Sand art
This page is about sand art and craft
⚔ISLAMIC HEROS⚔
🕌فاتح بیت المقدس
⚔سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ 💠
قسط نمبر :51
عماد نے آہستہ سے کہا ……
''شاید تم کنواری ہو''۔
''ہاں'' لڑکی نے جواب دیا اور ذرا سا بھی سوچے بغیر کہہ دیا …… ''میرا دنیا میں کوئی نہیں رہا ۔ اگر میرے ساتھ کرک چلے چلو تومیں تمہارے ساتھ شادی کرلوں گی ''۔
عماد بیدار سا ہوگیا۔ اس نے کہا ……
''پھر تم مجھے کہو گی کہ اپنا مذہب تبدیل کرلو، جو میں نہیں کر سکوں گا۔ تم شوبک چل کر میرے ساتھ شادی کرو اور مسلمان ہو جائو ''۔
''مجھے بہرحال کرک جانا ہے ''۔لڑکی نے کہا …… ''اگر میرے ساتھ وہاں تک چلو گے تو تمہاری دنیا بدل جائے گی''۔
لڑکی نے سودا بازی شروع کردی تھی لیکن عماد کچھ اور ہی سوچ رہا تھا ۔ یہ سوچ ایسی تھی جسے وہ سمجھ نہیں سکتا تھا ۔ وہ
بار بار لڑکی کے چہرے ، اس کے ریشمی بالوں اور آنکھوں کو دیکھتا اور سر جھکا کر سوچ میں کھو جاتا تھا۔ لڑکی کی جیسے وہ کوئی بات سن ہی نہیں رہا تھا ۔ تھوڑی دیر بعد لڑکی کا چہرہ گہری شام کی تاریکی میں چھپ گیا۔ اس نے گھوڑے کے ساتھ بندھے ہوئے تھیلے میں سے کھانے کی دو تین چیزیں نکالیں۔ لڑکی کو دیں اور خود بھی کھائیں۔ اس کا جسم اس قدر نڈھال تھا کہ جونہی لیٹا اس کی آنکھ لگ گئی۔
آدھی رات کے بہت بعد لڑکی نے کروٹ بدلی اور اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے عماد کو دیکھا۔ وہ خراٹے لے رہا تھا ۔ ان سے چند قدم دور گھوڑے کھڑے تھے ، رات کے پچھلے پہر کا چاند ٹیلوں کے اوپر آگیا تھا ۔ صحرائی چاندنی آئینے کی طرف شفاف تھی ۔ لڑکی نے گھوڑوں کو دیکھا، عماد کو اتنا ہوش بھی نہ تھا کہ سونے سے پہلے گھوڑوں کی زینیں اتار دیتا۔ لڑکی نے گھوڑے تیار دیکھے ، عماد کو گہری نیند سوئے دیکھا اور یہ بھی محسوس کیا کہ پیٹ میں خوراک اور پانی جانے اس کا جسم ترو تازہ ہوگیا ہے تو اس نے اپنے چغے کے اندر ہاتھ ڈالا۔ جس میں سے اس کا ہاتھ باہر آیا تو اس کی دلکش انگلیوں نے ایک خنجر کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا ۔ چاندنی میں اسے عماد کا چہرہ نظر آرہا تھا ۔ وہ تو بیہوشی کی نیند سویا ہوا تھا۔
لڑکی نے چاندنی میں چمکتے ہوئے خنجر کو دیکھا اور ایک بار پھر عماد کے چہرے پر نظر ڈالی۔ عماد آہستہ سے کچھ بڑبڑایا۔ وہ نیند میں بول رہا تھا ۔ لڑکی یہی سمجھ سکی کہ وہ گھر والوں کو یاد کر رہا ہے۔
لڑکی نے عماد کے سینے کو غور سے دیکھا اور اندازہ کیا کہ اس کا دل کہاں ہے؟ وہ ایک سے دوسرا وار نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ یہ وار دل پر ہونا چاہیے تھا تا کہ عماد فوراً مر جائے ورنہ وہ مرتے مرتے بھی اسے مار ڈالے گا۔ لڑکی نے خنجر کو اور زیادہ مضبوطی سے پکڑ لیا اور گھوڑوں کو دیکھا ۔ اس نے دل ہی دل میں پورا عمل دہرایا ۔ وہ خنجر دل میں اتار دے گی اور بھاگ کر ایک گھوڑے پر سوار ہوجائے گی اور گھوڑے کو ایڑ لگا دے گی۔ وہ سپاہی نہیں تھی ورنہ وہ بلا سوچے سمجھے خنجر مار کر عماد کو ختم کردیتی۔ یہی وجہ کافی تھی کہ عماد مسلمان ہے اور اس کا دشمن، مگر وہ بار بار عماد کے چہرے پر نظریں گاڑ لیتی تھی اور جب اسے قتل کرنے کے لیے خنجر مضبوطی سے پکڑتی تھی تو اس کا دل دھڑکنے لگتا تھا۔ عماد ایک بار پھر بڑبڑایا۔
اب کے اس کے الفاظ ذرا صاف تھے۔ وہ خواب میں اپنے گھر پہنچا ہوا تھا۔ اس نے ماں کا نام لیا ، بہن کو بھی یاد کیا اور کچھ ایسے الفاظ کہے جیسے انہیں قتل کر دیا گیا اور عماد قاتلوں کو ڈھونڈتا رہا تھا۔
کوئی احساس یا جذبہ لڑکی کا ہاتھ روک رہا تھا ۔ خوف بھی ہو سکتا تھا۔ یہ قتل نہ کرنے کا جذبہ بھی ہو سکتا تھا ۔ لڑکی بے چین ہوگئی ۔ اس نے یہ ارادہ کیا کہ قتل نہ کرے ۔ آہستہ سے اُٹھے۔ گھوڑے پر بیٹھے اور آہستہ آہستہ اس کھڈ سے نکل جائے ۔ وہ اُٹھی اور خنجر ہاتھ میں لیے گھوڑے کی طرف چل پڑی مگر ریت نے اس کے پائوں جکڑ لیے ۔ اس نے رک کر عماد کو دیکھا تو اچانک اس کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ اس مرد نے اتنی بھی پرواہ نہیں کی کہ اسے ایک جوان لڑکی تنہائی میں مل گئی ہے اور اس نے یہ بھی نہیں سوچا کو یہ لڑکی عیسائی ہے جو اسے سوتے میں قتل کر سکتی ہے اور اس نے گھوڑے کی زینیں بھی نہیں اتاریں اور اس نے اپنی برچھی اور تلوار بھی احتیاط سے نہیں رکھی ۔ کیوں ؟
کیا اسے مجھ پر بھروسہ تھا ؟
یا اتنا ہی بے حس ہے کہ میری جوانی اس کے اندر کوئی جذبہ بیدار نہیں کر سکی ؟ ……
اسے ایسے محسوس ہونے لگا جیسے اس آدمی نے اسے گھوڑے سے زیادہ قیمتی نہیں سمجھا ۔
وہ آہستہ آہستہ ایک گھوڑے تک پہنچی ۔ گھوڑا ہنہنایا۔
لڑکی نے گھبرا کر عماد کو دیکھا ۔ گھوڑے کی آواز پر بھی اس کی آنکھ نہ کھلی ۔
وہ تین گھوڑوں کی اوٹ میں کھڑی ایک گھوڑے پر سوار ہونے کا ارادہ کر رہی تھی کہ اسے اپنے عقب سے آواز سنائی دی۔ ''
کون ہو تم ؟''……
لڑکی نے چونک کر پیچھے دیکھا ۔
ایک آدمی نے منہ سے سیٹی بجائی اور کہا …… ''
ہماری یہ قسمت ؟''…… و ہ دو تھے ۔
دوسرا ہنسا۔
لڑکی زبان سے پہچان گئی کہ یہ صلیبی ہیں ۔ ایک نے لڑکی کو بازو سے پکڑا اور اپنی طرف کھینچا۔ لڑکی نے کہا ……
''میں صلیبی ہوں ''…… دونوں آدمی ہنس پڑے اور ایک نے کہا …… ''پھر تو تم سالم ہماری ہو ۔ آئو ''۔
''ذرا ٹھہرو اور میری بات سنو ''……
اس نے کہا ……
''میں شوبک سے فرار ہو کر آئی ہوں ۔
میرا نام ایونا ہے ۔
میں جاسوسی کے شعبے کی ہوں۔
کرک جا رہی ہوں۔
وہ دیکھو ایک مسلمان سپاہی سویا ہوا ہے۔ اس نے مجھے پکڑ لیا تھا۔ میں اسے سوتا چھوڑ کر بھاگ رہی ہوں۔ میری مدد کرو۔ یہ گھوڑے سنبھالو اور مجھے کرک پہنچا ئو''۔
اس نے انہیں اچھی طرح سمجھایا کہ وہ صلیبی فوج کے لیے کتنی قیمتی اور کارآمد لڑکی ہے۔
ایک صلیبی نے اسے وحشیوں کی طرح بازوئوں میں جکڑ لیا اور کہا …… ' جہاں کہو گی پہنچا دیں گے ''۔ دوسرے نے ایک بیہودہ بات کہہ دی اور دونوں اسے ایک طرف دھکیلنے لگے ۔ وہ صلیبی فوج کے پیادہ سپاہی تھے۔ جو مسلمان چھاپہ ماروں سے بھاگتے پھر رہے تھے۔ رات کو وہ چھپ کر ذرا آرام کرنا چاہتے تھے۔ ایسی خوبصورت لڑکی نے انہیں حیوان بنا دیا ۔ لڑکی نے جب دیکھا کہ انہیں صلیب کا بھی کوئی خیال نہیں تو اس نے اس اُمید پر بلند آواز سے بولنا شروع کر دیا کہ عماد جاگ اُٹھے گا۔ اسے سپاہیوں نے گھسیٹنا شروع کردیا۔
اچانک ایک نے گھبرائی ہوئی آواز میں اپنے ساتھی کا نام لے کر کہا …… ''بچو
''……مگر اس کے بچنے سے پہلے ہی عماد کی برچھی اس کی پیٹھ میں اتر چکی تھی ۔ دوسرے نے تلوار سونت لی ۔ اس وقت لڑکی نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں خنجر ہے۔ اس نے خنجر صلیبی سپاہی کے پہلو میں گھونپ دیا ۔ یکے بعد دیگرے دو اور وار کیے اور چلا چلا کر کہا ……
''تمہیں زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ تم صلیب کے نام پر غلیظ داغ ہو''۔
جب دونوں صلیبی ٹھنڈے ہوگئے تو لڑکی بے قابو ہو کر رونے لگی۔ عماد نے اسے بہلایا اور کہا ……
''اب یہاں رُکنا ٹھیک نہیں ۔ ہو سکتا ہے زیادہ سپاہی ادھر آنکلیں۔ ہم ابھی شوبک کو روانہ ہوجاتے ہیں ''۔ اس نے لڑکی سے پوچھا …… ''انہوں نے تمہیں جگایا تھا ؟''
''نہیں ''۔لڑکی نے جواب دیا …… ''میں جاگ رہی تھی اور گھوڑوں کے پاس کھڑی تھی ''۔
''وہاں کیوں ؟''
''گھوڑے پر سوار ہو کر بھاگنے کے لیے ''۔لڑکی نے اعتراف کرتے ہوئے کہا ۔ ''میں تمہارے ساتھ نہیں جانا چاہتی تھی ''۔
''تم نے خنجر کہاں سے لیا ؟''
''میرے پاس تھا ''۔لڑکی نے جواب دیا ……
''میں نے پہلے ہی ہاتھ میں لے رکھا تھا ''۔
''پہلے ہی ہاتھ میں کیوں لے رکھا تھا ؟'' عماد نے پوچھا …… ''شاید اس لیے کہ میں جاگ اُٹھوں تو تم مجھے قتل کر دو ''۔
لڑکی نے جواب نہ دیا ۔ عماد کو دیکھتی رہی ۔ کچھ دیر بعد بولی …… ''میں تمہیں قتل کرکے بھاگنا چاہتی تھی۔ پیشتر اس کے کہ تم مجھے قتل کرو، میں تمہیں بتا دینا چاہتی ہوں کہ میں نے یہ خنجر تمہیں قتل کرنے کیلئے کھولا تھا لیکن ہاتھ اُٹھا نہیں ۔ میں یہ نہیں بتا سکتی کہ میں نے تمہارے دل میں خنجر کیوں نہیں اُتارا۔ تمہاری زندگی میرے ہاتھ میں تھی ۔ میں بزدل نہیں ۔ پھر بھی میں تمہیں قتل نہ کر سکی۔ میں کوئی وجہ بیان نہیں کر سکتی ۔ شاید تم کچھ بتا سکو ''۔
''زندگی اور موت ﷲ کے ہاتھ میں ہے
''۔عماد نے کہا ……''
تمہارا ہاتھ میرے ﷲ نے روکا تھا اور تمہاری عزت ﷲ نے بچائی ہے ۔ میرا وجود تو ایک بہانہ اور سبب تھا ……
کسی گھوڑے پر سوار ہوجائو اور چلو ''۔
لڑکی نے خنجر عماد کی طرف بڑھا کر کہا ……
''میرا خنجر اپنے پاس رکھ لو ورنہ میں تمہیں قتل کر دوں گی ''۔
''تم میری تلوار بھی اپنے پاس رکھ لو ''۔ عماد نے کہا ……
''تم مجھے قتل نہیں کر سکو گی ''۔
یہ مذاق نہیں تھا ۔ دونوں پر سنجیدگی طاری تھی ۔ وہ گھوڑوں پر سوار ہوئے اور تیسرا گھوڑا ساتھ لے کر چل پڑے ۔
سورج نکلنے تک وہ اس علاقے میں پہنچ چکے تھے جہاں کوئی صلیبی سپاہی نظر نہیں آتا تھا ۔ عماد کی اپنی فوج کے چند سپاہی اسے نظر آئے جن کے ساتھ کچھ باتیں کیں اور چلتے گئے۔ اپریل کا سورج بہت ہی گرم تھا ۔ وہ منہ اور سر لپیٹے ہوئے چلتے گئے۔ دور سے ریت پانی کے سمندر کی طرح چمکتی نظر آتی تھی اور بائیں سمت ریتلی سلوں کی پہاڑیاں نظر آرہی تھیں۔ سفر کے دوران وہ آپس میں کوئی بات نہ کر سکے۔ گرمی کے علاوہ ان لاشوں نے بھی ان پر خاموشی طاری کر رکھی تھی۔ جو انہیں ادھر ادھر بکھری ہوئی نظر آرہی تھیں ۔ کوئی ایک لاش سالم نہیں تھی ۔ گدھوں اور درندوں نے ان کے اعضاء الگ الگ کر دئیے تھے۔ بعض لاشوں کی صرف ہڈیاں اور کھوپڑیاں رہ گئی تھیں۔ عماد نے لڑکی سے کہا ……
''یہ تمہاری قوم کے سپاہی ہیں ۔ یہ ان بادشاہوں کی خواہشوں کا شکار ہوگئے ہیں جو اسلامی سلطنت اسلامی کو ختم کرنے برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی اور نہ جانے کہاں کہاں سے آئے ہیں''۔
لڑکی خاموش رہی ۔ وہ بار بار عماد کو دیکھتی تھی اور آہ بھر کر سر جھکا لیتی تھی۔ عماد نے سلوں کی پہاڑیوں کا رخ کرلیا۔ اسے معلوم تھا کہ وہاں پانی ضرور ہوگا اور سایہ بھی ۔ سورج ان کے پیچھے جانے لگا تو وہ پہاڑیوں میں پہنچ گئے۔ تلاش کے بعد انہیں ہری جھاڑیاں اور گھاس نظر آگئی۔ ایک جگہ سے پہاڑی کا دامن پھٹا ہوا تھا۔وہاں پانی تھا وہ گھوڑوں سے اُترے۔ پہلے خود پانی پیا پھر گھوڑوں کو پانی پینے کے لیے چھوڑ دیا اور سائے میں بیٹھ گئے۔
''تم کون ہو؟''……
لڑکی نے اس سے پوچھا ……
''تمہارا نام کیا ہے ؟ کہاں کے رہنے والے ہو؟''
''میں مسلمان ہوں ''۔ عماد نے جواب دیا …… ''میرا نام عماد ہے
اور میں شامی ہوں''۔
''رات خواب میں تم کسے یاد کر رہے تھے ؟''
''یاد نہیں رہا ''۔
عماد نے کہا ……
''میں شاید خواب میں بول رہا ہوں گا۔ میرے ساتھی مجھے بتایا کرتے ہیں کہ میں خواب میں بولا کرتا ہوں''۔
''تمہاری ماں ہے؟
بہن ہے ؟''
لڑکی نے پوچھا اور کہا …… ''تم شاید انہیں یاد کر رہے تھے ''۔
''تھیں کبھی !''
عماد نے آہ بھر کر کہا …… ''اب انہیں خواب میں دیکھا کرتا ہوں''۔
لڑکی نے اس سے ساری بات پوچھنے کی بہت کوشش کی لیکن عماد نے اور کچھ نہیں بتایا۔ اس نے لڑکی سے کہا ……
''تم نے اپنے متعلق جھوٹ بولا تھا ۔
مجھے پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ تم کون ہو۔ میں تمہیں متعلقہ حاکم کے حوالے کرکے واپس آجائوں گا۔ اگر سچ بول سکو تو اپنے متعلق کچھ بتا دو لیکن یہ نہ کہنا کہ تم ان صلیبی لڑکیوں میں سے نہیں ہو جو ہمارے ملک میں جاسوسی کے لیے آتی ہیں ''۔
''تم ٹھیک کہتے ہو ''۔ لڑکی نے کہا ……
''میں جاسوس لڑکی ہوں ۔ میرا نام ایونا ہے ''۔
''تمہارے ماں باپ کو معلوم ہے کہ تمہارا کام کس قسم کا ہے ؟
''عماد نے پوچھا۔
''میرے ماں باپ نہیں ہیں ''۔ایونا نے جواب دیا ……
''میں نے ان کی صورت بھی نہیں دیکھی ۔ میرا محکمہ میری ماں اور اس محکمہ کا حاکم ہرمن میرا باپ ہے ''…… اس نے یہ بات یہیں ختم کر دی اور کہا ……
''میری ایک ساتھی لڑکی نے ایک مسلمان سپاہی کو بچانے کے لیے زہر پی لیا تھا۔ میں اس وقت بہت حیران ہوئی تھی کہ کوئی صلیبی لڑکی ایک مسلمان کے لیے اتنی بڑی قربانی کر سکتی ہے؟ میں آج محسوس کر رہی ہوں کہ ایسا ہو سکتا ہے ۔ پتہ چلا تھا کہ اس مسلمان سپاہی نے بھی تمہاری طرح اس لڑکی کو ڈاکوئوں سے لڑکر بچایا ، خود زخمی ہوگیا اور لڑکی کو شوبک تک پہنچایا تھا۔ تمہاری طرح اس نے بھی دھیان نہیں دیا تھا کہ وہ لڑکی کتنی خوبصورت ہے ۔ لوزینا بہت خوبصورت لڑکی تھی ۔ میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ میں تمہاری خاطر اپنی جان قربان کردوں گی''۔
''میں نے اپنا فرض ادا کیا ہے ''۔ عماد نے کہا …… ''ہم لوگ حکم کے پابند ہوتے ہیں ''۔
''شاید یہ جذبات کا اثر ہے کہ میں ایسے محسوس کرتی ہوں جیسے میں نے پہلے بھی تمہیں کہیں دیکھا ہے ''۔
''دیکھا ہوگا''۔
عماد نے کہا ……
''تم مصر گئی ہوگی ۔ وہاں دیکھا ہوگا''۔
''میں مصر ضرور گئی ہوں ''۔لڑکی نے کہا …… ''تمہیں نہیں دیکھا تھا ''۔اس نے مسکرا کر پوچھا ……
''میرے متعلق تمہارا کیا خیال ہے ؟ کیا میں خوبصورت نہیں ہوں ''۔
''تمہاری خوبصورتی سے میں انکار نہیں کر سکتا ''۔عماد نے سنجیدگی سے کہا ……
''میں سمجھ گیا ہوں تم نے یہ سوال کیوں کیا ہے۔ تم ضرور حیران ہوگی کہ میں نے تمہارے ساتھ وہ سلوک کیوں نہیں کیا ہے جو تمہاری صلیب کے دو سپاہیوں نے تمہارے ساتھ کرنا چاہا تھا۔ ہو سکتا ہے تمہارے دل میں میرے لیے یہ خوف ابھی تک موجود ہو کہ میں تمہیں دھوکہ دے رہا ہوں اور تمہیں شوبک لے جا کر خراب کروں گا
یا تمہارے ساتھ تمہاری مرضی کے خلاف شادی کر لوں گا یا تمہیں بیچ ڈالوں گا۔ میں تمہارا یہ خوف دور کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ لڑکی میرے مذہب کی ہو یا کسی دوسرے مذہب کی میں کسی لڑکی کو بری نظر سے دیکھ ہی نہیں سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں جب تیرہ چودہ سال کا تھا تو میری ایک چھوٹی سی بہن اغوا ہوگئی تھی۔ اس کی عمر چھ سات سال تھی ۔ سولہ سال گزر گئے ہیں۔ اسے شوبک کے عیسائی اٹھا لے گئے تھے ۔ میں نہیں جانتا کہ وہ زندہ ہے یا مر گئی ہے۔ اگر زندہ ہے تو کسی امیر کے حرم میں ہوگی یا تمہاری طرح جاسوسی کرتی پھر رہی ہوگی۔ میں جس لڑکی کو دیکھتا ہوں اسے اپنی بہن سمجھ لیتا ہوں۔ اسے بری نظر سے اس لیے نہیں دیکھتا کہ وہ میری گمشدہ بہن ہی نہ ہو۔ میں تمہیں صرف اس لیے شوبک لے جا رہا ہوں کہ محفوظ رہو۔ میں جانتا تھا کہ صحرا میں اکیلے جانے اور پیدل چلنے سے تمہارا کیا حشر ہوتا اور تم کسی کے ہاتھ چڑھ جاتیں تو تمہارا حال وہی ہوتا جو تمہارے اپنے صلیبی بھائی کرنے لگے تھے۔ مجھے اپنی خوبصورتی کا احساس نہ دلائو۔ میں اس احساس کے لحاظ سے مردہ ہوں۔
مجھے لذت ان صحرائوں میں صلیبیوں کے تعاقب میں گھوڑا دوڑاتے اور ان کا خون بہاتے ملتی ہے ''۔
لڑکی اسے عجیب سی نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔ اس کی آنکھوں میں پیار کا تاثر تھا ۔اس کے ساتھ ایسی باتیں کسی نے نہیں کی تھیں۔ اسے بے حیائی اور عیاری کے سبق
دئیے گئے تھے اور اس کی باتوں اور چال ڈھال میں بڑی محنت سے جنسی کشش پیدا کی گئی تھی۔ اسے ایک بڑا ہی خوبصورت فریب بنایا گیا تھا۔ اس پر حسن اور شراب کانشہ طاری کیا گیا تھا ۔ اسے عصمت کے موتی سے محروم رکھا گیا تھا اور وہ اس ٹریننگ کے بعد اپنی ساتھی لڑکیوں کی طرح اپنے آپ کو مردوں کے دلوں پر راج کرنے والی شہزادی سمجھنے لگی تھی۔ اسے یہ بھی یاد نہیں رہا تھا کہ اس کا گھر کہاں ہے اور اس کے ماں باپ کیسے تھے۔ عماد کی جذباتی باتوں نے اس کی ذات میں ایک عورت کے جذبات بیدار کردئیے۔ وہ گہری سوچ کے عالم میں کھو گئی۔ جیسے وہ بے تکلف ہوگئی ہو۔
اس نے گہری سوچ کے عالم میں کہا ……
''ایک ڈرائونے خواب کی طرح یاد آتا ہے کہ مجھے ایک گھر سے اُٹھایا گیا تھا۔ مجھے یاد نہیں آرہا کہ اس وقت میری عمر کیا تھی ''۔ اس نے اپنے بالوں میں دونوں ہاتھ پھیرے اور بالوں کو دونوں مٹھیوں میں لے کر جھنجھوڑا جیسے پرانی یادوں کو بیدار کرنے کی کوشش کررہی ہوں۔ اس نے اُکتا کرکہا ……
''کچھ یاد نہیں آتا۔ میرا ماضی شراب اور عیش و عشرت اور حسین عیاریوں میں گم ہوگیا ہے۔ میں نے کبھی بھی نہیں سوچا کو میرے والدین کون تھے اور کیسے تھے۔ مجھے کبھی ماں باپ کی ضرورت محسوس ہوئی ہی نہیں۔ میرے اندر جذبات تھے ہی نہیں۔ مجھے معلوم ہی نہیں کہ مرد باپ اور بھائی بھی ہو سکتا ہے ۔ مرد مجھے اپنی تفریح کے استعمال کی چیز سمجھتے ہیں لیکن میں مردوں کو استعمال کیا کرتی ہوں۔ جس پر میری خوبصورتی اور میری جوانی کانشہ طاری ہو اسے میں حشیش اور شراب سے اپنا غلام بنا لیا کرتی ہوں ۔ مگر اب تم نے جو باتیں کیں ہیں انہوں نے مجھ میں وہ احساس بیدار کردیا ہے جوماں، باپ، بہن اور بھائی کا پیار مانگتی ہیں ''۔
اس کی بے چینی بڑھتی گئی ۔ وہ رک رک کر بولتی رہی پھر بالکل ہی چپ ہوگئی۔ کبھی عماد کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگتی اور کبھی اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر اپنے بال مٹھی میں لے کرجھنجھوڑنے لگتی۔ وہ دراصل گم گشتہ ماضی اور حال کے درمیان بھٹک گئی تھی ۔ عماد نے جب اسے کہا کہ اُٹھو چلیں، تو وہ بھولے بھالے معصوم سے بچے کی طرح اس کے ساتھ چل پڑی ۔ ان کے گھوڑے انہیں پہاڑی علاقے سے بہت دور لے گئے تو بھی وہ عماد کو دیکھ رہی تھی ۔ صرف ایک بار اس نے ہنس کر کہا …… ''مرد کی باتوں اور وعدوں پر میں نے کبھی اعتبار نہیں کیا ۔ میں سمجھ نہیں سکتی کہ میں کیوں محسوس کر رہی ہوں کہ مجھے تمہارے ساتھ جانا چاہیے'' ……
عماد نے اس کی طرف دیکھا اور مسکرا دیا۔
وہ جب شوبک کے دروازے پر پہنچے تو اگلے روز کا سورج طلوع ہو رہا تھا ۔ وہ صحرا میں ایک اور رات گزار آئے تھے۔ عماد لڑکی کو جہاں لے جانا چاہتا تھا اس جگہ کے متعلق پوچھ کر وہ چل پڑا۔ گھوڑے شہر میں سے گزر رہے تھے ۔ لوگ ایونا کو رک رک کر دیکھتے تھے۔ چلتے چلتے عماد نے ایک مکان کے سامنے گھوڑا روک لیا اور بند دروازے کو دیکھنے لگا۔ ایونا نے اس سے پوچھا …… ''یہاں کیوں رُک گئے؟'' ……
اس نے جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو۔ دروازے کے قریب جا کر گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے اس نے دروازے پر آہستہ آہستہ ٹھوکریں ماریں۔ ایک بزرگ صورت انسان نے دروازہ کھولا۔
''یہاں کون رہتا ہے ؟'' عماد نے عربی زبان میں پوچھا۔
''کوئی نہیں ''۔ بوڑھے نے جواب دیا …… ''عیسائیوں کا ایک خاندان رہتا تھا۔ ہماری فوج آگئی تو پورا خاندان بھاگ گیا ہے ''۔
''اب آپ نے اس پر قبضہ کر لیا ہے؟''
بوڑھا ڈر گیا ۔ اس نے دیکھا کہ یہ سوار فوجی ہے اور اس سے باز پرس کررہا ہے کہ عیسائی کے مکان پر اس نے کیوں قبضہ کر لیا ہے جبکہ سلطان ایوبی نے منادی کے ذریعے حکم جاری کیا ہے کہ کسی مسلمان کی طرف سے کسی عیسائی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے ورنہ سخت سزا دی جائے گی۔ بوڑھے نے کہا …… ''میں نے قبضہ نہیں کیا ۔ اس کی حفاظت کے لیے یہاں آگیا ہوں ۔
میں اسے بالکل بند کردوں گا۔ اس کا مالک زندہ ہے ۔ وہ مسلمان ہے اور پندرہ سولہ سال سے بیگار کیمپ میں پڑا ہے ''۔
''کیا امیر مصر نے انہیں کیمپ سے رہا نہیں کیا ؟'' عماد نے پوچھا۔
''وہاں کے سب مسلمان آزاد ہیں مگر ابھی کیمپ میں ہی ہیں ''۔ بوڑھے نے جواب دیا …… ''اس سب کی حالت اتنی بری ہے کہ قابل احترام سالار اعظم ایوبی نے ان کے لیے دودھ، گوشت، دوائیوں اور نہایت اچھے رہن سہن کا انتظام وہیں کر دیا ہے ۔ بہت سے طبیب ان کی دیکھ بال کررہے ہیں ۔ ان میں جس کی صحت بحال ہوجاتی ہے اسے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ وہاں جو رہتے ہیں انہیں ان کے رشتہ دار وہیں ملنے جاتے ہیں۔ اس مکان کا مالک بھی وہیں ہے۔ ایک تو اس کا بڑھاپا ہے اور دوسرے کیمپ کی پندرہ سولہ سالوں کی اذیتیں۔
بے چارہ صرف زندہ ہے۔ میں اسے دیکھنے جایا کرتا ہوں۔ اُمید ہے صحت یاب ہوجائے گا۔ میں نے اسے بتا دیا تھا کہ اس کا مکان خالی ہوگیا ہے''۔
''اس کے رشتہ دار کہاں ہیں؟''عماد نے پوچھا ۔
''کوئی بھی زندہ نہیں ہے ''۔ بوڑھے نے جواب دیا اور تین چار گھر چھوڑ کر ایک مکان کی طرف اشارہ کرکے کہا……
''وہ میرا ذاتی مکان ہے۔ میں ان لوگوں کا صرف پڑوسی تھا ۔ آپ مجھے ان کا رشتہ دار بھی کہہ سکتے ہیں''۔
عماد یہ پوچھ کر کہ اندر مستورات نہیں ہیں، گھوڑے سے اُتر کر اندر چلاگیا۔ کمروں میں گیا۔ دیواروں پر ہاتھ پھیرا۔ اَیونا بھی اندر چلی گئی۔ اس نے عماد کو دیکھا وہ آنسو پونچھ رہاتھا ۔ اَیونا نے آنسوئوں کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا ……
''اپنے بچپن کو ڈھونڈ رہا ہوں۔ میں اس گھر سے بھاگا تھا۔ یہ میرا گھر ہے '' ……
اس کے آنسو بہنے لگے۔ اس نے بوڑھے سے پوچھا …… ''
ان کے رشتے دار مر گئے ہیں ؟ ان کی کوئی اولاد بھی تھی ؟''
''صرف ایک لڑکا بچا تھا، جو عیسائی ڈاکوئوں سے بچ کر میرے گھر آگیا تھا''۔ بوڑھے نے جواب دیا …… ''اسے میں نے شام کو روانہ کر دیا تھا ، اگر یہاں رہتا تو مارا جاتا''۔
عماد کو وہ رات یاد آگئی جب وہ اس گھر سے بھاگ کر پڑوسی کے گھر جا چھپا تھا ۔ وہ یہی پڑوسی تھا مگر اس نے بوڑھے کو بتایا نہیں کہ وہ لڑکا جسے اس نے شوبک سے شام کو روانہ کر دیا تھا ، وہ یہی جوان ہے، جسے وہ یہ کہانی سنا رہا ہے۔ عماد کے لیے جذبات پر قابو پانا محال ہوگیا لیکن وہ سخت جان فوجی تھا۔ اس نے بوڑھے سے کہا …… ''میں اس مکان کے مالک سے ملنا چاہتا ہوں۔ مجھے ان کا نام پتا بتادو''۔ بوڑھے نے اس کے باپ کا نام بتا دیا ۔ عماد کو اپنے باپ کا نام اچھی طرح سے یاد تھا۔
''اس لڑکے کی ایک بہن تھی ''۔ بوڑھے نے کہا …… ''بہت چھوٹی تھی ۔ اسے عیسائیوں نے اغوا کر لیا تھا۔اسی ضمن میں اس گھر کے سارے افراد عیسائیوں کے ہاتھوں قتل ہوگئے '
''اَیونا!''۔ عماد نے لڑکی سے کہا ……
''اپنی مقدس صلیب کے پرستاروں کی کرتوت سن رہی ہو؟''
اَیونا نے کوئی جواب
نہ دیا۔ وہ چھت کو دیکھنے لگی۔ اُس نے کمرے کے دروازے کے ایک کواڑ کو بند کیا اور اس کی اُلٹی طرف دیکھنے لگی۔ کواڑ پر تین چار چھوٹی چھوٹی اور گہری لکیریں کھدی ہوئی تھیں۔ وہ بیٹھ کر ان لکیروں کو بڑی غور سے دیکھنے لگی۔
عماد اسے دیکھ رہا تھا۔ اَیونا لکیروں پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ وہ اُٹھی اور دوسرے کمرے میں چلی گئی ۔وہاں بھی کواڑوں پر ہاتھ پھیر کر کچھ ڈھونڈنے لگی۔ عماد نے جاکر اس سے پوچھا…… ''کیا دیکھ رہی ہو؟''
لڑکی مُسکرائی اور بولی …… ''تمہاری طرح میں بھی اپنا بچپن ڈھونڈ رہی ہوں''۔ اس نے عماد سے پوچھا ……
''یہ تمہارا گھر تھا ؟
تم یہیں سے بھاگے تھے؟''
''یہیں سے''۔ عماد نے جواب دیا اور اسے سنا دیا کہ کس طرح اُن کے گھر پر عیسائیوں نے حملہ کیا اور اس کی ماں اور بڑھے بھائی کو قتل کر دی اتھا۔ عماد بھاگ گیا اور وہ آج تک یہ سمجھتا رہا کہ اس کا باپ بھی قتل ہوگیا ہے لیکن یہ بوڑھا بتارہا ہے کہ باپ کیمپ میں زندہ ہے۔
''تم نے اس بوڑھے کو بتا دیا ہے کہ وہ لڑکے تم ہی ہو جسے اس نے پناہ دی تھی؟''
''میں بتانا نہیں چاہتا''۔اس نے تذبذب کے عالم میں کہا ۔
اَیونا اُسے بڑی غور سے دیکھنے لگی اور بوڑھا ان دونوں کو دیکھ دیکھ کر حیران ہو رہا تھا کہ یہ دونوں یہاں کیا دیکھ رہے ہیں ۔ عماد بچپن کی یادوں میں گم ہوگیا تھا ۔ بوڑھے نے پوچھا …… ''میرے لیے کیا حکم ہے ؟''
عماد چونکا اور حکم دینے کے لہجے میں بولا …… ''اس مکان کو اپنی نگرانی میں رکھیں۔ یہ آپ کی تحویل میں ہے ''۔اس نے اَیونا سے کہا ……
''آئو چلیں ''۔
''کیا تم اپنے باپ سے نہیں ملو گے؟'' ۔
ایونا نے اس سے پوچھا۔
''پہلے اپنا فرض ادا کرلوں''۔
عماد نے جواب دیا …… ''مجھے ریگستان میں میرا کماندار ڈھونڈ رہا ہوگا۔ وہ مجھے مردہ قرار دے چکے ہوں گے ۔ وہاں میری ضرورت ہے ، آئو میرے ساتھ آئو۔
میں یہ امانت کسی کے حوالے کردوں''۔
''لڑکیاں ، لڑکیاں، لڑکیاں''۔
سلطان صلاح الدین ایوبی نے شگفتہ سے لہجے میں علی بن سفیان سے کہا …… ''کیا یہ کمبخت صلیبی میرے راستے میں لڑکیوں کی دیوار کھڑی کرنا چاہتے ہیں ؟ کیا وہ لڑکیوں کو میرے سامنے نچاکر مجھ سے شوبک کا قلعہ لے لیں گے؟''
''امیر محترم!''
علی بن سفیان نے کہا …… ''آپ اپنی ہی باتوں کی تردید کر رہے ہیں۔ یہ لڑکیاں دیوار نہیں بن سکتیں۔ دیمک بن چکی ہیں اور دیمک کا کام کر رہی ہیں ۔ آپ کے اور محترم نورالدین زنگی کے درمیان غلط فہمی پیدا کرنیکی کوشش لڑکیوں کے ہاتھوں کرائی گئی ہے اور ان لڑکیوں نے حشیش اور شراب کے ذریعے ہمارے مسلمان حکام اور امراء کو استعمال کیا ہے ''۔
''یہ وہی موضوع ہے جس پر ہم سو بار بات کر چکے ہیں
''۔سلطان ایوبی نے کہا …… ''مجھے ان لڑکیوں کے متعلق کچھ بتائو ۔ یہ تو معلوم ہوچکا ہے کہ یہ آٹھوں جاسوس ہیں۔ انہوں نے اب تک کوئی نیا انکشاف کیا ہے یا نہیں ''۔
''انہوں نے بتایا ہے کہ شوبک میں صلیبی جاسوس اور تخریب کار موجود ہیں ''۔
علی بن سفیان نے جواب دیا ……
''لیکن ان میں سے کسی کی بھی نشاندہی نہیں ہوسکتی، کیونکہ ان کے گھروں اور ٹھکانوں کا علم نہیں ۔ ان میں سے تین مصر میں کچھ وقت گزار کر آئی ہیں۔ وہاں انہوں نے جو کام کیا ہے وہ آپ کو بتا چکا ہوں''۔
''کیا وہ قید خانے میں ہیں؟''سلطان ایوبی نے کہا۔
''نہیں ''۔علی بن سفیان نے جواب دیا ……
''وہ اپنی پرانی جگہ رکھی گئی ہیں۔ ان پر پہرہ ہے ''۔
اتنے میں دربان اندر آیا۔ اس نے کہا ……
''عماد شامی نام کاایک عہدیدار ایک صلیبی لڑکی کو ساتھ لایا ہے۔ کہتاہے کہ اسے اس نے کرک کے راستے پر پکڑا ہے اور یہ لڑکی جاسوس ہے''۔
''دونوں کو اندر بھیج دو''۔ سلطان ایوبی نے کہا ۔
دربان کے جاتے ہی
عماد اور ایونا اندر آئے۔ سلطان ایوبی نے عماد سے کہا ۔ ''معلوم ہوتا ہے بہت لمبی مسافت سے آئے ہو۔ تم کس کے ساتھ ہو؟ ''
''میں شامی فوج میں ہوں''۔ عماد نے جواب دیا ……
''میرے کماندار کا نام احتشام ابن محمد ہے اور میں البرق دستے کا عہدیدار ہوں''۔
''البرق کس حال میں ہے ؟'' سلطان ایوبی نے پوچھا اور
علی بن سفیان سے کہا …… ''البرق فی الواقع برق ہے۔
ہم نے جب سوڈانیوں پر شبخون مارے تھے تو البرق قیادت کر رہا تھا۔ صحرائی چھاپوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی ''۔
''سالار اعظم!''
عماد نے کہا ……
''آدھا دستہ اللہ کے نام پر قربان ہوچکا ہے ۔ میرے گروہ میں سے صرف میں رہ گیا ہوں''۔
''تم نے اتنی جانیں ضائع تو نہیں کیں؟ سلطان ایوبی نے سنجیدگی سے پوچھا۔ مرجانے اور قربان ہونے میں بہت فرق ہے ''۔
''نہیں سالار اعظم!''
عماد نے جواب دیا …… ''ﷲ ذوالجلال گواہ ہے کہ ہم نے ایک ایک جان کے بدلے بیس بیس جانیں لی ہیں۔ اگر صلیبیوں کی فوج اپنے ٹھکانے پر پہنچ گئی ہے تو وہ صرف چند ایک زخمی ہوں گے۔ فلسطین کی ریت کو ہم نے صلیبیوں کے خون سے لال کر دیا ہے ۔ ہمارے دستوں نے بھی دشمن پر پورا قہر برسایا ہے۔ دشمن میں اب اتنا دم نہیں رہا کہ وہ تھوڑے سے عرصے میں اگلی جنگ کے لیے تیار ہوجائے ''۔
''اورتم؟''
سلطان ایوبی نے لڑکی سے پوچھا ……
''کیا تم پسند کروگی کہ اپنے متعلق ہمیں سب کچھ بتا دو؟ ''
''سب کچھ بتادوں گی''۔ اَیونا نے کہا اور اس کے آنسو بہنے لگے۔
''عماد شامی !''
سلطان ایوبی نے عماد سے کہا ……
''فوجی آرام گاہ میں چلے جائو۔ نہائو دھوئو۔ آج کے دن اور آج کی رات آرام کرو۔ کل واپس اپنے جیش میں چلے جانا ''۔
''میں دشمن کے دو گھوڑے بھی لایا ہوں ''۔عماد نے کہا……
''ان کی تلواریں بھی ہیں ''۔
''گھوڑے اصطبل میں اور تلواریں اسلحہ خانے میں دے دو''۔
سلطان ایوبی نے کہا اور ذرا سوچ کر کہا …… ''اگر ان گھوڑوں میں کوئی تمہارے گھوڑے سے بہتر ہو تو بدل لو۔ باہر کے محاذ پر گھوڑے کی کیا حالت ہے؟''
''کوئی پریشانی نہیں ''۔عماد نے بتایا …… ''اپنا ایک گھوڑا ضائع ہوتا ہے تو ہمیں صلیبیوں کے دو گھوڑے مل جاتے ہیں ''۔
عماد سلام کرکے باہر نکل گیا۔ اس نے امانت صحیح جگہ پہنچا دی تھی ۔ ادھر سے تو وہ فارغ ہوگیا لیکن اس کے دل پر بوجھ تھا۔ یہ جذبات کا بوجھ تھا۔ یہ بچپن کی یادوں کا بوجھ تھا اور یہ اس باپ کی محبت کا بوجھ تھا جو کیمپ میں پڑا تھا۔ وہ تذبذب میں مبتلا تھا۔ جنگ ختم ہونے تک وہ باپ سے ملنا نہیں چاہتا تھا۔ ڈرتا تھا کہ باپ کی محبت اور دل کے پرانے زخم اس کے فرض کے راستے میں حائل ہوجائیں گے …… وہ اپنے گھوڑے کے پیچھے دو گھوڑے باندھے اصطبل کی طرف جارہا تھا۔ اسے ماحول کا کوئی ہوش نہیں تھا۔ گھوڑا اسے ایک گھاٹی پر لے گیا۔ اس نے سامنے دیکھا۔ شوبک کا قصبہ اسے نظر آرہا تھا۔ وہ رُک گیا اور اس قصبے کو دیکھنے لگا جہاں وہ پیدا ہوا تھا اور جہاں سے جلا وطن ہوا تھا۔ اس پر جذبات نے رقت طاری کردی ۔
''راستے سے ہٹ کر رُکو سوار!'' اسے کسی کی آواز نے چونکا دیا۔
اس نے گھوم کردیکھا۔ پیچھے ایک گھوڑا
سوار دستہ آرہا تھا ۔ اس نے گھوڑے ایک طرف کر لیے ۔ جب دستے کا اگلا سوار اس کے قریب سے گزرا تو عماد سے پوچھا …… ''باہر سے آئے ہو وہاں کی کیا خبر ہے ؟''
''اللہ کا کرم ہے دوستو!'' …… اس نے جواب دی …… ''دشمن ختم ہو رہا ہے ۔ شوبک کو کوئی خطرہ نہیں ''۔
دستے آگے چلا گیا تو عماد دائیں طرف چل پڑا۔
''میں نے آپ سے کچھ بھی نہیں چھپایا ''۔
اَیونا سلطان ایوبی اور علی بن سفیان کے سامنے بیٹھی کہہ رہی تھی۔ وہ بتا چکی تھی وہ جاسوس ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ قاہر میں ایک مہینہ رہ چکی ہے۔ اس نے وہاں کے چند ایک سرکردہ مسلمانوں کے نام بھی بتائے تھے جو سلطان ایوبی کے خلاف سرگرم تھے اور اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ صلیبیوں کی طرف سے سوڈانیوں کو بہت مدد مل رہی ہے اور صلیبی فوج کے تجربہ کار کمانڈر سوڈانیوں کو شبخون مارنے کی ٹریننگ دے رہے ہیں ……
ایونا نے کسی استفسار کے بغیر ہی اتنی زیادہ باتیں بتا دیں جو جاسوس اذیتوں کے باوجود نہیں بتایا کرتے کیونکہ ان میں ان کی اپنی ذات بھی ملوث ہوتی ہے۔ اس سے
علی بن سفیان شک میں پڑ گیا۔
''ایونا!'' علی بن سفیان نے کہا…… ''میں بھی تمہارے فن کا فنکار ہوں۔میں تمہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں کو تم اونچے درجے کی فنکار ہو۔ ہمارے تشدد اور قید خانے سے بچنے اور ہمیں گمراہ کرنے کا تمہارا طریقہ قابل تعریف ہے مگر میں اس دھوکے میں نہیں آسکتا''
''آپ کا نام؟''……
ایونا نے پوچھا۔
''علی بن سفیان''۔
علی نے جواب دیا …… ''تم نے شاید ہرمن سے میرا نام سنا ہوگا''۔
ایونا اُٹھی اور آہستہ آہستہ علی بن سفیان کے قریب جا کر دوزانو بیٹھ گئی۔ اس نے علی بن سفیان کا دایاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور ہاتھ چوم کر بولی …… ''آپ کو زندہ دیکھ کر مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ آپ کے متعلق مجھے بہت کچھ بتایا گیا تھا۔ ہرمن کہا کرتا تھا کہ علی بن سفیان مر جائے تو ہم مسلمانوں کی جڑوں میں بیٹھ کر انہیں جنگ کے بغیر ختم کرسکتے ہیں ''……
لڑکی اُٹھ کر اپنی جگہ بیٹھ گئی ……
''میں نے قاہرہ میں
آپ کو دیکھنے کی
بہت کوشش کی تھی مگر دیکھ نہ سکی ۔ میری موجودگی میں آپ کے قتل کا منصوبہ تیار ہوا تھا۔ پھر مجھے نہیں بتایا گیا کہ یہ منصوبہ کامیاب ہوا تھا یا نہیں۔ مجھے شوبک بلا لیا گیا تھا''۔
''ہم کس طرح یقین کرلیں کہ تم نے جو کچھ کہا ہے سچ کہا ہے ؟''……
علی بن سفیان نے پوچھا۔
''آپ مجھ پر اعتبار کیوں کرتے ؟
''لڑکی نے جھنجھلا کر کہا۔
''اس لیے کہ تم صلیبی ہو''۔
سلطان ایوبی نے کہا ۔
''اگر میں آپ کو یہ بتادوں کہ میں صلیبی نہیں مسلمان ہوں تو آپ کہیں گے کہ یہ بھی جھوٹ ہے''۔ لڑکی نے کا …… ''میرے پاس کوئی ثبوت نہیں ۔ سولہ سترہ سال گزرے، میں اسی قصبے سے اغوا ہوئی تھی۔ یہاں آکر مجھے پتہ چلا کہ میرا باپ کیمپ میں ہے ''۔ اس نے اپنے باپ کا نام بتایا اور یہ بھی بتایا کہ اسے اپنے باپ کا نام اب معلوم ہوا ہے۔ اس نے سنایا کہ عماد نے اسے کس طرح صحرا سے بچایا تھا اور وہ رات کو اسے قتل کرنے لگی مگر اس کا خنجر والا ہاتھ اُٹھتا ہی نہیں تھا ۔ اس نے کہا ……
''میں نے دن کے وقت اس کے چہرے پر اور اس کی آنکھوں میں نظر ڈالی تو میرے دل میں کوئی ایسا احساس بیدار ہوگیا جس نے مجھے شک میں ڈال دیا کہ میں عماد کو پہلے سے جانتی ہوں یا اسے کہیں دیکھا ضرور ہے ۔ مجھے یاد نہیں آرہا تھا ۔ میں نے اس سے پوچھا تو اس نے کہ ایسے نہیں ہو سکتا ……
رات کو دو صلیبی سپاہیوں نے مجھ پر حملہ کر دیا تو عماد جاگ اُٹھا۔ اس نے ایک کو برچھی سے مار دیا۔ میں اس وقت تک اپنے آپ کو صلیبی سمجھتی تھی۔ میری ہمدردیاں صلیبیوں کے ساتھ تھیں مگر میں نے دوسرے صلیبی سپاہی کو خنجر سے ہلاک کردیا اور مجھے خوشی اس پر نہیں ہوئی کہ میں نے ان سے اپنی عزت بچائی ہے بلکہ اس پر ہوئی کہ میں نے عماد کی جان بچائی ہے ''……
'اور جب راستے میں عماد نے میرے ساتھ اپنے متعلق کچھ جذباتی باتیں کیں تو زندگی میں پہلی بار میرے سینے میں بھی جذبات بیدار ہوگئے۔
میں تمام سفر عماد کو دیکھتی ہی رہی۔ مجھے صرف اتنا یاد آیا کہ مجھے بچپن میں اغوا کیا گیا تھا۔ مگر یہ یاد بھی ذہن میں دندھلی ہوگئی۔ آپ کو معلوم ہے کہ مجھ جیسی لڑکیوں کو کس طرح تیار کیا جاتا ہے ۔
بچپن کی یادیں اور اصلیت ذہن سے اُتر جاتی ہے ۔ یہی میرا حال ہوا۔ لیکن مجھے یقین ہونے لگا کہ عماد کو میں جانتی ہوں۔
یہ خون کی کشش تھی ۔
آنکھوں نے آنکھوں کو اور دل نے دل کو پہچان لیا تھا۔ شاید عماد نے بھی یہی کچھ محسوس کیا ہو اور شاید اسی احساس کا اثر تھا کہ اس نے مجھ جیسی دلکش لڑکی کو اس طرح نظر انداز کیے رکھا جیسے میں اس کے ساتھ تھی ہی نہیں۔ اس نے مجھے گہری نظروں سے بہت دفعہ دیکھا ضرور تھا''۔
ایونا نے تفصیل سے سنایا کہ شوبک میں داخل ہو کر عماد ایک مکان کے آگے رُک گیااور ہم دونوں اندر چلے گئے …… اس نے کہا ……
''یہ گھر اندر سے دیکھ کر میری یادیں بیدار ہونے لگیں ۔ مجھے ذہن پر دبائو ڈالنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ ذہن اپنے آپ ہی مجھے اس گھر میں گھمانے پھرانے لگا۔ میں نے ایک کواڑ کی الٹی طرف دیکھا۔ وہاں مجھے خنجر کی نوک سے کھدی ہوئی لکیریں نظر آئیں۔ یہ میں نے بچپن میں بڑے بھائی کے خنجر سے کھودی تھیں۔ میرا ذہن مجھے ایک اور کواڑ کے پیچھے لے گیا ۔ وہاں بھی ایسی ہی لکیریں تھیں۔ پھر میں نے عماد کو اور زیادہ غور سے دیکھا ۔ داڑھی کے باوجود اس کی سولہ سترہ سال پرانی صورت یاد آگئی ۔ میں نے اپنے آپ کو بڑی مشکل سے قابو میں رکھا۔ میں نے عماد کو بتایا نہیں کہ میں اس کی بہن ہوں۔ وہ اتنا پاک فطرت انسان اور میں اتنی ناپاک لڑکی۔ وہ اتنا غیرت مند اور میں اتنی بے غیرت۔
اگر میں اسے بتا دیتی تو معلوم نہیں وہ کیا کر گزرتا''۔
اس دوران علی بن سفیان نے کئی بار سلطان ایوبی کی طرف دیکھا ۔ وہ لڑکی کو ابھی تک شک کی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ لیکن لڑکی کی جذباتی کیفیت ،
اس کے آنسو اور بعض الفاظ کے ساتھ اس کی سسکیاں دونوں پر ایسا اثر طاری کر رہی تھیں جیسے لڑکی کی باتیں سچ ہیں۔ لڑکی نے آخر انہیں اس پر قائل کر لیا کہ اس کے متعلق وہ چھان بین کریں۔ اس نے کہا ……
''آپ مجھ پر اعتبار نہ کریں، مجھے قید خانے میں ڈال دیں، جو سلوک کرنا چاہتے ہیں کریں، مجھے اور کچھ نہیں چاہیے۔ میں اب زندہ نہیں رہنا چاہتی۔
اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے گناہوں کی بخشش کے لیے کچھ کر کے مرنا چاہتی ہوں''۔
''کیا کرسکتی ہو؟''
سلطان ایوبی نے پوچھا۔
''اگر آپ مجھے کرک تک پہنچا دیں تو میں صلیب کے تین چار بادشاہوں اور اپنے محکمے کے سربراہ ہرمن کو قتل کر سکتی ہوں''۔
''ہم تمہیں کرک تک پہنچا سکتے ہیں ''۔
سلطان ایوبی نے کہا …… ''لیکن اس کام سے نہیں کہ تم کسی کو قتل کرو۔ میں تاریخ میں اپنے متعلق یہ تہمت چھوڑ کر نہیں مرنا چاہتا کہ
صلاح الدین ایوبی نے اپنے دشمنوں کو ایک عورت کے ہاتھوں مروا دیا تھا اور شوبک میں فوج لے کے بیٹھا رہا۔ اگر مجھے پتہ چلے گا کہ صلیبیوں کا کوئی بادشاہ کسی لاعلاج مرض میں مبتلا ہے تومیں اس کے علاج کے لیے اپنے طبیب بھیجوں گا اور پھر ہم تم پر ایسا بھروسہ کر بھی نہیں سکتے۔ البتہ تمہاری اس خواہش پر غورکر سکتے ہیں کہ تمہیں معاف کرکے کرک بھیج دیں ''۔
''نہیں ''۔ایونا نے کا…… ''میرے دل میں ایسی کوئی خواہش نہیں ۔ میں یہیں مروں گی ۔ میری اس خواہش کا ضرور خیال رکھیں کہ عماد کو یہ نہ بتائیں کہ میں اس کی بہن ہوں۔ میں کیمپ اپنے باپ کو ضرور دیکھنے جائوں گی۔ لیکن اسے بھی نہیں بتائوں گی میں اس کی بیٹی ہوں''۔
وہ زاروقطار رونے لگی۔
علی بن سفیان نے اپنی ضرورت کے مطابق اس سے بہت سی باتیں پوچھیں پھر سلطان ایوبی سے پوچھا کہ اسے کہاں بھیجا جائے۔ سلطان ایوبی نے سوچ کر کہا کہ اسے آرام اور احترام سے رکھو۔ فیصلہ سوچ کر کریں گیں ۔
علی بن سفیان اسے
اپنے ساتھ لے گیا اور ان کمروں میں سے ایک اسے دے دیا جہاں جاسوس لڑکیاں رہا کرتی تھیں۔ لڑکی نے وہاں رہنے سے انکار کر دیا اور کہا ……
''ان کمروں سے مجھے نفرت ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ مجھے اس گھر میں رکھا جائے جہاں سے میں اغوا ہوئی تھی ؟''
''نہیں !''……
علی بن سفیان نے کہا ……
''کسی کے جذبات کی خاطر ہم اپنے قواعد و ضوابط نہیں بدل سکتے ۔''
وہاں کے پہرہ داروں اور ملازموں کو کچھ ہدایات دے کر علی بن سفیان لڑکی کو وہاں چھوڑ گیا ۔
عماد فوجی آرام گاہ میں گیا اور نہا کر سوگیا مگر اتنی زیادہ تھکن کے باوجود اس کی آنکھ کھل گئی۔ کوشش کے باوجود وہ سو نہ سکا۔ اس کے ذہن میں یہی ایک سوال کلبلا رہا تھا کہ باپ سے ملے یا نہ ملے۔ تھک ہار کر وہ اُٹھا اور اس جگہ کی طرف چل پڑا جو شوبک میں مسلمانوں کے کیمپ کے نام سے مشہور تھی ۔ وہاں پہنچ کر اس نے اپنے باپ کا نام لیا اور پوچھتا پوچھتا باپ تک پہنچ گیا۔ اس کے سامنے ایک بوڑھا لیٹا ہوا تھا۔ عماد نے اس سے ہاتھ ملایا اور اپنے آپ کو قابو میں رکھا۔ اس کا باپ ہڈیوں کا پنجر بن چکا تھا۔ اسے اچھی خوراک ، دوائیاں دی جارہی تھیں۔ عماد نے اپنا تعارف کرائے بغیر اس سے حال پوچھا تو اس نے بتایا کہ سولہ برسوں کی اذیت ناک مشقت ، قید اور بچوں کے غم نے اس کا یہ حال کردیا ہے کہ اتنی اچھی غذا اور اتنی اچھی دوائیں اس پرکوئی اثر نہیں کر رہیں ۔
باپ دھیمی آواز میں عماد کو اپنا حال سنا رہا تھا لیکن عماد سولہ سترہ سال پیچھے چلا گیا تھا ۔ اسے باپ کی صورت اچھی طرح یاد تھی۔ اب اس کے سامنے جو باپ لیٹا ہوا تھا اس کے چہرے کی ہڈیاں باہر نکل آئی تھیں۔ پھر بھی اسے پہچاننے میں عماد کو ذرہ بھر دقت نہ ہوئی۔ اس نے کئی بار سوچا کہ اسے بتادے کہ وہ اس کا بیٹا ہے؟
اس نے عقل مندی کی کہ نہ بتایا۔ اس نے دو خطرے محسوس کیے تھے۔ ایک یہ کہ باپ یہ خوشگوار دھچکہ برداشت نہیں کر سکے گا۔ دوسرا یہ کہ اس نے برداشت کرلی تو اس کے لیے رکاوٹ بن جائے گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ محاذ پر جانے لگے تو یہ صدمہ اسے لے بیٹھے ……
وہ باپ سے ہاتھ ملا کر چلا گیا۔
آدھی رات کا عمل ہوگا۔ ایونا بستر سے اُٹھی۔ اس وقت تک اسے نیند نہیں آئی تھی۔ اس نے علی بن سفیان کے رویے سے محسوس کر لیا تھا کہ اس پر اعتبار نہیں کیا گیا اور اب نہ جانے اس کا انجام کیا ہوگا ۔وہ سوچ رہی تھی کہ وہ کس طرح یقین دلائے کہ اس نے جو آپ بیتی سنائی ہے وہ جھوٹ نہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس کا خون انتقام کے جوش سے کھول رہا تھا۔ عماد کے ساتھ اپنے گھر میں جا کر اس نے ذہن میں بچپن کی یادیں ازخود جاگ اُٹھی تھیں اور خواب کی طرح اسے بہت سی باتیں یاد آگئی تھیں۔ اسے یہ بھی یاد آگیا کہ اسے اغوا کے بعد
بے تحاشا پیار، کھلونوں اور نہایت اچھی خوراک سے یہ روپ دیا گیا تھا ۔ پھر اسے وہ گناہ یاد آئے جو اس سے کرائے گئے تھے اور وہ سراپا گناہ بن گئی تھی۔ وہ انتقام لینے کو بیتاب ہوئی جا رہی تھی۔ اس جذباتی حالت نے اسے سونے نہیں دیا تھا۔ اس ذہنی کیفیت میں باپ سے ملنے کی خواہش بھی شدت اختیار کرتی جا رہی تھی ۔ وہ باہر نہیں نکل سکتی تھی ۔ باہر دو پہرے دار ہر وقت ٹہلتے رہتے تھے ۔ اس کا دماغ اب سوچنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ وہ اب جذبا ت کے ذیر اثر تھی۔
سلسلہ جاری ہے........
⚔💠⚔💠⚔