Online Quran Teaching
I m Online Quran teacher .I teach Quran with tjweed and translation and about History of prophets of Allah without any sect ...!
I have 5 years experience in this field and I preferred for All countries ...!3 days trial free ....!
♥️♥️♥️
♥️♥️♥️♥️🌹🥰🥰🥰🥰🤲♥️🤲🤲🤲🤲
Naat shreef🥰🌹♥️♥️
😇♥️💯
😭🙏🤲♥️
♥️💯😇
♥️😇💯
🤲🥰💯♥️
🤲😭💯
🤲♥️😭
💯♥️🥰
🤲♥️💞💕
🤲💔😭
🤲😇😭🙏
سورۂ بقرہ کا تعارف
مقام نزول:
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے فرمان کے مطابق مدینہ منورہ میں سب سے پہلے یہی ’’سورۂ بقرہ‘‘ نازل ہوئی ۔(اس سے مراد ہے کہ جس سورت کی آیات سب سے پہلے نازل ہوئیں۔) (خازن، تفسیرسورۃ البقرۃ، ۱ / ۱۹)
رکوع اور آیات کی تعداد:
اس سورت میں 40 رکوع اور286آیتیں ہیں۔
’’بقرہ‘‘ نام رکھے جانے کی وجہ:
عربی میں گائے کو ’’ بَقَرَۃٌ‘‘کہتے ہیں اور اس سورت کے آٹھویں اور نویں رکوع کی آیت نمبر67تا73 میں بنی اسرائیل کی ایک گائے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، اُس کی مناسبت سے اِسے ’’سورۂ بقرہ ‘‘کہتے ہیں۔
سورہ ٔبقرہ کے فضائل:
احادیث میں اس سورت کے بے شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے 5فضائل درج ذیل ہیں :
(1) …حضرت ابو اُمامہ باہلی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قرآن پاک کی تلاوت کیا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنی تلاوت کرنے والوں کی شفاعت کرے گا اور دو روشن سورتیں (یعنی) ’’سورہ ٔبقرہ ‘‘اور’’سورۂ اٰل عمران‘‘ پڑھا کرو کیونکہ یہ دونوں قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جس طرح دو بادل ہوں یا دو سائبان ہوں یا دو اڑتے ہوئے پرندوں کی قطاریں ہوں اور یہ دونوں سورتیں اپنے پڑھنے والوں کی شفاعت کریں گی،’’سورۂ بقرہ‘‘ پڑھا کرو کیونکہ ا س کو پڑھتے رہنے میں برکت ہے اور نہ پڑھنے میں (ثواب سے محروم رہ جانے پر) حسرت ہے اور جادو گر اس کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔(مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب فضل قراء ۃ القرآن وسورۃ البقرۃ، ص۴۰۳، الحدیث: ۲۵۲(۸۰۴))
(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ(یعنی اپنے گھروں میں عبادت کیا کرو) اور شیطان ا س گھر سے بھاگتا ہے جس میں ’’سورۂ بقرہ‘‘ کی تلاوت کی جاتی ہے۔(مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب استحباب صلاۃ النافلۃ۔۔۔الخ، ص۳۹۳،الحدیث: ۲۱۲(۷۸۰))
(3) …حضرت ابو مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص رات کو سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھ لے گا تو وہ اسے(ناگہانی مصائب سے) کافی ہوں گی۔(بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب فضل البقرۃ، ۳ / ۴۰۵، الحدیث: ۵۰۰۹)
(4) …حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ ہر چیز کی ایک بلندی ہے اور قرآن کی بلندی ’’سورہ ٔ بقرہ‘‘ہے، اس میں ایک آیت ہے جو قرآن کی(تمام )آیتوں کی سردار ہے اور وہ( آیت) آیت الکرسی ہے۔(ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل سورۃ البقرۃ۔۔۔ الخ، ۴ / ۴۰۲، الحدیث: ۲۸۸۷)
(5)…حضرت سہل بن سعد ساعدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے دن کے وقت اپنے گھر میں ’’سورۂ بقرہ‘‘ کی تلاوت کی تو تین دن تک شیطان اس کے گھر کے قریب نہیں آئے گا اورجس نے رات کے وقت اپنے گھر میں سورۂ بقرہ کی تلاوت کی تو تین راتیں ا س گھر میں شیطان داخل نہ ہو گا۔(شعب الایمان، التاسع من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی فضائل السور والآیات، ذکر سورۃ البقرۃ۔۔۔ الخ، ۲ / ۴۵۳، الحدیث: ۲۳۷۸)
’’سورۂ بقرہ‘‘ کے مضامین:
یہ قرآن پاک کی سب سے بڑی سورت ہے اور اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں بنی اسرائیل پر کئے گئے انعامات،ان انعامات کے مقابلے میں بنی اسرائیل کی ناشکری، بنی سرائیل کے جرائم جیسے بچھڑے کی پوجا کرنا، سرکشی اور عناد کی وجہ سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے طرح طرح کے مطالبات کرنا،اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرنا،انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ناحق شہید کرنا اور عہد توڑناوغیرہ،گائے ذبح کرنے کا واقعہ اورنبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے میں موجود یہودیوں کے باطل عقائد و نظریات اور ان کی خباثتوں کو بیان کیا گیا ہے اور مسلمانوں کو یہودیوں کی دھوکہ دہی سے آگاہ کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ’’سورہ ٔبقرہ‘‘ میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں:
(1) … قرآن پاک کی صداقت ،حقانیت اور اس کتاب کے ہر طرح کے شک و شبہ سے پاک ہونے کو بیان کیا گیا ہے۔
(2) … قرآن پاک سے حقیقی ہدایت حاصل کرنے والوں اور ان کے اوصاف کا بیان،ازلی کافروں کے ایمان سے محروم رہنے اور منافقوں کی بری خصلتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
(3) …قرآن پاک میں شک کرنے والے کفار سے قرآن مجید کی سورت جیسی کوئی ایک سورت بنا کر لا نے کا مطالبہ کیا گیا اور ان کے اس چیز سے عاجز ہونے کو بھی بیان کر دیاگیا۔
(4) …حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق کا واقعہ بیان کیا گیا اور فرشتوں کے سامنے ان کی شان کو ظاہر کیا گیا ہے۔
(5) …خانۂ کعبہ کی تعمیر اورحضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا کا ذکر کیا گیاہے۔
(6) …اس سورت میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پسند کی وجہ سے قبلہ کی تبدیلی اور اس تبدیلی پر ہونے والے اعتراضات و جوابات کا بیان ہے۔
(7) … عبادات اور معاملات جیسے نماز قائم کرنے،زکوٰۃ ادا کرنے، رمضان کے روزے رکھنے،خانۂ کعبہ کا حج کرنے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے،دینی معاملات میں قمری مہینوں پر اعتماد کرنے،اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے،والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنے،یتیموں کے ساتھ معاملات کرنے،نکاح،طلاق،رضاعت، عدت ،بیویوں کے ساتھ اِیلاء کرنے،جادو،قتل،لوگوں کے مال ناحق کھانے، شراب، سود،جوا اورحیض کی حالت میں بیویوں کے ساتھ صحبت کرنے وغیرہ کے بارے میں مسلمانوں کو ایک شرعی دستور فراہم کیا گیا ہے۔
(8) …تابوت سکینہ ، طالوت اور جالوت میں ہونے والی جنگ کا بیان ہے۔
(9) …مردوں کو زندہ کرنے کے ثبوت پرحضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات کا واقعہ ذکر کیا گیا ہے۔
(10) …حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو چار پرندوں کے ذریعے مردوں کو زندہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا نظارہ کرو انے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
(11) …اس سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رجوع کرنے،گناہوں سے توبہ کرنے اور کفار کے خلاف مدد طلب کرنے کی طرف مسلمانوں کو توجہ دلائی گئی ہے اور مسلمانوں کو قیامت کے دن سے ڈرایا گیا ہے۔
سورۂ فاتحہ کے ساتھ مناسبت:
’’سورۂ بقرہ‘‘ کی اپنے سے ماقبل سورت’’فاتحہ‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ ’’سورۂ فاتحہ‘‘ میں مسلمانوں کو یہ دعا مانگنے کی تعلیم دی گئی تھی’’اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ یعنی اے اللہ!ہم کو سیدھا راستہ چلا۔(فاتحہ: ۵) اور ’’سورۂ بقرہ‘‘ میں کامل ایمان والوں کے اوصاف ،مشرکین اور منافقین کی نشانیاں ،یہودیوں اور عیسائیوں کا طرز عمل ، نیز معاشرتی زندگی کے اصول اور احکام ذکر کر کے مسلمانوں کے لئے’’ صراطِ مستقیم ‘‘کو بیان کیا گیا ہے ۔
Ameeen sum Ameeen 🤲😇♥️🌹
Write one time SubhanAllah ♥️ 💯 😇 🤲♥️😥💔
Byshaq please Say Allahmdulillah ♥️😇🌹
Jummah Mubarak to all Muslims ALLAH pak sbko Hmesha Khush rakhy r seht o tndrusti ata frmaye Ameeen ya Rab Ul Alameen 🤲 😥💔🙏
😥💔🤲
سورۂ فاتحہ کا تعارف
مقامِ نزول:
اکثر علماء کے نزدیک’’سورۂ فاتحہ ‘‘مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔امام مجاہد رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ’’سورۂ فاتحہ‘‘ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہے اور ایک قول یہ ہے: ’’سورۂ فاتحہ‘‘ دو مرتبہ نازل ہوئی ،ایک مرتبہ ’’مکہ مکرمہ‘‘ میں اور دوسری مرتبہ’’ مدینہ منورہ‘‘ میں نازل ہوئی ہے۔(خازن،تفسیرسورۃ الفاتحۃ، ۱ / ۱۲)
رکوع اور آیات کی تعداد:
اس سورت میں 1رکوع اور 7 آیتیں ہیں۔
سورۂ فاتحہ کے اسماء اور ان کی وجہ تسمیہ:
اس سورت کے متعددنام ہیں اور ناموں کا زیادہ ہونا ا س کی فضیلت اور شرف کی دلیل ہے،اس کے مشہور 15 نام یہ ہیں:
(1)…’’سورۂ فاتحہ‘‘ سے قرآن پاک کی تلاوت شروع کی جاتی ہے اوراسی سورت سے قرآن پاک لکھنے کی ابتداء کی جاتی ہے ا س لئے اسے ’’فَاتِحَۃُ الْکِتَابْ‘‘ یعنی کتاب کی ابتداء کرنے والی کہتے ہیں۔
(2)… اس سورت کی ابتداء’’اَلْحَمْدُ لِلّٰه‘‘ سے ہوئی ،اس مناسبت سے اسے ’’سُوْرَۃُ الْحَمدْ‘‘ یعنی وہ سورت جس میں اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی گئی ہے،کہتے ہیں۔
(3،4)…’’سورہ ٔفاتحہ‘‘ قرآن پاک کی اصل ہے ،اس بناء پر اسے ’’اُمُّ الْقُرْآنْ‘‘ اور ’’اُمُّ الْکِتَابْ‘‘ کہتے ہیں۔
(5)…یہ سورت نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے یا یہ سورت دو مرتبہ نازل ہوئی ہے اس وجہ سے اسے ’’اَلسَّبْعُ الْمَثَانِیْ‘‘ یعنی بار بار پڑھی جانے والی یا ایک سے زائد مرتبہ نازل ہونے والی سات آیتیں ، کہا جاتا ہے۔
(6تا8)…دین کے بنیادی امور کا جامع ہونے کی وجہ سے سورۂ فاتحہ کو’’سُوْرَۃُ الْکَنزْ،سُوْرَۃُ الْوَافِیَہْ‘‘ اور ’’سُوْرَۃُ الْکَافِیَہْ‘‘ کہتے ہیں۔
(9،10)… ’’شفاء ‘‘ کا باعث ہونے کی وجہ سے اسے’’سُوْرَۃُ الشِّفَاءْ‘‘ اور ’’سُوْرَۃُ الشَّافِیَہْ‘‘کہتے ہیں۔
(11تا15)…’’دعا‘‘ پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اسے’’سُوْرَۃُ الدُّعَاءْ،سُوْرَۃُ تَعْلِیْمِ الْمَسْئَلَہْ، سُوْرَۃُالسُّوَالْ، سُوْرَۃُ الْمُنَاجَاۃْ‘‘اور’’سُوْرَۃُ التَّفْوِیْضْ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ (خازن، تفسیرسورۃ الفاتحۃ،۱ / ۱۲، مدارک،سورۃ فاتحۃ الکتاب،ص۱۰، روح المعانی،سورۃ فاتحۃ الکتاب،۱ / ۵۱، ملتقطاً)
سورۂ فاتحہ کے فضائل:
احادیث میں اس سورت کے بہت سے فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے4فضائل درج ذیل ہیں :
(1) …حضرت ابو سعید بن مُعلّٰی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، میں نماز پڑھ رہا تھا تو مجھے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بلایا لیکن میں نے جواب نہ دیا۔(جب نماز سے فارغ ہو کر بارگاہ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہوا تو)میں نے عرض کی:’’یارسول اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں نماز پڑھ رہا تھا ۔تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا:’’اِسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ ‘‘ اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ جب وہ تمہیں بلائیں۔(انفال: ۲۴)پھر ارشاد فرمایا:’’ کیا میں تمہیں تمہارے مسجد سے نکلنے سے پہلے قرآن کریم کی سب سے عظیم سورت نہ سکھاؤں ؟پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا،جب ہم نے نکلنے کا ارادہ کیا تو میں نے عرض کی:یارسول اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ نے فرمایا تھا کہ میں ضرور تمہیں قرآن مجید کی سب سے عظمت والی سورت سکھاؤں گا۔ارشاد فرمایا: ’’وہ سورت ’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ ہے ، یہی ’’سبع مثانی‘‘ اور ’’قرآن عظیم ‘‘ہے جو مجھے عطا فرمائی گئی۔ (بخاری، کتاب فضائل القراٰن، باب فاتحۃ الکتاب، ۳ / ۴۰۴، الحدیث:۵۰۰۶)
(2) … حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما فرماتے ہیں : ایک فرشتہ آسمان سے نازل ہوا اور اس نے سیدالمرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں سلام پیش کر کے عرض کی: یارسول اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کو اُن دو نوروں کی بشارت ہو جو آپ کے علاوہ اور کسی نبی کو عطا نہیں کئے گئے اوروہ دو نور یہ ہیں : (۱)’’سورۂ فاتحہ‘‘ (۲)’’سورۂ بقرہ‘‘ کی آخری آیتیں۔(مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب فضل الفاتحۃ۔۔۔الخ، ص۴۰۴، الحدیث: ۲۵۴(۸۰۶))
(3) … حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے تورات اور انجیل میں ’’اُمُّ الْقُرْآنْ‘‘ کی مثل کوئی سورت نازل نہیں فرمائی۔‘‘(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ (الحجر)، ۵ / ۸۷، الحدیث: ۳۱۳۶)
(4) …حضرت عبد الملک بن عُمَیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ سورۂ فاتحہ ہر مرض کے لیے شفا ء ہے۔‘‘(شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔الخ، فصل فی فضائل السور والآیات، ۲ / ۴۵۰، الحدیث: ۲۳۷۰)
سورۂ فاتحہ کے مضامین:
اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں :
(1) …اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کا بیان ہے۔
(2) …اللہ تعالیٰ کے رب ہونے، اس کے رحمٰن اور رحیم ہونے،نیز مخلوق کے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور قیامت کے دن ان کے اعمال کی جزاء ملنے کا ذکر ہے۔
(3) …صرف اللہ تعالیٰ کے عبادت کا مستحق ہونے اوراس کے حقیقی مددگار ہونے کا تذکرہ ہے۔
(4) …دعا کے آداب کا بیان اور اللہ تعالیٰ سے دین حق اور صراط مستقیم کی طرف ہدایت ملنے،نیک لوگوں کے حال سے موافقت اور گمراہوں سے اجتناب کی دعا مانگنے کی تعلیم ہے۔
یہ چند وہ چیزیں بیان کی ہیں جن کا ’’سورہ ٔ فاتحہ‘‘ میں تفصیلی ذکر ہے البتہ اجمالی طور پر اس سورت میں بے شمار چیزوں کا بیان ہے۔امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں : ’’اگر میں چاہوں تو ’’سورۂ فاتحہ‘‘ کی تفسیر سے ستر اونٹ بھروادوں۔ (الاتقان فی علوم القرآن، النوع الثامن والسبعون۔۔۔الخ، ۲ / ۵۶۳)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کا یہ قول نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :’’ایک اونٹ کَے( یعنی کتنے ہی) من بوجھ اٹھاتا ہے اور ہر من میں کَے (یعنی کتنے) ہزار اجزاء (ہوتے ہیں ،ان کا حساب لگایا جائے تو یہ)حساب سے تقریباً پچیس لاکھ جز بنتے ہیں ، یہ فقط ’’سورۂ فاتحہ‘‘ کی تفسیر ہے۔(فتاوی رضویہ ، ۲۲ / ۶۱۹)
سورۂ فاتحہ سے متعلق شرعی مسائل:
(1)… نماز میں ’’سورۂ فاتحہ‘‘ پڑھنا واجب ہے،امام اور تنہا نماز پڑھنے والا اپنی زبان سے ’’سورۂ فاتحہ‘‘ پڑھے گا جبکہ مقتدی امام کے پیچھے خاموش رہے گا اور جہری نماز میں اس کی قراء ت بھی سنے گا اور ا س کا یہی عمل پڑھنے کے حکم میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں تلاوت کے وقت مقتدی کو خاموش رہنے اور قراء ت سننے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ‘‘(اعراف:۲۰۴)
ترجمۂ کنزالعرفان:اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
اورحضرت ابو موسٰی اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جب امام قراءت کرے تو تم خاموش رہو۔(ابن ماجہ، کتاب الصلاۃ، باب اذا قرء الامام فانصتوا، ۱ / ۴۶۲، الحدیث: ۸۴۷)
حضرت جابر بن عبد اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جس شخص کا کوئی امام ہو تو امام کا پڑھنا ہی مقتدی کا پڑھنا ہے۔(ابن ماجہ،کتاب الصلاۃ،باب اذا قرء الامام فانصتوا، ۱ / ۴۶۴، الحدیث: ۸۵۰)ان کے علاوہ اور بہت سی احادیث میں امام کے پیچھے مقتدی کے خاموش رہنے کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔
امامِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا مناظرہ:
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :’’مدینہ منورہ کے چند علماء امام ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس اس غرض سے آئے کہ وہ امام کے پیچھے مقتدی کی قراء ت کرنے کے معاملے میں ان سے مناظرہ کریں۔امام ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سے فرمایا:سب سے مناظرہ کرنا میرے لئے ممکن نہیں ،آپ ایسا کریں کہ مناظرے کا معاملہ اس کے سپرد کر دیں جو آپ سب سے زیادہ علم والا ہے تاکہ میں ا س کے ساتھ مناظرہ کروں۔انہوں نے ایک عالم کی طرف اشارہ کیا تو امام ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:کیا یہ تم سب سے زیادہ علم والا ہے؟انہوں نے جواب دیا:
’’ہاں۔‘‘امام ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:کیا میرا اس کے ساتھ مناظرہ کرنا تم سب کے ساتھ مناظرہ کرنے کی طرح ہے؟انہوں نے کہا :’’ہاں۔‘‘امام ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:اس کے خلاف جو دلیل قائم ہو گی وہ گویا کہ تمہارے خلاف قائم ہو گی؟ انہوں نے جواب دیا: ’’ہاں۔‘‘ امام ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:اگر میں اس کے ساتھ مناظرہ کروں اور دلیل میں اس پرغالب آ جاؤں تو وہ دلیل تم پر بھی لازم ہو گی؟انہوں نے کہا: ’’ہاں۔‘‘ امام ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دریافت کیا:وہ دلیل تم پر کیسے لازم ہو گی؟انہوں نے جواب دیا:’’اس لئے کہ ہم اسے اپنا امام بنانے پر راضی ہیں تو اس کی بات ہماری بات ہو گی۔‘‘امام ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ جب ہم نے ایک شخص کو نماز میں اپنا امام مان لیا تو اس کا قراء ت کرنا ہمارا قراء ت کرناہے اور وہ ہماری طرف سے نائب ہے۔ امام ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی یہ بات سن کر سب نے اقرار کر لیا(کہ امام کے پیچھے مقتدی قراء ت نہیں کرے گا)(تفسیرکبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ:۳۰، ۱ / ۴۱۲)
(2) …’’نماز جنازہ‘‘ میں خاص دعا یاد نہ ہو تو دعا کی نیت سے ’’سورۂ فاتحہ‘‘ پڑھنا جائز ہے جبکہ قراء ت کی نیت سے پڑھنا جائز نہیں۔(عالمگیری، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون، الفصل الخامس، ۱ / ۱۶۴)
سورۂ ہود کا تعارف
مقامِ نزول:
حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت حسن ا ور حضرت عکرمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور دیگر مفسرین فرماتے ہیں کہ سورۂ ہود مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے ایک روایت یہ بھی مروی ہے کہ آیت ’’ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ‘‘ کے سوا باقی تمام سورت مکیہ ہے ۔ مقاتل نے کہا کہ آیت ’’ فَلَعَلَّكَ تَارِكٌ ‘‘ اور ’’ اُولٰٓىٕكَ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ‘‘ اور ’’اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّاٰتِ‘‘ کے علاوہ پوری سورت مکی ہے۔ (خازن، تفسیرسورۃ ہود، ۲ / ۳۳۸)
رکوع اور آیات کی تعداد:
اس سورت میں 10 رکوع اور 123 آیتیں ہیں۔
’’ہود ‘‘نام رکھنے کی وجہ :
ا س سورت کی آیت نمبر 50تا 60 میں اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم عاد کا واقعہ بیان کیا گیا ہے ، اس واقعے کی مناسبت سے اس سور ت کا نام ’’سورۂ ہود‘‘ رکھا گیا۔
سورۂ ہود کے بارے میں اَحادیث:
(1) …حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ،حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر بڑھاپے کے آثار نمودار ہوگئے۔ ارشاد فرمایا : ’’مجھے سورۂ ہود، سورۂ و اقعہ، سورۂ مرسلات، سورۂ عَمَّ یَتَسَآءَلُوْنَ، اور سورۂ اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ، نے بوڑھا کردیا۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الواقعۃ، ۵ / ۱۹۳، الحدیث: ۳۳۰۸) غالباً یہ اس وجہ سے فرمایا کہ ان سورتوں میں قیامت ، مرنے کے بعد اٹھائے جانے ، حساب اور جنت و دوزخ کاذکر ہے۔( خازن، تفسیرسورۃ ہود، ۲ / ۳۳۹)
(2) …حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا ’’جسے یہ بات پسند ہو کہ وہ قیامت کے دن کو اس طرح دیکھے گویا کہ وہ نگاہوں کے سامنے ہے تو اسے چاہئے کہ وہ سورۂ اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ، سورۂ اِذَا السَّمَآءُ انْفَطَرَتْ اور سورۂ اِذَا السَّمَآءُ انْشَقَّتْ پڑھ لے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : میرا گمان ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سورۂ ہود پڑھنے کا بھی فرمایا۔( مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہما، ۲ / ۲۵۷، الحدیث: ۴۸۰۶)
(3) …حضرت کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جمعہ کے دن سورۂ ہود پڑھا کرو۔ (شعب الایمان، سورۃ ہود، ۲ / ۴۷۲، الحدیث: ۲۴۳۸)
سورۂ ہود کے مضامین:
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں بھی سورۂ یونس کی طرح توحید، رسالت، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور قیامت کے دن اَعمال کی جزاء ملنے کو دلائل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔ اس کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
(1) …قرآنِ پاک کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے کو دلیل کے ساتھ ثابت کیا گیا ۔
(2) …آسمان و زمین اور ان میں موجود مَنافع پیدا کرنے کی حکمت بیان کی گئی کہ ا س سے مقصود نیک اور گناہگار انسان میں اِمتیاز کرنا ہے۔
(3) … مصیبت اور آسانی میں مومن اور کافر کی فِطرت کا مُوازنہ کیا گیا ہے کہ مومن مصیبت آنے پر صبر کرتا ہے اور آسانی ملنے پر شکر کرتا ہے جبکہ کافر نعمت ملنے پر تکبر و غرور کرتا ہے جبکہ مصیبت کی حالت میں بڑا مایوس اور ناشکرا ہوجاتا ہے۔
(4) …ہر انسان کی فطرت مختلف ہے حتّٰی کہ دین قبول کرنے میں بھی ہر ایک کی فطرت جدا ہے۔
(5) …کفار کی طرف سے پہنچے والی اَذِیَّتوں پر اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسلی کے لئے سابقہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات بیان فرمائے اوران واقعات میں تمام مسلمانوں کے لئے بھی عبرت اور نصیحت ہے۔ چنانچہ اس سورت میں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ، حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم عادکا واقعہ، حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم ثمود کا واقعہ، حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے مہمان فرشتوں کا واقعہ، حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ، حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ اور حضرت موسیٰ کا فرعون کے ساتھ واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
(6) …انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوموں کے واقعات بیان کرنے سے حاصل ہونے والی عبرت و نصیحت کا بیان ہے۔
(7) …دین میں اِستقامت کا حکم دیاگیا اور یہ بتایاگیا کی سرکشی بربادی کا راستہ ہے اور کفر و شرک کی طرف مَیلان جہنم کے عذاب کا سبب ہے۔
(8) …نماز کو ا س کے اَوقات میں قائم کرنے اور نیک اَعمال پر صبر کرنے کا حکم دیاگیا ۔
(9) …دین کی دعوت سے اِعراض کرنے والوں کو عذاب کی وَعید سنائی گئی اور متقی لوگوں کے اچھے انجام کو بیان کیا گیا جس سے واضح ہوتا ہے کہ ترغیب اور ترہیب اِنفرادی اور اِجتماعی اصلاح میں بہت فائدہ مند ہے۔
سورۂ یونس کے ساتھ مناسبت:
سورۂ ہود کی اپنے سے ماقبل سورت ’’یونس‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ یہ معنی، موضوع، ابتداء اور اختتام میں سورۂ یونس کے موافق ہے اور سورۂ یونس میں جن اِعتقادی اُمور اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات کو اِجمالی طور پر بیان کیاگیا ہے، سورہ ٔ ہود میں انہیں تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔
#تفسیرقرآن
سورۂ یونس کا تعارف
مقامِ نزول:
حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’سورۂ یونس مکیہ ہے، البتہ اس کی تین آیتیں ’’فَاِنْ كُنْتَ فِیْ شَكٍّ‘‘ سے لے کر’’ لَا یُؤْمِنُوْنَ ‘‘ تک مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں۔ (البحر المحیط، یونس، تحت الآیۃ: ۱، ۵ / ۱۲۵)
رکوع اور آیات کی تعداد:
اس سورت میں 11رکوع اور 109 آیتیں ہیں۔
’’یونس ‘‘نام رکھنے کی وجہ :
اس سورت کی آیت نمبر 98 میں اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کا واقعہ بیان کیاگیا ہے کہ جب انہیں حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عذاب کی وعید سنائی اور خود وہاں سے تشریف لے گئے تو ان کے جانے کے بعد عذاب کے آثار دیکھ کر وہ لوگ ایمان لے آئے اور انہوں نے سچے دل سے توبہ کی تو ان سے عذاب اٹھا لیا گیا۔ اس واقعے کی مناسبت سے اس سورت کا نام’’سورۂ یونس‘‘ رکھا گیا۔
سورۂ یونس کے بارے میں حدیث:
حضرت عبد اللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ،ایک شخص نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہو کر عرض کی:یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے قرآن سکھا دیجئے۔ ارشاد فرمایا ’’الٓرٰ(سے شروع ہونے) والی تین سورتیں پڑھ لو۔ اس نے عرض کی: میری عمر بہت ہوچکی ہے، میرا دل سخت ہو گیا اور زبان موٹی ہو گئی ہے۔ ارشاد فرمایا ’’توحم(سے شروع ہونے) والی تین سورتیں پڑھ لو۔ اس نے پھر وہی عرض کی تو حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مُسَبَّحات(یعنی تسبیح سے شروع ہونے والی سورتوں ) میں سے تین سورتیں پڑھ لو۔ اس نے پھر وہی عذر پیش کیا اور عرض کی:یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے کوئی جامع سورت سکھا دیجئے۔
رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے ’’اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ‘‘ والی سورت سکھا دی۔ اِس سے فارغ ہونے کے بعد اُس شخص نے عرض کی: اس ذات کی قسم جس نے حق کے ساتھ آپ کو مبعوث فرمایا، میں کبھی اس پر اضافہ نہیں کروں گا۔ اس کے چلے جانے کے بعد حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دو مرتبہ ارشاد فرمایا’’یہ چھوٹا سا آدمی نجات پاگیا۔ (ابوداؤد، کتاب شہر رمضان، باب تحزیب القرآن، ۲ / ۸۱، الحدیث: ۱۳۹۹)
سورۂ یونس کے مضامین:
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت ، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور اعمال کی جزاء و سزا ملنے کو مختلف دلائل سے ثابت کیا گیا اور قرآنِ مجید پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
(1) …مشرکین کے عقائد بیان کئے گئے اور نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا انکار کرنے والوں کے 5 شُبہات ذکر کر کے ان کا رد کیا گیاہے۔
(2) …اللہ تعالیٰ کی عظمت پر دلالت کرنے والے ا س کی قدرت کے آثار ذکر کئے گئے ہیں۔
(3) …دُنْیَوی زندگی کی مثال بیان کر کے اس میں غور کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
(4) …کفار کو قرآنِ پاک جیسی ایک سورت بنا کر دکھانے کا چیلنج کیا گیا ۔
(5) …کفار کی طرف سے پہنچنے والی اَذِیَّتوں پر حضور پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی گئی ہے۔
(6) …قرآنِ پاک کی صداقت کو ثابت کرنے اور عبر ت و نصیحت کے لئے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ، حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ اور حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ بیان کیاگیا ہے۔
(7) …اس سورت کے آخر میں بیان کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی شریعت اور قرآن کے احکام پر عمل کرنے میں انسانوں کی اپنی ہی بہتری ہے۔
سورۂ توبہ کے ساتھ مناسبت:
سورۂ یونس کی اپنے سے ماقبل سورت ’’توبہ ‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ توبہ کا اختتام نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوصاف کے بیان پر ہوا اور سورۂ یونس کی ابتداء میں رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل کی جانے والی وحی پر ہونے والے شکوک و شُبہات کا رد کیا گیا ہے۔ نیز سورۂ توبہ میں زیادہ تر منافقین کے احوال اور قرآنِ پاک کے بارے میں ان کا مَوقف بیان کیاگیا جبکہ سورۂ یونس میں کفار اور مشرکین کے اَحوال اور قرآنِ پاک کے بارے میں ان کے اَقوال بیان کئے گئے ہیں۔
#تفسيرالقرآن
#قرآن
🥺😭💔🤲
سورۂ اعراف
سورۂ اعراف کا تعارف
مقامِ نزول:
یہ سورت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے اور ایک روایت کے مطابق پانچ آیتوں کے علاوہ یہ سورت مکیہ ہے، ان پانچ آیات میں سے پہلی آیت ’’ وَ سْــٴَـلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ‘‘ ہے۔ (خازن، الاعراف، ۲ / ۷۶)
رکوع اور آیات کی تعداد:
اس سورت میں24 رکوع اور 206 آیتیں ہیں۔
’’ اَعراف‘‘نام رکھنے کی وجہ :
اعراف کا معنی ہے بلند جگہ، اس سورت کی آیت نمبر 46میں جنت اور دوزخ کے درمیان ایک جگہ اعراف کا ذکر ہے جو کہ بہت بلند ہے، اس مناسبت سے اس سورت کا نام ’’سورۂ اعراف ‘‘رکھا گیا۔
سورۂ اَعراف کی فضیلت:
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے قرآنِ پاک کی پہلی 7 بڑی سورتوں کوحفظ کیا اور ان کی تلاوت کرتا رہا تو یہ اس کے لئے کثیر ثواب کا باعث ہے۔ (مستدرک، کتاب فضائل القرآن، من اخذ السبع الاول من القرآن فہو خیر، ۲ / ۲۷۰، الحدیث: ۲۱۱۴)ان سات سورتوں میں سے ایک سورت اعراف بھی ہے۔
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Category
Contact the school
Telephone
Website
Address
Lahore
42000
Lahore
I teach since1998 my educational status masters urdu and education provide online service also
Old Muslim Town Faiz Road Lahore Just Opposite To Al Sadiq Girls Hostel
Lahore, 54000
Best Institute for CSS/PMS Preparation, Evaluation and Test Series, under highly Experienced Faculty.
Phase IX, DHA, Bedian Road
Lahore, 53100
#DPT #PhysicalTherapy #Nutritionist #Nutrition sciences #SpeechTherapy #ImagingTechnology