Rawalpindi Bar Association
Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Rawalpindi Bar Association, Public & Government Service, Kacheri Chowk, Mall Road, Saddar, Rawalpindi.
کل سے خبر چل رہی ہے کہ سپریم کورٹ نے قادیانیوں کو تبلیغ کی اجازت دے دی ہے اور قادیانیت کی تبلیغ کے قانون کو کلعدم قرار دے دیا ہے.
سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی. مذکورہ مقدمے کا آسان اردو خلاصہ پیش ہے:
مبارک احمد ثانی بنام سرکار
Criminal Petition No. 1054-L & 1344-L of 2023
پسِ منظر:
ملزم پہ FIR میں الزام لگایا گیا تھا کہ وہ ایک متنازعہ کتاب تفسیرِ صغیر ، جس پہ پابندی ہے، کی تقسیم، تشہیر اور تبلیغ کر رہا تھا. جبکہ پنجاب قرآن (پرنٹنگ و ریکارڈنگ) ایکٹ 2021 کے مطابق کسی کلعدم / زیرِ پابندی کتاب کو پھیلانا یا چھاپنا جرم ہے.
ٹرائل کورٹ نے ملزم پہ دفعہ 7 و 9 قرآن ایکٹ 2011 اور دفعہ 295 بی و 295 سی تعزیرات پاکستان کے تحت فردِ جرم عائد کی جس فرد جرم کے خلاف ملزم نے ہائیکورٹ میں فوجداری نگرانی دائر کی جو مسترد کی دی گئی. جس کے خلاف ملزم نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی.
ملًزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ مذکورہ قانون 2021 میں لاگو ہوا جبکہ ملزم کے جس مبینہ عمل پہ مقدمہ درج کیا گیا ہے وہ 2019 کا ہے. لہذا قانون کا اطلاق ماضی سے نہیں ہو سکتا.
قانونی پہلو:
سپریم کورٹ نے معاملے کے قانون پہلوؤں پہ لکھتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 12(1) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ کسی شخص پہ ایسے جرم کا اطلاق نہیں کِیا جاسکتا جو اُس وقت جرم تھا ہی نہیں جب وہ عمل سرزد کیا گیا تھا. چنانچہ جب 2019 میں کسی کلعدم / متنازعہ کتاب کا چھاپنا یا اسکی تشہیر کرنا جرم تھا ہی نہیں اس لئے ملزم پہ ایسی فردِ جرم عائد نہیں کی جا سکتی.
ملزم کے وکیل نے مزید کہا کہ ملزم پہ 298 سی (خود کو مسلم ظاہر کرکے قادیانیت کی تبلیغ کرنا) اور 295 بی (توہینِ قرآن) تعزیرات پاکستان کا بھی اطلاق کِیا گیا ہے جو کہ FIR کے مندرجات اور چالان کے مطابق درست نہیں. عدالت نے مدعی کے وکیل کو FIR پڑھنے کا کہا اور عدالت نے یہ بات نوٹ کی کہ FIR اور چالان دونوں میں کوئی ایسی بات موجود نہیں جس سے ملزم پہ مذکورہ دفعات کا اطلاق ہوتا ہو. چنانچہ عدالت نے قرار دیا کہ ایڈیشنل سیشن جج نے ملزم پہ جو فردِ جرم عائد کی ہے اس میں سے مذکورہ دفعات خارج کی جاتی ہیں.
عدالت نے مزید کہا ہے مذہبی معاملات سے متعلق کیسز دیکھتے ہوئے عدالتوں کو انتہائی احتیاط برتی چاہیے. اور اس حوالے سے قرآن پاک کی سورہ بقرہ کی آیت 256 کا بھی حوالہ دیا گیا کہ دین میں کوئی جبر نہیں ہے. عدالت نے کہا کہ مذہبی جبر قیامت کے دن احتساب کے فلسفے سے کے بھی خلاف ہے. خود خالقِ کائنات نے نبی پاک ص سے سورہ رعد آیت 40 اور سورہ یونس آیت 99 میں فرمایا کہ آپکا کام صرف لوگوں تک پیغام پہنچانا ہے، زبردستی مومن بنانا نہیں. مذہبی آزادی اسلام کا بنیادی نکتہ ہے لیکن بدقسمتی سے مذہبی معاملات میں جذبات بڑھک اٹھتے ہیں اور قرآن کے احکامات بھلا دئیے جاتے ہیں.
عدالت نے مزید کہا کہ قرآن اہم معاملات پہ تدبر کا حکم دیتا ہے لیکن مقدمہ ہذا کے تمام فریقین نے کوشش کی کہ یہ ثابت کِیا جاسکے کہ قرآن اور صاحبِ قرآن کی توہین ہوئی ہے. جبکہ اِن سب کو یاد رکھنا چاہئے تھا کہ قرآن میں خود الله نے قرآن کی حفاظت اپنے اوپر لی ہے.
عدالت نے قرار دیا کہ دین میں جبر نہ ہونے والی بات آئین کے آرٹیکل 20 اے میں بطور بنیادی حق شامل ہے جس میں قرار دیا گیا ہے کہ ہر شہری کو مذہب اپنانے، عمل کرنے اور اس کی تشہیر / تبلیغ کرنے کا حق حاصل ہوگا. جبکہ اسی آرٹیکل کی شق بی کہتی ہے کہ ہر مذہبی اقلیت / اکائی اور فرقے کو مذہبی ادارے قائم کرنے اور چلانے کا حق ہوگا. نیز آرٹیکل 22 میں یہ حق دیا گیا ہے کہ کسی بھی مذہبی فرقے کو اپنے فرقے کے طلباء کیلئے قائم کردہ تعلیمی اداروں کے اندر اپنی مذہبی تعلیمات دینے سے نہیں روکا جائے گا. عدالت نے کہا کہ یہ حقوق صلب نہیں کئیے جا سکتے.
عدالت نے قرار دیا کہ اگر صرف سرکاری افسران ہی نے قرآن پاک، آئین اور متعلقہ قانون مدنظر رکھا ہوتا تو مذکورہ مقدمہ اِن دفعات کے تحت درج ہی نہ ہوتا. لہذا اپیل منظور کی جاتی ہے اور دفعہ 7 و 9 قرآن ایکٹ 2011 اور دفعہ 295 بی و 295 سی تعزیرات پاکستان کو فرد جرم میں سے حذف کیا جا تا ہے. اور ملزم کو ضمانت دی جاتی ہے.
Whether Supreme Court can look in to the act/ruling of Deputy Speaker is a mix question of law and fact.
In our parliamentary democracy Parliament of Pakistan is not completely sovereign and did not possess power of omnipotence. On the other hand, Power of Judicial Review in to Legislative Actions is inherent right of Superior Legislature that can be exercised as a curative remedy mainly on grounds of such action being unconstitutional, against fundamental rights and lack of competence and bonafide. Parliament is also a creature of Constitution and it has only those powers which are conferred to it by constitution (PLD 2015 Supreme Court 401) so there is every chance that even Parliament can fumble. As regard the bar contained in Article 69 of The Constitution such bar is expressly extended to the extent of irregularity and not illegality hence the court has ample power to look in to the matter while exercising Judicial Review (PLD 1999 Karachi 54). Furthermore where interpretation of constitutional instrument is involved, the Court has every power to look in to such matter be that may Proceedings of Assembly (PLD 1989 Baluchistan 25) as it is clear that since statute contained general provision and special provision then special provision i.e. Art. 95 would have prevailed (PLD 1973 Supreme Court 49).
Every Legislative Act is subject to Judicial Review (PLD 2012 Supreme Court 923 and 2015 SCMR 1739). The Speaker is part and parcel of legislature and Speaker’s ruling has no absolute immunity (PLD 2012 Supreme Court 774, PLD 2006 Balochistan High Court 36, 1994 MLD 2500). The immunity and indemnity is a qualified one and Assembly has to conduct its business within limits prescribed by constitution (2002 YLR 2209). In this regard we can adhere to the fact that the deputy speaker went straight to issue ruling, which was not even his mandate, instead of putting it on agenda, starting discussion upon the no confidence move or voting upon it which is also a violation of law. Deputy speaker never saw the letter and conducted no inquiry in to its truth hence proving that the ruling is based upon surmises and conjectures. Thus we can safely conclude that Judicial Review of Deputy Speaker’s Ruiling is maintainable and it is likely that it be declared ultra vires of the Constitution. (1992 CLC 2043).
By Raja Shuja Ur Rehman Advocate.
Click here to claim your Sponsored Listing.
Category
Telephone
Website
Address
Rawalpindi
423000
Opening Hours
Monday | 09:00 - 04:00 |
Tuesday | 09:00 - 04:00 |
Wednesday | 09:00 - 04:00 |
Thursday | 09:00 - 04:00 |
Friday | 09:00 - 04:00 |
Saturday | 09:00 - 04:00 |
Rawalpindi, 44000
Rawalpindi (Urdu and Punjabi: راولپنڈی,Rāwalpindī), also known as Pindi, is a city in the Pothohar region of Pakistan
Askari 13, Adyala Road, Rawalpindi
Rawalpindi
The Biggest Fanpage of our lovely Housing Society (Masha Allah ) !! :)
Rawalpindi
چیرمین وزیر اعلی پنجاب شکایت سیل خالد جدون کیسی بھی شکایت کیلئے اپکی مدد کے لئے حاضر ہیں ۔
Dubai Plaza
Rawalpindi, 10700
Legal papers Attestaion please contact like matric intermediate bachelor degree masters degree marriage certificate Poa From Mofa immigration Hec Ibcc board verification
Rawalpindi, 46060
پورے پاکستان میں کھوجی کتوں کی خدمات کے لیے رجوع کریں۔ ?
House#2789, Abubakar Block, Main Boulevard Road, Bahria Town, Phase 8
Rawalpindi, 44000
yes
Rawalpindi, 46000
Catching of robbers, thieves and murderers has now become easy with Dog Center Contact Us: 03466060500 03005271252