General Knowledge with Dr-Hassan
Consultancy for education
Update about Government jobs. General knowledge exam preparation
What is CSS? 😜
سموگ کا حل چھٹیاں کرنا نہیں بلکہ درختوں کی دھڑا دھڑ کٹائی روکنا، نئے درخت لگانا اور دھواں چھوڑتی گاڑیوں پر کنٹرول ہے۔🌳
اس پوسٹ کو پڑھنے کے بعد تو آپ کا کاروبار شروع کرنا بنتا ہے اور آپ
بزنس میں ہیں تو اس کو بڑھانا، اس کی توسیع آپ کو اس منزل تک لے جاۓ گی
Let’s go for it
اس دور میں اگر لیلی زندہ ہوتی
تو
ا کسی بڑے بزنس مین سے شادی کرلیتی.
مجنوں سے کہتی
میرے لئے مرجاؤ تم
یہ دور پیسے اور سکیل سے عشق کرنے کا ہے۔
لیلی مجنوں کی کہانیاں بس اب کتابوں میں اچھی لگتی ہیں ۔
جن اداکاراؤں کی فلمیں دیکھ کر لوگ عشق سیکھتے تھے.ان سب نے حقیقت میں کسی بڑے بزنس مین یا کسی بوڑھے ارب پتی سے شادی کر لی
نوجوانوں
آنکھیں کھولو
محنت کرو آج کا محبوب بہترین کاروبار پیسے سے ہی قدموں میں آتا ہے۔
چاچا اللّٰہ تینوں خوش رکھے۔
😕😕
کتنا بڑا مذاق ہے کہ پانی کی کمی کے شکار ملک میں شوگر مل مالکان چینی کو برآمد کرنے کے لئے حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں؟
صرف 1 کلو گرام چینی پیدا کرنے کے لئے 2000 لٹر تک پانی خرچ ہوتا ہے۔
اسی طرح ماشااللہ ہم چاول بھی باہر بھیجتے ہیں جب کہ 1 کلو چاول پیدا کرنے کے لئے 2500لٹر تک پانی خرچ ہوتا ہے۔
اپنی ضروریات کی حد تو ٹھیک ہے لیکن کمرشل بنیادوں پر چینی اور چاول برآمد کرنے کے لئے ہم سب سے زیادہ پانی خرچ کرنے والی فصلیں کیوں کاشت کرتے ہیں؟
کیا ہم زیادہ قیمت دینے اور کم پانی خرچ کرنے والی فصلیں کاشت نہیں کرسکتے؟
24 نومبر یومِ پیدائش پروین شاکر....💗
پروین شاکر سی ایس ایس کے امتحان میں بیٹھیں تو اردو کے پیپر میں انہی کی شاعری اور شخصیت پر تبصرہ ایک سوال میں مانگا گیا۔۔۔۔
پیپر سے باہر آکر ایک دوسری امتحان دینے والی سے کہنے لگیں کہ شاید یہ پاکستان کیا دنیا کی تاریخ میں پہلا موقع ہو گا کہ امیدوار اتنا مشہور ہو جائے کہ ایسے امتحانوں میں خود اسکی تخلیق پر تبصرہ مانگا گیا ہو۔
کو بکو پھیل گئ بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی میرے ہرجائی کی
(پروین شاکر)
سکول کے بچے دھواں چھوڑتے ہیں اور صحت کے لئے مضر ہیں۔
جبکہ کارخانے درختوں سے بھی زیادہ صاف آکسیجن دیتے ہیں۔
سکول بیگ ختم کرو . . . سکول کے ہیوی بیگ کی بجائے فائل نما بیگ ہونے چاہییں جس میں بچوں کے روزمرہ کام کے کا ریکارڈ ہو بس. باقی بُکس اور نوٹ بُکس سکول میں ہی رکھی جائیں . . . لکھنے یا رٹے مارنے کےلیے گھر کا کام تفویض کرنے کی بجائے روز کی چھوٹی چھوٹی پریکٹِکل اسائنمنٹس دی جائیں اور مہینہ کے آخر پہ 4-5 بچوں کا گروپ بناکر اُنہیں پراجیکٹ دیا جائے. اور اِن تمام اسائنمنٹس اور پراجیکٹ کے باقاعدہ مارکس رکھے جائیں. اِس سے کیا ہوگا کہ بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں بڑھیں گی اور ٹیم ورک کا جذبہ بھی پیدا ہوگا جس سے وہ مسائل کا حل نکالنا سیکھ سکیں گے. وگرنہ تو ہم copy pasters ہی پیدا کرتے رہیں گے. —
Major changes in Pakistan cricket following their exit from the 2023 World Cup.
ٹالسٹائی نےایک دن غلطی سے کسی کے پاؤں پر پاؤں رکھ دیا تواس شخص نےخوب گالیاں دیں۔
خاموش ہوا تو ٹالسٹائی نےمعذرت کی اور کہا " میں ٹالسٹائی ہوں
وہ شخص شرمندہ ہوکر کہنے لگا کہ کاش آپ پہلے اپنا تعارف کرواتے
ٹالسٹائی نے کہا
آپ اپنا تعارف کروانے میں مصروف تھے اس لئے مجھے موقع نہیں ملا-
منقول
خلیل الرحمن قمر صاحب لکھتے ہیں
کہ میں جب چھوٹا تھا تو بڑا انا پرست تھا اور غربت کے باوجود کبھی بھی یوزڈ یا لنڈے کے کپڑے نہیں پہنتا تھا ایک بار میرے ابا کو کپڑے کا سوٹ گفٹ ملا تو میں نے اُن سے کہا مجھے کوٹ سلوانا ہے تو ابا جی نے اجازت دے دی اور ہاف سوٹ سے میں نے گول گلے والا کوٹ_سلوا لیا جس کا اُن دنوں بڑا رواج تھا۔۔
وہ کوٹ پہن کر مَیں چچا کے گھر گیا تو چاچی اور کزنز نے فَٹ سے پوچھا: ”اویے_خیلے_اے_کوٹ_کتھو_لیا_ای۔؟
میں نے کہا: ”سوایا ہے چاچی“ لیکن وہ نہ مانے میں نے قسمیں بھی کھاٸیں لیکن اُن کو اعتبار نہ آیا خالہ اور پھوپھو کے گھر گیا تو وہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا میں گھر آیا اور کوٹ اُتار کر پھینک دیا اور رونے لگ گیا۔۔
حالات کچھ ایسے تھے کہ کوٸی بھی ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ خیلہ بھی نیا کوٹ سلوا سکتا ہے۔۔
پڑھنے لکھنے اور جاب کے بعد جب میں ایک بنک کے بورڈ آف ڈاٸریکٹرز کا ممبر بنا تو بورڈ آف ڈاٸریکٹرز کی ایک میٹنگ میں اچھے سے ڈراٸی کلین کیا ہوا لنڈے کا کوٹ پہن کر گیا تو میرے کولیگز کوٹ کو ہاتھ لگا کر پوچھنے لگے: ”خلیل صاحب بڑا پیارا کوٹ اے کیہڑا برانڈ اے تے کھتو لیا جے؟ کلاتھ تے سٹیچنگ وی کمال اے “
مَیں نے بِنا کوٸی شرم محسوس کرتے ہوٸے کہا: ”بھاٸی جان لنڈے چوں لیا اے“ لیکن وہ نہ مانے میں نے قسمیں بھی کھاٸیں پھر بھی اُن کو اعتبار نہ آیا۔۔ اور اب کی بار میں رونے کی بجاٸے ہسنے لگ گیا تھا۔۔۔
سچ ہے یہ معاشرہ بڑا منافق ہے غریب کے سچ پر بھی اعتبار نہیں کرتا اور امیر کے جھوٹ پر بھی صداقت کی مہر لگا دیتا ہے۔۔۔
Css MPT 2024 Answer key Batch-1 & Batch-2
Tomorrow is the last date to apply for Assistant Director (FGO) Intelligence bureau.
https://youtu.be/lucFTFRNtSs?si=2k4fXDPLuYFMgrcF
اسسٹنٹ ڈائریکٹر انٹیلی جنس بیورو کا اپلائی اور سلیبس کیسے کریں۔
How to apply and Syllabus of AD IB ( Intelligence bureau ) by Dr.Hassan
AD IB (FGO) by Fpsc.
کی تیاری آج سے شروع کریں۔
*رجسٹریشن کی تفصیلات*
*دورانیہ*:
12 ہفتے
*کلاسز*:
زوم پر ہفتے میں 5 دن
*وقت*:
10:00-11:00 pm بجے (شام)
*مطالعہ کا طریقہ:*
◼️ روزانہ ایک لیکچر آن لائن دیا جاتا ہے۔
◼️ہفتہ وار فرضی ٹیسٹ
Fee: 2000 per month
Subjects:
English
Mathematics
Every day science
Current affairs
Indo.pak history
Pakistan studies
Islamic studies
General knowledge
*رجسٹریشن کے لیے*:
حسان جنید کے عنوان والے ذیل میں سے کسی بھی اکاؤنٹ میں فیس جمع کروا سکتے ہیں، اور رجسٹرڈ واٹس ایپ گروپ میں آنے کے لیے مجھے اسکرین شاٹ بھیج سکتے ہیں۔
03004247503 جاز کیش
03489891926 ایزی پیسہ
Meezan bank:
71010107780866m
سوشل میڈیا کے گرداب سے نکلیں
اٹھارہ سال کی عمر میں وہ ’’اسٹار‘‘بن چکی تھی۔ انسٹاگرام پر اس کے چھے لاکھ مداح تھے۔ اس کے اکاؤنٹ سے نشر ہونے والی ہر تصویر اور ویڈیو کو ہزاروں لوگ دیکھتے اورپسند کرتے تھے جس پر وہ بے انتہا خوش ہوتی تھی۔ اسے محسوس ہو اکہ یہی کام یاب زندگی ہے، چنانچہ وہ مکمل طورپر سوشل میڈیا کے سمندر میں ڈوب گئی۔ روز بہ روز اس کی مقبولیت کا گراف بلند ہونے لگا تو کاروباری کمپنیاں بھی اس کے پیچھے پڑگئیں۔ وہ اپنی مصنوعات کی تشہیر اس سے کروانا چاہتی تھیں اور بدلے میں ہزاروں ڈالرز دینے کو تیار تھیں۔ اس نے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اس کا بینک اکاونٹ ڈالروں سے بھرنے لگا۔ عالی شان ہوٹلوں میں قیام ،مہنگی گاڑیوں میں سفر اور دنیا کے خوب صورت ترین ساحلوں کی سیر، اسے اتنا کچھ مل گیا جو اس نے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھا تھا۔ وہ مقبول ترین شخصیت بن گئی تھی لیکن پھر اس نے ایسا عجیب فیصلہ کیاکہ ساری دنیا حیران رہ گئی۔ اس نے انسٹاگرام پر موجود اپنی دو ہزار تصویریں ختم کیں اور ہمیشہ کے لیے سوشل میڈیا چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔ اس دھماکہ خیز خبر پر اس کے مداح (Followers) چکرا کر رہ گئے۔ یہ واقعہ میڈیا پر بریکنگ نیو ز بن گیا جس کی وجہ سے اس کی شہرت میں مزید اضافہ ہوا۔
شہرت کی چوٹی تک پہنچ کر پلٹنے والی یہ لڑکی ’اونیسا اونیل‘ تھی۔ اس نے انسٹاگرام پر آخری پیغام لکھا : ’’سوشل میڈیا حقیقی زندگی نہیں۔‘‘اس کا کہنا تھا کہ میں جب بھی ارب پتی لوگوں کو دیکھتی تو ان کی طرح مال دار بن جانا چاہتی تھی۔ میرے نزدیک دولت وہ چیز تھی جس سے انسان کچھ بھی حاصل کرسکتا ہے۔ میری یہ خواہش مجھے سوشل میڈیاکی طرف لائی، میں نے بھرپور محنت کی۔ میری تصویروں پر لوگ پسندیدگی کا اظہار کرتے۔ میری ہر پوسٹ سابقہ پوسٹوں کا ریکارڈ توڑ دیتی۔ میرے مداحوں کی تعداد روز بہ روز بڑھنے لگی۔ میں Likes حاصل کرنے کے نشے میں مبتلا ہوگئی اور دیوانگی کی حد تک لوگوں کے تبصروں کی منتظر رہتی۔ میرا یہ جنون میرے حواس پر چھا گیا اور میں حقیقی زندگی سے دور ہوتی گئی ۔مجھے شہرت اور دولت مل گئی لیکن دن رات اسی پریشانی میں رہتی کہ نئی پوسٹ پر کتنے Likes اورComments آئے ہیں۔ اس فکر نے مجھے ذہنی اور نفسیاتی طورپر تباہ کرکے رکھ دیااور جب مجھے ہوش آیا تو میں سر سے لے کر پائوں تک اس گرداب میں ڈوب چکی تھی ۔مجھے معلوم ہوا کہ میں اپنے آپ کو کھوچکی ہوں،میں مصنوعی دنیا میں جی رہی ہوں جہاں لوگ میری شخصیت نہیں بلکہ میرے جسمانی خدوخال دیکھ کرمجھے پسند کر رہے ہیں۔ میں زندگی کی نعمتوں سے بہت دورآگئی ہوں اور آہستہ آہستہ مررہی ہوں۔بس اسی وجہ سے میں نے مکمل طورپر سوشل میڈیا چھوڑنے کا اعلان کیا۔
’اونیسا اونیل‘ کی کہانی دراصل ہم سب کی کہانی ہے۔دوسروں کی دیکھا دیکھی ہم بھی سوشل میڈیا کا استعمال شروع کرتے ہیں اور پھر اس کے غلام بن کر رہ جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پہ کام کی بات کم اور بے مقصد چیزوں کا پرچار زیادہ ہوتا ہے۔ مہنگی گاڑیاں، خوب صورت گھر، سر سبز وادیوں کی سیر اور سمندر میں کشتی رانی سے لطف اندو ز ہوتے انسان، یہ تمام چیزیں ہمیں مرعوب کرتی ہیں اور دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ خوش قسمت اور کام یاب لوگ یہی ہیں جو ہم سے زیادہ پرتعیش زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ چیز ہمارے لاشعور کو متاثر کرتی ہے اور ہمیں ترغیب دیتی ہے کہ ہم بھی ایسی زندگی اختیار کریں۔ ہم مال دار بن جانا چاہتے ہیں اور اپنی امارت دوسروں کو دکھانا بھی چاہتے ہیں۔ ہم لوگوں کے سامنے اپنی وہ تصویر پیش کرتے ہیں جو حقیقت کے برعکس ہوتی ہے۔ ایک پوسٹ نشر کرنے کے بعد دیکھتے رہتے ہیں کہ کتنے لوگوں نے اس پر پسندیدگی کا اظہار کیا۔ یہ عادت رفتہ رفتہ پختہ ہوجاتی ہے اور ہم اس جال میں پھنس جاتے ہیں۔ دکھاوے کی یہ عادت ہماری ذہنی، نفسیاتی اور روحانی صحت کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔
آئیے اس کے نقصانات کاتفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔
بہت سی تحقیقات بتاتی ہیں کہ سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال انسان کو سماجی زندگی سے دور کر کے تنہائی پسند بنادیتا ہے۔ وہ دوستوں کی محفل اور گھر والوں کی اپنائیت سے لطف اندوز ہونے کے بجائے اپنے برقی دوستوں(Digital Friends) سے بات کرنا زیادہ پسند کرتا ہے۔’’American Journal of Preventive Medicine ‘‘کی تحقیق کے مطابق سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جو تنہائی کی شدید خواہش مند ہے اور یہ چیز انھیں انسانوں سے دور کر دیتی ہے۔
آپ اگر معاشرے کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ آج ہر شخص پریشانی کا شکار ہے اور اکثر لوگوں کی پریشانی کی وجہ سوشل میڈیا ہے۔ کیوں کہ یہ انسانی رویوں پر اثرانداز ہورہا ہے۔ ایک سروے کے مطابق روزانہ دو گھنٹے سوشل میڈیا پر صرف کرنے والے شخص میں صدمہ (Depression) اور بے چینی (Anxiety) پیدا ہونے کی شرح خطرناک حدتک بڑھ جاتی ہے۔ ایسا شخص اپنے اندر کی آگ کو مختلف مواقع پر نکالتا رہتا ہے۔ وہ معمولی بات پر اشتعال میں آجاتا ہے۔ چھوٹے مسئلے پر لڑائی شروع کردیتا ہے، اس میں صبر و تحمل کی کمی ہوتی ہے اور اپنے ساتھ ساتھ وہ دوسروں کا جینا بھی دوبھر کردیتا ہے۔ ایسا شخص اکثر اوقات تھکا ماندا اور بے زار صورت نظر آتا ہے۔
سوشل میڈیا کا بہ کثرت استعمال انسان کی خودتوقیری (Self-Esteem) کو بھی کمزور بنا دیتا ہے۔ Facebookاور Instagram پر نظر آنے والے مہنگے پرفیوم، جوتے، کپڑے، زیورات، موبائل فون، پرس اور پرتعیش طرزِ زندگی، جب فرد دیکھتا ہے تواس کے اندر احساس کمتری پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے لاشعور میں یہ سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ یہ چیزیں اگر فلاں کے پاس ہیں تو میرے پاس کیوں نہیں ہیں۔ یہ سوال اس کی توقیر ذات کو کمزور کر دیتا ہے، اس کا اپنی ذات پر اور اپنی صلاحیتوں پر اعتماد ختم ہوجاتا ہے اور وہ خود کو بے کار اور کم حیثیت سمجھنے لگتا ہے۔
سوشل میڈیا کے انسانی رویوں پر ہونے والے نقصانات پر تحقیق مسلسل جاری ہے اور اس میں خطرناک انکشافات سامنے آئے ہیں۔
’’Journal of Social and Clinical Psychology ‘‘ کے مطابق، سوشل میڈیا استعمال کرنے والے لوگوں کی ذات میں خلا پیدا ہو جاتا ہے۔ 80فی صد لوگ ایسے ہیں جو دوست احباب کی پارٹیاں اور سیر سپاٹوں کی تصاویر دیکھتے ہیں تو انھیں اپنی زندگی ادھوری اور کھوکھلی محسوس ہوتی ہے۔ وہ نامعلوم اداسی کا شکار ہوجاتے ہیں، ان کی زندگی اگرچہ بے شمار نعمتوں سے بھرپور ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود وہ پریشان رہتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز کو اس قدر پرکشش بنایا ہوتا ہے اور اس پر ایسا مواد نشرکیا جاتا ہے جو انسان کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ ایک دفعہ استعمال کرنے کے بعد وہ دوبارہ موبائل اٹھانے پر مجبور ہوتا ہے۔ صارف سمجھتا ہے کہ وہ اپنے ارادے سے ایسا کر رہا ہے، لیکن حقیقت میں سوشل میڈیا اس سے یہ فیصلہ کروا رہا ہوتا ہے، کیوں کہ وہ اس کے رویوں پرقابو پاچکا ہوتا ہے۔ نتیجتاً صارف برقی لت (Digital Addiction) کا شکار ہوجاتا ہے۔
آج سے کچھ عرصہ پہلے لوگ تین گھنٹے کی فلمیں شوق سے دیکھا کرتے تھے ۔اس کے بعد YouTube آیا تو توجہ کا دورانیہ کم ہوگیا، لیکن TikTok آنے کے بعد انسانی توجہ کا دورانیہ انتہائی کم ہوگیا ہے اور اب انسان سات سیکنڈز سے زیادہ کسی چیز پر توجہ برقرار نہیں رکھ سکتا۔ سوشل میڈیا پر خبروں کی بھرمار اور بے تحاشا معلومات کی وجہ سے انسان کی توجہ ہر وقت بھٹکتی رہتی ہے۔ وہ روحانی طورپر کمزور ہو کر بے چینی کا شکار ہو جاتا ہے۔
اس مسئلے کا حل کیا ہے؟
میرے خیال میں اگرہم مندرجہ ذیل تجاویز پر عمل کرلیں تو کئی نقصانات سے بچ سکتے ہیں۔
(1) اپنے آپ سے باخبر رہیں۔ اپنا جائزہ لیں۔ دیکھیں کہ آپ کتنا وقت سوشل میڈیا پر خرچ کرتے ہیں۔ اگر یہ ضرورت سے زیادہ ہے تو فوری طورپر اسے کم کریں۔ اپنے لیے چند اصول بنائیں اور ان کے مطابق اسکرین کا استعمال کریں۔
(2) جب بھی موبائل فون اٹھائیں تو خود سے سوال کریں:’’میں اس وقت موبائل کیوں استعمال کر رہا ہوں‘‘۔ اگر جواب معقول ہے تو استعمال کریں، وگرنہ مت کریں کیوں کہ یہ آپ کا وقت ضائع کرے گا۔ جب آپ بار بار یہ مشق کریں گے تو اس کی بدولت آپ سوشل میڈیا کے غیر ضروری استعمال سے بچ جائیں گے۔
(3) اگر آپ کاموبائل ہر وقت بجتا رہتا ہے اور فون و پیغام آنے پر آپ کو متوجہ کرتا رہتا ہے تو یہ آپ کی ذہنی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ آپ موبائل کا استعمال ضرور کریں لیکن اسے یہ اجازت مت دیں کہ وہ آپ کو استعمال کرے۔ لہٰذا فوری طورپر اپنے موبائل کی Setting میں جائیں اور تمام غیر ضروری اطلاعات ( Notifications) بند کردیں۔ اگر کوئی حرج نہ ہو تو اپنے موبائل کو Vibration Mode پر رکھیں تاکہ آپ اپنے کاموں پر زیادہ سے زیادہ توجہ دے سکیں۔
(4) کسی زمانے میں Multitasking (ایک وقت میں کئی کام سرانجام دینا) کو انسانی قابلیت سمجھا جاتا تھا لیکن جدید تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ یہ عادت انسانی توانائیوں کی دشمن ہے۔ سوشل میڈیا استعمال کرتے وقت دراصل ہم Multitasking کررہے ہوتے ہیں جوکہ ہمیں نقصان دیتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس چیز سے بچا جائے اور ایک وقت میں ایک چیز پر توجہ دی جائے۔
(5) سوشل میڈیا استعمال کرتے وقت چوکنا رہیں۔ اس بات کا جائزہ لیں کہ آپ جو دیکھ رہے ہیں وہ آپ کے لیے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ؟ سوشل میڈیا پر اکثر اوقات منفی مواد ہوتا ہے اس لیے کوشش کریں کہ مثبت مواد دیکھیں اور تمام ایسی پوسٹوں سے دور رہیں جن میں کسی پر تنقید کی گئی ہویا حسد کا اظہار کیا گیا ہو۔
(6) گھر میں ایک جگہ مقرر کریں اور اصول بنائیں کہ وہاں پر ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ اوقات بھی مقرر کریں جن میں آپ موبائل سے دور رہیں گے۔ مثال کے طورپر کھانے کے دسترخوان پر، گھر والوں کے ساتھ بات چیت کے دوران اور رات سونے سے پہلے۔ اس کی بدولت آپ کا اپنے گھر والوں سے تعلق مضبوط ہوگا، آپ بہت سی پراگندہ خبروں سے بچ جائیں گے اور آپ گہری نیند بھی لے سکیں گے۔
(7) روزانہ کی بنیاد پر چند لمحوں کے لیے مراقبہ کی عادت ڈالیں۔ چاہے آپ گھر میں ہوں یا کام کی جگہ پر ،کچھ دیر کے لیے آنکھیں بند کریں، گہری سانس لیں اور اردگرد کی چیزوں کو محسوس کریں۔ اس کے علاہ جب آپ موبائل فون اٹھائیں تو اس وقت بھی خود کو حقیقی دنیا میں محسوس کریں اور مصنوعی دنیا میں کھو جانے سے خود کو بچائیں، نیز اپنے موبائل میں ایسی Apps انسٹال کریں جو بار بار آپ کو یاددہانی کروائیں کہ آپ کافی دیر سے سوشل میڈیا استعمال کر رہے ہیں۔
( آپ سوشل میڈیا سے جو مواد حاصل کررہے ہیں ، اسے ضرورپرکھیں کیوں کہ یہ آپ کی ذہنی صحت پر اثر ڈالتا ہے۔ اس معاملے میں حساس رہیں اور چند منتخب چینلز ہی استعمال کریں جن پر آپ کو یقین ہو کہ ان کی خبر مستند ہوتی ہے تاکہ آپ پروپیگنڈے سے محفوظ رہیں۔
(9) ضروری نہیں کہ آپ ہر دس منٹ بعد موبائل فون اٹھائیں اور دیکھیں کہ کس نے کیا پیغام بھیجا ہے۔ اپنے موبائل فون سے غیر ضروری Apps اور پروگرامز ختم کر دیں۔ خود کو برقی دائرے (Digital Circle) سے دور رکھنے کی کوشش کریں، زیادہ سے زیادہ حقیقی دنیا میں جییں ، دوستوں کی سنگت اور بچوں کے پیار سے لطف اندوز ہوں، لمحہ موجود کو محسوس کریں اور دیکھیں کہ کائنات کے مالک نے آپ کے لیے کتنی شان دار نعمتیں پیدا کی ہیں۔
یادرکھیں! اپنوں کے ساتھ بیتے ہوئے لمحات ہی آپ کی زندگی کی حسین یادیں بنیں گی نہ کہ سوشل میڈیا پر انجان لوگوں کی دوستیاں۔ لہٰذا مصنوعی دنیا کے اس فریب سے بچیں اور حقیقی دنیا کی نعمتوں سے لطف اٹھائیں۔
(قاسم علی شاہ)
دنیا کو اب پتا چل رہا ہے کہ فلسطین کے علاوہ سارے اسلامی ممالک ہی مقبوضہ ہیں.
Must listen- Palestine issue and muslim umma response
تین سو تیرہ کو بدر میں
ایک ہزار کے مقابلے میں فتح دینے
والے مالک کائناتﷻ
#فلسطین کی بھی غائبانہ مدد فرما!۔🤲
ASF jobs 2023 written test scheduled in December
AD IB (Assistant Director Intelligence Bureau) FGO and Other One paper Exams
کی تیاری آج سے شروع کریں۔
*رجسٹریشن کی تفصیلات*
*دورانیہ*:
12 ہفتے
*کلاسز*:
زوم پر ہفتے میں 5 دن
*وقت*:
10:00-11:00 pm بجے (شام)
*مطالعہ کا طریقہ:*
◼️ روزانہ ایک لیکچر آن لائن دیا جاتا ہے۔
◼️ہفتہ وار فرضی ٹیسٹ
Fee: 2000 per month
Subjects:
English
Mathematics
Every day science
Current affairs
Indo.pak history
Pakistan studies
Islamic studies
General knowledge
*رجسٹریشن کے لیے*:
حسان جنید کے عنوان والے ذیل میں سے کسی بھی اکاؤنٹ میں فیس جمع کروا سکتے ہیں، اور رجسٹرڈ واٹس ایپ گروپ میں آنے کے لیے مجھے اسکرین شاٹ بھیج سکتے ہیں۔
03004247503 جاز کیش
03489891926 ایزی پیسہ
Meezan bank:
71010107780866
Baluchistan was given the status of province on:
A. 14th August 1947
B. 1" July 1947
C. 1- July 1971
D. None of these
Allama Iqbal information
*CSS 2024 MPT*
MPT roll number slips are now available on the official FPSC website.
For download slip, Link in comment
Best of luck.
اسسٹنٹ ڈائریکٹر انٹیلی جنس بیورو کا اپلائی اور سلیبس کیسے کریں۔
How to apply and Syllabus of AD IB ( Intelligence bureau ) by Dr.Hassan
https://youtu.be/lucFTFRNtSs?si=2k4fXDPLuYFMgrcF
https://youtu.be/lucFTFRNtSs?si=2k4fXDPLuYFMgrcF
اسسٹنٹ ڈائریکٹر انٹیلی جنس بیورو کا اپلائی اور سلیبس کیسے کریں۔
How to apply and Syllabus of AD IB ( Intelligence bureau ) by Dr.Hassan
ہم زندہ ہوتے ہوۓ بھی ایک مردہ قوم ہیں.
اس دن سے ڈرنا چاہیے جب ان بچوں کے ہاتھ ہمارے گریبانوں پر ہوں گے کہ مسلم ورلڈ میں تم ہی تو تھے جو ایک ایٹمی پاور تھے.
😭😭😭😭
😭😭😭😭
انسانی عادتوں کے ماہرین نے ڈیٹا کی بنیاد پر ریسرچ کی ہے اور معلوم ہوا دنیا میں 99 فیصد غلط فیصلے دن دو بجے سے چار بجے کے درمیان ہوتے ہیں‘ یہ ڈیٹا جب مزید کھنگالا گیا تو پتا چلا دنیا میں سب سے زیادہ غلط فیصلے دن دو بج کر 50 منٹ سے تین بجے کے درمیان کیے جاتے ہیں۔
یہ ایک حیران کن ریسرچ تھی‘ اس ریسرچ نے ”ڈسین میکنگ“ (قوت فیصلہ) کی تمام تھیوریز کو ہلا کر رکھ دیا‘ ماہرین جب وجوہات کی گہرائی میں اترے تو پتا چلا ہم انسان سات گھنٹوں سے زیادہ ایکٹو نہیں رہ سکتے‘ ہمارے دماغ کو سات گھنٹے بعد فون کی بیٹری کی طرح ”ری چارجنگ“ کی ضرورت ہوتی ہے اور ہم اگر اسے ری چارج نہیں کرتے تو یہ غلط فیصلوں کے ذریعے ہمیں تباہ کر دیتا ہے‘ ماہرین نے ڈیٹا کا مزید تجزیہ کیا تو معلوم ہوا ہم لوگ اگر صبح سات بجے جاگیں تو دن کے دو بجے سات گھنٹے ہو جاتے ہیں۔
ہمارا دماغ اس کے بعد آہستہ آہستہ سن ہونا شروع ہو جاتا ہے اور ہم غلط فیصلوں کی لائین لگا دیتے ہیں چناں چہ ہم اگر بہتر فیصلے کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں دو بجے کے بعد فیصلے بند کر دینے چاہئیں اور آدھا گھنٹہ قیلولہ کرنا چاہیے‘ نیند کے یہ30 منٹ ہمارے دماغ کی بیٹریاں چارج کر دیں گے اور ہم اچھے فیصلوں کے قابل ہو جائیں گے‘ یہ ریسرچ شروع میں امریکی صدر‘ کابینہ کے ارکان‘ سلامتی کے بڑے اداروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سی ای اوز کے ساتھ شیئر کی گئی۔
یہ اپنے فیصلوں کی روٹین تبدیل کرتے رہے‘ ماہرین نتائج نوٹ کرتے رہے اور یہ تھیوری سچ ثابت ہوتی چلی گئی‘ ماہرین نے اس کے بعد ”ورکنگ آوورز“ کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا‘آفس کے پہلے تین گھنٹے فیصلوں کے لیے بہترین قرار دے دیے گئے‘ دوسرے تین گھنٹے فیصلوں پر عمل کے لیے وقف کر دیے گئے اور آخری گھنٹے فائل ورک‘ کلوزنگ اوراکاؤنٹس وغیرہ کے لیے مختص کر دیئے گئے‘ سی آئی اے نے بھی اس تھیوری کو اپنے سسٹم کا حصہ بنا لیا۔
مجھے جنرل احمد شجاع پاشا نے ایک بار بتایا تھا‘ امریکی ہم سے جب بھی کوئی حساس میٹنگ کرتے تھے تو یہ رات کے دوسرے پہر کا تعین کرتے تھے‘ میں نے محسوس کیا یہ میٹنگ سے پہلے ہمارے تھکنے کا انتظار کرتے ہیں چناں چہ ہم ملاقات سے پہلے نیند پوری کر کے ان کے پاس جاتے تھے۔میں نے برسوں پہلے ایک فقیر سے پوچھا تھا ”تم لوگ مانگنے کے لیے صبح کیوں آتے ہو اور شام کے وقت کیوں غائب ہو جاتے ہو“ فقیر نے جواب دیا تھا ”لوگ بارہ بجے تک سخی ہوتے ہیں اور شام کو کنجوس ہو جاتے ہیں‘ ہمیں صبح زیادہ بھیک ملتی ہے“ ۔
مجھے اس وقت اس کی بات سمجھ نہیں آئی تھی لیکن میں نے جب دو بجے کی ریسرچ پڑھی تو مجھے فقیر کی بات سمجھ آ گئی‘ آپ نے بھی نوٹ کیا ہوگا آج سے پچاس سال پہلے لوگ زیادہ خوش ہوتے تھے‘ یہ شامیں خاندان کے ساتھ گزارتے تھے‘ سپورٹس بھی کرتے تھے اور فلمیں بھی دیکھتے تھے‘کیوں؟ کیوں کہ پوری دنیا میں اس وقت قیلولہ کیا جاتا تھا‘ لوگ دوپہر کو سستاتے تھے مگر انسان نے جب موسم کو کنٹرول کر لیا‘ یہ سردی کو گرمی اور گرمی کو سردی میں تبدیل کرنے میں کام یاب ہو گیا تو اس نے قیلولہ بند کر دیا چناں چہ لوگوں میں خوشی کا مادہ بھی کم ہو گیا اور ان کی قوت فیصلہ کی ہیت بھی بدل گئی۔
ریسرچ نے ثابت کیا ہم اگر صبح سات بجے اٹھتے ہیں تو پھر ہمیں دو بجے کے بعد ہلکی نیند کی ضرورت پڑتی ہے اور ہم اگر دو سے تین بجے کے دوران تھوڑا سا سستا لیں‘ ہم اگر نیند لے لیں تو ہم فریش ہو جاتے ہیں اور ہم پہلے سے زیادہ کام کر سکتے ہیں‘ پوری دنیا میں فجر کے وقت کو تخلیقی لحاظ سے شان دارسمجھا جاتا ہے‘ کیوں؟ ہم نے کبھی غور کیا‘ اس کی دو وجوہات ہیں‘ ہم بھرپور نیند لے چکے ہوتے ہیں لہٰذا ہمارے دماغ کی تمام بیٹریاں چارج ہو چکی ہوتی ہیں اور دوسرا فجر کے وقت فضا میں آکسیجن کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اور آکسیجن ہمارے دماغ کے لیے اکسیر کاد رجہ رکھتی ہے۔
یہ ذہن کی مرغن غذا ہے چناں چہ ماہرین کا دعویٰ ہے آپ اگر بڑے فیصلے کرنا چاہتے ہیں تو آپ یہ کام صبح بارہ بجے سے پہلے نمٹا لیں اور آپ کوشش کریں آپ دو سے تین بجے کے درمیان کوئی اہم فیصلہ نہ کریں کیوں کہ یہ فیصلہ غلط ہو گا اور آپ کو اس کا نقصان ہو گا
(منقول)
FPSC new seats announced
*Assistant Director IB ( Intelligence bureau) FGO*
Age: 35 years
Education: Masters ( 16 years in any subject)
Last date : 20 November
Whatsapp group for study material is given in comment section.
جن کو ڈپریشن نہیں ہوتا،
یا وہ لوگ جو ڈپریشن کو عام اداسی اور مایوسی تک ہی جانتے ہیں۔
ان کو آئیڈیا دینے کی کوشش کرتا ہوں کہ کلینیکل ڈپریشن کیسے ایک انسان کو نگل لیتا ہے۔
کلینکل ڈپریشن دراصل وہ قسم ہے جس میں کوئی باتیں کام نہیں آتیں، بلکہ جسم میں وہ مادے ہی پیدا نہیں ہوتے جو انسانی زندگی چلانے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔
اگر آپ نے زندگی میں کبھی بہت زیادہ بلندی سے چھلانگ لگائی ہو۔ ۔ جیسے پل سے نہر میں، یا چھت سے نیچے پڑے بھوسے کے ڈھیر پر ، ۔ ۔ یا کبھی کسی اونچے جھولے یا رولر کوسٹر پر نیچے کی جانب آتے ہوئے ۔ ۔ آپ کا دل ایک سیکنڈ کے لیے ڈوبتا ہے۔ ۔
یہ دل ڈوبنے کی کیفیت ایک سیکنڈ یا اس سے کم عرصے کے لیے رہتی ہے، اس لیے ہم شاک کے فورا بعد یا تو ہنسنے لگتے ہیں، یا پھر واپس نارمل ہونے پر انتہائی خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ۔
بعض لوگ اتنے سے دل ڈوبنے سے بھی خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور آئندہ کے لیے جھولے یا رولر کوسٹر پر بیٹھنے سے ہی منع کر دیتے ہیں۔
کلینیکل ڈپریشن اس ایک سیکنڈ والی کیفیت کے مستقل یا کم از کم گھنٹوں رہنے کا نام ہے۔
اب آپ خود اندازہ کرنے کی کوشش کریں کہ جو کیفیت عام انسان ایک سیکنڈ برداشت نہیں کر سکتا، ایک مریض گھنٹوں اسکا شکار رہتا ہے۔ دنیا جہان کے کامیڈین، عزت، شہرت، دولت، لذت ۔ ۔ ۔ سب اس کیفیت کے سامنے بیکار لگتے ہیں۔ ۔ ۔
ایسے میں انسان صرف ایک بات سوچتا ہے، یہ سب بیکار ہے تو میں کیا کر رہا ہوں۔ ۔ میں کیونکر زندہ ہوں؟
بس یہی ڈپریشن ہے۔ جو آدمی کی جان بھی لے سکتا ہے۔
نوٹ: ڈپریشن کی کئی اور علامات اور کیفیات ہیں، وہ اس پوسٹ کا موضوع نہیں تھیں۔
محمود فیاض
Copied
قوم کی بہتری کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے ؟
جواب: قوم کی بہتری کی توقع تب کرسکتے ہیں کہ جب ہم سب آپس میں مل جھل کر رہیں گے اور جب شاگرد 🙈 کا پیپر اچھا نہ ہو تو استاد کو چاہئیے کہ وہ شاگرد کو معاف کر دے تب ہی قوم کی بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے🤭
86 Posts of Inspector Punjab police through PPSC only for Service Quota
سر آپ یونیورسٹی آئے ہیں یہاں پر اساتذہ
اورطالبعلم آپ کا انتظار کررہے تھے
اور آپ 50منٹ لیٹ پہنچے ہیں ۔۔!!
ہم شرمندہ ہیں کہ ہمارے وزیراعظم کو علم کی عزت نہیں ہے
ایک استاد نے ہر طالب علم کو ایک غبارہ دیا، جسے اسے پھولانا تھا، اس پر اپنا نام لکھنا تھا، اور اسے صحن میں پھینکنا تھا۔ استاد نے پھر تمام غباروں کو ملا دیا۔ اس کے بعد طلباء کو اپنا غبارہ تلاش کرنے کے لیے 5 منٹ کا وقت دیا گیا۔ کافی تلاش کے باوجود ان کا غبارہ کسی کو نہیں ملا۔
اس موقع پر، استاد نے طلباء سے کہا کہ وہ پہلا غبارہ لیں جو انہیں ملے اور اسے اس شخص کے حوالے کریں جس کا نام اس پر لکھا ہوا ہے۔ 5 منٹ کے اندر، سب کے پاس اپنا اپنا غبارہ تھا۔
استاد نے طالب علموں سے کہا: "یہ غبارے خوشی کی طرح ہیں، اگر ہر کوئی اپنی خوشی کی تلاش میں ہے تو ہمیں یہ کبھی نہیں ملیں گے۔ لیکن اگر ہم دوسروں کی خوشیوں کا خیال رکھیں گے تو ہم اپنی بھی تلاش کر لیں گے۔"
The currency of Turkiye is?
A. Dollar
B. Lira
C. Euro
D. Pound
Pain does not destroy you, It recreates you
💥💥
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Contact the school
Telephone
Address
58150
Raziawan5@gmail. Com
Multan, 6000
We are a team working to spread the message of the Qur’an (and the Sunnah) and not any particular school of thought or sect.
Main Rashipur Road Multan Wapda Town
Multan, 60000
Learn with us online education for Islamic
Multan
This Page is created to get some knowledge and preparation about jobs
Old Shujabad Road Opposite CCRI
Multan
MNS-University of Agriculture, Multan MNS-University of Agriculture, Multan is an HEC recognized higher education institution that started its academic activities in 2012. During t...
Office# 103-B, Block C Gulgasht Colony Beside Bank Alfalah Multan
Multan
We are the company providing free independent advice and support to international students applying to study in UK, USA and Australia & Europe. Our international education consult...
GHSS Kot Mela Ram
Multan, 6000
We believe that a happy child is a successful one. We are committed to providing a positive, safe and stimulating environment for children to learn, where all are valued. We intend...
Multan, 66000
This a The Official Page Of "AJDI TECHNOLOGY" YouTube Channel Advertising | Sponsorship | Affiliation | Digital Marketing | Unboxing Products https://youtube.com/@AjdiTechnology
Multan, 60000
Study in UK, Australia, Turkey, Iran, Russia & 20+ Countries. Secure Your Admission Within 1 Week!
Raza Colony Mukhtar Town Multan
Multan
Here you will learn Quran Majeed with Tajweed, Norani Qaida, Nazrah Quran Pak, Quran Pak Hifz. Please follow our page to learn Quran Pak JAZAKALLAH