مجلسِ شعر و ادب
تم مجھے بھول گئے ہو تو پتا بتلا دوں
فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا
مسلم سائنس دانوں کا جو حشر مسلمانوں کے ہاتھوں ہوا وہ عوام کو نہیں بتایا جاتا۔ آج بڑے فخر سے کہا جاتا ہے کہ وہ ہمارے مسلم سائنس دان تھے اگرچہ علم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ان میں سے چھ سائنسدانوں کا مختصر احوال پیش خدمت ہے
یعقوب الکندی
فلسفے، طبیعات، ریاضی، طب، موسیقی، کیمیا اور فلکیات کا ماہر تھا۔ الکندی کی فکر کے مخالف خلیفہ کو اقتدار ملا تو مُلّا کو خوش کرنے کی خاطر الکندی کا کتب خانہ ضبط کر کے اس کو ساٹھ برس کی عمر میں سرعام کوڑے مارے گئے۔ ہر کوڑے پر الکندی تکلیف سے چیخ مارتا تھا اورتماش بین عوام قہقہہ لگاتے تھے۔
ابن رشد
یورپ کی نشاۃ ثانیہ میں کلیدی کردار ادا کرنے والے اندلس کے مشہورعالم ابن رشد کو بے دین قراردے کراس کی کتابیں نذرآتش کر دی گئیں۔ ایک روایت کے مطابق اسے جامع مسجد کے ستون سے باندھا گیا اورنمازیوں نے اس کے منہ پر تھوکا۔ اس عظیم عالم نے زندگی کے آخری دن ذلت اور گمنامی کی حالت میں بسر کیے۔
ابن سینا
جدید طب کے بانی ابن سینا کو بھی گمراہی کا مرتکب اورمرتد قراردیا گیا۔ مختلف حکمران اس کے تعاقب میں رہے اوروہ جان بچا کر چھپتا پھرتا رہا۔ اس نے اپنی وہ کتاب جو چھ سو سال تک مشرق اورمغرب کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی گئی، یعنی القانون فی الطب، حالت روپوشی میں لکھی۔
ذکریا الرازی
عظیم فلسفی، کیمیا دان، فلکیات دان اور طبیب زکریا الرازی کوجھوٹا، ملحد اورکافر قرار دیا گیا۔ حاکم وقت نے حکم سنایا کہ رازی کی کتاب اس وقت تک اس کے سر پر ماری جائے جب تک یا تو کتاب نہیں پھٹ جاتی یا رازی کا سر۔ اس طرح باربارکتابیں سرپہ مارے جانے کی وجہ سے رازی اندھا ہو گیا اوراس کے بعد موت تک کبھی نہ دیکھ سکا۔
جابر ابن حیان
جسے مغربی دنیا انہیں جدید کیمیاء کا فادر کہتے ہیں جس نے کیماء ، طب ، فلسفہ اور فلکیات پر کام کیا۔ جس کی کتاب الکینیاء اور کتاب السابعین صرف مظرب کی لائبریریوں میں ملتی ہے ۔ جابر بن حیان کا سے انتقامی سلوک : حکومت وقت کو جابر کی بڑھتی ہوئی شہرت کھٹکنے لگی۔ جابر کا خراسان میں رہنا مشکل ہو گیا۔ اس کی والدہ کو کوڑے مار مار کر شہید کر دیا گیا۔ جابر اپنی کتابوں اور لیبارٹری کا مختصر سامان سمیٹ کر عراق کے شہر بصرہ چلا گیا۔ بصرہ کے لوگ جابر کے علم کے گرویدہ ہو گئے۔ جابر جیسی کیمیا گری اور علمی گفتگو انہوں نے اس سے قبل کبھی نہیں سنی تھی۔
جابر نے انہیں زمین سے آسمان اور زمین سے اس کی تہوں تک کا سفر کروا دیا۔ حاکم بصرہ کو بھی اس کی شہرت برداشت نہ ہوئی ۔ حاکم کے درباری جابر کی بڑھتی ہوئی علمی شہرت اور مسلکی اختلاف کو حکومت کے لیے خطرہ سمجھنے لگے۔ ایک دن جابر کو الزامات کی زد میں لا کر قاضی بصرہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ قاضی نے حاکم کی ایما پر جابر کو سزائے موت سنا دی۔ اور یوں جس جابر بن حیان کو آج مغرب بابائے کیمیا ”Father of Chemistry“ کہتی ہے، اس کی کیمیا گری، علم اور سائنسی ایجادات کو اس کے اپنے ہم مذہبوں نے جادوگری، کذب اور کفر قرار دے دیا۔۔
کاپی
آج خدیجہ الکبریٰ کالجز شنکیاری میں ایک مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا۔ مشاعرے کی صدارت شعبہ اردو جامعہ ہزارہ کے استاد ازور شیرازی نے کی اور نظامت کے فرائض نور الحق نور نے ادا کیے۔
مشاعرہ میں جامعہ ہزارہ کے مختلف شعبہ جات کے علاؤہ علاقہ کے نوجوان شعراء نے شرکت کی۔ جن میں سیف خان سیف ، رحمن شاہ ، لطف الرحمن ، خرم زیب ، عباد سرور ، عباد اللہ ، وغیرہ شامل ہیں صدر محفل نے مشاعرہ انعقاد کرنے پر ادارہ کو سراہا اور کہا کہ ایسی محافل کا انعقاد کسی بھی ادارے کو بڑا بنانے میں معاون ہوتی ہیں۔
مشاعرہ میں شامل تمام شعراء نے خوبصورت اشعار سنا کر ادارہ کے ماحول کو ادبی سحر عطا کیا
منفرد لب و لہجے کے نوجوان شاعر نور الحق نور کا شعری مجموعہ "خوابوں کی الماری" 15 دسمبر تک شائع ہوکر مارکیٹ میں دستیاب ہوگا۔ اس شاندار شعری مجموعے کی ایڈوانس بکنگ جاری ہے۔ جلد از جلد اپنی کاپی کی ایڈوانس بکنگ کرکے ایک خوبصورت مجموعے کے مطالعے کا انتظار کریں۔
کتاب کے مارکیٹ میں آتے ہی آپکے پتے پر آپکی کاپی ارسال کردی جائے گی۔
برائے رابطہ
Whatsapp : 0322 5825587
Easy paisa : 03225825587
Jazz cash : 03028124907
Account holder : Zia ur Rehman
نہایت مسرت سے اطلاع دی جاتی ہے کہ شعبہ ء اُردُو ،جامعہ ہزارہ کے بی ایس ہفتم کے طالبِ علم نور الحق نور کا شعری مجموعہ ”خوابوں کی الماری “شہرِ لاہور کے موقر اشاعتی ادارے ”کتابی دنیا “سے بہت جلد شاٸع ہو رہا ہے ۔یہ شعبہ ء اردو اور حلقہ ء اربابِ ذوق،جامعہ ہزارہ کے لیے بہت خوشی کی ساعت ہے ۔ ۔میں اپنے عزیز شاگرد نور الحق نور کو پیشگی مبارک باد دیتا ہوں ۔کتاب شعبہ اردو میں جلد دستیاب ہوگی ۔کتاب کی تقریبِ پزیراٸی حلقہ ء اربابِ ذوق ،جامعہ ہزارہ کے زیرِ اہتمام منعقد ہوگی ۔
ازور شیرازی
نہایت مسرت سے اطلاع دی جاتی ہے کہ شعبہ ء اُردُو ،جامعہ ہزارہ کے بی ایس ہفتم کے طالبِ علم نور الحق نور کا شعری مجموعہ ”خوابوں کی الماری “شہرِ لاہور کے موقر اشاعتی ادارے ”کتابی دنیا “سے بہت جلد شاٸع ہو رہا ہے ۔یہ شعبہ ء اردو اور حلقہ ء اربابِ ذوق،جامعہ ہزارہ کے لیے بہت خوشی کی ساعت ہے ۔ ۔میں اپنے عزیز شاگرد نور الحق نور کو پیشگی مبارک باد دیتا ہوں ۔کتاب شعبہ اردو میں جلد دستیاب ہوگی ۔کتاب کی تقریبِ پزیراٸی حلقہ ء اربابِ ذوق ،جامعہ ہزارہ کے زیرِ اہتمام منعقد ہوگی ۔
ازور شیرازی
میں چاہتا ہوں رات کے آخری پہر ہم دونوں سنسان سڑک پر دوڑیں اور ایسے دوڑیں کے حد کر دیں اور ڈورتے دوڑتے ایک ایسے پہاڑ پر جا پہنچیں جہاں سے پورا شہر دکھائی دے رہا ہو ۔میں تم سے آگے بڑھ کر شاہ رخ خان والا پوز کروں اور تو دوڑ کے آکر میرے سینے سے آلگے جیسے کوئی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اور ہم ایسا لپٹیں ایک دوجے سے کہ صبح ہو جائے۔۔۔
شاہ رخ خان
Shah Rukh Khan's
“مگر میرا نیٹ سلو تھا”
میں نے خدا کو ای میل کیا کہ
گلی کی نکڑ والے اقبال کا گھوڑا بیمار ہے
واحد کفیل ،ساتواں فرد ہے گھر کا
چڑیا اور چڑے کی پرسوں شادی ہے
دور سے پرندے آئیں گے
بارش مت کرنا
جس نمبر سے تمہیں مسڈ کالز آتی ہیں
وہ بیوہ کا نمبر ہے
کال اٹینڈ کیوں نہیں کرتے؟
چھلیاں بیچنے والا ناصر
فارچُونر کے خواب کیوں دیکھتا ہے؟
منع کرو!
باؤ خلیل کے بیٹے نے
اووپو پہ آئی فون کی بیل لگائی ہے
یار تُم انسانوں کی مجبوریاں کب سمجھتے ہو؟
جو سکرین شاٹ بھیجا تھا،میری سہیلی کا ہے
کہتی ہے میرے کندھوں پہ جو فرشتے ہیں
مجھے نہاتے ہوئے دیکھتے ہیں
اِن سے پردہ کیسے کروں؟
یار آئی فون میں نئی ایپ متعارف کروا دو
فرشتوں کی تنخواہ بھی بچ جائے گی!
اور سناؤ سب اچھا ہے؟
واٹس ایپ پہ کال نہ کرنا
وہاں آواز ٹھیک نہیں آتی
مجھے مارنے کی اجرت جو عزرائیل کو دینی ہے
تو ابھی بھیج سکتے ہو؟
آخری سمسٹر کی فیس دینی ہے!
یا پھر کوئی پراپرٹی ڈیلر بھیج دو
جو میری قبر والی جگہ خرید لے
میں نے خدا کو ای میل کیا تھا
اُس گاؤں کے نلکے سے ایک بار پانی پینے کی مہلت دی جائے
مگر میرا نیٹ سلو تھا!
سہیل کاہلوں
شاید کل یا پرسوں، شاید ان گنت سالوں کے بعد شاید کسی شام ہم غیر ارادی طور پر گزرتی ہوئی سڑک پر مل جائیں۔
ملتے ہیں شب و روز سبہی لوگ شناساں
اک تم سے ملاقات کا ارماں بہت ہے۔
گزری عمر کی تصویروں کو دیکھ کے دل یہ کہتا ہے
ارے یہ ہم تھے حیرت ہے ہم بھی ایسے لگتے تھے
حماد نیازی Hammad Niazi
ﻣﺼﺮ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺍﻣﯿﺮ ﺑﺰﻧﺲ ﻣﯿﻦ ﺗﮭﺎ. ﺍﺱ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﭘﭽﺎﺱ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﻟﮓ ﺑﮭﮓ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﮐﺎ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺍ ، ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻗﺎﮨﺮﮦ ﮐﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﻋﻼﺝ ﮐﺮﺍﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﻥ ﻧﮯ ﻣﻌﺬﺭﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺳﮯ ﯾﻮﺭﭖ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﮐﮩﺎ ، ﯾﻮﺭﭖ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﺎﻡ ﭨﯿﺴﭧ ﻣﮑﻤﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮨﺎﮞ ﮐﮯ ﮈﺍﮐﭩﺮﻭﮞ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺗﻢ ﺻﺮﻑ ﭼﻨﺪ ﺩﻥ ﮐﮯ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﮨﻮ ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺗﻤﮭﺎﺭﺍ ﺩﻝ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔
ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺑﺎﺋﯽ ﭘﺎﺱ ﮐﺮﻭﺍ ﮐﺮ ﻣﺼﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺑﺎﻗﯽ ﺩﻥ ﮔﻦ ﮔﻦ ﮐﺮ ﮔﺰﺍﺭﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔
ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺩﮐﺎﻥ ﺳﮯ ﮔﻮﺷﺖ ﺧﺮﯾﺪ ﺭﮨﺎ ﺗﻬﺎ ﺟﺐ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﻗﺼﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﭘﮭﻴﻨﮑﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭼﺮﺑﯽ ﮐﮯ ﭨﮑﮍﻭﮞ ﮐﻮ ﺟﻤﻊ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔ ﺍُﺱ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﻢ ﺍﺳﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﺟﻤﻊ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﻮ؟
ﻋﻮﺭﺕ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﭽﮯ ﮔﻮﺷﺖ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺪ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ، ﭼﻮﻧﮑﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺷﻮﮨﺮ ﻣﺮ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭﮐﻤﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺫﺭﯾﻌﮧ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﯽ ﺿﺪ ﮐﯽ ﺑﺪﻭﻟﺖ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮨﻮﮐﺮ ﯾﮧ ﻗﺪﻡ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﮨﮯ ، ﺍﺱ ﭘﮭﯿﻨﮑﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﭼﺮﺑﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺑﮩﺖ ﮔﻮﺷﺖ ﺑﮭﯽ ﺁﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﺻﺎﻑ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭘﮑﺎ ﻟﻮﮞ ﮔﯽ۔
ﺑﺰﻧﺲ ﻣﯿﻦ ﮐﯽ ﺍﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﺴﻮ ﺁﮔﺌﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﺗﻨﯽ ﺩﻭﻟﺖ ﮐﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﯿﺎ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺏ ﺑﺲ ﭼﻨﺪ ﺩﻥ ﮐﺎ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﮨﻮﮞ ، ﻣﯿﺮﯼ ﺩﻭﻟﺖ ﮐﺴﯽ ﻏﺮﯾﺐ ﮐﮯ ﮐﺎﻡ ﺁﺟﺎﺋﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﭼﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﯿﺎ۔
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﮐﺎﻓﯽ ﺳﺎﺭﺍ ﮔﻮﺷﺖ ﺧﺮﯾﺪ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻗﺼﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﻟﻮ ، ﯾﮧ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﺁﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺘﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﮔﻮﺷﺖ ﻣﺎﻧﮕﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﮮ ﺩﯾﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﯿﺴﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻟﮯ ﻟﯿﻨﺎ۔
ﺍﺱ ﻭﺍﻗﻌﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﻭﺯﻣﺮﮦ ﮐﮯ ﻣﻌﻤﻮﻻﺕ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﮨﻮﮔﯿﺎ ، ﮐﭽﮫ ﺩﻥ ﺍﺳﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﮐﺎ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﻧﮧ ﮨﻮﺍ ، ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻗﺎﮨﺮﮦ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻟﯿﺒﺎﺭﭨﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﭨﯿﺴﭧ ﮐﺮﺍﺋﮯ ، ﮈﺍﮐﭩﺮﻭﮞ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ، ﻟﯿﮑﻦ ﺗﺴﻠﯽ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺁﭖ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﯾﻮﺭﭖ ﻣﯿﮟ ﭼﯿﮏ ﺍﭖ ﮐﺮﻭﺍ ﺁﺋﯿﮟ۔
ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﯾﻮﺭﭖ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ﭨﯿﺴﭧ ﮐﺮﺍﺋﮯ ، ﺭﭘﻮﺭﭨﺲ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺮﺍﺑﯽ ﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﺗﮭﯽ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ، ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﺎ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﺟﮍ ﺳﮯ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﮔﺌﯽ۔
ﺍُﺳﮯ ﻭﮦ ﮔﻮﺷﺖ ﻭﺍﻟﯽ ﺑﯿﻮﮦ ﯾﺎﺩ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﻋﻼﺝ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﮨﻮﺍ ﺟﺲ ﭘﺮ ﺗﻢ ﯾﻘﯿﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﮯ، ﺑﮯ ﺷﮏ ﻣﯿﺮﮮ ﻧﺒﯽ ﷺ ﻧﮯ ﺳﭻ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺻﺪﻗﮧ ﮨﺮ ﺑﻼ ﮐﻮ ﭨﺎﻟﺘﺎ ﮨﮯ
منقول
پھر کوئی آیا دلِ زار! نہیں کوئی نہیں،،
راہرو ہوگا، کہیں اور چلا جائے گا __!!
ڈھل چکی رات، بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ __!!
سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہگزار
اجنبی خاک نے دھندلا دیے قدموں کے سراغ __!!
گل کرو شمعیں، بڑھا دو مے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو __!!
اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا"
فیض احمد فیض
علامہ محمد اقبالؒ سے منسوب غلط اشعار۔
وہ اشعار جو علامہ اقبال کے نہیں ہیں مگر ان کے نام سے منسوب ہیں ۔ تحریر لازمی پڑھیں اور جس حد تک ممکن ہے شئیر بھی کریں اور کاپی پیسٹ بھی کر سکتے ہیں:
ہم سب چونکہ گلوبل ورلڈ سے وابستہ لوگ ہیں اور انٹرنیٹ کی دُنیا میں اور بالخصوص فیس بُک پر علامہ اقبالؒ کے نام سے بہت سے ایسے اشعار گردِش کرتے ہیں جن کا اقبال کے اندازِ فکر اور اندازِ سُخن سے دُور دُور کا تعلق نہیں۔ کلامِ اقبال اور پیامِ اقبال سے محبت کا تقاضا ہے، اور اقبال کا حق ہے کہ ہم ایسے اشعار کو ہرگز اقبال سے منسوب نہ کریں جو اقبال نے نہیں کہے۔ ذیل میں باقاعدہ گروہ بندی کر کے ایسے اشعار کی مختلف اقسام اور مثالیں پیشِ کی جا رہی ہیں
1۔ گروہِ اول:
پہلی قسم ایسے اشعار کی ہے جو ہیں تو معیاری اور کسی اچھے شاعر کے، مگر اُنہیں غلطی سے اقبال سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ ایسے اشعار میں عموماََ عقاب، قوم، اور خودی جیسے الفاظ کے استعمال سے قاری کو یہی لگتا ہے کہ شعر اقبال کا ہی ہے۔
مثال کے طور پہ
تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے
- سید صادق حسین
اسلام کے دامن میں اور اِس کے سِوا کیا ہے
اک ضرب یَدّ اللہ اک سجدہِ شبیری
- وقار انبالوی
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
- ظفر علی خان
2۔ گروہِ دوئم:
پھر ایسے اشعار ہیں جو ہیں تو وزن میں مگر الفاظ کے چناؤ کے لحاظ سے کوئی خاص معیار نہیں رکھتے یا کم از کم اقبال کے معیار/اسلوب کے قریب نہیں ہیں۔
مثالیں
عشق قاتل سے بھی مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟
سجدہ خالق کو بھی ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟
-سرفراز بزمی
تِری رحمتوں پہ ہے منحصر میرے ہر عمل کی قبولیت
نہ مجھے سلیقہِ التجا، نہ مجھے شعورِ نماز ہے
- نامعلوم
سجدوں کے عوض فردوس مِلے، یہ بات مجھے منظور نہیں
بے لوث عبادت کرتا ہوں، بندہ ہُوں تِرا، مزدور نہیں
- نامعلوم
3۔ گروہِ سوئم
بعض اوقات لوگ اپنی بات کو معتبر بنانے کے لئے واضح طور پر من گھڑت اشعار اقبال سے منسوب کر دیتے ہیں۔ مثلاََ یہ اشعار غالباََ شدت پسندوں کی جانب سے شدت پسندوں کے خلاف اقبال کے پیغام کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں
مثلاً ایسے اشعار
اللہ سے کرے دور ، تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ
- سرفراز بزمی
4۔ گروہِ چہارم:
اِسی طرح اقبال کو اپنا حمایتی بنانے کی کوشش مختلف مذہبی و مسلکی جہتوں سے بھی کی جاتی ہے۔ جبکہ اِن کا اقبال سے دُور دُور تک کوئی تعلق بھی نہیں ہے بلکہ افکارِ اقبالؒ سے ظلم ہے ۔
مثلاََ
وہ روئیں جو منکر ہیں شہادتِ حسین کے
ہم زندہ وجاوید کا ماتم نہیں کرتے
- نامعلوم
بیاں سِرِ شہادت کی اگر تفسیر ہو جائے
مسلمانوں کا کعبہ روضہء شبیر ہو جائے
- نامعلوم
نہ عشقِ حُسین، نہ ذوقِ شہادت
غافل سمجھ بیٹھا ہے ماتم کو عبادت
- نامعلوم
5۔ گروہِ پنجم
پانچواں گروپ 'اے اقبال' قسم کے اشعار کا ہے جن میں عموماََ انتہائی بے وزن اور بے تُکی باتوں پر انتہائی ڈھٹائی سے 'اقبال' یا 'اے اقبال' وغیرہ لگا کر یا اِس کے بغیر ہی اقبال کے نام سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ اِس قسم کو پہچاننا سب سے آسان ہے کیونکہ اِس میں شامل 'اشعار' دراصل کسی لحاظ سے بھی شعری معیار نہیں رکھتے اور زیادہ تر اشعار کہلانے کے لائق بھی نہیں ہیں۔ مثالیں
کیوں منتیں مانگتا ہے اوروں کے دربار سے اقبال
وہ کون سا کام ہے جو ہوتا نہیں تیرے پروردگار سے؟
تیرے سجدے کہیں تجھے کافر نہ کر دیں اقبال
تُو جُھکتا کہیں اور ہے اور سوچتا کہیں اور ہے!
دل پاک نہیں ہے تو پاک ہو سکتا نہیں انساں
ورنہ ابلیس کو بھی آتے تھے وضو کے فرائض بہت
مسجد خدا کا گھر ہے، پینے کی جگہ نہیں
کافر کے دل میں جا، وہاں خدا نہیں
کرتے ہیں لوگ مال جمع کس لئے یہاں اقبال
سلتا ہے آدمی کا کفن جیب کے بغیر
میرے بچپن کے دِن بھی کیا خوب تھے اقبال
بے نمازی بھی تھا، بے گناہ بھی
وہ سو رہا ہے تو اُسے سونے دو اقبال
ہو سکتا ہے غلامی کی نیند میں وہ خواب آزادی کے دیکھ رہا ہو
گونگی ہو گئی آج زباں کچھ کہتے کہتے
ہچکچا گیا میں خود کو مسلماں کہتے کہتے
یہ سن کہ چپ سادھ لی اقبال اس نے
یوں لگا جیسے رک گیا ہو مجھے حیواں کہتے کہتے
۔
آخر دو گروہ شرارتی ہیں جو نچلی سوچ کے ساتھ اقبال پر حملہ آور ہیں- آپ ہمیشہ دیکھیں گے کہ یہ ایک خاص گروہ کے لوگ شئیر کر رہے ہوتے ہیں جو تصحیح کے بعد بھی نہیں ہٹاتے اور کچھ وقفہ کے بعد پھر شئیر کرتے ہیں- کچھ بے چارے اقبال کو نہ جاننے کی وجہ سے ان آخری اشعار کو اقبال کا کلام سمجھ کر شئیر کرتے ہیں مگر تصحیح کرنے پر ہٹا بھی لیتے ہیں-
منقول
کزن کےساتھ شادی میں سائنسی طور پر ثابت شدہ جینیاتی مسائل ہیں ، پرہیز بہتر ہے ورنہ گھر معذوروں سے بھر جائیں گے ،ساری زندگی سسکتے گزرے گی ۔
اپنے یہاں بھی کزن میریجز کا رواج ہے اور ہر دوسرا گھر ایک دو معذور بچے پال رہا ہے ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک قبیلے کے وفد سے ملاقات کی جو سارے ہی نحیف و نزار تھے ، تو آپ نے ان سے فرمایا کہ اے بنی سائب قبیلے سے باہر شادیاں کرو تا کہ تمہاری نسلیں صحتمند ہوں ۔
قاری حنیف ڈار ۔
احمد فراز
تھوڑا قصہ سن لیتا ہوں اور زیادہ رہ جاتا ہے
میں بھی پیاسا رہ جاتا ہوں وہ بھی پیاسا رہ جاتا ہے
گھر والوں کے طعنے سن کر غصہ آ جاتا ہے اور پھر
کھانا ٹھنڈا ہو جاتا ہے بندہ بھوکا رہ جاتا ہے
کبھی کبھی تو اچانک ایسا حادثہ پیش آ جاتا ہے نا
بندہ اپنی جگہ پہ بالکل ہکا بکا رہ جاتا ہے
سب لوگوں کی سننے والے اکثر گمرہ ہو جاتے ہیں
عشق میں اپنے دل کی سننے والا اچھا رہ جاتا ہے
اس کو کھو کر تو تم ایسے بےکل اور بےچین ہو نوری
جیسے بھیڑ میں ماں سے کہیں پر اپنا بچہ رہ جاتا ہے
نورالحق نور
خود کو ترتیب دیا آخرِکار ازسرِ نو۔
زندگی میں تیرا انکار بہت کام آیا۔
ظفر اقبال
دھن پہ اٹھلاتی چلی آئی ہے جنگل میں ہیر
جب بھی رانجھا کو کسی نے کبھی بنسی دی ہے
ڈاکٹر الماس کبیر جاوید
سلطان صلاح الدین ایوبی نے موجودہ دور کے مسلمان حکمرانوں کے بارے میں آٹھ سو سال پہلے کہا تھا کہ مسلمانوں کی کمزوری کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان بادشاہ بن گئے ہیں اور عیسائی جنگجو جبکہ پہلے مسلمان جنگجو تھے اور عیسائی بادشاہ تھے
صلاح الدین کی اس بات کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان عیش و عشرت میں پڑ گئے ہیں انہیں موت کا خوف اور دنیاوی زندگی سے محبت ہو گئی ہے ۔ کاپی
Thanks for reading 📖
بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
علامہ اقبال
( بانگ درا)
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں
کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل
چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
گلابی اردو
آہ کو چاہیے اِک عُمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زُلف کے سر ہونے تک
دامِ ہر موج میں ہے حلقۂ صد کامِ نہنگ
دیکھیں کیا گُزرے ہے قطرے پہ گُہر ہونے تک
عاشقی صبر طلب ، اور تمنّا بیتاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے ، لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم، تم کو خبر ہونے تک
پرتوِ خُور سے ، ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ، ایک عنایت کی نظر ہونے تک
یک نظر بیش نہیں فُرصتِ ہستی غافل !
گرمئِ بزم ہے اِک رقصِ شرر ہونے تک
غمِ ہستی کا ، اسدؔ ! کس سے ہو جُز مرگ ، علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
غالب
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
فیض احمد فیض
دیکھ کے مجھ کو غور سے پھر وہ چپ سے ہو گئے
دل میں خلش ہے آج تک اس ان کہے سوال کی
منیر نیازی
سوکھی کلیوں سے محبت ہے مجھے
اپنے جیسوں کی ضرورت ہے مجھے
آپ نے بات نہیں کرنی اگر
میں چلا جاؤں ؟ اجازت ہے مجھے
دھیان میں لا کے کسی پل تجھ کو
چوم لینا بھی عبادت ہے مجھے
نور
آسمان پر دھمکتے ہوئے تارے یونہی نہیں جھلملاتے... ان کے بھی اشارے ہیں.. رمزیں ہیں... شبنم گُل سے چپکے چپکے کیا کہہ جاتی ہے..؟. چاند سمندر کی لہروں سے رات بھر کیا باتیں کرتا رہتا ہے.. ؟ کنول کے پھول ہوا سے کیا سرگوشی کرتے ہیں؟.. یہ ایک راز ہے..
کتاب: شگوفے
مصنف: شفیق الرحمن
انتخاب: سید رحمن شاہ
"زندگی، حسین عورت کا ایک تبسم،شراب کا ایک جام نہیں ہے۔ زندگی عمل اور حرکت کا نام ہے۔انقلاب اور تغیر کا نام ہے۔اس تغیر سے تم منہ نہیں موڑ سکتے۔"
خدا کی بستی
شوکت صدیقی
" کتابوں کی خوبی یہ ہے کہ وہ ناقابلِ یقین کہانیاں اس وقت سناتی ہیں جب سننے کو دل چاہتا ہے ۔ انسانوں کا معاملہ عجیب ہے وہ بعض اوقات ایسی باتیں کرتے ہیں کہ گفتگو جاری رکھنا مشکل ہوجاتا ہے ۔"
الکیمسٹ از قلم پاؤلو کوٸلو
تم وہ لڑکی ہو.. جس کے لیے شاعر شعر کہتے ہیں.. سیاستدان جھوٹ بولتے ہیں.. تاجر بے ایمانی کرتے ہیں...مولوی اور پنڈت ماتھا رگڑ رگڑ کر خدا کو یاد کرتے ہیں...تمھارے لیے انسان نے کیڑوں سے ریشم مانگا..بھوری مٹی سے کانچ پیدا کیا..دھرتی کی چھاتی میں گھس کر سونا نکالا.. اور سمندر میں ڈوب کر موتی تلاش کیے.. تمھارے لیے انسان نے گھر بنایا.. گھر کے گرد باغ لگایا.. باغ میں پھول کھلائے اور پھولوں کو توڑ کر تمھارے بالوں میں ٹانک دیا..💗🖤💜
کرشن چندر
رات خالی ہی رہے گی میرے چاروں جانب
اور یہ کمرہ تیرے خواب سے بھر جائے گا
ظفر اقبال
میں اذیت کا پرستار ہوں آرام کا نئیں
جو بھی آلودہ دنیا ہے مرے کام کا نئیں
تم جو سڑکوں پہ نکل آۓ ہو بندوق لیئے
فائدہ اس میں تمھارا تو ہے اسلام کا نئیں
ایک دو جھونکوں میں ہو جاۓ گا سب کام تمام
تو دیا طاق کا لگتا ہے مجھے بام کا نئیں
فکر اس کی ہے کہ تجھ پر نہ کوئی آنچ آۓ
بخدا مجھ کو کوئی خوف بھی الزام کا نئیں
تم بھی کچھ زخم نۓ لاۓ ہو اب کے شاید
میں بھی مارا ہوا اب گردش - ایام کا نئیں
اس کے نزدیک بھی بھٹکیں نہ کبھی اہل ہوس
عشق صدیوں کا سفر ہے کوئی دو گام کا نئیں
میں تری زلف پہ دنیائیں نچھاور کر دوں
سخت کافر ہے جو عاشق ترے اس لام کا نئیں
نورالحق نور
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Category
Contact the establishment
Telephone
Website
Address
Panjab Chokc Manshra
Mansehra, 21390
https://www.facebook.com/profile.php?id=100089079380412&mibextid=ZbWKwL
Torghar Judba
Mansehra, 12345
this is my official page plz like & share my page umair Yousafzai
Mansehra, 9967
This channel is made for best short clip of usman ghazi we send and share all the best short videos and comming trailors and also best photos of usman ghazi and we promote the usma...