Mr. Mahmood Shaam

Mr. Mahmood Shaam

Mahmood Shaam is a writer, poet and journalist whose basic philosophy is that all good work is done

18/02/2024

فوج اپنا کام کرے، عدلیہ اپنا
محمود شام

مولانا فضل الرحمن مسلسل کہتے تھے کہ عمران خان پاکستان کی سیاست میں ایک غیرضروری عنصر ہے۔ اسے ختم کر دینا چاہئے۔ اب اچانک وہ پاکستان تحریک انصاف کو ضروری کس نظریۂ ضرورت کے تحت سمجھنے لگے ہیں۔ خود عمران خان اپنے بھرے جلوسوں میں ان کی جس طرح اہانت کرتے تھے اور ان سے گفتگو کو ناممکن قرار دیتے تھے۔ اب کیسے وہ اپنا وفد بھیج کر ان سے سیاسی اشتراک کررہے ہیں۔ اس کی وضاحت ہونی چاہئے۔ ورنہ عوام خاص طور پر خیبر پختونخوا کے ووٹر اسے اپنی آرزوئوں کا خون سمجھیں گے۔

آج اتوار ہے اپنے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے کا دن۔ اور بعد از الیکشن منظر نامے پر سوال جواب کے لمحات۔پاکستان سیاسی طور پر تو ایک دوراہے پر ہے ہی لیکن اخلاقی طور پر کہیں زیادہ پستی میں گر چکا ہے۔ تہذیب کہیں مسلک سے کچلی جارہی ہےکہیں طاقت سے بلڈوز کی جارہی ہے۔ انتخابی نتائج جس بے دردی سے بدلے گئے ہیں۔ ’رجیم چینج‘ کے آقا امریکہ کے محکموں کی بھی چیخیں نکل گئی ہیں۔ پاکستان دنیا کا آخری ملک ہے جہاں اٹھارویں صدی اب بھی اکیسویں صدی کو قدم نہیں رکھنے دے رہی ہے ،جہاں وحشیانہ قبائلی سرداری، سنگدل جاگیرداری، لالچی سرمایہ داری، چھچھوری ٹھیکیداری، اکثریت کی بیداری کا راستہ روک رہی ہے۔

راستے بند کیے دیتے ہو دیوانوں کے

ڈھیر لگ جائیں گے بستی میں گریبانوں کے

بہت مشکل سے سالہا سال کی منتوں مرادوں کے بعد جاگنے کا لمحہ آیا ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ۔ الیکشن کمیشن اور عدالتیں اسے عطائے خداوندی سمجھ کر اپنی گرفت میں لیتیں۔ اسے آئندہ کی بنیاد بناتیں۔ ملکی استحکام کیلئے اسی شعور کی تو ضرورت تھی۔ یہ جو اظہار کی ندیاں الگ الگ بہہ رہی تھیں۔ اسے ایک مرکزی دھارے میں ڈالا جاتا۔ ملّی افتخار بھی اسی میں تھا۔ ریاست کی سلامتی بھی اور ایک قوم کی حیثیت سے سربلندی بھی۔ ریاستی اداروں کا وقار بلند ہو رہا تھا۔ مگر ہمارے ان اداروں کی فکر اتنی ارفع کہاں کہ وہ لمحۂ موجود کی اس تابانی کا ادراک کر سکتے۔ وہ شخصیات کے سحر میں کھوئے ہوئے ہیں۔جو بالآخر فانی ہیں۔فرسودگی اور بوسیدگی میں مبتلا ہیں۔ وہ نہ جان سکے کہ پہلی بار سارے صوبوں، ساری زبانوں میں اظہار کرنے والے، مختلف مسالک اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے ایک سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ قوموں کی تاریخ میں ایسی گھڑیاں ش*ذ ش*ذ ہی آتی ہیں۔ یہی ساعتیں ہوتی ہیں جب تاریخ بنتی ہے۔ جغرافیہ مستحکم ہوتا ہے۔ لیکن اداروں کی سوچ اپریل 2022 سے آگے نہیں بڑھ سکی تھی۔ تحریک عدم اعتماد کے ڈاکٹرائن میں ہی تحفظ سمجھا گیا۔ عوام کے مینڈیٹ کو کچل کر وہی پی ڈی ایم کا گراف تخلیق کیا گیا۔ پہلے بھی ’مصنوعی ذہانت‘ کے ایسے تجربے ناکام رہے ہیں۔ 1985 سے سیاسی اور فوجی قیادت کے اشتراک اور ایک پیج پر ہونے کے نتائج بازار کی ویرانی، کارخانوں کی بندشوں میں، بے روزگاری میں، روپے کی رُسوائیوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ اب واہگہ سے گوادر تک پاکستانی پیشانیوں پر ایک برہمی ہے۔ کہیں کہیں تو یہ غصّہ سڑکوں پر بھی نظر آرہا ہے۔ لیکن زیادہ تر پاکستانی اسے ملکی مفاد میں خود ہی دبائے ہوئے ہیں۔ پاک سر زمین کے یہ فرزند ملت کے درد کو سمجھتے ہیں۔ اپنی مملکت کی املاک کو اپنا سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ توڑ پھوڑ تخریب کاری کی طرف نہیں آ رہے۔ اپنے مینڈیٹ کی بے حرمتی پر انکی طرح بے لگام نہیں ہورہے ۔ جن کا لندن پلان چاروں شانے چت پڑا ہے۔

اداراتی بندوبست نے1985 سے انتخابات کے نام پر عوام کی رائے سے کھیلنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ دو خاندانوں کی سربراہی میں باریاں لگی ہوئی ہیں۔ انتخابی نتائج ہر الیکشن میں تبدیل کیے جاتے رہے ہیں۔ یہی عمل 8فروری اور 9 فروری کی درمیانی شب بھی دہرایا گیا۔ اس عمل کے اپنے نتائج بڑے بھیانک ہوتے ہیں۔ اس کا شکار چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھنے والے ہو گئے۔ ہم پاکستان کو نواز نہیں سکے۔

پارلیمانی یا صدارتی نظام صدیوں کی خانہ جنگیوں، ہلاکتوں اور مختلف تجربات، فلسفوں کے بعد وجود میں لایا گیا۔ اس کے جو مراحل، اصول، قواعد و ضوابط طے کیے گئے۔ ان پر من و عن عملدرآمد نے ہی ایسی ترقی یافتہ ریاستوں کو جنم دیا ہے۔ جہاں زندگی کی آسانیاں ہیں، میرٹ کی بالادستی ہے، روزگار کے مواقع ہیں، صنعتی پھیلائو ہے، ہر شہری کو برابری حاصل ہے، ایسے معاشروں میں جانے کیلئےہمارے نوجوان ان ملکوں کے سفارت خانوں کے باہر ویزے کیلئے کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ با اثر افراد جو ان قواعد و ضوابط کو پاکستان میں روندتے ہیں۔ ان کی اولادیں بھی انہی ملکوں میں جا کر پناہ لیتی ہیں۔ ریٹائر ہو کر یہ بھی آسٹریلیا، امریکہ، بلجیم، اسپین میں فروکش ہوتے ہیں۔

اب ہم سب کے سوچنے سمجھنے کی یہ بات ہے کہ پاکستان میں جمہوریت، آزادیٔ اظہار، روزگار، معاشی ترقی کے راستے کیوں روکے جاتے ہیں۔ اس کی مثال اپنے بلوچ سرداروں، کے پی کے کے خوانین، سندھ کے وڈیروں، پنجاب کے چوہدریوں کے مزاج سے لے لیجئے۔ وہ اپنی اولادوں کیلئے جو آسائشیں چاہتے ہیں۔ اپنے مزارعین، ہاریوں، کسانوں کی اولادوں کو دینا نہیں چاہتے۔ اسی طرح امریکہ، برطانیہ، ہالینڈ، فرانس وغیرہ بھی جنوبی ایشیا کے شہریوں کو اپنے جیسا ترقی یافتہ دیکھنا نہیں چاہتے۔ جبکہ چین ہر ہمسائے کو خود دار خود کفیل اور مستحکم بنانےکیلئے ایک پٹی ایک سڑک کا فلسفہ دے رہا ہے۔ معدنی وسائل برآمد کر رہا ہے۔ افغانستان میں تیل تلاش کر چکا ہے۔ امریکہ برطانیہ اپنے گماشتوں کے ذریعے پاکستان میں اکثریت کو اپنے دبدبے میں رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ نیا استعمار ہے۔

ہمارے ادارے ایک مغالطے میں مبتلا ہیں۔ انہیں طاقت اپنے عوام دے سکتے ہیں،ہزاروں میل دور بیٹھا استعمار نہیں۔ عوام کے دبائو سے بوسیدگی فرسودگی جھڑ رہی ہے۔ تاریخ کے پہیے کو پیچھے دھکیلنے کی کوششیں ناکام ہورہی ہیں۔ کروڑوں آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ چند لاکھ 1985 میں جانا چاہتے ہیں۔ لیکن ہوا کا رُخ بدل رہا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ سے ایسے تبصرے سننے میں آ رہے ہیں۔ ’’فوج اپنا کام کرے، عدلیہ اپنا۔‘‘ یہ بیداری الیکشن کمیشن میں بھی آنی چاہئے۔ دوسرے ادارے بھی اب ملک کی سلامتی کا اپنا ڈاکٹرائن بنا لیں۔ ملک کے مالک عوام ہیں۔ تاریخ کی طرف سے سب سے بڑی ذمہ داری نام نہاد سیاسی جماعتوں پر ہے جو عوام کی رہبری کا دعویٰ کرتی ہیں۔ عوام نے انہیں اپنے ڈیروں تک محدود کردیا ہے۔

پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے

رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور

ان شاء اللہ۔ عوام کی طبع اب اور رواں ہونے والی ہے۔ اب قومی سیاسی جماعتوں کا ایگزیکٹو میڈیکل چیک اپ درکار ہے۔آئندہ اس اہم موضوع پر گفتگو ہوگی۔

15/02/2024

عوام کا شعور، 2024 کا فخر
محمود شام

ریاست اور میڈیا سے عوام کابھروسہ اٹھ گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسے ایسے حقائق منکشف ہورہے ہیں کہ سادہ لوح پاکستانی سکتے میں رہ جاتے ہیں۔ملک کے استحکام کیلئے عوام کا اطمینان ضروری ہے۔ لیکن خواص محض اپنی تسلی چاہتے ہیں ۔ کروڑوں کی مرضی ان کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتی اسلئے آئین ، قانون، جمہوریت پارکنگ لاٹوں میں پڑے سسک رہے ہیں۔

1951 ءکے پنجاب کے جھرلو انتخابات سے لے کر بیسویں اور اکیسویں صدی کے جتنے اچھے برے انتخابات دیکھے ہیں۔ ایک ووٹر،ایک رپورٹر، ایک ایڈیٹر کی حیثیت سے جو تجربات اور مشاہدات ہوئے ان کی روشنی میں اپریل 2022 ءسے ہونیوالے واقعات پر جو جملے یا شعر ذہن کی اسکرین پر ابھرتے ہیں وہ سوشل میڈیا کی اسکرین پر بھی ڈال دیتا ہوں اور اپنی تحریروں کو بھی ان خیالات سے مزین کرتا ہوں۔ فیس بک روزیہ What is on your mind پوچھ کر دعوت اظہار دیتا ہے۔ 2024 ءکے انتخابات میں ہونیوالی انجینئرنگ، رفو گری، پیوند ساز تطہیر، تزئین، تخریب، از سر نو تعمیر کو سوشل میڈیا کی اس دعوت ِاظہار نے ہی طشت از بام کردیا ہے۔ میری پوتی محاوروں، ضرب الامثال کے بارے میں کچھ دن پہلے پوچھ رہی تھی۔ پہلے تو میں نے کہاوتوں ، محاوروں کے بارے میں اطہر اقبال کی کتابوں کا مشورہ دیا۔ پھر کہا کہ ان دنوں نگراں حکومت، عدالتیں اور ہمارے حکمراں طبقے سب کچھ با محاورہ کررہے ہیں۔ مثلاً سانجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے ٹوٹنا۔ کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔ آگ کو دامن سے ڈھانکنا۔ آنکھوں سے اندھا نام نین سکھ۔ جب تک رکابی بھات میرا تیرا ساتھ۔ اپنی گانٹھ نہ پیسا،پرایا آسرا کیسا۔ کوٹھی اناج کوتوال راج۔ غریب کی جورو سب کی بھابھی۔ ایک میاں موج کا ایک ساری فوج کا۔ گدھے کو گدھا ہی کھجلاتا ہے۔ راجے کی بیٹی قسمت کی ہیٹی۔ عقل بغیر کنوئیں خالی۔ بلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ گڑ سے جو مرے تو زہر کیوں دو۔ کام کا نہ کاج کا، دشمن اناج کا‘‘۔ یہ ضرب الامثال میری تلاش کا نتیجہ ہیں۔ آپ کو جو حسب حال لگیں ان سے آگاہ کریں۔

ہم اپنی تاریخ کے شکر گزار ہیں کہ وہ اپنے آپ کو بار بار دہراتی ہے۔ لیکن ہم اسی بل سے بار بار ڈسے جاتے ہیں تو کیا ہم مومن نہیں ہیں۔ معاف کیجئے ایک شعر یاد آ گیا۔’’جو چپ رہے گی زبان خنجر... لہو پکارے گا آستیں کا‘‘۔ ہم آج تک کلیم عاجز کے شعر پر داد دیتے رہے۔ ’’دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ ... تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو‘‘۔ ہمارے بڑوں نے کلیم عاجز کا قرض بھی چکا دیا۔ اب کے قتل کیے ہیں کرامات نہیں۔ ہم دامن پہ چھینٹےبھی دیکھ رہے ہیں اور خنجر پر داغ بھی بہت ہیں۔اب کے خود اعتمادی اتنی تھی کہ کوئی احتیاط نہیں کی۔ سب کچھ صاف شفاف طریقے سے کیا ہے۔ سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کا ہے کا۔کوتوال مقامی بھی ہیں، عالمی بھی۔

منزل مقصود سب مستحکم پاکستان بتاتے ہیں۔ لیکن لوکیشن سب کی مختلف ہے۔ کچھ چوتھی بار وزیراعظم بن کر لائو لشکر پروٹوکول کے ساتھ اس منزل کو ہاتھ لگانا چاہتے ہیں۔ کچھ کو اپنی ذمہ داریوں میں توسیع کے ساتھ اس منزل تک پہنچناہے۔ میاں نواز شریف ملک کو پٹڑی پر لانے کیلئے دس سال کا عرصہ تجویز کررہے ہیں۔ یعنی 2034 تک پاکستان مستحکم ہوسکتا ہےبشرطیکہ وہ وزیر اعظم رہیں۔ انہیں نکالا نہ جائے۔ جناب آصف علی زرداری اپنے صاحبزادے بلاول کو وزیر اعظم بناکر استحکام پاکستان کی نوید دیتے ہیں۔ طاقت ور حلقے دونوں کو ڈھائی ڈھائی برس دے کر سمجھتے ہیں کہ گوہر مراد حاصل ہوسکتا ہے۔ جس کو خلق خدا وزیر اعظم دیکھنا چاہتی ہے۔ مقتدر نے اس پر کاٹا لگا رکھا ہے۔

کہا تو جاتا ہے۔ جمہوریت۔ عوام کی حکومت عوام کے ذریعے، عوام کیلئے۔ بے چارے عوام واہگہ سے گوادر تک اس جذبے سے سرشار پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچتے ہیں۔ وہ بیلٹ بکس میں کسی اور کیلئے مہر لگاکر ہری اور سفید پرچیاں ڈالتے ہیں، نکلتی کسی اور کی ہیں تو پاکستانی جمہوریت کا فارمولا یہ بنتا ہے۔ خواص کی حکومت خواص کیلئے لیکن عوام کے ذریعے۔

پاکستان میں یہ سوچنا مشکل تھا کہ قوم اس طرح باہر نکلے گی اور کسی ایک کی آواز پر اس طرح مختلف نشانوں پر مہر ثبت کرے گی۔ تاریخ اور جغرافیہ دونوں پاکستان کے عوام کے شعور اور حافظے کو ہمیشہ قابل قدر قرار دیتے ہیں کہ انہوں نے اپنے علاقے میں پسندیدہ لیڈر کے حمایت یافتہ امیدوار کے نشان کو پولنگ بوتھ پر بھی یاد رکھا۔ تاریخ سرپیٹ رہی ہے، ریاست کے ستون لرزاں ہیں۔ ریاست وہی تجربے کرنے پر مصر ہے جو پہلے ناکام ہوکر مملکت کو اس بد حالی، بربادی تک پہنچاچکے ہیں۔ کیا یہ مناظر غیر معمولی نہیں کہ فارم 45سے فارم 47 کے درمیان کئی کئی گھنٹے لگ رہے ہیں۔ بعض فارموں میں درج ووٹ اتنے زیادہ ہیں کہ بیلٹ پیپر خود شرمارہے ہیں۔ اکیسویں صدی میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یا تو خرد برد کا سلیقہ بہتر ہونا چاہئے تھا یا اس کی ضرورت نہ رہتی۔

اب تو سوشل میڈیا ہے۔ مصنوعی ذہانت ہے۔ا سلئے ایک فرد سے خوف کیوں۔ اس کی غیر معمولی مقبولیت سے تو ملک کو مستحکم کرنے میں مدد لینا چاہئے ہمیں تو ممنون اور شکر گزار ہونا چاہئے۔ اس ایک شخص کا کہ اس نے تمام جبر، سفاکی اور سختیوں کے باوجود عوام کو ایسا حوصلہ دیا ہے کہ انہوں نے اسے دو تہائی سے بھی زیادہ مینڈیٹ اسی لیے دیا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ وہ ملک کو استحکام دے سکتا ہے۔ کروڑوں کی رائے پر چند لوگوں کی رائے کو فوقیت کیوں دی جارہی ہے۔ قانونی اور آئینی راستے پر گروہی ناکے کیوں لگائے جاتے ہیں۔ سب جمہوری ملکوں میں مقبولیت ہی کو قبولیت سمجھا جاتا ہے۔ یہاں عوامی مقبولیت کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ اداراتی قبولیت بھی ضروری ہے۔ مقطع میں آپڑی ہے سخن گسترانہ بات۔ یہ کیوں نہیں سمجھا جاتا کہ اس سے قطع محبت مقصود نہیں ہے۔ مقبولیت دینے کا حق صرف عوام کا ہے۔ خواص کی ذمہ داری ہے کہ اس مقبولیت کو قبول کریں یہی سیدھا راستہ ہے۔ پارلیمانی نظام کی تو بنیاد یہی ہے۔ زیادہ دیر انجینئرنگ میں لگانے سے اقتصادی اور آئینی بحران مزید گہرا ہوگا۔ عوام پہلے ہی برہم ہیں کہ ریاست ان کی مرضی کے خلاف فیصلے مسلط کررہی ہے۔ اپنے منظور نظر افراد کو ہی ملکی خزانہ اور اثاثے سونپنا چاہتی ہے۔ اکیسویں صدی جمہوریت اور بہتر حکمرانی کی صدی ہے۔ پاکستان کے عوام کا مقدر موروثی حکمرانی کیوں۔ ان کا حق انہیں کیوں نہیں ملتا۔

04/02/2024

8 فروری۔ ووٹ بلا روک ٹوک
محمود شام

اب صرف 3دن درمیان میں ہیں۔

فیصلہ کن گھڑی سر پر کھڑی ہے۔ سوال صرف میری اور آپ کی بقا کا نہیں۔ 25کروڑ جیتے جاگتے پاکستانیوں کے دوام کا ہے۔ اس پر سب متفق ہیں کہ اس ریاست کو ایک بڑی سرجری کی ضرورت ہے۔ اس ریاست کے بالغ ووٹرز کے ہاتھ میں اب اس کی تقدیر ہے۔ 8فروری کو انہیں یہ اکثریتی رائے دینا ہے کہ وہ کس سرجن کا انتخاب کررہے ہیں۔ جو ریاست کو آپریشن تھیٹر میں لے جائے۔ اس کے لیے سرجن جو دستیاب ہیں۔ ان کے سابقہ آپریشنوں پر نظر ڈالنا ہوگی کہ پہلے جو مریض ان کے نشتر کی زد میں لائے گئے ان میں سے کتنے بچ سکے اور کتنے صحت مند ہوسکے۔ آپریشن کے لیے جو وقت درکار تھا۔ کیا وہ اس سرجن کو ملا۔ آپریشن تھیٹر میں کیا سارے انتظامات تھے۔ بجلی ہمہ وقت میسر رہی۔ اسپتال کی انتظامیہ نے اپنی ذمہ داریاں پوری طرح نبھائیں۔ ڈاکٹروں کی ٹیم نے اپنے اپنے حصّے کا کام کیا۔ بروقت آلات فراہم کیے گئے۔ آپریشن اگر کہیں دور دراز واشنگٹن سے نیٹ پر بھی دیکھا جارہا تھا۔ تو وہاں سے درست اور بروقت مشورے ملے۔ بیمار کی بعد از آپریشن دیکھ بھال صحیح ہوئی۔ سرجن نے بعد از آپریشن بیمار کو دیکھا یا اسے جونیئرز کے سپرد کردیا۔ اور اسپتال کی انتظامیہ پر اندھا دُھند اعتماد کیا۔ مریض کو سرجری کے بعد جن نرسوں کی دیکھ بھال میں دیا گیا کیا وہ تربیت یافتہ تھیں۔ مریض کو جو دوائیاں مکمل صحت یابی کے لیے دی گئیں ان کی میعاد تو پوری نہیں ہوچکی تھی۔ سارے نکتوں کا ایک نکتہ کہ اس سرجن کا کیا کوئی اپنا ڈاکٹرائن ہے۔

آج اتوار ہے اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے اور ایک دوسرے سے بہت سے خیالات اور سوالات پر بات کرنے کا دن۔ اور نماز عصر کے بعد اپنے ہمسایوں ،محلے داروں سے حالات حاضرہ پر ایک دوسرے کے قیمتی تاثرات جاننے کا دن۔ یہ اتوار بہت اہم ہے۔ کیونکہ اگلا اتوار 8 فروری کے بعد آئے گا۔ جب تیر کمان سے نکل چکا ہوگا جب شیر اپنا شکار کرچکا ہوگا یا خود شکار ہوچکا ہوگا۔ اور دوسرے سینکڑوں نشان ٹھپّے کھاچکے ہوں گے۔

یہ تو پوری قوم کو، ہمارے پڑوسیوں کو، عالمی کھیل کے بازی گروں کو یقین ہوچکا ہے کہ پاکستانی ووٹرز میں اس وقت عمرانی شعور غضب کا ہے۔ گلیوں سڑکوں پر بھی اور اس سے کہیں زیادہ اسکرین پر اس شعور کا مظاہرہ ہورہا ہے۔ اکثریت کا ضمیر جاگ چکا ہے۔

ابھی درمیان میں تین دن اور تین راتیں ہیں۔ کئی گھنٹے، کئی سو منٹ، کئی ہزار سیکنڈ۔ سرجن کے انتخاب سے پہلے آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ بیمار کو کیا کیا عارضے لاحق ہیں اور ان کا آغاز کب سے ہوا۔

1۔ سب سے دیرینہ عارضہ کئی ہزار ارب روپے کے قرضے ہیں۔ جو ہر صورت میں ادا کرنے ہیں۔ اس کے لیے کونسا نشتر استعمال ہوگا۔2۔ مغربی اور مشرقی سرحدیں غیر محفوظ ہوگئی ہیں۔ 3۔ آئی ایم ایف کا شکنجہ بھی مریض کو اعصابی تنائو میں مبتلا رکھتا ہے۔4۔ دہشت گردی پوری طرح قابو میں نہیں ہے۔ جہاں خودکش بمبار تیار ہوتے ہیں۔ وہاں DeRadicalisation نہیں ہوسکی۔5۔ بجلی کی فراہمی مکمل نہیں ہے۔ مہنگی بھی ہوتی جارہی ہے۔6۔ گیس کی فراہمی اور پیداوار ضرورت سے بہت کم ہے۔7۔ بے روزگاری میں مسلسل اضافہ۔8۔ غربت کی لکیر سے نیچے جانے والوں کی تعداد 10 کروڑ کے قریب ہوگئی۔9۔ فی ایکڑ زرعی پیداوار بہت کم۔10۔ صنعتی پیداوار رُکی ہوئی ہے۔ ایکسپورٹس بہت کم ہوگئی ہیں۔11۔ 60 فیصد آبادی نوجوان ہے لیکن اس کی توانائیاں ملک کے کام میں لانے کی اسکیمیں نہیں بن سکی ہیں، وہ انتہائی مایوس ہیں۔12۔ تعلیم ایک تجارت بن چکی ہے۔ وہ معاشرے کی ذہانت میں اضافہ نہیں کررہی ہے۔13۔ جرائم کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔14۔ کرپشن چپراسی سے لے کر اعلیٰ ترین عہدے تک معمول بن چکی ہے۔15۔ پولیس جاگیرداروں، سرمایہ داروں، اداروں کی غلام ہے۔ 16۔ اعلیٰ اور ذیلی عدالتیں، انصاف سستا دے رہی ہیں نہ وقت پر۔17۔ بازار میں صارف لٹ رہے ہیں۔18۔ مکانات کے کرائے آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔19۔ نوکریاں نیلام ہوتی ہیں۔20۔ شہروں۔ قصبوں، دیہات میں آرام دہ ٹرانسپورٹ موجود نہیں ۔21۔ غریب کی سب سے پسندیدہ اور سہولت والی سواری ریلوے ناقابل اعتبار اورتکلیف دہ ہوچکی ہے۔ 22۔ عوام علاج کے لیے دربدر ہورہے ہیں، سرکاری اسپتالوں میں بد نظمی ہے، پرائیویٹ اسپتالوں میں سب کچھ نیلام کرنا پڑتا ہے۔23۔ وسائل اللہ تعالیٰ نے بے شُمار دیے ہیں مگر ہم انہیں اپنے استعمال میں نہیں لارہے۔ ریکوڈک ایک واضح مثال ہے۔ یہ کسی کی ترجیح نہیں ہے۔24۔ فرقہ پرستی اپنے عروج پر ہے۔ 25۔اقتصادی محرومیوں نے لسانی اور نسلی تعصبات کو ہوا دی ہے۔ 26۔ میرٹ کو مافیائوں، با اثر خاندانوں نے بڑے عہدوں پر متمکن افسروں نے پاکستان بدر کردیا ہے۔27۔ سرکاری ملازمت ہو یا پرائیویٹ، اب محفوظ نہیں ہے، کبھی بھی بلا وجہ نکال دیا جاتا ہے۔28۔ دریائوں کے میٹھے پانی کے لیے بڑے ڈیم لسانی تعصبات کی بنا پر نہیں بننے دیئے،پانی کا انتظام نا منصفانہ ہے۔ 29 ۔ زیادہ کمانے والے ٹیکس نہیں دیتے سارا ٹیکس تنخواہ داروں سے لیا جاتا ہے۔ 30۔ اخلاقی طور پر ہم پستیوں میں گر چکے ہیں۔ 31۔ اخبار، ٹیلی وژن چینل عوام کے جاننے کا حق ادا نہیں کررہے، آزاد نہیں ہیں۔32۔ سوشل میڈیا پر اطلاعات کے سیلاب ہیں بہت کچھ جھوٹ بھی ہے۔33۔پاکستانی پاسپورٹ اپنی قدر کھوچکا ہے۔34۔پاکستانی کرنسی غیر ملکی کرنسیوں کے مقابلے میں بہت گر چکی ہے۔

اپنی ناقص معلومات کی روشنی میں یہ چند چیلنج میں نے شُمار کیے ہیں۔ جو آنے والی یا لائی جانے والی حکومت کے لیے پہاڑ جیسے ہوں گے۔ سب سے کٹھن ذمہ داری ہوگی ریاست پر عوام کا اعتماد بحال کرنا۔ گزشتہ 38سال میں اور خاص طور پر پی ڈے ایم کے 16ماہ۔ پھر نگراں حکومت کے چند مہینوں میں یہ بھروسہ پارہ پارہ ہوچکا ہے۔ 8 فروری کی منتخب حکومت کے پاس کیا اس کا کوئی فوری اور طویل المیعاد منصوبہ ہوگا۔ کیونکہ اس اعتماد کے بعد ہی قدم آگے بڑھ سکیں گے۔ میدان میں موجود قیادتیں اپنا اعتبار بھی کھوچکی ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ان گزشتہ 38برسوں میں ریاست اور حکومت الگ الگ نہیں رہے ہیں، اقتدار میں برابر کی شریک رہی ہیں۔ ملک جن بیماریوں میں مبتلا ہوتا رہا ہے۔ ذمہ داری دونوں کی ہے۔

اعتماد کی بحالی کا راستہ صرف ایک ہی ہے۔ 8فروری کو ووٹرز کو اپنا ووٹ بلا روک ٹوک ڈالنے کی آزادی میسر ہو۔ جس سرجن کو اپنے لیے مسیحا سمجھیں ۔ اسے منتخب کرنے دیں۔

28/01/2024

8 فروری۔ سنہرے مستقبل کا دروازہ
محمود شام

ہمارا سنہرا مستقبل خود ہمارے در پر آیا تھا۔ ایک مہینے تک ہمارے دل اور ذہن پر دستک دیتا رہا۔ حکمرانوں، محافظوں، دانشوروں، صحافیوں، تجزیہ کاروں نے سردی کے مارے اپنے کان لپیٹ رکھے تھے۔

ہم اپنے بوسیدہ ماضی کو تو اربوں روپے خرچ کر کے ہزاروں میل دور سے اٹھاکر لاتے ہیں۔ لیکن اپنے آئندہ کو، جو خود چل کر دارُالحکومت پہنچتا ہے، ایک ماہ تک انتظار کرواکے بھی نہیں ملتے۔ ہم اپنے ماضی کی تزئین و آرائش میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ مستقبل کی جھلک دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ ہمارا مستقبل تربت سے سفر کرتا سینکڑوں میل دور اپنے ہم وطنوں سے یکجہتی کیلئے راجدھانی میں آتا ہے۔ راستے میں مختلف نسلوں ،مختلف زبانیں بولنے والوں نے، مختلف سیاسی جماعتوں کے پیروکاروں نے ان مائوں بہنوں بیٹیوں کی آنکھوں میں اُمید کی روشنی دیکھی تھی۔ چاہئے تو یہ تھا کہ وہ بھی اپنے مستقبل کے اس پُر امن کارواں میں شریک ہوجاتے۔ بلوچستان کی آبروئیں، عزتیں، خود داریاں پاکستان کی آبروئیں ہیں پاکستان کا وقار ہیں۔

ایک سنہرا موقع تھا۔ ساروان، جھاروان، پسنی، گوادر، مکران کے دل جیتنے کا۔ ہمیں خبر نہیں کہ اپنے مستقبل سے کیوں ڈرتے ہیں۔اپنے دوام سے خوف کیوں کھاتے ہیں۔ ہماری مائیں بہنیں بیٹیاں۔ اپنی حسرتیں۔ اپنے خواب واپس لے کر کوئٹہ پہنچ گئی ہیں۔ کوئٹہ میں ہزاروں طالب علموں ، جوانوں،درد مندوں نے ان کا استقبال کیا ہے۔ کیا دارُالحکومت میں کوئی غور کررہا ہے کہ یہ چاک داماں آپس میں ملے ہوں گے تو آنکھوں میں شکوے شکاتیوں کے کیا تبادلے ہوئے ہوں گے۔ اسلام آباد سے کوئی اقرا۔ کوئی فرمان لیے بغیر واپسی کے بلوچستان کی نئی نسل پر کیا تاثرات مرتب ہوں گے۔14اگست 1947کو بھی ہزاروں شہیدوں کی قربانیوں سے پیدا ہونے والے مستقبل نے ہمارے ایک اک در پر دستک دی تھی۔ لیکن ماضی کی جاگیروں، زمینوں، حویلیوں، ڈیروں، اوطاقوں، رتبوں، خانقاہوں، پگڑیوں نے مل کر مستقبل کو ہمارے دلوں ذہنوں اور روحوں میں داخل نہیں ہونے دیا۔1948میں ہمارا جوان مستقبل سرحدوں پر شہادتیں گلے سے لگاتا رہا۔ دارُالحکومت کراچی بھی اسی طرح مستقبل کو بازوئوں میں لینے سے انکار کرنا چاہ رہا تھا۔ ہم اپنی انائوں کے قلعے میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ سنہرا ریشہ ہمیں آواز دیتا رہا۔ ناریل کی خوشبوئیں ہمارا تعاقب کرتی رہیں۔ لیکن ہم ماضی کے مزاروں پر چادریں چڑھاتے رہے ہیں۔7دسمبر1970 کو مغربی اور مشرقی پاکستان کے باشعور انسانوں نے اپنے ضمیر کھول کر رکھ دیئے۔ ایک مستحکم مستقبل کے شگوفے پھوٹے۔ ہم نے اس آئندہ کو دھتکار دیا۔ مارچ 1971میں قومی اسمبلی ڈھاکا کی بلڈنگ کے دروازے نہیں بلکہ ایک درخشاں مستقبل کے دروازے بند کیے گئے۔ آنے والی بہاروں کے رستے میں ناکے کھڑے کرکے ہمیں کیا ملا۔ پاکستانیوں کے ہاتھوں پاکستانیوں کی ہلاکتیں۔ ازلی دشمن بھارت کی وزیر اعظم کا طعنہ کہ ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا۔

آج اتوار ہے اپنے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے کے لمحات۔ جو کچھ ہم پر بیت رہی ہے۔ اس پر تبادلۂ خیال۔ اتوار کی سہ پہر عصر کی نماز کے بعد میں تو یہ گزارش بھی کرتا ہوں کہ ہم محلے والوں سے بھی آپس میں ملیں۔ اپنے مستقبل کی تعمیر کریں۔ ماضی کی غلطیوں کی اصلاح کریں۔

خطائیں کسی کی بھی ہوں۔ افراد کی، فیصلہ سازوں کی، حکمرانوں کی۔ سیاسی قیادت کی، فوجی قیادت کی۔ ان کی سزا ایک ریاست کے سارے انسانوں، ساری وحدتوں، سارے انتخابی حلقوں کو بھگتنا پڑتی ہے۔ ریاست کی غلطیوں پر تبادلۂ خیال سے ہی مستقبل کی طرف پیشقدمی ہوتی ہے۔ ماضی قریب ہو یا ماضی بعید۔ اس کی تطہیر سے ہی روشن مستقبل جنم لیتا ہے۔ ہم تو اپنے مستقبل کو پھانسیاں بھی دیتے آئے ہیں۔ ہمارا مستقبل۔ ہمارے نوجوان 1971-1965کی باقاعدہ جنگوں میں، سرحدی جھڑپوں میں، دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ہم سے بچھڑتے رہے۔ انہوں نے اپنی چمکتی جوانیاں اس لیے اس دھرتی پر قربان نہیں کی تھیں کہ ہم اپنے بوسیدہ گزشتہ کو ہی اپنی منزل سمجھتے رہیں۔

اب 8فروری پھر ایک تابندہ مستقبل کے امکانات لے کر آرہی ہے۔ آج صرف ڈیڑھ ہفتہ رہ گیا ہے ۔ واہگہ سے گوادر تک کروڑوں بالغ افراد کو مستقبل کی چابی ہاتھ میں ملنے والی ہے۔ اندھیرے پھر اس کوشش میں ہیں کہ اجالوں کو اس مملکت میں اترنے نہ دیں۔ عدل، سلامتی، انتظام، انصرام، جہانبانی کے ایوانوں پر لرزہ طاری ہے۔ 5سال سے خوف آرہا ہے۔ صبح آزادیٔ کامل جس کیلئے ہمارے بزرگ ترستے رہے۔ اس کا راستہ پھر روکنے کی مساعی جاری ہے۔آنے والا وقت چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ آرزوئیں، تمنّائیں،امنگیں،آشائیں قتل نہیں کی جاسکتیں۔ وہ زخم زخم تو ہوجاتی ہیں لیکن دم نہیں توڑتیں۔

سندھو ندی کے دونوں کناروں پر آباد گلگت سے کیماڑی تک یہ حسین وادی۔ جسے ہم پاکستان کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسے باہمت جفاکش 25 کروڑ انسان دیئے ہیں۔ اس کے پہاڑوں میں سونا ہے۔ تانبا ہے۔ قیمتی پتھر ہیں۔ اس کی مٹی میں آئندہ برسوں کا اناج ہے۔ اس کے دریائوں میں میٹھے پانی کی صدیاں ہیں۔ اس کے سمندر کی تہوں میں قیمتی معدنیات ہیں۔ اس کی 60فی صد آبادی نوجوان ہے۔ ہمارے پاس کروڑوں توانا دست و بازو ہیں۔ قدرت کی یہ بے حساب نعمتیں چند گھرانوں کے قبضے میں نہیں رہنی چاہئیں۔

اب زندہ شعور اور ادراک کو نئی ٹیکنالوجی نے اور زیادہ متحرک کردیا ہے۔ ہمارے محنت کش پیداواری وسائل کو نئے نئے ٹیکنیکل آلات سے استعمال کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ہماری تہذیب ماضی میں بھی مستقبل کی بنیاد رکھتی رہی ہے۔ ہمارے میلوں میل پھیلے ہوئے وسیع رقبے ہماری بھوک مٹاتے آرہے ہیں۔ ہم ان زمینوں میں بھی مستقبل اگانے کی بجائے۔ گئے دنوں کی کاشت کرنا چاہتے ہیں۔ بوڑھے درختوں کو دوسرے شہروں ملکوں سے اٹھاکر دارُالحکومتوں میں نصب کرنا چاہتے ہیں۔ زمین انہیں قبول کرنے سے انکار کرتی ہے۔ دنیا مصنوعی ذہانت مستقبل کیلئے ایجاد کرتی ہے۔ ہم اپنی اصل ذہانت سے ماضی کو واپس لاتے ہیں۔اکیسویں صدی معلوم کا زمانہ ہے۔ نامعلوم کی گنجائش نہیں ہے۔ اب ملکوں کو پتہ چاہئے۔ لاپتہ نہیں۔ درمیان میں خلا آ جائے تو مستقبل یا کمپیوٹر آگے بڑھنے سے انکار کر دیتا ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی۔ پورے وطن سے یکجہتی ڈھونڈنے آئی تھی۔ آئیں 8فروری کو پاکستان کو یکجہتی میں ڈھال دیں۔

8فروری 2024 ۔ یقیناً ایک فیصلہ کن دن ہو گا۔ گزشتہ چند ماہ میں بہت نا انصافیاں ہوئی ہیں۔ بہت مظالم ڈھائے گئے ہیں۔ انتشار، افراتفری کا دور دورہ ہے۔ اس بحرانی اور طوفانی حالات سے 8فروری ہمیں اسی صورت میں نکال سکتی ہے کہ بلوچستان ہو یا سندھ۔ پنجاب ہو یا کے پی کے۔ بیلٹ بکس میں ووٹ ڈالتے وقت ہر ووٹر اپنے ضمیر کی آواز سنے۔ کسی دبائو میں یا لالچ میں نہ آئے۔

26/06/2023

سرائیکی وسیب کے عشاقِ حرف
محمود شام
6؍ذوالحجہ 1444ھ25؍جون 2023ء

’’اے خدا ہمارا تیرے سوا اور کون ہے؟ تو ہی مارتابھی ہے۔ اور مردوں کو زندہ بھی کرتا ہے۔ جہاں بپھرے طوفان اٹھتے ہیں اور تند بھنورپڑتے ہیں۔ وہاں سے تو ہی پار لگاتا ہے۔ جہاں جہاز بادمخالف کے تھپیڑوں سے لرزتے ہیں۔ وہاں تو ہی انہیں ساحلِ سلامتی تک پہنچاتا ہے۔ یہ عاجز بندہ تجھ سے کیا مانگے۔ سب کچھ دینے والا تو ہی ہے۔ یہ حیدر تو مانگنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتا۔ تو خود ہی مانگنے کی توفیق دیتا ہے اور عطا کرتا ہے۔(نامور سرائیکی شاعر ۔ علی حیدر۔ وحدت افکار۔ علاقائی زبانوں کے قدیم و جدید شعری ادب کا انتخاب۔ ناشر کا نام نہیں لکھا۔)

میں ممنون ہوں ۔ سندھی شعر و ادب کے دلدادگان کا۔ پھر سرائیکی وسیب کے عشاق ِحرف کا۔ واہگہ سے گوادر تک مختلف زبانیں بولنے والے۔ صدیوں سے اپنی اپنی لسانی وادیوں میں رہنے والے۔ بہت ہی پیار کرنے والے لوگ ہیں۔ ان سے محبت کرو تو یہ دوگنی محبت دیتے ہیں۔ لیکن انہیں نظر انداز کریں تو یہ روٹھ جاتے ہیں۔ انہیں ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہئے۔ انکا انتقام جغرافیے کے انتقام سے بھی خطرناک ہوتا ہے۔

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں سے ملنے۔ سوالات کے جوابات دینے کا دن۔ سوال کرنا ہر ایک کا حق ہے۔ جواب دینا ہم سب کا فرض ہے۔ جن کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا جو دل سے جانتے ہیں کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ وہ جواب دینے کے بجائے صحافی کے چہرے پر تھپڑ جڑ دیتے ہیں۔ یہ رُسوائی پھر ان کا تعاقب عمر بھر کرتی ہے۔ آج ہم حسب وعدہ سرائیکی شاعروں افسانہ نویسوں ۔ ناول نگاروں۔ دانشوروں کا قرض چکانے کی کوشش کریں گے۔ ہماری ان قومی زبانوں میں جو ادب تخلیق ہورہا ہے۔ وہ ہر حوالے سے معیاری آفاقی ادب ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ منتخب کہانیوں۔ نظموں۔ ناولوں کے تراجم معیاری انگریزی میں کروائے اور انہیں عالمی ادبی ایوارڈزکیلئے بھجوائے۔ چند سو الفاظ پر مشتمل کالم میں ان تخلیقی کوششوں کے تعارف کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔تونسہ کو اگر ’منی یونان‘ کہا جاتا ہے۔ تو لیّہ کی ادبی خدمات بھی بہت سے ضلعوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ انبالہ میں ہماری ملاقات مہندر پرتاب چاند سے ہوئی تھی۔ وہ لیّہ کو یاد کرتے ہیں۔

’وحدت افکار‘ بڑے سائز کے700 صفحات پر مشتمل ہے۔سرکاری پیشکش ہے۔ کہیں محکمے کا نام لکھا ہے اور نہ سال طباعت۔ لیکن بہت اہم کام ہے۔ مندرجات میں وحدت افکار۔ عقیدت۔ تصوّف۔ اسلامی اقدار اور وطن کی محبت نمایاں ہیں۔ اس میں پنجابی۔ سرائیکی۔ پشتو۔ براہوی۔ بلوچی زبانوں میں لکھنے والے شعراء کا کلام اُردو ترجمے کے ساتھ دیا گیا ہے۔ اقبال سوکڑی کہتے ہیں ’’ اپنے ہاتھ میں اپنی قسمت ہے۔ اپنے ہی ہاتھ میں اپنی تقدیر ہے۔ اپنی سر زمین اتنی میٹھی ہے جس طرح ماں کا دودھ میٹھا ہوتا ہے۔‘‘ اللہ بخش یاد کی سطریں ملاحظہ ہوں: ’’ملک کی راہ میں پھیلے ہوئے کانٹوں کو اپنی پلکوں سے جھاڑو دے کر صاف کریں۔ آئو ملک کی شان شوکت کی تعمیر کریں۔‘‘ اس ضخیم کتاب میں سرائیکی شعراء میں غضنفر مہدی، صدیق ظاہر رحیم، ڈاکٹر مہر عبدالحق، ارشد ملتانی، اقبال سوکڑی، کریم بخش جام پورہ، گفتار خیالی، دلدار بلوچ، فائق ملتانی،اللہ بخش یاد ، عبدالکریم، فقیر، اسد ملتانی، شیخ عبداللہ، غلام فقیر، رشید عثمانی، حسن رضا گردیزی، گل محمد عاشق ملتانی، بہار ملتانی، دائی پھاپھل حفظان کا کلام ملتا ہے۔ اُردو ہماری وفاقی زبان ہے۔ ہم ایک دوسرے کے اعلیٰ ادب کو اُردو کے ذریعے ہی جان سکتے ہیں۔

اکادمی ادبیات پاکستان کی ایک اہم تالیف ’پاکستانی زبانیں اور بولیاں‘ بھی ان ہماری کاوشوں میں بہت معاون رہی ہے۔ ڈاکٹر منظور علی ویسریو نے پاکستان کے گلدستے میں 80زبانوں اور بولیوں کی خوشبو شامل کردی ہے۔ اس پر بھی کسی وقت بات کریں گے۔ ہر زبان سے ہم اندازہ کرسکتے ہیں کونسا علاقہ کتنا مہذب کتنا متمدن ہے۔ سرائیکی زبان کی قدامت انہوں نے کئی ہزار سال پہلے تک تلاش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں جدید شعری روایت میں دوہڑے، کافی، گیت، نظم، آزاد نظم، پابند نظم، غزل ہائیکو میں شعرا اپنے خیال کا اظہار کررہے ہیں۔ یہاں ہمیں اقبال بانو، سہر رومانی، نصر اللہ خان ناصر، ممتاز حیدر ڈائر، دلشاد کلانچوی،سعید اختر،طاہر شیرازی، ابرار عقیل، گل عباس، عصمت اللہ شاہ کے مزید نام ملتے ہیں۔

شروع میں کچھ احباب نے مایوسی ظاہر کی تھی کہ سرائیکی میں پڑھنے والے کم ہیں۔ لیکن جوں جوں میرے رابطے ہورہے ہیں۔ تو مایوسی چھٹ رہی ہے۔ ہمارے نوجوان اسمارٹ فون کی الفت میں گم ہونے کے باوجود کتاب سے رشتہ نہیں توڑ رہے ہیں۔ سرائیکی میں شاعری زیادہ پڑھی جاتی ہے۔ مخمور قلندری، مومن مولائی، منشو بھٹہ سر فہرست ہیں۔ رفعت عباس اور اشو لال نے نئی نسل کو بہت متاثر کیا ہے۔ رومانی شاعری میں تہذیب حافی اورعمیر نجمی بھی سنے جارہے ہیں۔ حفیظ خان کا نیا ناول ’’مرما جیون دی‘‘ پسند کیا جارہا ہے۔ جعفر عباس بزدار کی سائنسی حوالے سے تصنیف ’کائنات دا سفر‘ کی مقبولیت نئی سرائیکی نسل کی سنجیدگی کی گواہی دیتی ہے۔ پرویز منیر کی ’تھل دی مونجھی ریت‘ ظفر حسین ظفر فریدی کی ’عشق دے پندھ‘۔ شاکرمہروی کی ’دوہڑے‘ بھی نوجوانوں کے ہاتھوں میں دکھائی دیتی ہے۔

ابھی ایک نوجوان رانا عبدالرب سے لیہ کے حوالے سے رابطہ ہوا۔ وہ ’جنگ‘ اخبار بچپن سے پڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے ہماری معلومات میں اضافہ کیا کہ مہر عبدالحق سمرا نے قرآن مجید کا ترجمہ سرائیکی میں کیا ہے۔ ڈاکٹرخیال امروہوی نے لیّہ میں ادب کی مشعلیں روشن رکھیں۔ نسیم لیّہ، شہباز نقوی،ڈاکٹر افتخار بیگ،شفقت بزدار، احسن بٹ، ریاض راہی، رئوف کلاسرا، مہر اختر وہاب، ارمان عثمانی، طاہرہ امان، کاشف مجید، خضر کلاسرا،شاکر کاشف، جسارت خیالی،جمشید ساحل،احمد اعجاز، ناصر ملک، یونس بزدار، ایم بی راشد، حسرت خان، عارش گیلانی، شعیب بخاری، ظفر عدم، منشو بھٹہ،ڈاکٹر گل عباس اعوان، ڈاکٹر مزمل حسین، ڈاکٹر حمید الفت ملغانی نے ادب اور ثقافت کیلئےتخلیقی اور تحقیقی جدو جہد کی ہے۔

’جنگ‘ کے قارئین اپنی قومی زبانوں کے ادب میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ میں ان کا بھی شکر گزار ہوں۔ ’پاکستان میں کیا پڑھا جارہا ہے‘ کا یہ سلسلہ اس لیے سنجیدہ مطالعے اور تحقیق کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے مستقبل کے بارے میں جائزہ اس حوالے سے لے سکتے ہیں۔ عام طور پر کہا جارہا ہے کہ کتاب کا وقت گزر گیا۔ اخبارات جلد ہی قصۂ پارینہ ہوجائیں گے۔ اصل ضروری عنصر ہے حرف، عبارت، متن، اس کی ضرورت پرنٹ میں بھی ہے۔ ڈیجیٹل میں بھی۔ حرف انسان کی انفرادیت ہے۔ حرف تہذیب کی بنیاد ہے۔ اب ہماری اگلی منزل ہے۔ ’پنجابی میں کیا پڑھا جارہا ہے‘۔ پنجاب ہزاروں سال سے حرف کا ترنجن ہے۔

26/06/2023
Want your public figure to be the top-listed Public Figure in Karachi?
Click here to claim your Sponsored Listing.

Category

Address

Karachi
75300