Bhutta OIL Mills & Cattle Feed

Bhutta OIL Mills & Cattle Feed

You may also like

VIP TV
VIP TV
HR Services
HR Services

Oil Mills

15/09/2023

ایک بار سکندر مرزا سعودی عرب کے دورے پر گئے ریاض میں ہمیں شاہی محل میں ٹھہرایا گیا۔ وہاں پر بہت سے ان کے پاکستانی ملازمین بھی نظر آئے۔ ایک صاحب شاہ کے چیف ٹیلر کہلاتے تھے وہ بھی پاکستانی تھے۔
۔
میں نے ان سے پوچھا آپ نے یہ عہدہ کس طرح حاصل کرلیا۔ جو لباس عرب پہنتے ہیں وہ پاکستان میں تو سیا نہیں جاتا پاکستان میں اس لباس کی سلائی سیکھنا آسان بھی نہیں
۔
انہوں نے ہنس کر جواب دیا مجھے سلائی ولائی کچھ نہیں آتی تھی مجھے خبر ملی کہ شاہ سعود کے چیف ٹیلر ماسٹر کی آسامی خالی ہے میں نے بھی درخواست دے دی اور اس میں لکھا کہ میں مہاتما گاندھی کا ٹیلر رہا ہوں میری اس کوالیفیکیشن پر مجھے ملازم رکھ لیا گیا۔
۔
بعد میں جب یہ پول کھلا کہ مہاتما گاندھی تو صرف دھوتی پہنتے تھے تو مجھے سرکاری خرچے پر لندن ایک بڑی فرم کے پاس تربیت کے لئے بھیج دیا گیا
۔
قدرت اللہ شہاب

14/09/2023

"رائے احمد خان کھرل سیمینار تے ڈاکٹر تراب الحسن سرگانہ ہوراں دی کتاب "پنجاب اور جنگ آزادی 1857" دی مکھ وکھالی پنجابی پرچار تے پلاک دے سانجھے آہر نال

14/09/2023

‏تجربے اور مشاہدے میں آیا ہے کہ زیادہ سمجھدار اور زیادہ بیوقوف میں کوئی فرق نہیں کیونکہ یہ دونوں ہی کسی کی نہیں سنتے.

14/09/2023

’’شادی میں کامیابی کے لیے ضروری نہیں کہ آپ صحیح شخص سے شادی کریں، کامیابی کا تقاضا ہے کہ آپ صحیح شخص ہوں۔‘‘

➖ ڈاکٹر احمد خالد توفیق

12/09/2023

قوم اور ریوڑ

اقوام کی زندگیوں کے سودوزیاں کا حساب کتاب رکھنے والے ایک تجزیہ کار نے کچھ عرصہ پہلے لکھا تھا کہ بحثیت قوم پاکستان کی تشکیل سے اب تک ہمارے لیے خوشی کی دو ہی خبریں آئیں اوّل کہ ہم نے انیس سو بانوے کا کرکٹ ورلڈ کپ جیتا اور دوم کہ ہم ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کی ساتویں جوہری طاقت بن گئے.لیکن دو روز پہلے جب ہندوستان میں بیس ملکوں کی معیشت پہ ہونے والی کانفرنس میں شرکت کےلیے دنیا کی سپر پاور امریکہ کے صدر ہندوستان پہنچے تو ائیرپورٹ پر اُن کا استقبال ٹرانسپورٹ اور ہوابازی کے وزیر نے کیا. ہمارے ساتھ ہی انگریزوں کی طرف سے آزادی پانے والے ہندوستان کی طرف سے خودمختاری،خودداری اور قومی وقار کی اس علامتی موو نے ایکدم ہندوستان کا قد آسمان تک بلند کر دیا کاش ہم اپنے دامن میں پڑی ان دو خوشیوں (ورلڈکپ اور ایٹم بم) کی بجائے ان کی اس خودداری کی علامت جیسی کوئی خوشی حاصل کر پاتے.

11/09/2023
11/09/2023

آسمان میں روشنی کی ریل!!!

گر آپ نے اج رات کو پاکستان میں آسمان میں روشن چلتی ہوئی ریل کی طرح کوئی شے دیکھی ہے جس میں بظاہر کئی چمکتے ستارے سے ایک قطار میں تیزی سے گزر رہے ہیں تو گھبرائیے نہیں.

دراصل آسمان میں دِکھتی یہ لمبی روشن قطار، ایلان مسک کی امریکی کمپنی SpaceX کے چھوٹے چھوٹے سیٹلائٹس ہیں جو زمین سے قریب پانچ سو پچاس کلومیٹر اوپر خلا میں زمین کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں۔ اس پراجیکٹ کا نام Starlink ہے اور اس کے تحت مستقبل قریب میں 42 ہزار سے زائد سیٹلائٹ چھوڑے جائیں گے۔

انکا مقصد مستقبل میں زمین کے ہر خطے پر انٹرنیٹ کی سہولت میسر کرنا ہے۔ اس وقت Starlink کے 2200 سے زائد سیٹلائٹس خلا میں موجود ہیں اور یہ بہت سے سٹلائٹ ایک دوسرے کے آگے پیچھے ریل کی صورت ہیں۔یہ سٹلائٹ تقریباً 3 سے 7 میٹر لمبےاور 1.5 سے 3 میٹر چوڑے ہیں۔ مگر جب انکے سولر پینل خلا میں جانے کے بعد کھلتے ہیں تو انکی لمبائی 20 سے 40 میٹر تک ہو جاتی ہے۔سپیس ایکس ایک بڑے راکٹ سے ایک ہی وقت میں کئی سٹلائٹ ایک ہی قطار میں خلا میں بھیجتی ہے۔ یہ سٹلائٹ اتنا چمکتے اس لیے ہیں کہ سورج کی روشنی انکے لمبے لمبے سولر پینلز پر پڑتی ہے اور یہ زمین کے کافی قریب ہیں۔

عنقریب ان سیٹلائٹ کے ذریعے گھروں میں چھوٹے ڈش کی شکل کے آلات کے ذریعے آپ کہیں بھی انٹرنیٹ استعمال کر پائیں گے۔
یہ سہولت اسوقت محدود حالت میں یورپی ممالک اور امریکہ سمیت 40 ممالک میں موجود ہے اور اسکے صارفین کی تعداد اب تک 5 لاکھ کے قریب ہے۔ کچھ عرصے کے بعد جیسے جیسے ان سیٹلائٹس کی تعداد بڑھتی رہے گی ہمارے رات کے آسمان میں یہ اُتنا ہی زیادہ نظر آئیں گے۔
منقول

09/09/2023

اگر آپ اپنی بیوی کو انگریزی میں"مرڈرر"یا ہندی زبان میں"ہتھیارن" بولیں گے تو رات کا کھانا بھی نہیں ملے گا۔
وہیں اگر اردو زبان میں اس کو بولیں
" بیگم آج تو آپ بڑی قاتل لگ رہی ہیں "
تو شام کی چائے کے ساتھ پکوڑے اور ڈنر کے بعد میٹھا بھی ملے گا۔
اردو میٹھی زبان ہے اسے فروغ دیں !😋

08/09/2023

میں ایک پاکستانی تاجر ہوں ۔
آپ ، فورآ میرے صدقے واری جائیں پلیز ۔۔۔

میں صبح گیارہ بجے ، سو کر اٹھتا ہوں ۔
دوپہر بارہ بجے کاروبار شروع کرتا ہوں ۔
مفت میں ملی سورج کی روشنی ، ضائع کر دیتا ہوں ۔ اور شام پانچ بجے سے لے کر ، رات گیارہ بجے تک مہنگی بجلی پھونکتا رہتا ہوں ۔

پھر پورا مہینہ روتا ہوں کہ بجلی کا بل بہت زیادہ آ گیا ہے ۔

اور مجھے اتنا بھی معلوم نہیں کہ گاہک کو تو ہر حال میں مجھ سے اپنی ضرورت کی چیزیں خریدنا ہیں ۔ چاہے میری دوکان ، صبح آٹھ سے شام پانچ کھلے ، یا دوپہر بارہ سے رات گیارہ تک ۔۔۔ لوگ تو کرفیو کے دوران ، دو گھنٹے کی بریک میں بھی ضروریات زندگی خرید لیتے ہیں ۔

مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ دنیا کے سارے ترقی یافتہ ملکوں میں ، دوکاندار صرف دن کی روشنی میں دوکان کھولتے ہیں ۔ لیکن وہ بھوکوں نہیں مرتے ۔

ہے ناں ، سو سو بار صدقے واری جانے والی بات ۔۔۔

( انجینیئر ریاض احمد اُپل )

08/09/2023

My pants were sad that they got rain water on them
😁

07/09/2023

*مرشد*

*"اپّو آج چِکّڑ چنے اور تِلوں والا کُلچہ کھانے کو جی چاہ رہا ہے۔"*

ابّاجی نے سالوں بعد فرمائش کی تھی۔

ابّا جی مجھے پیار سے اپّو کہتےہیں.

میری خُوشی کی اِنتہا نہ رہی. فجر کی نماز ادا کی جوگر پہنے، مارننگ واک کے بعد چِکّڑ چنے والے کے اڈّے پر جادھمکا۔ ابھی وہ اپنی ریڑھی سجا رہا تھا- میں نے چنے پیک کرنے کو کہا-
وہ بولا۔ *"باوُ جی، اِتنی صبح؟ چنے 7 بجے سے پہلے نہیں ملیں گے۔*

میں گاڑی میں بیٹھ گیا اور بے قراری سے چنوں کا اِنتظار کرنے لگا. چنے والے سے ہر دو منٹ بعد دریافت کرتا، *"بھائی اور کِتنا انتظار کرنا پڑے گا؟"*

*"وُہ بس تھوڑی دیر باوُجی،"* کہہ کر تسلّی دے دیتا۔ میری بے قراری بڑھتی جارہی تھی۔ بار بار موبائل پر وقت دیکھتا۔

چنے والا جو مجھے نوٹ کر رہا تھا، میرے پاس آیا اور بولا *"باوُ جی، آپ پہلے بھی چنے لے جاتےہو، پر اِتنی سویرے اور اِتنی بےقراری پہلے نہیں دیکھی، خیر تو ہے؟"*

میں تو جیسے سوال کا منتظر تھا ... میں نے سر اُٹھا کر فخر سے کہا ... *بھائی، آج میرے مُرشد نے چِکّڑ چنوں کی فرمائش کی ہے، میں اُن کا حُکم جلد از جلد بجا لانا چاہتا ہوں-"*

وُہ بولا، *"مُرشد مطلب آپ کے پیر؟*

میں نے کہا، *ہاں، میرے والد بزرگوار"*

وُہ جھلّا کر بولا *"کبھی مُرشد کہتے ہو، کبھی والد؟ چکر کیا ہے؟"*

میں نے بتایا کہ میرا باپ ہی میرا مُرشد ہے۔

وُہ بولا، *"اچّھا تو آپ کے والد کی گدّی ہے؟*

میں نے کہا، *"نہیں بھائی، میں اپنے والد اور والدہ کو سب سے بڑا پیر مانتا ہوں- اُن کے ہوتے مُجھے آج تک کسی مُرشد کی ضُرورت نہیں پڑی۔ ویسے بھی قرآن کریم میں اللّٰہ فرماتا ھے کہ تمھارے والدین تمہارے سب سے بڑے مُحسن ہیں-"*

چنے والے کے چہرے سے صاف عیاں تھا کہ وُہ میری باتوں سے مُطمئِن نہیں ہے۔

بولا، *"وُہ تو ٹھیک ہے پر مُرشد، مُرشد ہوتا ہے۔ اور ماں باپ، ماں باپ۔ میرے مُرشد کا نُور محل ٹنڈو مستی خان میں ہے- وُہ فرماتے ہیں کہ بِنا مُرشد راہ نہیں ملتی-"*

میں نے کہا، *"بالکل دُرست کہتے ہیں تمہارے مُرشد- دیکھو، مُرشد، رٙشد سے ہے، مُرشد مطلب راستہ دِکھانے والا، اور ماں باپ سے اچّھا راستہ کون دِکھا سکتا ہے؟"*

وُہ لاجواب ہوگیا، شاید اس کے اندر حق اور باطل کی جنگ جاری تھی۔ پھر کُچھ توقّف کے بعد بولا، *"باوُجی، اگر کِسی کا باپ شرابی ہو، زانی ہو یا رشوت لیتا ہو، تو کیا اُس کی اِطاعت اور تکریم کرنی چاہئے؟"*

میں نے کہا، *"ہاں! یہ اُس کا عمل ہے، جس کے لئے وُہ اللّٰہ کو جوابدہ ہے، پر بچّے پر فرض ہے کہ وُہ باپ کے ہر حُکم کے آگے سر جُھکائے۔ اِنکار کی صِرف ایک صُورت ہے کہ باپ شِرک کرنے کو کہے-"*

چنے والا حیران رہ گیا۔ بولا، *"میرا باپ گاؤں میں بھٹّی کی بنی کچّی شراب پیتا ہے، گالم گلوچ کرتا ہے، تو کیا مُجھ پر اُس کی فرمانبرداری فرض ہے؟"*

میں نے کہا، *"ہاں! بلکہ فرضِ اوّلین ہے۔"*

کُچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولا، *"باوُجی، آپ اپنے مُرشد کے لئے چنے لے جانے کو اِتنے بےقرار کیوں ہو؟"*

میں نے کہا، *"بھائی! میرے ابّا کبھی ہم سے کُچھ نہیں مانگتے- ہم پانچ بھائی امّاں ابّا کے لب ہِلنے کے منتظر رہتے ہیں۔ ابھی میرے چاروں بھائی سوئے پڑے ہیں- مُجھے ڈر ہے کہ اگر اُن میں سے کوئی جاگ گیا اور ابّا نے اُس سے چِکّڑ چنے اور تِلوں والے کُلچے کی فرمائش کر دی اور وُہ مُجھ سے پہلے ابّا کے لئے چنے لے گیا تو میرے ہاتھ سے نیکی کا موقع نکل جائے گا-"*

چنے والا حیرت سے تکنے لگا- بولا، *"باوُجی! آپ ایسا سوچتے ہو؟"*

میں نے کہا، *"سوچتے نہیں بلکہ ہم پانچوں بھائی اِسی تاک میں لگے رہتے ہیں کہ والدین کوئی بات مُونہہ سے نکالیں اور ہم ایک دُوسرے پر سبقت لے جائیں۔ ہم تو تاڑ میں رہتے ہیں۔"*

چنے والے کی آنکھوں سے آنسو رٙواں تھے. اِسی اثناء میں ایک رکشہ آ کر رُکا، چنے والے نے رکشہ میں سے ایک بڑا پتیلا چوبی باٹے میں اُنڈیلا اور مُجھے چنے پیک کر کے دیئے- میں پیسے ادا کر کے گاڑی کی طرف لپکا-

چنے والا میرے پیچھے بھاگا، قریب آ کر پوچھا، *"باوُجی! عیبی باپ کو مُرشد کیسے مان لوں؟"*

میں نے کہا، *"نہ مانو مُرشد، پر اُس کی فرمانبرداری تو کرو۔"*

میں اُس کا مسئلہ جان چکا تھا- میں نے کہا، *"سوچو بھائی، اگر اللّٰہ کو عیبی اور نیک والدین میں فرق کرنا ہوتا تو وُہ دونوں اقسام کے والدین کے لئے الگ الگ احکامات جاری کرتا- جب اللّٰہ والدین کو ایک نظر سے دیکھتا ہے اور ایک ہی طرح کے حقوق بیان کرتا ہے تو تم تفریق کرنے والے کون ہو؟"*

اُس نے سوال کیا، *"اگر میں اپنے ابّا سے معافی مانگوں تو کیا وُہ مُجھے معاف کردینگے؟"*

میں نے کہا، *"بھائی! اللّٰہ کے بعد والدین ہی ہوتے ہیں جو ہمیں معاف بھی کرتے ہیں اور ہماری پردہ پوشی بھی کرتے ہیں- تمہیں زندہ پیر مُیسّر ہیں، جاوُ جا کر اپنی عاقبت سنوار لو، اِس سے پہلے کہ وقت ہاتھ سے نِکل جائے-"*

چنے والے نے اپنے ہیلپر کو ریڑھی پر کھڑا کیا اور اپنے پِیر کو منانے احمد پور لما چلا گیا- جاتے ہوئے وُہ زاروقطار رو رہا تھا اور مُجھے کہہ کر گیا، *"باوُجی! دُعا کرنا کہ میرے پُہنچنے تک میرا بوڑھا سلامت رہے-"*

میں وہاں سے نِکلا، راستے میں ایک تنور سے مُرشد کے حُکم کے مطابق دو تِلوں والے سُرخ کُلچے لگوائے، تیزی سے گاڑی بھگاتا ہوا گھر پُہنچا، میری بیوی نے جلدی سے ابّا کو اِنسولین لگائی اور چِکّڑ چنوں کے ساتھ کُلچے دیئے- ابّا مزے سے چنے کھا رہے تھے اور ہر لُقمے پر دُعا دے رہے تھے *"اپّو اللّٰہ تیری مشک بھری رکھے"*

میں اور میری بیوی دِل ہی دِل میں آمین کہہ رہے تھے۔ مُرشد کو چنے کِھلانے اور دُعائیں سمیٹنے کے بعد جب میں نے بیوی سے اپنے حِصّے کے چنے مانگے تو پتا چلا کہ میرے حِصّے کے چنے میرے بچّے کھا کر سکول چلے گئے ہیں- جانے میں نے کِتنی بار
ابّا کے حِصّے کے چنے کھائے ہوں گے-
اللّٰہ ہمیں آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے. آمین

*اشفاق احمد*

07/09/2023

Final proof that there is life on Mars…
😝

05/09/2023

پنجاب کی تاریخ کو مسخ کرنا اور 29 مارچ کا دن۔
دنیا بھر میں پھیلے 20 کروڑ سے زیادہ پنجابیوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ڈیڑھ ارب سے زیادہ جنوبی ایشیائی باشندوں کے لیے 29 مارچ کا دن بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ وہ دن ہے جب برصغیر کی آخری دیسی ریاست کو گورے حکمرانوں نے سر نگوں کیا۔
وہ دیسی ریاست جس کا نام ’’لہور دربار‘‘ تھا اور جو پورے 50 برس کشمیر سے فاٹا تک برقرار رہی۔ اس ریاست کا ساتھ دینے والوں میں پنجابی’ پٹھان مسلمان بھی تھے’ جٹ’ راجپوت’ ارائیں اور گجر بھی’ پوربیوں کی بٹالین بھی اور یورپی و امریکی فوجی بھی۔
مگر انگریزوں اور ان کے ہمنوا لکھاریوں نے یہی جھوٹ پھیلایا کہ لہور دربار کی حکومت تو سکھوں کی بادشاہی تھی۔ ہشیار انگریز دانشوروں نے سکھ مسلم اور پنجابی’ غیر پنجابی تضاد کو خوب استعمال کیا اور اس کے تحت مطلبی تاریخ لکھوائی۔ اس مطلبی تاریخ کو کون آگے بڑھا رہا ہے؟ یہ اپنی جگہ عجب داستان الم ہے۔
افغانستان کے دوست محمد خان کا بھائی سلطان محمد تو آخر تک لہور دربار کا سجن رہا جبکہ باجوڑ’ خیبر اور دیر کے خان لہور دربار کے ساتھ رہے۔ ایک مہم میں قصور کے خان مہاراجہ کے ساتھ لڑے مگر بعد میں وہ تادیر مہاراجہ کے ہمرکاب رہے۔ کشمیر کی مہم میں تو یہ خان صاحب مہاراجہ کی طرف سے بڑی بے جگری سے لڑے۔
لاہور کے فقیر خاندان بارے تو ہم سب جانتے ہی ہیں مگر امرتسر کے میاں غوثا’ ملتان کے سانول مل اور مول راج ہوں یا کشمیر کے شیخ برادران یہ سب لہور دربار کے ساتھ مل کر انگریزوں سے برسرپیکار رہے۔نور خان کا ذکر تو محمد شاہ کی مشہور رزمیہ ’’جنگ ہند پنجاب‘‘ میں محفوظ ہے جو پنجاب پر قبضہ کے بعد لکھی گئی۔ مگر ہمیں یہی سبق پڑھایا گیا کہ لہور دربار تو سکھوں کی بادشاہی تھی۔ -
شاہ شجاع سمیت احمد شاہ ابدالی کے تینوں پوتوں کو پناہ و جاگیریں دینے والے لہور دربار کو گرانے کے لیے انگریزوں کو تین خوفناک جنگوں سے گزرنا پڑا۔ گجرات کے قریب چیلیانوالہ کے مقام پر جو خوفناک لڑائی ہوئی اس میں پنجابیوں کے ہمراہ دوست محمد خان کا بیٹا بھی انگریزوں کے مخالف لڑا۔ اس جنگ کی بڑی یادگار چیلیانوالہ کا ’’گورا قبرستان ‘‘ہے۔
فیصل آباد کے میجر معین باری نے چلیانوالہ پر باکمال کتاب چھاپ رکھی ہے۔ ان جنگوں میں حصہ لینے والے کپتان کنگھم نے جب کتاب میں اعتراف کیا کہ یہ جنگیں سازشوں سے جیتیں گئی تھیں تو انگریزوں نے اس کتاب پر پابندی لگا دی تھی۔ مگر ہمارے بچوں کو یہ تاریخ نہیں پڑھائی جاتی۔
انگریز دانشوروں نے مسلمانوں کو ’’سکھا شاہی‘‘ اور سکھوں کو ’’مسلم حملہ آوروں‘‘ کی اصطلاحیں دیں تاکہ یہ آپس میں دست و گریباں ہی رہیں۔ لہور دربار کی 90 فی صد آبادی تو ان دونوں مذاہب کے ماننے والوں پر مشتمل تھی کہ ان میں اختلافات ایجنڈے کا خصوصی حصہ رہا۔ مسلم اور سکھ بنیاد پرست و انتہا پسند گروہ آج بھی اُسی انگریز پالیسی کے اسیر ہیں۔
27 جون 1839 وہ دن تھا جب 1799 سے برسر اقتدار گوجرانوالہ کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کا انتقال ہوگیا۔ ایک سال کے بعد قلات (بلوچستان)’ چار سال کے بعد سندھ’ سات سال کے بعد کشمیر اور 10 سال کے بعد پنجاب بشمول فاٹا پر انگریز کا قبضہ ہوگیا۔
پرنسپ’ دیبی پرشاد’ برائن ہیوگل’ سٹین بیچ’ گاڈنر’ کپتان کنگھم’ گنیش داس’ شہامت علی سمیت لاتعداد لکھاریوں نے 1850 تک لہوردربار بارے بہت سی کتب لکھیں۔ ان کتب کو پڑھنے سے ہمیں انگریزوں سے پہلے کے سیاسی’ سماجی حالات بارے جاننے میں مدد ملتی ہے۔
اس دور میں ہمارے خطوں میں سب سے بڑی زبان فارسی تھی اور فارسی کا ہمارے خطہ کی مادری زبانوں سے گہرا رشتہ بھی تھا۔ خدا بھلا کرے اگروال صاحب کا جن کی وجہ سے گنیش داس کی فارسی میں لہور دربار پر لکھی کتاب ’’چار باغ پنجاب‘‘ پنجابی و انگریزی میں ترجمہ ہوگئی۔ مقصود ثاقب نے اسے شاہ مکھی میں بھی چھاپ کر لاہور کی لاج رکھ لی ۔ مگر تاحال ہمارے خطہ بارے کتنی ہی فارسی کتب ترجمہ نہیں کروائی گئیں۔
لہور دربار پر قبضہ کے بعد انگریزوں نے مرحلہ وار انداز میں فارسی کو ختم کرنے کی مہم شروع کی۔ 1865 کے بعد پنجاب بشمول پشاور’ کشمیر اور قلات میں اُردو کا نفاذ فارسی کو ختم کرنے کی مہم کا خاص حصہ تھا۔ اس تاریخ کو ہمارے ہاں جان بوجھ کر چھپایا جاتا رہا ہے کہ پاکستان’ بنگلہ دیش اور بھارت کی گذشتہ ہزار سال کی تاریخ فارسی اور ترکی زبانوں ہی میں محفوظ ہے۔
29 مارچ کا دن اس لیے اہم ہے کہ یہ ہمیں اپنی تاریخ کو جاننے کی ترغیب دیتا ہے۔ ایک مثال بادشاہی مسجد کے میناروں کے شہید ہونے کی ہے جو 1839 کے زلزلے کے بعد اپنی اصلی حالت میں نہیں رہے تھے۔ اس زمانے میں آنے والے زلزلوں کے ریکارڈ کے حوالہ جات زلزلوں کے حوالوں سے موجود بین الاقوامی ویب سائٹ پر بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔
1873 کا گیزیٹر بھی 1839 میں بادشاہی مسجد کے میناروں کے زلزلہ کے بعد شہید ہونے کی گواہی دیتا ہے۔ مگر بہت سے لکھاریوں نے میناروں کے شہید ہونے کا الزام سکھوں پر دھردیا۔ یہ لکھا گیا کہ راجہ جموں گلاب سنگھ کے سپاہی توپیں لے کر شاہی مسجد کے میناروں پر چڑھ گئے تاکہ شاہی قلعہ کے اندر گولے برسا سکیں۔
آپ میں سے جس نے بھی بادشاہی مسجد کے میناروں کی سیڑھیاں دیکھی ہیں وہ با آسانی اس جھوٹ کو سمجھ سکتے ہیں۔ ان تنگ سیڑھیوں میں سے تو پیں لے جانا تو دور کی بات’ وہاں سے تو دو انسان اکٹھے بھی نہیں جاسکتے۔ اگر توپیں ہی لے جائی گئیں تھیں تو پھر مسجد کے پچھلے مینار گرانے کی تو ضرورت نہ تھی کیونکہ وہ تو قلعہ کی طرف نہیں تھے۔
اسی طرح 1827 کے زلزلے میں لاہور کی بہت سی تاریخی عمارتوں کو نقصان پہنچا تھا۔ زلزلوں سے ہوئے ان نقصانات کو بھی سکھوں کے کھاتے ڈال دیا گیا۔ حقیقت حال یہ ہے کہ لہور دربار کی حکومت میں مسلمانوں کا تناسب 70 فی صد سے بھی زیادہ تھا۔ اگر مہاراجہ مسلمانوں کا دشمن ہوتا تو اس کی حکومت 3 سال بھی نہ چل سکتی۔
اسی طرح سکھوں کو مسلمانوں سے متنفر کرنے کے لیے احمد شاہ ابدالی کے حملوں اور میر منو کے دَور کے واقعات کو مرچ مصالحہ لگا کر پیش کیا گیا۔ احمد شاہ ابدالی اور میر منو تو مسلمانوں اور پٹھانوں کے ساتھ بھی لڑتے رہے تھے مگر سکھوں کو یہ باتیں نہ بتائی گئیں۔ یہ سب جیمس مل کی تقلید تھی۔
جو سکول سسٹم ہمارے خطوں میں انگریزوں نے بنایا اس میں مادری زبانوں یعنی پشتو’ بلوچی’ براہوی اور پنجابی کو دیس نکالا دیاگیا تھا تو دوسری طرف ان کی تیار کردہ نصابی کتب میں صوفیا اور بھگتوں کی تعلیمات شامل ہی نہ تھیں۔ 1854 کے ووڈز ڈسپیچ (Woods Despatch) سے لے کر جی ڈبلیو لائیٹنر کی 1882 کی تعلیمی رپورٹ تک بہت سے انگریز تھے جنھوں نے ان اقدامات کی مخالفت کی۔
اس تعلیمی بندوبست کی خوبیوں اور گھاٹوں پر ہم نے تاحال کچھ کام نہیں کیا اور اس کا الزام انگریزوں پر قطعاً نہیں ڈالا جا سکتا۔ لائیٹنر نے تو اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’پنجاب میں دیسی تعلیم‘‘ میں نہ صرف پنجابی زبان کے چھ رسم الخطوں کا ذکر کیا ہے بلکہ پنجابی’ فارسی سلسلوں کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ مگر برٹش انتظامیہ نے بوجوہ ان باتوں کو ضروری نہ گردانا۔
دیکھا جائے تو فارسی نے اس خطہ کو جوڑا ہوا تھا جو ایک طرف وسط ایشیائی و ایران تک جاتا تھا تو دوسری طرف کشمیر تک مگر اس جڑت کو توڑنا نو آبادیاتی مفادات کا بڑا مقصد ٹھہرا۔ یہ سب تو گورے حکمرانوں کے کارنامے تھے مگر ہم نے سات دہائیوں سے اسی سلسلہ کو کیوں جاری رکھا؟ یہ ہے وہ سوال جس کو آج ہم نے دوبارہ سے دیکھنا ہے۔ 29 مارچ کا دن اس کھوج کی طرف رخ کرنے ہی سے عبارت ہے۔
مذہبوں’ فرقوں’ زبانوں اور رسم الخطوں سے خوب کھیلا گیا۔ لہور دربار میں مسلمانوں کے بعد عددی اعتبار سے دوسرا بڑا مذہبی گروہ سکھ تھے۔ انگریزوں نے پہلے کشمیر کو لہور دربار سے الگ کیا اور 1850 کی دہائی کے اولین سالوں میں ستلج پار سے دلی تک کا علاقہ پنجاب میں شامل کردیا۔ اب پنجاب میں دوسرا بڑا مذہبی گروہ سکھوں کی بجائے ہندو بن گئے۔ سکھوں کو تو تادیر اس کی سمجھ ہی نہ آئی۔
1941کی مردم شماری کے مطابق بھی پنجاب میں ہندو 22 فی صد جبکہ سکھ 15فیصد تھے۔ ان اعداد و شمار سے اکھاڑ بچھاڑ کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ 29 مارچ کا دن ہمیں اس سماجی اتھل پتھل یعنی سوشل انجینئرنگ کی یادلاتا ہے جس سے ہمارے بچوں کا آگاہ ہونا ضروری ہے۔ یہ مسئلہ محض پنجاب کا نہیں بلکہ خیبر پی کے’ بلوچستان اور سندھ کا بھی ہے اور مشرقی پنجاب اور کشمیر و گلگت بلتستان کا بھی۔
افسوس ہمارا باخبر اور مقتدر میڈیا بھی 29 مارچ کے دن کی اہمیت سے تاحال ناآشنا ہے۔ ہم جانتے یا ناجانتے ہوئے سکھ مسلم اور پنجابی غیر پنجابی تضادات کے مہلک اثرات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ مذہبی بنیاد پرست اور انتہا پسند تو انہی تضادات کو استعمال کر رہے ہیں مگر ترقی پسند اور لبرل دانشور بھی اسی مطلبی تاریخ کے اسیر نظر آتے ہیں۔
آج اگر ہماری یونیورسٹیاں اور میڈیا اس بارے غور کریں تو کوئی وجہ نہیں ہم اپنی تاریخ سے آگاہی حاصل کرنے کی طرف سکیں۔ کیا آپ یونیورسٹیوں میں پنجاب سٹیڈیز کے نام سے شعبہ جات نہیں بناسکتے؟ کیا آپ تاریخ ' سماجیات’ سیاسیات اور جغرافیہ کے شعبہ جات میں ایم فل’ ایم اے اور پی ایچ ڈی کے لیے پنجاب کی تاریخ و ثقافت کے حوالہ سے مقالے تجویز نہیں کر سکتے؟
آجا کر ہمیں 1857 جیسے واقعات ہی یاد رہتے ہیں جنھیں 1948 کے بعد بھارتی قوم پرستی کا جزو لاینفک بنالیا گیا حالانکہ خود نہرو اس کے حق میں نہیں تھے۔ ہندو بنیاد پرست ساور کر وہ پہلا شخص تھا جس نے 1857 کو جنگ آزادی کہا تھا اور حوالہ اس کا ہندو قوم پرستی تھی۔ انگریز اگر 29 مارچ کو یاد نہیں رکھنا چاہتے تھے وہ تو سمجھ آتا ہے مگر ہم آخر کیوں تاحال انگریزی پالیسیوں کے اسیر ہیں؟
ہم اپنے بچوں کو بابا فرید’ بابا نانک’ مادھو لال حسین’ بابابلھے شاہ’ وارث شاہ’ بابافرید’ میاں محمد بخش کے متعلق نہیں بتانا چاہتے۔ ان باکمال بزرگوں کے لازوال کلام کو نصاب کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔ انگریزی کی 8 ویں کی کتاب میں میلہ چراغاں پر سبق شامل ہوتا تھا مگر اب وہ بھی نکال دیا گیا ہے۔
حسن نظامی کی پنجابیوں کے خلاف لکھی تحریروں کو تو نصابی کتب میں ہشیاری سے شامل کیا جاتا ہے مگر امرتا پریتم کی ’’اج آکھاں وارث شاہ نوں۔۔۔ کھتے قبراں وچوں بول‘‘ کو نصابی کتابوں میں شامل کرنا گناہ عظیم ہے۔ ایک زمانہ میں تیسری سے 8 ویں جماعت تک ہر ضلع کی الگ الگ کتب چھپتی تھیں جو کسی حد تک طالب علم کا اپنی دھرتی سے تعلق جوڑتی تھیں۔ مگر اب ان کتب کو چھاپنا بھی بند کر دیا گیا ہے۔
اگر ہمارے بچوں کو یہی معلوم نہ ہو گا کہ انگریزوں کے قبضہ سے قبل پنجابی و سیب کیا تھا تو وہ احساس کمتری کا شکار رہیں گے۔ بس سات دہائیوں سے اس احساس محرومی کو بڑھاوا دیا جاتا رہا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ بس اس لیے 29 مارچ کے دن کو یاد رکھنا ہم سب پر لازم ہے۔

(لکھاری : عامر ریاض تو تو)

02/09/2023

‏اگر آپ نے،
کپڑے کا بستہ استعمال کیا ہوا ھے،
لکڑی کےلٹو ڈور سے چلائے ہوں
بنٹے کھیلے ہوئے ہیں،
سائیکل کے ٹائر کو چھڑی کے ساتھ گلیوں میں گھمایا ہوا ھے،
شب برات پر مصالحہ لگی "چچڑ" سمینٹ والی دیوار سے رگڑی ہوئی ھے،
دو پیسے کا ٹکہ دیکھا ہو
استاد سے سلیٹ اور سلیٹی پر سوال حل کیے ہوں،
ریاضي کا مسئلہ اثباتی حل کیا ہوا ھے،
عاد اعظم نکا لے ہوئے ہیں،
پٹھو گرم کھیلے ہوئے ہیں،
سکول کی آدھی چھٹی کا لطف اٹھایا ہوا ھے،
تختی کو گاچی لگائی ہوئی ھے،
گھر سے مکئی کی چھلیاں دانے نکال بھنائے ہوں
سکول کی چھٹیوں میں بیل چراۓ ہوں
غلے میں پیسے جمع کیے ہوئے ہیں،
سہ پہر چار بجے اٹھ کر کتاب کہانیاں پڑھی ہوں
میلے میں کبڈی اور بیلوں کی دوڑ دیکھی ہو
گراموفون اور ریکارڈ استعمال کئیے ہوں
اپنے ریڈیو کو لکڑی کے باکس میں تالا لگا کر بند کیا ہوا ھے،
میلے میں تین دن تک سائیکل چلتی دیکھی ھے،
صرف عید میں میلے کی سرکس اور جھولے میں بیٹھے ہوں
بارات میں پیسے لوٹے ہوئے ہوں،
کسی دشمن کی دیوار پر کوئلے سے بھڑاس نکا لی ہو،
پانی کے ٹب میں موم بتی والی کشتی چلائی ہو،
سرکاری ہسپتال سے اپنی ذاتی بوتل میں کھانسی والی دوائی بھروائی ہو،
سردیوں میں رضائی میں گھس کر پریوں کی کہانیاں سنی ہوں،
سرکٹے انسان کی افواہیں سنی ہوں،
کھڑکھڑاتے ریڈیو پر سیلاب کی تازہ صورتحال ستی ہو،
رسی لپیٹ کر لاٹو چلایا ہو،
سمیع اللہ کو ہاکی کے میدان میں ریڈیو کے نشریاتی رابطے پر فتح سے ہمکنار ہوتے ہوۓ کمنٹری سنی ہو،
گھر کے مٹی کا لیپ والے چھت پر چارپائی ڈال کر سویا ہو ،،
گرمیوں میں چھت پر چھڑکاؤ کیا ہو،
جون جولائی کی تپتی دوپہر میں گلی ڈنڈا کھیلا ہو،
پھولوں کی کڑھائی والے تکیے پر سنہرے خواب دیکھے ہوں ،
گھر کے کسی کونے میں خوش آمدید لکھا ھے،
ریڈیو پر غلاف چڑھایا ھے،
لالٹین میں مٹی کا تیل بھروایا ھے،
لڈو کھیلتے ہوئے انتہائی خطرناک موقع پر تین دفعہ چھ آیا ھے،
ڈھیلی تیلیوں والی ماچس استعمال کی ھے،
تختی کے لیے بازار سے قلم خرید کر اسکی نوک بلیڈ سے کاٹ کر درمیاں میں ایک کٹ لگایا ھے،
خوشخطی کے لیے مارکر کی نب کاٹی ھے،
ہولڈر استعمال کیا ھے،
زیڈ اور جی کی نب خریدی ھے،
فلاوری انگلش لکھی ھے،
گھی کے خالی "پیپے" اور رسی سے کنویں سے بالٹیاں بھری ہوں
سر پر تیل جویں مارنے کے لئے کڑوا تیل لگایا ہو۔
سرما لگا کر ہیرو لگنے کی کوشش کی ھے،
غلیل استعمال کی ھو،
پرندوں کے گھونسلے کی تلاشی لی ہو
ٹچ بٹن والی شرٹ پہنی ھے،
اپنے گھر میں بیری والے درخت پر چڑھ کر بیر تڑےہوں
آگ جلا کر چھلیاں بھونی ہوں،
بالٹی میں آم ٹھنڈے کر کے کھائے ہیں،
رف کاپی استعمال کی ھے،
کھلی لائنوں والا دستہ خرید کر اس پر اخبار چڑھایا ھے،
گندھے ہوئے آٹے کی چڑی بنائی ھے،
الارم والی گھڑی کے خواب دیکھے ہیں،
بلی مارکہ اگر بتی خریدی ھے ،
مرونڈے کی لذت سے سرشار ہوئے ہیں،
سائیکل کی قینچی چلائي ھے،
والد صاحب کی ٹانگیں دبائی ہیں،
سردیوں میں ماں کے ہاتھ کا بنا سویٹر پہنا ھے،
امتحانوں کی راتوں میں " گیس پیپرز" کا استعمال کیا ہو
قائد اعظم کے چودہ نکات چھت پر ٹہل ٹہل کر یاد کیے ہیں ،
چلوسک ملوسک، عمرو عیار، چھن چھنگلو، کالا گلاب اور عنبر ناگ ماریا کی کہانیاں پڑھی ہیں،
فرہاد علی تیمور سے متاثر ہو کر موم بتی کو گھور گھور کر ٹیلی پیتھی حاصل کرنے کی کوشش کی ھے،
کاغذ کے اوپر کیل اور لوہ چون رکھ کر نیچے مقناطیس گھمانے کا مزا لیا ھے،
محلے کے لڑکوں کے ساتھ مل کر گڈے لوٹے ہوں
صبح سویرے لسی اور مکئی کی روٹی مکھن ڈال کر کھائی ہو۔
برفی کا سب سے بڑا ٹکڑا باوجود گھورتی نظروں کے اٹھانے کی جسارت کی ھے،
لاٹری میں کنگھی نکلی ھے،
رات کو آسمان کے تارے گنے ہیں،
سائیکل پر نئی گھنٹی لگوائی ھے،
زکام کی صورت میں آستینوں سے ناک پونچھی ھے،
ڈیموں(بھڑ) کو دھاگا باندھ کر اڑایا ہوا ھے،
شہد کی مکھیوں کے چھتے میں پتھر مارا ہوا ھے،
مالٹے کے چھلکے دبا کر اس سے دوستوں کی آنکھوں پر حملہ کیا ہوا ھے،
اور صبح سویرے لسی رڑکنے کی آواز سنی ھے تو ' اسکا ایک ہی مطلب ھے کہ اب آپ بوڑھے ہو رھے ہیں۔
کیونکہ یہ ساری چیزیں اسوقت کی ہیں جب زندگیوں میں عجیب طرح کا سکوں ہوا کرتا تھا لوگ ہنسنے اور رونے کی لذت سے آشنا تھے لڑائی کبھی جنگ کا روپ نہيں دھارتی تھی۔ رشتے اور تعلقات جھوٹی انا کے مقابل طاقتور تھے تب غریب کوئی بھی نہیں ہوتا تھا کیونکہ سب ہی غریب تھے۔ جب نہ کسی کے پاس موبائل تھا نہ کوئی اپنی لوکیشن شیئر کر سکتا تھا لیکن سب رابطے میں ہوتے تھے سب کو پتا ہوتا تھا کہ اس وقت کون کہاں ھے کیونکہ سب کا نیٹ ورک ایک ہوتا تھا

02/09/2023

1504 varieties tomatoes at the Brussels festival!
❤️🍅

02/09/2023

‏*ہماری زندگیوں کو چیزوں کی کثرت کھا گئی ہے۔*

کسی دور میں دس یا بارہ گانوں والا ایک کیسٹ ہوتا تھا۔ کوئی بہت شوقین ہوتا تو اپنی پسند کی لسٹ دے کر گانے بھرواتا۔ سب گانے بہت مزے سے سنتے تھے اب ہزاروں گانے ہوتے ہیں USB میں اور کوئی پسند نہیں آتا۔

دو تین دوست ہوتے تھے جن سے ہر خوشی غم سانجھا ہوتا تھا۔ جب ضرورت ہو آ موجود ہوتے۔ اب سوشل میڈیا پر ہزاروں اور کانٹیکٹ لسٹ میں سینکڑوں لوگ ہیں مگر بےکار۔

یاد پڑتا ہے کہ گھروں میں بمشکل ایک سائیکل ہوتی تھی اسی پر گھر کی ساری شاپنگ بھی ہوتی تھی، سکول ٹیوشنز اور دوستوں سے ملنا بھی۔ یہ سب کر کے بھی فراغت کا وقت بچ جاتا تھا۔ اب گاڑیاں اور بائیکس کھڑی ہوتی ہیں مگر ان پر کام ختم نہیں ہوتے، بھاگ دوڑ میں ایسے دن گزر جاتا ہے پتہ بھی نہیں چلتا۔
اور اس سے بھی مزے کی بات اس ایک سائیکل کو بھی روز پنکچر لگتا یا ٹائر میں سپرنگ والے ہینڈ پمپ ہوا بھرنی پڑتی تھی۔ کبھی اس کے کُتے فیل ہو جاتے، توکبھی ہینڈل "وِنگا" (ٹیڑھا) ہو جاتا، کبھی چین اتر جاتی تو کبھی بریک فیل۔ ان سب مشکلات کے باوجود کبھی کام نپٹانے میں مشکل نہیں پڑتی تھی۔

پورے ہفتے میں سنڈے کو پکچر لگتی تھی اور بدھ کو چترہار۔ اسی کے چکر میں اینٹینے ہلا ہلا کر باولے ہوئے رہتے تھے۔ سارے گھر میں ایک ٹی وی ہوتا وہ بھی ناب یا بٹنوں والا، اور سارے دن میں صرف ایک ڈرامہ لگتا تھا رات آٹھ بجے۔۔سب مل کر دیکھتے۔ اب کیبل پر سینکڑوں چینل ہزاروں ڈرامے مگر کسی پر دل نہیں ٹھہرتا۔

پیسے جمع کر کے لائبریری سے کرائے پہ رسالے لائے جاتے اور ایک ہی دن میں پورا ختم کر دیتے۔ گھر میں بچوں بڑوں ہر کسی کی بیڈ سائیڈ پر ناول، رسالہ یا کوئی کتاب ضرور ہوتی جو وہ رات کو پڑھ کر سوتے۔

پیسے ڈال کر وی سی آر منگوایا جاتا، فلموں کی لسٹ بنتی اور گروپ کی شکل میں بیٹھ کر فلمیں دیکھی جاتیں۔ اب تو موبائل پر جب چاہیں فلم دیکھ لیں مگر وہ مزہ اور طلب ختم ہوگئی۔

مجھے یاد پڑھتا ہے گرمیوں میں سر شام صحن میں چھڑکاو کر کے چارپائیاں ڈل جاتیں۔ سونے سے پہلے سارے دن کی رپورٹیں ایکسچینج ہوتیں۔ ایک پیڈسٹل فین ہوتا تھا اور لائن میں پانچ سے چھ چارپائیاں ہوتی تھیں۔ دور کی چارپائی تک ہوا مشکل سے ہی پہنچتی۔ اب ہر کمرے میں اے سی ہے مگر نیند غائب۔

وقت کیساتھ ضرورتیں بھی بدل گئیں اور خلوص بھی۔ *جب چیزیں تھوڑی تھیں تب قدر تھی اب ہر چیز کی بہتات ہے پر نا قدری۔* بس ہماری زندگیوں کو چیزوں کی کثرت کھا گئی۔

منقول

01/09/2023

Even the Sockets Are Happy in Denmark
😂😁🤣

30/08/2023

illusion 📽️

30/08/2023

صبر اور شکر
بحیثیت ڈاکٹر ہم روز بیشمار مریضوں سے ملتے ہیں لیکن کچھ لوگ اپنا نقش چھوڑ جاتے ہیں، ہمیں سبق دے جاتے ہیں، سوچ کے نئے زاویے دکھاتے ہیں۔آج میں انہی میں سے چند کا ذکر کروں گی جنہیں میں بھلا نہیں پائی!

مقام نشتر ہسپتال ملتان ایمرجینسی ۔ میڈیکل وارڈ سے مریضہ الٹراساؤنڈ کے لئے لائی گئی ۔میں نے دیکھا کہ اسکا دل غیر معمولی بڑھا ہوا تھا اور دل کی دھڑکنیں بے ترتیب تھیں ، میرے دیکھتے دیکھتے اس کا دل جیسے کانپا اور رک گیا، میرے ہاتھ سے آلہ گر گیا اور میں نے گھبرا کر اس کے سینے پر دباؤ ڈالا اور CPR شروع کردیا ، بس کر دو ، باجی! اللہ کی رضا میں راضی ہو جاؤ۔ اس کی بیٹی نے مجھے روک لیا اور میں صدمے میں اسے دیکھتی ہی رہ گئی۔ ماں کی آنکھیں بند کرتے ہوۓ وہ بڑبڑائی ، اے نفسِ مطمعنہ! پلٹ اپنے رب کی طرف ، وہ تجھ سے راضی ، تو اس سے راضی ۔ میں لرز گئی، آہ ! ہر حال میں سرِ تسلیم خم کرنے والے !!

مقام القسیم الرس جنرل ہسپتال ۔ یہ سعودی مریضہ ذیابیطس کے ساتھ امید سے تھی،متعدد بار چیک آپ کرا چکی تھی ، پورے دنوں سے آئی ، دیکھا تو جنین کے دل کی دھڑکن نہیں ملی ، میں نے بار بار دیکھا پر بے سود ، گھبرا کر میں نے کہا کہ بچے کی نبض نہیں ہے۔ وہ بولی ،انا للّٰہ و انا الیہ راجعون ۔میری جان ! اللہ ہمیں جنت میں پھر اکھٹا کرے گا ، دکتورہ ! قل الحمد للّٰہ ۔ میں اس صبر کے پیکر کو دیکھتی رہ گئی۔

مقام ریاض جریر میڈیکل سینٹر ۔ دس سالہ فلسطینی بچی اپنے ہاتھ کے ایکسرے کی رپورٹ لینے آئی ، باپ کچھ فاصلے پر نظریں جھکاۓ کھڑا تھا ، میں نے دیکھا بچی کی انگلی سوجی ہوئی تھی ، رپورٹ دیتے ہوۓ میں نے کہا کہ انگلی فریکچر ہے، بے ساختہ اسُ نے کہا الحمد للّٰہ ۔ مجھے لگا کہ وہ میری بات نہیں سمجھی ، سو دہرایا کہ ہڈی ٹوٹ گئی ہے ، وہ مسکرائی اور کہا الحمد للّٰہ میرے پاس شکر کرنے کی ہزار وجوہات ہیں تو شکر کیوں نہ کروں ؟ میں اس شاکرہ بچی کے آگے بہت چھوٹی پڑ گئی!!

میں سوچتی تھی کہ مشکل میں صبر کرنے والے کا مقام اعلی ہے ، بعد میں اندازہ ہوا کہ صبر کے مقام پر شکر کرنے والے، رب کے اذن پر راضی ہونے والے اعلیٰ تر مقام پر فائز ہیں۔ درویش کا کوئی خاص حلیہ نہیں ہوتا ، بس وہ رب کی عنایات کو یاد رکھتے ہیں۔

اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟

وجیہہ خان

28/08/2023

Nice !!!

27/08/2023

‏ *پاکستان* دنیا کا *واحدملک* ہے جو *قدرتی آفات* سے نہیں *سرکاری آفات* سے *تباہ* ہو رہا ہے

26/08/2023

Ed Sheeran cat 😻😹

25/08/2023

چندریان مشن، انڈیا کی غربت اور ہم
تحریر: ثاقب علی
یہ وہ سوال ہے جو ہر وہ شخص کرتا ہے جب وہ انڈیا کے چندریان مشن یا کسی بھی خلائی ایجنسی کے کسی کارنامے کا سنتا ہے۔ کیوں نہ یہ پیسے غریب عوام پر لگائے جائیں۔ سوال تو بنتا ہے کہ کیوں یہ پیسے ضائع کیے جارہے ہیں۔ چلیں اس کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پہلی بات یہ کہ کسی بھی ملک میں اگر غربت ہے تو کیا وہاں پر سائنس و ٹیکنالوجی میں ریسرچ بند کر کے وہ پیسا غریبوں میں بانٹ دیا جائے ؟
اب اسی سوال کا جواب بھارتی ایجنسی کے بجٹ اور اس کے چندریان 3 مشن کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ISRO کا 2023 کا بجٹ تقریباً 1.5 ارب ڈالر ہے اور اس چندریان مشن کی لاگت 7.5 کروڑ ڈالر۔ اب آبادی میں 30 فی صد غریب بھی ہوں تو یہ پیسہ تقسیم کریں تو ہر بندے کو تقریباً 3 ڈالر ملیں گے سال کے۔ اور چندریان کی لاگت تقسیم کریں تو 15 سے 20 روپے فی بندے کو ملیں گے۔
اب اس کا بزنس پہلو دیکھیں، انڈیا میں براہ راست 50 ہزار لوگ خلائی ایجنسی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور 500 کے قریب ایسی چھوٹی صنعتیں ہیں جو سپیس ایجنسی کی Product supplier ہیں۔ اب ان سب لوگوں کو بلواسطہ اور بلاواسطہ دیکھیں تو لاکھوں لوگوں کا کاروبار اس سے جڑا ہے اور یہ بڑھ رہا ہے۔ مطلب 1.5 ارب ڈالر کا بجٹ جسے اتنے لوگوں کو کاروبار مل رہا ہے اور اس انڈسٹری سے حکومت کو بھی واپس ٹیکس کی صورت میں پیسہ ملتا ہے۔ سپیس انڈسٹری انڈیا کی جی ڈی پی میں 7 ارب ڈالر تک شامل کرتی ہے۔
سب سے بڑھ کر انڈیا کی نوجوان نسل میں سائنس و ٹیکنالوجی، خلائی تحقیق میں آگے بڑھنے کا ولولہ پیدا ہوتا ہے، ان کو اپنا مستقبل روشن نظر آتا ہے بیرون ملک ان کی ڈیمانڈ بڑھتی ہے۔
انڈیا اپنے لانچ سسٹم استعمال کرکے اب تک36 ممالک کے 300 سے زیادہ کمرشل سیٹلائٹ لانچ کر چکا ہے جس سے وہ کمائی کرتا ہے اور اب چندریان کے بعد اس میں اضافہ نہیں ہوگا؟
باقی بات Poverty Alleviation کی تو انڈیا 2010 سے 2021 تک اتنے لوگوں کو غربت کی لکیر سے اوپر اٹھا چکا ہے جتنے ہمارے ملک کی آبادی بھی نہیں۔ World Bank کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا اپنی Extreme Poverty کو 2010 میں 22.5 فی صد سے 2019 میں 10.3 فی صد پر لایا ہے۔ United Nations Development Program کی رپورٹ کے مطابق انڈیا 2005-6 سے 2015-16 تک 27 کروڑ لوگوں کو غربت کی لائن سے اوپر اٹھا چکا ہے یعنی ہمارے ملک کی ٹوٹل آبادی سے زیادہ۔
دنیا کی بڑی بڑی صنعتیں ان کے ملک میں اپنا پلانٹ لگانا چاہتی ہیں اور لگا رہی ہیں۔ اعتراض کرنا بہت آسان ہے لیکن کچھ کرکے دکھانا بہت مشکل۔ ہم سب کو سوچنا ہے کہ کیا معاشرتی، نفسیاتی مسائل ہیں ہمارے اندر، ہم کیوں ہر وقت سازشی نظریات کو پھیلاتے ہیں، کسی کی کامیابی پر خوش کیوں نہیں ہوتے، سچ کیوں نہیں جاننا چاہتے، خود آگے کیوں بڑھنا نہیں چاہتے؟
آخری بات یہ کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے، ہماری یونیورسٹیاں صرف ملازم پیدا کر رہی ہیں سائنسدان نہیں۔ گریجویٹ سٹوڈنٹ کی اکثریت اپنا فائنل پروجیکٹ جب باہر ایک ان پڑھ شخص سے بنوائیں گے اور پھر ڈگری اٹھا کر ملازمت کی تلاش میں پھریں گے تو اس سے ملک کو فائدہ نہیں ہوگا۔ Emerging Technologies کیوں نہیں سیکھتے۔سپیس نہ سہی انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ہی کچھ کرلیں۔ اگر 50 فیصد سے زیادہ نوجوان نسل والے ملک میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں ہم سال کے 10 ارب ڈالر بھی نہیں کما سکتے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟ صرف باتیں۔
#پاکستان

24/08/2023

صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے 12 نومبر 2023 کو پاکستان میں جنرل الیکشن کی تاریخ دے دی

Want your business to be the top-listed Business in Shah Faisalabad?
Click here to claim your Sponsored Listing.

Telephone

Website

Address

Faisalabad Road Samundri
Shah Faisalabad
37700

Opening Hours

Monday 08:00 - 18:00
Tuesday 08:00 - 18:00
Wednesday 08:00 - 18:00
Thursday 08:00 - 18:00
Saturday 08:00 - 18:00
Sunday 08:00 - 18:00

Other Business Services in Shah Faisalabad (show all)
Flirt Is Better Then Love  ノ Flirt Is Better Then Love ノ
Gulburg
Shah Faisalabad, FAISALABAD

Help us grow, share our page with your friends! Your creative and funny ideas are always welcome by us so please do share if you have any.

ElectroWorld Traders ElectroWorld Traders
Shah Faisalabad, 38000

Moosa Jani Electricians Moosa Jani Electricians
Crown Road, Street#15, Al-Noor Garden
Shah Faisalabad, 38000

Want To Sell My Services Online

Moosa Jani Carpainter Moosa Jani Carpainter
Street#15' All Noor Gardan Faislabad
Shah Faisalabad, 38000

A carpenter is a person who works with wood. They can make cabinets, build houses, or do other things with wood. Carpenters usually make very good foremen (people who watch over a...

Hiring Mentor Hiring Mentor
Shah Faisalabad, 38000

Moosa Jani Carpenters Moosa Jani Carpenters
Crown Road, Street#15, Al-Noor Garden
Shah Faisalabad, 38000

Want To Sell My Services Online

REX City Web-tv REX City Web-tv
Satiana Road Faisalabad
Shah Faisalabad

Rex City Union (official page) United we stand divided we fall...

Seiko Steel Seiko Steel
Shah Faisalabad, 38000

With over 30 years of experience in the steel works, we provide services and products for the domestic and industrial markets. We provide tailor-made industrial and domestic steel ...

Rehman mobile and reparing Rehman mobile and reparing
Sargodha Road Nalka Stop Sitara Supreme City Road Shalimar Chowk Fsd
Shah Faisalabad

Mera Name Amna Tera Name Kia hay Mera Name Amna Tera Name Kia hay
Faisalabad
Shah Faisalabad, 37200

Love story

Shafiq Ullah Shafiq Ullah
Wapdacity
Shah Faisalabad

Farooq and co Farooq and co
Shah Faisalabad, 1110

shoes on the sale