Alif meam
This page is the best platform for fun, product marketing and Islamic teachings. Do not upload unne
جی اوئے عشق جوانان صدقے by Ali zaryon
Khoty ki bhi expire date hoti ha😜
ریڑھی والے نے صحیح بینڈ بجایا😂😂😂
Bara aaya aashiq😬😬😬😬
❤❤❤کامل ایمان❤❤❤
تحریر : ترگت آلپ
شازیہ کچن میں کام کر رہی تھی باہر شازیہ کا بھائی نعمان 2 سال کے عبداللہ جو کہ شازیہ اور تنویر کا چھوٹا بیٹا تھا کو گود میں اٹھائے اس کے ساتھ کھیل رہا تھا اور ساتھ ساتھ ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ شازیہ برتن سمیٹتے ہوئے اپنے شوہر کے بارے میں سوچ رہی تھی جو کہ اسے 2، 3 ہفتوں کا کہہ کر آج چھ مہینے ہونے کو آئے تھے لیکن اس کا کچھ پتہ نہیں تھا اچانک باہر دروازے کی گھنٹی بجی نعمان اٹھا اور دروازہ پر دیکھنے چلا گیا کہ باہر کون ہے۔۔۔۔ جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا تو سامنے اک بھکاری ٹائپ بندہ کھڑا ہوا تھا جس کی حالت دیکھ کے لگتا تھا کہ نہ جانے کہاں کہاں کی خاک چھان کر آیا ہے پہلے تو اک دم اس طرح دیکھ کر نعمان گھبرا گیا کہ یہ کون ہے پھر چہرے پہ غور کیا تو اک دم چونکا بھائی آپ۔۔۔۔۔۔۔۔
دروازے پر تنویر تھا جو آگے سے نعمان کو ہٹاتے ہوئے بولا
اتنی دیر لگا دی تم نے دروازہ کھولنے میں۔۔ بھائی آپ کہاں تھے؟؟ (نہایت پریشانی سے نعمان نے پوچھا) اور ساتھ ہی شازیہ کو آواز دینے لگا۔۔۔ آپا او آپا تنویر بھائی آ گئے اور ساتھ ہی دروازہ بند کرتے ہوئے پیچھے ہو لیا شازیہ نے جیسے ہی تنویر کا نام سنا دوڑتے ہوئے کچن سے باہر نکلی خوشی اور پریشانی کے ملے جلے تاثرات سے تنویر کو دیکھنے لگی۔ تنویر اس کے پاس سے سلام دے کر جا کہ آرام سے اس طرح صوفے پہ بیٹھ گیا جیسے وہ صبح کام پہ گیا تھا اور شام کو لوٹ رہا ہے۔ شازیہ کے چہرے کے رنگ اک دم بدل گیا جو اب تک خوشی سے کھلکھلا رہا تھا اب غصے سے تمتما رہا تھا۔۔۔
تنویر نے صوفے پہ براجمان ہوتے ہی اک فرمائش کر ڈالی ۔۔۔ یار شازی اک چائے کا کپ تو دے دو ۔۔۔ شازیہ نے اک قہر آلود نظروں سے تنویر کو دیکھا جس کا تنویر دھیان نہیں دے رہا تھا اور غصے سے پیر پٹختے ہوئے کچن میں چلی گئی ۔۔۔ چائے کی دیگچی اتنی زور سے چولہے پہ پٹخنے والے انداز میں رکھی جس کی آواز باہر لاؤنج تک سنائی دی تنویر اور نعمان نے کچن کی طرف دیکھا پھر نعمان کی طرف آنکھ کے اشارے سے پوچھا کہ کوئی مسئلہ ہے؟؟؟ نعمان نے اپنی منڈھی ہلاتے ہوئے خراب موسم کی نشاندہی کر دی اور انگلیاں کے اشارے سے بتایا کہ آپ 6 مہینے بعد لوٹ رہے ہو۔ تنویر منہ بڑبڑایا آج تیری خیر نہیں تنویر بیٹا برگیڈیئر شازیہ آج تیرا کورٹ مارشل کرے گی۔
تھوڑی دیر بعد شازیہ اندر سے چائے لیے ہوئے آئی اور زور سے اس کے سامنے پڑے ہوئے ٹیبل پہ رکھی مڑ کے جانے لگی تو تنویر نے بس اتنا ہی کہا کہ۔۔۔
شازی وہ ۔۔۔۔۔۔ تنویر کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے ۔۔
کیا ہے؟؟ کوئی اور فرمائش ڈالنی ہے کیا۔۔ یہ گھر ہے یا کوئی ریسٹورنٹ ہے جس میں جب دل چاہا منہ اٹھا کہ چلے آئے۔ اور جناب مجھ سے فرمائشیں ایسے کر رہے ہیں جیسے میں ان کی نوکرانی ہوں۔۔۔
تنویر کا بھی پہلے غصے سے پارہ چڑھنے لگا پھر اسے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا واقعہ یاد آیا ان کے دور میں اک شخص بہت دور سے اپنی بیوی کی شکایت لے کر آیا تھا کہ میری بیوی بہت تلخ زبان ہے بہت بد اخلاق ہے مجھے بات بات پہ طعنے مارتی ہے اس نے آکر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا اندر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اٹھ کے باہر جانے لگے تو پیچھے سے بیوی بولی آگیا ہے پھر کوئی اور پھر چپ چاپ آپ نکل جائیں گے۔۔ گھر کی آپ کو کوئی فکر ہے یا نہیں بچے کیا مجھ اکیلے کے ہیں آپ کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کھڑے ہو کہ سنتے رہے اور باہر جو شخص کھڑا تھا وہ بھی سب کچھ سن رہا تھا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ مسکرائے اور بیوی سے کہا کہ اگر تیری باتیں ختم ہو گئی ہوں تو میں باہر جاوں کوئی انتظار کر رہا ہے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی بیوی نے جب آپ کو مسکراتے ہوئے دیکھا تو وہ بھی مسکرا دی اور کہا اچھا جائیں۔ باہر نکلے تو شخص پہلے ہی بول پڑا کہ حضور میری اتنی بھی بری حالت نہیں ہے میں تو آیا تھا اپنی بیوی کی شکایت لے کر لیکن آپ کی بیوی تو آپ کو بہت باتیں سناتی ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے سنا اور مسکرائے اور کہا کہ میں کیوں نہ اپنی بیوی کی باتیں سنوں جب میں گھر میں نہیں ہوتا تو میرے گھر کا خیال رکھتی ہے میرے بچوں کا خیال رکھتی ہے میرے کپڑے دھو کر دیتی ہے میرے بستر کا خیال رکھتی ہے میری امانت میں خیانت نہیں کرتی جب میں رات کو بستر پہ بلاتا ہوں تو آتی ہے مجھے انکار نہیں کرتی۔ تو میں کیوں نہ اس کی باتیں سنوں اس کے بھی کچھ حقوق ہیں۔
تنویر یہ سوچ رہا تھا کہ ادھر شازیہ کی باتیں ختم ہی نہیں ہو رہی تھیں۔ اور آپ کو پتہ ہے کہ آپ کا بیٹا اب بڑا ہو رہا ہے اسے باپ کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔
تنویر نے نعمان کی طرف دیکھا جو کے ان دونوں کی ہی طرف دیکھ رہ تھا تنویر نے اسے آنکھ کے اشارے سے کہا کہ وہ یہاں سے جائے وہ آرام سے اٹھا اور عبداللہ کو اٹھا کر باہر نکل گیا۔۔۔
تنویر آرام سے اٹھا اور شازیہ کا چہرا پکڑ کر اس کے ماتھے پہ اپنے ہونٹ رکھ دئے اس کے ہونٹوں کا لمس شازیہ کی روح تک محسوس ہوا جب پیچھے ہٹا تو شازیہ کا چلتا ہوا ٹیپ ریکارڈر بند ہو گیا تھا اور ڈبڈبائی آنکھوں کے ساتھ تنویر کے چہرے کو تکنے لگی اس نے چہرے سے ہاتھ ہٹائے اور اس کے بازوں کے نیچے سے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اپنی طرف کھینچ کر انتہائی گرم جوشی سے گلے لگا لیا۔۔
آئی ایم سوری شازی میں نے تم کو بہت مشکل میں ڈالے رکھا لیکن میں بھی کیا کروں تم تو جانتی ہی ہو میری نوکری کس طرح کی ہے تمہارا شوہر گمنام راستوں کا مجاہد ہے۔ جس کی منزل کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ لیکن ان دشوار گذار راستوں میں ان مصیبتوں اور پریشانیوں میں میں کبھی بھی تمہیں بھولا نہیں ہوں میں جب بھی یہاں سے جاتا ہوں اپنے دل یہیں تمہارے پاس چھوڑ کے جاتا ہوں مجھے تم کسی جگہ کسی وقت اور کسی لمحہ نہیں بھولی ہو۔۔۔۔ تنویر یہ اعتراف محبت کر رہا تھا اور شازیہ جو کافی دیر سے اپنے آنسو روکے ہوئے تھی اس سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔ شازیہ جو بہت ہی نفیس اور صفائی پسند طبیعت کی مالک تھی آج تنویر سے آنے والی بدبو جو کہ نہ جانے کب سے اس حالت میں ہونے کی وجہ سے آرہی تھی کوئی پریشانی نہیں ہو رہی تھی بس وہ اس کا اعتراف محبت سننا چاھ رہی تھی۔ اور اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہ رہی تھی۔
شازی تم جانتی ہو میں 3 دن سی چین سے سویا نہیں ہوں دشمن میرے پیچھے تھے بہت مشکل سے میں یہاں پہنچا ہوں اسی وجہ سے میرے سر میں درد بھی شروع ہو گیا تھا شازیہ نے اک دم کندھے سے سر اٹھایا اور کہا آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا ؟؟؟ ۔۔۔ کیسے بتاتا تم آتے ہی شاھین کی طرح ایسے جھپٹی کے جیسے میں ابھی نندن ہوں۔ شازیہ کی اک دم ہنسی نکل گئی۔۔۔ شازیہ کی اسی مسکراہٹ پہ تو تنویر مرتا تھا۔ شازیہ کوئی نمرا احمد یا عمیرا احمد کے ناولوں کی کوئی ہیروئین نہیں تھی جس کا قد 5 فٹ 6 یا 7 انچ ہو گا یا وہ اک بہت ہی گوری چٹی لڑکی ہو گی جس کے حسن کے چرچے ہو نگے۔ وہ اک درمیانے قد کی سانولی شکل و صورت کی اک عام سی لڑکی تھی۔ ہاں اس کی مسکراہٹ بہت دل آویز تھی اور کمر سے کافی نیچے تک اس کے بال تھے جن پہ تنویر فدا تھا۔
میں آپ کے لیے بہترین کڑک سی چائے بنا کے لاتی ہوں یہ ٹھنڈی ہو گئی ہو گی ۔ آپ یہاں بیٹھے شازیہ نے مسکراتے ہوئے ہاتھ پکڑ کر بیٹھاتے ہوے کہا۔ اور خود بجلی کی تیزی سی اور چائے بنا کر لائی۔ چائے پینے کے بعد تیل لے کر آگئی اور سر کی اچھی طرح چمپی کی۔ اور کہا کہ آپ جا کے نہا لیں میں نے گرم پانی رکھ دیا ہے آپ کے لیے اور اپنی حالت بھی درست کریں پتہ نہیں کب سے آپ نے شیو بھی نہیں کی۔ بو آرہی ہے آپ سے ۔۔۔۔۔ تنویر خاموشی سے اٹھا اور واش روم میں گھس گیا اور اندر لگے آئینے کے پیچھے ہاتھ ڈال کے اک بٹن دبایا تو سامنے اک خفیہ خانہ کھلا جس میں اک لیپ ٹاپ رکھا ہوا تھا اس نے فورا لیپ اٹھایا اسے اوپن کیا اور اپنی جیب سے اک USB نکالی جسے لیپ ٹاپ میں لگا کے کچھ فائلز کاپی کرنے لگا۔
کافی دیر بعد جب وہ واش روم سے نکلا تو دیکھا کہ اس کے کمرے میں خوشبو پھیلی ہوئی ہے کمرہ بہترین طریقے سے صاف ہوا ہے بیڈ پہ وہی بیڈ شیٹ ڈالی ہوئی ہے جو اس کی شادی کی پہلی رات تھی۔ اور شازیہ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر آنکھوں میں کاجل لگا رہی تھی اور بال کھلے چھوڑے ہوئے تھے ۔ شازیہ تنویر کو واش روم سے نکلتا ہوا دیکھ کے مڑی تو تنویر دیکھتا ہی رہ گیا کیونکہ آج اس نے وہی سبز رنگ کا فراک اور چوڑی دار پاجامہ پہنا ہوا تھا جو تنویر کو بہت اچھا لگتا تھا۔ جس کے بازو پورے ہاتھوں تک تھے اور اس فراک پر بہت بہترین کڑاھی ہوئی تھی یہ شازیہ کا واحد لباس تھا جو فٹنگ میں تھا باقی اس کا کوئی ایسا جوڑا نہیں تھا کیوں وہ ایسا لباس سخت ناپسند کرتی تھی جس سے جسم کی نمائش ہو یہ واحد لباس تنویر کے لیے اس نے خود سیا تھا۔ ہاں اس کا گلا آگے سے ذرا ڈیپ رکھا تھا۔ اور یہ اسی وقت پہنتی تھی جب تنویر کو سکوں کی تلاش ہوتی تھی اور آج وہی دن تھا۔۔
تنویر کو اس طرح خود کو گھورتا دیکھ کر تھوڑا جھینپ گئی۔ اور خاموشی سے اس کے پاس آ کر اس کا ہاتھ پکڑا اور لا کر بیڈ پہ بٹھایا اور خود سے ہی ٹاول لے کر اس کے سر سے پانی خشک کرنے لگی۔ شازیہ کی اتنی قربت کی وجہ سے اس کو عجیب قسم کی سرشاری اور سکون مل رہا تھا۔ بال خشک کرنے کے بعد شازیہ نے اس کے سر پہ کنگھی کی اور بہت پیار سے بولی آپ کتنے دن سے سوئے نہیں ہو؟ آجائیں آج میں آپ کو سلاتی ہوں اس نے تکیہ اک سائیڈ پہ رکھا اور خود وہاں بیٹھ گئی اور تنویر کا سر اپنی گود میں رکھ لیا اور اپنے بالوں کو کندھوں کے دونوں طرف پھیلا دیا۔ اور پیار سے اس کے بالوں پہ ہاتھ پھیرنے لگے۔ کبھی جھک کر تنویر کا ماتھا چومتی کبھی اس کے چہرے پہ پیار سے ہاتھ لگاتی تنویر اتنے دنوں کی مسافت اور تھکان کے بعد اپنی بیوی کی آغوش میں بہت چین کی نیند سو رہا تھا۔ ایسے جیسے اس کو دیا میں ہی جنت مل گئی ہو۔
جب تنویر قید میں تھا تو اسے یاد تھا کتنی سختیاں اور تکلیفیں اس نے برداشت کی تھیں نہ جانے دشمنوں نے اس سے راز اگلوانے کے لیے کیا حربے آزمائے۔ ان میں سب سے سخت عورت کی چال تھی جس سے تنویر کو ورغلا کر اس کے ایمان کی طاقت کو کمزور کرنا تھا۔ اک مرد دنیا کا ہر حال با آسانی توڑ سکتا ہے لیکن عورت کا نہیں۔ جو اس جال کو بھی توڑ دیتا ہے آللہ پاک کے ہاں ایسے شخص کے لیے بہت بڑا انعام ہے۔ اللہ پاک قرآن کریم میں فرماتا ہے ک" بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔" تنویر نے یہ سارے جال توڑے تھے اور اس عورت کے مکرو فریب سے بھی نکل آیا تھا۔ اور اگر صحیح طرح دیکھا جائے تو تنویر دنیا اور آخرت دونوں ہی دیکھ لی تھی۔ وہ قید اس کے لے یہ فانی دنیا تھی اور اس میں تکلیفوں اور مصیبتیں اس دنیا کا حصہ وہ عورت جو اس کو ورغلانا چاھتی تھی وہ اس دنیا کی عیش و عشرت تھی۔ جب وہ وہاں سے بھاگا تو وہ اک پل صراط پہ تھا جس کے دائیں بائیں آگ تھی ذرا سی غلطی اس کی جان لے لیتی اگر اس کے پاس وہاں سے بھاگنے کا بہترین منصوبہ نہ ہوتا تو۔ اور اک بہت پیاری بیوی کی صورت میں اس کو جنت مل چکی تھی۔ جس کی آغاز میں وہ سو رہا تھا۔ یہ سب کیسے ہوا اور کیوں ہوا کیوں کے اس کا ایمان کامل تھا اپنی پیاری بیوی کی صورت میں۔۔
(نوٹ: کچھ وجوہات کی بنا پر پوری کہانی ہو بہو نہیں لکھ سکتا ہوں۔ کہانی کے کرداروں کے نام بھی تبدیل کئے ہیں۔ اگر پسند آئے تو لائک اور کمنٹس ضرور کیجئے گا۔)
بیوی ہے جس کا نام ۔۔۔ اسی کے نام !
( ہلکا سا طنز ، پھلکا سا مزاح )
عقد مسنونہ کے بعد جو منکوحہ آپ کے پلے بندھ جاتی ہیں انہیں بیوی کے علاوہ زوجہ ، جورو ، اہلیہ ، گھر والی ، لگائی ، کد بانو ، رفیقہ حیات ، شریک حیات ، گھرنی وغیرہ وغیرہ کہا جاتا ہے ۔ مجھ جیسے کچھ کج فہم بیوی کی عدم موجودگی میں اسے وجہ مشکلات بھی کہتے ہیں ۔ یہ سب نام ایک طرف مگر ہندی بھاشا میں استری کا نام سن کر بے ساختہ دل داد دینے کو چاھا ۔ استری جیسا با معنی نام سن کر جیسے دکھے دل کو قرار آگیا ۔ یہ استری شوہر کے سارے کس بل نکال کر سیدھا کر دیتی ہے اور شوہر ساری زندگی کے لئے flat ہوجاتا ہے ۔ شادی سے پہلے بد دماغی کے باعث شوہر کے ماتھے پر بات بہ بات پڑنے والی قابل فخر شکنوں کو چشم زدن میں ایک پھیرے میں ہی دور کر دیتی ہے ۔ کہتے ہیں استری جتنی بھاری الوزن اور گرم المزاج ہو اتنا ہی بے شکن کام کرتی ہے ۔
برسوں پہلے کلیم عاجز کی ایک غزل سنی تھی ۔ اللہ جانے مجھ عاجز کو اس کا ایک مصرعہ ثانی ایک لفظ کی تبدیلی کے ساتھ کیوں یاد آرہا ہے ۔
تم “استری” کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
میں سمجھ رہا تھا کہ مصرعہ ثانی میں “قتل” کی جگہ “استری” لگا کر میرا کام چل جائے گا مگر جب غزل دیکھی تو شوہر کئ آپ بیتی لگی ۔
میرے ہی لہو پر گذر اوقات کرو ہو
مجھ سے ہی امیروں کئ طرح بات کرو ہو
دن ایک ستم ایک ستم رات کرو ہو
وہ دوست ہو دشمن کو بھی تم بات کرو ہو
یوں تو کبھی منہ پھیر کے دیکھو بھی نہیں ہو
جب وقت پڑے ہے تو مدارات کرو یو
بکنے بھی دو عاجز کو جو بولے ہے بکے
دیوانہ ہے دیوانے سے کیا بات کرو ہو
سقراط کی بیوی نے کیا کیا ؟
کلیم عاجز کے نام تک میں عاجز آتا ہے لیکن ذرا سقراط کا سوچیں اور بیوی کے ہاتھوں اس کے ساتھ کیا ہوا ۔ ایک دن شاگردوں کو لئے بیٹھا تھا ۔ علم و حکمت کے دریا بہا رہا تھا ۔ شاگرد ہمہ تن گوش تھے ۔ کیا دیکھتے ہیں کہ سقراط کی بیوی پانی کا گھڑا لئے چلی آرہی ہے ۔ آتے ہی اس نے پہلے تو سقراط کو جلی کٹی سنائیں اور گھڑے کا پورا پانی اس پر بہا ڈالا جب اس سے بھی طبیعت سیر نہ ہوئی تو پورا گھڑا سقراط کے سر ہر دے مارا ۔ ممکن ہے سقراط پر گھڑوں پانی پڑ گیا ہو ۔ کوئی دوسرا ہوتا تو بیوی بتاتا کہ تو نے جتنا پانی انڈیلنا تھا انڈیل دیا ۔ اب میں بتاتا ہوں کہ میں کتنے پانی میں ہوں ۔
شاگرد سمجھے کہ اب سقراط کے صبر کا پیمانہ جواب دے جائے گا ۔ سقراط جہاں بیٹھا تھا ، ٹس سے مس نہ ہوا ۔ سر گیلا تھا ۔ پانی چہرے سے ٹبک رہا تھا ۔ خدا ہی جانے کہ اس میں اس کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسو بھی تھے کہ نہیں ۔ سقراط نے واقعہ کو ابر رحمت سے تعبیر کرتے ہوئے شاگردوں سے کہا : پیارے بچو ! فکر نہ کرو ، بادل آیا ، گرجا ، برسا اور چلا گیا ۔
کہتے ہیں کہ سقراط نے جان بوجھ کر سب سے بد مزاج اور بد زبان عورت کو شرف زوجیت بخشا تھا ۔ کسی نے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا ؟ تو جواب یہی ملا کہ صبر و ہمت کی دولت حاصل کرنے کے لئے ۔ سقراط نے زہر کا پیالہ یوں ہی نہیں پی لیا تھا ۔ اس نے زہر پینے کے لئے پہلے ریاضت کی تھی کیونکہ جو زہر اسے روزانہ کانوں سے پینا پڑتا تھا اس سے کہیں آسان زہر کا پیالہ پینا تھا اور ویسے بھی سقراط جتنا بیوی گزیدہ تھا اس پر زہر تو اس کے لئے امرت تھا ۔ ہم بے کار میں سقراط کے قتل کو مذہب کے ٹھیکیداروں اور حکومت کے خانے میں ڈال دیتے ہیں ۔ بلاشبہ اس کی ان مذہبی ٹھیکیداروں اور حکومت سے ان بن تھی مگر یہ بھی تو غور کریں کہ گھر پر اس کا کیا حال تھا ایسے میں تو بندہ باہر مرنے کے بہانے ڈھونڈتا ہے ۔
ارسطو ہوشیار تھا ۔
اس معاملے میں ارسطو خاصا ہوشیار رہا ۔ اس نے بیوی کے ساتھ بڑی آسودہ اور مزے کی زندگی گذاری لیکن ایک جگہ کہہ گیا : قدرت جب کسی کو مرد بنانے میں ناکام ہو جاتی ہے تو اسے عورت بنا دیتی ہے ۔ الامان ، الحفیظ یہ بیان وہ بیوی کی زندگی میں تو نہیں دے سکتا تھا ورنہ بہت “آنسودہ” اور “مرنے کی زندگی” گزارتا ۔ اس بیان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ارسطو بیوی کے بعد پیوند خاک ہوا ورنہ بیوی ورنہ وہ اس کا خاکینہ بنا دیتی ۔
بڑے بڑے کیا کہتے ہیں ؟
کرشن چندر نے کہا تھا ک عورتوں نے ہمیشہ گدھوں سے عشق کیا ہے ، عقل مند آدمی کو تو وہ پسند ہی نہیں کرتی ہیں ۔ شیکسپیئر نے کہا تھا کہ عورت کمزوری کا نام ہے ۔ اب یہ وہ کمزوری تو نہیں جس کے معالج دیواروں کو کالا کر کے نوید مسرت سناتے ہیں ۔ مشہور مصنف بیکن نے کہا تھا کہ جو شادی کر لیتے ہیں ان کی قسمت یرغمال ہو جاتی ہے ۔ بیکن نے ذاتی تجربے کو کلیہ بنا کر پیش کیا یے ۔ اسے پتہ ہی نہیں ہمارے یہاں قسمت نہیں پورا کا پورا بندہ تا وقت سانس آخر یرغمال رہتا ہے ویسے کچھ بیویاں شوہر کو مال مفت دل بے رحم کے “کھانے” میں رکھتی ہیں ۔
بیوی کی عظمت و جلالت اور ھیبت و دھشت کی گواہی ایسے ایسے شوہروں نے دی ہے کہ جن کا طوطی جگہ جگہ بولتا تھا لیکن گھر آکر طوطے کی اپنی آواز نہ نکلتی تھی ۔ کہتے ہیں سانپ اپنے بل میں سیدھا ہو کر جاتا ہے تو صاحبو اس میں کمال سانپ کا نہیں اس بل کا ہے ورنہ سانپ کے مزاج میں سیدھا چلنا ہی کہاں ہے ۔ اسی طرح شیر کی دھاڑ سارے چنگل کو خوف زدہ کر دیتی ہے مگر یہ بات بھی سب جانتے ہیں شیرنی شیر کو صرف گھور کر دیکھتی ہے اور وہ بھیگی بلی بن جاتا ہے ۔
ہاتھ میں موبائل ، پولیس موبائل سے کم نہیں ۔
تو صاحبو ! جب جنگل کے بادشاہ کا یہ حال ہے تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں ۔ ہمارے ایک دوست نے آج تک شادی نہیں کی ۔ جب بھئ کہا کہ یار یہ بھی کر لو تو کہتا ہے کہ کنوارے رہنے کے اتنے فائدے ہیں کہ تم سوچ بھی نہیں سکتے ویسے بھی اب تم سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہو ۔ میں نے کہا کہ بھائی شوہر کو سرتاج کہتے ہیں ، قہقہہ مار کر بولا : تو مجھے محتاج ہی رہنے دے ۔ یہ ایک محتاجی بڑی سے بڑی بادشاہت سے بہتر ہے ۔ پھر اس نے اپنا چمچماتا موبائل فون دکھاتے ہوئے کہا : یہ کیا ہے؟ میں نے کہا : موبائل ہے ۔ اس نے نفی میں سر ہلایا : میرے لئے موبائل اور تمھارے لئے پولیس موبائل ۔ ابھی گھر سے کال آئے گی اور تم بغیر بریک کے دوڑ پڑو گے ۔ ۔ ۔ اور سنو یہ جو موبائل ہے ناں ، میں اس سے کبھی کوئی میسج ڈیلیٹ نہیں کرتا اور نہ ہی نجمہ کو نجم کے نام سے save کرتا ہوں ۔ میں اس کی باتیں سن کر بور ہوگیا تو بولا : تجھے پتہ ہے ایک سیانے سے کسی نے پوچھا کہ لمبی عمر کے لئے کیا کرنا چاھیئے ؟ سیانے نے کہا : شادی !
پوچھنے والا جل گیا : عقل کے ناخن لو بھائی ۔ ۔ ۔ شادی کے بعد کس کی زندگی لمبی ہوئی ہے ؟
سیانے نے مسکرا کر کہا : زندگی لمبی نہیں ہوتی ۔ لمبی محسوس ہونے لگتی ہے ۔
میاں بیوی کی ٹک ٹاک ا
لطیفوں کے معاملے میں ہمارے پٹھان اور سکھ حضرات سب سے زیادہ لطف دیتے ہیں لیکن یہ میرا یقین ہے کہ جتنے لطیفے ایک اکیلی بیوی کے ہیں ۔ سب مل کر بھی معیار تو دور کی بات گنتی بھی پوری نہیں کر سکتے ۔
ہمارے ایک دوست بیوی کے سامنے ذرا بول لیتے ہیں ۔ ایک دن صبح کے وقت اخبار کا فلمی صفحہ پڑھتے ہوئے حسیناؤں کی تصاویر سے نہار منہ خوش مزہ ہو رہے تھے ۔بیوی نے چائے لاتے ہوئے شوہر کی اس دیدہ دلیری اور دریدہ ذہنی کو شدید ناپسند کیا ۔ چائے رکھتے ہی اخبار پر جھپٹا مارا اور بولیں : کاش میں بھی صبح کا اخبار ہوتی ۔ آپ کی نظروں کے سامنے دیر تک رہتی ۔ آپ مجھے دیکھتے رہتے ۔
شوہر نے تیزی سے دوبارہ اخبار کو اپنے قبضے میں لیتے ہوئے کہا : سوچ لو، اخبار روز نیا آتا ہے اور تصویریں بھی نئی ہوتی ہیں ۔
اگلے دن بیوی نے حساب چکتا کر دیا ۔ اول تو سالن میں نمک ہی نہیں ڈالا اوپر سے اس کو جلا بھی دیا ۔ ایک دو لقموں کے بعد شوہر کا حوصلہ جواب دے گیا اور بولا : ایک تو تم نے سالن جلا دیا ۔ شوہر سے نمک بھی نہیں ڈالا ۔ بیوی مسکراتے ہوئے کہا : سالن کا تو مجھے معلوم ہے کہ جل گیا مگر میں جلے پر نمک نہیں ڈالتی ۔
بیوی کو یہ برداشت ہی نہیں کہ اس کا شوہر زندہ عورت تو درکنار کسی عورت کی تصویر کو بھی زیادہ دیر تک دیکھے ۔ ایک مرتبہ میاں بیوی کسی بڑے مصور کی تصاویر کی نمائش دیکھنے گئے۔ شوہر پتوں سے ڈھکی ایک لڑکی کی تصویر دیکھنے میں محو ہو گیا ۔ بیوی سے برداشت نہ ہوا ، بولی : اب چلو بھی ۔ ۔ ۔ کیا آندھی چلنے کا انتظار کر رہے ہو ۔
کچھ شوہر زندہ دل ہوتے ہیں ۔
اچھا اب ایسا نہیں کہ تمام شوہر رونا گانا ہی کرتے رہتے ہیں ۔ اس ظلم کے باوجود کچھ کی حس مزاح قیامت کی ہوتی ہے ۔ ہمارے ایک نکتہ ور ، جہاندیدہ اور اہلیہ شناس دوست بیوی کے شک ہرستانہ مزاج کو اپنی جوانی کی کنجی قرار دیتے ہوئے ارشاد فرما تے ہیں کہ جب تک آپ کی بیوی آپ پر شک کر رہی ہے ۔ آپ یقین رکھیں کہ آپ جوان ہیں ۔ اسی طرح ان کا ایک فرمان ہر قبرستان کے میں گیٹ پر جلی حرفوں سے لکھنے کے قابل ہے ۔ آپ کہتے ہیں کہ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ مرتے وقت کم از کم ایک بیوہ چھوڑ کر جائیں چاھے اس کے لئے زندگی میں کتنا ہی کشت کیوں نہ جھیلنا پڑے ۔ وہ کہتے ہیں مجھے خوشی ہے کہ شوہر حضرات اس سلسلے میں اپنی سی پوری کوشش کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں بیوہ عورتوں کی تعداد زیادہ ہے ۔ حوالے اور دلیل کے طور پر کہتے ہیں کہ آپ کسی خاندان کی تقریب میں چلے جائیں ، بیوائیں تو چہکتی ، مہکتی نظر آئیں گی مگر رنڈوا ڈھونڈے سے نہ ملے گا اور اگر مل بھی گیا تو زندگی بیزار ۔
میاں بیوی کا بلڈ گروپ کیا ہونا چاھیئے ؟
ہمارے انہی دوست نے ایک اور پتے کی بات بتائی ، بولے : جس سے شادی ہو اس سے آپ کا خونی رشتہ نہیں ہونا چاھیئے ورنہ شادی کے بعد وہ آپ کا خون کیسے پیئے گی ۔ خون کے معاملے میں ان کی ایک اور دلچسپ تحقیق بھی سامنے آئی ہے جو کہ چشم کشا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جو شادی بظاہر کامیاب نظر آتی ہے اس میں شوہر کا بلڈ گروپ بی پازیٹیو اور بیوی کا آو نیگیٹیو نکلتا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ ماہرین نفسیات اور حیاتیات (Entomologist) باہم اس موضوع پر کام کریں تاکہ آئندہ طویل عرصے تک چلنے والی شادیوں کے لئے تھلیسیمیا کے ساتھ اس طرف بھی توجہ دی جا سکے ۔
بیوی کو کم از کم 8 سے 10 گھنٹے نہ دیکھنا ضروری ہے ۔
ایک دن یہ جہاندیدہ دوست بس میں مل گئے ۔ تپاک سے ملے، گھڑی دیکھی ، رات کے آٹھ بج رہے تھے ، بولے : کیا روز کا یہی روٹین ہے ؟ میں نے کہا : ہاں روز روز دس سے بارہ گھنٹے گھر سے دور رہنا پڑتا ہے ۔ بولے : زندگی سے قریب رہنے کا اس سے آسان اور سستا نسخہ کوئی نہیں ۔ میں نے کہا : کیسی باتیں کرتے ہیں ؟ بولے : تم جیسے جذباتی شوہر اپنے پیروں پر خود کلھاڑی مارتے ہیں ۔ بیوی سے روزانہ آٹھ سے دس گھنٹے دور رہنا زندگی کے لئے ضروری ہے ۔ حکماء کہتے ہیں کہ بیوی اسی وقت قابل برداشت ہوتی ہے جب اسے آٹھ سے دس گھنٹے بعد دیکھا جائے ۔
بات میں وزن ہے تو دل خود بخود سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ بس سے اتر کر گھر جانے لگا تو سوچا صحیح بات ہے ۔ ابھی گھر جاوں گا اور دو سوال ایسے پوچھیں گی کہ” آثار لڑا دید” ہویدا ہو جائیں گے ۔ کھانے کا پہلا نوالہ لوں گا اور بوچھ بیٹھیں گی کہ کھانا کیسا پکا ہے؟ آب آپ بتائیں یہ لڑائی شروع کرنے والی باتی نہیں تو کیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد پھر ایک اور سوال : سنیں امی کے چلیں گے ؟
امی کی جانے کو یر وقت تیار ، شوہر کا مرے تو سو بہانے
دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنی والدہ کے ہاں جانے کو ہر وقت تیار اور اگر ہمارے خاندان میں کسی قریبی عزیز کی فوتگی بھی ہو جائے تو اول تو نہ جانے کے سو بہانے اور اگر راضی بھی ہو جائیں تو کم از کم دو شرائط ۔ ۔ ۔ زیادہ دیر رکنا نہیں اور آپ بھی قبرستان نہیں جائیں گے ۔ ایک مرتبہ میں نے کہہ ہی دیا میت گاڑی میں لیٹ کر نہیں بیٹھ کر جاوں گا ۔ واپسی ہو جائے گی ۔ جواب میں مسکرا کر بولیں : آپ کی مذاق کی عادت جائے گی نہیں۔ جنازے میں جائیں ۔ نماز جنازہ پڑھ کر فارغ ہوں تو موبائل کی گھنٹی بج جاتی ہے جو کہ ایک بیل کے بعد کال کاٹ دی ہے جس کا واضح مطلب تھا کہ جو گیا سو گیا تم گھر چلو ۔
بیوی کی باتیں کبھی نہ ختم ہونے والی ہیں ۔ اکثر شوہر بیوی کی خاموشی کو دل سے لگا لیتے ہیں ۔ اگر بیوی خاموش ہے تو کسی طبیب کو دکھانے کی چنداں ضرورت نہیں ، اسے ایک نعمت تصور کرتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھیئے ، شکر ادا کیجئے کیونکہ اوپر والا سب کی سنتا ہے تب کوئی خاموش ہوتا ہے ۔
Muhabat an nhi hogi... 💔💔💔
Ufff ye bachy...😜😜😜
Ace ko bura aap khud banty ho
AJ kal k halat
😲😲
Gov't students
🤪🤪🤪
⚘⚘
Confused
⚘⚘
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Category
Contact the business
Telephone
Website
Address
46000
Rawalpindi West Ridge
◢◣ ◢◤❣️◥◣ ◥◣❣️◢◤ █ 🖤◥█◣۩ஐ▚🖤▞ஐ۩◢█◤🖤 ◥◣🖤◢◤ 🖤◈❤️◈❤️🖤 ◢◤🖤◥◣ 🖤◥█◣۩ஐ▚🖤▞ஐ۩◢█◤🖤 █ ◢◤❣️◥◣ ◥◣❣️◢◤ ◥◤
Pasban Shopping Complex, Westridge 1
Rawalpindi West Ridge, 46000
Hey there! We are MCC, One of the biggest retails chains and trend setters working in the twin cities. Now MCC Westridge is providing you a new Faster and Safer Shopping Experienc...
Rawalpindi West Ridge
Shopping karnay k liye is page ko follow karay...Thank you �