Chef Aleena

Chef Aleena

You may also like

Saleh Decoration
Saleh Decoration

Cooking is not a difficult task. Everyone can cook. I can cook for you in a very simple way.

11/10/2023
Beef Lasanga Recipe By Chef Aleena 15/07/2023

https://rumble.com/v305ieq-beef-lasanga-recipe-by-chef-aleena.html

Beef Lasanga Recipe By Chef Aleena Lasagna is a traditional Italian dish consisting of layered sheets of pasta, meat or vegetable sauce, and cheese, typically including mozzarella, ricotta, and parmesan. The dish may also feature addit

22/05/2023

Easy Pulao Recipe By Chef Aleena
This is so easy and fast making pulao recipe......no time taking ......soo delicious....
try it and enjoy with your family......
I hope you will cook this pulao again and again....
If you like my recipes so like share & subscribe to my channel for more easy and delicacies recipes ......
https://youtu.be/JdWiR_oiCT8

11/12/2022

بیساکھی ڈھونڈنے والے
(قاسم علی شاہ )
خاتون کچن میں مصروف تھی، پاس ہی اس کی بچی بھی بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ کافی دیر سے الجھن بھری نظروں سے سامنے دیکھ رہی تھی جیسے کسی چیز کو سمجھنے کی کوشش کررہی ہو۔ماں نے اس کودیکھا تو وہ کچھ متفکر ہوگئی ۔اس نے بیٹی کواپنی طرف متوجہ کیا اورسامنے لگے کیلنڈ ر کے ہندسوں کے بارے میں پوچھا ، بچی کافی دیر وہاں دیکھتی رہی لیکن پھر اس نے بے بسی سے سرہلادیا۔ماں اس کو ایک آئی اسپیشلسٹ کے پاس لے گئی۔چیک اپ کے بعد معلوم ہوا کہ بچیStargardtنامی بیماری میں مبتلا ہوچکی ہے ۔ یہ وہ بیماری ہے جس میں انسان کی نظر انتہائی کمزور ہوجاتی ہے۔ اس کوچیزوں کے صرف ہیولے ہی نظر آتے ہیںاوروہ رفتہ رفتہ اندھاپن کے قریب ہوتاجاتاہے۔’’لیکن میں اندھی نہیں ہوں۔‘‘ بچی زور سے چلائی اور اس احتجاج نے اس کی ماں اور ڈاکٹر دونوں کو چونکاکررکھ دیا۔اس بچی کا نام ’’ماریارونیان‘‘ تھااوراگلے کچھ سالوں میں دنیا نے عجیب نظارے دیکھے۔اسکول کے زمانے سے ہی وہ کھیل کود اور خاص طورپردوڑ کے مقابلوں میں انتہائی دلچسپی رکھتی تھی۔چنانچہ اس نے 1992ء میں منعقدہ ’’سمر پیرااولمپکس‘‘ کے ریس مقابلوں میں حصہ لیا اور آنکھوں کی روشنی نہ ہونے کے باوجود بھی چار گولڈ میڈل جیتے۔چار سال بعد 1996ء کے ’’پیرااولمپکس اٹلانٹا‘‘میں اس نے ایک گولڈ میڈل اور ایک سلور میڈل جیتا۔2002ء میں ’’نیویارک میراتھن‘‘ میں اس نے دوگھنٹے ، 27منٹ اور 10سیکنڈزدوڑ کرپہلی پوزیشن حاصل کی۔وہ 500میٹر کی ریس میں تین بار نیشنل چیمپئن رہی ، اس کے ساتھ کئی بین الاقوامی اعزازت بھی اپنے نا م کیے لیکن دنیا بھر میں اس کا نام تب مشہور ہوا جب 2000ء کے’’ سڈنی اولمپکس‘‘ میں اس نے آٹھویں پوزیشن حاصل کی اور اولمپک میں شریک ہونے والی دنیا کی ’’پہلی نابیناخاتون کھلاڑی‘‘ کا اعزاز حاصل کیا۔بصارت سے محروم اور زندگی کی مشقتیں جھیل کرکئی بین الاقوامی اعزازات اپنے نام کرنے والی اس پُرعزم لڑکی کا زندگی کے بارے میں نظریہ بہت ہی منفر د ہے۔وہ کہتی ہے کہ زندگی میں کوئی Finish Lineنہیں ہوتی ۔یہ ایک لمبا سفر ہے جس میں آپ نے بس چلتے جانا ہے ۔وہ یہ بھی کہتی ہے کہ انسان کی بصارت نہیں بلکہ اس کامنفی رویہ اس کو اندھا بنادیتاہے۔

ماریا رونیان کے لیے بہت آسان تھا کہ وہ اپنے اندھے پن کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر بیٹھ جاتی اورساری عمرہمدردیاں سمیٹتی لیکن اس نے ہمت سے کام لیا اور اپنی محرومی کو طاقت میں بدل کرایسے عزم و حوصلے کا مظاہرہ کیا کہ اپنی ایک تاریخ رقم کرڈالی۔

ایک بڑی معذوری کے باوجود احساس کمتری میں مبتلا نہ ہونااور اپنی کارکردگی کی بدولت اچھے بھلے لوگوں سے بھی آگے نکل جانابلاشبہ بڑے دل گردے کا کام ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ ہمارے معاشرے میں اپنے دم پر جینے کی ایسی مثالیں نہ ہونے کے برابر ہیں جو اپنی محرومیوں ،کمزوریوں اور خامیوں کو قبول کرتے ہیں اور دوسروں کامحتاج بننے کے بجائے اپنے زور بازو سے زندگی کا رُخ تبدیل کرتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ رویہ بہت عام ہے جس میں ایک انسان اپنے دکھڑے سناکر دوسروں کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتاہے۔یہاں اوپر والا ہاتھ بننے کے بجائے نیچے والا ہاتھ بننے کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے کیوں کہ اس میں محنت نہیں کرنی پڑتی اور بیٹھے بٹھائے سب کچھ مل جاتاہے۔یہی وجہ ہے کہ یہاں آپ کو ہر تیسرا شخص روتا ہوااور خودترسی کا شکار ملے گاجس کی کوشش ہوتی ہے کہ لوگ مجھے مظلوم ، بے بس اور لاچار سمجھیں اور کہیں :’’اوہ ، آپ کے ساتھ تو بڑی زیادتی ہوئی ہے۔‘‘ یادرکھیں کہ دنیا کا سب سے بڑا نشہ اپنی محرومیوں کی داستان سناتے رہنا ہے۔یہ ایسی لت ہے کہ اگر ایک بار انسان کو لگ جائے تو پھر بڑی مشکل سے چھوٹتی ہے۔اس عادت کی وجہ سے انسان کا نقصان ہورہا ہوتاہے لیکن اس کی آنکھوں پر ایسی پٹی بندھی ہوتی ہے کہ اس کو یہ چیز محسوس ہی نہیں ہوتی ۔اس رویے کی وجہ سے وہ نہ صرف اپنے خاندان پر بلکہ پورے معاشرے پر بوجھ بن جاتاہے۔

خودترسی(Self-pity) کا شکار شخص دراصل بہت زیادہ حساسیت والا انسان ہوتاہے۔حساسیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان جو دیکھتاہے اور سنتاہے اس کوشدید انداز میں محسوس کرتاہے ۔حساسیت کے دوپہلو ہیں ۔ایک منفی اور ایک مثبت ۔مثبت پہلو تو یہ ہے کہ حساسیت کی بدولت ہی انسانیت کا رشتہ قائم ہے۔یہ انسان کی کارکردگی کے لیے بھی بہت ضروری ہے ۔آپ اگر تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو دنیا کے عظیم لکھاری اور شعرا سب کے سب حساسیت سے بھرے ہوتے تھے۔جتنے بھی بڑے لکھاری گزرے ہیں وہ سب انتہائی حساس تھے اور اسی خوبی کی بدولت ان کی تحریروں میں جان پڑتی تھی اور پوری دنیا ان کی گرویدہ تھی۔آپ اگر دنیا کے کسی بڑے مصور اورفنکار کو دیکھیں تووہ احساس کے جذبے سے لبریز ہوکرہی ایک شہ پارہ بناتاہے اور پھر وہ شاہکار بن جاتاہے۔اسی حساسیت کا ہی نتیجہ تھا کہ ایک شخص کپڑوں کے تھان کندھے پر رکھ کربیچنے کے لیے نکلتاہے۔راستے میں دیکھتاہے کہ دوآدمی لڑرہے ہیں۔ان میں سے ایک نے چھری نکالی اوردوسرے کے پیٹ میں گھونپ دی۔زخمی شخص زمین پر گرکرتڑپنے لگااوراس کے زخم سے خون کے فوارے چھوٹنے لگے ۔آس پاس کئی سارے لوگ کھڑے تھے لیکن کوئی بھی مدد کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھ رہا تھا۔اس نے اپنے تھان پھینکے، زخمی شخص کواٹھایااورکندھے پر لادکر دوڑتے دوڑتے ہسپتال پہنچایا۔بروقت علاج کی وجہ سے زخمی شخص کی جان بچ گئی لیکن اس واقعے نے کپڑے بیچنے والے شخص کے دل و دماغ پر گہرا اثرچھوڑا۔اس نے اپنا پیشہ ترک کیا اور گلیوں میں گھوم پھرکر چندہ جمع کرناشروع کیا۔تھوڑے ہی عرصے بعد وہ ایک ڈسپنسری بنانے میں کامیاب ہوگیا۔پھر ایمبولینس بھی خرید لی اور کچھ ہی عرصے میں اس نے ایسی فائونڈیشن کی بنیاد رکھی جونہ صرف پاکستان میں بلکہ ملک سے باہر بھی لوگوں کی خدمت میں پیش پیش تھی اور اب بھی ہے۔کپڑے بیچنے والایہ شخص عبدالستار ایدھی تھا اور جب وہ فوت ہواتو اکیس توپوں کی سلامی کے ساتھ اس کو دفن کیا گیا۔احساس کے جذبے نے اس کو عام سے خاص انسان بنادیاتھا۔

حساسیت کا منفی پہلو یہ ہے کہ ایسے شخص کے ساتھ جب کوئی برا واقعہ پیش آتاہے تو وہ اس کاا ثربڑے گہرے انداز میں محسوس کرلیتا ہے۔وہ اس واقعے کے مثبت پہلوکے بجائے منفی پہلو کو دیکھتاہے ۔یہاں پر شیطانی ذہن کام کرنا شروع کرتاہے اور اس کو یہ واقعہ بڑھا چڑھاکر دکھاتاہے۔اس کی آنکھوں پر پردہ پڑ جاتاہے اوراس کی زندگی میں رونما ہونے والے تمام مثبت اور اچھے کام اس کی نظروں سے روپوش ہوجاتے ہیں۔اس کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ میرے پاس ایسا کچھ بھی نہیں جس کاشکراداکیاجاسکے۔وہ سمجھتاہے کہ’’ میں دنیا کاسب سے بدقسمت انسان ہوں ، کیوں کہ صرف میرے ساتھ ہی برا ہورہاہے۔لوگوں کومعلوم ہی نہیں کہ مجھے کتنے برے حالات کاسامنا ہے۔انھیں پتا ہی نہیں کہ میں کس قد ربیمار ہوں۔انھیں احساس ہی نہیں کہ میراتو والد بھی فوت ہوچکا ہے۔‘‘اس کی یہ سوچ اس کومجبور کرتی ہے کہ لوگوں کو اپنے دکھڑے سناناشروع کردے ۔وہ ایسا ہی کرتاہے اور اس عادت میں اس کو عجیب لطف ملنے لگتاہے۔وہ جس سے بھی ملتاہے روتاہی ملتاہے ۔و ہ لوگوں کی نظروں میں خود کو مظلوم بنانے کی کوشش کرتاہے۔اس عادت سے وہ ان کی توجہ بھی حاصل کرنا چاہتاہے۔وہ لوگوں کے منہ سے اپنے لیے یہ جواز بھی کہلوانا چاہ رہاہوتاہے کہ ہاں بھائی! تم بالکل حق پرہو۔اس رویے سے دراصل وہ اپنی ذمہ داریوں اورنالائقیوں سے فرارحاصل کرنا چاہتاہے۔وہ ذاتی ذمہ داری قبول ہی نہیں کرنا چاہتا،اس کو بس ایک بیساکھی کی تلاش ہوتی ہے جس کے سہارے وہ اپنے آپ کوکھڑارکھ سکے۔یہی وجہ ہے کہ جب وہ اپنی فریاد سنارہاہواور سننے والااس کو کہے کہ بھائی ! آپ کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ یہ یہ کام کریں تو یہ جملہ سن کر ہی وہ بدک جاتاہے اور کہتاہے:’’نہیں آپ مجھے سمجھ ہی نہیں رہے۔‘‘خودترسی والے رویے سے وہ معاشرے کو یہ پیغام بھی دے رہاہوتاہے کہ مجھ سے کسی چیز کی توقع نہ رکھی جائے۔

خودترسی دراصل حسد کی ایک صورت بھی ہے۔ایسا شخص خدا کی تقسیم پر راضی نہیں ہوتا۔وہ ہروقت اسی سوچ میں رہتاہے کہ مجھے وہ چیزنہیں ملی جس کا میں مستحق تھا اور فلاں کو مل گئی۔اس پر شیطانی سوچ حاوی ہوجاتی ہے جو اس کومظلوم اور دوسروں کو ظالم بناکر پیش کرتی ہے۔ایسے لوگ انا میں مبتلا ہوتے ہیں۔انسان جب اناپرست بن جاتاہے توپھر اس کی دوصورتیں ہوتی ہیں۔یہ اناکبھی احساس برتری کی صورت میں ظاہرہوتی ہے جس سے وہ متکبر بن جاتاہے اور کبھی احساس کمتری کی صورت میں ، جس کی وجہ سے وہ خودترسی کاشکارہوجاتاہے۔

آپ نے بھکاری کامشاہدہ کیا ہوگا۔ایک پیشہ ور بھکاری جب آپ کے سامنے ہاتھ پھیلاتاہے تو وہ اپنی باڈی لینگویج ،اپنے الفاظ اور چہرے کے تاثرات سے خود کو اس قدر قابل رحم اور قابل ترس بناکر پیش کرتاہے کہ انسان اس کو دوچار پیسے دے ہی دیتاہے۔یہی حال خودترسی کے شکار شخص کا بھی ہے۔وہ بھی اپنے حالات کارونا روکر آپ سے ہمدردی کی بھیک مانگ رہا ہوتاہے لیکن اس کو معلوم نہیں ہوتاکہ اس عادت کی وجہ سے وہ اپنی قدر ومنزلت کھوبیٹھتاہے۔انسانوں کی نظروں میں اس کی عزت کم ہوجاتی ہے۔جب لوگوں کو معلوم ہوجاتاہے کہ یہ بندہ تو ہر وقت روتاہی رہتاہے تو وہ بھی پھر اس سے بچنے اورجان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔

خود ترسی کاایک بڑا نقصان یہ ہوتاہے کہ اس سے انسان کی کارکردگی بالکل ہی زیروہوجاتی ہے۔کیوں کہ جب وہ یہ سوچ رکھتاہے کہ میرے ساتھ ہی ظلم کیوں ہورہا ہے تو پھر وہ اپنے کام اور اپنی ذمہ داریوں میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا اور اسی وجہ سے اس کی پروڈکٹیوٹی ختم ہوجاتی ہے۔
خودترس انسان زندگی میں ترقی نہیں کرسکتا ۔کیوں کہ ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے لیے خودتوقیری کا ہونا اور اپنی ذات میں معتبر ہونا بہت ضروری ہے۔جبکہ خودترس انسان اس خوبی سے محروم ہوتاہے۔جوانسان اپنے آپ کو نہیں مانتاتودنیاکیسے اس کومانے گی؟
خودترس انسان خود کو بہتر کرنے کے لیے قدم نہیں اٹھاتا کیوں کہ یہ پورے معاشرے سے گلہ مند ہوتاہے اور یہ چیزاسے خود کو بہتر بنانے کی طرف متوجہ ہی نہیں کرتی۔
خودترس انسان مالی ترقی بھی نہیں پاسکتا۔کیوں کہ اگر وہ مالدار ہوجائے توپھر اپنی مظلومیت اور لاچارگی کی داستان کیسے سنائے گا۔
ایسے لوگوں کے تعلقات بھی کمزور ہوجاتے ہیں کیوں کہ ان کے پاس بیٹھنے والے انسان کی امید بھی ان کی باتوں کی وجہ سے ختم ہوجاتی ہے ۔وہ بھی خود کو مایوس محسوس کرتاہے اور اسی وجہ سے لوگ ان سے دوررہنے کی کوشش کرتے ہیں۔
خودترس انسان کی زندگی میں مسائل کا انبار ہوتاہے۔کیوں کہ وہ ناشکرا ہوتاہے اور ناشکرے شخص کے پاس موجود نعمتیں بھی ایک ایک کرکے ختم ہوتی جاتی ہیں۔
خودترسی ختم کرنے کے لیے پہلا قدم یہ ہے کہ ایسا شخص سب سے پہلے اپنی سوچ بدلے۔جن منفی چیزوں کو سوچ کر اس نے اپنی زندگی کو بدتر بنایاہواہے اس کی جگہ مثبت چیزوں کو دیکھیں۔وہ اس حقیقت کوتسلیم کریں کہ زندگی میں 100فی صد برا نہیں ہورہا ہوتا۔منفیت کی مقدار 20فی صد ہوتی ہے۔باقی 80فی صد چیزیں اچھی ہورہی ہوتی ہیں لیکن انسان کا نفس بار بار اس کے سامنے وہی 20فی صد منفی چیزیں لاتاہے جس سے وہ سمجھتاہے کہ میری زندگی میں تو اچھی چیز ہے ہی نہیں ۔

دوسراقدم یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کے واقعات کو معانی دے۔ وہ سوچے کہ یہ واقعہ میرے ساتھ ہی کیوں ہوا۔اگر وہ کوئی منفی چیز بھی تھی تو اس میں مثبت چیز ضرورہوگی۔انسان کی زندگی میں تلخ واقعات کاہونا ضروری ہوتاہے تاکہ اس کو عقل آئے۔انسان کی محرومیاں اس کے لیے نعمتیں ہیں کیوں کہ ان ہی کی وجہ سے وہ حرکت میں آتاہے او ر ان محرومیوں کو ختم کرنے کی کوشش کرتاہے۔واقعات کو مثبت معانی دینا انسان کو پُرامید بناتاہے اور اس کو مایوسی سے بچاتاہے ۔

تیسرا قدم شکرگزاری ہے۔وہ سوچے کہ آج سے پانچ سال پہلے میں جس حالت میں تھا ، آج اس سے کس قدر بہتر ہواہوں۔اس کے پاس جو بھی نعمتیں موجودہیں ان پر شکرادا کرے ۔اس عمل سے اس کی نعمتیں بڑھنا شروع ہوجائیں گی۔

اگر اس کے ساتھ کوئی منفی واقعہ پیش آتاہے تو وہ اس کے بارے میں یہ نہ سوچے کہ یہ میرے ساتھ ہی کیوں پیش آیا، بلکہ اس کو زندگی کا حصہ سمجھے اور خود سے یہ سوال پوچھے کہ میں اس کائنات میں کیوں ہوں، میری زندگی کامقصد کیا ہے؟ جب انسان کی نظر اپنے مقصدحیات پر ہوگی توپھر چھوٹے چھوٹے واقعات اس کو مایوس نہیں کریں گے اور نہ ہی وہ خودترسی کا شکار ہوگا۔

02/12/2022

میانہ روی۔ پرسکون زندگی کا مظہر
(قاسم علی شاہ)
تین حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آپ کی عبادت کے متعلق پوچھنے آئے، جب انھیں نبی کریم ﷺ کا عمل بتایا گیا تو جیسے انھوں نے اسے کم سمجھا اور کہا کہ ہمارا نبی کریمﷺسے کیا مقابلہ! آپ کی تو تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کر دی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا۔ تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ پھر نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور ان سے پوچھا کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں؟ سن لو! اللہ تعالیٰ کی قسم! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں۔ نماز پڑھتا ہوں (رات میں) اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں۔ پس میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔
(صحیح البخاری:5063)
میانہ روی انسانی زندگی کاوہ اہم عنصر ہے جس کی بدولت زندگی پرسکون اور بہترین ہوجاتی ہے۔ چاہے وہ رہن سہن ہو کھانا پینا ہو، لباس ہو یا دینی معاملات۔ یہی وجہ ہے کہ دین نے بھی میانہ روی اور اعتدال کوبہترین طریقہ قرار دیا ہے۔ سیرت النبی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبرانہ ذمہ داریوں اور عبادت کے باوجود آپ ﷺ اپنی پرسنل زندگی کو بھی بہترین انداز میں گزارتے نظر آتے ہیں۔ آپ گھر کے کاموں میں گھر والوں کے ہاتھ بٹاتے ہیں، اپنے کام خودکرتے ہیں، بیماروں کی بیمار پرسی بھی کرتے ہیں، اپنے نواسوں کے ساتھ ہنستے کھیلتے اور ان کی تربیت بھی کرتے نظر آتے ہیں۔

دراصل کامیاب زندگی کاراز بھی یہی ہے کہ اس میں تمام دینی اور دنیاوی کاموں کو میانہ روی کے ساتھ چلایاجائے اور کسی ایک جانب اس قدر زیادہ توجہ نہ دی جائے کہ اس کی وجہ سے دوسری جانب کے حقوق پامال ہوں۔

آج کی ماڈرن دنیا میں زندگی کی رفتار انتہائی تیز ہوگئی ہے جس نے ہر انسان کوتیز رفتار بنادیا ہے اور اب ہر شخص زیادہ سے زیادہ محنت کرتا اور پیسے کماناچاہتاہے لیکن کامیابی کے پیچھے اندھادھند بھاگتے بھاگتے وہ اس بات کو بھول جاتاہے کہ اس کے اپنے اس سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔وہ پیسا تو کمالیتاہے ، نام بھی بنالیتاہے لیکن اپنوں کی صورت میں قدرت نے اس کوجو خوب صورت تحفے دیے ہوتے ہیں وہ اس کی بے رُخی کا شکار ہوکراس کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں اورنتیجتاً وہ کھوکھلے پن کاشکار ہوکرچین وسکون سے محروم ہوجاتاہے۔

ایک پرسکون زندگی کی بنیاد اس بات پر ہے کہ انسان اپنی پیشہ ورانہ اور ذاتی زندگی میں توازن کیسے قائم کرتاہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام میں مصروف رہاجاتاہے۔بندہ کام کرتے کرتے مشین بن جاتا ہے۔ وہ اپنی ذاتی زندگی اوربیوی بچوں کے لیے وقت نہیں نکال پاتا۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ مشینوں کو بھی دیکھ بھال اور مرمت کی ضرورت ہوتی ہے وگرنہ مشینیں جلد خراب ہو جاتی ہیں اور انسان تو انسان ہے اس کے اپنے جذبات ہیں، وہ خوش ہوتا ہے، ناراض ہوتا ہے، غصہ کرتا ہے اور تھک بھی جاتا ہے۔ اتنی ساری کیفیات سے گزرنے والے شخص کو ذہنی اور جسمانی سکون کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اسے آرام اور اطمینان کے لمحے میسر نہ آئیں تو اس کی زندگی میں چڑچڑا پن اور ذہنی دباؤ شروع ہو جاتا ہے۔

ہم اگر دیگر ممالک کی بات کریں تو وہاں بھی مقابلے کی سخت فضا ہے۔ہر شخص تیزی میں ہے اور زندگی میں آگے بڑھنا چاہتاہے لیکن اس کے ساتھ ایک چیز کا احساس وہاں پر موجود ہے۔وہ کام اور ذاتی زندگی کو الگ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ ہفتہ بھر سخت محنت کرتے ہیں لیکن پھر ویک اینڈ کو سیر وتفریح کرتے اور خود کو ذہنی طورپر تازہ دم بھی کرتے ہیں۔کام کے دوران میں ان کی پوری توجہ کام پر ہوتی ہے اور سیر و سیاحت میں پھر وہ کام کے متعلق فکریںنہیں پالتے۔جبکہ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔یہاں دوطرح کے مزاج ہیں۔ایک طرح کے لوگ وہ ہیں جو کام کو سنجیدگی سے لیتے ہی نہیں۔کام کے وقت میں سیاسی بات چیت، سیروتفریح کی باتیں عام کی جاتی ہیں۔کام سے جان چھڑانے کی کوشش کی جاتی ہے یا پھر بس کسی نہ کسی طرح دفتری وقت کوگزاراجاتاہے۔دوسرا مزاج وہ ہے جو کام کو اس قدر سر پرسوار کرلیتاہے کہ گھر آکر بھی کام میں لگے ہوتے ہیں۔یعنی ان کادفتر پھیلتے پھیلتے ان کے گھر تک آجاتاہے۔کام کے سلسلے میں وہ اپنے آپ کو ، اپنی فیملی کو ، دوست احباب اوررشتہ داروں کو بھی بھول جاتے ہیں۔ ایسے لوگ اگر سیر و تفریح پر بھی جائیں تو وہاں بھی کام کی فکریں انھیں لطف اندوز ہونے نہیں دیتیں۔یہ لوگ نام تو کمالیتے ہیں ، پیسا بھی کمالیتے ہیں لیکن ان کی زندگی سے انسان آہستہ آہستہ کم ہوتے جاتے ہیںاورپھریہ سماجی طورپر اکیلے ہوجاتے ہیں۔گیری کلر کہتاہے کہ کام کی مثال ربر والی گیند کی طرح ہے۔اس کو زمین پر ماریں تو یہ دوبارہ آپ کے ہاتھ تک واپس آتی ہے جبکہ فیملی ، صحت ، دوست اور عزت کی مثال شیشوں سے بنی گیند کی طرح ہے۔یہ ہاتھ سے چھوٹ جائے توپھر ان کی صرف کرچیاں ہی ملتی ہیں۔
زندگی میں سو فیصد توازن کیسے ممکن ہے؟

اس کا جواب ہے ایسا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہے۔ بعض کی معاشی زندگی بہت زبردست ہے مگر گھریلو زندگی بہت خراب ہے۔انسان کی زندگی کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں۔ کامیاب سے کامیاب انسان زندگی کے کسی نہ کسی شعبے میں کمزور ہوتاہے۔ اگر انبیاء کرام کے علاوہ دیکھا جائے تو ہمیں ایسی کوئی شخصیت نظر نہیں آتی جو اپنی زندگی کے تمام معاملات میں مثالی توازن قائم رکھ سکی ہو۔ رشتوں میں توازن بہت اہم اور نازک معاملہ ہے ۔یہ سو فی صد بہترین نہیں ہوسکتا ہم نے بس یہ کوشش کرنی ہے کہ جس قدر ہماری استطاعت ہے اس کے مطابق خود کو بہترین بنانے کی کوشش جاری رکھیں۔ہر انسان بیک وقت کئی ساری ذمہ داریاں نبھارہا ہوتاہے۔وہ بیٹا، بھائی ، شوہر اور باپ ہوتاہے۔اس کے رشتے دار بھی ہوتے ہیں۔دوست احباب بھی ہوتے ہیں۔کچھ دوست انتہائی قریبی ، انتہائی بااعتماداور کچھ عام سے ہوتے ہیں۔کچھ لوگ اس کے ماتحت ہوتے ہیں۔وہ یہ ذہن میں رکھے کہ کیسے میں دوسرے تمام معاملات پورے کرنے کے ساتھ ساتھ ان تمام لوگوں کو بھی اچھے انداز میں ہینڈل کروں اور اپنی ان ذمہ داریوں کو بہترین انداز میں نبھائوں۔

ایک خوش گوار اور صحت مند زندگی کامطلب یہ نہیں کہ آپ اپنی پیشہ ورانہ اور ذاتی زندگی کو پچاس پچاس فیصد کے دو حصوں میں بانٹ دیں بلکہ اس کا مقصد زندگی کے بارے میں ایک ایسی لچکدار منصوبہ بندی ہے جس کے ذریعے ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں توازن اور اعتدال قائم ہو۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ کسی ایک زندگی کو اپنے ذہن پر غیر ضروری انداز میں حاوی نہ کریں۔کام کی فکریں اپنے گھر نہ لائیں اور گھر کی پریشانیوں کو کام کے دوران اپنے سر پر سوار نہ رکھیں۔ پیشہ ورانہ زندگی کو پوری اہمیت اور ترجیح دیں مگر اس کی خاطر اپنی ذاتی زندگی، سماجی تعلقات اور دوسرے معاملات کونظرانداز نہ کریں بلکہ انھیں پوری اہمیت دیں۔پیشہ ورانہ اور ذاتی زندگی، دونوں جگہ اپنی خوشیوں اور ذہنی سکون کا خیال رکھیں۔
Work-life Balance
کامسئلہ تب شروع ہوتاہے جب انسان یہ سوچ لیتاہے کہ مجھے اور میری فیملی کو جو مسائل ہیں ان کاحل صرف پیسے میں ہے ۔ اس کے لیے مجھے اتنا اتنا پیسہ کمانا ہے۔پھر وہ اس کوشش میں لگ جاتاہے اور دن رات کی پروا سے آزاد ہوکر اس کے پیچھے لگ جاتاہے۔ یہ سوچ غلط ہے۔زیادہ پیسہ واحد حل نہیں ہے بلکہ اس سے اہم چیز ہے انسان کا اپنی خواہشات کو کنٹرول کرنا ۔یہ خواہشات ہی ہیں جو انسان کو پیسے کے پیچھے بھگاتی ہیں اور ایک طرح سے اس کو غلام بنالیتی ہیںحالانکہ اگر ایک انسان کوتین وقت کی روٹی ، مناسب لباس اور گھر ملا ہواہوتو پھر اس کومزید پیسے کے پیچھے بھاگنے کی ضرورت ہی کیاہے۔
Work-life Balance
کوکنٹرول کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان ایساکام کرنا چھوڑدے جس کی وجہ سے اس کی ذاتی زندگی خراب ہورہی ہے۔کیوں کہ صرف پیسہ کمانا ہی زندگی نہیں ہے۔اگر انسان کے پاس اپنوں کی صورت میں لوگ نہ ہوں تو پیسے کمانے کاکیا فائدہ۔

مشاہدے میں آیا ہے کہ جو ادارے اپنے ملازمین کے کام اور ذاتی زندگی میں توازن کا خیال رکھتے ہیں۔ ان کو مستقل، کارآمد اور وفادار افرادی قوت میسر آتی ہے۔ ان اداروں میں غیر حاضری بھی کم دیکھی گئی ہے۔

زندگی میں اطمینان لانے کے لیے اپنی ذات کاخیال رکھنا بھی ضروری ہے۔آپ کو پرسکون نیند اور صحت مند خوراک چاہیے۔یاد رکھیں آپ کی ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی صحت سب سے زیادہ اہم ہے۔ اگر آپ ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی طورپرصحت مندہوں گے تو آپ اپنی پیشہ ورانہ اور ذاتی زندگی میں اپنی ذمہ داریاں اچھے طریقے سے انجام دے سکیں گے۔

اس مصروف ترین زندگی میں اپنے لیے کچھ وقت نکالیں۔ کچھ دیر کے لیے دنیا سے الگ تھلگ ہونے سے نہ ڈریں۔ تنہا بیٹھ کر کتاب پڑھنا، اکیلے سفر پر نکلنا، لمبی چہل قدمی کرنا، پسندیدہ موسیقی سننا، چھٹیوں پر کہیں دوسرے شہر میں چلے جانا۔ یہ تمام وہ کام ہیں جو آپ کو اپنے کاموں کے لیے دوبارہ طاقت فراہم کرتے ہیں۔

ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں توازن دراصل ذاتی زندگی کا تحفظ ہے۔یہ درست ہے کہ زندگی میں شفافیت ہونی چاہیے ،منافقت نہیں ہونی چاہیے مگر یہ بھی آپ کا حق ہے کہ آپ اپنے بارے میں کیا بتانا چاہتے ہیں اور کیا چھپانا چاہتے ہیں۔ شفافیت ضروری ہے مگر کن معاملات میں ضروری ہے یہ بھی طے کرنا چاہیے۔ مہذب رہتے ہوئے جو چیزیں شیئر کرنے کے قابل ہیں وہ ضرور کریں۔ یہ لائف مینجمنٹ ہے۔

آپ نے سرکس کی رسی پر بازی گر کو چلتے دیکھا ہوگا۔اس کے ہاتھ میں ایک بڑا ڈنڈا ہوتاہے جس کو بیلنس میں رکھ کرہی وہ اپنا بیلنس درست رکھتاہے اور تب ہی وہ رسی پر چل پاتاہے۔زندگی بھی سرکس کی اس رسی کی مانند ہے۔اس پر کامیابی سے چلنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے ہاتھ میں جو ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کاڈنڈاہے اس کو توازن کے ساتھ رکھیں تب ہی آپ ایک مطمئن اور پرسکون زندگی گزارسکیں گے۔

28/11/2022

ذہنی غربت
(قاسم علی شاہ)
کسی دانا کی یہ بات بالکل سچ ہے کہ’’ غربت ختم ہوجاتی ہے لیکن بعض لوگوں میں احساس غربت ختم نہیں ہوتی۔‘‘
احساس غربت ختم نہ ہونے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ایسے لوگوں کا دل انتہائی تنگ ہوتا ہے۔ ایسے لوگ اگر زندگی میں کامیاب ہوجائیں اور دنیا جہاں کی دولت سمیٹ لیں لیکن دل کی تنگی کی وجہ سے یہ دولت نہ ان کے اپنے کام آتی ہے نہ معاشرے کے کسی دوسرے فرد کے، ایسے لوگوں کا رزق پھر چیونٹیاں کھا جاتی ہیں اور مرتے وقت یہ لوگ اپنامال و دولت چھوڑ جانے کی حسرت لیے اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام نے بھی مال کی فروانی سے زیادہ دل کی کشادگی پر زور دیا ہے، کیوں کہ تنگ دلوں میں نہ اللہ رہتا ہے اور نہ ہی اللہ کی مخلوق۔

دوسری طرف جس انسان دل کا کھلا ہوتوا س کا ہاتھ بھی کھلا ہوتاہے اور دل کی اسی کشادگی کی وجہ سے اس کا ذہن بھی کھل جاتاہے،لیکن جو شخص پیسوں کودل میں جگہ دے دیتاہے اور اس کو اپنی سانس بنالیتاہے تو پھر ایک روپیہ خرچ کرنے سے بھی اس کی جان جاتی ہے اور اس کا شمار دنیا کے ان غریبوں میں ہوتاہے جن کے پاس صرف پیسہ ہے۔یہ ذہنی غربت کی نشانی ہے اور یادرکھیں کہ ذہنی غربت ، مال ودولت کی غربت سے زیادہ خطرناک ہے۔
آج کی تحریری نشست میں ہم ذہنی غربت اوراس کی چند نشانیاں آپ کے سامنے ذکر کریں گے۔

(1)احساس زیاں سے محرومی
ذہنی غربت کی پہلی نشانی نقصان کااحساس نہ ہوناہے۔ہر وہ شخص جو زندگی کی قدر نہیں کرتا اور اپنے قیمتی وقت کو بے مقصد کاموں میں خرچ کرتاہے تووہ ذہنی غربت ہے۔ایسے انسان میں احساس زیاں نہیں ہوتا، اس کو یہ فکر بالکل نہیں ہوتی کہ میرا کتناقیمتی سرمایہ ضائع ہورہاہے،حالانکہ وقت اس قدر قیمتی چیز ہے جس کی قسم اللہ تعالیٰ بھی اٹھاتا ہے لیکن ذہنی غربت کا شکار انسان اس قیمتی دولت کی کوئی پرو ا نہیں کرتا۔

آپ نے کرکٹ میچ تو دیکھا ہی ہوگا۔اسٹیڈیم میں ہزاروں لوگ موجود ہوتے ہیں لیکن گرائونڈ میں اتر کرکھیلنے والے چند ہی ہوتے ہیں۔اب ایسا شخص جس کو اچھے طریقے سے کرکٹ کھیلنا بھی نہیں آتا لیکن پھر بھی وہ پیسے خرچ کرکے ٹکٹ لیتاہے اور اپنا وقت نکال کر میچ دیکھنے جاتاہے۔ یہ ذہنی غربت کی نشانی ہے،کیوں کہ اس عمل کا اسے کوئی فائدہ نہیں ، وہ اپنے جس فیورٹ کھلاڑی کو دیکھنے جارہاہوتاہے وہ تواس میچ کا لاکھوں روپے معاوضہ لے رہا ہوتاہے اور اس کو کوئی پروا نہیں ہوتی کہ اسے دیکھنے کون کہاں سے آرہا ہے۔یہ اس کا پیشہ ہے لیکن ذہنی غربت کا حامل شخص اس حقیقت کو جاننے کے باوجود بھی شخصیت پرستی میں اس قدرکھوجاتاہے کہ اپنا قیمتی وقت اور پیسہ ضائع کردیتاہے۔

ذہنی غربت والا انسان صرف گیم دیکھتا ہے ، کھیلتا نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج آپ کو معاشرے میں بہت سارے لوگ صرف دیکھنے والے ملیں گے کرنے والے نہیں ۔آپ نے اگرواقعی زندگی میں کچھ بڑا کرنا ہے تو پھرتماشائی نہ بنیںبلکہ کھلاڑی بنیں۔

(2)ہائی جیکنگ
ذہنی غریب انسان مادی چیزوں کے ہاتھوں بہت جلد ہائی جیک ہوجاتاہے۔
آج کل چوں کہ سوشل میڈیاکا دور ہے تو ایسا شخص آپ کو ہر وقت بلامقصد سوشل میڈیا پر موجود نظر آئے گا۔وہ ہر دوسرے فرد سے جھگڑا کرے گااورہر کمنٹ کاجواب دے گا۔وہ ان لوگوں سے بڑا متاثر ہوگا جو سوشل میڈیاپرفین فالونگ رکھتے ہیں یا پھر ٹی وی اسکرین پر نظر آتے ہیں۔واضح رہے کہ ٹی وی دیکھنا اور ٹی وی پر آنا دونوں میں فر ق ہے۔ذہنی غریب انسان اپنی زندگی میں کوئی محنت نہیں کرتااور نہ ہی خودکو اس قابل بناتاہے کہ وہ ٹی وی اسکرین تک پہنچے لیکن جو لوگ ٹی وی پرآتے ہیں، انھیں دیکھتا ہے اور ان کی محبت میں دوسروں سے لڑائی جھگڑا بھی کرلیتاہے۔

میں تسلیم کرتاہوں کہ سوشل میڈیا آج کی ایک بڑی حقیقت ہے لیکن سمجھ داری کا تقاضا یہ ہے کہ مجھے اس سے صرف اتنا ہی تعلق رکھنا چاہیے جتنی میری ضرورت ہے۔میں اس کو اپنا مقصد حیات نہیں بناسکتا۔جیسے میرے پاس اگرگاڑی ہے تو مجھے صرف ڈرائیونگ پرتوجہ دینی چاہیے ،اگرمیں اس کا ریڈی ایٹر صاف کرنے لگ جائوں یاپھر اس کا ٹائرنکال کر پنکچر لگانے لگ جائوں تویہ اپنے وقت اور توانائی کو ضائع کرنے والی بات ہے۔یہ میرا کام نہیں ہے بلکہ اس کے لیے مخصوص لوگ موجود ہیں جو مجھ سے زیادہ بہترطریقے سے یہ کام کرسکتے ہیںلیکن ذہنی غریب انسان اس فلسفے کے الٹ چل رہاہوتاہے ۔وہ ہر اس کام میں ہاتھ ڈالتا ہے جس کا کوئی فائد ہ نہیں ہوتا۔وہ اپنی ذہنی اور جسمانی توانائیوں کو بڑی بے دردی کے ساتھ ضائع کرتاہے جبکہ اس کے برعکس ’’ذہنی مالدار انسان‘‘ ایک مقصد کے ساتھ جیتا ہے اورہر اس چیز سے دور رہتاہے جو اس کے وقت اور توانائی کو ضائع کردے۔

(3)سستی
ذہنی غربت کاشکارشخص آپ کو سستی اور کاہلی کامظاہرہ کرنے والاملے گا۔یہ لوگ بروقت قدم نہیں اٹھاتے۔یہ مناسب وقت کابہانہ بناکر سوئے پڑے رہتے ہیں۔یہ آپ کو’’سوچتے ہیں، دیکھتے ہیں ، ابھی وقت نہیں آیا‘‘ جیسے الفاظ استعمال کرتے ہوئے دکھائی دیں گے اور اسی چکر میںیہ لوگ بہترین مواقع کو گنوادیتے ہیں اور پھر ٹسوے بہاکر روتے ہیں۔

مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہے کہ میرے اندر شروع ہی سے ذمہ داری کا بھرپور احساس رہا ہے۔میں یونیورسٹی کا طالب علم تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ٹیوشنز بھی پڑھایاکرتا تھا اور 2001میں ماہانہ ایک لاکھ سے اوپر کماتا تھا۔کیوں کہ مجھے معلوم تھا کہ میرے پاس وقت بھی ہے توانائی بھی ہے اور ایک بہترین موقع بھی۔جبکہ آج کل کے طلبہ پڑھنے کے دوران تو والدین سے پیسے مانگتے ہی ہیں،افسوس تو اس بات کا ہے کہ ڈگری لینے کے بعد بھی وہ والدین کے بھروسے زندگی جی رہے ہوتے ہیں اور اپنا خرچہ اٹھانے کے لیے کوئی چھوٹا موٹاکام بھی نہیں اپناتے۔یادرکھیں کہ اپنی زندگی کی ذمہ داری خود نہ اٹھانے والا شخص کبھی بڑا انسان نہیں بنتا۔

ذہنی غریب انسان سے اگر آپ پوچھیں کہ ڈگر ی کے بعدکیا کرنا ہے تو وہ کہے گا:’’میرے ماموں انگلینڈ میں ہوتے ہیں ،وہ مجھے بلائیں گے تو میں باہر چلاجائوں گاورنہ پھر دیکھیں گے ‘‘۔جبکہ ذہنی مالدار انسان محنت و مشقت کا عادی ہوتاہے۔وہ اپناوقت ضائع نہیں کرتااور نہ ہی وہ دوسروں کے سہارے اپنی زندگی جیتاہے۔وہ اپنا سفر جلد سے جلدشروع کرتاہے اور اسی وجہ سے وہ باقی لوگوں سے آگے بڑھ جاتاہے۔

ذہنی غریب انسان کو ہر وقت نوکری کی فکر ہوتی ہے جبکہ ذہنی مالدارانسان نوکری کی فکر نہیں کرتا، وہ زندگی میں کچھ بڑا کرنے کی کوشش کرتاہے اورنوکری لینے کے بجائے نوکریاں دینے والابنتاہے۔

(4)الزام تراشی
ہر ذہنی غریب شخص آپ کو دوسروں پر الزام لگانے والا ملے گا۔ وہ انسانوں سے ، معاشرے سے ، ملک کے نظام سے الغرض ہر چیز سے شکایت کررہاہوتاہے۔وہ خود کچھ نہیںکرتا، اپنے حصے کی شمع روشن نہیں کرتالیکن دوسروں پر تنقید اور الزام تراشی ضرورکرتاہے۔یادرکھیں کہ دوسروں کو موردِالزام ٹھہرانے والا شخص زندگی میں کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتا۔ کامیابی کا پہلا اصول ہی یہ ہے کہ آپ نے اپنی ذمہ داری خود اٹھانی ہے۔آپ نے محنت کرنی ہے ، اپنی محنت سے آپ کامیاب ہوتے ہیں یا پھر ناکام دونوں صورتوں میں آپ خودکو ذمہ دارسمجھتے ہیں۔

(5)دِکھاوا
ذہنی غریب انسان ہر وقت دکھاوے کی فکر میں ہوتاہے۔وہ اپنے پا س موجود چیزوں کی نمود ونمائش کرواناچاہتاہے۔وہ چاہتاہے کہ لوگ مجھے محسوس کریں ، میری طرف توجہ دیں اور میں نے جوکپڑے پہنے ہیں، جو گھڑی میرے ہاتھ میں ہے یا جو موبائل میرے پاس ہے ، لوگ اس پر واہ واہ کریں۔ایسا شخص معمولی گاڑی خرید کر اس کے پیچھے جوتالٹکائے گااور’’ ماں کی دُعا ،جنت کی ہوا‘‘لکھوائے گاجبکہ اس کے برعکس ذہنی مالدار انسان کو’ شوآف‘ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔اس کا کام ہی اس کا دِکھاوا ہوتاہے۔

(6)حسد
ذہنی غریب انسان چیزوں کو ہمیشہ منفی زاویے سے دیکھتا اور دوسروں کے لیے اپنے دل میں حسد رکھتاہے۔ہر کامیاب شخص کے بارے میں اس کاموقف یہ ہوتاہے کہ یہ دھوکا دہی سے کامیاب بنا ہے،اس میں اپنی کوئی محنت شامل نہیں۔وہ حقیقی کامیاب کہانیوں کے بارے میں بھی کہتاہے کہ بس ان کاتو دائو لگ گیا ہے،ان کااپنا کوئی کمال نہیں۔

اس طرح کارویہ ہمارے معاشرے میں عام ہے۔یہاں لوگ امیر آدمی کے پیچھے باتیں کرتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ وہ امیربننابھی چاہتے ہیںجبکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان جس سے نفرت کرتاہے اس جیساکبھی بھی نہیں بن سکتا۔کسی انسان جیسا بننے کے لیے محبت شرط ہے۔ہمارا معاشرہ بھی کامیاب اس لیے نہیں ہورہا کہ یہ کامیاب ہوناتو چاہتاہے لیکن کامیاب لوگوں سے نفرت بھی کرتاہے۔

(7)کام کی عزت
ذہنی غریب انسان ہمیشہ اپنے کام کو بوجھ سمجھتا ہے۔وہ ’بڑے‘ اور ’چھوٹے‘ کے ترازو میں کاموں کو تولتاہے۔جس کام کو وہ چھوٹا سمجھتا ہے تو اس کو کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتاہے،جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی بھی کام چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے نیت چھوٹی یا بڑی ہوتی ہے ۔پھر چاہے وہ کسی مسجد یاخانقاہ میں لوگوںکے جوتے ٹھیک کرناہی کیوں نہ ہو،اگر اس کے پیچھے نیت خالص ہو تو اللہ کے ہاں یہ عمل مقبول ہے لیکن اگرکوئی شخص منبر پر بیٹھ کر دین کی خدمت کررہاہے اور اس کی نیت ٹھیک نہیں تو یہ عمل کسی کام کا نہیں۔

ذہنی مالدار انسان ہمیشہ اپنے کام سے محبت اور اس کی عزت کرتاہے۔وہ اس کو اللہ کا انعام سمجھتا ہے اور چھوٹے سے چھوٹے کام کو بھی کرنے سے شرماتانہیں۔باہر ممالک میں ہرشخص چاہے وہ عام ہے یا خاص، اپنے سارے کام خود کرتاہے چنانچہ گوگل جیسی بڑی کمپنیوںکے سی ای اوز بھی اپنے کپ میں کافی بھرکرخود لاتے ہیں، اپنا بریف کیس اور چھتری خود اٹھاتے ہیں اور اس کوعیب بالکل نہیں سمجھتے۔

میں ایک بارپھر یاد دلادوں کہ غربت ختم کی جاسکتی ہے لیکن احساس غربت نہیں۔اس لیے ہمیشہ اپنا دل کھلا رکھیں ، اپنی زندگی کا مقصد ڈھونڈیں اور اس کے مطابق جئیں۔الزام تراشی سے بچیں اور اپنی کامیابی یاناکامیابیوںکا ذمہ خود اٹھائیں ،دکھاوے اور حسد کی آگے سے خود کو پاک کریں تاکہ آپ کے لیے راستے کھل جائیں اور جو بھی کام آپ کررہے ہیں اس کو بھرپور عزت دیں تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی عزتوں سے نوازے۔

25/11/2022

Yummy Recipes

23/11/2022

Delicacies

04/09/2022

Crispy Fried Chicken Drumsticks Recipe by Chef Aleena
https://youtu.be/maG5pysd8rc

04/09/2022

Crispy Fried Chicken Drumsticks Recipe by Chef Aleena

01/07/2022

Most Delicacies Mango Milkshake With Vanilla Ice cream Recipe.....
Clik On The Link👇
https://youtu.be/ifgAo7ApBQs

Photos from Chef Aleena's post 20/06/2022

Hot Spicy Pakora Recipe.....Coming Soon....

16/06/2022

Mango squash
https://youtu.be/3kJaqpcOmG0

11/06/2022

amazing and atractive idea

Photos from Chef Aleena's post 03/06/2022

New cake idea for cake lovers......
Click on the link 👇
https://youtu.be/GodfEuEJOqs

26/05/2022

CREAM DOUGHNUTS RECIPE | HOMEMADE CREAM ...By Chef

24/05/2022
21/05/2022

Ice cream recipe by chef
https://youtube.com/shorts/afagLuDoBbE?feature=share

19/05/2022

Brown Bread Easy Recipe by Chef👇

https://youtu.be/WzfLT4Y1FVA

11/05/2022

Easy Pizza Twists by chef

06/05/2022

Popcorn Recipe - Homemade Popcorn On Stove - How to make ...by chef

26/04/2022

Lucky milkshake by chef || Jam-e-shirin sarbat

24/04/2022

Homemade pizza by chef

22/04/2022

IF you want new biryani recipe Click on this link 👇
https://youtu.be/KkLZeAc_f-E

Want your business to be the top-listed Home Improvement Business in Peshawar?
Click here to claim your Sponsored Listing.

Videos (show all)

Easy peach juice by Chef Aleena #juice #peach #easyrecipes
Easy Pulao Recipe By Chef Aleena #pulao #ricerecipe .This is so easy and fast making pulao recipe......no time taking .....
Crispy Fried Chicken Drumsticks Recipe by Chef Aleena
Mango Milkshak #mango #milkshake
Cup cake idea
CREAM DOUGHNUTS RECIPE | HOMEMADE CREAM ...By Chef..#food #foodporn #foodie #instafood #foodphotography #foodstagram #yu...
Luke milkshake by chef
Pizza twists
Popcorn Recipe - Homemade Popcorn On Stove - How to make ...by chef #shorts
Lucky milkshake by chef || Jam-e-shirin sarbat..#food #foodporn #foodie #instafood #foodphotography #foodstagram #yummy ...
Homemade pizza by chef #shorts ..#food #foodporn #foodie #instafood #foodphotography #foodstagram #yummy #foodblogger #f...

Category

Website

Address

Peshawar

Other Kitchen supplies in Peshawar (show all)
360 Devotion 360 Devotion
City Town
Peshawar, 25000

If you are looking for the perfect place for home decor, home improvements and kitchen gadgets you are at the right time in the right place 360 Devotion uploading the most interest...

Chilli Milli Roast Chilli Milli Roast
Peshawar

New, simple and innovative cooking ideas https://youtube.com/channel/UCK8uzhjvJkt4IEor4FrsFBQ

Satar Cookings Satar Cookings
Peshawar

Welcome to my page follow me

Abdul Basit Marketer Abdul Basit Marketer
Peshawar, 25120

I am a Facebook Ad Expert.

Cooking With Rahid Cooking With Rahid
Khyber Pakhtunkhwa
Peshawar, 25000

Cooking and New Recipes

Super Melamine ware -SMW Super Melamine ware -SMW
Industrial Estate Peshawar Hayatabad
Peshawar, 2500

Behind The Sauce Behind The Sauce
Peshawar

-Hey! Let us talk about food all day! �

Asan pakwan with Nasreen Asan pakwan with Nasreen
Peshawar

Easy to cook desi foods

Apka Kitchen Apka Kitchen
Gulberg 1, Saddar
Peshawar, 25000

Home & Kitchen Appliances Home & Kitchen Appliances
Naudeh Payan Custom Chowk Kajoor Masjid (Farhan Shop) Peshawar (kpk Pakistan)
Peshawar, 24651

We sell Home and kitchen products on our page. If you want to buy our products. So Visit our page to get Best products on this page and shop now online.

Apka Kitchen Apka Kitchen
Khyber Super Market
Peshawar, 25000

Now you can find the best kitchen product that will make work easy and smother for you