International School of Cordoba Muridke
Nearby schools & colleges
Wahla Street Hassan Park Muridke
Commencing with the optimistic institution leads your child to demonstrate unusual Courtesy, Intelligence and unquestionable creativity in various fields
حکومتی ہدایت کے مطابق کل 9جون سے سکول سوموار تا جمعرات اور ہفتہ کے دن صبح ساڑھے سات بجے سے دن بارہ بجے تک کھلے گا۔ جمعہ مبارک کو سکول کی ٹائمنگ صبح ساڑھے سات بجے تا دن ساڑھے گیارہ بجے ہو گی
بچوں کی اردو میں استعداد کیسے بڑھائیں؟
چھے باتیں، یعنی 6 ٹِپس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ آزمودہ باتیں ہیں، یعنی خاص عملی تجربہ کی کسوٹی پر پرکھی ہوئی۔ نتیجہ حیرت انگیز ہے کہ خود میرے بچوں کی اردو پرافیشینسی نے پچھلے ایک ہفتہ میں ہی زبردست شُوٹ کیا ہے۔
پہلے یہ دو باتیں نوٹ فرمالیں:
اوّل، چونکہ باقی تمام مضامین اردو زبان میں ہیں، اِن بچوں کے دل و دماغ اور نگاہ انگریزی عبارت پر خوب جمے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُردو عبارت کی ریڈنگ ہو یا اِملا، دونوں سخت کمزور رہ جاتی ہیں۔ یہ کمزوری ساتھ ساتھ چلتی ہے، تاوقتیکہ بہت عرصہ بعد جب اچانک آپ کے مشاہدے میں آتی ہے تو میٹرک کی سطح تک جا پہنچے بچے کی اُردو استعداد دیکھ کر آپ لرز اٹھتے ہیں۔
دوئم، والدین developmental phase میں اس لئے مدد نہیں کر پاتے، یا ریگولر نہیں ہو پاتے کہ پڑھانا اور سِکھانا ایک سُست رو عمل ہے جو وقت دینے کا متقاضی ہے۔ اس میں تردّد ہے؛ یہ نرا دردِ سر ہے۔
اب اِس عمل کو آسان بناتی کچھ ٹپس ہو جائیں۔ خلوص اور کمٹمنٹ تو خیر چاہئیں ہی۔
1— بچے کی اردو کی کتاب میں سے 8 یا 10 اسباق کا انتخاب کریں، بچے کو پاس بٹھا کر۔ فہرست پر پنسل سے نشان لگا لیں۔
2— ایک کاپی یا رجسٹر مخصوص کر لیں۔ ہم نے رجسٹر کا دائیں طرف والا حصہ مخصوص کیا ہے۔ پہلے صفحہ پر کلرڈ پیڈ والے ٹیگز لگا دیں۔ اب ان پر مارکر سے اِن اسباق کے نام لکھ ڈالیں۔ یہ سب خود بچے سے ہی کروائیں۔ اس عمل سے جوش و خروش بڑھ جاتا ہے۔ پہلے صفحہ پر تاریخ بھی درج کی جائے۔ اور پھر ہر صفحہ پر۔
3— اب، بچے کی مرضی سے کوئی سا ایک سبق منتخب کریں، ان 10 اسباق میں سے۔ نثری سبق ہو یا نظم، اس کے دو حصے بنا لیں۔ اب کوئی موبائل فون لیں، یا ٹیب یا کمپیوٹر کے استعمال سے اس پورے سبق کی ریڈنگ اپنی آواز میں ریکارڈ کر ڈالیں۔ نیز، مشکل الفاظ کو انڈر لائن بھی کیا جائے۔ بچے سے کہیں کہ سبق کا پہلا حصہ اس ریکارڈنگ سے گائیڈ ہو کر تین چار بار پریکٹس کرکے لائے۔ پریکٹس کے دوران وہ pause کا بٹن دبا کر ذرا سہولت سے اُس ریکارڈنگ کو فالو کر سکتا ہے۔ نیز، اسے بتائیں کہ انڈر لائن ہوئے الفاظ کو الگ سے پروناؤنس کرنے کی پریکٹس بھی کر کے لائے۔ اس عمل سے آپ کا کچھ وقت بھی بچے گا اور بچے کے سر پر سوار رہ کر ہر ہر لفظ کے لئے اُلجھنے کا تردّد بھی کم ہوجائے گا۔ اسی طرح، سبق کا دوسرا حصہ بھی پریکٹس کرایا جائے۔
پِگھلنا اُس پہاڑ کا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی unruly قسم کے ایک عدد خود سَر بچے سے آپ کا واسطہ پڑا ہو؟ 🙂 ۔۔۔ خیر، برسوں گذرے، تب میں کڑیل جوان تھا۔ ایک سکول میں ایک بچہ دیکھا — وہی جسے پرابلیمیٹک چائلڈ کہا جاتا ہے: باتونی، کام چور، اوپر سے خود سَر اور "بےخوف"۔
ظاہر ہے، بچوں کی اس سے متعلق شکایات الگ تو ٹیچرز الگ سے مشتعل ہوئے جاتے ۔۔۔ المختصر، اس لڑکے سے نمٹنا ایک کارِ دشوار تھا۔ مَیں خود ڈانٹ ڈپٹ کر، رعب جما کر ہی کام چلایا کرتا۔ اُدھر فی میل ٹیچرز کے بس کی بات ہی نہ تھی۔
البتہ ایک لیڈی ٹیچر نے مجھے حیران کیا۔
ایک روز کوئی مسئلہ الجھ گیا، یعنی سنگین نوعیت کا تھا۔ بات بڑھ گئی تو کوآرڈینیٹر نے کہا اسے مِس سحر (یہاں فرضی نام) کے پاس لے جائیں۔
مجھے بھی اسی کلاس روم میں بلا لیا گیا۔
میں مِس سحر کی شخصیت کے اس پہلو سے ناواقف تھا، یعنی عمدہ کونسلنگ والی صلاحیت و قابلیت، اگرچہ اتنا دیکھ رکھا تھا کہ اُس کی زبان، اس کی تہذیب جداگانہ تھی۔ مثلاً چلنے کا انداز، مڑ کر دیکھنے، بات کرتے ہوئے لفظوں کو articulate کرنے، کچھ ایکسپلین کرتے یا بات کرتے میں بالکل سافٹ لفظوں کا انتخاب اور سافٹ ڈیلیوری، اپنے مخاطب کو خاموشی سے بہ دھیان سُن کر مناسب سا جواب دینے میں ایک خاص جینیٹک میک اپ اور گرُومنگ والا charisma جھلکتا اور متاثر کرتا۔
باقی سب ٹیچرز tensed نظر آتے تو مِس سحر کے پرسکون دِکھتے چہرے پر تبسّم ۔۔۔ خیر، اس نوع کی پیچیدگی کو وہ ایسی آسانی سے ہینڈل کر لے گی، اس کا مجھے اندازہ نہ تھا۔
پرانی بات ہے، اس لیے ٹھیک سے یاد نہیں مسئلہ تھا کیا، اور مِس سحر نے بچے کے ساتھ precisely کیا سوال و جواب کیے تھے، مگر انجامِ کار بچے کا سہم کر، شرمندہ سا ہو کر اپنی غلطی کا اعتراف کر جانا اب بھی یاد ہے۔
نفسیاتی حربے تھے، جیسے:
— پہلے تو حال احوال پوچھ لیا، جیسے کوئی بات ہی نہ ہوئی ہو۔ بچے کا تَنا ہوا جسم فوراً ڈھیلا پڑ گیا۔
— پھر اس کی گیم کی تعریف کر دی, جیسے 'کمال باؤلنگ کرتے ہو۔ کہیں سے سیکھی ہے یا بس نیچرل ٹیلنٹ ہے؟'
ماحول خوشگوار ہو گیا۔
— تب اُس مخصوص ایشو پر آ کر اسے خوب بولنے کا موقع دیا، اور مداخلت کیے بنا وہ خاموشی سے سنتی رہی۔
— اگلا مرحلہ acknowledgement دینے اور لفظوں کو rephrase کرنے کا تھا۔ یعنی بچے کو جس بات پر تکلیف تھی، غصہ تھا، اس کا اعتراف، 'ہاں، کوئی آپ کے ساتھ ایسا کرے تو دُکھ تو ہوتا ہے نا پھر۔' (حالانکہ بنیادی غلطی اسی شیطان کی تھی!) اور جو سخت لفظ اس بچے نے بولے، انہیں شائستہ لفظوں میں دوہرا دیا۔
— تب یہ جملہ 'ویسے ہم ایک دوسرے سے جھگڑتے اس لیے ہیں کہ ایکدوسرے سے expectations بہت ہوتی ہیں۔'
— تب نتائج سے خوفزدہ کرنے کو بارُعب آواز میں دو تین جملے جو براہِ راست بچے کو ہٹ نہیں کر رہے تھے، بلکہ بالواسطہ طور۔
— تب ایک ادا سے یہ کہنا، 'بھلا میں آپ کی جگہ ہوتی تو کیا کرتی؟' ۔۔۔ پھر یہ کہ ایسا کیوں کرتی؟ یعنی ذرا اخلاقی اور فلسفیاتی ٹَچ۔
— "یہ بتاؤ، بہادر کون ہوتا ہے؟" ۔۔۔ بچے نے کچھ اوٹ پٹانگ بَک دیا۔ "ہوں ں ں ۔۔۔ اصل بہادر وہ ہوتا ہے جس میں شرم ہوتی ہے، احساس ہوتا ہے۔ گاٹ اِٹ؟ یعنی اگر غلطی ہو جائے تو اعتراف کر جائے۔۔۔ وہ بہادر ہے۔ جو اِنکار کرتا ہے، وہ بزدل۔۔۔اندر سے ڈرا ہوا۔۔۔"
— پھر، والدین کو آگاہ کرنے والی 'دھمکی' کا tool غیر محسوس طور ایپلائی کر جانا۔ (ورنہ ایلیٹ سکولز کے بچے اس بات کی پروا نہیں کرتے، الٹا اکڑ جاتے ہیں۔ اُدھر ماں باپ کو جھوٹ موٹ کہانیاں سنا دیا کرتے ہیں، یا ان بچوں کو اعتماد ہوتا ہے کہ والدین بس ہماری طرفداری ہی کریں گے) ۔
— تب آخری وار کے بطور یہ سوال کہ اگر اس ساری سیچویشن کو رِی پلے کریں تو بتاؤ اب کیا کرو گے؟
گریڈ 8 کا وہ بچہ اَنا و خود سری کا پہاڑ تھا۔ وہ پہاڑ میں نے اپنی آنکھوں پگھلتے دیکھا۔ ایک نئی بصیرت insight میسر آئی۔
اگرچہ سنگین نوعیت کے معاملات میں بچے سکول سے خارج بھی کیے جاتے ہیں، یا ایک دو روز کے لیے suspend کر دئیے جاتے ہیں، مگر بیشتر معاملات میں اِن اداروں میں سزا کی بجائے کونسلنگ دینے کا رواج ہے۔
کونسلنگ کیا ہے؟ ایک فن ہے۔
دُنیائے کونسلنگ کے، یعنی پُربصیرت رہنمائی فراہم کرنے کے اپنے کچھ tools ہیں۔ اِن آلات کو ماہرانہ طور برتنے کی ٹیکنیکس ہیں۔ نیز، مکینک بھی اچھا چاہئیے، یعنی ایک charismatic شخصیت کی دستیابی الگ سے ضروری ہے۔
بچے کے تعلیمی و تربیتی سفر میں ایسے متوازن الطبع اور سمجھدار استاد کا میسر آنا نعمتِ عظمیٰ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمایوں مجاہد تارڑ
سکول کھلنے سے پہلے حکومت کے کرنے کے کام (حصہ دوم)
اللہ پاک سب کو ہر طرح کی بھلائی میں رکھے!
2: ایمرجنسی ہینڈلنگ
کرونا وائرس کی حالیہ عالمی وبا کے پیش نظر چاہییے کہ سکولوں کی بندش کے خاتمے کے بعد سکولوں میں بچوں کی ہیلتھ سے ریلیٹڈ ممکنہ اشوز کو روایتی طور پر ہینڈل کرنے کی بجائے مستند اور ماہر ڈاکٹرز کے بورڈ کے سامنے یہ مسلہ رکھا جائے کہ وائرس کی روک تھام کے سلسلے میں سکولوں میں کیے جانے والے کسی قسم کے اقدامات کے نیتجے میں مثلاً سینیٹاءزنگ ساءیڈ ایفیکٹ، poor breathing، الرجک ری ایکشن وغیرہ کی کسی صورت میں کون سا لاءحہ عمل فالو کیا جائے۔ کون سے کام بطور فرسٹ ایڈ کس انداز میں کیے جائیں اور کس صورت میں ریسکیو پرسانل کو طلب کیا جائے۔ یہ ساری معلومات سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اپنی ویب سائیٹ پر اپلوڈ کرے مزید بزریعہ میڈیا بھی معلومات پہنچائی جائیں ۔
اس سلسلے میں دوسری تجویز یہ ہے کہ ہر قصبے اور شہر میں موجود ہسپتالوں میں سکول چائلڈ کیئر ڈیپارٹمنٹ کچھ عرصے کے لیے احتیاطاً قائم کیا جائے تاکہ وہاں صرف بچوں سے ریلیٹڈ مسائل کو ڈیل کیا جاسکے۔
اس unrefutable حقیقت کے باوجود کہ سکول تعلیم و تربیت میں تو مہارت رکھتے ہیں مگر کیونکہ وہ ہیلتھ پروفیشنلز نہیں ہوتے اور نہ ہی انہیں کسی وبا کی صورت میں ایمرجنسی ہینڈلنگ کی پیشہ ورانہ know how ہوتی ہے سکولوں میں ہیلتھ سے متلعق پیش آنے والے ہر واقعے کا ذمہ سکول انتظامیہ کو قرار دیا جاتا ہے جو کہ نامناسب ہے۔ حالیہ وبا کے پیش نظر ایسے تمام معاملات جو کسی انسانی ہاتھ میں نہیں اور ہر ممکنہ تدبیر اور احتیاط کے باوجود وقوع پزیر ہو جائیں انہیں بجائے سکول انتظامیہ پر ڈالنے کے ماہرانہ طور پر میڈیکل ریسکیو اینڈ ریکوری کے ایک مربوط طریقہ کار سے ہینڈل کیا جائے ۔
سکولوں کو ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ایک مخصوص ایمرجنسی نمبر مہیا کیا جائے جس پر وہ کسی ناخوشگوار صورت حال میں فوراً رابطہ کرکے اطلاع کرسکیں یا ضروری معلومات حاصل کرسکیں۔یہ نمبر سکول ورکنگ آورز میں ہر حال میں ورکنگ ہونا چاہییے اور اس کا رسپانس ریٹ ٪100 ہونا چاہییے ۔
3: سکولوں کے لیے سٹاف اور بچوں کے حوالے سے کرونا وائرس جیسے وبائی امراض سے بچاؤ کے لیے مستند احتیاطی تدابیر کا چارٹ SED کی ویب سائیٹ پر اپلوڈ کیا جائے مزید اس کی میڈیا پر بھی تشہیر کی جائے۔ مزید جیسے ڈینگی سے بچاؤ اور تدارک کے سلسلے میں ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے سکولوں میں پوسٹرز اور سٹکرز تقسیم کیے جاتے ہیں اسی طرح وبائی امراض سے بچاؤ کے سلسلے میں بھی میٹیریل تقسیم کیا جائے۔
4: سکولوں میں بچوں کو لانے لیجانے والوں کے لیے بھی ایس او پیز تیار کیے جائیں۔
بچوں کی عادات پر محنت کریں!
(قلم کلامی:قاسم علی شاہ)
عادات کیا ہوتی ہیں :
انسان کا ذہن دو چیزوں کی بنیاد پر کام کرتاہے ، ایک کو شعور اور دوسرے کو تحت شعور کہتے ہیں ۔شعور وہ ہے جس کے ذریعے انسان اندازہ ،احتیاط اور حساب کتاب کا کام کرتا ہے جبکہ تحت شعور میں انسان کی عادات ،نظریات ، طرزِ زندگی ، یقین اور بنیادی حافظے کی چیزوں کے ساتھ ساتھ 80فی صد عادات بھی پڑی ہوتی ہیں ۔انسان دن بھر میں جتنی عادات بھی سرانجام دیتا ہے، وہ تحت شعور کی بدولت ہی دیتا ہے جبکہ باقی 20فی صدعادات اسے شعور کی مدد سے بنانی پڑتی ہیں۔اگر یہ 20فی صد کا مارجن نہ ہو تو پھر انسان پولیس یا فوج میں بھرتی نہیں ہوسکتا اور ٹریننگ و تربیت کانتیجہ ہی ختم ہوجائے گا،کیونکہ ٹریننگ کے دوران کوئی بھی انسٹرکٹر اسی 20فی صد کے مارجن میں چیزوں کو رکھتا ہے اور اس کی عادات بناتا ہے ۔اس ساری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ جو انسان جبلتاً خراب ہے تو پھر اس کو درست کرنا مشکل ہے۔اس کو صرف ایک ہی ذریعے سے ٹھیک کیا جاسکتا ہے اور وہ ہے انسپائریشن اور مضبوط قوتِ ارادی ۔خوش قسمتی سے اگراس کی زندگی میں کوئی انسان ایسا آجائے جس سے وہ انسپائر ہوجائے یا اس کی اپنی Will powerاتنی زبردست ہو کہ وہ اپنی عادات کے خلاف کھڑا ہوجائے تو ٹھیک ورنہ ۔۔اس کی عادت بدلنا بڑا مشکل ہے۔
والدین اپنی تربیت میں دراصل اپنے بچوں کو عادت دے رہے ہوتے ہیں۔آپ نے جتنی اچھی عادات اپنے بچوں کو دی ہوتی ہیں اتنے ہی وہ کامیاب ہوتے ہیں۔بھارت کے سابق صدرعبد الکلام کاکہنا ہے کہ ’’آپ اپنے مستقبل کو نہیں بدل سکتے مگر اپنی عادات بدل کر اپنا مستقبل بہتر کرسکتے ہیں۔‘‘اسی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ عادات کی ترقی کا نام تربیت ہے ۔
بچوں کو عادت کیسے دی جاتی ہیں؟
والدین مندرجہ ذیل عوامل کی بناء پر اپنے بچوں کو عادات دے سکتے ہیں:
(۱)Pain & pleasureپرنسپل :
انسان کا دل ہمیشہ اس چیز کو پسند کرتا ہے جس میں اس کو مزہ آتا ہے اور اس کو ناپسند کرتا ہے جس میں اس کو تکلیف ملتی ہے ۔ انسان کی عادات بھی وہی بنتی ہیں جن میں اس کو سرور مل رہا ہو اور جن کاموں میں تکلیف ہو تو وہ اس کو عادت نہیں بناتا۔
بچوں میں نئی عادات پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان عادات کو دلچسپ بنایا جائے۔
(۲)حوصلہ افزائی :
والدین اپنے بچوں کی جس کام پر حوصلہ افزائی کرتے ہیں ،وہ آہستہ آہستہ ان کی عادت بن جاتی ہے۔آج سے آپ ایک لسٹ بنائیں کہ کن کن چیزوں پر آپ نے شاباشی اور حوصلہ شکنی کرنی ہے۔دراصل حوصلہ افزائی اور تنقید دو ایسے اوزار ہیں جن کے ذریعے آپ اپنے بچوں کی عادات بنارہے ہوتے ہیں ۔مثال کے طورپر آپ کے بیٹے نے آپ سے کہا:’’بابا آپ نے جوپیسے دیے تھے ،وہ میں نے خرچ کردیے ۔‘‘ آپ نے پوچھا کہ کہاں خرچے؟وہ بتاتا ہے کہ ’’ بابا! چھوٹی بہن کی سالگرہ تھی میں نے اس کے لیے گفٹ لے لیا۔‘‘ اب یہ وہ مقام ہے جہاں آپ کاکوئی بھی ردِعمل بچے کو اچھایا برا بناسکتا ہے ۔ اگرآپ نے کہا :’’ بہت خوب! بہنوں کے لیے ایسا ہی کرنا چاہیے۔‘‘ تو آئندہ وہ دوسروں کی مدد کرے گا،لیکن اگر آپ نے کہا: ’’ میں نے تمہیں دیے تھے ،تم نے بہن پر خرچ کردیے،تمہیں ضرورت ہی کیا تھی ؟؟‘‘تو یہ الفاظ سننے کے ساتھ ہی اس کے ذہن میںیہ بات بھی بیٹھ جائے گی کہ’’ احساس کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔‘‘
یاد رکھیں !برائی کی شاباشی بڑی برائی کو پیدا کرتی ہے اور اچھائی کی شاباشی بڑی اچھائی کو پیدا کرتی ہے۔
بچوں کو ایک ہدف دیں اور ان سے مستقل وہ کام کروائیں ،کرتے کرتے وہ ان کے شعورمیں موجو د عادات ، نظریات اور ایقان میں تبدیل ہوجائے گا۔ مثلاً آپ نے ان سے کہا :’’بیٹا! معاف کرنا چاہے ۔‘‘ وہ شاید کہہ دے کہ یہ مشکل کام ہے مگر آپ نے اس سے کئی بار معاف کرایا اور وہ معاف کرنا اس کی عادت بن گئی تو پھر اس کی زندگی بدل جائے گی ،کیونکہ پھر اس کومعاف کرنے پر زور نہیں لگانا پڑے گا،بلکہ لاشعوری طورپر وہ اس کو کرگزرے گا۔
بہترین عادات میں سے ایک عادت Proactivenesبھی ہے یعنی وقت سے پہلے تیار ہونا،اس کے ساتھ ساتھ کچھ چیزوں سے بے فکری بھی دے دیں ۔ہم نے بچوں کو سب سے بڑی فکر یہ دی ہے کہ’’ لوگ کیا کہیں گے؟‘‘حالانکہ یہ سوچ اس معاشرے کے سینکڑوں اور ہزاروں بیماریوں کی جڑ ہے۔
ہر بچے کو اللہ نے کوئی نہ کوئی انرجی دی ہوتی ہے، جس کو ٹیلنٹ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کو دریافت کرنا اور اس کے مطابق اس کو مصروفیت دینا یہ والدین کی اہم ذمہ داری ہے ۔کسی بھی انسان کواگر پیشن کے ساتھ پروفیشن نہ ملے تو وہ ضائع ہوجاتاہے۔بچے کی انرجی معلوم کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اس کو سنا کریں،اس کو سمجھنے کی کوشش کریں اورپھر اس کے بعد ان کو سہولت بھی دیں ،یعنی ان کے پیشن کے مطابق ان کو ماحول دیں اور ان کو اپنے ٹیلنٹ کے مطابق رول ماڈلز سے ملوائیں ۔اس کے خوابوں کے شہزادے سے ان کی ملاقات ضرور کروائیں ۔جب بچوں کو آپ نے مختلف شخصیات سے ملوایا ہوتا ہے تو ان کے لیے اپنا آپ ڈھونڈنا انتہائی آسان ہوجاتاہے۔بچوں کو اچھا بنانے کے لیے ضروری ہے کہ والدین خوداچھے بنیں۔جدید ریسرچ کے مطابق والدین کی 65فی صدعادات بچوں میں منتقل ہوتی ہیں۔وہ تمام خوبیاں جو آپ اپنے بچوں میں پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ پہلے اپنے اندر پیدا کریں ۔
آپ کا بچہ درست ٹریک پر ہے ؟
آپ کابچہ درست ٹریک پر چل رہا ہے یا نہیں ،یہ معلوم کرنے کے لیے تین چیزیں دیکھنا ضروری ہیں۔
(۱)ملنسار ی اورسماجی ذہانت:
آپ دیکھیں کہ اس میں ملنساری اور سماجی ذہانت (سوشل جینیس)کتنی ہے ؟اس موضوع پر ایک کتاب Get to the top کے نام سے موجود ہے جس میں ان لوگوں کی ترقی کے بارے میں معلومات ہیں جن کے اندر سماجی ذہانت اچھی تھی ۔اگرآپ کے بچے میں سوشل جینییس موجود ہے تو آپ مطمئن ہوجائیں۔زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے انسانوں کی ضرورت ہوتی ہے اور جس بچے میں سماجی ذہانت ہوگی تو یقینی طورپر وہ آگے بڑھ سکے گا،کیونکہ اس کے لیے ٹیم بنانا اور لوگوں کو ساتھ ملاکر چلنا آسان ہوتا ہے۔
میں نے اپنی تدریسی زندگی میں تقریباًچھ سات ہزار بچوں کو پڑھا یا ہے ،جو بچے لوگوں سے دور رہتے ہیں یا جب مہمان آجائیں تو وہ پڑھنا شروع کردیتے ہیں ، ان کوعملی زندگی میں ناکام دیکھا ہے ۔سماجی ذہانت اتنی طاقتور چیز ہے کہ وہ آپ کے گرد میلا لگادیتی ہے ۔اشفاق صاحب کا جملہ ہے کہ ’’انسان اگر سچا ہو اور وہ جنگل میں بھی بیٹھ جائے تو لوگ پگڈنڈیاں بناکراور چل چل کر اس تک پہنچ جاتے ہیں ۔‘‘
(۲)قوتِ ارادی:
آپ کبھی اپنے بچے کے پاس بیٹھ کر اس چیز کی لسٹ بنائیں کہ وہ خود سے کتنا سوچتا ہے اور کتنا کام کرتا ہے ۔یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کے اندر قوتِ ارادی موجود ہے ۔اسی قوت کی بدولت وہ نئے اقدامات کرکے زندگی میں آگے بڑھے گا۔
(۳)قربانی:
دیکھیں کہ آپ کابچہ قربانی کتنا دیتا ہے ،بانٹتا کتنا ہے اوراپنے جیب خرچ سے کتنے لوگوں کو کھلاتا ہے؟اگر یہ اوصاف ہیں توپھر اگرچہ وہ اسکول میں نمبرکم لے لے لیکن وہ زندگی میں ترقی کرے گا کیونکہ اس کے اندر قربانی کا جذبہ ہے۔
(۴)سیکھنے کا شوق:
یہ بات معلوم کرنے کے بے شمار طریقے ہیں ۔آ پ ایک انسان کو آزاد چھوڑدیں توجو وہ کرتا ہے اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس کوکس چیز کی طلب ہے۔آپ بھی اپنے بچوں کی سرگرمیوں کو نوٹ کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ ان میں کن چیزوں کے سیکھنے کا شوق ہے ۔یہی شوق ہی ان کو آگے بڑھنے میں مدد دے گا۔
(۵)انسپائریشن :
سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کے بچے کے پاس کوئی انسپائریشن ہے ؟ویسے تو زندگی میں کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے مگر ایک چیز میں نے ضرور دیکھی ہے کہ اگر آپ کے پاس کوئی انسپائریشن ہے تو آپ کامیاب ہوسکتے ہیں۔انسپائریشن کا مطلب ہے کہ کسی کو دیکھ کر ارادہ کرلینا کہ میں نے کچھ بننا ہے ۔
بچپن کی زندگی اسپنج کی طرح ہوتی ہے جس میں وصول کرنے کی بھرپور گنجائش ہوتی ہے ۔جن بچوں کو وقت پر کوئی انسپائریشن مل جائے تو وہ زندگی میں بڑا نام کماتے ہیں ،جبکہ بڑی عمر کی مثال پتھرکی سی ہے ۔آپ نے بہت سارے لوگوں کو دیکھا ہوگا جو یہ کہتے ہیں کہ میں فلاں مشہور شخصیت کے ساتھ اتناعرصہ رہا ہوں لیکن ان کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔وجہ یہ ہے کہ ان میں اثر لینے کی وہ صلاحیت ختم ہوچکی ہوتی ہے جو بچپن میں ہوتی ہے ۔
انسپائریشن کاوقت پر ملنا بہت ضروری ہے ۔اسی وجہ سے میں نے تعلیمی اداروں کوجو مشورے دیے ہیں ان میں ایک بات یہ بھی ہے کہ ہمیں پہلی جماعت سے سولہویں تک سیرت رسول ﷺ کو پڑھانا چاہیے ۔اسی طرح ایڈمنسٹریشن میں حضرت عمر فاروق ؓ کی زندگی ضرور پڑھانی چاہیے ۔محمد علی جناح ، علامہ اقبال ،نواب آف بہاولپور ، حکیم سعید اور عبدالستار ایدھی کوبھی پڑھانا چاہیے۔انہی سے بچہ انسپائریشن لے گا۔
(۴)بچہ اوریجنل (اصلی) کتنا ہے ؟
ہم بچوں کو شروع ہی سے مصنوعی بنالیتے ہیں ۔ہمارے ہاں یہ رجحان بنتا جارہا ہے کہ بچے کو پہلے پہل انگریزی سکھائیں ،اس کو آرٹیفیشل بنائیں ۔وہ کوٹ ٹائی لگاتا ہے ،آدھے ہاتھ سے مصافحہ کرتا ہے اور بات بھی پوری طریقے سے نہیں کرتا۔نہ اس میں خود احساس ہوتا ہے نہ اگلے سے احساس کرواتا ہے ۔بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو بظاہر تو بڑے خوش لباس اور خوش گفتار ہیں مگر اندر سے کھوکھلے ہیں ، نہ ان کی کوئی فکری نشوونما ہوئی ہے نہ نظریاتی ، بس جس طرح حالات ہوتے ہیں اسی کے مطابق خود کو سنوارلیتے ہیں ۔اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ بڑے ہوکر صرف اپنے اور اپنے بچوں کے لیے جیتے ہیں ،ان کے دل میں ملک،ملت اور قوم کا احساس نہیں ہوتا۔یاد رکھیں جو انسان پل بڑھ کر صرف اپنی ذات کے قابل ہوجائے وہ ناکام ہے ۔ہاں جو اپنی کامیابی کے ساتھ معاشرے کوبھی کچھ دینے لگ جائے، وہ کامیاب ہے ۔
بچوں کو جہاں اپنے اقدار دینا ضروری ہے وہیں اپنے حقیقی رشتوں کے بھی قریب رکھنا ہے ۔میں والدین سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ تمام تر اختلافات کے باوجود بھی اپنے بچوں کوان کے دادا،دادی سے دور نہ کریں ۔ اللہ نے جو رشتے دیے ہیں انہیں نبھائیں اور بچوں کو نبھاکر دکھائیں ۔ بچوں کو اللہ نے رشتوں کی جوانرجی دی ہے وہ ان کو ضرور انجوائے کرائیں ۔اگر آپ ان کو بڑوں سے دور رکھیں گے تو یہ ان کی حق تلفی ہے۔ قابلیت ،اسکلز اور صلاحیتوں میں آپ کے بچے انتہائی ماڈرن اور جدت پسند ہونے چاہییں مگران کاانداز اورطرزِ زندگی اوریجنل( دیسی)ہو،ان میں نرم مزاجی ہو، وہ کہیں بھی بیٹھ کر کھاپی سکیں ۔اپنے بچوں کو یہ بات ضرور سکھائیں کہ بہت ساری چیزوں کونظر اندا ز کرنا ہوتا ہے ،بہت ساری چیزوں کو بھول جانا ہوتا ہے اوربہت ساری باتوں میں اگرانسان فقط خاموشی اختیار کرلے تو معاملات درست ہوجاتے ہیں او ر وہ بلاوجہ کے غموں اور تفرات سے بچ جاتا ہے۔
والدین کا اپنے بچوں پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ ان کی بہترین تربیت کریں اور تربیت نام ہے اچھی عادات اپنا نے کا۔ہر انسان کے پاس اچھائی اوربرائی منتخب کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔اختیار کے استعمال سے رویہ بنتا ہے ،رویے سے عادت اورپھر۔۔۔ عادات ہی انسان کی دین ودنیا کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کرتی ہیں۔
سابق ڈائریکٹر تعلیم ایوب خان اپنی کتاب تنگ آمد میں لکھتے ھیں،
کہ میں ایک تقریب میں بیٹھا ہوا تھا اور میرے ساتھ میرا چھوٹا بیٹا جو پرائمری کا طالبعلم تھا وہ بھی بیٹھا تھا۔تقریب میں مختلف ڈیپارٹمنٹ کے بڑے آفیسر آرھے تھے ،جن میں ڈسٹرکٹ افسران بھی شامل تھے،ان افسران کی آمد پر میں بیٹھے بیٹھے ہی ان سے ھاتھ ملاتا تھا۔کچھ دیر بعد ھمارے محلے کے ایک پرائمری سکول ٹیچر آۓانہیں دیکھ کر میں کھڑا ھوا اور ان سے ھاتھ ملا کر خیریت دریافت کی۔وہ بھی ایک سائیڈ پر جا کر بیٹھ گیے۔میرے پاس بیٹھے ایک شخص نے مجھ سے پوچھا کہ ڈایریکٹر صاحب ضلعی افسران سے بیٹھے ھاتھ ملاتے ھو اور ایک پرائمری استاد کیلیئے آپ کھڑے ھوگئے'تو میں نے اسکے کندھے پر ھاتھ رکھ کر کہا محترم!یہ ٹیچر میرے بیٹے کے استاد ھے۔اگر میں انکو اٹھ کر نہ ملتا تو میرے ساتھ بیٹھے میرے بیٹے کے دل میں خیال آتا کہ میرا ابو میرے استاد سے بڑے آفیسر ہے اور میرے خیال میں "استاد سے بڑا کوئی آفیسر نہیں ھوتا!!!!
بچوں کی ابتدائی تربیت بھی حفاظتی ٹیکوں کے اصول پر ہونی چاہئے. آپ کو پتہ ہے medical immunization یا یہ حفاظتی ٹیکے کس اصول پر ہوتے ہیں.؟ اس میں ہم فرض کر لیتے ہیں کہ ہمارے بچے کو فلاں فلاں بیماری ہو سکتی ہے. تو ہم اس فلاں فلاں بیماری کے کمزور وائرس اپنے بچوں کے جسم میں ڈال دیتے ہیں. ان کمزور وائرس کے خلاف جسم مدافعتی نظام بنا لیتا ہے. کل جب یہی وائرس بچے پر اٹیک کرتا ہے تو جسم میں اس کیلئے ردعمل کا پورا نظام موجود ہوتا ہے. اور اس اٹیک کو ناکام بنا دیتا ہے.
تربیت بھی دو قسم کی ہوتی ہے. ایک اچھائی کی اور دوسرا برائی یا برے کام سے بچنے کی تربیت ہوتی ہے. یہ دوسری قسم کی تربیت کیلئے آپ کو moral immunization کرنی ہوتی ہے. یعنی آپ فرض کرتے ہیں فلاں فلاں برائی چل کر میرے بچے کے پاس ضرور آئے گی. مثال کے طور پر سگریٹ نوشی ہے. آپ بچے کی تربیت کیلئے اسے ان سوالات کیلئے تیار کریں گے جن پر اسے اس کے ہم عمر چیلنج کروا کر پہلا کش لگوائیں گے.
بچے برے کام تجسس میں یا چیلنج ہو کر کرتے ہیں. دوسرے بچے اسکا تجسس ابھاریں گے. اسے ڈرپوک کہیں گے. اسے اس کی نامعلوم لذت بتائیں گے. آپ نے تربیت کر کے اپنے بچے کا مینٹل لیول اپنے ہم عمر دوستو سے اس برائی پر اوپر لے کر جانا ہے. ہمارے ہاں اکثر غلطی یہی ہوتی ہے کہ ہم کچھ ٹاپکس شجر ممنوعہ کر کے بچوں سے چھپاتے ہیں. ظاہر ہے یہ ممکن نہیں ہوتا اور بچہ کل اسی برائی کے سامنے تجسس میں نابالغ شعور کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے.
ریاض علی خٹک
مشکل حالات میں درست فیصلہ، حکومت نے جو کہا، اسے مانیں گے۔ امید ہے معزز والدین بروقت فیس ادا کر کے اس اقدام کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ ایک جملہ اس ٹویٹ میں بروقت فیس جمع کروانے کی ذمہ داری سے متعلق بھی تحریر کر دیا جاتا تو مناسب ہوتا۔
السلام علیکم
معزز والدین ماہانہ فیس وصولی کیلیے سکول کل 6 اپریل بروز سوموار صبح 9بجے سے 12بجے تک کھلے گا۔ مقررہ تاریخ تک فیس جمع کروانے والدین کو 20فیصد رعایت ملے گی۔
شکریہ
بچے اور لا ک ڈاون
(صوفیہ سہیل)
آج کل لاک ڈاون کی وجہ سے جہاں پوری دنیا متاثر ہو رہی ہے وہیں اس کا اثر بچوں پر بھی پڑا ہے ۔والدین پر دوہری ذمہ داری ہے کہ نہ صرف بچوں کو باہر جانے سے روکیں بلکہ ان کو گھر پربھی مصروف رکھیں!
والدین کو ایک موقع ملا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ وقت گذار سکیں اس کے لیے سب سے پہلے والدین کو اپنے مزاج میں صبر پیدا کرنا ہے کیونکہ بہت سے والدین اپنی زندگی میں اس قدر مصروف تھے کہ ان کو اپنے بچوں کوقریب سے دیکھنے موقع ہی نہیں ملااور عین ممکن ہے کہ والدین کو اپنے بچوں کی کچھ عادات کے بارے میں اب پتا چل رہا ہو۔ا س لیے اس موقع پر سب سے پہلے اندر صبر و تحمل پیدا کریں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ بچوں کی شرارتیں یا بے جا سوالات پر والدین غصہ ہوجائیں اوربچوں کی شخصیت بگاڑ کا شکار ہوجائے۔اس لیے اس کو بہترین موقع جانتے ہوئے ان کی شخصیت میں نکھار پیدا کریں۔
والدین کوچاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ نماز ادا کریں اور قرآن کریم ترجمے کے ساتھ پڑھیں ۔قرآن میں موجود واقعات اور ان سے حاصل شدہ سبق کو انہیں بتائیں۔
ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے ان سے مختلف موضوعات پر مضمون لکھوائیں ۔چھوٹے بچوں کے ساتھ پینٹنگ یا ڈرائنگ کریں ۔بچے جن مضامین میں کمزور ہیں ان کی طرف توجہ دیں ۔
جو بچے اپنی ٹین ایج میں ہیں وہ زیادہ تر اپنے موبائل اور لیپ ٹاپ میں مصروف ہیں جب کہ وہ بچے جو پارک میں جا کر کھیلتے تھے وہ گھر میں رہنے سے پریشان ہو رہے ہیں بلکہ اپنے والدین کے لیے بھی پریشانی کا باعث بن رہے ہیںایسے بچوں کے لیے والدین کو چاہیے کہ ان کے ساتھ لڈو ،کیرم جیسی گیمز کھیلیں ایک تو بچوں کا وقت گزار جائے گا اوردوسرا والدین کو اپنے بچوں کی نفسیات کے بارے میں جان سکیں گے جیسا کہ آپ کے بچے میں ہار کو قبول کرنے کا حوصلہ ہے ،اورکیا وہ جیتنے کے لیے بے ایمانی کا طریقہ تو اختیار نہیں کرتایا جیتنے کے بعد اس میں غرور کا عنصر تو نہیں پایاجاتا۔
والدین اس وقت کو نعمت جانتے ہوئے نہ صرف ان کے ساتھ بہترین انداز میں وقت گزار سکتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بچوں کو زندگی میں آنے والے مسائل اور قدرتی آفات سے بچنے کے لیے تربیت بھی دے سکتے ہیں۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہم سب کواپنے حفظ وامان میں رکھے آمین۔
معزز والدین متوجہ ہوں
ماہانہ فیسوں کی وصولی کیلیے انٹرنیشنل سکول آف قرطبہ، کینال پارک کل یکم اپریل بروز بدھ دوبارہ کھلے گا۔ متعلقہ سٹاف کل صبح 9 بجے سے 12 بجے تک سکول میں موجود ہو گا۔ حکومتی ہدایات کی روشنی میں ماہانہ فیس میں اگلے دو ماہ(اپریل، مئی) کے دوران 20 فیصد رعایت دی جائیگی۔
سکول بند ہونے پر دل افسردہ ہے. جب وائرس کے سبب چاروں طرف خوف اور سسکیوں کا ماحول ہو تو ایسی راحت عذاب بن جایا کرتی ہے،
ہم تو سکول میں ان کھیلتے مسکراتے شرارتیں کرتے بچوں کے عادی ہیں.
کوئی بھی یہ نہ سمجھے کہ اساتذہ سکولوں کے بند ہونے پر خوش ہیں!!!!!
ہم سکول کھلا دیکھنا چاہتے ہیں،ہم بچوں کو اپنے سامنے پڑھتا اور کھیلتا دیکھنا چاہتے ہیں،
ہم زندگی معمول پر آتے دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔۔
اللہ سے دعا ہے کہ جلد وبا ختم ہو اور تعلیمی سلسلہ جاری ہو جائے۔
کرونا وائرس: والدین بچوں کو کرنسی نوٹ مت دیں، برائے حفاظت انہیں گھروں میں رکھا جائے
(مریدکے ٹائمز رپورٹ)
والدین سے گزارش ہے کہ اپنے بچوں کو کسی صورت کرنسی نوٹ دیں نہ ہی انہیں باہر دکانوں پر بھیجیں تاکہ یہ امکانی طور پر نوٹوں سے چپکے خطرناک وائرسز سے محفوظ رہ سکیں۔ یاد رہے کہ بچے اور بوڑھے کرونا سمیت دیگر وائرسز کا جلدی شکار ہوتے ہیں۔ ایک معالج کے مطابق کئی کیسز ایسے بھی رپورٹ ہوئے ہیں جن کے مریضوں کو کرونا وائرس کرنسی نوٹوں کے ذریعے لگا۔ چند روز پہلے راولپنڈی کے ایک بنک کیشیئر میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ کئی لوگ ناک صاف کرنے کے بعد نوٹوں کو چھوتے ہیں یا بعض تھوک لگا کر نوٹ گنتے ہیں جس سے وائرس نوٹوں پر منتقل ہو جاتا ہے جو بعدازاں دوسروں کے لئے نقصان کا باعث بنتا ہے۔
کرونا قضیہ: چھٹیوں کے دوران قرطبہ سکول، کینال پارک کے بچوں کو گھر میں پڑھانے کیلیے سلیبس آؤٹ لائن۔
مریدکے کی صاحبِ دیوان شاعرہ اور سابق پرنسپل دارِ ارقم سکول محترمہ ظلِ ہما نقوی کل قرطبہ سکول آئیں گی۔ معزز مہمان اس موقع پر سکول اساتذہ کو اپنے حالاتِ زندگی، خیالات اور خوبصورت کلام سے نوازیں گی۔
والدین متوجہ ہوں
قرطبہ سکول سوموار 16 مارچ سے صبح 8 بجے کھلے گا۔ چھٹی کے اوقات وہی رہیں گے۔ پری نرسری سے کے جی تک 12:30 اور گریڈ ون سے گریڈ 6 تک 1:30 بجے چھٹی ہو گی۔معمول کے مطابق ہفتہ اور اتوار بچوں کیلیے چھٹی کے دن ہونگے۔
الحمدللہ رب العالمین
انٹرنیشنل سکول آف قرطبہ، کینال پارک مریدکے میں آج سے بچوں کیلیے یوگا کلاسز کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اس مقصد کیلیے یوگا کی ماہر خاتون ٹیچر کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ بچوں نے آج کی سرگرمی میں گہری مسرت اور دلچسپی ظاہر کی۔ بچوں کی صحت و تندرستی کیلیے یہ کلاسز روزانہ کی بنیاد پر ہوا کریں گی۔ یا رہے کہ قبل ازیں سکول میں بچوں کی ایکسرسائز کلاس ہفتہ میں ایک دن منعقد ہوتی تھی جس کیلیے سکسر سپورٹس کے بانی، معروف کوچ و کرکٹر کلیم احمد رضاکارانہ بنیادوں پر خدمات سر انجام دیتے تھے۔
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Category
Contact the school
Telephone
Website
Address
Muridke
Opening Hours
Monday | 07:30 - 02:00 |
Tuesday | 07:30 - 02:00 |
Wednesday | 07:30 - 02:00 |
Thursday | 07:30 - 02:00 |
Friday | 07:30 - 02:00 |
Saturday | 09:00 - 12:00 |
House #8 Main Double Road Soan Garden Islamabad
Muridke, 39000
Official page of Dar-e-Arqam School Muridke Pakistan.