Aaina Poetry
ALL Aaina Poetry will be published on this page
کشید کر لیا گیا وطن کاخون نچوڑ کر یہ گل کھلاۓ جا رہے ہیں اب ادارے توڑ کر
یہ پی گے سمجھ کے ماں کا دودھ قومی مال کو
گواہ کر رہا ہے ان کا ماضی ان کے حال کو
الاٹ کر لئے گۓ پلاٹ اور ادارے چھانٹ چھانٹ کر
آف شور کمپنیاں بنا لیں وطن کو لوٹ لاٹ کر
یہ معتبر سی ہستیاں جو اربوں کھا گئیں
سمندری بلائیں تھیں جو خشکیوں پہ آ گئیں
وطن کو اس مقام پر آج دھر گۓ
کہ سود کی ادائیگی پہ بھی قرض لینے پڑ گۓ
عالیہ جمشید خاکوانی
شاعرہ عالیہ جمشید خاکوانی
بےرحم حقیقت
غالب کا دور ہے نہ مومن کا دور ہے
انسان اب کہا ں،یہ تو قصہّ ہی اور ہے
نوٹو ں سے دل کی دھڑکن بحال کیجئے
موبائلوں پہ ،عشق نا ٹک،ارسال کیجئے
سب کھو گئے ہیں مو سم،چاھت کی رت کہاں
ا ٹھا خمیر جس سے ،انسا نیت کا بت کہاں
ان کو بھی اپنی ذات کا عر فا ن ہو گیا
بر سو ں کا تھا جو سا تھی ،مہمان ہو گیا
جاتے ہیں دور کیو ں،گھر میں ہی دیکھ لیں
اپنے پرائے سب کے ،با طن ہی د یکھ لیں
ملتا ہے ہر بشر اپنی ضرورت کے واسطے
سب منز لیں ہیں کھو ٹی، ا لجھے ہیں راستے
اس سادگی پہ اب نہ قر با ن جا ئیے
بے ر حم ہے حقیقت،بس ما ن جا ئیے
میرا جانو
میرا جانو
ایک غزل پیش خدمت ہے
آنکھوں کی تسلی کے لیے رو لیتے ہیں اکثر
دل ایسا پتھر ہوا ،،،،،،رونے نہیں دیتا
ہر یاد کے آگے ایک آئینہ کھڑا ہے
نگاہوں سے کچھ بھی اوجھل ہونے نہیں دیتا
اونچے محل،،بند کمرے،،لمبی راہیں
یہ آسیب راتوں کو سونے نہیں دیتا
ہر جانب چھپی ہوئی ہیں ،منتظر نگاہیں
یہی احساس تو اس کو کھونے نہیں دیتا
دور افق سے اٹھتا ہوا اجالا ہم کو عالیہ
زندگی میں اندھیروں کو سمونے نہیں دیتا!
عالیہ جمشیدخاکوانی
اس شخص کی محبت میں
اس شخص کی محبت میں رسوائی بہت تھی
دل تب ہی تو گھبرا یا تنہائی بہت تھی
ایک سعی لاحاصل تھی نہ ربط تسلسل
فطرت میں کچھ اس کے بڑائی بہت تھی
نہ رونے سے کچھ حاصل اشکوں کی بھی بربادی
جذبوں میں مگر اس کے گہرائی بہت تھی
خود سروں کو اتنا جھکاتے نہیں ہیں
یہ بات ہم نے اس کو سمجھائی بہت تھی
اب لوٹ کے جانا ممکن نہیں ہو گا
گو برسوں سے اس سے شناسائی بہت تھی
شاعرہ عالیہ جمشید خاکوانی
کبھی دکھوں سے دوستی ،کبھی تنہائیوں سے پیار،،زندگی بھر ہمارا یہی چلن ہی رہا
حسن کو رب میں ڈھونڈا،حسن کو آئینے میں دیکھا ،سو یہ دل اپنے آپ میں مگن ہی رہا! عالیہ
عید پكس
شادی پكس ۔۔2024۔2۔16
آل فوٹوز مہندی 15 ۔2۔2024
ایسا بھی ہوتا ہے
اکیلےراستوں پہ ہم بے سبب ہی پھرتے ہیں
تمھارے ہاتھوں سے ہمارے ہاتھ تو کب کے چھوٹ گئے
اختیار کی سولی پہ چڑھ جانا ہی جب مقدر تھا
کیوں اعتبار کے دامن سے آنسو پونچھ گئے
ہمارے ہاتھ کی لکیروں میں یہ بھی لکھا تھا
کہ اب تمھاری وفائوں کے دریا سوکھ گئے
اسنے دیکھا، ہمیںچاہا،ہمیں پا بھی لیا
بس اس کے بعد ہم زندگی سے روٹھ گئے
شاعرہ عالیہ جمشید خاکوانی
**کیا کرتے **
سن کے گفتگواسکی ،آخر گمان کیا کرتے
جو حرف حق تھا زباں پہ لا کے کیا کرتے
دل کے رشتے تو ویسے ہی دشوار ہوتے ہیں
اب اسے روک کے وقت کا زیان کیا کرتے،
تیرتو نکل گیا تھا ہاتھوں سے،،پھر خالی کمان کیا کرتے
،،اب پلٹ کے آنا مشکل ہے،
واپسی کے سامان کیا کرتے،
،عاليه جمشيد خاكواني