Qalam

The motive of this page is to encourage the fiction writers, so don't forget to share your stories,

13/05/2022

قربِ الٰہی

26/04/2022

ELCRIC

22/04/2022

تقدیر

21/04/2022

کُل تو ہے

17/04/2022

دھوکہ

14/04/2022

عشق الہ

11/04/2022

Version 2 By "Ustaad e Mohtaram Taimoor"

11/04/2022

Version 1

01/02/2022

کل سے آج تک

12/09/2020

کل لاہور موٹروے پر ایک واقعہ ہوا. تب سے لے کر اب تک مجھے نہیں لگتا کوئی انسان ایسا بچا ہو جس نے ابھی تک پوسٹ نہ کی ہو, مطالبہ نہ کیا ہو. مار دو جلا دو سنگسار کر دو.
ایک بات یہ کھٹکی کہ اگر ہم سب ہی اتنے اچھے ہیں تو اس معاشرے میں خرابی کہاں ہے.. ہم تو بہت اچھے ہیں, تو پھر بازاروں میں لڑکیوں پر آوازیں کون کستا ہے. سکول کالج جاتی وین, رکشے کے پیچھے بائیک لگانے والے کہاں ہیں. جونیئر کولیگ کو بہانے بہانے سے آفس کون بلاتا ہے. جو سٹوڈنٹس کلاس میں ایسے behave کرتے ہیں کہ teacher کو کلاس چھوڑنی پڑے, وہ سب کدھر ہیں. ماں بہنوں کو ہسپتال میں چیک کروانے کے لئے لے جا کر ڈاکڑ کے جسم کو گھورنے والے کہاں ہیں.
یونیورسٹی میں لڑکیوں کے نمبر رزلٹ فائنل ہونے کے بعد راتوں رات بڑھانے والے آخر کون ہیں. میڈیا پر ڈراموں میں سسر اور بہو, سالی بہنوی کے affairs دکھا کر قوم کی سوچ نکھارنے والے کدھر ہیں. مدرسوں میں قرآن پاک کے ہوتے ہوئے بچوں سے تسکین لینے والے کون ہیں. po*******hy کہ اتنے مداح جو اس ملک کو دوسرے نمبر پہ لے آئے وہ سالے کون ہیں.
سب سے بڑھ کر ایک سیٹ نہ ملنے پر اسلامآباد بند کرنے والے اس درندگی پر کدھر غائب ہو گئے ہیں
یہ تو ہوا ایک پہلو.. ریپ کے خلاف آواز اٹھاتی, شور مچاتی لڑکیاں جو دلیل دیتی ہیں چھ سال کی بچی نے کونسی dressing خراب کی تھی, تو وہ کدھر ہیں جن کے لباس دن بدن یا تو تنگ ہو رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں. کیا وہ واقعی اتنی معصوم ہیں کہ سمجھتی ہیں اس چیز کا معاشرے پر کوی اثر نہیں۔۔؟
بازاروں میں میڈیا پر جسم کی نمائش کرتی وہ لڑکیاں خود کو ہر الزام سے پاک رکھنا چاہتی ہیں وہ اس کی ذمہ دار کیوں نہیں ہیں. آیٹم سونگ بنا کر یہ سمجھنے والے کے اس کا لوگوں کی ذہنیت پر کوئی اثر نہیں ہوگا کون لوگ ہیں.
زنا اسلام میں صرف s*x کو نہیں کہا گیا بلکہ زنا آنکھ کا بھی ہے, زنا ہاتھ کا بھی ہے, زنا سوچ کا بھی ہے, تو کیا خود پاک ہیں ہم سب..
یہ ہمارا قومی مشغلہ ہے کہ جو بھی حالات ہیں اس میں کسی ایسے کو ڈھونڈو جس پر الزام ڈالا جا سکے, تاکہ ہم خود کو اچھا محسوس کر سکیں, اور ہمارا مقصد بھی صرف تنقید ہوتا ہے. کاش ہمارا مقصد اصلاح ہوتا تو آج یہ معاشرہ کچھ اور ہی ہوتا۔
تحریر: زبیر

14/08/2020

کھلی فضاوں میں پر پھیلائیں تو ہم محسوس کر سکیں, کہ ہمارے پر اونچی اڑان بھر رہے ہیں. اس خوف سے آزاد کہ کوئی ہمارے پروں کو کاٹ نہیں سکتا, اس خوف سے آزاد کہ ہم کسی کا شکار نہیں ہو سکتے, اس خوف سے آزاد کہ کوئی ہمیں گرا نہیں سکتا. اور جب رزق کے خوف سے بھی آزادی مل جائے تو آزادی کی قدریں اور بلند ہو جاتی ہیں.
آج ہم آزاد وطن کی فضاؤں میں سانس بھرتے ہیں . قائداعظم کے پاکستان میں.. جو ہم میں سے نہیں تھے. کیونکہ ہم تو آج آزادی کا جھنڈا ہاتھوں میں لیے کھوکھلے آزادی کے نعرے لگاتے ہیں. پاکستان کا ترانہ بجے تو بالکل سیدھے کھڑے ہو جاتے ہیں, اپنا ہاتھ دلوں پر رکھ لیتے ہیں. لیکن کیا قائد کی دی ہوئی اس آزادی کو واقعی محسوس کر رہے ہیں.
محسوس تو اس نے کیا, جو قید کی فضاؤں میں بھی آزاد گھومتا تھا. لیکن جب لوگوں کو گھٹن میں پایا تو دل نے عزم لیا کہ بن کے رہے گا پاکستان..
اور پھر ذہنی آزادی کے سرچشم نے خیالوں کے وجود کو حقیقت کا جامہ پہنانے کے لئے سرگرداں ہو گیا. آزادی کی جستجو دل میں لئے, آزادی کہ کٹھن پہاڑ توڑتے توڑتے اس میں سے وہ چشمہ ابھار لایا, جس کے آزاد پانی سے آج اس دھرتی کی مٹی سیراب ہو رہی ہے.
آج ہم قائد کو بھول چکے ہیں. یاد کر بھی لیں تو دل سے نہیں کرتے, کیونکہ آزادی دینے والا ہمیشہ یہی چاہتا ہے کہ اس کا وطن آزاد رہے, اس کی بقا ہمیشہ رہے. لیکن ہم تو ایسا کچھ نہیں کر رہے. پھر ہم ایسا کیوں کہتے ہیں..
آج پاکستان کی آزاد فضاؤں میں گھٹ گھٹ کے سانس لیتے ہیں. آزادی کے ترانے گاتے ہوئے ننھے بچے, جنہیں تو صحیح سے آزادی کے معنوں کا نہیں پتا ہوتا, انہی کو گولیوں اور بم دھماکوں سے اڑا کر ان کا وجود ہی چھین لیا جاتا ہے. آزادی کے رکھوالے اپنی ہی جانیں نگل رہے ہیں. آج ننھے بچے گھروں میں مقید ہیں, ان کی اصل آزادی ان کا بچپنا ہے. جس کو معاشرے کے سفاک لوگ بڑی بے دردی سے چھین رہے ہیں. وہ قدم باہر نکالیں تو ماؤں کا کلیجہ منہ کو آ جاتا ہے.
تو پھر آزاد دھرتی میں جیلوں کی فضائیں کیوں..
یہ وطن ہم سے ہے. اس کی بقا ہمارے ہاتھ میں ہے. سفاک دل رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ اس وطن میں زندہ دل اور محبت کرنے والے لوگ بھی موجود ہیں. جو اس کی بنیاد کو مضبوط بنائے کھڑے ہیں, اگر اسے اور اینٹوں کی ضرورت ہوتی ہے تو تعمیر رکتی نہیں ہے, پھر اس کی رگوں میں لال کہ بجائے سبز لہو دوڑنے لگتا ہے. پھر قائد کا پاکستان زندہ ہونے لگتا ہے.
یہ وطن تمہارا ہے, تم ہو پاسباں اس کے!
اس وطن کی آزادی ہم سب سے ہے. اگر ہماری سوچ کے مینار تاریکیوں سے آزاد ہیں تو وطن کی مٹی تاریک راتوں میں بھی چاندنی رات سے بھی زیادہ روشن دکھے گی. پھر کوئی مشعل جلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی, پھر راہیں خود بخود بنیں گی, پھر روشن سویرا ہوگا, پھر دھرتی کی آغوش میں ہم سوندھی مٹی کی خوشبو کو آزادانہ محسوس کر سکیں گے.
ہمیں ابھی آزاد ہونا ہے, ان سب چیزوں سے جو ہمارے پاؤں کی بیڑیاں بن کر ہمیں قید کر دیتی ہیں. آزادی کا جھنڈا ہمیں ہر دن نیا گاڑنا پڑتا ہے. کیونکہ آزادی کے پر بے شمار ہوتے ہیں.
تو آئیے, اپنے پھیلتے پروں کی سمت تلاش کیجئے. کیونکہ آزادی ابھی باقی ہے. ایک آزادی قائد ملت, محمد علی جناح نے اپنی محنت, عزم, تدبر, محبت, جذبے, اعتماد, تفکر اور یقین کی بدولت ہمیں عطا کی اور دوسری آزادی ہمیں خود اپنے اور اپنے وطن کی پاسبانی کے لیے حاصل کرنی ہے.
تو غور کرئیے, آپ کس قسم کی آزادی چاہتے ہیں. اپنے اور اپنی دھرتی کی مٹی کے لیے, کیونکہ ہماری آزادی ہمارے وطن کے لیے ہے, اور ہم وطن سے ہیں.
رب اس دھرتی کی مٹی کو ہمیشہ خوشبودار رکھے, اور ہم سب کو اتنی طاقت دے کے دشمن کی میلی آنکھ ہمارے وطن پر اٹھنے سے پہلے ہم اس کی دید کو بے دید کر دیں.
تم سب مسکراتے رہو, کیونکہ تمہیں سے تو پاکستان مسکراتا ہے..

سایہ خدائے ذوالجلال!
پاکستان زندہ باد
قائداعظم پائندہ باد

10/08/2020

بالوں میں چاندی اُترنے لگے تو اسی خوبصورت چاندی کا رنگ بد صورت معلوم ہوتا ہے. اتنا بدصورت کہ اس کا وجود اسے کاٹنے کو دوڑتا ہے, بلکہ کتے کی طرح, انسان اس سے بھاگتے ہوئے گھروں میں چھپ جاتے ہیں. ویسے ہی چاندی کی رنگت کو چھپاتے ہوئے, اس پر کالا رنگ روغن لگا دیا جاتا ہے. صرف اس احساس کے لیے کہ میں بوڑھا نہ دیکھوں, لوگ اس چاندی کو دیکھ کر ہنسے نہ, میں بدصورت نہ دیکھوں. رنگوں کی بھی کیا شان ہے کہ آٹھتی سفیدی پر کالا رنگ لگا کر اسے رنگین بنا دیتا ہے. تب وہ بوڑھا تو نہیں دیکھتا, لیکن بڑھاپے کو جوانی کا کالا چولا پہنا کر وہ اندر سے مطمئن تو نہیں ہو سکتا. اس کی ہڈیوں میں جان نہیں آ سکتی, اس کا کمزور جسم طاقت نہیں پکڑ سکتا. کیوں کے ظاہری چولا کوئی بھی پہن لیا جائے, باطن پر اس کا کوئی نشان نہیں چھوٹتا, کیونکہ تلاش جس شے کی ہوتی ہے, وہی اثر رکھتی ہے.
معاشرے میں ہمیں انسان کم اور بھیڑے زیادہ ملیں گے. آپ پر جان نچھاور کرنے والے آپ ہی کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں. سفید چولے پہن کر گھومنے والے جب آپ کے گلے لگتے ہیں, تو اتنی خوبصورتی سے آپ کے گلے پر تیز دھار چاقو چلاتے ہیں, کہ ظاہری رنگت پر جاتے ہوئے آپ کی سطحی آنکھیں اس سفاکی پر نہیں جاتیں, جو لال خون کو سفید میں بدل کر کالا چولا بدل کر ایک نئے چولے میں کہیں اور, کسی اور کا گلا کاٹنے نکل جاتا ہے.
دل سے زیادہ گداز اور پرسوز شے کوئی نہیں. کچھ گداز دل وقت اور حالات کے ساتھ پتھر دل بن جاتے ہیں کہ کوئی کتنی بھی ٹھوکریں مارے, اسے رتی برابر بھی فرق نہیں پڑتا. یہ دل کا اصل نہیں ہے لیکن یہاں ملاوٹ بھی تو عام ہے, ہر خاص چیز کو عام بنانے میں بھی ہم نے کوئی کسر نہیں چھوڑی. دل میں سے جب نرمی اٹھ جائے تو مانو کچھ باقی نہیں رہتا. خالی دل اونچی دیواریں کھڑی تو کر سکتا ہے, لیکن اسے آباد کیسے کرے.
خود کو دھوکا دے کر, خالی پن پر کالے چولے چڑھا کر, خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں. کیونکہ خالی دیواروں کو چھپانا بھی تو ہے اس لیے کہ چھپی ہوئی چیز ہمیں تکلیف کم دیتی ہے.
بچپن سے جوانی تک کتنے لوگوں سے روبرو ہوتے ہیں. کتنے اپنوں سے آشنا ہوتے ہیں. کتنے آتے اور جاتے ہیں. کتنے اپنے پرائے ہو جاتے ہیں اور پرائے اپنے. رشتوں کہ دھاگے بڑے کچے ہوتے ہیں, صرف ایک غلط فہمی کی وجہ سے بھروسے کی ڈور ٹوٹ جاتی ہے. جس میں پیوند لگانے کا حوصلہ تو کسی میں نہیں ہوتا. اس لیے اس پر نفرت کے کالے چولے چڑھا دیے جاتے ہیں, جو کہ محبت کو کاٹ دیتی ہے. پھر کوئی رشتہ نہیں بچتا.. اور نہ ہی کوئی نام.
محبت کہ شیدائی جب نئی نئی محبت سے آشنا ہوتے ہیں, یا پرانے شیدائی پرانی محبت کو چھوڑ کر نئی خماریوں میں ڈوبتے ہیں, تو ساتھ ہی چولے اور اس کے رنگ بھی بدل جاتے ہیں. بدلیں کیوں نہیں. آخر نئی شے پر پرانی پرچھائی کوئی کیوں کر آنے دے گا. لیکن نئی شے کی چھاوی بھی کب تک رہتی ہے. اس کا روپ بھی بدل جاتا ہے. محبت کہ سودائی, محبت نہیں دیکھتے بلکہ محبت میں چھپا نفع اپنے لیے دیکھتے ہیں. اس نفعے کو حاصل کرنے کے لیے, انہیں جتنے چولے بدلنے پڑیں انہیں منظور ہوتا ہے. کیونکہ سودائیوں کا تو یہی کام ہے. ہم کئی ایسے سودائیوں کو دیکھتے ہیں, جو کہنے کو سچی تڑپ دل کے خانوں میں لئے گھومتے ہیں اور دستک بھی درد درد پر دیتے ہیں. تلاش ایک کی ہوتی ہے اور دستک ہزار دروازوں پر, جو در کھل جائے وہی اس کی قربت بن جاتی ہے. اور اس چاہ کہ لیے کھوکھلا دل مزید کھوکھلا ہو جائے, تو چولا دوبارہ سے بدل دیا جاتا ہے. دستک نئے دروازوں پر دی جاتی ہیں. آنکھیں نئے شیدائیوں کی قربت کے لئے منتظر رہتی ہیں. سودائیوں کا یہ سلسلہ ایسے ہی رواں دواں رہتا ہے. اور محبت کے نام کے چولے پہن کر یوں ہی اس کی تذلیل کرتے رہتے ہیں. اس لیے وہ کسی کو محبت کی زنجیر تو پہنا سکتے ہیں, لیکن محبت کی مالا نہیں.
رب نے انسان کی خصلت میں خود غرضی کو اس کی رگ رگ میں اتار دیا ہے. جس کہ اثر میں آتے ہوئے ہر انسان اپنے آپ کے لئے آسانیاں تلاش کرتا ہے. ہر اس شے کی طرف بھاگتا ہے.
جو اس پر دولت کی ریل پیل کر دے, محبت کہ میھٹے جام اس کے میکدے میں ہر وقت میسر ہوں, سکون کی چھایا, اس کے دل کی درو دیوار میں کوئی انجانا خوف گھر نہ کرے, شہرت کی ماہان تختیاں جگہ جگہ اس کے لیے گاڑی جائیں, عزت کی پگڑی کو ہمیشہ سفید اور نمایاں دیکھنا چاہتا ہے. لیکن سفیدی برقرار کیسے اور کب تک رہ سکتی ہے. کیونکہ ان سب چیزوں کو پانے کے لئے بہت بھاگنا پڑتا ہے. اور یہ ممکن نہیں ہے کہ بھاگتے ہوئے معاشرے کا کیچڑ آپ کے کپڑوں کو گندا نہ کر دے. گندے چولوں کو بدل کر, نئے چولے پہن لیے جاتے ہیں, رنگ بدل کر, روپ بدل کر لیکن کیا یوں ہی چولے بدلتے رہیں گے.
کیا کبھی سوچا ہے کہ معاشرے کا کیچڑ کیوں ہمارے چولوں کو گندا کر دیتا ہے...معاشرہ ہم سے ہے, اور اگر ہم خود غرضی میں آ کر صرف اپنی چاہتوں کو پورا کرتے رہیں گے, تو معاشرہ ہمیں چین سے کب بیٹھنے دے گا. وہ چیخ چیخ کر سوال کرتا ہے. میری بقا تم سے ہے اور تمہاری کوئی بقا نہیں. کیا ان رنگ رنگ کے چولوں کو پہننا چھوڑ سکتے ہو, جو دیکھنے میں ہمیشہ کالے نظر آتے ہیں. کیا مجھے اوڑھ سکتے ہو, جو ست رنگی ہے, جو تمہیں بقا دے گا اور ہمیشہ کے لئے ست رنگ کے ایک رنگ میں رنگ دے گا..
کیا تمہیں منظور ہے یہ ایک رنگ...

08/08/2020

'کل سے آج تک'
بند راستوں سے آگے بھی کئی راستے ہوتے ہیں. بند کا بندھن ٹوٹ جائے تو گھپ اندھیرے سے روشنی کہ تاج محل کھڑے ہو جاتے ہیں. یہ بھی ایک لمبی مسافت ہے, جس میں ہمارے کتنے آج, کل بن کر, آج کے سفر پر ہیں.
کل کیا ہوا تھا.. آج کیا ہو رہا ہے...
یہی سوال دن بھر ہمارے اندر گونجتے رہتے ہیں. ہمارے ہر آج کے ساتھ کل جڑا ہوتا ہے. کل سے ہی ہمارا آج مکمل ہوتا ہے. ہمارے ذہنوں پر کل کی جھلکیاں زیادہ طاقتور ہوتی ہیں, آج کی نسبت..
کل کی خوشی ہو یا غم, وہ آج پر حاوی ہو جاتا ہے. یاد بن کر..
یادیں کمال کی ہوتی ہے لیکن یادیں تو کل سے وابستہ ہیں, اور ہم آج میں رہ رہے ہیں, لیکن ہم جی کل میں رہے ہیں. اسی کل میں جیتے جیتے ہمارا آج ادھورا رہ جاتا ہے.
اگر ہر آج میں کل ہے, تو آج کہاں ہے..
قدم آج کی جانب تو بڑھ رہے ہیں لیکن ہاتھوں میں بیساکھیاں کل کی ہی تھامی ہوئی ہیں. ذہنوں پر کل کے نقشں, آثار قدیمہ کی پرانی اور اونچی عمارتوں کی طرح یوں دلیری کے ساتھ اپنی چھاپ لگائے ہوئے ہیں جیسے وہ آب حیات پی کے امر ہو گئے ہوں.
کھلی فضا میں سانس تو بھر رہے ہیں, فضا آج کی ہیں لیکن اس میں چلتی مدھم سانسیں ابھی بھی کل کی ڈور سے بندھی ہوئی ہیں.
فضا میں بے خطر پرواز آج کی بھرتے ہیں, لیکن ہمارا آج.. آج ہوتا ہی کہاں ہے.. پرواز ذرا بلند ہوتی ہے اور ہمارے پر کل کے دھاگوں میں یوں الجھ جاتے ہیں کہ جیسے ایک آزاد پرندے کو پکڑ کر کسی نے پنجرے میں قید کر دیا ہو. کل کا پنجرا..
اور یوں اس کی ہر پرواز جب پروان چڑھتی ہے تو وہ آج کی نہیں ہوتی, بلکہ کل سے آج تک ہوتی ہے..
کل جو سوچا تھا کیا وہ آج میں ہے.. یا ابھی کل کہ ٹوکرے کو لاد کے پھر رہے ہیں..
انسان بہت ارادے بندھتا ہے. وہ بھی کل کے لئے.. اور جب وہ کل آج بنتا ہے تو انسان لاشعوری طور پر پھر سے ایک بار خود کو کل کی حویلی میں ہی پاتا ہے. ایسا کیوں...
کیا ہمارے ارادے اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ کل کی زنجیریں اسے اپنی گرفت میں یوں جکڑ لیتی ہیں کہ وہ آج کو پیچھے چھوڑتا ہوا, کل کہ پیچھے چلا جاتا ہے.
ہماری زندگی داستانوں سے بھری ہوئی ہے. انسان خود ایک داستان ہے اور اسے داستانیں سننا بھی بہت پسند ہے. کبھی وہ داستان گو کو پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے اور کبھی خود داستان گو بن جاتا ہے. ہاتھوں میں یادوں کی ایک سگریٹ سلگائے, وہ خود کو کل میں لے جاتا ہے. آہستہ آہستہ یادوں کہ سگریٹ سے نکلتا دھواں, اس کے پھیپھڑوں کو مضبوطی سے تھام لیتا ہے. کیونکہ وہ یاد بہت تلخ ہوتی ہے اور تلخی جب حد سے بڑھ جائے تو نس نس میں یادوں کا دھواں زہر بن کہ ہماری اندر کی دنیا کو تاریک کر جاتا ہے. راکھ کر جاتا ہے..
اگر یادوں کی سگریٹ راکھ میں نہیں بدلتی. تو انسان کیوں...
کیا وہ کل کی داستان کو آج کی داستان میں شامل کیے بنا آگے نہیں بڑھ سکتا...
لکڑی کو جب آگ پکڑ لیتی ہے تو وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی, سوائے جلنے کے.. تو کیا انسان بھی کل کے آگے بے بس ہو جاتا ہے کہ جب تک کل کی تپش اس کے آج پر نہ پڑے, اس کا آج شروع نہیں ہوتا..
مسکرانا ہمارے دلوں کو آباد کرتا ہے, اور چہرے کو شاداب کرتا ہے. تو اتنی خوبصورت چیز کہ لیے بھی ہمیں کل میں جانا پڑتا ہے.
انسان مسکرانا چاہے تو کئی بار کل کے دریچے کھول کر, اس کو اس یاد میں لے جاتے ہیں جہاں وہ مسکرایا تھا. وہ اتنی بار اسے دیکھتا ہے کہ جب کل کے دریچوں سے آج کہ دریچوں میں وہ قدم رکھتا ہے, تو وہ آج مسکرا نہیں سکتا, بس اس کی بات کر سکتا ہے. کیونکہ کئی بار مسکرا دینے والا کل, ہماری اج کی مسکراہٹ کو چھین لیتا ہے..
دن گزرتے جا رہے ہیں. ہر دن, رات میں اور رات, دن میں بدل رہا ہے. دیے جل کے بجھ بھی رہے ہیں اور بجھ کہ جل بھی رہے ہیں. کچھ دیکھائی دیتے ہوئے بھی نہیں دکھتا, اور کچھ نہ دیکھائی دیتے ہوئے بھی ہر سو دکھتا ہے. سفر, منزل کی جانب ہے اور منزل پھر سے سفر بن رہا ہے. دنیا بن کے مٹ رہی ہے, اور مٹ کر پھر سے دنیا بن رہی ہے. ہمارا آج کل بنتا جا رہا ہے, اور کل آج میں دکھائی دے رہا ہے.
کیا ہم سب ایک مدار میں گھوم رہے ہیں...
کیا واقعی ہماری آج کی روشنی میں, کل کی سیاہی کے قطرے جذب ہونا ضروری ہوتے ہیں..
کیا ہمارا ہر آج کا سفر... کل سے آج تک کا ہی ہے..
ایسا ہے تو کیوں ہے...

لکھاری: تانیہ

30/07/2020

پہلے واضح کر دوں میں خالد کے حق میں نہیں بول رہا قانون ہاتھ میں لینا کسی بھی طرح ٹھیک نہیں۔ پر تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ لیا جاے کہ ایسا قدم اٹھایا کیوں جاتا ہے۔
طاہر کے دعووں کو سامنے رکھا جاے تو کچھ سوال اٹھتےہیں۔
ویسے تو دنیا میں کہیں بھی، پر خاص کر ایک اسلامی ملک میں رہتے ہوئے نبوت کا دعویٰ کرنا ٹھیک ہے؟
جب کوی سرعام نبوت کا دعویٰ کرتا ہے یا کسی دعویدار کی تبلیغ کرتا ہے (جو اسلامی اور پاکستانی دونوں لحاظ سے واضح طور پر قابل سزا ہے) تو سالوں چلنے کے باوجود ان کیسز کا فیصلہ عوام ہی کیوں کرتی ہے آج تک عدالتوں نے کسی کو سزا کیوں نہیں دی۔۔؟
سب سے بڑا ہتھیار جو ایسے لوگ استعمال کرتے ہیں (آزادیء رائےکا حق) کیا اسکے نام پر کسی کی بھی دل آزاری کرنا جائزہے۔۔۔؟

25/07/2020

چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے, ہنستے مسکراتے, یوں ہی بیٹھے بیٹھے ہماری سوچوں کا زاویہ بدلتا رہتا ہے. اور کبھی بدلتے بدلتے سوچ اسی پرانے نکتے پر آ کر بیٹھتی ہے جہاں سے سوچ کی کھڑکی کھلی تھی.
کیا کھلی کھڑکی کبھی بند بھی ہو سکتی ہے..
اگر سفر در سفر آگے بڑھتا ہوا سوچوں کا کارواں, جھپٹا مارتا ہوا واپسی کے سفر پر پہلی کھڑکی کو یہ نوید سنا سکتا ہے کہ میں واپس اپنے دریچے میں آگیا ہوں, تو وہ سوچ کھڑی بند کرنے میں بھی وقت نہیں لگاتی..
کیونکہ اگر اگے بڑھنے والی سوچ پیچھے مڑ سکتی ہے تو وہ کچھ بھی کر سکتی ہے..
سوچوں کا پیمانہ بہت وسیع ہوتا ہے. سوچ بھی ایک گھنے درخت کی طرح ہوتی ہے جس کی لاتعداد شاخیں پھیلی ہوتی ہیں. سوچ کی شاخیں جب اپنا پھیلاؤ بڑھا دیں, تو جگہ کا گھیراؤ بھی بڑھ جاتا ہے. جب جگہ جگہ سوچوں کی شوخیں اگی ہوں گی. تو یاد ایک سوچ بن جاتی ہے. احساس سوچ کی شکل اختیار کر لیتا ہے. زندگی میں کچھ پانا, ہمارے اندر سوچ کی ایک لہر چھوڑ کر جاتی ہے. غرض زندگی کا کوئی بھی زاویہ اٹھا لیا جائے سوچ کی پرچھائی, سایے کی طرح ہمیں ہمارے ساتھ ہی ملے گی.
ہم اکثر بات کرتے ہیں کہ فلاں کی سوچ بہت اچھی اور اعلی پائے کی ہے اور فلاں کی سوچ نیچ گھٹیا ہے.
ہم اس بات سے کیا اخذ کرتے ہیں..
اچھی سوچ کے مالک کو ہمیشہ معتبر نظروں سے دیکھتے ہیں اور محسوس یہ کرتے ہیں کہ کیا بات ہے کہ آج اس کی سوچ نے کہانی کا پورا نقشہ بدل ڈالا. اس کے برعکس نیچ سوچ رکھنے والے کے لئے ہمارے دل میں کوئی سچے جذبات نہیں ہوتے, اور اس وقت ہمیں یہ دکھائی نہیں دے رہا ہوتا کہ ہماری سوچ اس سے بھی زیادہ چھوٹی ہے. کیونکہ تنگ نظر کبھی وسیع سوچ کی مالک نہیں ہو سکتی. سوچوں کا بدلنا ایسے ہی ہے جیسے برف, پانی بنتے ہوئے دیر نہیں لگاتی, کیا پتا گھٹیا سوچ, معتبر بن جائے اور معتبر سوچ کے چاشنی نیچ سے بھی بدتر ہو جائے.. وقت ہی جانے..
سوچ جب جنم لیتی ہے, تو وہ آگے بڑھتے ہوئے پچھلے قدموں کے نشان بہت گہرائی سے چھوڑ کر جاتی ہے. اس کا ہر اگلا قدم, پچھلے سے جڑا ہوتا ہے. سوچ کی اسی پختگی سے آج کتنی سوچوں نے اس بات پر سوچنے پر مجبور کر دیا ہے, کہ انسان کی سوچ ہی ہے جس نے انسان جیسے بھاری بھرکم جسے کو ہوا میں اڑنا سکھا دیا.
مسافت لمبی ہے تو کیا ہے..
قدم تھک گئے ہیں تو کیا ہے..
منزل دور بھی ہے تو ہم آج اسے اپنے بہت قریب دیکھتے ہیں. میلوں کا فاصلہ چٹکیوں میں طے ہو رہا ہے.
رشتوں کی تاثیر بڑھ جاتی ہے جب ان میں ربط ہو. پرسوز دل رکھنے والا شخص جس کی سوچ نے دل کی رگوں کو تڑپتا پایا, تو سوچ کی سیڑھیاں اور قریب تر ہوتی گئیں اور اس طرح ٹیلی فون دل کی آواز کو قریب لے آیا.
سوچ نے دنیا کو بدلا ہے. ایسے ہی سوچ ہمیں بدلتی ہے. ہمارے روایوں, ہمارے اندر کو بدلتی ہے. سوچ لامحدود ہو جائے تو خبط, اور محدود ہو جائے, تو بے مصرف. سوچ شکل کو ابھارتی ہے اور شکل جب اپنے وجود میں آ جائے, تو پوری داستان بن جاتی ہے.
داستان ایک سے شروع ہو کر کئوں تک پہنچ جاتی ہے. اور جو چیز پھیل جائے اس کا رکنا مشکل ہو جاتا ہے. پھیلاؤ کے پیچھے سوچ پختہ ہو, تو ممکن ہے کہ وہ داستان کبھی مٹ ہی نہ پائے, اور جو مٹ نہ پائے اسے ہم امر ہونا کہتے ہیں.
سوچ کی تقسیم ہمارے رہن سہن اور رسم و رواج سے جڑی ہوتی ہے. معاشرے سے جڑے ہم انسان اسی سوچ پر چل رہے ہوتے ہیں. جس پر کبھی ہمارے اپنے چلے تھے.
تو کیا ہم محدود سوچ رکھنے والے لوگ ہیں..
ایسا ہرگز نہیں ہے. معاشرہ ہم اور ہماری سوچ پر اثر انداز ضرور ہوتا ہے. لیکن ہر انسان کی اپنی ایک الگ سوچ بھی ہوتی ہے. جو معاشرے پر اثر انداز ہوتی ہے. جب یہ سوچ ابھرتی ہے تو معاشرہ ترقی کرتا ہے. کیونکہ سوچ سے ہی دنیا بدلی جا سکتی ہے.
سوچ کے دائرے بڑھتے جائیں, لیکن ان سوچوں کا کوئی جواز نہ ہو, ان کا کوئی اخذ نہ ہو, ایسی سوچ کو ہم کیا نام دے سکتے ہیں, جو دن بھر ایک ہی مدار میں گھومتی ہے اور جب اس دائرے سے باہر نکلتی ہے تو خود کو اسی کھنڈر میں آباد پاتی ہے. جس میں وہ برسوں سے مقیم تھی.
سوچ کو مختلف زاویوں سے دیکھنا سیکھو. سوچ کے ہر اس پہلو کو پکڑو, جس میں تمہیں راہ رکھے, سوچ بدلاو کانام ہے. سوچ خوبصورتی ہے. سوچ بہتی دھارا ہے. سوچ کے سو رنگ ہیں, اور وہ رنگ جب دھرتی پر ابھرتے ہیں تو ہر رنگ دھرتی کہ کونے کونے پر یوں بیٹھ جاتا ہے جیسے بے جان میں جان آ گئی ہو. زندگی کو زندگی مل گئی ہو. سوچ انسان کے اندر کو بدلتا ہے. اور اندر کا بدلتا انسان باہر کی دنیا کو بدل کر رکھ دیتا ہے. سوچ اس چڑیا کا نام ہے, جو بند پنجرے سے آزاد اس فضا میں پرواز کرتی ہے. جس کو کوئی دبوچنے والا نہیں ہوتا.
کیوں کہ سوچ بے باک ہوتی ہے.. سوچ آزاد ہوتی ہے..

18/07/2020

بڑی دنیا ہونے کے ساتھ, رونقیں بھی بڑی ہیں. خوشیاں, آزادی, محفلیں, قہقہے,خماریاں آزاد فضاؤں میں گھومتی ہیں. لیکن..
آزادی کب تک..
فضاؤں میں پرواز کرتی ہوئی شوخیاں, نہ جانے کب پھیکی پڑ جائیں..
پھیکا ہونا کوئی عام بات نہیں. قلم سے جب سیاہی کا رنگ پھیکا پڑنے لگ جاتا ہے, تو ہمیں معلوم پڑ جاتا ہے کہ قلم کی پیاس بڑھ رہی ہے. یہ ایسی پیاس ہے جو بجھائی جا سکتی ہے. لیکن کیا ایک لکھنے والے کی قلم جو سیاہی کے بجائے لفظوں سے چلتی ہے, وہ پھیکی پڑ جائے, تو وہ پھیکی سیاہی کہ گھونٹ پیتا ہوا, اس بیزاری میں مدفن ہو جاتا ہے جہاں اس کے گلے میں پھنسے ہوئے پھیکے الفاظ آہستہ آہستہ اپنا وجود کھو دیتے ہیں.
بیزاری کا سلسلہ آخر ہوتا تو رنگوں سے شروع ہے. کتنے لامتناہی رنگ ہیں جو ہر دن ہماری آنکھیں دیکھتی ہیں. دنیا میں کتنی ایسی جگہیں ہیں جہاں ہم جائیں تو ساری اداسی, پریشانی بھول جاتے ہیں. لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے جہاں انھی رنگوں میں, جہاں لال پھول کھلا کرتے تھے وہ ہمارے لیے وحشت اور بیزاری کا باعث بن جاتا ہے.
اور وہ تاریک کونا جس کو کبھی دیکھنے سے ہماری نیند آڑ جایا کرتی تھی. اب اسی تاریک کونے میں گہری نیند سوتے ہیں. اب بند کمرے میں سیاہی سے اور نہ ہی سیاہی میں گھلتی چیخوں سے وحشت ہوتی ہے. بلکہ ان رونقوں میں جانے سے دل پسیج جاتا ہے جہاں چلتے پھرتے زندہ مردے سفاقی سے ہنستے ہوئے, چکا چوند روشنیوں میں بھری محفلوں میں دوسرے کا گلا کاٹ دیتے ہیں.
تو پھر کون ہے جو ان ستاروں سے بھی زیادہ روشنی رکھنے والی محفلوں میں جائے, جہاں اسے چلتا پھرتا زندہ مردہ بنا دیا جائے. جو سانس تو لے سکے, لیکن ہر سانس کے پیچھے چھپی بیزاری اس کے وحشتوں کے سمندر کو یوں بھڑکا دے, کے ہر سانس بھی اس سے زندگی کی قیمت وصول کرنے لگ جائے.
ہنستا مسکراتا شخص, اچانک سے رونے لگ جائے اور روتے روتے اس کی ہچکیاں بندھنے لگیں, ان آنکھوں کے موتیوں سے پار اسے روشنی نظر تو آئے, لیکن وہ اسے محسوس نہ کر پائے.. اور جب انسان اپنے محسوس کرنے کی حس کھو بیٹھتا ہے تو بیزاری کے بھنور میں وہ یوں گھومتا چلا جاتا ہے. جیسے اندھا شخص اپنے اندھے پن سے بیزار ہو کر اپنی آنکھوں کو بار بار کھولنے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ رنگین دنیا اسے دکھ جائے..
لیکن کیسے دیکھ پائے..
جب کہ اس کے پاس یہ حس موجود ہی نہیں..
انسان کرنا چاہے لیکن کر نہ پائے.. بڑی بیزاری کی بات ہے..
لیکن کبھی کبھار محسوس کرنے کی حس پاس موجود بھی ہو.. تو تڑپ کی بات ہے..
زیادہ محسوس کرنے والے جب جذبوں کی ڈوریاں سلجھانے لگ جاتے ہیں, تو وہی ڈوریاں اس کے گلے میں بیزاری کا پھندا بن کر اسی کی اواز کو کاٹ دیں.. لفظ تو باقی رہیں گے.. لیکن جذبات نہیں..
اس خوبصورت زندگی میں کوئی خود سے بیزار ہے, تو کوئی اپنوں سے, کوئی روشنیوں سے بیزار ہے, کوئی آج سے بیزار ہے, تو کوئی کل سے بیزار ہے. غرض ہر سمت کسی نہ کسی کونے میں ہر دوسرا شخص آپ کو بیزار بیٹھا نظر آئے گا. سب کچھ اس کے پاس موجود ہوگا, لیکن بیزاری کی کالک اس کے ماتھے پر یوں سجی ہوگی کے, روشنی میں بھی اسے سیاہی کہ وہ دھبے نظر آئیں گے, کہ انہیں دھوتے دھوتے, وہ اپنا سب کچھ کھو بیٹھے گا..
لیکن ان دھبوں کو کبھی دھو نہیں پائے گا..
منزل کی جانب چلتا مسافر کبھی کبھی اپنی راہ سے بیزار ہو جاتا ہے. اور بے راہ شخص اپنی منزل ڈھونڈتے ڈھونڈتے بیزار ہو جاتا ہے. بھوکے فاقوں کی بیزاری سے اپنا پیٹ کاٹ دیتے ہیں. اور بھرے ہوئے پیٹ, اپنے وجود کی زیادتی کی وجہ سے بیزار ہوتے ہوئے اپنا پیٹ کٹواتے ہیں. گلی میں چلتا ہوا ایک بوڑھا شخص زندگی کی حقیقتوں سے بیزار ہے. تو اسی گلی میں چلتا ہوا نوجوان محبت کے خلاؤں سے بیزار ہے.
بیزاری کا علم بڑھتا جارہا ہے. چلتے پھرتے, اٹھتے بیٹھتے, بیزاری کی تنگ گلیاں ہمارے اوپر وسیع ہوتی جا رہی ہیں. لیکن کیا ہم اس بیزاری سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتے.. کیا ہم اپنی آنکھوں پر لگی موٹی شیشوں والی بیزاری کی عینک کو اتار کے پھینک نہیں سکتے.. کیا ہم بیزار فرد ہونے کے ساتھ بیزار قوم بن چکے ہیں.
بیزاری دیمک کی طرح ہے جو لکڑی کو چاٹ جاتی ہے. اسی طرح انسان کا وجود اندر سے کھوکھلا ہو جائے, تو رشتے ڈوبنے لگ جاتے ہیں. منزلیں کھونے لگ جاتی ہیں. انسان انسان سے خائف ہونے لگ جاتا ہے. بھرے بازاروں میں انسان اکیلا رہ جاتا ہے. کچھ خاص نہیں رہتا. کچھ پاس نہیں رہتا ہے.
دل سے اٹھتی ساری آوازیں آہستہ آہستہ بند ہونے لگ جاتی ہیں. گھٹن کی شدت بڑھ جاتی ہے. وجود کا تار تار وحشت زدہ ہو جاتا ہے. سانس چل رہی ہوتی ہے.. لیکن ہر سانس تڑپ اور بیزاری کا سوال لیے ہوئے اس کی آنکھوں کے سامنے, بنا جواب طلب کیے ہوئے اپنا وجود کھو دیتی ہے.

17/07/2020

ہمارے دل کی تنگ گلیوں میں کئی مکان آباد ہوتے ہیں. مکان زیادہ ہوں تو اچھا ہے رونق لگی رہتی ہے. لیکن جب دل کے محلے کا ہر دروازہ بند اور خاموش ہو, تو اجالے میں بھی تاریکی کا سماں ہوتا ہے.
روشنی میں جب اندھیرا دکھنے لگے, تو دل کے محل کی ایک ایک اینٹ آہستہ آہستہ گرنے لگ جاتی ہے. آینٹں جب گرنے لگ جائیں, تو خلا اور فاصلے بڑھنے لگ جاتے ہیں. دل کے مکان کی اینٹیں گرتے گرتے ہزار سے دس رہ جائیں, تو پیچھے کیا بچتا ہے..
صرف کھنڈر..
ہمارے روزمرہ کے مکان گر جائیں تو کتنی تکلیف اور نقصان ہوتا ہے. سوچو اگر دل کا مکان آباد ہونے کے بعد گر جائے تو فاصلے کتنے بڑھ جاتے ہیں. اینٹ سے اینٹ بجتی رہتی تھی, ایک آواز تو کانوں میں گونجتی تھی. لیکن اب نہ تو کوئی اینٹ اپنا وجود رکھتی ہے, نہ کوئی آہٹ..
بس دل ہے کہ خالی ہے..
فاصلوں کے رستے طویل ہو گئے ہیں. لیکن انسان ہی ہے جو آج تک طویل راہوں کو کاٹتا آیا ہے. مکان اگر ہم ہی گراتے ہیں, تو دوبارہ سے اس کی اینٹ بھی تو ہم ہی رکھتے ہیں. کیونکہ دل میں کوئی مکان نہ ہو, یہ انسان کبھی ہونے نہیں دیتا. گرا سکتا ہے تو دوبارہ آباد بھی کر سکتا ہے. کیونکہ دل کو رونقیں پسند ہیں اور رونقیں وہیں ہوتی ہیں جہاں مکان آباد ہوتے ہیں.
جہاں فاصلے دل کہ وہڑوں کو ویران کر دیتے ہیں. وہیں کچھ فاصلے ایسے ہیں جو طے ہو جائیں تو منزل مل جاتی ہے. کہیں فاصلہ آتے ہی خلا پیدا ہوجاتا ہے اور کہیں فاصلہ آنے سے دل کی بتیاں جل آٹھتی ہیں کیونکہ کچھ فاصلے درد کے بجائے خوشی دیتے ہیں.
اکیسویں صدی آسانیوں کا دور ہے. اگر آپ کا دل چاہ رہا ہے کہ اپنوں سے ملا جائے تو سواری پکڑو اور اپنے پیاروں سے مل لیا جاتا ہے. اگر کسی اپنے کی آواز سننے کو کان ترس جائیں تو فون کر لیا جاتا ہے. کسی کا چہرہ دیکھنے کو دل چاہے تو ویڈیو کال ملا دی جاتی ہے. غرض ہر طرح سے فاصلے کم ہوتے جا رہے ہیں. لیکن کیا ان سب سے دلوں کے فاصلے کم ہو جاتے ہیں.. دلوں کے فاصلے ایسے ہیں جو کسی مشین کے محتاج نہیں ہوتے, کیونکہ دل خود ایک ایسی مشین ہے کہ اس مشین سے کوئی ایک بار نکل جائے تو واپس نہیں آسکتا, اور جب واپسی کے دروازے بند ہو جائیں تو انسان کتنے ہی سفر کاٹتا رہے, فاصلے نہیں کاٹ سکتا..
ہر دن نئی مسافتیں, نئے فاصلے کاٹے جاتے ہیں. پیٹ میں روٹی کے چند ٹکڑے بھی ڈالنے کہ لیے کچھ فاصلے طے کرنے پڑتے ہیں. اگر فاصلے نہ کٹ سکیں تو فاقوں سے پیٹ کاٹنا پڑتا ہے. کچھ فاصلے بہت طویل ہوتے ہیں, ان پر سے گزرتے گزرتے کئی وقت لگ جاتا ہے. طویل مدت کے بعد, جب فاصلے کٹ جائیں تو آنکھوں کی بینائی اور چمک دار ہو جاتی ہے. منزل کی ٹھنڈک ہمارے دلوں کو طمانیت بخش دیتی ہے.
لیکن کیا ان فاصلوں کے کٹ جانے سے, باقی تمام فاصلے کٹ جاتے ہیں.. یا کئی نئے فاصلے ہمارے منتظر بیٹھے ہوتے ہیں..
ہر کسی کی خواہشوں کا سمندر بہت گہرا ہوتا ہے. کچھ خواہشیں بچپن کی ہوتی ہیں, کچھ جوانی کی اور کچھ بڑھاپے کی.. لیکن ہر خواہش کی تکمیل ممکن نہیں. بچپن کی خواہش اگر بچپن میں پوری نہ ہو, تو عمر کے کسی حصے میں بھی وہ پوری ہو جائے تو فاصلے اور خلہ کی گھٹیاں برقرار ہی رہتی ہیں.
کیونکہ کچھ فاصلے اگر وقت پر نہ کٹ سکیں, تو وہ عمر بھر نہیں کٹتے..
چاہے سب کچھ آپ کے سامنے ہو. لیکن وقت کے بعد..
اور اگر وقت پر کچھ نہ ہو. تو وہ 'کچھ' بے معنی ہو جاتا ہے..
ہم انسان اپنے اندر بہت کم جانک کر دیکھتے ہیں کہ آخر اندر کی دنیا میں ہو کیا رہا ہے. جسم میں روح مکین تو ہے. لیکن محسوس خالی ہوتی ہے.
خالی کو بھرا کیسے جائے...
کیا ہماری روح کبھی اس سے جڑی ہے, جس نے ہمیں پیدا کیا ہے. کتنا فاصلہ ہے رب اور ہمارے درمیان.. زبان پر ذکر رب کا ہوتا ہے. لیکن اس ذکر نے کبھی زبان سے دل تک کا فاصلہ طے نہیں کیا. دل ویران پڑے ہیں. اور محفلیں اس کہ سرکار کی سجائی جاتی ہیں. کیا محفلوں سے فاصلے مٹ جائیں گے, کہ عام حالات میں رب کہ نبی کا درود بھی ہماری زبان پر نہیں آتا. یہ زبان ذکر مصطفی کے لیے ہے, لیکن اب تو زبانوں میں بھی فاصلے آ چکے ہیں..
کچھ فاصلے ہماری زندگی میں وقت لے کر آتا ہے. کچھ فاصلے ہم خود پیدا کرتے ہیں. فاصلوں کا ہونا ہماری زندگی کو بے سکون بنا دیتا ہے. اس لیے ہمیں اپنے دل اور عقل کی کھڑکی کھول دینی چاہیے, اور ان فاصلوں کو مٹا کر قریب ہو جانا چاہیے. کیونکہ یہ آپ کو زندگی بخشتا ہے. اور فاصلے سانسوں کو گھٹا دیتے ہیں. قرابت جیون دیتی ہے. اور فاصلے آپ کی جیون کی ہر ڈور کو الجھا کے رکھ دیتے ہیں.
آئیے.. قدم بڑھائیے.. فاصلہ گھٹائیے..
کیونکہ زندگی اپنوں سے ہے..

14/07/2020
Timeline photos 05/07/2020
Timeline photos 04/07/2020

Series of Expressionism(چیخ)
Fiction 1/7

30/06/2020

چلتے پھرتے, تھکتے ہارتے, گھومتے گھماتے, رکس باندھتے, قدم کبھی ایک سمت میں نہیں اٹھتے, کبھی ایک سیدھی سڑک اس کی منتظر نہیں رہی. اس کو راہوں کے بیچ میں بدلنا ہوتا ہے. راہ بھی وہی رہتی ہے اور منزل بھی..
لیکن موڑ بدل جاتے ہیں اور جب موڑ بدلتے ہیں تو آنکھوں کے لیے نظارے بھی بدل جاتے ہیں. ہر موڑ اپنے اندر ایک مکمل کہانی چھپائے بیٹھا ہوتا ہے. جب وہ موڑ کٹ رہا ہو یا کٹ جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کیسے کیسے گوہر چھپے ہوئے تھے اس میں, کہ بس ایک موڑ مڑتے ہی اس نے اپنی کہانی ایسے بیان کر دی جیسے وہ منتظر بیٹھا ہو کہ کوئی آئے اور اس کتاب کا صرف ایک پنا پلٹ دے, اسے سب نظر آجائے گا, وہ داستان در داستان پڑھتا جائے گا, اور مخفی کو اپنے سامنے پائے گا. عین سامنے..
زندگی کے موڑ آسان بھی ہیں اور دشوار بھی. ٹیڑھے ہونے کے ساتھ سیدھے بھی ہیں اور سیدھے ہونے کے ساتھ ٹیڑے بھی. پاوں میں چبھے کانٹوں کہ ساتھ موڑ کاٹتے ہوئے لب کھل آٹھتے ہیں اور کبھی کبھار راستے میں نچھاور گداز پھولوں پر سے موڑ کاٹتے ہوئے قدم, آنکھوں کو لال کرتے ہوئے یوں محسوس کرتے ہیں جیسے پھولوں کی نازک پتیاں اس کے پاؤں میں یوں چبھ رہی ہوں کہ وہ بیان ہی نہ کر سکے کہ اصل کیا ہے اور نقل کیا ہے..
کچھ موڈ کٹ جائیں تو باعث تکلیف ہوتے ہیں جیسے بہار کا رنگارنگ کھلتا ہوا موسم جب موڑ مڑتا ہے تو سارے رنگ اور خوشبو اپنے ساتھ لے جاتا ہے..
اسی طرح کچھ موڑ کٹ رہے ہوں تو وہ بھی اضطرابی کیفیت ہمارے اوپر طاری کر دیتے ہیں. خزاں کا موسم جب عروج پر ہوتا ہے تو درختوں سے گرتے ہوئے زرد پتے, ہماری آنکھوں کے سامنے کئی ذرد کہانیوں کو کھول کے رکھ دیتا ہے.
ہم سب کی زندگی موڑوں سے گھری ہوئی ہے. اسی طرح محبت اور نفرت کا عنصر بھی ہماری زندگی میں بہت زیادہ ہے. محبت چاہے کتنی ہی شیرینی اور جان پرسوز ہو مگر ہے تو موڑ کا حصہ ہی, التفات بھرا دل محبت کی پیگھ پر پروان چڑھتا ہوا یوں آزاد پرندے کی طرح ہوا میں گھومتا ہے جیسے اسے معلوم ہی نہ ہو کہ اس کو لگے پر وقتی ہیں. ہوا کا صرف ایک جھونکا اس کے گرم پروں کو ٹھنڈا کرتے ہوئے, اس کی پرواز کو یوں خاک میں ملا دیتا ہے, کہ وہ پھر کبھی محبت کی آزاد فضاؤں میں پرواز کرنا پسند نہیں کرتا. مگر ہاں خم جب ملتا ہے تو اس کے ساتھ ایک نیا موڑ آنکھیں لگائے ہمارا منتظر بیٹھا ہوتا ہے.
نفرت کا موڑ...
دل جب محبت سے خالی ہو جائے تو اس کا بدل نفرت ہو جاتا ہے. کوئی آپ کہ آڑتے پروں کو ٹھنڈا کر دے, تو آپ کا دل بھی اس محبت کے لئے ٹھنڈا ہوجاتا ہے. بالکل برف کی سل کہ جیسا..
محبت اور نفرت کا موڑ.. پانی سے برف تک کا ہے..
ایسا پانی جو برف تو بن جائے, لیکن برف کبھی پانی نہ بن سکے..
ہم رہ اج میں رہے ہیں اور جی کل میں رہے ہیں. چلنا آج میں چاہتے ہیں لیکن موڑ کل کی جانب کٹ رہے ہیں. طلب سچائی کی ہوتی ہے, مگر طلب سچی نہیں ہوتی, اور جب طلب سچی نہ ہو, تو موڑ پر پڑے سچے موتی, کبھی ہمارے ہاتھ نہیں آ سکتے.
زندگی خوبصورت ہے..
مگر پھر بھی اسے خوبصورت دیکھنا چاہتے ہیں. ایسا کیوں ہے...
کہیں زندہ دل, رفتہ رفتہ موڑ کاٹتے ہوئے, اجالے سے تاریک کنواں میں مقید تو نہیں ہوگیا. کہیں تاریکی میں زندہ دل, کالک سے بجھ تو نہیں گیا. کہیں چمکدار آنکھوں کے آگے سیاہ پردے, سیاہی کی تہہ جماتے ہوئے, رنگین زندگی کو سیاہ تو نہیں کر گئے.
کہ ہم خوبصورتی کہ ہوتے ہوئے, خوبصورتی کو ڈھونڈ رہے ہیں..
زندگی حسین ہے. لوگ حسین ہیں. ہنسی حسین ہے. پھولوں کی پنکھڑیاں حسین ہیں. ساتھ حسین ہے. احساس حسین ہے. بات حسین ہے. دل کی آواز حسین ہے.
کیا واقعی حسین ہے...
حسین تو ہے, لیکن آدھی حقیقت ہے. یہ پوری تب ہوتی ہے, جب یہ موڑ کاٹتی ہے. جب موڑ کٹ جائے تو آئینہ بھی پھر جاتا ہے, تب اس آئینے میں دکھائی دیتی ہوئی حقیقت پوری ہو جاتی ہے. کیونکہ آئینہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا.

28/06/2020

کروڑوں جانیں اس سر زمین پر روز سانسیں بھر رہی ہیں. ہر سانس اس بات کا یقین دلاتی ہے کہ جسم میں جان ابھی باقی ہے. تو کیا سانس بھرنا ایک اشارہ نہیں, کہ جیون ابھی چل رہا ہے.
کیا سانس چلنا ہی جیون کی کہانی ہے...
ہاں کہانی کا سرا یہیں سے شروع ہوتا ہے. لیکن ہر آغاز کو انجام تک پہنچانے کے لیے اس سانس میں چھپے کئی اشاروں کو بھی سمجھنا ضروری ہوتا ہے. کیونکہ ایک کہانی کہ ختم ہونے کے بعد دوسری کہانی ضرور جنم لیتی ہے.
ہر کہانی ہمیں نئے اشاروں سے آشنا کرتی ہے. پچھلی کہانی اگلی کہانی سے مختلف ہوتی ہے. نئا رنگ ہوتا ہے, نئا روپ ہوتا ہے, نئے کردار ہوتے ہیں, نئے احساس ہوتے ہیں, نئے جذبات ہوتے ہیں, غرض سب کچھ نئا ہوتا ہے. تو پھر اشارے کیسے پرانے ہو سکتے ہیں. وہ بھی بدل جاتے ہیں. کہانی اور کرداروں کی طرح, ایک نئا روپ دھار کے, کچھ الگ ہی راہیں ہمیں دکھاتا ہے.
کہتے ہیں قدرت کے اشاروں کو سمجھو..
اس کہ ہر کہنے اور ہونے میں اشارہ چھپا ہوتا ہے. کبھی وہ ہمیں چیخیں مار مار کر بتا رہا ہوتا ہے کہ جو تم کر رہے ہو ٹھیک نہیں ہے, جن راہوں پر بے خوف تمہارے قدم بڑھے جا رہے ہیں وہ بے وجہ ہیں. لیکن ہم اشارے کو ان دیکھا کرتے ہوئے ہنس دیتے ہیں.
اور کہتے ہیں ہمیں نہ تو کچھ سنائی دے رہا ہے, اور نہ ہی دکھائی دے رہا ہے. جب اس موڑ پر انسان آ جاتا ہے, جہاں اس کے عقل اور دل کے تالے مقفل ہو جاتے ہیں, تو پھر دنیا میں کوئی شے ایسی نہیں جو اسے تباہی کے دہانے سے بچا کر لے آئے. کسی نے خوب کہا ہے..
میں خود ہی ہوں اپنے آپ کے پیچھے پڑا ہوا..
میرا شمار بھی تو میرے دشمنوں میں ہے..
وقت کی ریت پر تند ہواؤں کا سراپا ہمیشہ سے رہا ہے. ہواؤں کا رخ بڑھتا جا رہا ہے اور وقت کی ریت آڑتی جا رہی ہے. کہیں دور, بہت دور..
جب یہ ریت اڑ جائے تو اس کی سمت کبھی پیچھے کی جانب نہیں ہٹتی. آڑ جائے تو بس اڑ جاتی ہے کیونکہ اسے آگے جانا پسند ہے. اس لئے آج میں جی رہی ہے. حال میں جی رہی ہے.
ہواؤں کے ساتھ اڑتی ہوئی ریت, ہر پل ہمیں چھوتی ہوئی اشاروں کے بول بولتی ہوئی, ہم پر کئی فلسفے چھوڑ کر جاتی ہے یا کھول کر جاتی ہے.
اب ان فلسفوں میں چھپے اشاروں کی کھوج ہمیں لگانی ہے. کھوج اشارے کو سمجھنے کا پہلا دروازہ ہے, لیکن دروازہ ابھی بند ہے. دروازے پر لگے جندروں کی کنجی پتہ نہیں کس کونے میں پڑی ہے..
سب سے پہلے دروازے پر لگے تالے کے لئے کنجی تلاش کرنی ہے. پہلا قدم پار ہو جائے تو اگلے سو قدم, پہلے قدم کے آگے ڈھیر ہو جاتے ہیں.
اشاروں کی گھنٹیاں تو دل نادان میں بھی بجتی ہیں. تو کہیں جندرے کی کنجی ان گھنٹیوں کے پیچھے نہ ہو. دن بھر کئی گھنٹیوں کی گونج ہمارے دل سے ہوتے ہوئے کانوں کو جاتی ہے. جس میں کئی سوال و جواب چھپے ہوتے ہیں.
سوال اٹھتا ہے..
وقت کہتا ہے..
میرے روبرو چلو, سارے جندرے کھل جائیں گے, کٹھن راہیں روہی کی طرح نرم پڑ جائیں گی. دل میں بجھی راکھ, پھر سے الاؤ بن کر آنگ انگ کو روشن کر دے گی. ہر الٹی دھارا سیدھی ہو جائے گی, راستے کا تعین نہ کر پاؤ تو میں خود تمہاری سمت بن جاؤں گا, تمہارے ہاتھ میں بجھتا دیا بھی ہو, تو اندھیرے کی تاب لاتے ہوئے, دیے کی لو جلاتے ہوئے, تمہیں دنیا میں سب سے زیادہ روشن کر دوں گا.
بس یہی سوال ہے. میرے ساتھ چلو گے..
سوال کے بول میں طاقت اور امید ہو.. تو جواب خود ہی بننے لگ پڑتے ہیں. دل سے ہوتی ہوئی گونج کانوں کے پردے پر جب پڑی, تو انسان نے سادہ سے لفظوں میں کہا..
گانے کہ بول کتنے ہی میٹھے کیوں نہ ہوں, ان کو صحیح طرز میں ترتیب نہ دیا جائے, آواز سر اور تال پر نہ بیٹھے, گانے والے کے جذبات مکمل طور پر اس دھن میں گھل نہ جائیں, تب تک وہ بول صرف چند بول ہی رہتے ہیں.
پھر اسے گیت کانام نہیں دیا جا سکتا..
جب خالی بول گیت کا روپ نہیں دھار سکتے..
تو خالی الفاظ, وقت کی دھارا کو چیرتے ہوئے کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں. لفظوں سے آگے بھی ایک دنیا ہے, جسے ہم ہونا کہتے ہیں.
خالی برش کو پکڑ کر تصویر نہیں بن جایا کرتی, رنگوں کو خود بھرنا پڑتا ہے. تصویر تبھی مکمل ہوتی ہے..
ویسے ہی وقت کو صرف گزرتے ہوئے نہ دیکھو, اس کہ اشاروں کہ بول کو سمھجو, اور پھر ان بول کو ایسا عمل میں لاؤ کہ جب دیکھو تو پیچھے مڑ کر نہ دیکھو. کیونکہ اس کے اشارے آگے کی جانب ہیں, تو ہم کیسے پیچھے دیکھ سکتے ہیں.
اور جس دن آگے کی جانب چلنا سیکھ جاؤ تو سمجھ جانا, چابیاں مل رہی ہیں, جندرے کھل رہے ہیں..

Want your public figure to be the top-listed Public Figure in Rawalpindi?
Click here to claim your Sponsored Listing.

Videos (show all)

Category

Address

Rawalpindi

Other Rawalpindi public figures (show all)
ادراک ادراک
Rawalpindi

ادراک کے کالم، مضامین، کہانیاں،ناولز، افسانے https://www.youtube.com/c/katasi

ehtesham ahmed ehtesham ahmed
Rawalpindi, 46000

Ehtisham Ahmed

Riaz Ali Inqalabi Officials Riaz Ali Inqalabi Officials
Rawalpindi
Rawalpindi, 65120

Poetry , Novels , Drama , short stories , Quotes , Motivations , Thoughts , Travel Loge , Biography

ALONE..Writer's ALONE..Writer's
Rawalpindi

غم ہی پھر ایسا ملا،کہ بات نماز تک جا پہنچی🔥 #____فقط___# ایک سجدہ کیا اور داستان خدا تک جا پہنچی

OzGar Pakhtun MR OzGar Pakhtun MR
G. T Road
Rawalpindi

Allah srif yaqeen rako buss����

Ehlay Wafa Ehlay Wafa
Rawalpindi

This page is only poetry

M***i Saeed Arshad M***i Saeed Arshad
Cb781 Mohala Haji Lal Din
Rawalpindi, 46000

M***i Saeed Arshad Al Hussaini {Not Official}

Shoaib Akhtar Shoaib Akhtar
Rawalpindi

Nizam ullah usmani Nizam ullah usmani
Satreet Number 4 I 659 Tile Muhalla Rawalpindi
Rawalpindi, 04613

Malang potery Malang potery
6/1
Rawalpindi, 68536

هله به احساس زما د میني درته اوشی � خړي خړي خاوري چه په ما باندي امبار شی

ShuttingDown ShuttingDown
Rawalpindi

Forever_Forgotten