Dr Faiz Ahmad Chishti

Assalamu Alaeikum
This page is made for islamic education about each and every aspect of life .

21/09/2024

آذر حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السّلام کا والد نہیں چچا تھا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اِذْ قَالَ لِاَبِیۡہِ یٰۤاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَ لَا یُغْنِیۡ عَنۡکَ شَیْـًٔا ۔ ﴿سورہ مریم آیت نمبر 42﴾
ترجمہ : جب اپنے باپ سے فرمایا اے میرے باپ تم کیوں ایسے کی عبادت کر رہے ہو جو نہ سنتا ہے اور نہ دیکھتا ہے اور نہ تجھے کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے ۔

اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اپنے بت پرست (عُرفی) باپ آزَر سے فرمایا ’’ عبادت معبود کی انتہائی تعظیم ہے اور اس کا وہی مستحق ہو سکتا ہے جو اوصاف وکمال والا اور نعمتیں دینے والا ہو اور وہ صرف اللہ تعالیٰ ہے جس کا کوئی شریک نہیں ، اس لیے عبادت کا مستحق بھی صرف وہی ہے ، جبکہ تم جن بتوں کی عبادت کر رہے ہو ان کا حال یہ ہے کہ یہ نہ توسنتے ہیں ، نہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی تمہارے کسی کام آسکتے ہیں بلکہ یہ خود تمہارے محتاج ہیں کہ اپنی جگہ سے دوسری جگہ بھی نہیں جاسکتے اور تم نے خود انہیں اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے تو ایسی ناکارہ اور لاچار مخلوق کی عبادت کرنا اور اس کے سامنے اپنا سر جھکانا اور اس سے کسی بھی قسم کے نفع نقصان کی امید رکھنا انتہائی حماقت کے سوا کچھ نہیں ہے ۔

آزر حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا باپ تھا یا چچا ؟

حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا نام ‘ نسب اور تاریخ پیدائش : ⬇

امام ابوالقاسم علی بن الحسن ابن العساکر متوفی ٥٧١ ھ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا نسب اس طرح لکھا ہے : ابراہیم بن تارخ ہیں بن ناحور بن شاروغ بن ارغوبن فالع بن عابرشالخ بن ارفخشذبن سام بن نوبن لمک بن متوشلح بن خنوخ اور وہ ادریس ہیں ‘ بن یاردبن مھلائیل بن قینان بن انوش بن شیث بن آدم ۔
حضرت ابراہیم خلیل الرحمن ہیں ‘ اور آپ کی کنیت ابو الضیفان ہے ۔ صحیح یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام عراق کے شہر بابل کے موضع کو ثی میں پیدا ہوئے ۔ مجاہد نے کہا ہے کہ آزر حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے باپ نہیں تھے ۔ (مختصر تاریخ دمشق ج ٣ صفحہ ٣٤٤ مطبوعہ دارالفکر دمشق‘١٤٠٤ ھ،چشتی)

قرآنِ پاک میں کئی مقامات پر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اپنے والد کو توحید کی دعوت دی اور بت پرستی سے منع کیا اور سورۂ اَنعام کی آیت نمبر 74 میں اس کا نام آزر بھی مذکور ہے ، اب حل طلب معاملہ یہ ہے کہ آزر حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا حقیقی باپ تھا یا نہیں ، چنانچہ اس کے بارے مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ، بعض مفسرین کے نزدیک آزر حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا حقیقی باپ تھا ، بعض کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے والد کا نام تارح ہے اور اس کا لقب آزر ہے ، بعض کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی قومی زبان میں ان کے باپ کا نام تارخ تھا اور دوسری زبانوں میں تارخ کو آزر بولا جاتا تھا ، بعض کہتے ہیں کہ آزر حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے باپ کا نام نہیں بلکہ قوم کے بڑے بت کا نام آزر تھا اور بعض کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے والد کا نام تارخ تھا جبکہ آزر آپ علیہ السّلام کے چچا کا نام تھا اور بڑوں کی یہ عادت معروف تھی کہ وہ چچا کو باپ کہہ کر پکارتے تھے ۔ اور یہ آخری بات ہی درست ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا حقیقی باپ نہیں بلکہ چچا تھا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث پاک سے ثابت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نور پاک لوگوں کی پشتوں سے پاک عورتوں کے رحموں کی طرف مُنْتقل ہوا اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چونکہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آباؤ اَجداد سے ہیں اس لئے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حقیقی والد کفرو شرک کی نجاست سے آلودہ کیسے ہو سکتے ہیں ، چنانچہ علامہ شہاب الدین محمود آلوسی بغدادی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ علمائے اہلسنّت میں سے ایک جَمِّ غفیر کی رائے یہ ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا والد نہ تھا کیوں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آباؤ اجداد میں کوئی کافر نہ تھا ، جیسا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان ہے کہ’’ میں ابتداہی سے آخر تک پاک لوگوں کی پشتوں سے پاک خواتین کے رحموں میں مُنْتقل ہوتا چلا آیا ہوں جبکہ مشرک تونَجَس ہیں ۔ اورامام رازی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ کایہ کہنا کہ یہ شیعہ کا مذہب ہے درست نہیں ۔ امام رازی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ نے اچھی طرح چھان بین نہیں کی اس لیے ان سے یہ غلطی ہوگئی ۔ علمائے اہلسنّت کی اکثریت کا قول یہ ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چچا کا نام ہے اور ’’اَبْ‘‘ کا لفظ چچا کے معنی میں عام استعمال ہوتا ہے ۔ (روح المعانی، الانعام الآیۃ: ۷۴، ۴/۲۵۳،چشتی)

علامہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَلَیْہ فرماتے ہیں : قاموس میں ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چچا کا نام ہے ۔ امام علامہ جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ نے ’’مَسَالِکُ الْحُنَفَاءُ‘‘ میں بھی ایسا ہی لکھا ہے ۔ چچا کو باپ کہنا تمام ممالک میں معمول ہے بالخصوص عرب میں ، قرآنِ کریم میں ہے (جیسا کہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے) ’’نَعْبُدُ اِلٰہَکَ وَ اِلٰـہَ اٰبَآئِکَ اِبْرٰہٖمَ وَ اِسْمٰعِیۡلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰـہًا وَّاحِدًا‘‘ اس میں حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوحضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے آباء میں ذکر کیا گیا ہے باوجودیکہ آپ عَم (یعنی چچا) ہیں ۔ حدیث شریف میں بھی حضرت سیّدِ عالَم صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہ وَسَلَّمَ نے حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کواَبْ (یعنی باپ) فرمایا ، چنانچہ ارشاد کیا ’’رُدُّوْاعَلَیَّ اَبِیْ ‘‘ اور یہاں اَبِیْ سے حضرت عباس (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ) مراد ہیں ۔ (تفسیر خزائن العرفان الانعام الآیۃ: ۷۴، صفحہ ۲۶۱)

حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد محترم کا نام حضرت تارخ علیہ السلام تھا ۔ (البداية والنهاية، جلد اول صفحہ 141)(السيرة النبوية صفحہ 9)

لہٰذا ثابت ہوا کہ آیت میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے باپ (آزر) سے ان کا چچا مراد ہے حقیقی والد مراد نہیں ہیں ۔

حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد کا مسلمان ہونا

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ربنا اغفرلی ولوالدی واللمؤمنین یوم یقوم الحساب ۔
ترجمہ : (حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی) اے میرے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور سب مسلمانوں کو جس دن حساب ہوگا ۔ (سورہ ابراہیم ،پارہ ۴،آیت نمبر ۱۳)

اہلسنّت و جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد تارخ مومن ، مؤحد اور جنّتی تھے آزر بُت پرست آپ کا چچا تھا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اپنے والد کی مغفرت کے لئے دعا کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ مسلمان تھے کیونکہ کافر کے لئے مغفرت کی دعا نہیں کی جاتی ۔

وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰہِیۡمُ لِاَبِیۡہِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِہَۃً ۚ اِنِّیۡۤ اَرٰىکَ وَقَوْمَکَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۔
ترجمہ : اور یاد کرو جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کیا تم بتوں کو خدا بناتے ہو بیشک میں تمہیں اور تمہاری قوم کو کھلی گمراہی میں پاتا ہوں ۔

یہاں آیت میں آزر کیلئے ’’اَبْ‘‘ کا لفظ ذکر کیا گیا ہے ۔ اس کا ایک معنی ہے ’’باپ‘‘ اور دوسرا معنی ہے ’’چچا‘‘ اور یہاں اس سے مراد چچا ہے ، جیسا کہ قاموس میں ہے : آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چچا کا نام ہے ۔ (القاموس المحیط، باب الرائ، فصل الہمزۃ، ۱/۴۹۱، تحت اللفظ: الازر،چشتی)

امام جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ نے ’’مَسَالِکُ الْحُنَفَاء ‘‘ میں بھی ایسا ہی لکھا ہے ۔ نیزچچا کو باپ کہنا تمام ممالک میں معمول ہے بالخصوص عرب میں اور قرآن و حدیث میں بھی چچا کو باپ کہنے کی مثالیں موجود ہیں ، جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے نَعْبُدُ اِلٰہَکَ وَ اِلٰـہَ اٰبَآئِکَ اِبْرٰہٖمَ وَ اِسْمٰعِیۡلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰـہًا وّٰحِدًا‘‘ ۔ (سورہ بقرہ آیت نمبر 133)
ترجمہ : ہم آپ کے معبود اور آپ کے آباؤ و اجداد ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے جو ایک معبود ہے ۔

اس میں حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے آباء میں ذکر کیا گیا ہے حالانکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چچا ہیں ۔ اور حدیث شریف میں ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ رُدُّوْاعَلَیَّ اَبِیْ‘‘ میرے باپ کو میرے پاس لوٹا دو ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب المغازی، حدیث فتح مکۃ، ۸/۵۳۰، الحدیث:۳،چشتی) ۔ یہاں ’’اَبِی ْ‘‘ سے حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مراد ہیں جو کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے چچا ہیں ۔

علامہ نیشاپوری ‘ علامہ سیوطی اور علامہ آلوسی علیہم الرّحمہ کی تحقیق یہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے آباء کرام مومن تھے اور ہمارے نبی کریم سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلہ نسب میں تمام آباء اور امہات مومن تھے ۔

اب ہم وہ روایات ذکر کرتے ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد کا نام تارخ تھا اور آزر آپ کا چچا تھا ‘ اور عرب محاورات میں چچا پر باپ کا اطلاق ہوتا رہتا ہے ۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا باپ تارخ تھا نہ کہ آزر ۔

امام ابو اسحاق زجاج متوفی ٣١١ ھ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : نسب بیان کرنے والوں کے درمیان اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد کا نام تارخ تھا ۔ (معانی القرآن واعرابہ للزجاج جلد ٢‘ صفحہ ٢٦٥)

امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ مجاہد نے کہا کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے باپ کا نام نہیں ہے ‘ وہ بت کا نام ہے ۔ (جامع البیان ‘ جز ٧ ص ٣١٦‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ١٤١٥ ھ)

امام ابو عبدالرحمن بن ادریس رازی بن حاتم متوفی ٣٢٧ ھ رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : ضحاک حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کرتے ہیں ۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے باپ کا نام آزر نہیں تھا ‘ ان کے باپ کا نام تارخ تھا ۔ مجاہد بیان کرتے ہیں کہ آزر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ نہیں تھا ۔ ضحاک بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آزر سے کہا کیا تم اللہ کو چھوڑ کر بتوں سے مدد مانگتے ہو ایسا نہ کرو اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے تھے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد کا نام آزر نہیں تھا ‘ ان کے باپ کا نام تارخ تھا ۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم ‘ ج ٤‘ ص ١٣٢٥‘ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٧ ھ)

خاتم الحفاظ حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : امام ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو الشیخ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ آزر بت ہے اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا باپ نہیں ہے ‘ وہ ابراہیم بن تارخ بن ناحور بن شاروغ بن عابر بن فالع ہیں۔
قرآن مجید میں آزر کے اوپر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اب (باپ) کا اطلاق کیا گیا ہے ۔ اس کی یہ توجیہ کی گئی ہے کہ عرب میں ” اب “ کا اطلاق عم پر بہ کثرت کیا جاتا ہے ‘ اگرچہ یہ مجاز ہے ۔ قرآن مجید میں ہے ؛ (آیت) ” ام کنتم شھدآء اذ حضر یعقوب الموت اذ قال لبینہ ماتعبدون من بعدی قالوا نعبد الھک والہ ابائک ابرھیم واسمعیل واسحق “۔ (سورۃُ البقرہ : ١٣٣)
ترجمہ : کیا تم (اس وقت) حاضر تھے جب یعقوب کو موت آئی جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے فرمایا تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے ‘ انہوں نے کہا ہم آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادا ابراہیم ‘ اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے ۔
اس آیت میں حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر باپ کا اطلاق کیا گیا ہے ‘ حالانکہ وہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے باپ نہیں ‘ بلکہ چچا ہیں اور امام ابو العالیہ نے اس آیت کی تفسیر میں کہا کہ اس آیت میں چچا پر باپ کا اطلاق کیا گیا ہے اور انہوں نے محمد بن کعب قرظی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے کہ ماموں والد ہے اور چچا والد ہے اور اس آیت کی تلاوت کی ۔ (الحاوی للفتاوی ‘ ج ٢‘ ص ٢١٤‘ مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ لائل پور ‘ پاکستان،چشتی)

حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد کے مومن ہونے پر دلیل

امام ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں سند صحیح کے ساتھ حضرت سلیمان بن صرد سے روایت کیا ہے کہ جب کفار نے حضرت ابرہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو آگ میں ڈالنے کا ارادہ کیا وہ لکڑیاں جمع کرنے لگے ‘ حتی کہ ایک بوڑھی عورت بھی لکڑیاں جمع کرنے لگی ۔ جب وہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو آگ میں ڈالنے لگے تو آپ نے کہا (آیت) ”۔ حسبی اللہ ونعم الوکیل “۔ اور جب انہوں نے آپ کو آگ میں ڈال دیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ (آیت) ” ینار کونی برداوسلاما علی ابراھیم “۔ (سورۃُ الانبیاء : ٦٩)
ترجمہ : اے آگ تو ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چچا نے کہا میری وجہ سے ان سے عذاب دور کیا گیا ہے ‘ تب اللہ تعالیٰ نے آگ کی ایک چنگاری بھیجی جو اس کے پیر پر لگی اور اس کو جلا دیا ۔ اس اثر میں یہ تصریح کی گئی ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا چچا تھا اور اس اثر سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آزر اس وقت میں ہلاک کیا گیا تھا جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو آگ میں ڈالا گیا تھا اور اللہ سبحانہ نے قرآن مجید میں یہ خبر دی ہے کہ جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ معلوم ہوگیا کہ آزر اللہ کا دشمن ہے تو انہوں نے اس کے لیے استغفار کرنا ترک کر گیا ‘ اور احادیث میں آیا ہے کہ جب وہ حالت شرک میں مرگیا تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دشمن خدا ہونا معلوم ہوگیا اور انہوں نے پھر اس کے لیے استغفار نہیں کیا ۔

امام ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے سند صحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے (عرفی) باپ کے لیے مسلسل استغفار کرتے رہے اور جب وہ مرگیا تو ان کو معلوم ہوگیا کہ یہ اللہ کا دشمن ہے۔ پھر انہوں نے اسکے لیے استغفار نہیں کیا اور انہوں نے محمد بن کعب ‘ قتادہ ‘ مجاہد اور حسن وغیرہم سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس کی حیات میں اس کے ایمان کی امید رکھتے تھے اور جب وہ شرک پر مرگیا تو وہ اس سے بیزار ہوگئے۔ پھر آگ میں ڈالے جانے کے واقعہ کے بعدحضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے شام کی طرف ہجرت کی ‘ جیسا کہ قرآن مجید نے اس کی تصریح کی ہے ‘ پھر ہجرت کے کافی عرصہ بعد وہ مصر میں داخل ہوئے اور وہاں حضرت سارہ کے سبب سے ظالم بادشاہ کے ساتھ ان کا واقعہ پیش آیا اور انجام کار حضرت ہاجرہ آپ کی باندی بنادی گئیں اس کے بعد پھر شام کی طرف لوٹ گئے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا اور اس کے بیٹے حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مکہ میں منتقل کردیں اور وہاں آپ نے یہ دعا کی : (آیت) ” ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم ربنا لیقیموا الصلوۃ فاجعل افئدۃ من الناس تھوی الیھم وارزقھم من الثمرات لعلھم یشکرون، ربنا انک تعلم مانخفی وما نعلن وما یخفی علی اللہ من شیء فی الارض ولا فی السماء، الحمد للہ الذی وھب لی علی الکبر اسمعیل واسحق ان ربی لسمیع الدعآء، رب اجعلنی مقیم الصلوۃ ومن ذریتی ربنا وتقبل دعاء، ربنا اغفرلی ولوالدی وللمؤمنین یوم یقوم الحساب ، (سورہ ابراہیم : ٤١۔ ٣٧)
ترجمہ : اے ہمارے رب ‘ بیشک میں نے اپنی بعض اولاد کو بےآب وگیاہ وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس ٹھہرایا ہے ‘ اے ہمارے رب ! تاکہ وہ نماز قائم کریں ‘ سو تم کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے اور ان کو بعض پھل عطا فرماتا کہ وہ شکر ادا کریں ‘ اے ہمارے رب ! بیشک تو جانتا ہے جس کو ہم چھپاتے ہیں اور جس کو ہم ظاہر کرتے ہیں اور آسمان اور زمین میں سے کوئی چیز اللہ پر مخفی نہیں ہے سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں ‘ جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق عطا فرمائے ‘ بیشک میرا رب ضرور میری دعا سننے والا ہے ‘ اے میرے رب ! مجھے نماز قائم کرنے والا رکھ اور میری اولاد (سے) بھی ‘ اے ہمارے رب ! مجھے اور میرے والدین کو بخش دے اور سب ایمان والوں کو جس دن حساب قائم ہوگا ۔
اس آیت میں یہ تصریح ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے چچا آزر کے فوت ہونے کے طویل عرصہ بعد اپنے والدین کی مغفرت کے لیے دعا کی ۔ اس سے یہ واضح ہوگیا کہ قرآن مجید میں جس شخص کے کفر اور اس سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بیزار ہونے کا ذکر ہے وہ ان کے چچا تھے نہ کہ ان کے حقیقی والد ۔
امام محمد بن سعد رحمۃ اللہ علیہ نے الطبقات میں کلبی سے روایت کیا ہے کہ جس وقت حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بابل سے شام کی طرف ہجرت کی تو ان کی عمر سینتیس (37) سال تھی ‘ پھر انہوں نے کچھ عرصہ حران میں قیام کیا ‘ پھر کچھ عرصہ اردن میں قیام کیا پھر وہاں سے مصر چلے گئے اور کچھ عرصہ وہاں قیام کیا ‘ پھر وہاں سے شام کی طرف لوٹ گئے اور ایلیا اور فلسطین کے درمیان قیام کیا ۔ پھر وہاں کے لوگوں نے آپ کو ستایا تو آپ رملہ اور ایلیا کے درمیان چلے گئے اور امام ابن سعد رحمۃ اللہ علیہ نے واقدی سے روایت کیا ہے کہ نوے سال کی عمر میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ہاں حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پیدا ہوئے اور ان دونوں اثروں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آگ میں ڈالے جانے والے واقعہ کے بعد جب آپ نے بابل سے ہجرت کی تھی اور مکہ مکرمہ میں جو آپ نے دعا کی تھی انکے درمیان پچاس اور کچھ سال کا عرصہ ہے ۔ (الحاوی للفتاوی ‘ ج ١‘ ص ٢١٥۔ ٢١٤‘ مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد،چشتی)

خلاصہ یہ ہے کہ آزر کے مرنے کے پچاس سے زیادہ سال کے بعد حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے والدین کی مغفرت کے لیے دعا کی ہے اور جب کہ آزر سے وہ بیزار ہوچکے تھے اور اس کے لیے دعا کو ترک کرچکے تھے تو اس سے یہ ظاہر ہوا کہ آزر اور شخص تھا اور ان کے والد اور شخص تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے ان کے چچا آزر کو اب (عرفی باپ) کے لفظ سے تعبیر کیا ہے اور ان کے حقیقی باپ کو والد کے لفظ سے تعبیر کیا ہے ‘ تاکہ تغییر عنوان تغییر معنون پر دلالت کرے ۔ ہم نے علامہ سیوطی کے جس استدلال کو تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے ‘ علامہ آلوسی نے بھی اس کا خلاصہ ذکر کیا ہے ۔ (تفسیر روح المعانی ‘ جز ٧‘ ص ١٩٥‘ طبع بیروت)

اس سلسلہ میں اس حدیث سے بھی اعتراض کیا جاتا ہے : امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اپنے (عرفی) باپ آزر سے قیامت کے دن ملاقات ہوگی اور آزر کے چہرے پر دھواں اور گرد و غبار ہوگا ۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس سے فرمائیں گے کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میری نافرمانی نہ کرنا ؟ ان کے (عرفی) باپ کہیں گے ‘ آج میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا ۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرمائیں گے ‘ اے میرے رب تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ تو قیامت کے دن مجھ کو شرمندہ نہیں کرے گا اور اس سے بڑی اور کیا شرمندگی ہوگی کہ میرا (عرفی) باپ رحمت سے دور ہو، اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے جنت کافروں پر حرام کردی ہے ‘ پھر کہا جائے گا اے ابراہیم ! تمہارے پیروں کے نیچے کیا ہے ؟ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام دیکھیں گے تو وہ گندگی میں لتھڑا ہوا ایک بجو ہوگا ۔ اور اس کو ٹانگوں سے پکڑ کر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا ۔ (صحیح البخاری ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٣٣٥٠‘ سنن کبری للنسائی ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث :‘ ١١٣٧٥‘ المستدرک ‘ ج ٢‘ ص ٣٣٨‘ کنزالعمال ‘ ج ١١‘ رقم الحدیث :‘ ٣٢٢٩٢‘ مشکوۃ المصابیح ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٥٥٣٨)

حافظ عماد الدین ابن کثیر شافعی متوفی ٧٧٤ ھ لکھتے ہیں : یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے باپ کا نام آزر ہے اور جمہور اہل نسب ‘ بہ شمول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سب اس پر متفق ہیں کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے باپ کا نام تارخ ہے اور اہل کتاب تارح کہتے ہیں ۔ (البدایہ والنہایہ ‘ ج ١‘ ص ١٤٢‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٩٧٤ ء،چشتی)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی متوفی ١٠٥٢ ھ رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : بعض علماء رحمہم اللہ اس بات کے قائل ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام آباء کرام شرک اور کفر کی آلودگی سے پاک اور منزہ ہیں ۔ ان کے نزدیک آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چچا ہیں ‘ ان کو مجازا باپ کہا گیا ہے اور ان کے باپ کا نام تارخ ہے اسی وجہ سے مطلقا نہیں فرمایا کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اپنے باپ سے ملاقات ہوگی ‘ تاکہ ان کے حقیقی والد کی طرف ذہن متوجہ نہ ہو ‘ اور ان کے والد کے ساتھ آزر کا ذکر کیا ‘ تاکہ معلوم ہو کہ یہاں مجازی باپ مراد ہے۔ (اشعۃ اللمعات ‘ ج ٤‘ ص ٣٦٨‘ مطبوعہ مطبع تیج کمار ‘ لکھنؤ)

شیخ محمد ادریس کا ندھلوی متوفی ١٣٩٤ ھ دیوبندی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : تحقیق یہ ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا چچا تھا ‘ اس کو مجاز متعارف کے طور پر باپ کہا گیا ہے اور آپ کے باپ کا نام تارخ ہے۔ بعض محققین علماء جنہوں نے آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام آباء سے کفر کی نفی کی ہے ان کی یہی تحقیق ہے ۔ اس بناء پر اس حدیث میں آزر کا ذکر اس لیے ہے کہ اگر یوں کہا جاتا کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اپنے باپ سے ملاقات ہوگی ‘ تو اس سے ان کے حقیقی والد کی طرف ذہن چلا جاتا ‘ اور جب آزر کی قید لگائی تو ان کے حقیقی والد کی طرف ذہن نہیں جائے گا ۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس چچا پر باپ کا اطلاق اس لیے کیا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اختلاط اور ان کی الفت اپنے اس چچا کے ساتھ بہت زیادہ تھی اور مشرکین کا رئیس تھا اور اسی کے ساتھ ان کا مناظرہ ہوا تھا ۔ (التعلیق الصبیح ‘ ج ٦‘ ص ٣٠١‘ مطبوعہ مکتبہ نعمانیہ ‘ لاہور،چشتی)

اس حدیث پر دوسرا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام زندگی میں آزر کے دشمن خدا ہونے کی وجہ سے اس سے بیزار ہوگئے تھے ‘ تو پھر قیامت کے دن اس کی سفارش کیوں کی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آزر کے لیے نجات کی دعا کرنے سے بیزار ہوگئے تھے اور قیامت کے دن انہوں نے اس کی نجات کےلیے سفارش نہیں کی ‘ بلکہ اس کے عذاب میں تخفیف کے لیے سفارش کی تھی اور بعض خصوصیات کی بنا پر کفار کے عذاب میں تخفیف کردی جاتی ہے ۔

ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلہ نسب میں تمام آباء کرام مومن تھے اس پر دلیل یہ ہے کہ احادیث صحیحہ اس پر دلالت کرتی ہیں کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کر حضرت عبداللہ تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام آباء کرام اپنے اپنے زمانوں میں سب سے خیر (بہتر) اور سب سے افضل تھے ‘ اور قرآن مجید میں یہ تصریح ہے : (آیت) ” ولعبد مومن خیرمن مشرک ولو اعجبکم “۔ (البقرہ : ٢٢١)
ترجمہ : اور بیشک مومن غلام ‘ مشرک (آزاد) سے بہتر ہے خواہ وہ تمہیں اچھا لگے۔
اور جب مومن مشرک سے بہتر اور افضل ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء کرام اپنے اپنے زمانہ میں سب سے بہتر اور افضل تھے تو ضروری ہوا ک کہ وہ مومن ہوں۔ نیز احادیث اور آثار اس پر دلالت کرتے ہیں کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام یا حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد سے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت تک ‘ بلکہ قیامت تک روئے زمین پر کچھ ایسے لوگ رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی توحید پر قائم رہے اور اس کی عبادت کرتے رہے اور ان ہی کی وجہ سے زمین محفوظ رہی ‘ ورنہ زمین اور زمین والے ہلاک ہوجاتے ‘ اور ان مقدمات سے قطعی طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء میں کوئی مشرک نہیں تھا۔ کیونکہ زمین کبھی مومنین اور مشرکین سے خالی نہیں رہی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء اپنے اپنے دور میں سب سے بہتر اور افضل تھے اور مومن مشرک سے بہتر اور افضل ہوتا ہے ۔ لہذاثابت ہوگیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام آباء کرام مومن تھے ‘ پہلے ہم اس امر پر دلائل پیش کریں گے کہ زمین کبھی مومنین اور موحدین سے خالی نہیں رہی اور پھر اس امر پر دلائل پیش کریں گے کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کر حضرت عبد اللہ تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام آباء کرام اپنے اپنے زمانوں میں سب لوگوں سے بہتر اور افضل تھے ۔

خاتم الحفاظ حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : امام عبدالرزاق نے اپنی مصنف میں از معمر ‘ از ابن جریج ‘ از ابن المسیب روایت کیا ہے ‘ روئے زمین پر ہمیشہ قیامت تک کم از کم سات مسلمان رہے ہیں اور اگر وہ نہ ہوتے تو زمین اور زمین والے ہلاک ہوجاتے ۔
امام بخاری اور مسلم کی شرط کے مطابق یہ حدیث صحیح ہے اور ہرچند کہ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے ‘ لیکن اس قسم کی بات رائے سے نہیں کہی جاسکتی پس یہ حدیث حکما مرفوع ہے ۔ امام ابن المنذر نے اس حدیث کو امام عبدالرزاق کی سند سے اپنی تفسیر میں درج کیا ہے۔ امام ابن جریر نے اپنی تفسیر میں شہر بن حوشب سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے زمین میں ہمیشہ چودہ ایسے نفوس رہے جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ زمین والوں سے عذاب دور کرتا تھا اور ان کی برکت زمین میں پہنچاتا تھا ‘ ماسوا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانہ کے ‘ کیونکہ وہ اپنے زمانہ میں صرف ایک تھے۔
امام ابن المنذر نے قتادہ سے اپنی تفسیر میں روایت کیا ہے کہ ہمیشہ زمین میں اللہ کے اولیاء رہے ہیں ‘ جب سے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو زمین پر اتارا ہے ‘ کبھی زمین ابلیس کے لیے خالی نہیں رہی ‘ اس میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء رہے ہیں ‘ جو اس کی اطاعت کرتے رہے ہیں ۔
حافظ ابو عمرو ابن عبدالبر از قاسم ‘ از امام مالک روایت کرتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنما نے فرمایا جب تک زمین میں شیطان کا ولی ہے ‘ تو زمین میں اللہ کا ولی بھی ہے ۔
امام احمد بن حنبل نے کتاب الزھد میں بخاری اور مسلم کی شرط کے مطابق سند صحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد زمین کبھی ایسے نفوس سے خالی نہیں رہی جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ زمین والوں سے عذاب دور کرتا ہے۔ یہ حدیث بھی حکما مرفوع ہے ۔
امام ازرقی نے تاریخ مکہ میں زہیر بن محمد سے روایت کیا ہے کہ ہمیشہ زمین پر کم از کم سات ایسے رہے ہیں کہ اگر وہ نہ ہوتے تو زمین اور زمین والے ہلاک ہوجاتے ۔
امام ابن المنذر نے اپنی تفسیر میں سند صحیح کے ساتھ ابن جریج سے روایت کیا ہے ‘ انہوں نے کہا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے کچھ لوگ ہمیشہ فطرت پر رہے ‘ اللہ کی عبادت کرتے رہے ۔
امام بزار نے اپنی مسند میں اور امام ابن جریر ‘ امام ابن المنذر اور امام ابن ابی حاتم نے اپنی اپنی تفاسیر میں اور امام حاکم نے المستدرک میں تصحیح سند کے ساتھ اس آیت ” کان الناس امۃ واحدۃ “ کی تفسیر میں روایت کیا ہے کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے درمیان دس قرن ہیں اور ان میں سے ہر ایک شریعت حق پر ہے ۔ پھر ان کے بعد لوگوں میں اختلاف ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو بھیجا اور زمین والوں پر اللہ تعالیٰ نے جو سب سے پہلا رسول بھیجا ‘ وہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تھے ۔ اور امام محمد بن سعد نے طبقات میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک دس آباء ہیں اور وہ سب اسلام پر تھے۔ (الحاوی للفتاوی ‘ ج ٢‘ ص ٢١٣۔ ٢١٢‘ مطبوعہ فیصل آباد،چشتی)

امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قیامت قائم نہیں ہوگی حتی کہ زمین اللہ اللہ نہ کہا جائے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ دوسری روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تک ایک شخص بھی اللہ اللہ کہتا رہے گا اس پر قیامت قائم نہیں ہوگی ۔ (صحیح مسلم ‘ ایمان ٢٣٤‘ (١٤٨) ٣٦٩‘ ٣٦٨‘ سنن الترمذی ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٢٢١٤‘ صحیح ابن حبان ‘ ج ١٥‘ رقم الحدیث :‘ ٦٨٤٩‘ مسند احمد ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ١٣٨٣٤‘ طبع جدید ‘ مسند احمد ‘ ج ٣‘ ص ٢٦٨‘ ٢٠١‘ ١٠٧‘ طبع قدیم ‘ مسند ابو یعلی ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث :‘ ٣٥٢٦‘ مصنف عبدالرزاق ‘ ج ١١‘ رقم الحدیث :‘ ٢٠٨٤٧‘چشتی،مسند ابو عوانہ ‘ ج ١‘ ص ١٠١‘ المستدرک ‘ ج ٤‘ ص ٤٩٤‘ شرح السنہ ‘ ج ٧‘ ص ٤١٧٨‘ کنز العمال ‘ ج ١٤‘ رقم الحدیث :‘ ٣٨٥٨٥‘ مسند البزار ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٣٤١٨‘ مجمع الزوائد ‘ ج ٧‘ ص ٣٣١‘ ج ٨‘ ص ١٢‘ مشکوۃ المصابیح ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٥٥١٦)
اس صحیح حدیث سے یہ واضح ہوگیا کہ ہر دور میں اللہ اللہ کہنے والے مسلمان بندے روئے زمین پر رہے ہیں اور کسی دور میں بھی اللہ اللہ کہنے والوں سے زمین خالی نہیں رہی ‘ ورنہ قیامت آچکی ہوتی ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام آباء کرام کا اپنے اپنے زمانہ میں سب سے افضل اور بہتر ہونا

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے بنو آدم کے ہر قرن اور ہر طبقہ میں سب سے بہتر قرن اور طبقہ سے مطعوث کیا جاتا رہا حتی کہ جس قرن میں میں ہوں ۔ (صحیح البخاری ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٣٥٥٧‘ مسند احمد ‘ ج ٩‘ رقم الحدیث :‘ ٩٣٦٠‘ ٨٨٤٣‘ طبع دارالحدیث قاہرہ ‘ مسند احمد ‘ ج ٢‘ ص ٤١٧‘ طبع قدیم ‘ مشکوۃ المصابیح ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٥٧٣٩‘ کنزالعمال ‘ ج ١١‘ رقم الحدیث :‘ ٣٣٠٠٥‘ دلائل النبوۃ للبیقہی ‘ ج ١‘ ص ١٧٥)

امام ابوبکراحمد بن حسین بیہقی متوفی ٤٥٨‘ ھ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا میں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار ہوں۔ جب بھی لوگوں کے دو گروہ ہوئے اللہ تعالیٰ نے مجھے ان میں سے بہتر گروہ میں رکھا ‘ میں (جائز) ماں باپ سے پیدا کیا گیا ہوں ‘ مجھے زمانہ جاہلیت کی بدکاری سے کوئی چیز نہیں پہنچی۔ میں نکاح سے پیدا کیا گیا ہوں ‘ بدکاری سے پیدا نہیں کیا گیا ‘ حضرت آدم (علیہ السلام) کے زمانہ سے لے کر پاکیزگی کا یہ سلسلہ میرے باپ اور میری ماں تک پہنچا ہے ‘ میں بطور شخصیت کے تم سب سے بہتر ہوں اور بہ طور باپ کے تم سب سے بہتر ہوں۔ (دلائل النبوۃ ‘ ج ١‘ ص ١٧٥‘ ١٧٤)

امام ابو نعیم اصبہانی متوفی ٤٣٠ ھ رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے ماں باپ کبھی بھی بدکاری پر جمع نہیں ہوئے ۔ اللہ عزوجل ہمیشہ مجھے پاک پشتوں سے پاک رحموں کی طرف منتقل فرماتا رہا ‘ جو صاف اور مہذب تھیں۔ جب بھی دو شاخیں پھوٹیں ‘ میں ان میں سے بہتر شاخ میں تھا۔ (دلائل النبوۃ ج ١‘ رقم الحدیث : ١٥)

امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قریش آپس میں بیٹھے ہوئے اپنے حسب ونسب کا ذکر رہے تھے ۔ انہوں نے آپ کی مثال اس طرح دی جیسے زمین کے گھورے (گندگی ڈالنے کی جگہ) میں کھجور کا درخت پیدا ہوگیا ہو ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور مجھے ان میں سب سے بہتر لوگوں میں اور سب سے بہتر گروہوں میں اور سب سے بہتر فرقوں میں رکھا ‘ پھر قبیلوں کا انتخاب کیا اور مجھے سب سے بہتر قبیلہ میں رکھا ‘ پھر گھروں کا انتخاب کیا اور مجھے سب سے بہتر گھر میں رکھا۔ پس میں بطور شخص سب سے بہتر ہوں اور بہ طور گھر سب سے بہتر ہوں۔ امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن ہے ۔ (سنن الترمذی ‘ ج ٥‘ رقم الحدیث :‘ ٣٦٢٧‘ دلائل النبوۃ للبیہقی ‘ ج ١‘ ص ١٦٩‘ دلائل النبوۃ لابی نعیم ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ١٦،چشتی)

مطلب بن ابی وداعہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کوئی ناگوار بات سنی تھی ۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا میں کون ہوں ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ۔ علیک السلام ‘ آپ نے فرمایا میں محمد بن عبد اللہ بن عبدالمطلب ہوں ‘ بیشک اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا اور مجھے سب سے بہتر مخلوق میں رکھا ۔ پھر اللہ نے ان کے دو گروہ کیے ‘ تو مجھے سب سے بہتر گروہ میں رکھا۔ پھر اللہ نے ان کو قبائل میں منقسم کیا تو مجھے سب سے بہتر قبیلہ میں رکھا ‘ پھر اللہ نے ان کو گھروں میں منقسم کیا تو مجھے سب سے بہتر گھر میں رکھا اور سب سے بہتر شخص میں رکھا ۔ امام ترمذیرحمۃ اللہ علیہ نے کہا یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ۔ (سنن الترمذی ‘ ج ٥‘ رقم الحدیث :‘ ٣٦٢٨‘ دلائل النبوۃ للبیہقی ‘ ج ١‘ ص ٢٧٠‘ المعجم الکبیر ‘ ج ٢٠‘ رقم الحدیث : ٦٧٦۔ ٦٧٥‘ مسند احمد ‘ ج ٤‘ ص ١٦٦۔ ١٦٥)

امام ابو نعیم اصبہانی متوفی ٤٣٠ ھ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ”وتقلبک فی الساجدین“ کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ انبیاء علیہم السلام کی پشتوں میں منقلب ہوتے رہے ‘ حتی کہ آپ اپنی والدہ (رضی اللہ عنہا) سے پیدا ہوئے ۔ (دلائل النبوۃ جلد ١ رقم الحدیث : ١٧) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Aulia Allah Aur Min Doonillah By Dr Faiz Ahmad Chishti 20/09/2024

اولیاء اللہ اور من دونِ اللہ : مکمل بیان سنیے اور مزید بیانات کےلے چینل سبسکراٸب کیجیے : ⏬

Aulia Allah Aur Min Doonillah By Dr Faiz Ahmad Chishti Aulia Allah Aur Min Doonillah by Dr Faiz Ahmad Chishti ...

20/09/2024

صحیح بخاری ، صحیح مسلم ، جامع ترمذی اور میلادُالنَّبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : ترمذی شریف میں باب "باب ماجاء في ميلاد النبي صلي الله عليه وآله وسلم" ، الجامع ترمذی شریف میں ایک باب ہے "باب ماجاء في ميلاد النبي صلي الله عليه وآله وسلم" جو امام ترمذی نے باندھا ہے ۔ تب تک میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم منانا بدعت نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ بدعت کا بہتان بہت بعد کی ایجاد ہے ۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ 604 ہجری کے بعد میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم منانے کا رواج پڑا ۔ جبکہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ 209 ہجری میں پیدا ہوئے اور 279 میں فوت ہوئے ۔

مشکوٰۃ میں ترمذی اور دارمی کے حوالے سے حدیث پاک موجود ہے کہ : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بعض انبیاء کرام علیہم السّلام کے فضائل کا ذکر کر رہے تھے کہ اس محفل میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنے فضائل خود بیان فرمائے جن میں سے کچھ یہ ہیں "خبردار میں اللہ کا حبیب ہوں " اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ہی کے ظاہری حیاتِ مبارکہ کے زمانے میں ایک اور محفلِ میلاد مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم میں منعقد ہوئی جس میں آپ نے منبر پر بیٹھ کر اپنے فضائل اور ولادت کے تذکرے فرمائے ۔ (جامع ترمذی جلد 2 صفحہ 201)

صحیح مسلم شریف جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 7، مشکوٰۃ شریف صفحہ نمبر 179 میں یہ حدیث درج ہے کہ : حضرت سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بارگاہ رسالت میں عرض کی گئی کہ ’’ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم آپ پیر کا روزہ کیوں رکھتے ہیں ؟ ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے جواب دیا ’’ اسی دن میں پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی‘‘ ۔

امام حافظ بن حجر رحمة ﷲ علیہ (المتوفی 852ھ) نے ایک سوال کے جواب میں لکھا ’’میرے لئے اس (محفل میلاد) کی تخریج ایک اصل ثابت سے ظاہر ہوئی ، دراصل وہ ہے جو بخاری و مسلم میں موجود ہے : حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو دسویں محرم کا روزہ رکھتے دیکھا ۔ ان سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ دن ہے، جس دن ﷲ تعالیٰ نے فرعون کو غرق کیا تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی تھی ، ہم اس دن کا روزہ شکرانے کے طور پر رکھتے تھے ۔ (صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب صوم یوم عاشوراء ، رقم الحدیث 2004، صفحہ نمبر 321،چشتی)۔(صحیح المسلم، کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشوراء رقم الحدیث 2656، صفحہ نمبر 462)

اس کرہ ارض پر بسنے والے کسی بھی عالم دین (اگرچہ وہ صحیح عالم ہو) سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے پیر کے روزے کے متعلق دریافت کیجئے ، اس کا جواب یہی ہوگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنی ولادت کی خوشی میں روزہ رکھا ۔ نبی علیہ السلام اپنی آمد کی خوشی منائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے غلام اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا جشن نہ منائیں ۔ یہ کیسی محبت ہے ؟ اسی لئے تو مسلمان ہر سال زمانے کی روایات کے مطابق جشن ولادت مناتے ہیں ۔ کوئی روزہ رکھ کر مناتا ہے تو کوئی قرآن کی تلاوت کر کے ، کوئی نعت پڑھ کر ، کوئی درود شریف پڑھ کر ، کوئی نیک اعمال کا ثواب اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی بارگاہ میں پہنچا کر تو کوئی شیرینی بانٹ کر ، دیگیں پکوا کر غریبوں اور تمام مسلمانوں کوکھلا کر اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت کا جشن مناتاہے ۔ یعنی زمانے کی روایات کے مطابق اچھے سے اچھا عمل کرکے اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت کا جشن منایا جاتا ہے ۔ پس جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو مانتا ہے تو وہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سمجھ کر اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت کا جشن منائے گا اور جو شخص نبی کو نہیں مانتا ، وہ اس عمل سے دور بھاگے گا ۔

واقعہ حضرت ثوبیہ رضی اللہ عنہا اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم

محترم قارئین : ایک دوست نے میسج کیا کہ ایک نجدی نے انکار کر دیا ہے کہ بخاری شریف میں واقعہ حضرت ثوبیہ رضی اللہ عنہا والی حدیث نہیں ہے اس کا اسکن حوالہ دیں فقیر اس پر تفصیل سے لکھ چکا ہے مگر حیرت ہے نجدی بغض نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اتنا گر چکے ہیں کہ احادیث کا بھی انکار کر دیتے ہیں آیئے اس حدیث کے متعلق تفصیل سے پڑھتے ہیں اصل اسکن بھی پیشِ خدمت ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت مبارکہ ساری کائنات کے حق میں نعمت کبری ہے، اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے : قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا- ترجمہ : آپ فرمادیئجے کہ اللہ کی رحمت اور اس کے فضل پر ہی خوشی منائیں - (سورۂ یونس-58)

اس نعمت عظمی پر فرحت ومسرت کا اظہار کرنا تقاضۂ فطرت ہے ، جو شخص حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے موقع پر خوشی کا اظہار کرتا ہے اللہ تعالی اسے اجرعظیم وثواب جزیل عطافرماتاہے - صحیح بخاری شریف اور دیگر کئی کتب حدیث میں الفاظ کے قدرے اختلاف کے ساتھ روایت مذکور ہے ، بعض روایتوں میں اختصار ہے اور بعض میں تفصیل ہے ، صحیح بخاری شریف ج 2،صفحہ 764،کی روایت کے الفاظ یہ ہیں : قال عروة و ثويبة مولاة لابی لهب کان ابولهب اعتقها فارضعت النبی صلی الله عليه وسلم فلما مات ابولهب اريه بعض اهله بشرحيبة قال له ماذا لقيت قال ابولهب لم الق بعدکم غير انی سقيت فی هذه بعتاقتی ثويبة ۔ ترجمہ : حضرت عروہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ‘ ثویبہ ابولہب کی باندی ہے، ابو لھب نے انہیں آزاد کیا تھا اور وہ حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلائیں ، جب ابولہب مرگیا تو اس کے خاندان والوں میں کسی نے خواب میں اسے بدترین حالت میں دیکھا‘ اس سے کہا : تو نے کیا پایا ؟ ابو لہب نے کہا : میں نے تم لوگوں سے جدا ہونے کے بعد کچھ آرام نہیں پایا ‘ سوائے یہ کہ ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے اس ( انگلی ) سے سیراب کیا جاتا ہوں ۔ (صحیح بخاری شریف کتاب النکاح باب من قال لا رضاع بعد حولین جلد نمبر 2 ،ص764، حدیث نمبر 4711 عربی)(صحیح بخاری مترجم اردو جلد سوم صفحہ نمبر 224 ، 225 ،چشتی)

اس روایت کی شرح کرتے ہوئے شارحین صحیح بخاری شریف علامہ بدرالدین عینی حنفی اور حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی وغیرہ رحمھم اللہ تعالی اپنی اپنی شرح میں دیگر کتب حدیث کے حوالہ سے تفصیلی روایت تحریر فرماتے ہیں ۔ ہم یہاں علامہ بدرالدین عینی حنفی رحمتہ اللہ علیہ کی شرح عمدۃ القاری ج ،14 صفحہ 45، سے عبارت نقل کرتے ہیں : وذکر السهيلی ان العباس رضی الله تعالی عنه قال لمامات ابولهب رايته فی منامی بعد حول فی شرحال، فقال مالقيت بعدکم راحة الا ان العذاب يخفف عنی کل يوم اثنين، قال وذلک ان النبی صلی الله عليه وسلم ولد يوم الاثنين وکانت ثويبة بشرت ابالهب بمولده فاعتقها ۔
ترجمہ : حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب ابولہب مر گیا تو میں نے ایک سال کے بعد خواب میں اسے بدترین حالت میں دیکھا تو اس نے کہا : میں تم سے جداہونے کے بعد اب تک راحت نہیں پایا البتہ ہر پیر کے دن مجھ سے عذاب ہلکا کیا جاتاہے ۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں وہ اس لئے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پیر کے دن تولد ہوئے اور ثویبہ نے ابو لھب کو آپ کی ولادت باسعادت کی خوشخبری دی تو اس نے انہیں آزاد کردیا ۔ (عمدۃ القاری کتاب النکاح باب من قال لا رضاع بعد حولینج14،ص45)(یہ روایت مختلف الفاظ کے ساتھ ذیل میں ان کتب احادیث میں بھی موجود ہے سنن کبری، للبیہقی کتاب النکاح حدیث نمبر 14297،چشتی)(مصنف عبدالرزاق کتاب المناسک ج7 حدیث نمبر 13546)(جامع الاحادیث والمراسیل ، مسانید الصحابۃ ،حدیث نمبر:43545)(کنزالعمال ج6،کتاب الرضاع من قسم الافعال ،حدیث نمبر:15725)

سلف صالحین و علماء امت میں حافظ شمس الدین ابن الجزری نے اور حافظ شمس الدین بن ناصر الدین دمشقی رحمھما اللہ تعالی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے موقع پر خوشی منانے اور فرحت و مسرت کا اظہار کرنے پر اس روایت سے استدلال کیاہے ۔ حافظ شمس الدین بن ناصرالدین دمشقی فرماتے ہیں : قدصح ان ابا لهب يخفف عنه عذاب النار فی مثل يوم الاثنين باعتاقه ثويبة مسرورا بميلاد النبی صلی الله عليه وسلم ثم انشد ۔
ترجمہ : یہ صحیح روایت ہیکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارک پر خوش ہو کر ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے ابو لہب سے پیر کے دن دوزخ کے عذاب میں تخفیف کی جاتی ہے پھر انہوں نے اشعار پڑھے ‘ اس کا ترجمہ یہ ہے: جب یہ ( ابولھب ) کافر ہے جس کی مذمت میں ’’ سورہ تبت یدا‘‘ نازل ہوئی اور وہ ہمیشہ دوزخ میں رہنے والا ہے تو احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم کی میلاد پر خوش ہونے کی وجہ سے ہمیشہ ہر پیر کے دن اس سے عذاب میں تخفیف کی جاتی ہے تو اس بندہ کے حق کس قدر اجر و ثواب کا گمان کیا جائے جو عمر بھر احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد کی خوشی منایا اور حالت ایمان میں انتقال کیا ۔ علاوہ ازیں اس کا ذکر ۔ (شرح المواہب للزرقانی ، ج1،ص261،اور سبل الہدی والرشاد ،ج،1،ص367،چشتی) میں موجود ہے ۔

نیز ابن عبد الوہاب نجدی کے بیٹے شیخ عبد الله بن محمد بن عبد الوهاب نے اپنی کتاب "مختصر سيرة الرسول صلى الله عليه وسلم" میں رقم کیا ہے : وأرضعته صلى الله عليه وسلم ثويبة عتيقة أبي لهب، أعتقها حين بشرته بولادته صلى الله عليه وسلم. وقد رؤي أبو لهب بعد موته في النوم فقيل له: ما حالك؟ فقال: في النار، إلا أنه خفف عني كل اثنين، وأمص من بين إصبعي هاتين ماء -وأشار برأس إصبعه- وإن ذلك بإعتاقي ثويبة عندما بشرتني بولادة النبي صلى الله عليه وسلم وبإرضاعها له ۔
ترجمہ : ابو لہب کی آزاد کردہ باندی "ثویبہ" کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت رضاعت کا شرف ملا،ابو لہب نے انہيں اس وقت آزاد کیا تھا جس وقت انہوں نے اسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت باسعادت کی بشارت سنائی تھی- اور ابو لہب کے مرنے کے بعد اسے خواب میں دیکھا گيا ، اس سےپوچھا گیا کہ تیرا کیا حال ہے ؟ تو اس نے کہا : میں عذاب میں ہوں البتہ ہر پیر کے دن مجھ سے عذاب ہلکا کیا جاتاہے ، اور میں اپنی ان دونوں انگلیوں کے درمیان پانی چوستا ہوں (اس نے اپنی انگلی کی پور کی جانب اشارہ کیا) اور یہ ثویبہ کو اس موقع پر آزاد کرنے کی برکت ہے جس وقت اس نے مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت کی بشارت دی تھی،اور خدمت رضاعت کا شرف حاصل کیا تھا - شیخ عبد الله بن محمد بن عبد الوهاب نے اس روایت سے جواز میلاد پر استدلال کرتے ہوئے علامہ ابن جوزی کا قول نقل کیا ہے : قال ابن الجوزي: فإذا كان هذا أبو لهب الكافر الذي نزل القرآن بذمه جوزي بفرحه ليلة مولد النبي صلى الله عليه وسلم به فما حال المسلم الموحد من أمته صلى الله عليه وسلم يسر بمولده ؟۔ ترجمہ:ابن جوزی نے کہا:جب کافر ابو لہب کہ جس کی مذمت میں قرآن کریم کی سورت نازل ہوئی اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت کی شب خوش ہونے پر ثواب دیا جارہا ہے تو آپ کی امت کا مؤمنِ موحّد جب آپ کی ولادت پر اظہار مسرت کرتا ہے تو وہ کس قدر نوازا جائے گا - (مختصر سيرة الرسول صلى الله عليه وسلم لعبد الله بن محمد بن عبد الوهاب، باب رضاعه من ثويبة عتيقة أبي لهب ،ج 1،ص10-مطبوعہ: دار الفيحاء دمشق ـ مختصر سيرة الرسول صلى الله عليه وسلم لعبد الله بن محمد بن عبد الوهاب، باب رضاعه من ثويبة عتيقة أبي لهب ،ج 1،ص16/17-مطبوعہ: دار السلام الرياض)

خاص طور پر میلاد شریف کے دن اہتمام کرنا خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے عمل مبارک سے ثابت ہے ، چنانچہ صحیح مسلم شریف میں ہے : عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ صَوْمِ الِاثْنَيْنِ فَقَالَ فِيهِ وُلِدْتُ وَفِيهِ أُنْزِلَ عَلَيَّ- ترجمہ : سیدنا ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روز دوشنبہ کے روزہ کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: یہ میری ولادت کا دن ہے اور اسی دن مجھ پر قرآن نازل کیا گیا ۔ (صحيح مسلم ، كتاب الصيام ، باب استحباب صيام ثلاثة أيام من كل شهر وصوم يوم عرفة وعاشوراء والاثنين والخميس، حدیث نمبر:1978)

اسی روایت کے مطابق ہمارے اسلاف جوکہ اپنے دور کے مستند مفسر ، محدث اور محقق رہے ہیں ان کے خیالات پڑھئے اور سوچئے کہ اس سے بڑھ کر جشن ولادت منانے کے اور کیا دلائل ہوں گے ؟

(1) ابولہب وہ بدبخت انسان ہے جس کی مذمت میں قرآن کی ایک پوری سورۃ نازل ہوئی ہے لیکن محض اس وجہ سے کہ اس کی آزاد کردہ باندی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو دودھ پلایا تو اس کا فائدہ اس کے مرنے کے بعد بھی اس کو کچھ نہ کچھ ملتا رہا۔ سہیلی وغیرہ نے اس خواب کا اتنا حصہ اور بیان کیا ہے ۔ ابولہب نے حضرت عباس سے یہ بھی کہا کہ دوشنبہ پیر) کو میرے عذاب میں کچھ کمی کردی جاتی ہے ۔ علماء کرام نے فرمایا اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی تشریف آوری کی بشارت سنانے پر ثویبہ کو جس وقت ابولہب نے آزاد کیا تھا اسی وقت اس کے عذاب میں کمی کی جاتی ہے ۔ (تذکرہ میلاد رسول صفحہ نمبر 18،چشتی)

(2) شیخ محقق حضرت علامہ مولانا شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ ﷲ علیہ کا فرمان مبارک : میلاد شریف کرنے والوں کے لئے اس میں سند ہے جوشب میلاد خوشیاں مناتے ہیں اور مال خرچ کرتے ہیں ۔ یعنی ابولہب کافر تھا اور قرآن پاک اس کی مذمت میں نازل ہوا ۔ جب اسے میلاد کی خوشی منانے اور اپنی لونڈی کے دودھ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے لئے خرچ کرنے کی وجہ سے جزا دی گئی تو اس مسلمان کا کیا حال ہوگا جو محبت اور خوشی سے بھرپور ہے اور میلاد پاک میں مال خرچ کرتا ہے ۔ (مدارج النبوۃ جلد دوم صفحہ نمبر 26)

(3) حضرت علامہ مولانا حافظ الحدیث ابن الجزری رحمۃ ﷲ علیہ کا فرمان مبارک : جب ابولہب کافر جس کی مذمت میں قرآن پاک نازل ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت کی خوشی میں جزا نیک مل گئی (عذاب میں تخفیف) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی امت کے مسلمان موحد کا کیا حال ہوگا ۔ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت کی خوشی مناتا ہو اور حضور کی محبت میں حسب طاقت خرچ کرتا ہو ۔ مجھے اپنی جان کی قسم ﷲ کریم سے اس کی جزا یہ ہے کہ اس کو اپنے فضل عمیم سے جنت نعیم میں داخل فرمائے گا ۔ (مواہب لدنیہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 27،چشتی)

(4) جلیل القدر محدث حضرت علامہ ابن جوزی رحمۃ ﷲ علیہ کا فرمان مبارک : جب ابولہب کافر (جس کی قرآن میں مذمت بیان کی ہے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت پر خوش ہونے کی وجہ سے یہ حال ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی امت کے اس موحد مسلمان کا کیا کہنا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت پر مسرور اور خوش ہے ۔ (بیان المولد النبوی صفحہ نمبر 70 بحوالہ مختصر سیرۃ الرسول صفحہ نمبر 23 عبد اللہ بن محمد بن عبد الوہاب نجدی)

ان محدثین کرام اور اسلاف علیہم الرّحمہ کے خیالات سے ثابت ہے کہ جشن ولادت منانا اسلاف کا بھی محبوب فعل رہا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ جب کافر محمد بن عبداﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی آمد کی خوشی مناکر فائدہ حاصل کرسکتا ہے تو مسلمان محمد رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی آمد کا جشن مناکر کیوں فائدہ حاصل نہیں کرسکتا ؟ بلکہ ابن الجزری نے تو قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ میلاد منانے والوں کی جزا یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں جنت میں داخل فرمادے گا ۔

جہاں تک مروجہ طریقے سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم منانے کا سوال ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جیسے جیسے زمانہ ترقی کرتا رہا ، لوگ ہر چیز احسن سے احسن طریقے سے کرتے رہے ۔ پہلے مسجدیں بالکل سادہ ہوتی تھیں ، اب اس میں فانوس اور دیگر چراغاں کرکے اس کو مزین کرکے بنایا جاتا ہے ۔ پہلے قرآن مجید سادہ طباعت میں ہوتے تھے ، اب خوبصورت سے خوبصورت طباعت میں آتے ہیں وغیرہ اسی طرح پہلے میلاد سادہ انداز میں ہوتا تھا ، صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اور تابعین اپنے گھروں پر محافلیں منعقد کرتے تھے اور صدقہ و خیرات کرتے تھے ۔

حضرت عباس رضی اللہ عنہ میلادالنبی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم بیان فرماتے ہیں

صحابہ رضی اللہ عنہم اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم نے میلاد منایا اسے میلاد نہیں کہتے تو اور کیا کہتے ہیں پڑھیے : امام حاکم کی رحمۃ اللہ علیہ مستدرک ، امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ کی معجم کبیر اور علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ کی مجمع الزوائد میں اس متعلق روایتیں منقول ہیں کہ غزوۂ تبوک سے واپسی کے وقت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے آپ کی تعریف وتوصیف اورمدح وثنا کرنے کی اجازت طلب کی ، حضور پاک صلی اللہ والہ وسلم نے دعاؤں سے نوازتے ہوئے اجازت مرحمت فرمائی تب حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اشعار پڑھے ۔ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب مستدرک علی الصحیحین سے حدیث شریف کا متن نقل کیا جارہا ہے : سمعت جدی خريم بن اوس حارثة بن لام رضی الله عنه يقول هاجرت الی رسول الله صلی الله عليه وسلم منصرفه من تبوک فاسلمت فسمعت العباس بن عبدالمطلب يقول يارسول الله انی اريد ان امتدحک فقال رسول الله صلی الله عليه وسلم قل لايفضفض الله فاک قال قال فقال العباس رضی اللہ عنہ ۔

من قبلها طبت فی الظلال وفی
مستودع حيث يخصف الورق

تنقل من صالب الی رحم
اذا مضی عالم بدا طبق

حتی احتوی بيتک المهيمن من
خندف علياء تحتها الطبق

وانت لما ولدت اشرقت ال
ارض وضاء ت بنورک الافق

ترجمہ : حضرت خریم بن اوس بن حارثہ بن لام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں تبوک سے واپسی کے وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف ہجرت کیا اور مشرف بہ اسلام ہوا میں نے حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کی خدمت اقدس میں یہ عرض کرتے ہوئے سنا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم ! میں چاہتاہوں کہ آپ کی مدحت وتعریف کروں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : آپ تعریف کیجئے اللہ تعالی آپ کے چہرہ کو زینت بخشے ۔

حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اشعار کہے منجملہ ان کے کچھ اشعار یہ ہیں جب آپ کی ولادت باسعادت ہوئی تو زمین روشن و منور ہو گئی اور آ پ کے نور مبارک سے افق عالم منو روتابندہ ہو گئے ۔ (معجم کبیر لطبرانی حدیث نمبر 4057 مستدر ک علی الصحیحین کتا معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ عنہم حدیث نمبر 5426)(مجمع الزوائد کتاب علامات النبوۃ باب فی کرامۃ اصلہ صلی اللہ علیہ وسلم جلد 8 صفحہ 217) ۔ نیز معجم طبرانی اور مجمع الزوائد میں یہ شعر مذکور ہے : فنحن فی ذلک الضياء وفی النور وسبل الرشاد نخترق ۔ تو ہم اس روشنی میں اور اسی نور میں ہدایت کے راستے سرکررہے ہیں ۔ مستدرک میں لايفضفض کے الفاظ ہیں اور معجم کبیر اور مجمع الزوائد میں لا يفضض مروی ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Want your organization to be the top-listed Government Service in Lahore?
Click here to claim your Sponsored Listing.

Videos (show all)

محافلِ میلاد و نعت کے آداب و شرعی احکام ۔ مکمل بیان سماعت کیجیے : ⏬
عقیدہ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ۔ مکمل بیان سماعت کیجیے : ⏬
عقیدہ ختمِ نبوت ۔ پارٹ 4
عقیدہ ختمِ نبوت ۔ پارٹ 3
عقیدہ ختمِ نبوت ۔ پارٹ 2
عقیدہ ختمِ نبوت ۔ پارٹ 1
منافقوں کو پہچانیے ایک ہی بندہ باتیں دو وجہ مولوی اشفاق کروڑوی گولڑوی کا پہلے کا بیان اور چند دن پہلے گولڑہ شریف میں پڑھ...
ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ؟ ۔ مزید بیانات سننے کےلیے ہمارے چینل کو سبسکراٸب کیجیے چینل لنک یہ ہے : ⏬https://youtube.com/@d...
مزاراتِ اولیاء اللہ علیہم الرحمہ پر ہونے والی خرافات اور جاہل گدی نشین ۔ مزید بیانات سننے کےلیے ہمارے چینل کو سبسکراٸب ک...
ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ؟ ۔ پارٹ 9

Category

Telephone

Address

Lahore
53800

Other Public Services in Lahore (show all)
Rajpoot Car Rent Service Rajpoot Car Rent Service
Shalimar Link Road
Lahore, 54000

All type of cars costar available

Bin Waqar Trader's Bin Waqar Trader's
Lahore

100% Original Fragrance (Arabic - English - Turkish - French - Anyone) All Branded Perfume Available

Ejaz Social Media Service Ejaz Social Media Service
Lahore
Lahore, 54700

All Social media services available for cheapest

Fadii Mantel Fadii Mantel
Lahore Chungi Amer Sidhu
Lahore, 01

P*k and drop

Pakistan Jobs Pakistan Jobs
Lahore, 54000

We are providing remote HR services in all over the Lahore in different shifts Hiring Candidates for

RENTA for All RENTA for All
Grand Trunk Road
Lahore, 54920

“ONE STOP SHOP” for Rental needs

OPEN GrounD OPEN GrounD
Gulshan Ravi Lahore
Lahore

Master views Related to people & public

Hafiz Home Services Hafiz Home Services
Pakarab Society
Lahore

Hafiz Home Services is a company specialized in providing pest and termite control, water tank clean

Pakistan Weather Update پاکستان کے موسم اپ ڈیٹ Pakistan Weather Update پاکستان کے موسم اپ ڈیٹ
Sector 05, Phase 10, DHA Lahore
Lahore, 54000

Our main aim is to provide daily basis weather news to public. Climate changes. Global warming..

BeFikra Paan BeFikra Paan
Lahore, 63100

Memes

Pastor Riaz Gill Pastor Riaz Gill
Lahore, 54700

Prayers Meeting Services Praise the Lord

Ladu Pan Shop Ladu Pan Shop
Altaf Colony Ranger Head Quarter Near Khalid Pco
Lahore, 5200

Alhamdulillah