Mr. malti Talented
محبت کا المیہ یہی ہے کہ يہ ان لوگوں سے ہوجاتی ہے جو آپ کیلئے نہیں بنے ہوتے !
خلیل جبران
اصل جنگ کیا ہے؟
بیت المقدس تین مذاہب کی مقدس جگہ۔۔۔۔
مسلمانوں کا قبلہ دوئم
عیسائیوں کے لئے یسوع کی جائے ولادت
یہودیوں کے لئے ہیکل سلیمان
شروع کرتے ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے۔ جن کے دو بیٹے تھے اسماعیل اور اسحاق۔
اسحاق علیہ السلام کے بیٹے تھے حضرت یعقوب۔
یہیں سے کہانی شروع ہوتی ہے اسرائیل کی۔ اسرائیل یعنی اللہ کا بندہ۔ اور یہ لقب حضرت یعقوب علیہ السلام کو دیا گیا۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے جب کفیل مصر بنے تو آپ کو حکم ہوا کہ اپنے تمام خاندان یعنی آل یعقوب کو مصر بلایا جائے۔ اور مصر کی سرزمین کا ایک مخصوص حصہ ان کے لئے مختص کیا گیا۔ اور اللہ کی طرف سے کہا گیا کہ اے آل یعقوب اس سرزمین میں تمھارے لئے برکتیں ہیں۔
حضرت یوسف علیہ السلام بارہ بھائی تھے اسی لئے اللہ تعالی نے ان کے لئے بارہ چشمے جاری کیے۔ اور یوں اس سرزمین کا نام حضرت یعقوب کے لقب سے اسرائیل پڑگیا۔ جسے آج یروشلم بھی کہا جاتا ہے۔
آپ کی نسل سے کم و بیش ستر ہزار انبیائے کرام آئے۔
حضرت یوسف کے بھائی یہودا کی نسل آگے بڑھی تو اس میں سے آنے والے تمام بنی اسرائیلی یہودی کہلائے۔
وقت گزرتا گیا اور حضرت موسی علیہ السلام کا دور آیا۔ جب فرعون نے مصر کی آپ پر تنگ کی تو بنو اسرائیل کے ساتھ آپکو مصر سے نکلنا پڑا۔
اس دوران بنی اسرائیل پر اللہ تعالی کی بہت سے کرم نوازیاں بھی ہوئیں، جس میں من و سلوی، چشموں کی بہتات، مچھلیوں کے شکار کا ذکر قرآن پاک سے بھی ملتا ہے۔ اور وہیں ہمیں ایک گائے کا ذکر بھی ملتا ہے، جس کے لوتھڑے سے مردے نے اللہ کے حکم سے زندہ ہوکر اپنے قاتل کا بتایا۔ اس گائے کی نشانیاں اللہ تعالی نے قرآن پاک میں بیان فرمائیں۔ جوکہ ایک سرخ مائل رنگت کی گائے تھی اور ایسی گائے آج بھی یہودیوں کے نزدیک مقدس مانی جاتی ہے۔
حضرت موسی علیہ السلام کے بعد دیگر نبی آئے۔ اس دوران میں حضرت موسی علیہ السلام اور ان کے دور کی کچھ باقیات، تورات، من و سلوی کا کچھ حصہ بنی اسرائیل نے ایک صندوق میں محفوظ کرلیا۔ یہ اللہ کی طرف حضرت آدم کو دیا گیا ایک خاص صندوق تھا جو نسل در نسل نبیوں کے پاس رہا۔ جسے قرآن میں تابوت سکینہ کے نام پکارا گیا ہے۔ اور یہ یہودیوں کو اپنی جان سے ذیادہ عزیز ہے۔
حضرت داؤد نے جب جالوت کو ہرا کر اس سے تابوت سکینہ حاصل کیا تو یوں بنی اسرائیل نے انہیں نبی تسلیم کرلیا۔ اور حضرت داؤد علیہ السلام نے اس صندوق کی حفاظت کے لئے ایک ہیکل تعمیر کروانا شروع کیا جو کہ انکی زندگی میں مکمل نہ ہوسکا۔ ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنوں کی مدد سے اس کو مکمل کروایا اور اسی دوران میں آپکی بھی وفات ہوگئی۔
اسی وجہ سے اسے ہیکل سلیمانی کہا جاتا ہے۔
بعد ازاں بابل کے باشاہ بخت نصر نے اسرائیل پر حملہ کیا اور ہیکل سلیمانی کو بھی گرا دیا۔ اور تابوت سکینہ بھی اپنے ساتھ لے گیا۔
سیپرس دی گریٹ نے دوبارہ یہ شہر حاصل کیا۔ یہودیوں کو دوبارہ یہاں آباد کیا اور تابوت سکینہ کو بھی واپس لایا گیا۔ ہیکل سلیمانی ایک دفعہ پھر تعمیر کیا گیا۔
پھر وقت گزرا اور حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد ہوئی۔ جنہیں نعوذبااللہ یہودیوں نے دجال، ناجائز اور کیا کیا لقب دیئے۔ یہاں سے یہودیوں میں سے دو الگ قومیں ہوگئیں ایک یہودی اور دوسرے عیسائی۔
یہودیوں نے سازش کرکے حصرت عیسی علیہ السلام کو صلیب پر چڑھانا چاہا اور اللہ تعالی نے انہیں اپنے پاس اٹھالیا۔
اس کے بعد یہودیوں اور عیسائیوں میں کئی چھوٹی موٹی جنگیں ہوئیں۔ پھر عیسائی رومی بادشاہ ٹائیٹس نے اس شدت سے یروشلم پر حملہ کیا کہ اس پورے علاقے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ہیکل سلیمانی کو گرادیا۔ جس کی صرف ایک دیوار اس وقت اپنی اصلی حالت میں موجود ہے جسے دیوار گریہ کہاجاتا ہے۔ جہاں یہودی جاکر تورات کی تلاوت کرتے ہیں اور گریہ و زارہ کرتے ہیں۔ تابوت سکینہ بھی نہ جانے کہاں غائب ہوگیا۔
ٹائٹس کے حملے کے بعد یہودی آخری نبی کے انتظار میں تھے۔ کیونکہ اللہ پاک کا ان سے وعدہ تھا کہ انہیں پھر عروج بخشا جائے گا۔
اس وعدہ کا ذکر سورہ البقرہ میں بھی موجود ہے کہ
"اے بنی اسرائیل، ان نعمتوں کو یاد کرو جو تم پر کی گئیں، اور اپنا وعدہ پورا کرو (ایمان لاو) تاکہ ہم بھی اپنا وعدہ پورا کریں۔"
قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ ہیکل سلیمانی کی تین دفعہ تعمیر ہوگی۔ جوکہ دو دفعہ ہوچکی ہے۔
یہودی اپنے مسیحا اور آخری نبی کے انتظار میں تھے کہ ٹائیٹس کے حملے کے پانچ سو سال بعد نبی آخرالزمان کی ولادت ہوئی۔ یہاں یہودیوں کو یہ جھٹکا لگا کہ سارے نبی حضرت اسحاق کی نسل سے ہیں تو آخری نبی حضرت اسماعیل کی نسل سے کیونکر آگئے۔۔۔ اور انہوں نے ایمان لانے سے انکار کردیا۔
مسلمانوں کے لئے بھی وہ انبیاء کی ہی نشانی تھی اسی لئے ہیکل سلیمانی کو بیت المقدس کا نام دیا گیا۔
اسلام کے آغاز میں یہودیوں کو قائل کروانے کی خاطر ہی بیت المقدس کی جانب منہ کرکے نماز ادا کرنے کا حکم ہوا۔ کیونکہ یہودی اسی طرف منہ کرکے عبادت کیا کرتے تھے۔
سترہ ماہ بعد ہماری عبادت کا رخ بیت المقدس سے بیت اللہ کی جانب موڑ دیا گیا۔ کیونکہ مسلمانوں کا شروع سے قبلہ اول وہی رہا۔ جسے پہلے حضرت آدم اور پھر حضرت ابراہیم نے تعمیر کیا۔
حضرت عمر رض کے دور حکومت میں اسرائیل یعنی یروشلم پر عیسائیوں کا قبضہ تھا۔ بیت المقدس کے ہی احاطے میں انہوں نے گرجا گھر تعمیر کیا ہوا تھا۔ اور عین تابوت سکینہ والی جگہ وہ گند پھینکا کرتے تھے یہودیوں کی نفرت میں۔ یروشلم کی فتح کے وقت جب حضرت عمر وہاں گئے تو عیسائیوں پر برہم ہوئے۔ وہاں صفائی کروا کر مسجد تعمیر کروائی، اور قرآن میں موجود معراج والے واقعے کی نسبت سے اس مسجد کو اقصی کا نام دیا۔
یہودیوں کی دیوار گریہ بھی اسی احاطے میں موجود تھی تو زائرین کی حثیت سے انہیں بھی وہاں آنے کی اجازت دے دی گئی۔
خلافت عباسیہ تک یروشلم ایک مسلم شہر رہا۔
اس کے بعد عسائیوں نے دوبارہ یروشلم پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرلیا۔ صلاح الدین ایوبی نے عیسائیوں کے خلاف پچاس سے زائد جنگیں کرکے بیت المقدس دوبارہ حاصل کیا۔ اور پھر سات سو سالوں تک یہ خلافت عثمانیہ کے زیر سلطنت رہا۔ یہودیوں کو بھی دیوار گریہ تک اپنے مذہبی اقدامات کی آزادی رہی۔ اور یہودی آہستہ آہستہ پھر یروشلم میں آباد ہونا شروع ہوگئے۔ اس دوران میں کئی بار انہوں نے خلافت عثمانیہ کے سلطان کو پیسوں کے عوض یروشلم انہیں سونپنے کا لالچ دیا لیکن ناکام رہے۔
اور پھر دوسری جنگ عظیم میں عیسائی سپاہی ہٹلر نے چن چن کر یہودیوں مارا۔ قریبا ساٹھ لاکھ کے قریب یہودیوں کا قتل عام کیا گیا اور یہ دربدر بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔ اس دوران میں انہیں یہ اندازہ ہوچکا تھا کہ انہیں اب خود اپنی پہچان بنانی ہے۔ اور بائبل میں موجود یہودیوں کے آخری عروج سے قبل والی کئی نشانیاں بھی ظاہر ہوچکی تھیں۔ اور وہ یہ تسلیم کرچکے تھے کہ انکا آخری مسیحا اب دجال ہوگا جس کی بدولت پوری دنیا میں انکا دوبارہ بول بالا ہوگا۔
انہوں نے برطانیہ سے ساز باز کرکے خود کو الگ ریاست تسلیم کروالیا۔ یوں اسرائیل باقاعدہ ایک ملک کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ پھر آہستہ آہستہ انہوں نے فلسطین اور دیگر مصری علاقوں پر بھی قبضہ کرلیا۔ عرب ممالک اسرائیل کے خلاف جنگ پر آئے لیکن اس وقت تک یہ خود کو اتنا مضبوط کرچکے تھے عرب ممالک کو اس ایک چھوٹے سے ملک سے منہ کی کھانی پڑی۔ عسائیوں نے بھی دیکھ لیا کہ اب ان سے لڑ کر کچھ وصول نہیں ہونا تو باقاعدہ گرجا گھروں میں پادریوں نے تقریبات منعقد کیں اور یہودیوں کے لئے معافی کا اعلان کیا گیا۔ یوں سیاسی اور اقتصادی مفاد پرستی نے دو ہزار سالوں سے ایک دوسرے کے ازلی و جانی دشمنوں کو ایک صف پر لا کھڑا کیا۔ اور قرآن کی بات بھی سچ ہوگئی کہ
یہود و نصری ایک دوسرے کے دوست ہیں۔
یہودیوں کے عقائد کے مطابق وہ ہیکل سلیمانی کی حفاظت نہیں کرپائے تو خود کو قصوروار کہتے ہیں۔ خود کو سزا دینے کے لئے زنجیروں اور چمڑے سے پیٹتے ہیں۔ اور دیوار گریہ کے پاس آہ و زاری کرتے ہیں۔
وہ ایمان رکھتے ہیں تیسری بار انہیں پوری دنیا پر حکمرانی حاصل ہوگی۔ اس کے لئے انہیں مسجد اقصی کو گرانا ہوگا۔ جس کی تیارہ وہ کرچکے ہیں۔ کب سے مسجد اقصی کے نیچے بارودی سرنگیں بچھا دی گئی ہیں۔ اس کے بعد ہیکل سلیمانی تعمیر کرکے تابوت سکینہ وہاں رکھنا ہے۔ تابوت سکینہ بھی وہ دوبارہ حاصل کرچکے ہیں۔
لیکن مسئلہ تھا سرخ گائے۔۔۔ کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق وہ ناپاک ہیں اور جب تک پاک نہیں ہوجاتے ہیکل سلیمانی تعمیر نہیں کرسکتے۔ اور پاک ہونے کے لئے سرخ گائے کی قربانی دینا ہوگی۔
وہ گائے جس کی نشانیاں قرآن پاک میں بیان کی گئیں۔ جو اسوقت بھی انہیں ڈھونڈنے میں مشکل ہوئی تھی۔ اب بھی ایک سو سال تک وہ ویسی گائے کی تلاش کرتے رہے۔ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے بچے پیدا کرنے کا کامیاب تجربہ کیا انہوں نے۔ پھر اس تجربے کی بدولت ویسی نشانیوں والی گائے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ناکام رہے۔ دوہزار انیس میں ایک امریکی ریاست سے پانچ عدد ویسی گائیں انہیں مل گئیں۔ جن کے جسم پر سرخ رنگ کے علاوہ اور کوئی بال نہیں تھا۔ انہیں کبھی کام کے لئے استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ اگلی نشانی کہ ان پر کسی بیماری کا اثر نہیں ہونا چاہیے، پوری دنیا میں کووڈ پھیلا کر مختلف جانوروں کے ساتھ انہیں بھی ٹیسٹ کیا گیا اور ان پر اس بیماری کا کوئی اثر نہ ہوا۔
Red heifer found
Mastery of Red heifer
یہ گوگل میں سرچ کرکے آپ اس متعلق تفصیل سے پڑھ سکتے ہیں۔
الغرض قرب قیامت اور دجال کے ظہور والی تمام تر تیاریاں وہ مکمل کرچکے ہیں۔
اپنی مرضی کے ڈاکٹر، انجینئر بچے پیدا کرنا، نائن ڈی ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک جگہ ہوتے ہوئے کئی جگہ موجود رہنا، اپنی مرضی کے موسم بنانا، جب چاہو بارش برسا دینا، چند دنوں میں پوری دنیا گھوم لینا یہ سب دجالی نشانیاں ہیں جو آج کے دور میں کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ہمارے اسلام میں بتائی گئی قیامت کی نشانیوں کی انہوں نے اتنے اچھے سے تیاری کرلی ہے کہ غرقد کے درخت لگا دیے۔ جو انہیں پناہ دیں گے۔ باب لد جس جگہ احادیث کے مطابق دجال کا حضرت عیسی ع کے ہاتھوں قتل ہونے کا ذکر موجود ہے اس جگہ وہ دجال کے فرار کے لئے ایئر پورٹ بنا چکے ہیں۔
یہ سب تو قربت قیامت کی نشانیاں ہیں اور ہیکل سلیمانی نے بھی بن کر رہنا ہے۔ پھر اصل جنگ کیا ہے؟
اصل جنگ عقائد کی ہے۔ ہم اپنے عقائد میں اس قدر کمزور ہوچکے ہیں کہ نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں ہمیں فرق نہیں پڑتا۔ اپنے بہن بھائیوں کا حق کھا کر خوشی محسوس کرتے ہیں اور فرقوں کے خرافات میں الجھے ہوئے ہیں۔
فلسطینوں کے لئے سوائے دعا اور احتجاج کے ہم کیا کرسکتے ہیں؟
کیا ہم اپنے عقائد کے اتنے مضبوط ہیں کہ ڈالر کہ بہکاوے میں نہ آئیں؟
کیا ہم یہودیوں کے مقابلے میں نکلنے والے خراسان مجاہدین کی لسٹ میں آتے ہیں یا بس سوشل میڈیا کے تماشائی ہیں؟
اگر آج دجال ظاہر ہوجائے اور توبہ کا دروازہ بند ہوجائے تو ہماری آخرت کے لئے کیا تیاری ہے؟
سوچ کر جواب ضرور دیجئے گا۔
مجھ سمیت اللہ پاک سب پر اپنا کرم کرے🥲🥲
جو ریت پہ لکھا ہوا پانی ہے مرے دوست
خاک اُس نے مری پیاس بجھانی ہے مرے دوست
وہ شخص جسے باپ کہا کرتے تھے بیٹے
وہ شخص بڑی لمبی کہانی ہے مرے دوست
وعدہ ہے کہ وہ رات گزاروں گا ترے پاس
جو رات مجھے قبر میں آنی ہے مرے دوست
مفلس نے شرافت کے لبادے میں لپٹ کر
دن بیچنے ہیں رات کمانی ہے مرے دوست
صد شُکر زلیخا کی طرح رویا نہیں ہوں
ہر شخص کے لب پر یہ کہانی ہے مرے دوست
کیا ترکِ تعلق پہ شب و روز کا رونا
اب چھوڑ بھی دے بات پرانی ہے مرے دوست
نصیر بلوچ
ہر کسی کے پاس کوئ نا کوئ دنیا میں ایسا ضرور ہوتا کے جس کے بارے میں جب وہ سوچے تو اُس کے چہرہ نور سے بھر جاۓ_کچھ لوگ کہتے ہیں فضول باتیں ہیں یہ.میں کہتا ہوں محبت تو ربِ کریم کی صفات میں سے ہے
ربِ کریم نے اپنے محبوب سے کی رسولِ پاک ٌ اپنی اُمت سے کی محبوب تو وہ ہوتا ہے جب زمانہ آپ کے مخالف ہو تو وہ زمانے کے مخالف ہو جاۓ کے وہ آپ کے لیے دنیا سے لڑھ جاۓ۔مینے کسی جگہ پڑھا تھا کے جب افطاری کا وقت ہوتا ہے تو رب اپنے بندے کی کوئ بات نہں ٹالتا آج چودہ رمضان ہے میں ہر روز تمہیں ہی مانگتا ہوں ایسا لگتا ہے جیسےزندگی کا اور کوئ مقصد ہی نہیں ہمارے معاشرے میں جو عورت محبت کرے اُسے بدکردار کہ دیا جاتا ہے۔
سعادت حسن منٹو صاحب لکھتے ہیں ضروری تو نہیں جو لڑکی محبت کرےوہ بدکردار ہو محبت تو خدا کی دین ہےاور یہ تو نصیب والوں کو عطاء ہوتی ہے یہ تحریر ہے حافظ ولید جنجوعہ کی اور تصویر لی گئی ہے
مجھ سے پہلے تجھے جس شخص نے چاہا اس نے
شاید اب بھی ترا غم دل سے لگا رکھا ہو
ایک بے نام سی امید پہ اب بھی شاید
اپنے خوابوں کے جزیروں کو سجا رکھا ہو
میں نے مانا کہ شب و روز کے ہنگاموں میں
وقت ہر غم کو بھلا دیتا ہے رفتہ رفتہ
چاہے امید کی شمعیں ہوں کہ یادوں کے چراغ
مستقل بعد بجھا دیتا ہے رفتہ رفتہ
پھر بھی ماضی کا خیال آتا ہے گاہے گاہے
مدتیں درد کی لو کم تو نہیں کر سکتیں
زخم بھر جائیں مگر داغ تو رہ جاتا ہے
دوریوں سے کبھی یادیں تو نہیں مر سکتیں
یہ بھی ممکن ہے کہ اک دن وہ پشیماں ہو کر
تیرے پاس آئے زمانے سے کنارا کر لے
تو کہ معصوم بھی ہے زود فراموش بھی ہے
اس کی پیماں شکنی کو بھی گوارا کر لے
اور میں جس نے تجھے اپنا مسیحا سمجھا
ایک زخم اور بھی پہلے کی طرح سہ جاؤں
جس پہ پہلے بھی کئی عہد وفا ٹوٹے ہیں
اسی دوراہے پہ چپ چاپ کھڑا رہ جاؤں
~احمد فراز🥀
عورت کو اگر نئے مرد سے عزت ملے تو وہ اپنی گہری محبت کو بھی قربان کر سکتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
یہ میرا لمحہِ آخر ہے میں رو پڑوں یا چپ ہی رہوں
مینے بات اُس سے کرنی ہے کیوں نہ غزل کی صورت لی جاۓ
اِس عزل کابانی اُس کو لکھوں
جسے نام میرے سے پیار تھا تب
جب ملنا اُس سے کہنا تم
جس نام سے تم کو اُلفت تھی
وہ نام تو باقی اب نہ رہا
جسے جینا تمھارے نام سے تھا
وہ انسان تو باقی اَب نہ رہا
اُسے کہنا کے وہ رویا تو نہیں
جسے رونے کی بیماری تھی
اُسے کہنا کے مجھے یاد رکھے
پر میرے نام کو نا آباد رکھے
اُسے کہنا کے نامحرم ہوں
کہی لوگ نہ تم کو کہنے لگے
یہ نام تم کس کا لیتی ہو
یہ شعر تم کس کے کہتی ہو
چلو چھوڑو اَب کیاکہنا یہ
کبھی وقت ملے تو مل لینا
جب آؤ تم تو وہ کہنا مجھے
جسے سننا میری خواہش تھی
اور خوش رہنا اور ملنا مجھے
پھر روزے قیامت بیٹھے گے
وہاں تم کہنا ہم دیکھے گے
تمہارے لہجے کی گرماہٹ کو
یہ پڑھ کے مت رونا تم
تم رو پڑو اور میں پاس نا ہو
یے کتنی بڑی قیامت ہے
بس خوش رہنا بس خوش رہنا
فقط تمہارا حافظ ولید جنجوعہ
یہ رزقِ اشک فراہم بہم کیا جائے
ہماری آنکھ پہ رحم و کرم کیا جائے
وہ اتنا ڈھیر حسیں تھا کہ ہم پہ واجب ہے
تمام عمر بچھڑنے کا غم کیا جائے
میں اس کے ماتھے پہ خاکِ وطن کو مل آیا
جو چاہتا تھا مجھے محترم کیا جائے
زمیں کو عرش_معلی تلک رسائ ملے
فلک کو کھینچ کے مٹی میں ضم کیا جائے
وہ کون شخص تھا جس نے بوقت_جنگ کہا
سفید کپڑے کو جلدی علم کیا جائے
مریدنی کے دوپٹے کی سمت لپکا تھا
جناب_پیر کا بازو قلم کیا جائے
وہ خواب میں بھی مرے ساتھ چل کے کہتا ہے
سفر ،سفر ہے بھلے دو قدم کیا جائے
راکب مختار
جب شروع ہوئ آذان تو سبھی تھے چپ ہوۓ
اِک سوالی مانگ رہا تھابس اللّٰہ کے نام پر
🖤حافظ ولید جنجوعہ🖤
اُسے دیکھا تو اُسے یاد کیا جانے لگا
پھر ملنے جلنے پے بھی اتفاق کیا جانے لگا
اُس سے بچھڑنا ہے تو مینے تو مر جا نا ہے
خود پے اِس بات کا اطاق کیا جانے لگا
میرے ہونے علامت ہے یہ دو گز کی زمین
پھر یہ مسجد میں کیوں اعلان کیا جانے لگا
🖤حافظ ولید جنجوعہ🖤
تو میسر ہو تو ہم تُجھ کو خریدیں گے ولید
تیرا تومگر نا ہی سہی تیری شاعری کا حُسن اچھا ہے
🖤حافظ ولید جنجوعہ🖤
ملی ہے مہلت یہ مجھ کو دو گھڑی کے لیے
دیدارِ یار کی لت لگی ہے مجھ کو بھی
ہے شوق عشق میں مرنے کا ہر کسی کو بھی
پر یہ رتبہ ازل ملا ہے کسی کسی کو بھی
یے تونے مجھ کو جو چہرہ جو یوں دکھایا ہے
یے رتبہ اور ملا نہیں کسی کو بھی
ملا ہے ہجر کی دولت سے شاعری کا ہنر
وگرنہ عشق سے بٹرھ کر سزا کوئ نہیں
💫حافظ ولید جنجوعہ🖤
اُسی کے ہونےسے رونقیں تھیں
وہ اپنی نظریں جھکاۓ رکھتا
ادائیں اپنی دکھا کے ہم کو
ہمی سے ہم کو چراۓ رکھتا
سنا کے قصے محبتوں کے
وہ اپنا ہم کو بناۓ رکھتا
تھی اُس کی آنکھیں شراب جیسی
وہ سب کو ہی تھا پلاۓرکھتا
ہمی کو لگتا ہمی ہیں سب کچھ
وہ نظریں ایسے ملاۓ رکھتا
اُٹھاتا نظریں گراتا بجلی
وہ رونقیں یوں لگاۓ رکھتا
تھی میری حافظ بس اک ہی خواہش
وہ پاگل ہم کوبناۓ رکھتا
🖤حافظ ولید جنجوعہ💫
:fabric:blanded
:Size:1/2
:company:mom kid
:brand:yes
:washing instructions
:wash in lukewarm
:stretch to shape
:dry naturally
:do not dry clean
:the rising star groups
.Fabric:disney special blandid size:0/3monthscolor:white black/skin brown/white blue Items:romper/body suit/bib/ cap/gloves Company:disney brandcare instructions:hand washable do not dry clean gentle product for your babythe rising star ⭐️ groups contact no:0344-9002023
.Fabric: junior’s towelsize:0/6monthscolor:white/pink/off white/ sky blue baby hooded towel high quality,comfortable and super soft care instructions:machine washable at 40*c.
Do not use chlorine based bleach.tumble dry low.
Cool iron.do not dry cleanthe rising star ⭐️ groups
Contact no:0344-9002023
.fabric: blandid size:3/4monthscolor:pink/blue/parrotcompany:rising star ⭐️very soft & comfortable
The rising star ⭐️ groups
Contact no: 0344-9002023
Click here to claim your Sponsored Listing.
Category
Telephone
Website
Address
TERMZIPISANACRONYMFORZONEIMPROVEMENTPLAN;ITWASCHOSENTOSUGGESTTHATTHEMAILTRAVELSM
Technical Student Fedration
Lala Musa
Aansoo Ko Kabhi Oos Ka Qatra Na Samajhna.. Aesa Tumhein Chahat Ka Samandar Na Mile Ga..
Lala Musa, 50200
It's just a small effort to show Ya guys some of My own Fine Art Photography. I'm not a big photogra
Kotla Qasim Khan Dist. Gujrat Teh. Kharian
Lala Musa, 0537
A village of the sunny people...!!where people of every cast live in this village .it's situated to the west side of city of lalamusa ....!!!