Dr. Asim Raza
There is no greater wealth than wisdom, no greater poverty than ignorance; no greater heritage than
*دلچسپ جملے،
حجّام کی دوکان پر ایک سلوگن پڑھا.۔۔۔۔۔
"ہم دِل کا بوجھ تو نہیں لیکن سر کا بوجھ ضرور ہلکا کر سکتے ہیں۔"🤣
لائٹ کی دوکان والے نے بورڈ کے نیچے لکھوایا....
"آپکے دِماغ کی بتی بھلے ہی جلے یا نہ جلے، مگر ہمارا بلب ضرور جلے گا"😁
چائے والے نے اپنے کاؤنٹر پر لکھوایا.....
"میں بھلے ہی عام ہوں مگر چائے اسپیشل بناتا ہوں"۔😄
ایک ریسٹورینٹ نے سب سے الگ فقرہ لکھوایا......
"یہاں گھر جیسا کھانا نہیں ملتا، آپ اطمینان سے تشریف لائیں۔"😊
الیکٹرونک دوکان پر سلوگن پڑھا تو میں دم بہ خود رہ گیا...
"اگر آپ کا کوئی فین نہیں ہے تو یہاں سے لے جائیں۔"😅
گول گپے کے ٹھیلے پر ایک سلوگن لکھا تھا.....
"گول گپے کھانے کے لئے دِل بڑا ہو نہ ہو، منہ بڑا رکھیں، پورا کھولیں۔"😂
پھل والے کے یہاں تو غضب کا فقرہ لکھا دیکھا....
"آپ تو بس صبر کریں، پھل ہم دے دیں گے۔"😔🤪
گھڑی کی دوکان پر بھی ایک زبردست فقرہ دیکھا...
"بھاگتے ہوئے وقت کو اپنے بس میں رکھیں، چاہے دیوار پر ٹانگیں، یا ہاتھ پر باندھیں۔"😁
بالوں کی ایک کمپنی نے تو اپنے ہر پروڈکٹ پر لکھ دیا ھم بھی بال بال بچاتے ھیں😆
اور ایک دندان ساز پر سلوگن پڑھا تو میں دم بہ خود رہ گیا
دانت کوئی بھی توڑے لگا ہم دیں گے🤪
آرتھوپیڈک سرجن کے کلینک کے باہر لکھا تھا۔۔۔
ٹوٹےہوۓدل نہ سہی، ٹوٹی ہوئ ہڈیاں جوڑ دیں گے۔
چٹائی بیچنے والے نے کہا 900 روپے میں خریدیں ۔ ساری عمر بیٹھ کر کھائیں ۔۔
ایک دوکان میں لکھا دیکھا😅
دوکان کے اوقات کار:
صبح 9 سے شام 6 تک،
ہم اپنی اوقات میں رہتے ہیں........
Same situation now a days........
Speeny Speeny ma waya.......
میں ڈاکٹر ہوں اور یہ میری غلطی نہیں ہے۔
میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ جب بھی اسپتالوں میں کچھ غلط ہوجاتا ہے تو ، ڈاکٹروں کو ہمیشہ اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ کوئی بھی نہیں سمجھتا ہے کہ ہسپتال انتظامیہ ، ڈاکٹروں ، پیرا میڈیکل اسٹاف سمیت بہت سے لوگوں کے زیر انتظام چلتا ہے جس میں نرسیں ، کارکن ، ٹیکنیشن وغیرہ شامل ہیں۔ ڈاکٹر کا کام صرف مریض کا علاج کرنا ہے۔ آپ کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے!
میں ڈاکٹر ہوں اور یہ میری غلطی نہیں ہے۔
🔸اگر آپ اپنے مریض کو بہت دیر سے لاتے ہیں تو ، یہ میری غلطی نہیں ہے۔
🔸اگر آکسیجن پورٹ کام نہیں کرتا ہے تو ، یہ میری غلطی نہیں ہے۔
🔸اگر وہیل چیئر ناقص ہے ، تو یہ میری غلطی نہیں ہے۔
🔸اگر آپ کے بستر پر دوگنا ہو تو ، یہ میری غلطی نہیں ہے۔
🔸اگر ہسپتال فارمیسی میں دوا دستیاب نہیں ہے تو ، یہ میری غلطی نہیں ہے۔
🔸اگر آپ فارمیسی سے مفت دوائیں نہیں پاسکتے ہیں تو ، یہ میری غلطی نہیں ہے۔
🔸اگر آپ جو واش روم استعمال کرتے ہیں وہ گندا ہے تو ، یہ میری غلطی نہیں ہے۔
🔸اگر آئی سی یو میں کوئی بستر دستیاب نہیں ہے تو ، یہ میری غلطی نہیں ہے۔
🔸اگر 15 مریضوں کے لئے ایک ڈاکٹر ہے تو ، یہ میری غلطی نہیں ہے۔
🔸اگر اکثر اوقات ایکس رے مشین فنی خراںی سے کام نہیں کر رہی ہے تو ، یہ میری غلطی نہیں ہے۔
🔸اگر آپ نسخے کی صحیح پیروی نہیں کرتے ہیں تو ، یہ میری غلطی نہیں ہے۔
🔸اگر آپ خود سے اینٹی بائیوٹک استمعال کرکے اپنے اندر اس دوائ کی مزاحمت پیدا کر چکے ہیں آپ مزاحم بن چکے ہیں تو ، یہ میری غلطی نہیں ہے۔
🔸اگر آپ کو آپریشن کیElective List کیلے چھ ماہ تک ویٹنگ لسٹ میں رکھا جاتا ہے تو ، یہ میری غلطی نہیں ہے۔
اب یہ الزام وہاں لگانے کا وقت آگیا ہے جہاں سے اسکا تعلق ہے ۔
فراڈ ۔۔۔۔۔
بہت سے امراض میں مریضوں کےساتھ فراڈ کیا جاتا ہے ۔میں اس پر بہت سے ارٹیکلز پڑھ چکاہوں ۔اور آنے والے مریضوں کو ترغیب بھی دیتارہتا ہو۔ یہ رپورٹ آپ بھی پڑھ لیجے
(اس مضمون کو پڑھنے کے بعد یقینی طور پر سمجھ میں آجاٸے گا۔اور آپ یہ جان کرحیران ھوں گے
کہ کیسے آپ کو ”دو دونی آٹھ“ کے اس مکڑ جال میں ھمیشہ کیلٸے پھنسا دیا جاتا ھے۔)
میں آپ کو 1975 کے اس زمانے میں لے جاتا ھوں جہاں دنیا کی ٹاپ دس کمپنیوں میں سے دوسرے نمبرکی کمپنی MERCK کی بات کریں گے۔اس کمپنی کے CEO کا نام تھا ”HENRY GODSON“۔جس کا کہنا تھا:
”انکے دل میں ایک ہی تکلیف ھیکہ دنیا میں صرف ”مریض“ ھی انکی کمپنی کی تیار کردہ پروڈکٹ کا استعمال کر پاتے ھیں“۔
”وہ اس دن کا خواب دیکھ رھے تھے جب وہ دنیا کے تمام صحت مند طبقے کو بھی اپنی پروڈکٹس بیچ سکیں گے“۔
اس کا مطلب یہ ھوا کہ وہ چاھتے تھے: ”ساری دنیا بیمار پڑ جاٸے یا بیمار نہ بھی پڑے پھر بھی انکے پروڈکٹس ضرور بکیں“۔
جیسے کہ: ”چیونگم“۔ دنیا میں ھر انسان اسے چبانا پسند کرتاھے، چاھے وہ چھوٹا ھو یا بڑا۔بیمار ھو یا صحتمند۔
اسی طرح دنیا کی سبھی دوا کمپنیاں یہی چاھتی ھیں کہ:
”انکی دواٸیں دنیا کے سبھی لوگ باربار لیں۔“
یہ ثابت کرنے کے لٸےآپ کچھ مثالیں دیکھٸے:
فرض کیجٸے، کہ آپ کو نیند نہیں آرہی ھے۔ بھلے ھی اس کا سبب کچھ بھی ھو۔لیکن آپ نیند لانے والی دوا کھا لیتے ھیں۔آپ لگاتار اسی عمل کو جاری رکھتے ھیں اور کچھ عرصہ بعد نوبت یہ آ جاتی ھیکہ آپ کو نیند کی دوا کھاٸے بغیر نیند آنی ھی بند ھو جاتی ھے۔
اسی طرح، اگر آپ کو depression ھے تو کچھ دن تک ”ڈپریشن“ کی دوا کھانے کا اثر ایسا ھوگا کہ آپ انو”گولیوں“ کے نہ کھانے پر خود کو ”ڈپریشن“ سے گھِرا پاٸیں گے۔ایسا لگے گا کہ آپ کی زندگی میں کوٸی کمی سی ھے۔اسی طرح، اگر آپ کو ڈاٸبٹیز کی شکایت نہیں ھے اور پھر بھی آپ ”ڈاٸبٹیز“ کنٹرول کرنے کیلٸے دوا لیتے ھیں تو کچھ ھی دنوں میں آپ اس پر منحصر ھو جاٸیں گے۔
یہ سب ”کورے قصے“ نہیں ھیں۔GLAXO SMITHKLINE نام کی ایک بڑی دوا ساز کمپنی ڈاکٹروں کو مسلسل 20 سالوں تک رشوت دیتی رہی، تاکہ انکی دواٸیں زیادہ سے زیادہ صحت مند لوگوں کو دی جاٸیں۔ شاید وہ جانتے تھے کہ اگر ان کی دواٸیں صحتمند لوگوں کو بھی دی جاٸیں گی تو کچھ ھی دنوں میں بہت سے لوگ ان پر منحصر ھو جاٸیں گے۔ان کی دواٸیوں کے بغیر لوگوں کا کام نہیں چلیگا۔پورے 20 سال بعد ان کی یہ”ناپاک سازش“ بے نقاب ھوتی ھے اور 20 جولاٸی 2010 میں لوگوں کواس بات کا پتہ چلتا ھے۔اسوجہ سے اس کمپنی کو 16 ھزار کروڑ روپیہ سے بھی زیادہ کا جرمانہ دینا پڑا۔
سوال یہ پیدا ھوتا ھیکہ کیاصرف جرمانہ بھر دینے سے ھی وہ اس”اخلاقی جرم“ سے بَری ھو گٸے، جو انھوں نے انسانی برادری کے خلاف کیا تھا؟
صرف یہی ایک مثال نہیں ھے، جب دوا کمپنیوں نے اپنا منافع کمانے کے مقصد کو سب سے آگے رکھتے ھوٸے باقی دوسری چیزوں و ذمہ داریوں کو بالاٸے طاق رکھ دیا ھو۔ان کا کسی کی بھی”صحت“ سے کوٸی لینا دینا نہیں ھے۔وہ صرف بیماریوں کو بڑھاوا دینا چاھتے ھیں۔ وہ چاھتے ھیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ بیمار پڑیں اور تا عمر بیماری کی چپیٹ میں مبتلا رھیں۔اسی میں تو ان کا منافع اور فاٸدہ ھے، کمپنیاں چلیں گی تو وہ مالا مال ھونگے۔
میں مثال کے طور پر کچھ مرض کے متعلق بتاتاھوں:-
* ڈاٸبیٹیز (DIABETES): 1997 تک یہ مانا جاتا تھا کہ ”فاسٹنگ بلڈشوگر“ 140 mg/dl ھے تو آپ DIABETIC ھو سکتے ھیں۔ لیکن 1997 میں ڈبلیو ایچ او (world health organisation) نے اسے revise کرنےکیلٸے ایک کمیٹی بناٸی، جس کا نام:-
Expert Committee On Diagnosis & Classification Of Diabetes“
رکھا۔اس کمیٹی نے یہ رپورٹ دی کہ اسے 140mg/dl سے کچھ کم کر دی اجاٸے، اور اس کے بعد اسے 126mg/dl کر دیا گیا۔اس کا مطلب یہ ھوا کہ راتوں رات لاکھوں کروڑوں افراد جو کل تک Diabetes کے مریض نہیں تھے، اگلی صبح کا اخبار پڑھتے ھی ڈاٸبیٹیز کے مریض بن گٸے۔ کل ملا کر دنیا کے 14 فی صدی لوگ جو Diabetic نہیں تھے وہ Diabetes کے گھیرے میں آگٸے۔ غور طلب ھے کہ WHO نے 17 لوگوں کی جو Expert committee بناٸی تھی ان میں سے 16 لوگ Diabetes کی دواٸیاں بنانے والی کمپنیوں کے ایجنٹ، مشیر اور ترجمان تھے اور ان میں سے کٸی تو ان کے ساٸنس داں بھی تھے، جنہیں باقاعدہ کمپنی کی جانب سے اجرت دی جاتی تھی۔ان کمپنیوں کے نام درج ذیل ھیں:-
Aventis pharmaceuticals,
Bristol-Myors Sqibb
EliLilly
GlaxoSmithkline
Novartis
Merck
Pfizer.
اب سوچا گیا کہ Fasting sugar 126mg/dl سے کم ھے، تو ان کو گھیرے میں کیسے لایا جاٸے؟ تب ایک Term لانچ کیا گیا اور اس کا نام دیا گیا: ”pre-diabetic“
یعنی ”ڈاٸبیٹیز“ سے پہلے کا Step، اور یہ کہا گیا کہ ڈاٸبیٹیز سے پہلے Fasting Blood Sugar اگر 126mg/dl سے کم ھے تو اسے pre-diabetic کہیں گے۔ یعنی اب کچھ اور لوگ اس گھیرے میں آ گٸے۔یعنی کل تک جو لوگ Diabetic نہیں تھے اب وہ Pre diabetic term کے حساب سے Diabetic ھو گٸے۔
* ھاٸپرٹنشن (Hypertension):
ایسا ھی کچھ ”ھاٸیپرٹنشن“ کے ساتھ بھی ھوا۔ 1977 میں ھی WHO نے ایک Panel بنایا جس کے مکھیا"
DR ALBERTO JAINCHETTI
تھے۔ان کی مدد سے 11 لوگوں کی کمیٹی تشکیل دی گٸی-جس کا کام تھا 1997 تک Systolic Hyper tension کی حد کو 160mmhg سے گھٹا کر 140mmhg کر دیا جاٸے۔
اور Diastolic Hypertension جو 100 mmhg تھا اسے 90mmhg کر دیا جاٸے۔یعنی راتوں رات 35 فیصد لوگ جو کل تک-Hyper tension کے شکار نہیں تھے، آج اچانک Hypertension کے مریض بن گٸے۔اس”کار خیر“ کو انجام دینے والے ان 11 لوگوں کے بارے میں پتہ کیا گیا تو معلوم ھوا کہ ان میں سے 9 لوگ یا تو Hypertension کی دواٸی بنانے والی کمپنی کے ترجمان، مشیر یا ساٸنسداں ھیں یا کسی نہ کسی شکل میں اس سے جڑے ھیں۔
THE JOURNAL OF AMERICAN ASSOCIATION
کے ذریعہ یہ رپورٹ جاری کی گٸی ھے۔)
اب سوال یہ پیدا ھوا کہ جنکا بلڈ پریشر 140mmhg سے کم ھے، انہیں گھیرے میں کیسے لیں؟ تب اسی کمیٹٕی نے ایک نٸے Term کو یہ نام دیا:
”PRE-HYPERTENSION“
یہ طے کیا گیا کہ جنکا سسٹولک بلڈ پریشر 120mmhg سے اوپر ھے اور ڈاٸسٹولک بلڈ پریشر 80mmhg سے اوپر ھے، انہیں ”PRE-HYPERTENSION“ کہہ دیں گے۔ایسا ھونے کے بعد CIEATAL TIMES نیوز پیپر کے مطابق ”دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی یا تو HYPERTENSION کا شکار ھو گٸی یا پھر PRE-HYPERTENSION کے گھیرے میں آگٸی“۔
CHOLESTEROL :-
ٹھیک اسی طرح اب ھم CHOLESTEROL کی بات کرتےھیں۔1998 تک کولسٹرول 240hg/dl سے اوپر چلے جانے سے HIGH کولسٹرول مانا جاتا تھا۔ لیکن 1998 میں ”ورلڈ ھیلتھ آرگناٸز یشن“ نے ” TEXAS CORONARY ATHEROSCLEROSIS STUDY"
نام سے ایک پینل بنایا، جس کا کام تھا کہ CHOLESTEROL LEVEL کےطریقے و ضابطےکو نٸے سرے سے پیش کیا جاٸے۔
اسی سال 1998 میں کولسٹرول لیول کے طریقے و ضابطے کو 200hg/dl کر دیا گیا اور یہ اعلان کر دیا گیا کہ جن لوگوں کا کولسٹرول لیول 200hg/dl سے اوپر ھے، وہ ھاٸی کولسٹرول کا شکار مانے جاٸیں گے۔ %56 لوگ جواب تک صحت مند تھے، ضابطہ بدلتے ھی ھاٸی کولسٹرول کے مریض بن گٸے۔
OSTEOPIROSIS:-
اسی طرح OSTEOPOROSIS کا معاملہ ھے۔ 2003 میں WHO نے نیا PANEL ”نیشنل آسٹیو پوروسس فاٶنڈیشن“
(NATIONAL OSTEOPOROSIS FOUNDATION)
بٹھایا۔ اس پینل کو بھی آسٹیوپروسس کے ضابطوں پر نٸے سرے سے غور و خوز کرنے کو کہا گیا۔ 2003 سے قبل 2.5- سے کم T SCORE والے کو آسٹیو پوروسس کا مریض بتایا جاتا تھا، لیکن 2003 میں اس پینل نے T-SCORE کا لیول 2.5- سے گھٹا کر 2.0- کر دیا جس سے تقریباً%85 دیگر لوگ بھی آسٹیو پوروسس کےگھیرے میں آگٸے۔
اس طرح اکثر و بیشتر امراض کی آخری حد کو کم کر دیا گیا تاکہ کثیر تعداد میں لوگ مریض بن جاٸیں۔ اور بتانے کی قطعی ضرورت نہیں کہ مریضوں سے صرف اسپتالوں، فارما سیوٹیکل کمپنیوں و ان سے جڑے افراد کو ھی فاٸدہ ھوتا ھے۔
اب آگے دیکھٸے کہ امراض کی گاٸڈ لاٸن کیسے بنتی ھے؟
1948 میں UNO نے WHO کی بنیاد رکھی۔ جس کا کام تھا دنیا میں ھیلتھ سے جڑے اداروں و ضابطوں کو قاٸم کرنا اور انہیں اپنی بہتر حالات تک پہنچانا۔ دنیا میں جن جن امراض سے زیادہ لوگ مر رھے ھیں، WHO ان پر رسرچ کرتی ھے۔ پھرکچھ چنندہ میڈیکل یونیورسٹی جیسے: آکسفورڈ یونیورسٹی، ھارورڈ یونیورسٹی، ٹورنٹو یونیورسٹی، کیمبرج یونیورسٹی وغیرہ سے DATA & FEEDBACK لیتی ھے کہ کون سی بیماری زیادہ ”جان لیوا“ ثابت ھو رھی ھے۔اور اسی کے مطابق ”پینل“ بنایا جاتا ھے۔اکثر یہ”پینل“
PHARMACEUTICAL COMPANIES
کے ذریعہ SPONSORED ھوتی ھیں۔ یعنی کہ ”پینل“ کے ممبران PHARMA COMPANY کے ھی EMPLOYEES ھوتے ھیں۔ اس کا مطلب یہ ھیکہ”پینل کے ذریعہ تیار کردہ GUIDELINES چاھے وہ ”ھاٸپرٹینشن“ کی ھوں یا ”کولسٹرول“ کی یا پھر ”آسٹیو پوروسس“ کی، وہ ھمیشہ دوا کمپنیوں کےحق میں ھی ھوتی ھیں۔
ایک بار گاٸڈ لاٸنس بن جانےکے بعد انہیں ڈاکٹر تک پہنچانے کا کام یا ”پوسٹ مین“ بننے کا کام ”دوا کمپنیوں“ کے”میڈیکل ایجنٹ“ کرتے ھیں۔یا آٸے دن منعقد ھونے والی ”میڈیکل کانفرنس“ کے ذریعہ دنیا بھر میں مشتہر کیا جاتا ھے۔اور پھر ڈاکٹر انہیں ”مریضوں“ تک ، یعنی آپ تک پہنچاتے ھیں۔
ڈاکٹروں اور ورلڈ ھیلتھ آرگنا ٸزیشن (WHO) کے بیچ ھوتی ھیں”دواکمپنیاں“۔اور کمپنیوں کا واحد ”مقصد“ ھوتا ھے- ”منافع کمانا“۔
اگر آپ چاھتے ھیں کہ آپ کواصلیت کا پتہ چلے تو:- ”ڈاکٹروں، دوا کمپنیوں و نٸی گاٸڈ لاٸنوں“ کوبیچ سے ھٹا کر قابل اعتماد یونیورسٹیز سے سیدھا جڑنے کی کوشش کریں۔
*کسی بیماری کو تیار کر کے کیسے بڑھاوا دیا جاتا ھے؟*
دوا ساز کمپنیوں کا ”ڈاکٹروں“ سے”تعلق“:-
*دواسازکمپنیاں ڈاکٹروں کو اپناصلاح کار یا ترجمان کے طور پر بلاتی ھیں۔
*ڈاکٹروں کے ریسرچ پیپرس کو یہ دوا ساز کمپنیاں ھی اسپانسرکرتی ھیں۔اس کی اشاعت میں پیش۔پیش رھتی ھیں۔
ڈاکٹروں کے ذریعہ دوا سازکمپنیوں کو
صلاح:-
* نٸی دواٶں کے استعمال میں ان کی مدد کرتے ھیں۔
*مارکیٹنگ کے معاملے میں انہیں صلاح دیتے ھیں۔
*دیگر ماھرین بھی انہیں دواٶں کی لاٶنچنگ میں تعاون کرتے ھیں۔ اور FDA سے ان نٸی دواٶں کی منظوری لینے کیلٸے بھی کمپنیوں کا تعاون کرتے ھیں۔
*کچھ ڈاکٹروں کا ”پیسہ“ بھی اِن کمپنیوں میں لگا ھوتا ھے۔اسلٸے وہ بھی وقتاً فوقتاً انہیں صلاح اور تعاون دیتے رہتے ھیں۔
"بیماریوں کو متعارف کرنا“:-
* دو اساز کمپنیاں ایک میٹنگ آرگناٸز کرتی ھیں، جہاں”ماھرین“ امراض کا ”نیا تعارف“ دینے کیلٸے تیار ھوتے ھیں۔
* پرانے امراض کو پھر سے جدید پیراٸے میں متعارف کیا جاتا ھے اور ماھرین ان کے علاج کیلٸے نٸی گاٸڈ لاٸنس تحریرکرتے ھیں۔ جن کے توسط سے دیگر ڈاکٹروں کو ذہن نشیں کرایاجاتا ھے کہ زیادہ سے زیادہ دواٶں کا استعمال کیسے کیا جانا چاھٸے؟
کسی بھی ”مرض“ کو مشتھر کرنا:
* گاٸڈ لاٸنس لکھنے والوں سمیت کمپنی کے ماھرین بھی ڈاکٹروں کو ”مرض“ سے متعلق نیا تعارف و دیگر نٸی معلومات فراھم کراتے ھیں. اکثر آپ نے دیکھا ہوگا کہ کوئی نہ کوئی دوا دس بارہ یا پندرہ سال بعد سائیڈ فیکٹ کے نام پر بند کر دی جاتی ہے پہلے نہیں معلوم ہوتا کہ اس کے سائیڈ فیکٹ کیا ہے چند سالوں بعد اربوں کمانے کے بعد ان کو پتہ لگتا ہے جب کروڑوں لوگ اس مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو اس کے سائیڈ فیکٹ کا پتہ چلتا ہے اور اور پھر ان سائیڈ پر کو دور کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی دوا وجود میں آ جاتی ہے اور سارا بارہ سال بعد پتہ چلتا ہے کہ اس کے سائیڈ فیکٹ ہے تو مزید بیماریوں سے بیمار کرتے چلے جاتے ہیں
منقول
Mujy kc Doctor k pass jana nai parta....
میں بار بار خود سے سوال کر رہا ہوں کہ اس قدر اداسی اور بے دلی کیوں ہے؟ میرا عمران سے کیا تعلق ہے؟ وہ جو میرے نام تک سے واقف نہیں ہے میں اس کی ہار پر اتنا پرملال کیوں ہوں؟ یہ میرے احساسات اتنے شکست خوردہ کیوں ہیں؟
تو میرے دل سے آواز آ رہی ہے کہ اداس صرف میں نہیں ہوں بلکہ سچائی، امید، بیباکی، دیانتداری، خودداری اور وفاداری سے محبت کرنے والا ہر ذی شعور پاکستانی اداس ہے. ان اوصاف کی پیروی کرنے والا ہر غیور محب وطن پریشان ہے.
درحقیقت یہ آج ریاست پاکستان میں عمران خان نہیں ہارا ہے بلکہ اصول ہارے ہیں. بیباکی ہاری ہے. خودداری کو شکست فاش ہوئی ہے. وطن سے غیر مشروط محبت ہار گئی ہے.
https://www.facebook.com/110097267888481/posts/272211391677067/
111:- ڈاکٹر جناب عاصم رضا اورکزئی ولد جناب قاسم رضا اورکزئی صاحب ریٹائرڈ TT موصوف نے پرائمری تعلیم بازار گڑھی مڈل پالوسی ہائی سکول ، میٹرک و ایف ایس سی العصر ہائر سیکنڈری سکول استرزئی کوہاٹ سے ہاس کر کے MBBS کے ڈگری حصول کے لئے بولان میڈیکل کالج کوئٹہ میں داخلہ ملا۔آپ نے سپشلائزیشن ریڈیالوجی میں لیڈی ریڈینگ ہسپتال پشاور سے مکمل کیا۔آپ موجودہ خدمات محکمہ صحت ضلع اورکزئی BHU کڈہ بازار لوئر میں سرانجام دے رہے ہیں۔موصو ف ک تعلق قوم سپائے لوئر اورکزئی سے ہے۔مگر رہائش پذیر کڈہ بازار میں ہے۔
https://youtu.be/DZu64MUQrk4
نیا کرونا وائرس اُمیکران کیا ہے؟
کیا اس کا پھیلاؤ پوری دنیا کو اپنی لپٹ میں لے لے گا؟ کیا اس موجودہ کویڈ ویکسین اس کے خلاف بے اثر ہو جائیگی؟
آئیں ہم اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں
پروفیسر ملُازم حسین بخاری
New Variant of SARS-Cov2,OMICRON,will it bad &cause reinfection and escape the immunity by vaccine How common it is in the world
Nicely Explained
When wealth is lost, nothing is lost
When health is lost, something is lost
When character is lost, everything is lost.
Dear Followers read and think ....... share
Really we should think over it.......
On every Sunday InshALLAH Will be available in Kohat Frontier Medical Center. Any type of ultrasound I.e Abdomen/Pelvis, OBS especially Doppler most welcome
Now in Frontier Medical Centre...... Saturday and Sunday. ....
یہ 5 غلطیاں ماسک پہنتے کی افادیت ختم یا کم کر دیتی ہیں۔ ان سے بچیں
۱۔ ناک، منہ کو پوری طرح نہ ڈھکنا
۲۔ ہاتھ صابن سے نہ دھونا
۳۔ بات کرتے وقت ماسک منہ سے ہٹانا
۴۔ ماسک بار بار ہاتھ سے چھونا
۵۔ ماسک پہننے اور اتارنے سے قبل ہاتھ نہ دھونا اور سماجی فاصلہ نہ رکھنا
Courtesy: KP CM SCU
جن ڈاکٹرز کو جان پیاری ہے وہ نوکری چھوڑ دیں۔
چیف جسٹس
بسم اللہ عالی جناب!
کچھ فرمان اور جاری کریں۔۔
1.ججز کے گھروں کے باہر سے پولیس کے حفاظتی دستے ختم کر دیں۔
2. عدالتوں سے پولیس کی نفری ہٹائی جائے (اور انہیں تھانوں میں بھیجا جائے تا کہ وہ عوام کی حفاظت کریں جو کہ انکا اصل کام ہے)
3. جج صاحبان جب دوروں کے لیے نکلتے ہیں تو بغیر پروٹوکول اور بغیر سکیورٹی کے نکلیں۔
4. عدالتوں میں بالخصوص ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کی حدود میں اسلحہ لے جانے پہ جو پابندی ہے وہ پابندی ختم کر دیں۔
5. تمام جج صاحبان کے بچے پولیس کی رکھوالی کے بغیر سکول جائیں گے
اس کے بعد ایک فرمان جاری ہو کہ جن معزز جج صاحبان کو جان پیاری ہے وہ نوکری چھوڑ دیں اور گھر چلے جائیں۔۔۔۔
تو بسم اللہ جناب ڈاکٹر بھی گھر چلے جائیں گے۔
معزز قاضی صاحب!
جس طرح آپ کی جان کو گولی، ڈنڈے سے خطرہ ہے، یا آپ کے بچے کو اغوا ہونے کا خطرہ ہے کیونکہ آپ خطرناک مجرموں کے فیصلے سناتے ہیں اسی طرح ڈاکٹرز اور ان کے بچوں کو بھی اسی طرح کے خطرات ہوتے ہیں۔ کیونکہ انہی مجرموں کے میڈیکل انہی ڈاکٹرز کو بنانے ہوتے ہیں۔۔۔
لیکن جناب عالی ڈاکٹرز آپ سے نہ تو سبز نمبر پلیٹ والی گاڑی مانگ رہیں ہیں جس کے اوپر نیلی بتی لگی ہوتی ہے، نہ ہی اپنی ذاتی حفاظت کے لیے پولیس کے چاک و چوبند دستے مانگ رہےہیں، وہ تو صرف ایک نادیدہ وبا سے لڑنے کے لیے چند کپڑے (PPE) مانگ رہے ہیں۔
یہ ایسی وبا ہے جس کا نہ تو گولی کی طرح کوئی شور ہوتا ہے، نہ ہی لاٹھی کی طرح ہاتھ میں پکڑی نظر آتی ہے۔۔
یہ ایسی وبا ہے کہ اگر عدالت عالیہ کے ایک ملازم کو لگ جائے تو عدالت عالیہ کو بند کر دیا جاتا ہے اور جج مقدمہ سننے سے انکاری ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ وہ ماسک اور ( PPE) پہن کر مقدمات سن سکتے تھے، وہ الگ بات ہے کہ یہی PPE ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کے لیے موجود نہیں ہوتے۔۔۔
مائی لارڈ،
ڈاکٹرز تو کرونا سے متاثر ہو کر بھی علاج کرنے سے انکاری نہیں ہوئے، انہوں نے تو عدالت عالیہ کی طرح ہسپتال بھی بند نہیں کیے، وہ تو صرف چند حفاظتی کپڑے مانگ رہے ہیں تا کہ بے فکری سے مریضوں کا علاج کر سکیں۔۔۔
مائی لارڈ،
اللّہ نے آپ کو رتبہ دیا ہے، عادل بنایا ہے، ہم آپ سے عدل کی توقع رکھتے ہیں نہ کہ جبر کی۔ کیونکہ معاشرہ ظلم پہ تو چل سکتا ہے نا انصافی پر نہیں چل سکتا۔۔۔
اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو!!!
Kha dio sa ba os sa kaway.....
Plz share shyd kc ka faida ho jaiy
KPK death rate is alarming........ Khuday ta wagorai pa kor chenooooo.
I am amazed that in this grieve situation when the world is facing pandemic and there is a life threat for everyone living on the planet, one integral part of healthcare system is out of scene. This sector had claimed to be saviour of humanity from last 50 years. I am talking about predators like pharmaceutical companies and electro-medical equipment companies. They bombarded us with new researches newer drugs/vaccines and new diagnostics tools. These companies made billions of dollars in the name of health without providing a cure. Now when all the doctors are at the frontline fighting this without PPEs when governments are trying to meet all the requirements to control this disease. I haven’t seen any contribution nor any representation from these companies all over the world because this disease doesn’t need any of their fancy drugs but immunity. This is just a food of thought for all the doctors.
Copied
آگر آپکو ان میں سے کوئی علامات ظاہر ہوں تو گھر پر رہیں اور اپنے ڈاکٹر سے فوری رابطہ کریں۔
Pakistan Update. Official Data
اگر اپنے کسی کی مدد کرنی ہو تو براے مہربانی اپنا کیمرا اور موبائیل بند رکھیں
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Category
Contact the practice
Telephone
Website
Address
Peshawar
25000
Opening Hours
Monday | 09:00 - 17:00 |
Tuesday | 09:00 - 17:00 |
Wednesday | 09:00 - 17:00 |
Thursday | 09:00 - 17:00 |
Friday | 09:00 - 17:00 |
Saturday | 09:00 - 17:00 |