Mangol Foundation Muzaffarabad AJ&K
Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Mangol Foundation Muzaffarabad AJ&K, Non-Governmental Organization (NGO), Naluchi, Muzaffarabad.
اورنگزیب عالمگیر
اورنگزیب عالمگیر یا محی الدین محمد (پیدائش: 3 نومبر 1618ء— وفات: 3 مارچ 1707ء) مغلیہ سلطنت کا چھٹا شہنشاہ تھا جس نے 1658ء سے 1707ء تک حکومت کی۔ وہ مغلیہ سلطنت کا آخری عظیم الشان شہنشاہ تھا۔ اُس کی وفات سے مغل سلطنت زوال کا شکار ہو گئی۔ اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں ہندوستان دنیا کا امیر ترین ملک تھا اور دنیا کی کل جی ڈی پی کا ایک چوتھائی حصہ پیدا کرتا تھا۔ جب کہ اسی دوران انگلستان کا حصہ صرف دو فیصد تھا,
ورنگزیب ابوالمظفر محی الدین کے لقب سے تخت پر بیٹھا اس نے ہندوؤں اور مسلمانوں کی فضول رسمیں ختم کیں اور فحاشی کا انسداد کیا اور خوبصورت مقبروں کی تعمیر و آرائش ممنوع قرار دی۔ قوال، نجومی، شاعر موقوف کر دیے گئے۔ شراب، افیون اور بھنگ بند کردی۔ درشن جھروکا کی رسم ختم کی اور بادشاہ کو سلام کرنے کا اسلامی طریقہ رائج کیا۔ سجدہ کرنا اور ہاتھ اٹھانا موقوف ہوا۔ کھانے کی جنسوں پر ہرقسم کے محصول ہٹا دیے۔ 1665ء میں آسام، کوچ بہار اور چٹاگانگ فتح کیے اور پرتگیزی اور فرنگی بحری قزاقوں کا خاتمہ کیا.
عالمگیر نے 1666ء میں راجا جے سنگھ اور دلیر خان کو شیوا جی کے خلاف بھیجا۔ انھوں نے بہت سے قلعے فتح کر لے۔ شیواجی اور اس کا بیٹا آگرے میں نظربند ہوئے۔ شیواجی فرار ہو کر پھر مہاراشٹر پہنچ گیا۔ اور دوبارہ قتل و غارت گری شروع کی۔ 1680ء میں شیواجی مرگیا تو اس کا بیٹا سنبھا جی جانشین ہوا یہ بھی قتل و غارت گری میں مصروف ہوا۔ عالمگیر خود دکن پہنچا۔ سنبھا جی گرفتار ہو کر مارا گیا۔ اس کا بیٹا ساہو دہلی میں نظربند ہوا۔ دکن کا مطالعہ کرکے عالمگیر اس نتیجے پرپہنچا کہ بیجاپور اور گولکنڈہ کی ریاستوں سے مرہٹوں کو مدد ملتی ہے اس نے 1686ء میں بیجاپور اور 1687ء میں گولگنڈا کی ریاستیں ختم کر دیں۔ اس کے بعد مرہٹوں کے تعاقب میں ہندوستان کے انتہائی جنوبی حصے بھی فتح کر لیے۔ مغلیہ سلطنت پورے ہندوستان میں پھیل گئی
اورنگزیب سارے مغل بادشاہوں سے میں سب سے زیادہ پاکباز تھے، وہ حافظ قرآن تھے اور نماز اور عبادات کے سب سے زیادہ پابندی کرنے والے تھے۔
اورنگزیب نے 49 سال تک 15 کروڑ افراد پر حکومت کی۔ ان کے دور میں مغل سلطنت اتنی وسیع ہوئی کہ پہلی بار انھوں نے تقریبا پورے برصغیر کو اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا
یہ بات قابل غور ہے کہ عام طورپر اورنگ زیب ؒکو ہندو مخالف پیش کیا جاتا ہے ؛ لیکن اس نے متعدد ایسے ٹیکسوں کو معاف کردیا ، جن کا تعلق ہندوؤں سے تھا ، جیسے گنگا پوجا ٹیکس ، گنگااشنان ٹیکس اور گنگا میں مُردوں کو بہانے کا ٹیکس ۔
(۲) اس نے مال گذاری کا قانون مرتب کیا اور اس کے نظم و نسق کو پختہ بنایا ، یہاں تک کہ شاہجہاں کے دور میں ڈھائی کروڑ پونڈ کے قریب سلطنت کی آمدنی تھی ، تو وہ عالمگیر کے دور میں چار کروڑ پونڈ کے قریب پہنچ گئی ۔
(۳) حکومتوں میں یہ رواج تھا کہ جب کسی عہدہ دار کا انتقال ہوجاتا تو اس کی ساری جائداد ضبط کرلی جاتی اور حکومت کے خزانہ میں داخل ہوجاتی ، آج بھی بعض مغربی ملکوں میں ایسا قانون موجود ہے کہ اگر کوئی شخص وصیت کے بغیر دنیا سے گزر جائے تو اس کا پورا ترکہ حکومت کی تحویل میں چلا جاتا ہے ، عالمگیر نے اس طریقہ کو ختم کیا ؛ تاکہ عہدہ دار کے وارثوں کے ساتھ ناانصافی نہ ہو ۔
(۴) اس نے اس بات کی کوشش کی کہ مظلوموں کے لئے انصاف کا حاصل ہونا آسان ہوجائے ، وہ روزانہ دو تین بار دربار عام کرتا تھا ، یہاں حاضری میں کسی کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں تھی ، ہر چھوٹا بڑا ، غریب و امیر ، مسلمان و غیر مسلم ، بے تکلف اپنی فریاد پیش کرسکتا تھا اور بلا تاخیر اس کو انصاف فراہم کیا جاتا تھا ، وہ اپنے خاندان کے لوگوں ، شہزادوں اور مقرب عہدہ داروں کے خلاف فیصلہ کرنے میں بھی کسی تکلف سے کام نہیں لیتا تھا ؛ لیکن اس کے علاوہ اس نے دور دراز کے لوگوں کے لئے ۱۰۸۲ھ میں ایک فرمان کے ذریعہ ہر ضلع میں سرکاری نمائندے مقرر کئے کہ اگر لوگوں کو باشاہ اور حکومت کے خلاف کوئی دعویٰ کرنا ہو تو وہ ان کے سامنے پیش کریں اور ان کی تحقیق کے بعد عوام کے حقوق ادا کردیں ۔
(۵) عالمگیر کا ایک بڑا کار نامہ حکومت کی باخبری کے لئے واقعہ نگاری اور پرچہ نویسی کا نظام تھا ، جس کے ذریعہ ملک کے کونے کونے سے بادشاہ کے پاس اطلاعات آتی رہتی تھیں ، اور حکومت تمام حالات سے باخبر رہ کرمناسب قدم اُٹھاتی تھی ، اس نظام کے ذریعہ ملک کا تحفظ بھی ہوتا تھا ، عوام کوبروقت مدد بھی پہنچائی جاتی تھی ، اور عہدہ داروں کو ان کی غلطیوں پر سرزنش بھی کی جاتی تھی ، اس کا سب سے بڑا فائدہ رشوت ستانی کے سدباب کی شکل میں سامنے آیا ۔
عام طورپر حکومت کے اعلیٰ عہدہ داروں کو رشوت ’گفٹ ‘ کے نام پر دی جاتی ہے ، یہ نام کرپشن کے لئے ایک پردہ کا کام کرتا تھا ، اُس زمانہ میں یہ رقم نذرانہ کے نام سے دی جاتی تھی ، جو بادشاہوں کو حکومت کے عہدہ داران اور اصحاب ِثروت کی جانب سے اور عہدہ داروں کو ان کے زیر اثر رعایا کی جانب سے ملا کرتی تھی ، اورنگ زیبؒ نے ہر طرح کے نذرانہ پر پابندی لگادی ، خاص کر نوروز کے جشن پر تمام امراء بادشاہ کی خدمت میں بڑے بڑے نذرانے پیش کرتے تھے ، اورنگ زیبؒ نے اپنی حکومت کے اکیسویں سال اس جشن ہی کو موقوف کردیا اور فرمان جاری کردیا کہ خود اس کو کسی قسم کا نذرانہ پیش نہ کیا جائے ۔
س نے تعلیم کی ترقی پر خصوصی توجہ دی ، ہر شہر اور ہر قصبہ میں اساتذہ مقرر ہوئے ، نہ صرف اساتذہ کے لئے وظائف مقرر کئے گئے اور جاگیریں دی گئیں ؛ بلکہ طلبہ کے اخراجات اور مدد معاش کے لئے بھی حکومت کی طرف سے سہولتیں فراہم کی گئیں ، کہا جاتا ہے کہ اورنگ زیبؒ کے زیادہ تر فرامین تعلیم ہی سے متعلق ہیں ، جن کو ان کے بعض تذکرہ نگاروں نے نقل بھی کیا ہے ۔
(۹) اس زمانہ میں صنعت و حرفت کو آج کی طرح ترقی نہیں ہوئی تھی اور معیشت کا سب سے بڑا ذریعہ زراعت تھی ، اورنگ زیبؒ نے زرعی ترقی پر خصوصی توجہ دی ، کسانوں کی حوصلہ افزائی کی ، جن کسانوں کے پاس کاشتکاری کے لئے پیسہ نہیں ہوتا ، ان کو سرکاری خزانوں سے پیسہ فراہم کئے جاتے ، حسب ِضرورت کسانوں سے مال گذاری معاف کی گئی ، جو زمینیں اُفتادہ تھیں اور ان میں کاشت نہیں کی جاتی تھی ، ان کو ایسے کسانوں کے حوالہ کیا گیا ، جو ان کو آباد کرنے کے لئے آمادہ تھے ، اپنے عہدہ داروں کو ہدایت کی کہ کسانوں کو اتنا ہی لگان لگایا جائے ، جتنا وہ بآسانی ادا کرسکیں اور بخوشی ادا کرسکیں ، اگر وہ نقد کے بجائے جنس دینا چاہیں تو قبول کرلیا جائے ، انھوںنے کسانوں کے لئے کنواں کھودوانے ، قدیم کنوؤں کو درست کرانے اور آبِ پاشی کے وسائل کو بہتر بنانے کو حکومت کی ایک ذمہ داری قرار دیا ، انھوںنے زمین کے سروے کرنے پر خصوصی توجہ کی ؛ تاکہ معلوم ہوا کہ کونسی اراضی اُفتادہ ہیں اور اُن کو قابل کاشت بنانے کی کیا صورت ہے ، انھوںنے اپنے فرمان میں لکھا ہے :
بادشاہ کی سب سے بڑی خواہش اور آرزو یہ ہے کہ زراعت ترقی کرے ، اس ملک کی رزعی پیداوار بڑھے ، کاشتکار خوشحال ہوں اور عام رعایا کو فراغت نصیب ہو ، جو خدا کی طرف سے امانت کے طورپر ایک بادشاہ کو سونپی گئی ہے ۔
زرعی پیداوار کی طرف اسی توجہ کا نتیجہ تھا کہ عالمگیرؒ کے دور میں فتح ہونے والے بہت سے علاقے ایسے تھے ، جہاں کے اخراجات وہاں کی آمدنی سے زیادہ تھے ؛ لیکن پھر بھی کہیں غذائی اشیاء کی قلت محسوس نہیں کی گئی ، اگر یہ صورتِ حال نہیں ہوتی تو اتنے طویل و عریض رقبہ پر پچاس سال تک اورنگ زیب حکومت نہیں کرپاتے اور وہ عوام کی بغاوت کے نتیجہ میں مملکت پارہ پارہ ہوجاتی ۔
(۱۰) اورنگ زیبؒ کا ایک بڑا کارنامہ سماجی اصلاح بھی ہے ، اس نے بھنگ کی کاشت پر بابندی لگائی ، شراب و جوئے کی ممانعت کردی ، قحبہ گری کو روکا اور فاحشہ عورتوں کو شادی کرنے پر مجبور کیا ، لونڈی ، غلام بناکر رکھنے ، یا خواجہ سرا رکھنے پر پابندی لگائی ۔
(۱۱) ہندو سماج میں عرصۂ دراز سے ستی کا طریقہ مروج تھا ، جس کے تحت شوہر کے مرنے کے بعد بیوی شوہر کی چتا کے ساتھ نذر آتش کردی جاتی تھی ، ہندو سماج میں اسے مذہبی عمل سمجھا جاتا تھا ، مغلوں نے ہمیشہ اس کا خیال رکھا ، غیر مسلموں کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہ کی جائے ، اس لئے اورنگ زیبؒ نے قانونی طورپر اس کو بالکلیہ تو منع نہ کیا ؛ لیکن اصلاح اور ذہن سازی کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے عہدہ داروں کو ہدایت دی کہ وہ عورتوں کو اس رسم سے باز رکھنے کی کوشش کریں اور اپنی خواتین کے ذریعہ بھی ان کو اس کی دعوت دیں ، نیز پابندی عائد کردی کہ علاقہ کے صوبہ دار کی اجازت کے بغیر ستی نہ کی جائے ؛ تاکہ کسی عورت کو اس عمل پر اس کے میکہ یا سسرال والے ، یا سوسائٹی کے دوسرے لوگ مجبور نہ کرسکیں ، اس طرح عملاً ستی کا رواج تقریباً ختم ہوگیا ۔
غرض کہ اورنگ زیب ؒ نے قدیم سڑکوں اور سرایوں کی مرمت ، نئی سڑکوں اور مسافر خانوں کی تعمیر ، تعلیمی اداروں اور عبادت گاہوں کو جاگیروں کے عطیہ وغیرہ کے جو رفاہی کام کئے ، ان کے علاوہ مختلف دوسرے میدانوں میں جو خدمتیں انجام دی ہیں ، وہ بھی آبِ زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں ، اس کی رحمدلی ، انصاف پروری اور عفو و درگزر کا ان لوگوں نے بھی اعتراف کیا ہے ، جو اس کو ایک خشک مزاج ، ناروادار اورسخت گیر حکمراں قرار دیتے ہیں ، اس نے ہمیشہ اپنے حریفوں کے ساتھ خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم ، سنی ہوں یا شیعہ ، پٹھان ہو ںیا مراٹھے وراجپوت ، زیادہ سے زیادہ صلح اور درگزر کی پالیسی اختیار کی ، خود شیواجی کو جس طرح انھوںنے بار بار معاف کیا اور اس کے بیٹے کو گلے لگایا ، یہ اس کی بہترین مثال ہے ، مگر افسوس کہ انگریزوں نے ہندوستان کی دو بڑی قوموں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی دیوار قائم کرنے کی جو منصوبہ بند کوشش کی ، اس میں مغلوں کے دورِ حکومت کو عموماً اور آخری پُر شوکت مغل بادشاہ اورنگ زیبؒ (جس کو انگریز اپنے راستہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے ) کے بارے میں خصوصاً بڑی غلط فہمیاں پھیلائیں اور بعض مصنفین نے ان کا آلہ کار بنتے ہوئے ایسی کتابیں تصنیف کیں ، جن کو تاریخ اور واقعہ نگاری کے بجائے ناول نگاری اور افسانہ نویسی کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا ، انھوں نے ایسی بے بنیاد باتیں لکھ دیں جن کا حقیقت اور واقعہ سے کوئی تعلق نہیں ، اورنگ زیبؒ کو ایک ہندو دشمن حکمراں کی حیثیت سے پیش کیا گیا اور اس کے لئے اورنگ زیب ؒ اور شیواجی کی جنگ کو بنیاد بنایا گیا ؛ حالاںکہ یہ ایک سیاسی جنگ تھی نہ کہ مذہبی ، اور نگ زیبؒ اور شیواجی کی جنگ میں اورنگ زیبؒ کا سب سے معتمد کمانڈر ایک راجپوت راجہ جے سنگھ تھا ، اس کے علاوہ رائے سنگھ ، راجہ سبحان سنگھ ، کیرت سنگھ ، مترسین ، اندرا من بندیلہ ، راجہ نرسنگھ گوڑ ، جگت سنگھ ، ستر سنگھ اور راج سنگھ ، چتر بھوج چوہان اور بے شمار راجپوت اور مراٹھے سردار اورنگ زیبؒ کے ساتھ تھے اور اس کی فوج میں بھی بڑی تعداد پٹھانوں ، راجپوتوں اور شیواجی کے مخالف مراٹھوں کی تھیں ۔
اورنگ زیبؒ کے عہد میں جو غیر مسلم حکومت کے اعلیٰ ترین عہدوں پر رہے ہیں ، ان میں کئی مرہٹے ہیں ، جن میں شیواجی کے داماد اوربھتیجے بھی شامل ہیں ، علامہ شبلیؒ نے ان کا نام بہ نام ذکر کیا ہے ، جن کی تعداد ۲۶ ہے ، خود شیواجی کو بھی اورنگ زیبؒ نے پنج ہزاری منصب عطا کیا تھا ، جو بڑا منصب تھا ، اور جس پر بادشاہ کے بعض شہزادے ، قریبی رشتہ دار اور معتمد عہدہ دار فائز تھے ؛ البتہ شیواجی ہفت ہزاری چاہتے تھے ، مگر راجپوت اور پٹھان اعیانِ حکومت اس کے حق میں نہیں تھے۔
دوسری طرف شیواجی کے تعلقات بیجاپور اور جنوبی ہند کی مختلف چھوٹی چھوٹی مسلم حکومتوں کے حکمرانوں سے تھے اور ان ہی کی درپردہ یاعلانیہ تائید و تقویت سے وہ مغلوں پر حملہ کرتے تھے ، خود اورنگ زیبؒ کو دیکھئے کہ اس نے اپنے بھائیوں سے بھی جنگ کی ، گولکنڈہ کی قطب شاہی مسلم حکومت پر بھی قبضہ کیا ، بیجاپور کی مسلمان سلطنت کو بھی اپنی مملکت کا حصہ بنایا اور کتنے چھوٹے بڑے مسلم حکمرانوں کے ساتھ جنگ کرنے کی نوبت آئی ، نیز خود شیواجی کی فوج میں کثیر تعداد میں مسلمان فوجی شامل رہے ، خاص کر جب اورنگ زیبؒ نے دکن میں اپنی فوج میں کسی قدر تخفیف کی تو یہ فوج بھی ٹوٹ کر شیواجی کے ساتھ جاملی ۔
تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ شیواجی جو مغلوں کے خلاف گوریلا جنگ لڑا کرتے تھے ، وہ گاؤں کے گاؤں لوٹ لیا کرتے تھے ، قلعوں کو تخت و تاراج کردیا کرتے تھے ، یہ لوٹ مار ان کی مستقل حکمت عملی تھی ، اس میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی کوئی تفریق نہیں ہوا کرتی تھی ، سورت اس زمانہ میں جنوبی ہند کی سب سے بڑی منڈی تھی ، جو بیرونی ممالک سے درآمد و برآمد کا بہت بڑا ذریعہ تھا ، یہاں غالب آبادی ہندوؤں کی تھی ، شیواجی موقع بموقع وہاں ایسا حملہ کرتے تھے کہ پورا شہر ویران ہوجاتا تھا ، کیا ہندو کیا مسلمان اور کیا ملکی اور کیا غیر ملکی ، سب کے سب ان حملوں سے پناہ چاہتے تھے ، ان حملوں میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی کوئی تفریق نہیں تھی ؛ بلکہ تاجروں کی غالب تعداد ہندوؤں کی تھی ، اس لئے ان کو زیادہ نقصان اُٹھانا پڑتا تھا ، یہاں تک کہ شیواجی جن کو مراٹھوں کا نجات دہندہ سمجھا جاتا ہے ، خود مراٹھوں کے خلاف بھی انھوںنے وہی کیا ، جو ہر بادشاہ اپنے اقتدار کی حفاظت کے لئے کیا کرتا ہے ، بیجاپور کے پہلے سلطان نے ایک مراٹھے خاندان کو ’ جاولی ‘ کا علاقہ عطا کیا ، جس نے ایک مضبوط ریاست بنائی اور یہ بتدریج کوکن کے پورے علاقہ پر قابض ہوگیا ، اس خاندان کے راجا کا خاندانی لقب چندر راؤ تھا ، شیواجی کا احساس تھا کہ جب تک چند راؤ کا قتل نہ کیا جائے اور اس کی سلطنت پر قبضہ نہ ہوجائے ، شیواجی جس وسیع سلطنت کا منصوبہ رکھتے ہیں ، وہ شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا ، اس لئے اس نے دھوکہ دے کر اس مرہٹہ راجا کو قتل کیا ، اس کے بھائی کو زخمی کیا اور اس کی سلطنت پر قابض ہوگئے ، غرض کہ اورنگ زیبؒ اورشیواجی کی جنگ کوئی مذہبی جنگ نہیں تھی ؛ بلکہ ایک سیاسی جنگ تھی ، جو حکمرانوں کے درمیان ہمیشہ ہوتی رہی ہے ، نہ اورنگ زیب نے اسلامی نقطۂ نظر سے یہ جنگ لڑی ہے اور نہ شیواجی کا حملہ ہندوؤں کے وقار کی حفاظت کے لئے ہوا ہے ۔
اورنگ زیب ؒ پر ایک الزام لگایا جاتا ہے کہ انھوں نے ہندوؤں کی عبادت گاہوں کو منہدم کیا ہے اور مندر شکنی کے مرتکب ہوئے ہیں ، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اورنگ زیبؒ کے عہد میں بعض مندر منہدم کئے گئے ہیں ؛ لیکن اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ اس کا سبب کیا تھا ؟ غیر جانبدار مؤرخین نے لکھا ہے کہ اورنگ زیبؒ نے انھیں مندروں کو منہدم کیا تھا ، جو غیر قانونی طورپر بنائے گئے تھے ، مثلاً اورچھا میں ببر سنگھ دیو کے بنائے ہوئے ایک مندر کو اورنگ زیبؒ نے منہدم کرادیا ؛ لیکن اس لئے کہ ببر سنگھ دیو نے اولاً تو ظالمانہ طورپر ابوالفضل کو قتل کیا اور پھر اسی کے سرمایہ سے وہ مندر بنایا ، یہی وجہ ہے کہ جب وہ مندر منہدم کیا گیا تو وہاں کے راجہ دیوی سنگھ نے کوئی اعتراض نہیں کیا ، یا اس نے ایسے مندروں کو گرایا ، جہاں حکومتوں کے خلاف سازشیں کی جاتی تھیں ، یا ایسے مندروں کو جہاں غیر اخلاقی حرکتیں کی جاتی تھیں ، جیسے بنارس کا وشوناتھ مندر ، ڈاکٹر بی ، ایم ، پانڈے نے اس کی تاریخ اس طرح بیان کی ہے کہ اورنگ زیب ؒ جب بنگال جاتے ہوئے بنارس کے قریب سے گذرے تو اس کی فوج میں شامل ہندو راجاؤں اور کمانڈروں نے وہاں ایک دن قیام کی درخواست کی ؛ تاکہ ان کی رانیاں گنگا اشنان کرسکیں اور وشوناتھ دیوتا کی پوجا کریں ، اورنگ زیبؒ راضی ہوگئے ، انھوںنے فوج کے ذریعہ حفاظت کا پورا انتظام کیا ، رانیاں اشنان سے فارغ ہوکر وشوناتھ مندر روانہ ہوئیں ؛ لیکن جب مندروں سے رانیاں واپس ہوئیں تو اس میں بعض موجود نہیں تھیں ، کافی تلاش کی گئی ، مگر پتہ نہیں چل سکا ، بالآخر تحقیق کاروں نے دیوار میں نصب گنیش کی مورتی کو ہلایا ، جو اپنی جگہ سے ہلائی جاسکتی تھی تو نیچے سیڑھیاں نظر آئیں ، یہ سیڑھیاں ایک تہہ خانہ کی طرف جاتی تھیں ، وہاں انھوںنے دیکھا کہ بعض رانیوں کی عصمت ریزی کی جاچکی ہے اور وہ زار و قطار رو رہی ہیں ؛ چنانچہ اورنگ زیب ؒکی فوج میں شامل راجپوت کمانڈروں نے اس مندر کو منہدم کردینے کا مطالبہ کیا ، اورنگ زیبؒ نے حکم دیا کہ مورتی کو پورے احترام کے ساتھ دوسری جگہ منتقل کردیا جائے اور چوںکہ ایک مقدس مذہبی مقام کو ناپاک کیا گیا ہے ؛ اس لئے اس کو منہدم کردیا جائے اور مہنت کو گرفتار کرکے سزا دی جائے
بعض مندروں کے انہدام کا یہی پس منظر ہو ، اگر واقعی اورنگ زیبؒ مندر شکن اور بُت شکن ہوتا تو اس کی وسیع سلطنت میں کتنے ہی قدیم اور بڑے بڑے مندر موجود تھے ، جو آج بھی برادرانِ وطن کی عقیدت کا مرکز ہیں ، کیا آج ان کا وجود ہوتا ؟ لیکن بہر حال مذہبی عبادت گاہوں کا انہدام ایک غلطی اور ایک غیر اسلامی فعل ہے ؛ لیکن یہ مذہبی جذبہ کے تحت کیا جانے والا عمل نہیں ہے ؛ چنانچہ یہ بات بھی قابل دکر ہے کہ اورنگ زیبؒ نے جہاں مندر منہدم کئے ہیں ، وہیں مسجد بھی منہدم کروائی ہے ، کہا جاتا ہے کہ سلطنت گولکنڈہ کے مشہور فرمانروا تانا شاہ نے سالہال سال سے شہنشاہ دہلی کو شاہی محصول ادا نہیں کیا تھا ، اس نے اپنی دولت کو چھپانے کے لئے ایک بڑا خزانہ زیر زمین دفن کرکے اس پر جامع مسجد گولکنڈہ تعمیر کرادی ، اورنگ زیبؒ کو کسی طرح اس کی اطلاع ہوئی تو اس نے اس مسجد کو منہدم کرادیا ، اور اس خزانہ کو رفاہ عام کے کاموں میں صرف کردیا ۔
افسوس کہ فرقہ پرست ، متعصب اور دروغ گو تذکرہ نگاروں نے اورنگ زیبؒ کی اس سخاوت اور وسیع النظری کا تذکرہ نہیں کیا ، جو اس کا اصل مزاج تھا ، اس نے مندروں کے ساتھ جس فراخدلی کا ثبوت دیا ، اس کا کوئی تذکرہ نہیں کیا جاتا ، اس سلسلہ میں ڈاکٹر بی ، ایم ، پانڈے نے چند مندروں کا خاص طورپر ذکر کیا ہے ، جیسے گوہاٹی کا مندر ، جب اورنگ زیبؒ نے آسام کے علاقہ پر قبضہ کیا تو اس نے نہ صرف اس مندر کی جاگیر کو باقی رکھا ؛ بلکہ حکم جاری کیا کہ یہ ہمیشہ کے لئے پجاری کا حق ہے ؛ تاکہ اس کی آمدنی وہ اپنے دیوتاؤں کے بھوگ کے لئے استعمال کرسکیں اور منہمک ہوکر عبادت کریں اور یہ بھی حکم جاری کیا کہ اس پر کوئی مال گذاری نہیں لی جائے ۔
اُجین میں مہا کالیشور مندر واقع ہے ، جس میں چوبیس گھنٹے چراغ روشن رہتا ہے ، جس کو ’ نندا دیپ ‘ کہتے ہیں ، اس چراغ کو روشن رکھنے کے لئے راجاؤں کے عہد میں چار سیرگھی دیا جاتا تھا ، مغلوں اور خود اورنگ زیبؒ کے دور میں بھی ٹھیک اسی طرح اس کو باقی رکھا گیا ، اورنگ زیبؒ نے احمدآباد میں ناگر سیٹھ کو شترنجے اور آبو کی مندروں کی تعمیر کے لئے وسیع اراضی عطا کیں اور اس کے لئے سند بھی جاری کی ، ڈاکٹر ، بی ، ایم ، پانڈے نے اپنی کتاب ’’ ہندو مندر اور اورنگ زیب کے فرامین ‘‘ میں اورنگ زیبؒ کے چھ فرامین کی فوٹو کاپی اور فارسی متن کے ساتھ ان کا ترجمہ نقل کیا ہے ، یہ سب فرامین مندروں ، ان کے پجاریوں اور مذہبی پیشواؤں کی جاگیروں کے سلسلہ میں ہیں ، یہ کس قدر ناانصافی کی بات ہے کہ ایسے بادشاہ کے بارے میں آج بالکل یکطرفہ بیانات دیئے جارہے ہیں ۔
کاش فرقہ پرست عناصر کبھی اس بات پر بھی غور کرتے کہ خود ہندوؤں نے کس طرح بودھوں کی خانقاہوں ، جینوں کے مندروں اورمسلمانوں کی مسجدوں کو منہدم کیا ہے ، خود شیواجی نے ستارہ ، پارلی ، اور زیر قبضہ آنے والے علاقوں میں مسجدوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی ، ایلورا اور اجنتا میں بودھوں کو یہ کیوں کرنا پڑا کہ اپنی عظیم الشان خانقاہوں کو مٹی سے ڈھانپ دیں ؛ تاکہ وہ ہندوؤں کی دست برد سے محفوظ رہ سکیں ، آج بھی جگن ناتھ مندر ہندوؤں کی زیادتی کی گواہ بن کر کھڑا ہے ، جو دراصل بودھوں کا مندر تھا ، اور جس پر زبردستی ہندوؤں نے قبضہ کرلیا ، ۱۹۴۷ء اور ۱۹۴۸ء میں ہزاروں مسجدیں شہید کردی گئیں ، اندراجی کے دور میں سکھوں کی سب سے مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹمپل اور اکال تخت کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی ، گجرات کے ۲۰۰۲ء کے فساد میں کتنی ہی مسجدیں شہید کردی گئیں اور حکومت نے اس کی تعمیر نو کرنے سے انکار کردیا ، کیا فرقہ پرست عناصر سچائی کی نشاندھی کرنے والے اس آئینہ میں بھی اپنا چہرہ دیکھنا گوارہ کریں گے ؟
اورنگ زیب ؒکے فرد جرم میں اس بات کو بھی شامل کیا گیا ہے کہ اس نے ہندوؤں پر جزیہ لگادیا تھا ؛ لیکن اس بات پر غور نہیں کیا گیا کہ اس نے ۸۰ قسم کے ٹیکس معاف کردیئے ، جن میں کئی ٹیکسوں کا تعلق ہندوؤں سے تھا اور جزیہ ان پر اس لئے عائد کیا گیا کہ مسلمانوں سے زکوٰۃ لی جاتی تھی ، اگر ہندوؤں سے بھی زکوٰۃ لی جاتی تو یہ ان کو ایک اسلامی عمل پر مجبور کرنا ہوتا ، اور مذہبی آزادی کے تقاضے کے خلاف ہوتا ، اس لئے اسلام نے غیرمسلم شہریوں پر الگ نام سے یہ ٹیکس مقرر کیا ہے اور اس کی مقدار نہایت قلیل ہے : فی کس بارہ درہم یعنی ۱۳ ؍تولہ چاندی سے بھی کم ، پھر شریعت کے حکم کے مطابق اورنگ زیبؒ نے عورتوں ، بچوں ، مذہبی پیشواؤں ، معذروں اور غریبوں کو اس سے مستثنیٰ رکھا اور جزیہ کے بدلہ غیر مسلم عوام کے تحفظ کی گارنٹی دی گئی ۔
ان سب کے باوجود ہمیں یہ حقیقت ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اورنگ زیبؒ کوئی عالم ، مفتی اور صوفی نہ تھا ایک سیاسی قائد اور حکمراں تھا ، بھائیوں کا قتل ہو یا بعض سکھ رہنماؤں کا ، مندروں کا انہدام ہو یا مسجدوں کا ، یہ سیاسی مقاصد کے تحت تھے ، یہ غلط ہوسکتے ہیں ؛ لیکن اس کو مذہب کی جنگ قرار دینا اس سے زیادہ غلط ہے ، اورنگ زیب ؒسے متعلق میڈیا میں جو بحث جاری ہے ، وہ علم و تحقیق کے بجائے غلط فہمی اور جذبات پر مبنی ہے ، جو لوگ اس معاملہ کی سچائی کو جاننا چاہیں اور غیر جابندارانہ مطالعہ کرنا چاہیں ، انھیں علامہ شبلی نعمانی کی ’’ اورنگ زیب عالمگیرؒ پر ایک نظر ‘‘ ، سید صباح الدین عبد الرحمن کی ’’ مسلمان حکمرانوں کی مذہبی رواداری ‘‘ ( جلد سوم ) ، مولوی ذکاء اللہ کی ’’ اورنگ زیب عالمگیرؒ ‘‘ ، مولانا نجیب اشرف ندوی کی ’’ مقدمہ رقعات عالمگیر‘‘ اور ڈاکٹر ، بی ، ایم ، پانڈے کی ’’ ہندو مندر اور اورنگ زیب عالمگیر کے فرامین ‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہئے
اورنگزیب کے ایک سپاہی بھیم سین سکسینا کے حوالے سے بتایا کہ جنوبی ہند میں ایک بار جہاں وہ سکونت پزیر تھے وہاں سیلاب آ گیا اور یہ خدشہ زور پکڑنے لگا کہ سیلاب کی وجہ سے شاہی قیام کو نقصان ہو سکتا ہے تو انھوں نے قرآن سے آیتیں لکھ کر سیلاب کے پانی میں ڈلوائیں جس کے بعد سیلاب کا پانی کم ہونے لگا۔
'یہ ایک غلط فہمی ہے کہ اورنگزیب نے ہزاروں ہندو منادر توڑے۔ ان کے حکم سے براہ راست چند منادر ہی توڑے گئے۔ ان کے دور حکومت میں ایسا کچھ نہیں ہوا جسے ہندوؤں کا قتل عام کہا جا سکے۔ دراصل، اورنگزیب نے اپنی حکومت میں بہت سے اہم عہدوں پر ہندوؤں کو تعینات کیا۔'
ورنگزیب تین نومبر سنہ 1618 کو دوہاد میں اپنے دادا جہانگیر کے دور میں پیدا ہوئے۔ وہ شاہ جہاں کے تیسرے بیٹے تھے۔ شاہ جہاں کے چار بیٹے تھے اور ان تمام کی ماں ممتاز محل تھیں۔
اسلامی علوم کے علاوہ اورنگزیب نے ترکی ادب کی تعلیم بھی حاصل کی اور خطاطی میں مہارت حاصل کی۔ دوسرے مغل بادشاہوں کی طرح اورنگزیب بھی بچپن سے ہی ہندوی میں فراٹے کے ساتھ گفتگو کرتے تھے۔
کم عمری سے ہی شاہجہاں کے چار بیٹوں میں مغل تخت حاصل کرنے کا مقابلہ تھا۔ مغل وسط ایشیا کے اسی اصول پر یقین رکھتے تھے جس میں تمام بھائیوں کا حکومت پر برابر کا حق تھا۔ شاہ جہاں اپنے سب سے بڑے بیٹے دارا شکوہ کو اپنا جانشین بنانا چاہتا تھا، لیکن اورنگزیب کا خیال تھا کہ وہ مغل سلطنت کا سب سے زیادہ قابل وار وارث ہے۔
آڈری ٹریسچکی نے ایک واقعے کا ذکر کیا ہے کہ دارا شکوہ کی شادی کے بعد شاہ جہاں نے دو ہاتھی سدھاکر اور صورت سندر کے درمیان ایک مقابلہ کروایا۔ یہ مغلوں کے لیے تفریح کا پسندیدہ ذریعہ تھا۔
اچانک سدھاکر گھوڑے پر سوار اورنگزیب کی طرف غصہ سے بڑھا اورنگزیب نے پھرتی سے سدھاکر کی پیشانی پر نیزے سے وار کیا جس کے نتیجے میں وہ مزید بپھر گیا۔
اس نے گھوڑے کو اتنے زور سے مارا کہ اورنگزیب زمین پر آ گرا۔ عینی شاہدین میں ان کے بھائی شجاع اور راجہ جے سنگھ شامل تھے جنھوں نے اورنگزیب کو بچانے کی کوشش کی لیکن بالآخر دوسرے ہاتھی شیام سندر نے سدھاکر کی توجہ وہاں سے اپنی جانب کھینچ لی۔
ایک دوسرے مورخ عقیل خاں رضی نے اپنی کتاب 'واقعات عالمگیری' میں لکھا ہے کہ اس پورے مقابلے کے دوران دارا شکوہ پیچھے کھڑے رہے اور انھوں نے اورنگزیب کو بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
ایوک چندا کہتے ہیں کہ بعد میں ایک جلسہ منعقد کیا گیا جس میں اورنگزیب کو بہادر کا لقب دیا گیا۔ انھیں سونے میں تولا گیا اور یہ سونا انھیں انعام میں ملا تھا۔
اس پورے واقعے کے دوران داراشکوہ وہیں موجود تھے لیکن انھوں نے ہاتھیوں پر قابو پانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
دارا شکوہ کی عوامی شہرت ایک کمزور سپاہی اور نااہل منتظم کی سی تو تھی لیکن ایسا نہیں ہے کہ انھوں نے کبھی بھی جنگ میں حصہ نہیں لیا
شاہجہاں کے دباری مؤرخ نے بھی اس واقعے کا ذکر کیا ہے اور اس کا موازنہ سنہ 1610 میں ہونے والے اس واقعے سے کیا جب شاہجہاں نے اپنے والد جہانگیر کے سامنے ایک خوفناک شیر کو شکست دی تھی۔
شاہجہاں کے درباری شاعر ابو طالب نے اس واقعے کا ذکر کیا ہے۔
اگر دارا شکوہ بادشاہ بن جاتے!
ندوستان کی تاریخ میں ایک بڑا سوال یہ ہے کہ اگر سخت گیر اورنگزیب کے بجائے معتدل مزاج دارا شکوہ، چھٹے مغل بادشاہ ہوتے تو کیا ہوتا؟
آڈري ٹرسچكے اس کا جواب دیتے ہوئے کہتی ہیں: درحقیقت دارا شکوہ مغل سلطنت کو چلانے یا جیتنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ ہندوستان کے تاج کو حاصل کرنے کی جدوجہد میں بیمار بادشاہ کی حمایت کے باوجود دارا شکوہ اورنگزیب کی سیاسی سمجھ اور تیزی کا مقابلہ نہیں کر پائے۔
اس پورے واقعے کے دوران داراشکوہ وہیں موجود تھے لیکن انھوں نے ہاتھیوں پر قابو پانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
طالوی مورخ نکولا منوچی نے اپنی کتاب 'اسٹوریہ ڈو موگور' میں اس لڑائی کو بہت عمدہ انداز میں بیان کیا ہے۔
منوچی لکھتے ہیں،'دارا کی فوج کے پاس پیشہ ور فوجی نہیں تھے۔ ان میں سے بہت سے یا تو نائی تھے یا قصاب یا عام مزدور تھے۔ دارا نے دھوئیں کے بادلوں کے بیچ اپنے گھوڑے کو آگے بڑھایا۔ بہادر دکھائی دینے کی کوشش کرتے ہوئے ، اس نے حکم دیا کہ نقارے بجتے رہیں۔ اس نے دیکھا کہ دشمن ابھی کچھ فاصلے پر تھا اس کی طرف سے نہ تو کوئی حملہ ہوا ہے اور نہ ہی فائرنگ ہوئی ہے۔ دارا اپنے فوجیوں کے ساتھ آگے بڑھتا چلا گیا۔
’جونھی وہ اورنگزیب کے لشکر کے پاس آیا، اورنگزیب کی فوج نے توپوں اور اونٹوں پر سوار بندوقوں برداروں کی مدد سے ان پر حملہ کر دیا۔
دارا اور اس کے سپاہی اس اچانک حملے کے لیے تیار نہیں تھے۔ منوچی مزید لکھتے ہیں ’جب اورنگ زیب کی فوج کے گولوں نے دارا کے سپاہیوں کے سر اور دھڑ اڑانے شروع کیے تو دارا نے حکم دیا کہ اورنگ زیب کی توپوں کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے ان کی توپوں کو بھی آگے لایا جائے لیکن یہ جان کر ان کے پیروں تلے زمین کھسک گئی کہ آگے بڑھنے کے چکر میں ان کے فوجیوں نے اپنی توپیں پیچھے چھوڑ دی ہیں۔‘
اس وقت ہندوستان کا سفر کرنے والے اطالوی مؤرخ نکولائی مانوچی نے اپنی کتاب 'سٹوريا دو موگور' میں لکھا ہے: 'دارا کی موت کے دن اورنگزیب نے ان سے پوچھا تھا کہ اگر ان کے کردار تبدیل ہو جائیں تو وہ ان کے ساتھ کیا کریں گے؟ دارا نے جواب دیا تھا کہ وہ اورنگ زیب کے جسم کو چار حصوں میں کٹوا کر دلی کے چار اہم دروازوں پر لٹكوا دیں گے۔
دارا شکوہ
مغل شہنشاہ شاہجہان اور ملکہ ممتاز محل کا بڑا بیٹا۔ مضافات اجمیر میں پیدا ہوا۔ 1633ء میں ولی عہد بنایا گیا۔ 1654ء میں الہ آباد کا صوبیدار مقرر ہوا۔ بعد ازاں پنجاب، گجرات، ملتان اور بہار کے صوبے بھی اس کی عملداری میں دے دیے گئے۔ 1649ء میں قندھار پر ایرانیوں نے قبضہ کر لیا۔ سلطنت دہلی کی دو فوجی مہمیں انھیں وہاں سے نکالنے میں ناکام رہیں تو 1653ء میں دارا کو، خود اس کے ایما پر قندھار بھیجاگیا۔ اس جنگ میں اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور بحیثیت کمانڈر اس کی ساکھ مجروح ہوئی۔
اویک کا کہنا تھا داراشکوہ کی شخصیت انتہائی کثیر الجہتی اور پیچیدہ تھی۔ ایک طرف وہ ایک بہت ہی پرجوش انسان، ایک مفکر، باصلاحیت شاعر، سکالر، ایک اعلی درجے کے صوفی اور فنون لطیفہ کا علم رکھنے والے شہزادے تھے لیکن دوسری طرف انہیں انتظامیہ اور فوجی امور میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ فطرتآً نرم مزاج تھے اور لوگوں کی شناخت کے بارے میں ان کی سمجھ بہت محدود تھی۔
شاہ جہاں نے داراشکوہ کو فوجی کارروائیوں سے دوررکھا
دارا شکوہ شاہ جہاں کو اتنے پیارے تھے کہ وہ اپنے ولی عہد کو فوجی کارروائیوں میں بھیجنے سے ہمیشہ ہچکچاتے رہتے تھے اور انھیں ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے دربار میں رکھا کرتے تھے۔
تاہم شاہ جہاں کو اورنگزیب کو فوجی مہمات پر بھیجنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں تھی، حالانکہ اس وقت ان کی عمر محض سولہ سال ہی تھی جب اورنگزیب نے جنوب میں ایک بڑی فوجی مہم کی رہنمائی کی تھی۔
اسی طرح مراد بخش کو گجرات بھیجا گیا اور شاہ شجاع کو بنگال کی طرف روانہ کیا گیا لیکن بادشاہ کا سب سے زیادہ پیارا بیٹا دارا شکوہ دربار میں ہی رہا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ داراشکوہ جنگ کا سامنا کر رہے تھے نہ ہی سیاست کا۔
اورنگزیب کا سنسکرت سے عشق
دنکر لکھتے ہیں کہ بول چال کے لحاظ سے بھی مسلم حکمرانوں کی سنسکرت کے الفاظ میں دلچسپی تھی کیوںکہ اس ملک میں سنسکرت الفاظ ہی زیادہ سمجھے جاتے تھے۔ اس کے تعلق سے ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ ایک بار اورنگزیب کے بیٹے محمد اعظم شاہ نے انھیں کچھ آم بھیجے اور ان کا نام رکھنے کی درخواست کی۔ چنانچہ اورنگ زیب نے اس کا نام 'سدھارس' اور 'رسناولاس' رکھا۔
بابا جی دھن دھن
اورنگزیب سنہ 1679 میں دہلی کو چھوڑ کر جنوبی ہند منتقل ہو گئے اور پھر کبھی شمالی ہند واپس نہیں آ سکے۔ ان کے ساتھ ہزاروں لوگوں کا قافلہ بھی جنوب کے لیے روانہ ہوا جس میں شہزادہ اکبر کو چھوڑ کر ان کے تمام بیٹے اور ان کا پورا حرم شامل تھا۔
ان کی غیر موجودگی میں دہلی ایک آسیب زدہ شہر نظر آنے لگا اور لال قلعہ کے کمروں میں اتنی دھول چھا گئی کہ غیر ملکی مہمانوں کو اسے دکھانے سے بچایا جانے لگا۔
اورنگزیب اپنی کتاب 'رقعات عالمگیری' میں لکھا ہے کہ جنوب میں انھیں سب سے زیادہ آم کی کمی محسوس ہوتی تھی۔ بابر سے لے کر تمام مغل بادشاہوں کو آم بہت پسند تھا۔ ٹرسچکی لکھتی ہیں کہ اورنگزیب اکثر اپنے حکام سے شمالی ہند کے آم بھیجنے کی فرمائش کرتے۔ انھوں نے کچھ آموں کو بھی سدھا رس اور رسنا بلاس جیسے ہندی نام بھی رکھے۔
عالمگیر احمد نگر میں بیمار ہوا اور 3 مارچ، 1707ء کو نوے برس کی عمر میں فوت ہوا۔ وصیت کے مطابق اسے خلد آباد میں فن کیا گیا۔ خلدآباد سے قریب ایک مقام ہے جس کا نام اورنگ آباد ہے، اورنگ آباد میں اورنگ زیب کی مختلف یادگاریں آج بھی محفوظ ہیں۔ بڑا متقی، پرہیز گار ،مدبر اور اعلیٰ درجے کا منتظم تھا۔ خزانے سے ذاتی خرچ کے لیے ایک پائی بھی نہ لی۔ قرآن مجید لکھ کر ٹوپیاں سی کر گزارا کرتا تھا۔ سلجھا ہوا ادیب تھا۔ اُس کے خطوط رقعات عالمگیر کے نام سے مرتب ہوئے۔ اس کے حکم پر نظام سلطنت چلانے کے لیے ایک مجموعہ فتاوی تصنیف کیا گیا جسے تاریخ میں فتاوی عالمگیری کہا گیا۔ فتاویٰ عالمگیری فقہ اسلامی میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔ بعض علما نے سلطان اورنگزیب کو اپنے دور کا مجدد بھی قرار دیا۔ پانچ بیٹے (بہادر شاہ،سلطان محمد اکبر،محمد اعظم شاہ، کام بخش،محمد سلطان)اور پانچ بیٹیاں (زیب النساء،زینت النساء،مہرالنساء،بدرالنساء،زبدۃالنساء)چھوڑیں۔ مشہور شاعر زیب النساء مخفی ان کی دختر تھیں۔ بیٹا بہادر شاہ اول باپ کی سلطنت کا وارث ہوا۔
عہد وسطی میں ادبی اور ثقافتی منظر نامے پر بات کرتے ہوئے معروف تاریخ داں ہربنس مکھیا نے صوفیا اور کبیر کی میل جول اور مذہبی ہم آہنگی کی روایت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ 'عہد وسطی میں جنگ و جدل اور خون خرابے بہت ہوئے لیکن فساد نہیں ہوئے۔'انھوں نے بتایا کہ ریاستی سطح پر خواہ کتنی ہی معرکہ آرائیاں کیوں نہ ہوئی ہوں لیکن سماجی سطح پر امن و امان قائم تھا۔
آج انڈیا میں ہر سال 500 فسادات ہوتے ہیں جبکہ پوری اٹھارویں صدی میں کل پانچ ایسے فساد ہوئے تھے'ندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس، وزیر اعظم مودی اور ان کی حکمراں جماعت بی جے پی انڈیا میں مسلم حکمرانوں کے تقریباً سات سو سالہ دور حکمرانی کو ہندوؤں کی غلامی سے تعبیر کرتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ہندوستان میں تمام تر تاریخی شواہد کی بنیاد پر 'پہلا فساد مغل بادشاہ اورنگزیب کی وفات کے بعد اٹھارویں صدی کی دوسری دہائی میں نظر آتا ہے اور وہ بھی مودی جی کے گجرات میں۔'
ٹرسچکی نیوارک کی رٹجرس یونیورسٹی میں جنوبی ایشیا کی تاریخ پڑھاتی ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ اورنگزیب کی اس شبیہ کے لیے انگریزوں کے زمانے کے مؤرخ ذمہ دار ہیں جو انگریزوں کی 'پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو' کی پالیسی کے تحت ہندو مسلم مخاصمت کو فروغ دیتے تھے۔
1.کتاب 'اورنگزیب، دا مین اینڈ دا متھ'
2.کتاب 'واقعات عالمگیری'
3.کتاب 'رقعات عالمگیری
4.مؤرخ کیتھرین براؤن نے 'ڈڈ اورنگزیب بین میوزک'
5.Thackeray, Frank W.; Findling, John E., eds. (2012). Events that formed the modern world : from the European Renaissance through the War on Terror.
6.Hussein, S M (2002). Structure of Politics Under Aurangzeb 1658-1707. Kanishka Publishers Distributors.
7.Haroon, Asif (2004). Muhammad Bin Qasim to General Pervez Musharraf: Triumphs, Tribulations. Lahore: Sang-e-Meel. p. 70. To start with, Aurangzeb gradually transformed the system of governance as per the dictates of Shariah ... He curbed evil practices of gambling, drinking and prostitution.
8.Holt, P. M.; Lambton, Ann K. S.; Lewis, Bernard, eds. (1977). The Cambridge History of Islam. Cambridge Core. 2a. p. 52.
9,کتاب 'اسٹوریہ ڈو موگور
رقعات عالمگیر، مرتبہ نجیب اشرف ندوی ص22
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
29 April 1639 ko Mughal Badshah Shah Jahan ne Delhi main Lal qala ki bunyad rakhi
Close your eyes and tell what you see?
برکے خان منگول🍁
برکے خاں چنگیز خان کے پوتے تھے اور انھوں نے اسلام قبول کر لیا تھا اور ان کے اپنوں نے ان کی مخالفت شروع کر دی جس پر انھوں نے اپنے غیر مسلم مخالف لوگوں کے خلاف جہاد کیا. اور پھر اللہ کے فضل سے ایک صدی کے اندر بہت سے منگول سردار مسلمان ہوتے گئے اور آہستہ آہستہ 85% منگول(مغل) مسلمان ہوے.
اور انتہای تھوڑے منگول ہیں جو کہ غیر مسلم ہیں اور وہ آجکل منگولیا کے چھوٹے سے ملک میں آباد ہیں
Click here to claim your Sponsored Listing.
Contact the organization
Telephone
Website
Address
Muzaffarabad
13100
Upper Neelum Village Karen Bypass District Neelum AJK
Muzaffarabad, 13100
Our goal is to introduce people to new things as soon as possible, to market them, to provide service
Muzaffarabad
This is the official page of Human Rights Council of Azad Jammu & Kashmir Region.
Muzaffarabad
HOPP organization aims at providing quality educational and health service to old age people,widow women ,orphan's and poor children free of cost.HOPP expenses are entirely funde...
Muzaffarabad
تعلیم یافتہ صیحت مند خوشحال معاشرے کے قیام کیلئے کوشاں پسے ہوئے طبقات کا معیار زندگی بلند کرنے کیلیئے مصروف عمل احساسِ ویلفیئر سوسائٹی
Muzaffarabad
It is objective of my life to help others , when I help someone I feel happy���
Muzaffarabad, 13100
Rahnuma-FPAP is oldest(1953) civil society organization and a Member Association of IPPF in Pakistan
Muzaffarabad, 13100
Empowering lives through compassion and cooperation. Join us in making a difference!
Muzaffarabad Azad Kashmir
Muzaffarabad
We can do no great things, only small things with great love.��