Akhir Q?
politics speach
Islamic videos
iqwale zaereen
historical videos
news
jobs for business
سور کی تاریخ
*ہر مسلمان کے لئے یہ پڑھنا بہت ضروری ہے
*یورپ سمیت تقریبا تمام امریکی ممالک میں گوشت کے لئے بنیادی انتخاب سور ہے۔ اس جانور کو پالنے کے لئے ان ممالک میں بہت سے فارم ہیں۔ صرف فرانس میں ، پگ فارمز کا حصہ 42،000 سے زیادہ ہے*۔
*کسی بھی جانور کے مقابلے میں سور میں زیادہ مقدار میں FAT ہوتی ہے۔ لیکن یورپی و امریکی اس مہلک چربی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔*
*اس چربی کو ٹھکانے لگانا ان ممالک کے محکمہ خوراک کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس چربی کو ختم کرنا محکمہ خوراک کا بہت بڑا سردرد تھا۔*
*اسے ختم کرنے کے لیئے باضابطہ طور پر اسے جلایا گیا، لگ بھگ 60 سال بعد انہوں نے پھر اس کے استعمال کے بارے میں سوچا تاکہ پیسے بھی کمائے جا سکیں۔ صابن بنانے میں اس کا تجربہ کامیاب رہا۔*
*شروع میں سور کی چربی سے بنی مصنوعات پر contents کی تفصیل میں pig fat واضح طور پر لیبل پر درج کیا جاتا تھا۔*
*چونکہ ان کی مصنوعات کے بڑے خرہدار مسلمان ممالک ہیں اور ان ممالک کی طرف سے ان مصنوعات پر پابندی عائد کر دی گئی، جس سے ان کو تجارتی خسارہ ہوا۔ 1857 میں اس وقت رائفل کی یورپ میں بنی گولیوں کو برصغیر میں سمندر کے راستے پہنچایا گیا۔ سمندر کی نمی کی وجہ سے اس میں موجود گن پاؤڈر خراب ہوگیا اور گولیاں ضایع ہو گئیں۔*
*اس کے بعد وہ سور کی چربی کی پرت گولیاں پر لگانے لگے۔ گولیوں کو استعمال کرنے سے پہلے دانتوں سے اس چربی کی پرت کو نوچنا پڑتا تھا۔ جب یہ بات پھیل گئی کہ ان گولیوں میں سور کی چربی کا استعمال ہوا ہے تو فوجیوں نے جن میں زیادہ تر مسلمان اور کچھ سبزی خور ہندو تھے نے لڑنے سے انکار کردیا ، جو آخر کار خانہ جنگی کا باعث بنا۔ یورپی باشندوں نے ان *حقائق کو پہچان لیا اور PIG FAT لکھنے کے بجائےانہوں نے FIM لکھنا شروع کر دیا*
*1970کے بعد سے یورپ میں رہنے والے تمام لوگ حقیقت کو جانتے ہیں کہ جب ان کمپنیوں سے مسلمان ممالک نے پوچھا کہ یہ کیا ان اشیا کی تیاری میں جانوروں کی چربی استعمال کی گئی ھے اور اگر ھے تو کون سی ہے...؟* *تو انہیں بتایا گیا کہ ان میں گائے اور بھیڑ کی چربی ہے۔ یہاں پھر ایک اور سوال اٹھایا گیا ، کہ اگر یہ گائے یا بھیڑ کی چربی ہے تو پھر بھی یہ مسلمانوں کے لئے حرام ہے، کیونکہ ان جانوروں کو اسلامی حلال طریقے سے ذبح نہیں کیا گیا تھا۔*
*اس طرح ان پر دوبارہ پابندی عائد کردی گئی۔ اب ان کثیر القومی کمپنیوں کو ایک بار پھر کا نقصان کاسامنا کرنا پڑا۔۔۔!*
*آخر کار انہوں نے کوڈڈ زبان استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ، تاکہ صرف ان کے اپنےمحکمہ فوڈ کی ایڈمنسٹریشن کو ہی پتہ چل سکے کہ وہ کیا* *استعمال کر رہے ہیں اور عام آدمی اندھیرے میں ہی رہے۔ اس طرح انہوں نے ای کوڈز کا آغاز کیا۔ یوں اجکل یہ E-INGREDIENTS کی شکل میں کثیر القومی کمپنیوں کی مصنوعات پر لیبل کے اوپر لکھی جاتی ہیں*،
*ان مصنوعات میں*
*دانتوں کی پیسٹ، ببل گم، چاکلیٹ، ہر قسم کی سوئٹس ، بسکٹ،کارن فلاکس،ٹافیاں*
*کینڈیڈ فوڈز ملٹی وٹامنز اور بہت سی ادویات شامل ہیں* *چونکہ یہ سارا سامان تمام مسلمان ممالک میں اندھا دھند استعمال کیا جارہا ہے۔*
*سور کے اجزاء کے استعمال سے ہمارے معاشرے میں بے شرمی، بے رحمی اور جنسی استحصال کے رحجان میں بے پناہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ھے۔*
*لہذا تمام مسلمانوں اور سور کے گوشت سے اجتناب کرنے والوں سے درخواست ھے کہ وہ روزانہ استعمال ہونے والے ITEMS کی خریداری کرتے وقت ان کے content کی* *فہرست کو لازمی چیک کرلیا کریں اور ای کوڈز کی مندرجہ ذیل فہرست کے ساتھ ملائیں۔ اگر نیچے دیئے گئے اجزاء میں سے کوئی بھی پایا جاتا ہو تو پھر اس سے یقینی طور پر بچیں،* *کیونکہ اس میں سور کی چربی کسی نہ کسی حالت میں شامل ہے۔*
*E100 ، E110 ، E120 ، E140 ، E141 ، E153 ، E210 ، E213 ، E214 ، E216 ، E234 ، E252 ، E270 ، E280 ، E325 ، E326 ، E 327 ، E334 ، E335 ، E336 ، E337 ، E422 ، E41 ، E431 ، E432 ، E433 ، E434 ، E435 ، E436 ، E440 ، E470 ، E471 ، E472 ، E473 ، E474 ، E475 ، E476 ، E477 ، E478 ، E481 ، E482 ، E483 ، E491 ، E492 ، E493 ، E494 ، E549 ، E542 E572 ، E621 ، E631 ، E635 ، E904*
*ڈاکٹر ایم امجد خان*
*میڈیکل ریسرچ انسٹیٹیوٹ ، ریاستہائے متحدہ امریکہ*
*👈براہ کرم اس وقت تک شیئر کرتے رہیں جب تک کہ وہ بلائنس آف مسملز ورلڈ وائڈ پر نہ آجائیں*۔
*یاد رھے کہ شیئرنگ صدقة جاريه میں گردانی جا سکتی ھے*
یہ پوسٹ اتنا عام کرو جتنا آپ کا استعداد ہو۔۔کیونکہ ہمارے ہزار کے نوٹ پر صلیب کا نشان ہے اور دجال کی نشانی ہے۔سٹیٹ بینک مکمل طور پر یہودیوں کے ہاتھ میں ہے۔یہ نوٹ کسی سمجھدار مسلمان پاکستانی کو قبول نہیں
۔۔please share
*دنیا کو پھر سے ایک نئے ڈرامے خود ساختہ وائرس کے نام پر لاک ڈاؤن کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے ، یاد رکھیں کرونا بھی ایک ڈرامہ تھا اور اب منکی پاکس بھی ڈرامہ ہے اب دنیا بھر کے لوگوں کو اپنی فکر لاحق کر کے دنیا بلخصوص فلسطین سے بلکل منقطع کر کے یہودیوں کو آگے آزادی کے ساتھ بڑھنے کے لیے راستہ دینے کی تیاری ہے*
*اولمپکس کے اختتام کے فوراً بعد ہی جنگوں کے سلسلے شروع کر دئیے جائیں گے خانہ جنگیاں ، سول وار ، دہشتگردی ، دنیا کو یہودیت کے زیر کنٹرول دینے کی مکمل تیاری عروج پر ہے زہریلے ٹیکے بھی تیار ہیں کچھ پہلے کرو،نا کے نام پر پہلے ہی دنیا کو لگائے جا چکے ہیں اور اب منکی پاکس کے نام پر دنیا کی ابادی کو کم کرنے کے لیے ویکسین ٹیکے ، مزید معاشی تباہی کے لیے لاک ڈاؤن ، مہنگائی ، بھوک افلاس پھیلا کر خانہ جنگی ، سول وار ، دہشگردی ، قتل غارتگری کو پیدا کیا جائے گا ۔۔*
*عالم کفر کبھی بھی کھل کر اپنے عزائم پر عمل نہیں کرتا بلکہ دھوکے سے اپنے مقاصد کی تکمیل کرنے میں ہر سطح پر کام کر رہا ہے گریٹر اسرائیل ایجنڈا ،امریکہ کی سپر پاور کاخاتمہ اور سپر پاور کا انجن اسرائیل منتقل کرنے کے لیے اب یورپ کو بھی تہس نہس کیا جائے گا ۔۔*
یا اللہ ہمیں حضرت عمر فاروق جیسے غیرت مند حکمران عطا فرما
فوجی آپریشن میں نواب اکبر بگٹی کی شہادت
*آپکا بچہ آپ کا دوسرا موقع ہے۔*
اپنی ہاری ہوئی جنگوں میں اس سے ایک فاتح تخلیق کیجیے
جو خیر کے کام آپ نہیں کرسکے وہ خیر کے کام اپنے بچوں سے کروالیں
جو نیکی کے خواب آپ کے پورے نہیں ہوسکے ان کی تعبیر اپنے بچوں کو دے دیجیے
یہ پورن موویز دیکھنے والوں کو ایک بات بتا دوں کہ یہ ایک ایکٹنگ ہے۔ جیسے آپ فلموں اور ڈراموں میں دیکھتے ہیں ۔ اگر آپ کو لگ رہا ہے وہ مشہور اور مزے لینے کے لیے ایسا کام کرتے ہیں تو آپ کی بھول ہےوہ پیسے کے لیے مجبور ہوتے ہیں تو اس فیلڈ میں آ جاتے ہے برہنہ ہونے کے لیے سب کے سامنے اور ہاں ویڈیو بنانے کے بعد ان سے کہا جاتا ہے تم نے کہنا ہے یہ میں نے سب کام اپنی مرضی سے کیا ہے اگر وہ یہ بات نہ کہے تو ان کو پیسے نہیں ملتے لڑکیوں کے پرائیویٹ اعضا میں کوکین ڈالی جاتی ہے یہ جو آپ سمجھتے ہیں کہ ان کو مزہ آ رہا ان سے ان کا درد مر جاتا ہے انجکشن استمعال کیے جاتے ہیں اور یہ جو آپ کی مختلف ٹائپ ویڈیوز ہیں جو آپ پسند کرتے ہیں ایک ٹائپ کی ویڈیو سے بور ہو جاتے ہیں ہر بار کچھ نئی ٹائپ کی ویڈیو دیکھنا چاہتے ہیں,یہ سگے رشتوں کی پہچان ختم کروا رہی ہے میں نہیں کہنا چاہتا مگر جنسی مریض ہر رشتے کے ساتھ یہ کام کرنا چاہتے ہیں گندی کہانیاں پڑھ کر خود کو شانت کیا جا رہا ہے یہ زندگی نہیں یہ آپ کی موت کا اعلان ہے جیسے ویڈیوز میں دیکھتے ہیں اور یہ آپ کا دماغ فارغ کیا جا رہا ہے اگر میں جھوٹ بول رہا ہوں تو کبھی اپنا حافظہ چیک کر لینا کیسا ہے.؟
آپ کے اندر بس گندگی رہ چکی ہے آپ کو کوئی چیز یاد تک نہیں رہتی دن جوانی بھلکڑ ہو جانا خوف کی بات ہے دو منٹ کے مزے کے لیے اپنی زندگی برباد کر رہے ہوں ڈپریشن میں پڑے ہو ناامید ہو چکے ہو فیوچر کا پتہ ہی نہیں یہ کیا زندگی ہے ؟
دماغ کو پاک صاف رکھیں
پورن یا فحش فلمیں دماغ کو ضائع اور چھوٹا کرتی ہیں، تحقیق
اگر کوئی سافٹ پورن یا فحش فلمیں دیکھتا ہے تو نتيجتاﹰ مسقبل میں اس کا دل ’ہارڈ کور‘ اور زيادہ پورن دیکھنے کو کرتا ہے۔ تحقیق کے مطابق فحش فلمیں دماغ کی ساخت کو متاثر کرتی ہیں اور یہ سکڑنا شروع ہو جاتا ہے۔
ایک نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ وہ لوگ، جو باقاعدگی سے جنسی مواد یا فحش فلمیں دیکھتے ہیں، ان کے دماغ سے منسلک ’’ریوارڈ سسٹم‘‘ چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے۔ جرمنی کے دارالحکومت برلن میں ماکس پلانک انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ماہر نفسیات اور اس سائنسی تحقیق کی اہم مصنفہ زیمونے کیون کہتی ہیں، ’’ باقاعدگی سے پورن فلمیں دیکھنے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ کم یا زیادہ آپ کا دماغی ریوارڈ سسٹم ضائع ہوتا جاتا ہے۔‘‘
ریوارڈ سسٹم دماغ میں میں پائے جانے والے عصبی ڈھانچوں کے مجموعے کو کہتے ہیں
اچھے لوگ ریاضی کے صفر کی طرح ہوتے ہیں جن کی اپنی تو کوئی قیمت نہیں ہوتی لیکن جس کے ساتھ لگتے ہیں اس کی قیمت دس گنا بڑھا دیتے ہیں
*”اگر تم قرآن کو آنکھوں سے دیکھو گے تو الفاظ نظر آئیں گے، دماغ سے دیکھو گے تو علم نظر آئے گا، دِل سے دیکھو گے تو محبت نظر آئے گی اور اگر اپنی رُوح سے دیکھو گے تو تمہیں اللّٰہ نظر آئے گا!“*
*(مولانا رومی رحمتہ اللہ علیه)*
*یہ تصویر ہماری اخلاقیات اور تہذیبی تربیت کی مثالی عکاس ہے۔*🖋️
ان بچوں کو اپنے والدین سے لاشعوری میں یہی سبق ملا ہے کہ خوشی کسی مثبت اور اچھے کام سے نہیں ملتی, بلکہ اس کے حصول کا بہترین اور آسان راستہ یہی ہے کہ ہر اس ذی روح کو اذیت پہنچائی جائے اور اس کی بے بسی سے لطف اٹھایا جائے جو جواب میں آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ یہ کوئی یونیک منظر نہیں بلکہ ہمارے ہر گلی محلے کی کہانی ہے۔ 🪈🎺🎺
*اب ایسے بچوں سے یہ توقع رکھنا محال ہے کہ وہ بڑے ہوکر انسان کا مطلب سمجھ پائیں گے یا انسانیت کے دکھوں کا مداوا کریں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ اب ہماری نٸ نسل کی باگ ڈور ایسے ہی افراد کے ہاتھوں میں ہے جن کی خوشی کمزوروں کی اذیت سے مشروط ہے۔*🇵🇰😢
*میری تمام احباب سے گزارش ہے کہ اس پوسٹ کو اللّٰہ کی رضا اور معاشرے کی اصلاح کی نیت سے اپنے پیاروں کے ساتھ شیئر کیجئے ہو سکتا ہے آپ کی وجہ سے اللّٰہ کسی کی زندگی بدل دے*
بچوں کی دنیاوی تربیت کے ساتھ ساتھ اسلامی تربیت ضرور کروائیں
*ٹیکنالوجیکل برتری*
*کل اسرائیل کا ایران کے اندر حملہ وہ بھی ایک سخت سیکورٹی حصار کے اندر اسماعیل ھنیہ کی ٹارگٹ کلینگ سے یہ ثابت ہوا کہ ٹیکنالوجی میں اسرائیل پوری اسلامی دنیا پہ حاوی ہے اور دنیا کے دو ارب سے زائد مسلمان محض اس لئے ساٹھ لاکھ اسرائیلی یہودیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ یہودی سائنس وٹیکنالوجی، صنعت و حرفت، عالمی تجارت، مضبوط معیشت اور دفاعی برتری کی وجہ سے دنیا کی ممتاز اور مضبوط ترین قوم جبکہ مسلمان دنیا کی کمزور ترین، بے ہنر اور سائینسی فکر سے کوسوں دور ایک بے حیثیت ملت ہے جس کی نقار خانے میں طوطی کی آواز جیسی مثال ہے بس!*
*مسلمان ترقی یافتہ اقوام سے کم از کم بھی سو سال پیچھے ہیں، اور اس کی واحد وجہ عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق ان کی تعلیم و تربیت میں کمی اور سائینسی فکر کا فقدان ہے!*
*اور یہی وجہ ہے کہ اب یہ پوری دنیا میں ذلیل وخوار ہو رہے ہیں اور ٹیکنالوجی کی جنگ میں یہ ایک چھوٹے سے یہودی ملک اسرائیل سے مسلسل مات کھا رہے ہیں، اور اسرائیل اب مسلمانوں کے گھروں میں گھُس کر ٹارگٹ کِلنگ کرتا جا رہا ہے جبکہ آنے والا وقت مسلمانوں کی مزید تباہی وبربادی کا زمانہ ہوگا کیونکہ مسلمان آج بھی محض عبادات، مناجات، معجزات ، گروھ بندی ،تفرقہ جات ، بے مقصد تبلیغی اور دینی سرگرمیاں اور غیبی امداد پہ یقین رکھتے ہیں۔بلکہ سارا سال منتظر رھتے ھیں ۔جبکہ ان کے مدمقابل انسانوں نے اپنی ذاتی دانش، جدوجہد اور صلاحیت سے ترقی کی معراج حاصل کی ہوئی ہے!*
*قومیں جب بھی ذہنی افلاس کا شکار ہو جاتی ہیں تو ذلت ورسوائی اور دوسری قوموں کی غلامی پھر ان کا مقدر بن جایا کرتی ہے*
*اور مسلمان صحیح معنوں میں اس وقت ترقی یافتہ اقوام کے معاشی، سیاسی اور عالمی غلام کی حیثیت سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔*
*اور ان میں 25 کروڑ کا پاکستانی ہجوم سرفہرست ہے!*
🇵🇰
یہ ناممکن ھے کہ کراچی میں پاپڑ فروش باپ اور بیٹی کو گاڑی تلے روند کر شہید کرنے والی ارب پتی باپ کی بیٹی کو پاکستانی قانون اور عدالتی نظام جرم کے مطابق سزا دے۔ پہلے مرحلے میں پولیس رشوت لے کر کمزور اور ناقص تفتیش کرے گی۔ دوسرے مرحلے میں ڈاکٹر صاحبان جیبیں گرم کرکے قاتل لڑکی کو ذہنی مریضہ اور پاگل قرار دیں گے۔ تیسرے مرحلے میں بڑے بڑے قابلِ وکلاء کی ٹیم کروڑوں روپے فیس لے کر اپنی قابلیت سے اس ارب پتی لڑکی کو بچائیں گے۔
پاپڑ فروش باپ اور بیٹی کے غریب وارثین نہ پولیس کو خوش کر سکتے ہیں نہ وکلاء خرید سکتے ہیں لہذا اس کیس کا فیصلہ جج کی بجائے میں سناتا ہوں کہ باعزت بری کیا جائے۔ اس مظلوم خاندان کو عوامی احتجاج کے ذریعے انصاف دلانا ممکن ھے مگر افسوس ذہنی غلام پاکستانی عوام مریم نواز اور بلاول بھٹو کو اقتدار دلانے کے لیے تو احتجاج ریکارڈ کرا سکتے ہیں مگر ایسے مظلوموں کیلئے پاکستانی عوام کبھی نہیں نکل سکتی۔
بھول جاؤ تو یاد دلانا.. 🥹
ہر عقل مند طاقت کے پیچھے ایک عظیم طاقت ہوتی ہے، جس کا نام (اللہ) ہے!!
ناف کا کنڈا تین نالیوں پر مشتمل ہوتا ہے، اور جب آپ اپنی ماں کے پیٹ میں ہوتے ہیں، تو یہ نالیاں آپ کی بقا کے لیے انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
پہلی نالی آکسیجن فراہم کرتی ہے تاکہ آپ سانس لے سکیں، کیونکہ پیٹ کے اندر آپ کو براہِ راست ہوا دستیاب نہیں ہوتی۔
دوسری نالی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو باہر نکالتی ہے تاکہ آپ دم گھٹنے سے بچ سکیں۔ یہ نالی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ آپ کا خون صاف اور تازہ رہے، جو آپ کی زندگی کے لیے ضروری ہے۔
تیسری نالی غذا فراہم کرتی ہے، جو ماں کے جسم سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ نالی آپ کی جسمانی نشوونما اور ترقی کے لیے ضروری غذائی اجزاء پہنچاتی ہے۔
یہ نظام انتہائی متوازن اور پیچیدہ ہے، جو اللہ کی قدرت کا ایک عظیم شاہکار ہے۔ جب ایک بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے، تو وہ خود سے کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نالیاں ترتیب دی ہیں تاکہ بچہ محفوظ رہے اور اس کی نشوونما صحیح طریقے سے ہو سکے۔
پیدائش کے بعد، یہ نالیاں اپنا کام ختم کر دیتی ہیں، اور بچے کو خود سانس لینے اور غذاء لینے کے قابل بنایا جاتا ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز عمل ہے جو اللہ کی بے پناہ حکمت اور قدرت کی نشانی ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"اور تمہارے اندر بھی (اس کی نشانیاں ہیں)، تو کیا تم دیکھتے نہیں؟" (سورۃ الذاریات: 21)
یہ آیت ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم اپنے وجود پر غور کریں اور اللہ کی عظمت اور اس کے پیدا کرنے کے طریقے پر غور کریں۔ یقیناً، جو ذات اتنی عظیم اور کامل ہے، وہی ہر چیز کو بہترین طریقے سے پیدا کرنے والی ہے۔
پاک ہے وہ ذات جس نے پیدا کیا، شکل دی، اور خوبصورت بنایا، اور جس نے ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھا۔ اس کی قدرت اور حکمت بے مثال ہے، اور ہم ہر لمحہ اس کے شکر گزار ہیں۔
( جنرل اور چرواہا ) ۔۔۔۔ بہت ہی دلچسپ تحریر
ضرور پڑھئے ۔۔۔۔
یہ 1917 کی بات ہے عراق کے پہاڑوں میں برطانوی جنرل
سٹانلی ماودے کا ایک چرواہے سے سامنا ہوا.
جنرل چرواہے کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے مترجم سے کہا ان سے کہہ دو کہ جنرل تمہیں ایک پاونڈ دے گا بدلے میں تمہیں اپنے کتے کو ذبح کرنا ہوگا.
کتا چرواہے کے لئے بہت اہم ہوتا ہے یہ اس کی بکریاں چراتا ہے،دور گئے ریوڑ کو واپس لاتا ہے،درندوں کے حملوں سے ریوڑ کی حفاظت کرتا ہے،لیکن پاونڈ کی مالیت تو آدھا ریوڑ سے بھی زیادہ بنتی ہے چرواہے نے یہ سوچا اس کے چہرے پر لالچی مسکراہٹ پھیل گئی،اس نے کتا پکڑ لایا اور جنرل کے قدموں میں ذبح کر دیا.
جنرل نے چرواہے سے کہا اگر تم اس کی کھال بھی اتار دو میں تمہیں ایک اور پاونڈ دینے کو تیار ہوں،چرواہے نے خوشی خوشی کتے کی کھال بھی اتار دی،جنرل نے کہا میں مزید ایک اور پاونڈ دینے کے لئے تیار ہوں اگر تم اس کی بوٹیاں بھی بنا دو چرواہے نے فوری یہ آفر بھی قبول کرلی جنرل چرواہے کو تین پاونڈ دے کر چلتا بنا.
جنرل چند قدم آگے گئے تھے کہ اسے پیچھے سے چرواہے کی آواز سنائی دی وہ پیچھے پیچھے آ رہا تھا اور کہہ رہا تھا جنرل اگر میں کتے کا گوشت کھا لوں آپ مجھے ایک اور پاونڈ دیں گے؟
جنرل نے انکار میں سر ہلایا کہ میں صرف تمہاری نفسیات اور اوقات دیکھنا چاہتا تھا،تم نے صرف تین پاونڈ کے لئے اپنے محافظ اور دوست کو ذبح کر دیا اس کی کھال اتار دی،اس کے ٹکڑے کیا اور چوتھے پاونڈ کے لئے اسے کھانے کے لئے بھی تیار ہو،اور یہی چیز مجھے یہاں چاہئے.
پھر جنرل اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوئے کہ اس قوم کے لوگوں کی سوچیں یہ ہیں لہذا تمہیں ان سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے.
آج یہی حال مسلم ملکوں اور معاشروں کا ہے،اپنی چھوٹی سی مصلحت اور ضرورت کے لئے اپنی سب سے قیمتی اور اہم چیز کا سودا کر دیتے ہیں.
اور یہ وہ ہتھیار ہے جسے ہر استعمار،ہر قابض،ہر شاطر دشمن ہمارے خلاف استعمال کرتا رہا ہے،اسی کے ذریعے اس نے حکومت کی ہے اور اسی کے ذریعے ملکوں کو لوٹا ہے.
آج ہمارے درمیان ہمارے ملکوں میں کتنے ہی ایسے 'چرواہے' ہیں جو نہ صرف کتے کا گوشت کھانے کے لئے تیار ہیں بلکہ اپنے ہم وطن بھائیوں کا گوشت کھا رہے ہیں اور چند ٹکوں کے عوض اپنا وطن بیچ رہے ہیں.
ڈاکٹر علی الوردی کی عربی کتاب "لمحات اجتماعية من تاريخ العراق" سے ماخوذ .!!!
*کیا ہم آزاد ہیں*
آج سے 73 سال پہلے ہمارے بزرگوں نے ہمیں جس غلامی سے آزاد کروایا، اپنا خون پانی کی طرح بہایا، بہنوں نے اپنی عصمتوں کی قربانی دی لیکن افسوس صد افسوس ہم آج بھی اسی غلامی کے زیر اثر ہیں۔ہم نے ملک تو آزاد کروالیا، خطہ زمین تو حاصل کرلیا لیکن ذہنی وثقافتی طور پر ہم ابھی بھی اسیری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم بظاہر آزاد ہیں لیکن 73 سال بعد بھی ہم ان دیکھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے تہذیب اسلام، تمدن اسلام، کلمہ حق اور تعلیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ رکھنے کے لیے، جس معاشرے کے قیام کے لیے اتنی جہدوجہد کی، اپنی نسلوں کی قربانی دی۔ان قربانیوں اور جہدوجہد کو ہم نئی نسل اپنے ہاتھوں سے اس کو نہ صرف ضائع کررہے ہیں بلکہ دشمنوں کی مدد کررہے ہیں کہ وہ ہم سے ہماری پہچان، ہماری آزادی ہم سے چھین لیں۔ہمارے دشمن یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ کبھی بھی میدان جنگ مسلمانوں سے نہیں جیت سکتے ان کو میدان جنگ میں جیتنے کے لیے اس کو سب سے پہلے ہماری اسلامی اصلاحات کو مارنا ہے جس کے لیے انہوں نے ہماری نئی نسل کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی کہ اسلام ایک ظالمانہ نظام رکھتا ہے اور آزادی ہر ایک کا حق ہے۔ اس کے لیے سوچنے کا نظریہ بدلنا شروع کر دیا، ایسی ایسی ایجادات کردیں کہ ہماری نئی نسل دین کو اپنے نئے نظریہ سے بدلنے لگ گئی۔ لڑکیوں کے دماغ میں بٹھا دیا اور لڑکیوں نے کہنا شروع کر دیا کہ پردہ نظر کا ہوتا ہے۔ اس جملے نے آدھی امت مسلمہ کی لڑکیوں کو برہنہ کر دیا۔ سب کی اپنی ذاتی زندگی ہے اس سوچ نے امت مسلمہ کے باپ بھائیوں کو بے غیرت کردیا۔ آج افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ہم آزاد ہوتے ہوئے بھی آزاد نہیں ہیں، زنجیریں نہیں ہیں لیکن پھر بھی ان دیکھی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ دشمن نے ہمیں ہماری ذہنی صلاحیتوں، ہماری سوچوں کو جکڑا ہوا ہے اور ہم کٹھ پتلیوں کی طرح ان کے اشاروں پر اپنی مرضی سے ناچ رہیں ہیں اور سوچتے ہیں کہ ہم آزاد ہیں۔ بس ہمیں تو ہمارے مذہب اور روایات نے جکڑا ہوا ہے۔
ﺳﻮﺭﺝ ﻓﻀﺎء ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﻘﺮﺭ ﺭﺍستے ﭘﺮ گزشتہ 4 ﺍﺭﺏ 60 کروڑ ﺳﺎﻝ سے 8 لاکھ 28 ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ یعنی 230 کلومیٹر فی سیکنڈ ﮐﯽ اوسط رفتار ﺳﮯ ﻣﺴﻠﺴﻞ سفر کر ﺭﮨﺎ ہے ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎتھ ساتھ ﺍﺱ ﮐﺎ پورا ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ( سولر سسٹم ) یعنی 8 ﺳﯿﺎﺭﮮ ( مَرکری ، وینٙس ، اَرتھ ، مارس ، جیوپیٹر ، سیٹرن ، یورینٙس اور نیپچُون ) ، ان میں181ﭼﺎﻧﺪ ﺍﻭﺭ چٹان ، لوہا ، نکل کی ﻻﮐﮭﻮﮞ میٹرﺍئیٹس (Meteorites) چٹانوں ﮐﺎ ﻗﺎﻓﻠﮧ ﺍﺳﯽ ﺭﻓﺘﺎﺭ ﺳﮯ محوِسفر ہیں ۔
مگر ﮐﺒﮭﯽ ایسا ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ان میں سے کوئی ﺗﮭﮏ ﮐﺮ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺭە ﺟﺎئے ﯾﺎ ﻏﻠﻄﯽ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺍِﺩﮬﺮ ﺍُﺩﮬﺮ ﮨﻮ ﺟﺎئے ۔ ﺳﺐ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﺍە ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺮﻭﮔﺮﺍﻡ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ اپنی مقررہ رفتار سے اپنے اپنے راستوں ومنازل میں ﻧﮩﺎﯾﺖ پابندی و باقاعدگی ﺳﮯ ٹھیک ٹھیک چلیں ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ۔
ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ کہہ سکے کہ یہ خود ﭼﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ، ان کو کوئی ﭼﻼﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﻧﮩﯿﮟ ، ﮈﯾﺰﺍئن ﮨﮯ ، لیکن ڈﯾﺰﺍﺋﻨﺮ ﻧﮩﯿﮟ ، ﻗﺎﻧﻮﻥ ﮨﮯ ، ﻟﯿﮑﻦ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﮐﻮ ﻧﺎﻓﺬ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﻧﮩﯿﮟ ، ﮐﻨﭩﺮﻭﻝ ﮨﮯ ، مگر ﮐﻨﭩﺮﻭﻟﺮ ﻧﮩﯿﮟ ، ﯾﮧ ﺳﺐ محض ﺍﯾﮏ ﺣﺎﺩﺛﮧ ﮨﮯ ، تو ﺁﭖ سب اسے ﮐﯿﺎ ﮐﮩﯿﮟ ﮔﮯ ؟
ﭼﺎﻧﺪ 3 لاکھ 84 ہزار 402 کلومیٹر ﺩﻭﺭ ، ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺳﻤﻨﺪﺭﻭﮞ ﮐﮯﺍﺭﺑﻮﮞ کھرﺑﻮﮞ ﭨﻦ ﭘﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﮨﺮ ﺭﻭﺯ ﺩﻭ ﺩﻓﻌﮧ ﻣﺪﻭﺟﺰﺭ ﺳﮯ ﮨﻼﺗﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﺎ ﮐﮧ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﺴﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﮐﮯلئے ﮨﻮﺍ کی ذریعے ﺳﮯ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﻣﻘﺪﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﺁﮐﺴﯿﺠﻦ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﺭﮨﮯ ، ﭘﺎﻧﯽ ﺻﺎﻑ ﮨﻮﺗﺎ ﺭﮨﮯ ، ﺍﺱ ﻣﯿﮟ بد بو ﭘﯿﺪﺍ ﻧﮧ ﮨﻮ ۔ ﺳﺎﺣﻠﯽ ﻋﻼﻗﻮﮞ ﮐﯽ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﺭﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻏﻼﻇﺘﯿﮟ ﺑﮩﮧ ﮐﺮ ﮔﮩﺮﮮ ﭘﺎﻧﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﺘﯽ ﺟﺎﺋﯿﮟ ۔
ﯾﮩﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺳﻤﻨﺪﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺹ ﻣﻘﺪﺍﺭ ﻣﯿﮟ نمکین ﮨﮯ ۔ ﭘﭽﮭﻠﮯ 3 ﺍﺭﺏ ﺳﺎﻝ ﺳﮯ نمکیات کی مقدار نہ ﺯﯾﺎﺩە ہوئی ﻧﮧ ﮐﻢ ، ﺑﻠﮑﮧ ﺍﯾﮏ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﺗﻮﺍﺯﻥ ﺑﺮﻗﺮﺍﺭ ﺭﮐﮭﮯ ﮨﻮئے ﮨﮯ ، ﺗﺎﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺑﮍﮮ ﺳﺐ ﺁﺑﯽ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺗﯿﺮ ﺳﮑﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻥ کے مردہ اجسام ﺳﮯ بدﺑُﻮ ﻧﮧ ﭘﮭﯿﻠﮯ ۔ سمندر ﻣﯿﮟ نمکین ﺍﻭﺭ ﻣﯿﭩﮭﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﻧﮩﺮﯾﮟ ﺑﮭﯽ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﮩﺘﯽ ﮨﯿﮟ ۔ ﺳﻄﺢ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﭩﮭﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ نمکین ﭘﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﮐﮭﻠﮯ ﺳﻤﻨﺪﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﻠﮯ ﮨﻮئے ﮨﯿﮟ ۔ نمکین اور میٹھے پانی میں ان کے درمیان مختلف کثافتوں کے فرق کی آڑ (Barrier) قائم ہے ﺗﺎﮐﮧ ﻣﯿﭩﮭﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ کھارا ﭘﺎﻧﯽ آپس میں مکس نہ ہوں ۔
ﺍﺱ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﻦ ﻧﻈﺎﻡ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮐﻮﻥ ﺳﯽ ﻋﻘﻞ ﮨﮯ ؟ ﺍﺱ ﺗﻮﺍﺯﻥ ﮐﻮ ﮐﻮﻥ ﺑﺮﻗﺮﺍﺭ ﺭﮐﮭﮯ ﮨﻮئے ﮨﮯ ؟ ﮐﯿﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﻮﭺ ہے ﯾﺎ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﺎ اپنا ﻓﯿﺼﻠﮧ؟
ﺳﺎﮌﮬﮯ ﭼﻮﺩە ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﭘﮩﻠﮯ ﺟﺐ ﺟﺪﯾﺪ ﺳﺎﺋﻨﺲ کا ﮐﻮﺋﯽ ﻭﺟﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ۔ ﻋﺮﺏ ﮐﮯ ﺻﺤﺮﺍﺯﺩە ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﺟﮩﺎﮞ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﮑﻮﻝ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻟﺞ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ، ﺍﯾﮏ انسان ( محمدﷺ ) نبوت ملنے کے بعد قرآن سے ﺳﻮﺭﺝ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﮯ متعلق اس آیت کو پڑھتا ﮨﮯ ﮐﮧ :
" ﻭﺍﺷﻤﺲ ﻭﺍﻟﻘﻤﺮ ﺑﺤﺴﺒﺎﻥ " ـ
( ﺳﻮﺭە ﺍﻟﺮﺣﻤٰﻦ : 05 )
معنیٰ : سورج اور چاند ﺍﯾﮏ ﺣﺴﺎﺏ ﮐﮯ ﭘﺎﺑﻨﺪ ﮨﯿﮟ ۔
دوسری جگہ ﺳﻤﻨﺪﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﮔﮩﺮﺍﺋﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ آیت تلاوت کرتا ہے کہ :
" ﺑﯿﻨﮭﻤﺎ ﺑﺮﺯﺥ ﻻ ﯾﺒﻐﯿٰﻦ "
( ﺳﻮﺭۃ ﺍﻟﺮﺣﻤٰﻦ:20 )
معنیٰ : ﺍﻥ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺑﺮﺯﺥ ( Barrier ) ﮨﮯ ﺟﻮ ﻗﺎﺑﻮ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﮯ ﮨﻮئے ﮨﮯ " ۔
ﺟﺐ ﺳﺘﺎﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﮕﮧ ﻟﭩﮑﮯ ﮨﻮئے ﭼﺮﺍﻍ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ تو اس نے قرآن کی یہ صداقت دنیا کے سامنے پیش کی کہ :
" ﻭﮐﻞ ﻓﯽ ﻓﻠﮏ ﯾﺴﺒﺤﻮﻥ "
( ﺳﻮﺭە ﯾٰﺴﯿﻦ:40 )
ﯾﻌﻨﯽ ﺳﺐ ﮐﮯ ﺳﺐ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺪﺍﺭ میں ﺗﯿﺮ رہے ( گردش کرﺭﮨﮯ ) ﮨﯿﮟ ۔
ﺟﺐ ﺳﻮﺭﺝ ﮐﻮ ﺳﺎﮐﻦ ﺗﺼﻮﺭ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ تو اس نے قرآن مجید سے یہ حقیقت سامنے لائی کہ :
" ﻭﺍﻟﺸﻤﺲ ﺗﺠﺮﯼ ﻟﻤﺴﺘﻘﺮﻟﮭﺎ "
( ﺳﻮﺭە ﯾٰﺴﯿﻦ:38 )
معنیٰ : ﯾﻌﻨﯽ ﺳﻮﺭﺝ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﻘﺮر کردہ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﭘﺮ اپنی مقررہ ﻣﻨﺰﻝ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺳﮯ ﭼﻼ جاﺭﮨﺎ ﮨﮯ ۔
ﺟﺐ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺟﺎﻣﺪ اور ﺁﺳﻤﺎﻥ کو نیلی چھت ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ تو اس نے قرآن کی یہ حقیقت دنیا کے سامنے رکھی کہ :
" ﻭﺍﻧﺎ ﻟﻤﻮﺳﻌﻮﻥ "
( ﺳﻮﺭە ﺍﻟﺬاﺭﯾﺎﺕ:47 )
معنیٰ : اور ہم اس کائنات کو وسعت دینے والے ہیں ۔ یعنی کائنات اپنے آغاز سے پھیلتی ہی جارہی ہے ۔
ﻭە ﻧﺒﺎﺗﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﺣﯿﻮﺍﻧﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﺘﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ :
وجعلنا من الماء کل شئ حی
( سورہ الانبیاء:30 )
معنیٰ : اور ہم نے پانی سے ہر چیز کو زندگی دی ۔
ﺍﻟﺒﺮﭦ ﺁﺋﻦ ﺳﭩﺎﺋﻦ ﺍﭘﻨﯽ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ " ﻗﻮﺍﻧﯿﻦ ﻗﺪﺭﺕ ﺍﭨﻞ ﮨﯿﮟ " ﭘﺮ ﺟﺪﯾﺪ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﮐﺎ ﺑﺎﻧﯽ ﮐﮩﻼﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﻟﯿﮑﻦ قرآن مجید ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ دیا تھا کہ :
" ﻣﺎﺗﺮیٰ ﻓﯽ ﺧﻠﻖ ﺍﻟﺮّﺣﻤٰﻦ ﻣﻦ تفٰوﺕ ۔
( ﺳﻮﺭە ﺍﻟﻤﻠﮏ : 03 )
معنیٰ : اور ﺗﻢ ﺭﺣﻤٰﻦ ﮐﯽ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺟﮕﮧ ﻓﺮﻕ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎؤﮔﮯ ۔
ﺟﺪﯾﺪ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﮐﯽ ﺍﻥ ﻗﺎﺑﻞِ ﻓﺨﺮ ﺩﺭﯾﺎﻓﺘﻮﮞ سے ﭼﻮﺩە ﺳﻮ ﺳﺎﻝ قبل قرآن مجید کے یہ حقائق قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کا کلام ، اس کتاب کے حامل نبی کریمﷺ کو اللہ کا سچّا نبی ثابت کرتے ہیں اور یہ کہ اس کائنات کا خالق صرف اللہﷻ ہے اور اسی کے اٹل قوانین کی روسے کارخانہ کائنات سرگرم عمل ہے ـ
ﻧﻮﻣﻮﻟﻮﺩ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﮐﻮﻥ ﺳﻤﺠﮭﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﮭﻮﮎ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺭﻭ ﮐﺮ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺗﻮﺟﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﺒﺬﻭﻝ ﮐﺮﺍئے ؟ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﮐﻮﻥ ﺣﻮﺻﻠﮧ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﺮ ﺧﻄﺮﮮ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺳﯿﻨﮧ ﺳَﭙﺮ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺑﭽﺎئے ۔ ﺍﯾﮏ ﻣﻌﻤﻮﻟﯽ ﺳﯽ ﭼﮍﯾﺎ ﺷﺎہین ( عقاب ) ﺳﮯ ﻣﻘﺎبلے ﭘﺮ ﺍُﺗﺮ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ، ﯾﮧ ﺣﻮﺻﻠﮧ ﺍﺳﮯ ﮐﺲ ﻧﮯ ﺩﯾﺎ ؟ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﮯ ﺑﭽﮯ ﺍﻧﮉﮮ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﺘﮯ ﮨﯽ ﭼﻠﻨﮯ ﻟﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ ، ﺣﯿﻮﺍﻧﺎﺕ ﮐﮯ ﺑﭽﮯ ﺑﻐﯿﺮ سکھائے ﻣﺎؤﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﻭﺩﮪ ﮐﮯ لئے ﻟﭙﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ، ﺍﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﮐﻮﻥ ﺳﮑﮭﺎﺗﺎ ﮨﮯ ؟
ﺟﺎﻧﻮﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﻥ ﻣﺤﺒﺖ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﭼﻮﻧﭽﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﻻ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ منہ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻟﯿﮟ ؟
ﯾﮧ ﺁﺩﺍﺏِ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ سیکھے ؟
ﺷﮩﺪ ﮐﯽ ﻣﮑﮭﯿﺎﮞ ﺩﻭﺭ ﺩﺭﺍﺯ ﺑﺎﻏﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﭘﮭﻮﻝ ﺳﮯ ﺭﺱ ﭼﻮﺱ ﭼﻮﺱ ﮐﺮ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺍﯾﻤﺎﻧﺪﺍﺭﯼ ﺳﮯ ﻻ ﮐﺮ ﭼﮭﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﻤﻊ ﮐﺮﺗﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ہر ﺍﯾﮏ ﻣﺎﮨﺮ نباتات ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﺎﻧﺘﯽ ہیں ﮐﮧ ﮐﭽﮫ ﭘﮭﻮﻝ ﺯﮨﺮﯾﻠﮯ ﮨﯿﮟ ، ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎتیں ۔ وہ ﺍﯾﮏ ﻗﺎﺑﻞ ﺍﻧﺠﯿﻨﺌﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺷﮩﺪ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﻡ ﮐﻮ ﻋﻠﯿﺤﺪە ﻋﻠﯿﺤﺪە ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﻓﻦ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﻧﺘﯽ ہیں ۔ ﺟﺐ ﮔﺮﻣﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺷﮩﺪ ﮐﻮ ﭘﮭﮕﻞ ﮐﺮ ﺑﮩﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﻧﮯ کے لئے وہ ﺍپنے ﭘﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﺣﺮﮐﺖ ﺳﮯ ﭘﻨﮑﮭﺎ ﭼﻼ ﮐﺮ اسے ﭨﮭﻨﮉﺍ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﺗﯽ ہیں ۔ ﻣﻮﻡ ﺳﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮔﮭﺮ ﺑﻨﺎﺗﯽ ہیں ﺟﺴﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺑﮍﮮ ﺳﮯ ﺑﮍے ﺁﺭﮐﯿﭩﯿﮑﭧ ﺑﮭﯽ ﺣﯿﺮﺕ ﺯﺩە ﮨﯿﮟ ۔ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﻨﻈﻢ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﺜﺎﻝ ﻧﮩﯿﮟ ملتی ۔
ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﻈﺎﻡ راڈار نصب ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭە ﺩﻭﺭ ﺩﻭﺭ ﻧﮑﻞ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ کا ﺭﺍﺳﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﻮﻟﺘﯿﮟ ۔ ﺍنہیں ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﯾﮧ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﮐﺲ ﻧﮯ ﺳﮑﮭﺎئے ؟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﻋﻘﻞ ﮐﺲ ﻧﮯ ﺩﯼ ؟
ﻣﮑﮍﺍ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻨﮧ ﮐﮯ ﻟﻌﺎﺏ ﺳﮯ ﺷﮑﺎﺭ ﭘﮑﮍﻧﮯ ﮐﮯ لئے ﺍﯾﺴﺎ ﺟﺎﻝ ﺑﻨﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺪﯾﺪ ﭨﯿﮑﺴﭩﺎﺋﻞ ﺍﻧﺠﯿﻨﺌﺮز ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﺑﻨﺎﻭﭦ ﮐﺎ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﻔﯿﺲ ﺩﮬﺎﮔﺎ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻗﺎﺻﺮ ﮨﯿﮟ ۔
ﮔﮭﺮﯾﻠﻮ ﭼﯿﻮنٹیاں ﮔﺮﻣﯿﻮﮞ ﻣﯿں موسم سرما ﮐﮯﻟﺌﮯ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﺟﻤﻊ ﮐﺮﺗﯽ ہیں ، ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮔﮭﺮ ﺑﻨﺎﺗﯽ ہیں، ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ تنظیم ﺳﮯ ﺭﮨﺘﯽ ہیں ﺟﮩﺎﮞ مینیجمینٹ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﺻﻮﻝ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﻦ ﺣﺪ ﺗﮏ ﮐﺎﺭﻓﺮﻣﺎ ﮨﯿﮟ ۔
ﭨﮭﻨﮉﮮ ﭘﺎﻧﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻣﭽﮭﻠﯿﺎﮞ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻧﮉﮮ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﻃﻦ ﺳﮯ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﻞ ﺩﻭﺭ ﮔﺮﻡ ﭘﺎﻧﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ جاکر ﺩﯾﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﭽﮯ ﺟﻮﺍﻥ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﻭﻃﻦ واپس ﺧﻮﺩ ﺑﺨﻮﺩ ﭘﮩﻨﭻ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔
ﻧﺒﺎﺗﺎﺕ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﺑﮭﯽ ﮐﻢ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﻦ ﻧﮩﯿﮟ ، ﺟﺮﺍﺛﯿﻢ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﮑﭩﯿﺮﯾﺎ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﺮﻭﮌﻭﮞ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﺍپنے وجود اور اس کی بقا ﮐﻮ ﻗﺎﺋﻢ ﺭﮐﮭﮯ ﮨﻮئے ﮨﯿﮟ ؟
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﮔﺮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﺲ ﻧﮯ ﺳﮑﮭﺎئے ؟
سوشل مینیجمینٹ ﮐﮯ ﯾﮧ اصوﻝ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﺲ ﻧﮯ سکھائے ؟
ایک DNA ہی کو لے کر غور کریں تو انسانی عقلِ سلیم اللہﷻ کے وجود کو مانے بغیر نہیں رہ سکتی ۔
ﮐﯿﺎ ﺯﻣﯿﻦ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﻋﻘﻞ ﻣﻨﺪ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺧﻮﺩﺑﺨﻮﺩ ﻟﯿﻞ ﻭ ﻧﮩﺎﺭ ﮐﺎ ﻧﻈﺎﻡ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ، ﺧﻮﺩ ﺑﺨﻮﺩ ﮨﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺤﻮﺭ ﭘﺮ
1/2 -67 ﮈﮔﺮﯼ ﺟﮭﮏ ﮔﺌﯽ ﺗﺎ ﮐﮧ ﺳﺎﺭﺍ ﺳﺎﻝ ﻣﻮﺳﻢ ﺑﺪﻟﺘﮯ ﺭﮨﯿﮟ ، ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮩﺎﺭ ، ﮐﺒﮭﯽ ﮔﺮﻣﯽ، ﮐﺒﮭﯽ ﺳﺮﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﮐﺒﮭﯽ ﺧﺰﺍﮞ ﺗﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺑﺴﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﮨﺮ ﻃﺮﺡ کی ﺳﺒﺰﯾﺎﮞ ، ﭘﮭﻞ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﺳﺎﺭﺍ ﺳﺎﻝ ملتے ﺭﮨﯿﮟ ۔
ﺯﻣﯿﻦ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺷﻤﺎﻟﺎً ﺟﻨﻮﺑﺎً ﺍﯾﮏ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﻣﻘﻨﺎﻃﯿﺴﯽ ﻧﻈﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﺧﻮﺩﺑﺨﻮﺩ ﮨﯽ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ؟
ﺗﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺛﺮ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺑﺎﺩﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺠﻠﯿﺎﮞ ﮐﮍﮐﯿﮟ ﺟﻮ ﮨﻮﺍ ﮐﯽﻧﺎﺋﭩﺮﻭﺟﻦ ﮐﻮ ﻧﺎﺋﭩﺮﺱ ﺁﮐﺴﺎﺋﮉ ( Nitrous Oxide ) ﻣﯿﮟ ﺑﺪﻝ ﮐﺮ ﺑﺎﺭﺵ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﭘﻮﺩﻭﮞ کے لئے ﻗﺪﺭﺗﯽ ﮐﮭﺎﺩ ﻣﮩﯿﺎ ﮐﺮﯾﮟ ، ﺳﻤﻨﺪﺭﻭﮞ ﭘﺮ ﭼﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﺤﺮﯼ ﺟﮩﺎﺯ ﺁﺑﺪﻭﺯ
( Submarine ) ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺍؤﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﮌﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻃﯿﺎﺭﮮ ﺍﺱ ﻣﻘﻨﺎﻃﯿﺲ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﭘﺎﺋﯿﮟ ، ﺁﺳﻤﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻣﮩﻠﮏ ﺷﻌﺎﺋﯿﮟ ﺍﺱ ﻣﻘﻨﺎﻃﯿﺴﯿﺖ ﺳﮯ ﭨﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﭘﻠﭧ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﺎﮐﮧ ﺯﻣﯿﻨﯽ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﮩﻠﮏ ﺍﺛﺮﺍﺕ ﺳﮯ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺭﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮨﮯ ـ
ﺯﻣﯿﻦ ، ﺳﻮﺭﺝ ، ﮨﻮﺍؤں ، پہاﮌﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺪﺍﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﻤﺠﮭﻮﺗﺎ ﮐﺮ رکھا ہے تاﮐﮧ ﺳﻮﺭﺝ ﮐﯽ ﮔﺮﻣﯽ ﺳﮯ ﺁﺑﯽ ﺑﺨﺎﺭﺍﺕ ﺍﭨﮭﯿﮟ ، بھاری نمک کو واپس سمندر میں چھوڑ دیں ۔ ﮨﻮﺍﺋﯿﮟ ﺍﺭﺑﻮﮞ ﭨﻦ کشید شدہ صاف ہلکے اور میٹھے پانی (Distilled Water) ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺵ ﭘﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﭘﮩﺎﮌﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺪﺍﻧﻮﮞ ﺗﮏ ﻻﺋﯿﮟ ، سطح زمین سے بلند پہاڑوں پر سردیوں میں یہ پانی برف کی شکل میں سٹور ہوتا ہے اور گرمیوں میں یہی برف پگھلتی ہے تو اس سے آبشاریں پھوٹتی ہیں ، پھر ان کا پانی ندیوں میں بہتا ہے تاکہ دور تک انسانوں کی پیاس بجھائے ان کے پھلوں ، باغوں ، سبزیوں ، چراگاہوں اور اناج کو سیراب کرے ـ
بارش برسنے کے عمل میں ﺳﺘﺎﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺭﯾﮉﯾﺎﺋﯽ ذرات ﺑﺎﺩﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﺍﮐﭩﮭﺎ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻗﻄﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﺩیتے ہیں ، تب جاکر یہ ﻣﯿﭩﮭﺎ پانی پہاڑی علاقوں اور ﺧﺸﮏ ﻣﯿﺪﺍﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﯿﺮﺍﺏ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ قابل ہوتا ہے ۔
ﺟﺐ ﺳﺮﺩﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﮐﻢ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﻮتی ہے ﺗﻮ ﯾﮧ ﭘﮩﺎﮌﻭﮞ ﭘﺮ ﺑﺮﻑ ﮐﮯ ﺫﺧﯿﺮﮮ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺟﻤﻊ ﮨﻮجاتا ہے ۔ ﮔﺮﻣﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺯﯾﺎدە ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨوتی ہے ﺗﻮ ﯾﮧ ﭘﮕﮭﻞ ﮐﺮ ﻧﺪﯼ ﻧﺎﻟﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﯾﺎؤﮞ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺪﺍﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﯿﺮﺍﺏ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮئے ﻭﺍﭘﺲ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭻ جاتا ہے ۔
ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﺷﺎﻧﺪﺍﺭ ﻣﺘﻮﺍﺯﻥ ﻧﻈﺎﻡ ﺟﻮ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺳﯿﺮﺍﺏ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﺿﺎﺋﻊ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ۔
سوچیئے ! ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺳﺘﺎﺭﻭﮞ ، ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﻮﭺ ﺗﮭﯽ ؟
انسانی Pancreas ( لبلبہ) ﺧﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﺷﻮﮔﺮ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺹ ﻣﻘﺪﺍﺭ ﮐﻮ ﺑﮍﮬﻨﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ ، ﺩﻝ ﮐﺎ ﭘﻤﭗ ہر منٹ 70 ، 80 بار منظم اور باقاعدہ حرکت سے ﺧﻮﻥ ﭘﻤﭗ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ۔ ﺍﯾﮏ 75ﺳﺎﻟﮧ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﻼ ﻣﺮﻣﺖ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﺗﯿﻦ ﺍﺭﺏ ﺑﺎﺭ ﺩﮬﮍﮐﺘﺎ ﮨﮯ ۔
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮔﺮﺩﮮ ( Kidneys ) ﺻﻔﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﺑﮯﻣﺜﻞ ﺍﻭﺭ ﻋﺠﯿﺐ ﻓﯿﮑﭩﺮﯼ ہیں ﺟﻮ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺧﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﺟﺴﻢ کےلئے ﺟﻮ ﻣﻔﯿﺪ ﮨﮯ ﻭە ﺭﮐﮫ ﻟﯿﻨﺎ ﮨﮯ اور ﻓﻀﻼﺕ ﮐﻮ ﺑﺎﮨﺮ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺩﯾﻨﺎ ﮨﮯ ۔
ﻣﻌﺪە ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﻦ ﮐﯿﻤﯿﮑﻞ ﮐﻤﭙﻠﯿﮑﺲ ( Chemical Complex ) ﮨﮯ ﺟﻮ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﺳﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﺨﺶ ﺍﺟﺰﺍ ﻣﺜﻠﺎً ﭘﺮﻭﭨﯿﻦ ، ﮐﺎﺭﺑﻮﮨﺎﺋﯿﮉﺭیٹس ﻭﻏﯿﺮە ﮐﻮ ﻋﻠﯿﺤﺪە علیحدہ ﮐﺮﮐﮯ ﺧﻮﻥ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮧ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﻀﻼﺕ ﮐﻮ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﺎﻝ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ۔
ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺟﺴﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺠﯿﻨﺌﺮﻧﮓ ﮐﮯ ﯾﮧ ﺷﺎﮨﮑﺎﺭ ، ﺳﺎﺋﻨﺲ ﮐﮯ ﯾﮧ ﺑﮯ ﻣﺜﻞ ﻧﻤﻮﻧﮯ ، ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺳﮯ ﭘﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﻻﺟﻮﺍﺏ ﻓﯿﮑﭩﺮﯾﺎﮞ ، ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﯾﻮﮞ ﮨﯽ ﺑﻦ گئیں تھیں ؟
ﺩﻣﺎﻍ ﮐﻮ ﮐﺲ ﻧﮯ ﺑﻨﺎﯾﺎ ؟ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﮨﮉﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺧﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺪ ، ﭘﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺗﯿﺮﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﻋﻘﻞ ﮐﺎ ﺧﺰﺍﻧﮧ ، ﻣﻌﻠﻮﻣﺎﺕ ﮐﺎ ﺳﭩﻮﺭ ، ارادوں و ﺍﺣﮑﺎﻣﺎﺕ ﮐﺎ سینٹر ، ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺭﺍﺑﻄﮧ ﮐﺎ ﺫﺭﯾﻌﮧ ، ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﻤﭙﯿﻮﭨﺮ ﮐﮧ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﺱ کی کارکردگی ، پوٹینشل تو ایک طرف اس کی مکملﺑﻨﺎﻭﭦ ﺍﻭﺭ ﮈﯾﺰﺍﺋﻦ ﮐﻮ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ صحیح طرح سے ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﯾﺎ ۔ ﻻﮐﮫ ﮐﻮﺷﺸﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﻭﺭ ﺫﮨﻦ ﮐﺎ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﭙﺮ ﮐﻤﭙﯿﻮﭨﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ کے ﻋﺸﺮ ﻋﺸﯿﺮ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮩﻨﭻ ﺳﮑﺘﺎ ۔
ﮨﺮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮭﺮﺑﻮﮞ ﺧﻠﯿﺎﺕ ( Cells ) ﮐﺎ ﻣﺠﻤﻮﻋﮧ ﮨﮯ ۔ ﺍﺗﻨﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﮐﮧ ﺧﻮﺭﺩﺑﯿﻦ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﻧﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﮯ ، ﻟﯿﮑﻦ ﺳﺐ ﮐﮯ ﺳﺐ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ کہ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ ۔ ﯾﻮﮞ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﺎ ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﺧﻠﯿﮧ ﺷﻌﻮﺭ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺟﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﻣﮑﻤﻞ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﮨﮯ ۔ ﺍﻥ ﺟﯿﻨﺰ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﭘﻮﺭﯼ پروگرامنگ لکھی ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﺱ ﭘﺮﻭﮔﺮﺍﻡ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺧﻮﺩﺑﺨﻮﺩ چلتی ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ۔ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﭘﻮﺭﺍ ﺭﯾﮑﺎﺭﮈ ، ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻋﻘﻞ ﻭ ﺩﺍﻧﺶ ، ﻏﺮﺽ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺳﮯ ﺍﻥ ﺧﻠﯿﺎﺕ ﭘﺮ ﻟﮑﮭﺎ ﺟﺎ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ ۔ ﺣﯿﻮاﻧﺎﺕ ﮨﻮ ﯾﺎ ﻧﺒﺎﺗﺎﺕ ، ﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﯿﺞ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﭘﻮﺭﺍ ﻧﻘﺸﮧ ﺑﻨﺪ ﮨﮯ ، ﯾﮧ ﮐﺲ ﮐﯽ ﻧﻘﺸﮧ ﺑﻨﺪﯼ ﮨﮯ ، ﯾﮧ ﮐﺲ ﮐﯽ پروگرامنگ ہے ؟
ﺧﻮﺭﺩﺑﯿﻦ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﺸﮑﻞ ﺳﮯ ﻧﻈﺮ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺳﯿﻞ ( Cell ) ﺍﯾﮏ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﺗﻮﺍﻧﺎ ﻋﻘﻞ ﻭ ﮨﻮﺵ ﻭﺍﻻ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﯾﮧ ﮐﺲ ﮐﯽ ﺑﻨﺎﻭﭦ ﮨﮯ ؟
ﮨﻮﻧﭧ ، ﺯﺑﺎﻥ ، ﺍﻭﺭ ﺗﺎﻟﻮ ﮐﮯ ﺍﺟﺰﺍ ﮐﻮ ﺳﯿﻨﮑﮍﻭﮞ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺣﺮﮐﺖ ﺩﯾﻨﺎ ﮐﺲ ﻧﮯ ﺳﮑﮭﺎﯾﺎ ؟ ﺍﻥ ﺣﺮﮐﺎﺕ کے اندر کس نے صلاحیت رکھی ہے جس سے مختلف جغرافیوں کے انسان ﻃﺮﺡ ﻃﺮﺡ ﮐﯽ بامعنی ﺁﻭﺍﺯﯾﮟ نکالتے ہیں ، ﺍﻥ سے کئی قسم کے لہجے اور معانی سمجھتے اور سمجھاتے ہیں ؟ ان حیرت انگیز نشانیوں اور حقیقتوں کے پیچھے کس کی قدرت کاملہ کار فرما ﮨﮯ ؟
وہ ہے لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Category
Contact the business
Telephone
Address
SATELLITETOWNKAKARCOLONYQUETTA
KANSI Road TIN TOWN MADNI STREET
Quetta
The life is very special .its like the play of childe. when you person got undar stand its be lte .life short is short for .sta dard perso s .
Quetta
I am a digital marketing expert with a passion for helping businesses grow through strategically
7-4/28 A Yazdan Khan Road
Quetta, 87300
Welcome To The Official page Of Ultimate Commerce Quetta. Make Sure To Like & Follow Us.