے اہل بیت علیھم السلام میں سے سب سے پہلے تم مجھ سے آ کر ملو گی۔
(حلية الأولياء ج 2 ص صحيح البخاري كتاب الفضائل كنز العمّال ج 13 ص 9340، منتخب كنز العمّال ج 5 ص 97)

(31)قال رسول اللّه (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ): فاطِمَة الزھراء سلام اللہ علیہا بَضْعَةٌ مِنّي يَسُرُّنِي ما يَسُرُّها۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:”سیدہ فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیھا میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جو بھی اس کو خوش کرے گا، اس نے مجھے خوش کیا ہے”
(الصواعق المحرقة ص 180 و 232، مستدرك الحاكم معرفة ما يجب لآل البيت النبوي من الحق علي من عداهم ص 73 ينابيع المودّة ج 2 باب 59 ص 468)

(32)قال رسول اللّه (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ): "فاطِمَة الزھراء سلام اللہ علیہا بَضْعَةُ مِنّي فَمَنْ أَغْضَبَها أَغْضَبَنِي۔”
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:” سیدہ فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیہا میرے تن کا ٹکڑا ہے، جو بھی اس کو ناراض کرے گا، اس نے مجھے ناراض کیا ہے۔”
(صحيح البخاري ج 3 كتاب الفضائل باب مناقب فاطِمَة ص 1374، خصائص الإمام عليّ للنسائي ص 122، الجامع الصغير ج 2 ص 653 ح 5858،كنز العمّال ج 3 ص 93 ـ 97، منتخب بهامش المسند ج 5 ص 96، مصابيح السنّة ج 4 ص185، إسعاف الراغبين ص188، ذخائر العقبي ص 37، ينابيع المودّة ج 2 ص 52 ـ 79)

(33) قال رسول اللّه (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ): "فاطِمَة الزھراء سلام اللہ علیہا خُلِقَتْ حورِيَّةٌ فِيْ صورة إنسيّة۔”
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:سیدہ فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیھا انسان کی شکل میں خلق کی گئی، جنت کی حور ہیں۔
(مناقب الإمام علي لابن المغازلي ص296 )

(34)قال رسول اللّه (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ):” فاطِمَة الزھراء سلام اللہ علیہا حَوْراءُ آدَميّةَ لَم تَحضْ وَلَمْ تَطْمِث۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:سیدہ فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیھا انسان کی شکل میں جنت کی حور ہیں، کہ جو خون حیض اور نفاس سے دوچار نہیں ہوتیں۔”
(الصواعق المحرقة ص 160، إسعاف الراغبين ص 188، كنز العمّال ج 13 ص 94، منتخب كنز العمّال ج 5 ص 97)

(35)قال رسول اللّه (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ):” فاطِمَةالزھراء سلام اللہ علیھا بَضْعَةٌ مِنّي وَهِيَ قَلْبِيْ وَهِيَ روُحِي التي بَيْنَ جَنْبِيّ۔”
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا میرے جگر کا ٹکڑا ہے اور وہ میرا دل ہے اور وہ میرے بدن میں موجود میری روح ہے۔
(نور الأبصار ص 52)

(36)قال رسول اللّه (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ):”سیدہ فاطِمَةالزھراء سلام اللہ علیہا سيِّدَةُ نِساءِ أُمَّتِي۔”
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا میری امت کی تمام عورتوں کی سردار ہیں۔
(سير أعلام النبلاء ج 2 ص 127، صحيح مسلم، كتاب فضائل الصحابة، باب مناقب فاطمة ، مجمع الزوائد ج 2 ص 201، إسعاف الراغبين ص 187)

(37)قال رسول اللّه (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ):”سیدہ فاطِمَةالزھراء سلام اللہ علیہا بَضْعَةٌ مِنّي يُؤلِمُها ما يُؤْلِمُنِي وَيَسَرُّنِي ما يَسُرُّها۔”
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:”سیدہ فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیھا میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جو بھی اس کو تکلیف دے گا، اس نے مجھے تکلیف دی ہے اور جو بھی اس کو خوش حال کرے گا، اس نے مجھے خوشحال کیا ہے۔”
(مناقب الخوارزمي /ص 353)

(38)قال رسول اللّه (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ):سیدہ فاطِمَةالزھراء سلام اللہ علیہا بَهْجَةُ قَلْبِي وَابْناها ثَمْرَةُ فُؤادِي۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:سیدہ فاطمہ زھراء سلام اللہ علیہا میرے دل کا آرام و قرار ہے اور اس کے دو بیٹے میرے دل کے پیارے ہیں۔
(ينابيع الموّدة ج 1 باب 15 ص 243)

(39) قال رسول اللّه (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ) :”سیدہ فاطِمَةالزھراء سلام اللہ علیہا لَيْسَتْ كَنِساءِ الآدَميّين۔”
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا عام عورتوں کی طرح ایک عورت نہیں ہے۔
(مجمع الزوائد ج 9 ص 202)

(40)قال رسول اللّه (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ): "یا سیدۃ فاطِمَةالزھراء سلام اللہ علیہا! إِنّ اللّهَ يَغْضِبُ لِغَضَبَكِ۔”
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: اے سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا خداوند تیرے غضب ناک ہونے کی وجہ سے غضب ناک ہوتا ہے۔
(الصواعق المحرقة ص 175،مستدرك الحاكم، باب مناقب فاطمة، مناقب الإمام علي لابن المغازلي ص 351)

(41)قال رسول اللّه (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ):”سیدہ فاطِمَةالزھراء سلام اللہ علیہا إِنّ اللّهَ غَيْرُ مُعَذِّبِكِ وَلا أَحَدٍ مِنْ وُلْدِكِ۔”
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:اے سیدہ فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا بے شک خداوند تجھے اور تیری اولاد پاک میں سے کسی ایک کو بھی عذاب نہیں کرے گا۔
(كنز العمّال ج13 ص96 منتخب كنز العمّال بهامش مسند أحمد ج5 ص97، إسعاف الراغبين بهامش نور الأبصار ص118)

(42)قال رسول اللّه (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ): "كَمُلَ مِنَ الرِّجال كَثِيرُ وَلَمْ يَكْمُلْ مِنَ النساءِ إِلاّ أَرْبَع: مَرْيم وَآسِيَة وَخَديجَة وَفاطِمَة۔سلام اللہ علیھم”
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: مردوں میں سے بہت کی عقل کامل ہوئی ہے، لیکن عورتوں میں سے فقط چار عورتوں کی عقل کامل ہوئی ہے اور وہ سیدہ مریم، سیدہ آسیہ،سیدہ خدیجہ الکبری اور سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھن ہیں۔”(نور الأبصار ص 51)

(43)قال رسول الله(صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ): "ليلة عرج بي إلي السماء رأيت علي باب الجنّة مكتوبا: لا إله إلا الله، محمّد رسول الله، عليّ حبيب الله، الحسن والحسين صفوة الله، فاطمة خيرة الله، علي مبغضيهم لعنة الله۔”
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: جس رات کو مجھے معراج پر لے جایا گیا، میں نے دیکھا کہ جنت کے دروازے پر لکھا ہوا تھا کہ: لا إلہ إلا الله ، محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، علی ولی الله علیہ السلام ، حسن و حسین علیھما السلام اورسیدہ فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیھا خداوند کے برگذیدہ انسان ہیں۔ جو بھی ان سے بغض رکھنے والا ہو گا، اس پر خداوند کی لعنت ہو گی۔
(تاريخ بغداد :ج 1ص،259 تاريخ دمشق :ج 14ص170، لسان الميزان :ج 5ص70)

(44)قال رسول الله (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ): "لو كان الحسن شخصا لكان فاطمة ، بل هي أعظم ، إن فاطمة ابنتي خير أهل الأرض عنصرا وشرفا وكرما۔”
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:” اگر حسن و خوبصورتی ایک انسان کی شکل میں ہوتے، تو وہ سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا شکل میں ہوتے، بلکہ وہ ان سے بھی بالا تر ہوتی۔ بے شک میری بیٹی فاطمؑہ عنصر (ذات) ، شرف اور کرم کے لحاظ سے تمام اہل زمین سے افضل ہے۔”
(مقتل الحسين :ج 1ص60)

(45)خرج رسول الله (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ):”وهو آخذ بيد فاطمة (سلام الله عليها) فقال : (من عرف هذا فقد عرفها ومن لم يعرفها فهي فاطمة بنت محمّد وهي قلبي وروحي التي بين جنبي”۔
رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر سے باہر نکلے، اس حالت میں کہ آپ نے اپنی بیٹی سیدہ فاطمہ زراء سلام اللہ علیھا کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا، پھر آپؑ نے فرمایا کہ: جو بھی اس کو پہچانتا ہے، وہ تو پہچانتا ہی ہے، اور جو نہیں پہچانتاتو وہ اس کو جان لے کہ یہ سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی ہے، وہ میری دل و جان اور میرے بدن میں موجود میری روح ہے۔”
(الفصول المهمّة : ص146، نور الأبصار :ص 53)

(46)قال رسول الله(صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ):” أتاني جبرئيل قال : يا محمّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إنّ ربّك يحبّ فاطمة الزهراء سلام اللہ علیہا فاسجد , فسجدت , ثمّ قال : إنّ الله يحبّ الحسن والحسين فسجدت , ثمّ قال : إنّ الله يحبّ من يحبّهما۔”
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آیا اور اس نے مجھ سے کہا کہ: اے محمد، مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خداوند تعالٰی سیدہ فاطمۃ زہراء سلام اللہ علیھا سے محبت کرتا ہے،لہذا تم سجدہ کرو، پس میں نے بھی سجدہ کیا، پھر اس نے کہا کہ: بے شک خداوند حسن اور حسین علیھما السلام سے بھی محبت کرتا ہے، پس میں نے دوبارہ سجدہ کیا، پھر اس نے کہا کہ: جو بھی ان دونوں سے محبت کرتا ہے، تو خداوند عالم ان سب سے بھی محبت کرتا ہے۔
(لسان الميزان :ج 3ص275)

(47)قال رسول الله (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم : "يا سلمان ,رضی اللہ عنہ! حبّ فاطمة الزهراء سلام اللہ علیہا ينفع في مئة من المواطن , أيسر تلك المواطن : الموت , والقبر , والميزان , والمحشر , والصراط , والمحاسبة , فمن رضيت عنه ابنتي فاطمة , رضيت عنه , ومن رضيت عنه رضي الله عنه , ومن غضبت عليه ابنتي فاطمة , غضبت عليه , ومن غضبت عليه غضب الله عليه , يا سلمان ويل لمن يظلمها ويظلم بعلها أمير المؤمنين عليا , وويل لمن يظلم ذرّيتها وشيعتها۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: اے سلمان رضی اللہ عنہ! سیدہ فاطمہ زھراء سلام اللہ علیہا کی محبت انسان کو 100 مقامات پر فائدہ دیتی ہے، کہ ان مقامات میں سے کم ترین اور آسان ترین مقام، مرتے وقت، قبر میں، میزان پر، محشر میں، پل صراط پر، اعمال کے حساب کتاب کے وقت، پس جس سے بھی میری بیٹی سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا راضی ہو گی، تو میں بھی اس سے راضی ہوں گا اور جس سے میں راضی ہوں گا تو خداوند بھی اس سے راضی ہو گا، اور جس پر بھی میری بیٹی فاطمہ غضب ناک ہو گی تو میں بھی اس پر غضب ناک ہوں گا اور جس پر بھی میں غضب ناک ہوں گا تو خداوند بھی اس پر غضب ناک ہو گا۔
اے سلمان، رضی اللہ تعالی عنہ وہ بدبخت اور اس کا برا حال ہو گا، جو اس (فاطمۃالزھراء سلام اللہ علیہا ) اور اس کے شوہر امیر المؤمنین علی علیہ السلام پر ظلم و ستم کرے گا،اور وہ بھی بدبخت اور اس کا برا حال ہو گا، جو ان کی نسل اور ان کے محبوں پر ظلم و ستم کرے گا۔
(فرائد السمطين : 2 باب 11 ح 219، كشف الغمہ :ج 1ص467)

(48) قرأ رسول الله (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ): هذا الآية : (في بيوت أذن الله أن ترفع ويذكر فيها اسمه) فقام إليه رجل فقال : أي بيوت هذه يا رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؟ قال :” بيوت الأنبياء , فقام إليه أبوبكر فقال : يا رسول الله أهذا البيت منها ؟ -مشيرا إلي بيت علي وفاطمة عليهما السلام-قال :نعم , من أفاضلها۔”
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اس آیت کی تلاوت کی : (ہدایت پانے والے) ایسے گھروں میں ہیں جن کی تعظیم کا اللہ نے اذن دیا ہے اور ان میں اس کا نام لینے کا بھی، وہ ان گھروں میں صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے ہیں
تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر سوال کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ کون سے گھر ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ: ان سے مراد انبیاء کے گھر ہیں۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کرسیدتنا علی و فاطمہ سلام اللہ علیہما کے گھر کی طرف اشارہ کر کے سوال کیا کہ:یا رسول اللہ، کیا یہ گھر بھی ان گھروں میں شامل ہے ؟ رسول خدا نے فرمایا کہ: ہاں، بلکہ یہ گھر ان گھروں سے افضل ہے۔
(الدر المنثور :ج 6ص203، تفسير آية النور , روح المعاني :ج 18ص 174، تفسير الثعلبي :ج 7ص107 ، الكشف والتبيان لللسفوي :صفحہ 72)

(49)قال رسول اللّه صل اللہ علیہ وآلہ وسلم: "ما رَضِيْتُ حَتّي رَضِيَتْ فاطِمَة۔”

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: میں کبھی بھی کسی سے راضی نہیں ہوا، مگر یہ کہ فاطمؑہ اس سے راضی ہو جائے۔

(مناقب الإمام علي لابن المغازلي: ص 342)

(50)قال رسول اللّه صل اللہ علیہ وآلہ وسلم "أَوَّلُ مَنْ دَخَلَ الجَنَّةَ فاطِمَة۔”

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: سب سے پہلے جنت میں فاطمؑہ داخل ہوں گی۔(ينابيع المودّة ج2 ص322 باب56)

(51)قال رسول اللّه صل اللہ علیہ وآلہ وسلم: "فاطِمَة سيِّدَةُ نِساءِ أُمَّتِي۔”
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: فاطمؑہ میری امت کی تمام عورتوں کی سردار ہیں۔
(سير أعلام النبلاء ج 2 ص 127، صحيح مسلم، كتاب فضائل الصحابة، باب مناقب فاطمة، مجمع الزوائد ج 2 ص 201، إسعاف الراغبين ص 187)

(52)قال رسول اللّه صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم "فاطِمَة بَضْعَةٌ مِنّي مَنْ آْذاهَا فَقَدْ آذانِي۔”
رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: فاطمؑہ میرا ایک ٹکڑا ہے، جو بھی اس کو اذیت پہنچائے گا، اس نے بے شک مجھ کو اذیت پہنچائی ہے۔
(السنن الكبري ج 10 باب من قال: لا تجوز شهادة الوالد لولده ص 201، كنز العمّال ج 13 ص 96، نور الأبصار ص52، ينابيع المودّة ج 2 ص 322)

(53) قال رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم:
"سُمِّيَت فَاطِمَۃُ بَتُولًا لِاَنَّهَا تَبتَلَت وَتَقَطَّعَت عَمَّا ھُوَامُعتَاذاً العَورَاتِ فِي كُلِّ شَهرِ”
”فاطمہؑ“ کو بتول اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ عورتوں کی عادت سے جو وہ ہر ماہ دیکھتی ہے ان سے پاک ہیں“
(المناقب صالح کشفی ،صفحہ 119)

(54)قال رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم:

” انھا سمیت فاطمۃ لِاَنَّ اللہَ فَطَمَھَا وَ ذُرِّیَتَھَا مِنَ النَّارِ ،مَن لَقَی اللہَ مِنھُم بِالتَّوحِیدِ وَ الاِیمَانِ لِمَا جِئتَ بِہِ

"ان کا نام اس لیے فاطمہؑ رکھا گیا ہے کیونکہ خداوند تعالی نے انہیں اور اُن کی اولاد کو، جس نے اللہ سے اس حال میں ملاقات کی کہ وہ اس کی وحدانیت پر اور جو کچھ میں نے پیش کیا ہے اس پر ایمان رکھتے ہوں ،جہنم سے محفوظ کر دے گا۔“( بحار الانوار جلد 63 )

Want your organization to be the top-listed Non Profit Organization in Karachi?
Click here to claim your Sponsored Listing.

Videos (show all)

ہم نماز روزے اور حج عمروں کے باوجود تباہ حال اور عیسائی ویہود وہنود کہاں سے کہاں نکل گئے، آخر کیوں؟
نماز کے راز
جہنمی کی پہچان
گورنر ہاؤس اور JDC سمیت دیگر فلاحی اداروں سے مایوس ہو کر خود کشی کا ارادہ ظاہر کر کے یو پی ایف سے رابطہ کرنے والے شخص کے...
اب تو جاگو
پاکستان کی عوام غلام ابن غلام ہے
اللہ نے کتنے آدم تخلیق کیے?
Huzoor Khwaja Garib Nawaz A.S ke Asal Mazar ki Ziarat jo ke Zameen ke Neeche hain. Kya hai Woh Ziarat Aakhir Dekhte hain

Telephone

Website

Address

Karachi

Other Nonprofit Organizations in Karachi (show all)
Husaini Husaini
ST-2, Qalandria Chowk, North Nazimabad Block-T
Karachi

Husaini Blood Bank takes pride in serving the people of Pakistan by preventing the sufferings of ever

BAWS BAWS
ST 5/B Block H North Nazimabad
Karachi, 74700

BAWS is a non-profit community organization based in Karachi.

CHAEF CHAEF
Suite# SF-2, Plot 17-C, Zamazama Commercial Lane-2, D. H. A
Karachi, 75000

The primary aim of CHAEF is to provide FREE Education and Primary healthcare services to poor and needy people at their doorstep.

PakPair PakPair
Karachi, 74700

Find your Muslim soulmate

DevNext DevNext
Karachi

Partners in learning, unleashing your potential and making learning a culture...

Rotary Club of Karachi Rotary Club of Karachi
231, Muhammadi House, I. I. Chundrigar Road
Karachi, 74000

A 91 year old club going strong in playing it's part for the improvement of the global community.

LOVE AND PEACE LOVE AND PEACE
Clifton 6
Karachi

Workpeace intends to replace violence, hatred, fights and disputes with music, love, art, dialogue,

Emerging .NET Devs Emerging .NET Devs
Karachi

Emerging .NET Devs is a registered user group under (INETA). The group is committed to a vision of disseminating information through lectures in events, sessions and to enable the ...

The Ray of Hope The Ray of Hope
Karachi

Non Profit Organization | Not Registered | No Bank Account

Make-A-Wish Foundation® Pakistan Make-A-Wish Foundation® Pakistan
Office 208-A, Clifton Center, Clifton Block/5
Karachi

Together, we create life-changing wish experiences for children battling critical illnesses.

Zindagi Trust Zindagi Trust
8-A, Street 3, Block 7/8, Al Hamra Society, Amir Khusro Road
Karachi

Striving to reform government schools through pilot projects and advocacy with the government.

DawateIslami DawateIslami
Global Madani Markaz Faizan-E-Madina, Near Capital Telephone Exchange, Main University Road
Karachi, 75300

A Global Non-political Non-profit Organization Serving Islam and Sunnah All Around the World.