Eastern Medicines Clinic KDA Kohat
I am a Herbal Physician, treat patients with Herbal/Natural Medicines. Nature better know the Nature. So we treat nature with Natural.
My specialities are in...
Male Infertility, Hyper and hyposexuality, Piles, Cholilithiasis, Nephrolithiasis, Cystitis, Gynaecological disorders etc
Important
Ajowan seeds
Plant number 53
There languages studies
English name... Ajowan seeds
Latin name.. Trachyspermum Ammi
Arabic name... کمون ملوکی
Persian name... نانخواہ
اردو۔۔۔
نام۔۔۔ اجوائن دیسی
کابل استعمال حصے۔۔۔
پھل، تخم، آئل، پھول اور سے اجوائن
کیمائی اجزاء۔۔۔
Essential volatile oil, thymol and carvacrol, tannin, saponin etc
استعمال۔۔۔
ہاضم، کاسر ریاخ، دافع تشنج، دافع تعفن، قاتل کرم شکم، قولنج
Parts used...
Fruits, seeds, oil, Thymol
Chemical constituents...
Essential volatile oil, thymol and carvacrol, tannin, saponin etc
Uses...
Digestive, Carminative, anti spasmodic, Anti septic, anti helmentic
Hangu Township PHA KP HANGU SUCH news group ھنگو سچ نیوز گروپ kohat news Kohat Online News Kohat ki Awaz Kohat city Kohat Press News Kohat News ARABIC HERBAL MEDICINES Arabic natural herbal research joint clinic Arabic calligraphy Arabic is very easy Kurram News PK
When it comes to sweeteners, not all are created equal. Let's dive into the differences between honey and sugar and see why Khalistan Beri Honey is the healthier choice:
1. Nutritional Value:
Honey: Packed with vitamins, minerals, and antioxidants, honey provides more than just sweetness. It contains small amounts of vitamins B2, B3, B5, B6, and C, along with calcium, iron, magnesium, potassium, and zinc.
Sugar: Refined sugar offers no nutritional benefits. It's often referred to as "empty calories" because it provides energy without any essential nutrients.
2. Glycemic Index:
Honey: With a lower glycemic index (GI) than sugar, honey causes a slower rise in blood sugar levels, making it a better choice for maintaining steady energy levels.
Sugar: High on the glycemic index, sugar causes rapid spikes and crashes in blood sugar, which can lead to energy slumps and cravings.
3. Antimicrobial Properties:
Honey: Natural honey, especially raw honey like Khalistan Beri Honey, has antimicrobial and anti-inflammatory properties, making it beneficial for soothing sore throats and aiding in wound healing.
Sugar: Lacks any antimicrobial properties and can even contribute to inflammation in the body.
4. Digestive Health:
Honey: Contains prebiotics, which nourish the good bacteria in your gut and support digestive health.
Sugar: Can disrupt the balance of bacteria in the gut, leading to digestive issues.
Copy
مانع حمل طریقے اور ان کے اثرات۔۔۔
پیدائش میں وقفہ نہ صرف ماں کی صحت بلکہ پہلے بچے کی مناسب دیکھ بھال اور پرورش کے لیے بھی ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ مانع حمل طریقے خاتون کی عمومی صحت، عمر، کسی خاص مرض یا ضرورت کے مطابق ڈاکٹر کے مشورے سے استعمال کیے جاتے ہیں۔
مانع حمل ادویات۔۔۔۔
اولاد میں وقفے کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والا طریقہ مانع حمل ادویات ہیں۔ یہ دو ہارمونز ایسٹروجن اور پروجیسٹیرون پر مشتمل ہوتی ہیں۔ یہ دو قسم (سبز اور بھوری) کی گولیوں کی شکل میں دستیاب ہوتی ہیں۔
ہائی بلڈ پریشر اور امراض قلب میں مبتلا خواتین کے لیے ان کا استعمال نقصان دہ ہوتا ہے۔ جن خواتین کو آدھے سر کے درد کی شکایت ہوتی ہے، ان کی تکلیف مانع حمل ادویات کے استعمال سے بڑھ جاتی ہے۔ اس کی علاوہ بعض خواتین میں ذہنی و اعصابی تناؤ میں اضافہ ہو جاتا ہے اور انہیں ازدواجی تعلق میں کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔
ان ادویات کے استعمال سے خواتین کو تھکاوٹ اور وزن بڑھنے کی شکایت ہو سکتی ہے۔ پیٹ میں درد اور موڈ میں اتار چڑھاؤ کے ساتھ اکثر اوقات متلی کا احساس بھی ہوتا ہے۔ یہ گولیاں چونکہ ڈاکٹری نسخے کے بغیر بھی دستیاب ہوتی ہیں لہٰذا انہیں لیبارٹری ٹیسٹ اور ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر ہی استعمال کر لیا جاتا ہے۔ ان کے استعمال سے مذکورہ بالا مسائل میں سے کوئی مسئلہ ہو تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔
انجیکشن۔۔۔
وہ خواتین جو اپنی ادویات کے اوقات کی پابندی نہیں کر سکتیں انہیں عموماً انجیکشن تجویز کیے جاتے ہیں۔ یہ مہینے میں ایک بار یا تین مہینے میں ایک بار لگائے جاتے ہیں۔ ان کا فائدہ یہ ہے کہ آپ کو کچھ یاد رکھنا یا کھانا نہیں پڑتا۔
مانع حمل انجیکشن کے منفی اثرات میں ماہواری متاثر یا بند ہونا اور ہڈیوں کی کمزوری شامل ہیں۔ اس کی بڑی وجہ ایک وقت میں ہارمونز کی زیادہ مقدار کا جسم میں داخل ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ انجیکشن طویل عرصے تک تجویز نہیں کیے جاتے۔ جو خواتین یہ آپشن استعمال کرنا چاہیں، ان کے جسم میں وٹامن ڈی اور کیلشیم کی مناسب مقدار ضروری ہے لہٰذا ان کا ٹیسٹ کرائیں۔
مانع حمل کیپسول۔۔۔۔
مانع حمل کیپسول کو خاتون کے بازو کے اوپری حصے میں چھوٹا سا کٹ لگا کر رکھ دیا جاتا ہے۔ ان سے حمل روکنے والے ہارمونز خارج ہوتے رہتے ہیں۔ یہ بچے کی پیدائش میں وقفے کے لیے مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہ طریقہ بالکل تکلیف دہ نہیں اورخواتین جب چاہیں اسے نکلوا سکتی ہیں۔
آئی یو ڈی کے جدید طریقے۔۔۔۔
رحم مادر کے اندر رکھے جانے والا مستقل مانع حمل آلہ طب کی زبان میں آئی یو ڈی (intrauterine device) کہلاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے استعمال ہونے والے آلات میں کاپر ٹی (Copper T)، ملٹی لوڈ (Multiload) اور مائیرینا (Mirena) شامل ہیں۔ کاپر ٹی اور ملٹی لوڈ سادہ، سستے اور مارکیٹ میں آسانی سے دستیاب ہوتے ہیں۔ یہ پانچ سال تک کا وقفہ دینے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
حاملہ خواتین ان آلات کو زچگی کے 40 دن بعد رکھوا سکتی ہیں۔ کچھ خواتین کو کاپر ٹی اور ملٹی لوڈ کے استعمال سے انفیکشن کے امکانات ہوتے ہیں یا ان کے ماہواری زیادہ طویل ہو جاتی ہے۔ بالعموم یہ محفوظ ہیں اور مندجہ بالا مسائل کی بڑی وجہ انہیں ٹھیک طرح سے نہ رکھنا ہوتا ہے۔ خواتین اپنی صفائی کا خیال رکھیں (جن میں صاف کپڑے، پیڈ اور صاف پانی کا استعمال شامل ہے)، شرم گاہ پر جراثیم کش ادویات، سپرے یا خوشبودار صابن کے استعمال سے پرہیز کریں تو انفیکشن کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔
جدید اور سب سے زیادہ محفوظ مانع حمل آلہ مائیرینا ہے۔ یہ تھوڑا مہنگا ضرور ہے لیکن بچوں کی پیدائش میں وقفے کے علاوہ خواتین کی تولیدی صحت سے متعلق مسائل مثلاً ماہواری کے دوران خون زیادہ بہنے وغیرہ کے حل میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔
مائیرینا کے مؤثر رہنے کی مدت سات سال تک ہے اور خواتین جب چاہیں اسے نکلوا بھی سکتی ہیں۔ اسے حمل روکنے کا قابل منسوخ مستقل طریقہ (Reversible permanent method) بھی کہا جا سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ حمل کے امکانات کو تقریباً ختم ہی کر دیتا ہے۔
حمل روکنے کا فطری طریقہ
٭ بچے کو اپنا دودھ پلانا حمل روکنے کا فطری طریقہ ہے۔ کچھ بنیادی شرائط پر عمل کر لیا جائے تو یہ زچگی کے فوراً بعد پہلے چھ ماہ تک کے عرصے کے لیے حمل روکنے کا مؤثر طریقہ ہے۔ اس کے ضمنی اثرات نہیں ہوتے بلکہ ماں اور بچے دونوں کی صحت پر مثبت اثرات ہوتے ہیں۔ چھ ماہ گزر چکے ہوں تو ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق حمل روکنے کے لیے کوئی مفید طریقہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔
٭ ماہواری کے 12ویں سے 15ویں دن تک ازدواجی تعلق سے پرہیز کریں۔ تاہم یاد رکھیں کہ اس کے باوجود حمل ٹھہرنے کے امکانات کو 100 فی صد ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اخراج بیضہ (ovulation) کے دن تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
٭ آخری اور حتمی طریقہ آپریشن ہے جو بچے کی پیدائش کو روکنے کا مستقل حل ہے۔ اس میں سرجری کی مدد سے بیضہ دانی کی نالیوں کو بند کر دیا جاتا ہے جنہیں دوبارہ کھولا نہیں جا سکتا۔
مانع حمل طریقوں کے منفی اثرات ہوں تو وہ وقتی ہوتے ہیں اور ان کا استعمال بند کرتے ہی جسمانی نظام معمول پر آ جاتا ہے۔اگر پیدائش میں وقفے سے متعلق کوئی ابہام ہو تو گائناکالوجسٹ سے رابطہ کریں۔
مانع حمل ادویات ، طریقوں سے متعلق کوئی بھی سوال آپ پوچھ سکتے ہیں
شکریہ
والسلام
ڈاکٹر شاہد عرفان
Thanks to Almighty Allah pak for giving me this honor
Be patience.
ایسٹرن میڈیسن کی دور جدید میں اہمیت:
جیساکہ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ دنیاکا طبی نظام کافی مسلم و غیر مسلم سائنسدانوں اور معالجوں کی مرہون منت ہے۔ اور تقریباًآٹھویں سے دسویں صدی کے وسط میں ابن سینا نے طبی نظام میں انقلاب برپا کردیا اور ابن سینا کو مغربی/یونانی طب میں ماڈرن میڈیسن کا بانی ماناجاتا ہے چونکہ ماڈرن میڈیسن (اناٹومی، فزیالوجی، پیتھالوجی، فارماکولوجی وغیرہ) اسی ہی کے فلسفے کی بنیاد پر وجود میں آئیں۔اور اسکے مطابق دور حاضر کے مطابق وسائل اور ایجادات کو بروئے کار لاتے ہوئے تشخیص کی جائے اور اس طرح کی ادویات مرض کے علاج کے لیے دی جائیں جوکہ تجربہ شدہ اور مضراثرات سے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ تشخیص شدہ بیماری کے لئے زیادہ سے زیادہ فائدہ مند ہو۔اور اسی طرح انیسویں صدی سے ابتک طبی نظام میں بہت ہی زیادہ تحقیق ہوئی ہے۔
بنی نوع انسان کی تخلیق قرآن مجید کےمطابق بنیادی طور پر مٹی اور پانی سے ہی وجود میں آئی ہے۔ اور ساتھ ہی غور وفکر(Research) کی بھی دعوت دی گئی ہے۔
یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ حکیم سعید کی بیچلر آف ایسٹرن میڈیسن اینڈ سرجری کی ڈگری کاوشوں کا ثمر ہے جسکی سب سے بڑی وجہ پاکستان کے طبی نظام کو جدید تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کرنا تھا اور پاکستان کا اپنا نظام ایسٹرن میڈیسن کے نام سے ہی متعارف کروانا تھا۔اور حکیم اجمل خان نے کیمیائی اجزاء چھوٹی چندن سے علیحدہ کروایا تاکہ یونانی میڈیسن میں تحقیق کے بند دروازے کھولے جاسکیں-اور اس کے ساتھ ہی تمام جدید میڈیسن یونانی فارماکوپیا کاحصہ رہی ہیں۔اس سے واضح ہے کہ طب کا بقاء ہی تحقیق پر مبنی ہے اوراسکا بنیادی مقصد بدلتے ہوئے وقت کے مطابق جدید آلات اور ادویات کی کمی کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ نئی تشخیص ہونے والی بیماریوں پر قابو پا جاسکے۔اسی طرح بیچلر آف ایسٹرن میڈیسن اینڈ سرجری کے گریجویٹس ایم۔ایس/ایم۔فل اور پی۔ایچ۔ڈی کرنے کے بعد مختلف ممالک میں سائنسدانوں کے طور پر ان کی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ اگر اسی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ گریجویٹس پاکستان کے طبی نظام میں جدت لاکر پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل کر سکتے ہیں۔
اگر طبی پس منظر کو دیکھا جائے تو یونان سے جو طبی نظام میں انقلاب برپا ہوا اور پوری دنیا نے اس سے استفادہ اٹھاتے ہوئے اپنے طبی نظام کو وجود بخشا۔ اسی طرح دنیا میں موجود ہر ملک ہی اپنا روائتی طبی نظام کو جدت کے اس دور میں یکساں کر چکا ہے چونکہ اب تمام ممالک کے روائتی طبی ماہرین تقریباً ایک ہی جیسی میڈیسن استعمال کر رہے ہیں۔ جیساکہ کیمیکل ادویاتی/غذائی اجزاء، ہارمونز، منرلز، انزائیمز وغیرہ۔ چائینیز، یونانی، جیپنیز، اور کورین میڈیسن میں ایک جیسی ہی استعمال ہو رہی ہیں۔کیونکہ جدت کے اس دور میں یہ واضح ہو چکا ہے کہ یہی ادویات ہی کسی بیماری کے علاج کے لیے اثر رکھتی ہیں۔
پاکستانی طبی نظام
جیساکہ علاج ومعالجہ کاکام دنیا کے وجود سے ہی شروع ہوا اور ان دنوں طبی تعلیمی نظام موجود نہ تھا اور ذاتی تجربات کی بناء پر علامات کو دیکھ کر علاج کیا جاتا تھا۔
دنیاکا طبی نظام کافی مسلم و غیر مسلم سائنسدانوں اور معالجوں کی مرہون منت ہے۔ اور تقریباً دسویں صدی میں ابن سینا نے طبی نظام میں انقلاب برپا کردیا اور ابن سینا کو مغربی طب میں ماڈرن میڈیسن کا بانی ماناجاتا ہے چونکہ ماڈرن میڈیسن (اناٹومی، فزیالوجی، پیتھالوجی، فارماکولوجی وغیرہ) اسی ہی کے فلسفے کی بنیاد پر وجود میں آئیں۔اورابن سینا کی کتاب القانون فی طب(Cannon of Medicine) میڈیکل کے سلیبس میں شامل ہے۔اسکے مطابق دور حاضر کے مطابق وسائل اور ایجادات کو بروئے کار لاتے ہوئے تشخیص کی جائے اور اس طرح کی ادویات مرض کے علاج کے لیے دی جائیں جوکہ تجربہ شدہ اور مضراثرات سے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ تشخیص شدہ بیماری کے لئے زیادہ سے زیادہ فائدہ مند ہو۔بنی نوع انسان کی تخلیق قرآن مجید کےمطابق بنیادی طور پر مٹی اور پانی سے ہی وجود میں آئی ہے۔ اور ساتھ ہی غور وفکر(Research) کی بھی دعوت دی گئی ہے۔ اور اس ہی طرح سائنسی اعتبار سے انسانی جسم 99٪ ہائیڈروجن، آکسیجن، کاربن،نائیٹروجن، کیلشیم، فاسفورس اور 1٪ پوٹاشیم، سوڈیم، میگنیشیم، آئرن، زنک وغیرہ سے بناہواہے۔ اور یہ تمام کے تمام عناصر پانی اور مٹی میں پائے جاتے ہیں۔ اور انہیں عناصر کی وجہ سے ہی انسانی جسم میں بڑے(پروٹین، لحمیات وغیرہ)اور چھوٹے مالیکیولز (گلوکوز، پانی وغیرہ) بنتے ہیں۔تو اس سے واضح ثابت ہوتا ہے کہ انسانی جسم کی بناوٹ، مزاج، مرض کا ہونا اور اسکاعلاج کمیائی تبدیلیوں کی وجہ سے ہے۔ اوریہی طب(میڈیکل سائنسز)کی بنیاد ہے۔جس کی مرہون منت سائنسدان نت نئے بیماریوں کے علاج کے طریقے دریافت کررہے ہیں۔
تحریر
فزیشن سعدانور
بیچلر آف ایسٹرن میڈیسن اینڈ سرجری، ایم۔فل( امیونولوجی)
Kohat Online News kohat news Kohat city Kohat Teachers KPK Kohat News HD Kohat Ki Baat Eastern Medicines Clinic KDA Kohat Kohat ki Awaz Lachi Buy and Sale ◀▶ لاچی خرید و فروخت DHQ Teaching Hospital KDA Kohat. DHQ Teaching Hospital KDA Kohat BEMS Students Club IUB BEMS Scholarships Forum BEMS Rights Association Arabic natural herbal research joint clinic ARABIC HERBAL MEDICINES Arabic is very easy
پھر کہتے ہیں شوگر کیوں ہوتی ہے۔۔۔۔۔
"لسی کی جگہ پیپسی نے لے لی
دودھ کی جگہ چینی سے بھرپور جوس کا ڈبہ آ گیا جسے مایئں فیڈر میں ڈال کر بھی شیر خواروں کو دینے لگی ہیں
باسی روٹی کے مکھن لگے رول یعنی گھگھو کی جگہ چکن رول آ گیا ہے
تازے ٹماٹر اور مرچ کی چٹنی کی جگہ کیمکل سے محفوظ کی گئی کیچپ اور چلی ساس آ گئی ہے
سلاد پر لیموں کی جگہ سنتھٹک سرکہ آ گیا ہے
میووں کشمش سے بھرپور پنجیریوں السی کی پنیوں تل کے لڈووں کی جگہ کیک پیسٹریوں اور میدے کے کیک رسوں نے لے لی ہے
جب سے وائی بادی یورک ایسڈ بن گیا اور اجوایئن سونڈھ ادرک کی جگہ زائلورک گولی آ گئی ہے
چکی کے آٹے کی جگہ میدہ نما تھیلی کے آٹے نے لے لی کیونکہ چکی کے آٹے کی روٹی مزیدار نہیں لگتی اور پراٹھے مزے کے نہیں بنتے
اب باجرے کی مسی روٹی کوئی لسی کے ساتھ نہیں کھاتا
اب گھروں میں سب سے اہم اور مشکل سوال یہی ہے کہ آج کیا پکایئں جسے سب ناک بھوں چڑھاے بغیر کھا لیں
اب کسان اپنا گنا فیکٹری کو بیچ کر یا گڑ بنا کر سیل کرنے کے بعد خود شہر سے چینی خریدنے آتا ہے
کبھی کبھار سپیشل ڈش کے طور پر پکنے والے چاول اب روزانہ کے ناشتے کا حصہ بن چکے ہیں
اب فروٹ سے زیادہ ڈبے کا فروٹ جوس پیا جاتا ہے
اب بچوں کو لنچ میں روٹی کی بجاے
نوڈلز اور جام بریڈ اور سینڈوچ دینا عام ہو گیا ہے
اب کوئی مشقت والا کام کر کے تھکن سے چور ہونے پر گرم دودھ میں انڈے پھینٹ کر نہیں پیتا بلکہ چاے کے ساتھ بروفن کی گولی کھائی جاتی ہے
ماوں کے پلو سے لپٹ لپٹ کر بھوک لگنے کی دہایئاں دینے والے بچوں کو اب مایئں زبردستی کھانا کھلاتی ہیں
پہلے دوائی کھانا مشکل لگتا تھا اب ہزار روپے والی گولی خریدنا بھی مشکل نہیں لگتا بلکہ ہزار قدم چلنا زیادہ مشکل لگتا ہے"
پھر کہتے ہیں شوگر کیوں ہوتی ہے۔۔۔۔۔
"لسی کی جگہ پیپسی نے لے لی
دودھ کی جگہ چینی سے بھرپور جوس کا ڈبہ آ گیا جسے مایئں فیڈر میں ڈال کر بھی شیر خواروں کو دینے لگی ہیں
باسی روٹی کے مکھن لگے رول یعنی گھگھو کی جگہ چکن رول آ گیا ہے
تازے ٹماٹر اور مرچ کی چٹنی کی جگہ کیمکل سے محفوظ کی گئی کیچپ اور چلی ساس آ گئی ہے
سلاد پر لیموں کی جگہ سنتھٹک سرکہ آ گیا ہے
میووں کشمش سے بھرپور پنجیریوں السی کی پنیوں تل کے لڈووں کی جگہ کیک پیسٹریوں اور میدے کے کیک رسوں نے لے لی ہے
جب سے وائی بادی یورک ایسڈ بن گیا اور اجوایئن سونڈھ ادرک کی جگہ زائلورک گولی آ گئی ہے
چکی کے آٹے کی جگہ میدہ نما تھیلی کے آٹے نے لے لی کیونکہ چکی کے آٹے کی روٹی مزیدار نہیں لگتی اور پراٹھے مزے کے نہیں بنتے
اب باجرے کی مسی روٹی کوئی لسی کے ساتھ نہیں کھاتا
اب گھروں میں سب سے اہم اور مشکل سوال یہی ہے کہ آج کیا پکایئں جسے سب ناک بھوں چڑھاے بغیر کھا لیں
اب کسان اپنا گنا فیکٹری کو بیچ کر یا گڑ بنا کر سیل کرنے کے بعد خود شہر سے چینی خریدنے آتا ہے
کبھی کبھار سپیشل ڈش کے طور پر پکنے والے چاول اب روزانہ کے ناشتے کا حصہ بن چکے ہیں
اب فروٹ سے زیادہ ڈبے کا فروٹ جوس پیا جاتا ہے
اب بچوں کو لنچ میں روٹی کی بجاے
نوڈلز اور جام بریڈ اور سینڈوچ دینا عام ہو گیا ہے
اب کوئی مشقت والا کام کر کے تھکن سے چور ہونے پر گرم دودھ میں انڈے پھینٹ کر نہیں پیتا بلکہ چاے کے ساتھ بروفن کی گولی کھائی جاتی ہے
ماوں کے پلو سے لپٹ لپٹ کر بھوک لگنے کی دہایئاں دینے والے بچوں کو اب مایئں زبردستی کھانا کھلاتی ہیں
پہلے دوائی کھانا مشکل لگتا تھا اب ہزار روپے والی گولی خریدنا بھی مشکل نہیں لگتا بلکہ ہزار قدم چلنا زیادہ مشکل لگتا ہے"
جلد پرخارش کی عام اقسام کون سی ہیں اور ان سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟
خارش کو نظر انداز کرنا سنگین نتائج کا سبب بن سکتا ہے.
خارش ایک نہایت تکلیف دہ بیماری ہے جو جلد کی بیماریوں کے علاوہ اندرونی بیماریوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
یہ الرجی اور انفیکشن سے لے کر آٹوامیون خرابیوں تک متعدد عوامل کی وجہ سے ہوسکتی ہے.
کانٹیکٹ ڈرمیٹیٹائٹس(Contact Dermatitis)
کانٹیکٹ ڈرماٹائٹس جلد کی وہ بیماری ہے جو جلن یا الرجی کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ یہ خارش کئی صابن اور ڈٹرجنٹ کی وجہ سے ہوتی ہے۔
ایگزیما (Eczema)
ایگزیما یا ایٹوپک ڈرماٹائٹس ایک دائمی سوزش والی جلد کی خارش ہے جو جلد کو مکمل طور پر خشک کردیتی ہے۔ یہ زیادہ تر جینیاتی جزو کی وجہ سے ہوتی ہے۔
اس کے علاج کیلئے باقاعدگی سے موسچرائزر، ہلکے اور خوشبو سے پاک صابن کا استعمال کریں۔
سورائسس(Psoriasis)
سورائسس جلد کی وہ بیماری ہے جس سے جلد کی سطح پر خلیات کی تیزی سے تعمیر ہوتی ہے۔ یہ جلد پر سرخ دھبوں کی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔
اس بیماری میں مبتلا مریضوں کو جلد پر شدید خارش اور خون بہنے جیسے علامات ہوسکتی ہیں۔
گرمی دانے (Heat Rash)
گرمی دانوں کو عام طور پر کانٹے دار گرمی دانے بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دانے گرم موسم میں پسینے کی نالیوں کے بند ہونے کی وجہ سے ہوتے ہیں، جس سے پسینہ جلد کے نیچے جمع ہو جاتا ہے۔
گرم موسم میں جلد کو ٹھنڈا رکھیں، ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنیں اور متاثرہ جگہ کو خشک رکھیں۔
رنگ وارم(Ringworm)
رنگ ورم ایک فنگل انفیکشن ہے، یہ کسی کیڑے کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ یہ سرکلر یا انگوٹھی جیسی شکل میں سرخ یا چاندی کے دھبے کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔
Corn flour versus corn starch
URDU and English
مکئی کا آٹا بمقابلہ کارن اسٹارچ
کارن اسٹارچ اور مکئی کا آٹا گلوٹین فری بیکنگ میں ناقابل یقین حد تک اہم اجزاء ہیں، اور آپ انہیں اکثر میری ترکیبوں میں استعمال ہوتے دیکھیں گے۔ تاہم، اس بات پر منحصر ہے کہ آیا آپ امریکہ، برطانیہ یا کسی اور جگہ سے ہیں، آپ کو کارن اسٹارچ، کارن فلور، مکئی کے آٹے اور کارن فلور کے درمیان فرق کے بارے میں الجھن ہو سکتی ہے۔
کارن سٹارچ مکئی کے دانے سے نشاستہ نکال کر حاصل کیا جاتا ہے، خاص طور پر دانا کے اینڈوسپرم سے۔ یہ تقریباً 100% نشاستہ ہے، بغیر کسی فائبر، پروٹین، چربی یا دیگر اجزاء کے۔ یہ ایک بہت ہی باریک سفید پاؤڈر ہے جو ظاہری شکل میں چاک ہوتا ہے اور جب آپ اسے اپنی انگلیوں کے درمیان رگڑتے ہیں تو یہ ’سکی جاتی ہے‘۔ کارن اسٹارچ کو اکثر ساس اور کسٹرڈ کو گاڑھا کرنے کے لیے گاڑھا کرنے والے ایجنٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جیسے کہ ونیلا پیسٹری کریم۔
مکئی کا آٹا پوری خشک مکئی کی گٹھلیوں کو باریک پاؤڈر میں پیس کر حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ بنیادی طور پر بہت باریک پیس کر مکئی کا کھانا ہے۔ نشاستہ کے علاوہ اس میں فائبر، پروٹین اور تھوڑی مقدار میں چکنائی بھی ہوتی ہے۔ مکئی کے آٹے کی دو قسمیں ہیں: زیادہ عام پیلے مکئی کا آٹا جو پیلے مکئی سے بنایا جاتا ہے، اور سفید مکئی کا آٹا سفید مکئی کے دانے سے بنایا جاتا ہے۔
کارن اسٹارچ ایک 'نشاستہ دار' گلوٹین فری آٹا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ گلوٹین فری بیک کو ان کی fluffiness اور ہوا دار پن دیتا ہے، لیکن یہ ان کے ذائقہ یا ساخت میں زیادہ حصہ نہیں ڈالتا ہے۔ اسے اریروٹ نشاستہ، آلو کے نشاستہ یا ٹیپیوکا نشاستہ کے برابر وزن کے ساتھ تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
مکئی کا آٹا ایک 'پروٹین' گلوٹین فری آٹا ہے۔ یہ گلوٹین فری بیکس میں ذائقہ اور ساخت کا اضافہ کرتا ہے - حالانکہ یہ جو ڈھانچہ فراہم کرتا ہے وہ "باقاعدہ" گندم کے آٹے کے مقابلے میں کافی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسے ہلکے بکواہیٹ کے آٹے، جوار کے آٹے، سفید ٹیف آٹے یا جئی کے آٹے کے برابر وزن کے ساتھ بدلا جا سکتا ہے۔
کاپی
Cornstarch and corn flour are incredibly important ingredients in gluten free baking, and you’ll often see them used in my recipes. However, depending on whether you’re from the US, the UK or elsewhere, you might be confused about the difference between cornstarch, corn flour, maize flour and cornflour.
Cornstarch is obtained by extracting the starch from corn grain, specifically from the endosperm of the kernel. It is almost 100% starch, without any fibre, protein, fat or other components. It’s a very very fine white powder that’s chalky in appearance and that ’squeaks’ when you rub it between your fingers. Cornstarch is often used as a thickening agent to thicken sauces and custards, like for example vanilla pastry cream.
Corn flour is obtained by grinding entire dried corn kernels into a fine powder. It’s basically very finely ground corn meal. In addition to the starch, it also contains fibre, protein and a small amount of fat. There are two types of corn flour: the more common yellow corn flour that’s made from yellow corn, and white corn flour made from white corn kernels.
Cornstarch is a ‘starchy’ gluten free flour. That means that it gives gluten free bakes their fluffiness and airiness, but it doesn’t contribute much to their taste or structure. It can be substituted with an equal weight of arrowroot starch, potato starch or tapioca starch.
Corn flour is a ‘protein’ gluten free flour. It adds flavour and structure to gluten free bakes – although the amount of structure it provides is pretty negligible compared to that achieved by “regular” wheat flour. It can be substituted with an equal weight of light buckwheat flour, sorghum flour, white teff flour or oat flour.
Copy
🙂🙂🙂
Salam
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Category
Contact the practice
Telephone
Website
Address
Bannu Bazar Chowk Near Shelton Bakers
Kohat, 26000
A class private hospital with latest machinery DIGITAL COLOUR XRAY PHARMACY ULTRASOUND ECO LATEST DIGITAL LAB PRIVATE ROOMS OPERATION THETORS LIFT FACILITY BASEMENT PARKING AND TO...
Muslimabad Kohat
Kohat
ھو میوپیتھک ادویات کے ساتھ ہر مرض بیماری کا علاج انشاءاللہ ۔
نزد اباسین سائنس اکیڈمی سینی گمبٹ کوہاٹ
Kohat
Women and Children
Azaan Health Care Mohammad Nagar Chowk Pindi Road Old Police Check Post Kohat
Kohat, 26000
Azaan Health Care Where your life matters. We provide Laboratory service, Pharmacy service and Health consultation. We also provide Home services and Online Service