My Sad urdu poetry
it's for sad people
فائدہ کیا ھے زمانے میں خسارہ کیا ھے
خاک ہو جائیں گے ھم لوگ ھمارا کیا ھے
دیکھ واصف رواں خواہشیں رہ جائیں گی
تم گزر جاؤ گے چپکے سے تمھارا کیا ھے....
🥀
سانولی رنگت،سادہ حلیہ، اداس آنکھیں،
ہم سے کوئی دل لگاۓ تو کیوں لگاۓ؟؟؟🖤
تُجھ سے ملنے کا وَاقَعہ لِکھوں
اب میں کیا ، یہ بھی سانِحہ لِکھوں ؟
کیا میں لِکھوں ، کہ لوٹ آو تم
کیا میں کاغذ پہ , فاصلہ لکھوں
قاصد میں جل رہا ہوں تُو اُن کو جلا کہ آ
ُاُن کے بغیر ٹھیک ہوں اُن کو بتا کہ آ
کہنا اُنہیں کہ بِن تیرے رہنے لگے ہیں وہ
کچھ جھوٹ مُوٹ بول کہ اُن کو ڈرا کہ آ.......
دفنا دیا گیا مجھے چاندی کی قبر میں
میں جس کو چاہتا تھا وہ لڑکی غریب تھی❤
زندگی اپنی گزر جائے گی آرام کے ساتھ
اب میرا نام بھی آئے گا تیرے نام کے ساتھ 💕
میں تیرے ساتھ چلوں گا تیرا سایہ بن کر
میری ہر صبح رہے گی تیری ہر شام کے ساتھ 💕
اپنے سینے میں بسا لے مجھے دھڑکن کی طرح
کہ میرا دل بھی ہے شامل میرے پیغام کے ساتھ 💕
تجھ سے پائی ہے تیرے پیار کی مستی میں نے
عمر بھر پیاس بجھاؤں گا اسی جام کے ساتھ 💕
لے کے آئیں گی بہاریں تیرے دامن کی ہوا
پھول مہکیں گے تیرے عارضِ گُلفام کے ساتھ 💕💕
💔تجھ سے بچھڑ کر ہم نے یوں بھی وقت گزارا
کبھی زندگی کو ترسے، کبھی موت کو پکارا😢A
شبِ انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی
کبھی اک چراغ جلا دیا کبھی اک چراغ بجھا دیا ۔❤️❤️💖😍😍😍😍😍🙃🙃
*چھوڑو پل پل ہر پل کے جھگڑے۔ 🔥🥀*
*مختصر حیات ہے چلو آؤ محبت کرتے ہیں۔ ❤️❤️*
پیار دے دھوکے دے وچ آواں میں کوئی لوکوں پاگل آں
بے قدراں نال نین ملا واں میں کوئی لوکوں پاگل آں 🙄
غمِ ہِجراں کی ترے پاس دوا ہے کہ نہیں
جاں بلب ہے ترا بیمار سُنا ہے کہ نہیں
وہ جو آیا تھا، تو دل لے کے گیا ہے کہ نہیں
جھانک لے سینے میں کمبخت ذرا، ہے کہ نہیں
مخمصے میں تری آہٹ نے مُجھے ڈال دیا
یہ مرے دل کے دھڑکنے کی صدا ہے کہ نہیں
سامنے آنا، گُزر جانا، تغافل کرنا
کیا یہ دُنیا میں قیامت کی سزا ہے کہ نہیں
اہلِ دل نے اُسے ڈُھونڈا، اُسے محسوس کیا
سوچتے ہی رہے کچھ لوگ، خُدا ہے کہ نہیں
تم تو ناحق مری باتوں کا بُرا مان گئے
میں نے جو کچھ بھی کہا تم سے، بجا ہے کہ نہیں
آبرو جائے نہ اشکوں کی روانی سے نصیرؔ
سوچتا ہوں، یہ محبت میں روا ہے کہ نہیں!
نصیر الدین نصیر
جو انگریز افسران ہندوستان میں ملازمت کرنے کے بعد واپس انگلینڈ جاتے تو ان کو وہاں پبلک پوسٹ کی ذمہ داری نہ دی جاتی
دلیل یہ تھی کہ
تم ایک غلام قوم پر حکومت کر کے أۓ ہو
جس سے تمہارے اطوار اور رویے میں تبدیلی آ گی ہے
یہاں اگر اس طرح کی کوئی ذمہ داری تمہیں دی جائے گئی
تو تم آزاد انگریز قوم کو بھی اسی طرح ڈیل کرو گے
اس مختصر تعارف کے ساتھ درج ذیل واقعہ پڑھئے
ایک انگریز خاتون جس کا شوہر برطانوی دور میں پاک و ہند میں سول سروس کا آفیسر تھا
خاتون نے زندگی کے کئی سال ہندوستان کے مختلف علاقوں میں گزارے
واپسی پر اس نے اپنی یاداشتوں پر مبنی بہت ہی خوبصورت کتاب لکھی
خاتون نے لکھا ہے کہ :
میرا شوہر جب ایک ضلع کا ڈپٹی کمشنر تھا اُس وقت میرا بیٹا تقریبا چار سال کا اور بیٹی ایک سال کی تھی
ڈپٹی کمشنر کو ملنے والی کئی ایکڑ پر محیط رہائش گاہ میں ہم رہتے تھے
ڈی سی صاحب کے گھر اور خاندان کی خدمت گزاری پر کئی سو افراد معمور تھے
روز پارٹیاں ہوتیں، شکار کے پرواگرام بنتے ضلع کے بڑے بڑے زمین دار ہمیں اپنے ہاں مدعو کرنا باعث فخر جانتے
اور جس کے ہاں ہم چلے جاتے وہ اسے اپنی عزت افزائی سمجھتا
ہمارے ٹھاٹھ ایسے تھے کہ
برطانیہ میں ملکہ اور شاہی خاندان کو بھی مشکل سے ہی میسر تھے
ٹرین کے سفر کے دوران نوابی ٹھاٹھ سے آراستہ ایک عالیشان ڈبہ ڈپٹی کمشنر صاحب کی فیملی کے لیے مخصوص ہوتا تھا
جب ہم ٹرین میں سوار ہوتے تو
سفید لباس میں ملبوس ڈرائیور ہمارے سامنے دونوں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جاتا
اور سفر کے آغاز کی اجازت طلب کرتا
اجازت ملنے پر ہی ٹرین چلنا شروع ہوتی
ایک بار ایسا ہوا کہ
ہم سفر کے لیے ٹرین میں بیٹھے تو روایت کے مطابق ڈرائیور نے حاضر ہو کر اجازت طلب کی
اس سے پہلے کہ میں بولتی میرا بیٹا بول اٹھا جس کا موڈ کسی وجہ سے خراب تھا
اُس نے ڈرائیور سے کہا کہ ;
ٹرین نہیں چلانی
ڈرائیور نے حکم بجا لاتے ہوئے کہا کہ :
جو حکم چھوٹے صاحب
کچھ دیر بعد صورتحال یہ تھی کہ
اسٹیشن ماسٹر سمیت پورا عملہ جمع ہو کر میرے چار سالہ بیٹے سے درخواست کر رہا تھا
لیکن
بیٹا ٹرین چلانے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہوا
بالآخر
بڑی مشکل سے میں نے کئی چاکلیٹس دینے کے وعدے پر بیٹے سے ٹرین چلوانے کی اجازت دلائی تو سفر کا آغاز ہوا
چند ماہ بعد میں دوستوں اور رشتہ داروں سے ملنے واپس برطانیہ آئی
ہم بذریعہ بحری جہاز لندن پہنچے
ہماری منزل ویلز کی ایک کاونٹی تھی جس کے لیے ہم نے ٹرین کا سفر کرنا تھا
بیٹی اور بیٹے کو اسٹیشن کے ایک بینچ پر بٹھا کر میں ٹکٹ لینے چلی گئی
قطار طویل ہونے کی وجہ سے خاصی دیر ہو گئی
جس پر بیٹے کا موڈ بہت خراب ہو گیا
جب ہم ٹرین میں بیٹھے تو عالیشان کمپاونڈ کے بجائے فرسٹ کلاس کی سیٹیں دیکھ کر بیٹا ایک بار پھر ناراضگی کا اظہار کرنے لگا
وقت پر ٹرین نے وسل دے کر سفر شروع کیا تو بیٹے نے باقاعدہ چیخنا شروع کر دیا
وہ زور زور سے کہہ رہا تھا
یہ کیسا الو کا پٹھہ ڈرائیور ہے
ہم سے اجازت لیے بغیر ہی اس نے ٹرین چلانا شروع کر دی ہے
میں پاپا سے کہہ کر اسے جوتے لگواؤں گا
میرے لیے اُسے سمجھانا مشکل ہو گیا کہ :
یہ اُس کے باپ کا ضلع نہیں ایک آزاد ملک ہے
یہاں ڈپٹی کمشنر جیسے تیسرے درجہ کے سرکاری ملازم تو کیا
وزیر اعظم اور بادشاہ کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ
اپنی انا کی تسکین کے لیے عوام کو خوار کر سکے
آج یہ واضع ہے کہ :
ہم نے انگریز کو ضرور نکالا ہے
البتہ غلامی کو دیس سے نہیں نکال سکے
یہاں آج بھی کئی
1- ڈپٹی کمشنرز
2- ایس پیز
3- وزرا مشیران
4- سیاست دان
5- جرنیل
صرف اپنی انا کی تسکین کے لیے عوام کو گھنٹوں سٹرکوں پر ذلیل و خوار کرتے ہیں
اس غلامی سے نجات کی واحد صورت یہی ہے کہ
ہر طرح کے تعصبات اور عقیدتوں کو بالا طاق رکھ کر ہر پروٹوکول لینے والے کی مخالفت کرنی چاہئیے
ورنہ صرف 14 اگست کو جھنڈے لگا کر اور موم بتیاں سلگا کر خود کو دھوکہ دے لیا کیجئیے کہ ہم آزاد ہیں
مقدر کی زنجیروں سے بندھے ہم بے بس لوگ
عمر گزار دیتے ہیں غالب ، معجزوں کے انتظار میں 🖤
Click here to claim your Sponsored Listing.