The stories of Awliya تذکرۃ الاولیاء
تذکرۃ الاولیاء پر آپ اولیاء، صوفیاء و صالحین کے واقعات، کتب کے حوالہ جات کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں
·•سیدِ ہجویر•·
آخری حصہ: چلے جاؤ! تمہیں دینے کیلئے میرے پاس کچھ نہیں!
سید علی نے اپنی مسجد میں طالب علموں کو علومِ معرفت سے فیضیاب کرنے کیلئے ایک مدرسہ کھولا۔ سید علی اپنے طالب علموں کو بغیر کسی معاوضہ کے پڑھاتے۔ سید علی کا حسنِ ظن تھا کہ طالب علم بھی معرفت کا پیکر بنیں اور معاشرے میں نورِ علم و ادب پھیلائیں۔
سید علی کی حسنِ نیت تھی کہ آپ طالب علموں کو بڑے شوق سے تعلیم دے رہے تھے۔ ایک دن سید علی نے سوچا کہ کیونکہ ان طالب علموں کا باطن دیکھا جائے کہ واقعی یہ لوگ معرفت حاصل کرنے کے قابل ہیں یا نہیں۔ سید علی اپنے مدرسہ میں داخل ہوئے تو انہیں یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ ہر ایک طالب علم کے دل میں دنیا کی طلب موجود ہے۔ ہر کوئی یہ گمان کررہا تھا کہ یہاں سے علم حاصل کرکے ہم بڑے بڑے عہدوں پر فائز کیے جائیں گے۔
سید علی نے طالب علموں کو بہت سمجھایا کہ اپنی راہ میں مخلص ہو جاو اور دنیا کی طلب دل سے نکال دو لیکن طالب علم لگاتار عہدوں کی طلب میں غرق تھے۔ بالآخر سید علی نے ایک دن غمگین ہوکر ان دنیا پرست طالب علموں سے کہا کہ تم جس چیز کیلیے میرے پاس آئے ہو، وہ میں تمہیں نہیں دے سکتا۔ جاؤ اپنے گھروں کو واپس چلے جاو۔ تاریخ میں ایسا کہیں نہیں ملتا کہ کسی ایک شاگرد نے بھی اپنے استاد سید علی کا دکھ سمجھا ہو۔ جیسے ہی سید علی نے مدرسہ بند کیا، تمام طالب علم اپنے گھروں کو واپس لوٹ گئے۔
سید علی مدرسہ بند کرنے کے بعد بھی تبلیغ سے دور نہ ہوئے۔ دن میں بہت سے لوگ آپ سے مختلف قسم کے سوال کرتے۔ فقہی، معاشرتی، معاشی، سماجی اور روحانی۔ سید علی ہر ایک کا جواب عطا فرماتے۔ اگر کوئی آپ کے پاس مرید ہونے کیلئے آتا تو پہلے اسے ایک واقعہ سناتے۔ وہ واقعہ یہ ہے:
ایک دن میں (سید علی) اپنے ایک مسئلہ کے حل کیلئے بہت پریشان تھا۔ بہت استخارہ کیا اور وظائف کیے لیکن وہ مسئلہ حل نہ ہوا۔ پھر میں کافی دن ابویزید بسطامی کے مزار مبارک پر چلہ کش رہا لیکن وہاں سے بھی مسئلہ کا حل نہ ملا۔ واپسی پر راستہ میں خراسان جاتے ہوئے "کش" نام کا ایک گاؤں آیا۔ میں وہاں صوفیوں کے ایک گروہ کے پاس گیا جنہوں نے بڑے عمدہ لباس پہنے تھے جبکہ میں ایک پرانی گدڑی میں ملبوس تھا۔ مجھے دیکھ کر ایک صوفی نے دوسرے صوفیوں سے کہا کہ یہ شخص (سید علی) ہم میں سے نہیں ہے۔ یہ کہہ کر انہوں نے میرا مذاق اڑایا۔ پھر رات کے وقت وہ بالاخانے پر چلے گئے اور مجھے نیچے ہی رہنے دیا۔ مجھے انہوں نے ایک سوکھی روٹی لاکر دی جو سبز ہوچکی تھی جسے میں نے کھا لیا جبکہ وہ ظاہری صوفی خود عمدہ عمدہ کھانے کھاتے رہے۔ پھر وہ خربوزے کھاتے رہے اور چھلکے میری طرف نیچے پھینکتے رہے۔ میں اس تذلیل پر بھی خوش ہوتا رہا اور میرا وہ مسلئہ حل ہوگیا جس کیلئے میں نے ابویزید بسطامی کے مزار پر چلہ کیا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ انبیاء کرام کے ساتھ جاہل لوگ رہا کرتے تھے اور انبیاء و اولیاء ان کے اعمال سے سبق حاصل کرتے تھے۔
یہ واقعہ سنانے کے بعد سید علی آنے والے سے پوچھتے کہ کیا ایسی صورتحال برداشت کرو گے؟ اگر وہ ہاں کہتا تو اسے اپنا مرید بنالیتے۔ اگر وہ تردد کا شکار ہوتا تو اسے یہ کہتے کہ قرآن و سنت پر عمل کرتے رہو اور کسی کا دل نہ دُکھاو۔ یہ کہہ کر اسے واپس بھیج دیتے۔
سید علی کے وصال مبارک کے متعلق تاریخ میں کوئ واقعہ نہیں ملتا لیکن یہ ضرور لکھا ہے کہ آپ کا وصال 465 ہجری میں 65 سال کی عمر میں 20 صفر المظفر کو ہوا۔
سید علی کون تھے؟ آج دنیا انہیں گنج بخش کے نام سے جانتی ہے۔ لوگ آپ کو داتا بھی کہتے ہیں جبکہ اکثر لوگوں کو آپ کا اصل نام معلوم ہی نہیں۔ ہم نے یہاں بار بار آپ کا مبارک نام استعمال کیا تاکہ لوگوں کو اپنے مخدوم سید علی ہجویری قدس سرہ العزیز کا اصل نام مبارک یاد ہوجائے۔ کیونکہ نامِ علی پکارنا بھی عبادت ہے۔
سید علی ہجویری قدس سرہ العزیز کے وصال کے تقریباً 150 سال بعد مشہور بزرگ ہستی سید معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللّٰه علیہ نے اجمیر جانے سے پہلے لاہور آکر سید علی ہجویری کے قدموں میں چلہ کیا۔ جاتے وقت سید علی ہجویری نے خواجہ معین الدین چشتی کو فرمایا کہ: ہم ہندوستان کی حکومت آپ کے حوالے کرتے ہیں۔ اس وقت سید خواجہ معین الدین چشتی نے یہ اشعار کہے؛
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما
آج بھی آپ اپنے محبین کو گنج یعنی دولت بخشتے ہیں۔ وہ دولت علم کی صورت میں بھی ہوتی ہے، مال اور اولاد کی صورت میں بھی ہوتی ہے حتی کہ مدینہ طیبہ جانے کی منظوری بھی داتا گنج بخش ہمیں عطا کرتے ہیں۔ اللّٰه پاک نے آپ میں ایسی صلاحیت رکھی ہے کہ ظاہری وفات کے بعد بھی آپ اپنے غلاموں اور عقیدت مندوں کو نواز رہے ہیں
·•سیدِ ہجویر•·
حصہ پنجم: سید علی ایک جادوگر ہے!
سید علی کا لاہور میں قیام گاہ بن چکی تھی۔ مسلمان اکثر لاہور میں داخل ہوتے ہوئے پہلے سید علی کے پاس جاتے، سلام کرتے، کچھ دیر گفتگو کرتے اور پھر اپنے گھروں کو چلے جاتے۔ اکثر لوگ صبح کام پر جاتے ہوئے گزرتے گزرتے سید علی کے پاس سلام عرض کرکے جاتے۔
ایک دن ایک ہندو عورت اپنے سر پر دودھ کا برتن اٹھائے جارہی تھی کہ سید علی نے اسے بلوایا۔ فرمایا کہ یہ دودھ ہمیں دے، اللّٰه تیرے جانوروں میں برکت دے گا۔ اس عورت نے کہا کہ نہیں! یہ دودھ ہم نے رائے راجو (حاکمِ لاہور) کو دینا ہے۔ اگر نہ دیا تو ہمارے جانوروں میں سے دودھ کی بجائے خون نکلتا ہے۔ سید علی نے اس عورت کو مطمئن کیا کہ انشاء اللّٰه ایسا نہیں ہوگا، آزما کر دیکھ لو!
عورت سید علی سے متاثر ہوئی اور دودھ کا برتن رائے راجو کو دینے کی بجائے سید علی کو دے دیا۔ سید علی نے دودھ کی قیمت ادا کی اور عورت واپس آگئی۔ گھر آکر جب اس عورت نے دودھ دوہا تو جانوروں سے اتنا دودھ نکلا کہ اس عورت کے گھر کے سارے برتن بھر گئے لیکن دودھ ختم نہیں ہوا۔ سمجھ گئی کہ سید علی کی دعا کا نتیجہ ہے یہ۔
جب اس عورت کی اچانک بدلتی حالت کو اس کے علاقے کے دوسرے لوگوں نے دیکھا تو وہ سب بھی اپنا اپنا دودھ کا پیالہ لے کر سید علی کے پاس حاضر ہوگئے تاکہ سید علی ان کے حق میں بھی دعا کریں اور ان کے جانوروں میں بھی برکت آئے۔
سید علی ایک ایک شخص کا دودھ کا پیالہ تھوڑا تھوڑا پیتے اور اس شخص کو برکت کی دعا دیتے جاتے۔ جب یہ سلسلہ عام ہوا تو رائے راجو کو دودھ پہنچنا بند ہوگیا۔ رائے راجو نے یہ صورتحال دیکھی تو اپنے مشیر سے دودھ کی بندش کا سبب پوچھا تو مشیر نے بتایا کہ آج کل لاہور کی تمام گوالے سید علی نام کے ایک جوگی کو دودھ دیتے ہیں اور وہ ان کے جانوروں پر جادو کردیتا ہے تو وہ جانور زیادہ دودھ دینے لگتے ہیں۔ مشیر کی بات سن کر رائے راجو سمجھ گیا کہ سید علی ایک جادوگر ہے۔
رائے راجو بھڑکتا ہوا سید علی کی بارگاہ میں پہنچا اور کہنے لگا کہ سنا ہے کہ تم بہت بڑے جادوگر ہو اور لوگون کے جانوروں پر جادو کرتے ہو؟ سید علی نے بے نیازی سے جواب دیا کہ میں کوئی جادوگر نہیں ہوں بلکہ اللّٰه کا ایک عاجز بندہ ہوں۔ رائے راجو کو کہا سمجھ کہ عاجزی کیا ہے اور برکت کیا ہے! اس نے سید علی کو کہا کہ اب میرا جادو دیکھ! یہ کہہ کر جونہی رائے راجو نے اپنا ہاتھ بلند کیا تو اس کا پورا جسم یوں ہوگیا گویا پتھر سے بنا ہو۔ خود کو عاجز اور شکست خوردہ حالت میں دیکھ کر رائے راجو کا دل بدل گیا اور وہ سید علی کا غلام بن گیا۔ یہ غلام آج "شیخ ہندی" کے نام سے جانا جاتا ہے جس کی اولاد آج بھی سید علی کے دربار کی خدمت کرتی ہے۔
وہ واقعہ کیا تھا جب سید علی نے اپنی درسگاہ بند کردی تھی؟ "سیدِ ہجویر" کے عنوان کا آخری حصہ پڑھیے
♦خان آصف: اللّٰه کے ولی
·•سیدِ ہجویر•·
حصہ چہارم: سید علی کی مسجد پر علمائے لاہور کی تنقید
سید علی نے لاہور میں اپنے مستقل قیام کی خاطر لاہور شہر کے بھاٹی دروازے کے باہر چند قدم کے کچھ فاصلہ پر اپنی مسجد تعمیر کی۔ (یاد رہے کہ اس دور میں لاہور میں بادشاہی مسجد، وزیر خان مسجد، اور دیگر مساجد ابھی تعمیر نہیں ہوئی تھیں۔)
سید علی نے مسجد کی تعمیر کی تمام رقم خود ادا کی۔ شہر کے دیگر مسلمان بھی اس نوجوان سید علی کے ساتھ مسجد بنانے میں مصروف ہوگئے۔ کچھ لوگوں نے سید علی سے پوچھا کہ لاہور میں تو اور بھی مساجد ہیں، نئی مسجد کی کیا ضرورت؟ سید علی نے مسکرا کر جواب دیا کہ مسجدیں تو بہت ہوں گی لیکن اس مسجد کو اللّٰه کا ایک مزدور بنارہا ہے۔ پوچھنے والوں کو اس جملے کی سمجھ نہ آئی لیکن وہ مسجد تعمیر کرنے میں سید علی کے ساتھ مسجد بنانے میں ہاتھ بٹاتے رہے۔
سید علی کی مسجد تعمیر ہوچکی تھی۔ کچھ دنوں بعد علمائے لاہور نے ایک ہنگامہ کھڑا کردیا کہ سید علی کی تعمیر کی گئی مسجد کا رخ قبلہ کی طرف نہیں ہے۔ سید علی نے جب علمائے لاہور کی یہ بے بنیاد بات سنی تو علمائے لاہور کو اپنے ہاں دعوت دے دی۔ تمام علمائے لاہور سید علی کے گھر آگئے۔ سب نے کھانا کھایا۔ جب کھانا کھاچکے تو سید علی نے سب کو نماز کیلئے اکٹھا ہونے کا کہا۔ سب علمائے لاہور صف بناکر کھڑے ہوگئے۔ پھر سید علی آگے بڑھے اور امامت کیلئے جیسے ہی اللّٰه اکبر کی آواز بلند کی تو صف میں موجود تمام لوگوں بشمول علمائے لاہور نے اپنے سامنے کعبہ دیکھ لیا۔
یہ سید علی کی کرامت تھی۔ جب علمائے لاہور نے سید علی کی امامت میں نماز کے وقت کعبہ کو اپنے سامنے دیکھا تو سب سمجھ گئے کہ سید علی کی مسجد کا رخ بالکل درست ہے۔(یہ مقام آج بھی داتا دربار میں خواجہ معین الدین چشتی کے ہجرے سے مغرب کی جانب واقع ہے)
سید علی نے کچھ عرصہ بعد اپنی مسجد میں ایک جامعہ بھی کھولا اور طلباء کو بغیر کسی معاوضہ کے دینی تعلیم اور روحانی تربیت فراہم کرتے لیکن پھر سید علی کو اپنا جامعہ بند کرنا پڑا۔ کیا وجہ تھی؟
(واقعہ اگلے حصے میں)
♦خان آصف: اللّٰه کے ولی
·•سیدِ ہجویر•·
حصہ سوم: علی! تمہیں لاہور جانا ہوگا!
سید علی اپنی عمر کے 20سال گزار چکے تھے۔ سیر و سیاحت بھی خوب کی اور پھر واپس غزنی تشریف لائے۔ ایک دن اپنے مرشد کے پاس حاضر ہوئے اور شیخ ابو الفضل ختلی نے فرمایا کہ علی! اب تم نے سلوک کی منزلیں طے کرلی ہیں۔ سید علی نے عرض کیا کہ یہ سب مرشد کی دعا ہی کا اثر ہے۔
تمہیں اب لاہور جانا ہوگا! وہاں بہت سے لوگ بھٹک رہے ہیں، ان کو کسی معرفت گاہ کی تلاش ہے! تم وہاں جاکر پیاسے لوگوں کو معرفت کے مشروب سے سیراب کرو۔ سید علی کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور شیخ سے عرض کیا کہ حضور! میں ساری زندگی آپ کے قدموں میں گزارنا چاہتا ہوں اور آپ کی جدائی برداشت نہیں کرسکتا۔ شیخ ابولفضل الختلی نے تسلی دی اور فرمایا کہ میں بھی تو اپنے مرشد سے جدا ہوا ہوں! تمہیں بھی جدا ہونا پڑے گا۔ تم مجھ سے جدا ہوکر بھی میرے قریب ہوگے۔
لیکن شیخ! وہاں آپ کے مرید شاہ حسین زنجانی بھی تو موجود ہیں! ان کے ہوتے ہوئے بھلا لوگ کیسے میرے پاس آئیں گے؟ شیخ باطنی نگاہ سے حالات دیکھ چکے تھے اس لیے سید علی کو لاہور جانے کا کہہ رہے تھے۔
شیخ کے اصرار پر سید علی نے اپنا سامانِ سفر باندھا۔ میری نظر سے یہ بات نہیں گزری کہ سید علی نے غزنی سے نکلتے وقت کوئی سواری یا مال اپنے ساتھ لیا ہو۔ بہر حال سید علی کیلئے اپنا محبوب وطن چھوڑنا نہایت دلخراش لمحہ تھا۔ شیخ کے حکم کی تعمیل میں 500 سے کم و بیش کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے لاہور پہنچے۔ یہ سن تھا 421 ہجری۔ لاہور پہنچے تو شہر کے دروازے بند تھے اور رات ہوچکی تھی۔ اس لیے شہر سے باہر رہ کر اس نوجوان نے رات بسر کی۔
صبح جب شہرِ لاہور کے دروازے کھلے تو شہر میں داخل ہوئے۔ اچانک آپ کی نظر ایک جنازہ پر پڑی۔ سید علی نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کس کا جنازہ ہے تو لوگوں نے بتایا کہ یہ ہمارے محسن شاہ حسین زنجانی کا جنازہ ہے ہو گزشتہ رات وفات پاگئے تھے۔ ہاں! وہی رات جب سید علی، لاہور پہنچے۔ یہاں سید علی پہنچے، وہاں شاہ حسین زنجانی کا وصال ہوگیا۔
سید علی کو اپنے پیر بھائی کی وفات کا سن کر بہت دکھ ہوا اور آپ کو اس بات کا بھی دکھ رہا کہ کچھ وقت ایسا نہ ملا کہ میں اور شاہ حسین آپس میں کچھ دیر باتیں کرتے۔ سید علی، شاہ حسین زنجانی کو قبر میں اتارنے تک ساتھ ساتھ رہے اور جب قبر پر مٹی ڈال دی گئی تو دیر تک شاہ حسین زنجانی کی قبر کے پاس غمگین بیٹھے رہے۔ لوگ حیرانی میں دیکھ رہے تھے کہ آج شہر میں داخل ہونے والا یہ نوجوان کیوں شاہ حسین زنجانی کی قبر پر غمگین بیٹھا ہے؟ کیا واسطہ ہے اس نوجوان کا شاہ حسین زنجانی کے ساتھ؟ مستقبل نے لوگوں کو بتا دیا کہ شاہ حسین زنجانی اور یہ نوجوان ایک ہی چشمہ سے نکلنے والی دو نہریں ہیں۔
سید علی نے اپنا ڈیرا کہاں لگایا؟ مسجد بناتے وقت کون سا مسئلہ علمائے لاہور نے کھڑا کردیا تھا؟ 21 سالہ سید زادے سے کون سی کرامت ظاہر ہوئی تھی؟
(واقعہ اگلے حصے میں)
♦خان آصف: اللّٰه کے ولی
·•سید ہجویر•·
حصہ دوم: دنیا کی سیر اور روحانی مشاہدات
سید علی ہجویری نے اللّٰه کریم کے حکم کے مطابق دنیا کی سیر کرنے اور قدرت کا مشاہدہ کرنے اور روحانی فیوضات حاصل کرنے کیلئے دنیا کے بہت سے ممالک میں سیر کیلئے تشریف لے گئے۔ ملکِ شام، عراق بشمول بصرہ و بغداد، آذربائجان، اور دیگر ممالک میں تشریف لے گئے اور وہاں کے مشہور بزرگ سے فیض حاصل کیا اور ان کی صحبت میں رہے۔
اس دوران جب سید علی ہجویری ملکِ شام میں سیدنا بلال حبشی رضی اللّٰه عنہ کے مزار مبارک پر تشریف فرما تھے۔ وہاں آپ کو اونگھ آگئی تو خواب میں سید علی نے اپنے دادا جان اور نانا جان حضور ﷺ کو دیکھا اور حضور ﷺ کی گود میں ایک بزرگ تھا جسے حضور ﷺ نے بچے کی طرح گود میں اٹھا رکھا تھا۔ حضور ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ جانتے ہو یہ بزرگ کون ہے؟ سید علی نے عرض کیا نہیں یا رسول اللّٰه ﷺ! حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ تمہارا اور میری امت کا امام، ابو حنیفہ ہے۔
سید علی ہجویری نے دوران سفر کبھی نماز قضاء نہ ہونے دی۔ جب بھی جمعہ کا وقت قریب آتا تو کسی گاؤں یا شہر میں چلے جاتے تاکہ باجماعت نماز جمعہ ادا کرسکیں۔ یہ تھا نوجوان سید علی ہجویری کا ذوقِ نماز۔
سید علی ہجویری کسی ملک میں مقیم تھے کہ آپ کے پاس لوگ فقہی مسئلے اور فتاویٰ جات لے کر آتے تو سید علی ہجویری دین کی رو سے اس مسئلہ کو آسانی سے حل کردیتے۔ دیکھتے ہی دیکھتے علی ہجویری نے پردیس میں بھی اپنا علم منوایا۔
سید علی لاہور کیسے آئے؟ لاہور میں آپ سے پہلے کون سی ہستی آئی تھی جس کا جنازہ سید علی ہجویری نے لاہور داخل ہوتے وقت دیکھا اور نہایت پریشان ہوگئے؟
(اگلے حصے میں)
♦سیرت سیدِ ہجویر
♦اللّٰه کے ولی
·سیدِ ہجویر•·
حصہ اول: والدین، ولادت اور شیخِ طریقت
سیدنا امام حسن علیہ السلام کے صاحبزادے سیدنا امام حسین الاصغر کی اولاد سے ایک ولی کامل جن کا نام سید عثمان بن علی ہے، مدینہ منورہ سے افغانستان کے شہر غزنی تشریف لائے اور آباد ہوئے۔ غزنی کے دو علاقے ہیں؛ ایک جلاب اور دوسرا ہجویر۔
سید عثمان، جلاب میں رہتے تھے اور آپ کا نکاح ہجویر میں رہنے والے حُسینی سادات میں سے ایک خاتون کے ساتھ ہوا اور آپ کو ایک بیٹا نصیب ہوا جس کا نام آپ نے علی رکھا۔ چونکہ سید علی کی ولادت اپنے ننھیال علاقے ہجویر میں ہوئی تھی، اسی لیے سید علی، علی ہجویری کے نام سے مشہور ہوا۔
سید علی کی تاریخ پیدائش 1000 عیسوی اور 400 ہجری ہے۔ بعض جگہوں پر 1003 عیسوی بھی لکھی گئی ہے۔ سید علی کی ولادت سلطان محمود غزنوی کی حیات اور اسی کے شہر میں ہوئی۔
سید علی ہجویری اپنے بچپن میں ایک بزرگ کے پاس تشریف لے گئے تو اس بزرگ نے سید علی سے کہا کہ علی! ایک کتاب لکھ کر میرے پاس لاو۔ سید علی حیران ہوگئے کہ میں کم عمری میں کس طرح ایک کتاب لکھ سکتا ہوں لیکن بزرگ کا حکم ٹال نہیں سکتے تھے اس لیے اگلے دن ایک کتاب لکھ کر بزرگ کے پاس لے آئے۔ سید علی شرما رہے تھے کہ ناجانے میری کم عمری میں لکھی گئی یہ کتاب پڑھ کر بزرگ کیا فرمائیں گے۔ بزرگ نے اس کتاب کو پڑھا اور فرمایا کہ علی! تم ایک کتاب لکھو گے جس سے لوگ معرفت کا نور حاصل کریں گے۔
سید علی جب اپنی بچپن کی عمر سے نکلے تو والدین نے آپ کا نکاح کردیا جبکہ آپ کی نکاح کرنے کی بالکل خواہش نہ تھی لیکن والدین کے حکم کی پابندی کی۔ آپ خود فرماتے ہیں کہ ایک سال تک میں اسی وبال میں رہا۔ بالآخر اللّٰه نے میرے دل کی خواہش سن لی اور میری زوجہ کی وفات ہوگئی۔ وہ زوجہ کون تھیں؟ کہاں سے تھیں؟ اس بارے میں تاریخ خاموش ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ اس خاتون سے آپ کے صاحبزادے سید حسن کی ولادت ہوئی جو بچپن ہی میں وفات پاگئے تھے۔ کچھ عرصہ بعد والدین نے سید علی کی دوسری شادی کردی لیکن اس زوجہ کا بھی وصال ہوگیا۔ یوں آپ نے سنتِ نکاح بھی ادا کی اور پھر زندگی اللّٰه پاک کی بندگی میں گزاری۔
سید علی نے شیخ ابوالحسن ختلی رحمتہ اللّٰه علیہ کے دست اقدس پر بیعت کی جو سلسلہ جنیدیہ سے نسبت رکھتے تھے۔ اسی نسبت سے سید علی بھی خود کو سلسلہ جنید بغدادی کا مرید کہتے تھے۔ سید علی کا مسلک حنفی تھا۔ سید علی 7 واسطوں سے مولا علی کے صاحبزادے ہیں اور 7 ہی واسطوں سے سیدنا جنید بغدادی سے ہوتے ہوئے مولا علی کے مرید ہیں۔ یعنی سید علی کا نسب اور سلسلہ طریقت 7 واسطوں سے اپنے جد امجد سیدنا مولا علی علیہ السلام سے ملتا ہے۔
سید علی نے دنیا کے کس کس حصہ کی سیر کی؟
کس طرح سید علی، لاہور تشریف لائے؟
(اگلے حصے میں بیان کرتے ہیں)
♦خان آصف: اللّٰه کے ولی
♦سیرت سیدِ ہجویر
اگلا سلسلہ گفتگو انشاء اللّٰه
حضرت سید علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش
رحمۃ اللّٰه علیہ
·•قلندر نامه•·
آخری حصہ: شیخ عثمان مروَندی کی کرامت اور وصال
شیخ عثمان مروَندی کی عادت تھی کہ اپنا چہرہ جھکا کر چلتے تھے۔ جب بھی آپ کہیں بازار سے گزرتے تو ایک ہندو خاتون چھت پر آپ کے چہرے کی زیارت کی غرض سے بڑھ جاتی لیکن چونکہ آپ کا چہرہ جھکا رہتا، وہ آپ کا چہرہ نہ دیکھ سکی۔
ایک دن اس کی عقیدت نے جوش مارا۔ سید عثمان مروندی بازار سے گزر رہے تھے کہ اس عورت نے چھت سے بازار کی طرف چھلانگ مار دی۔ جب وہ زمین پر گری تو اس کا چہرہ آسمان کی طرف تھا۔ اس لیے اس عورت نے سید عثمان مروندی کی ایک جھلک دیکھ لی اور وہی اس کی موت واقع ہوگئی۔
اس عورت کے گھر والے جوکہ ہندو تھے، فورا اپنے گھر کی خاتون کی میت لینے کیلئے آگئے۔ میت پر کپڑا ڈال دیا گیا۔ گھر والوں نے شیخ عثمان مروَندی سے اجازت طلب کی کہ میر کو ہندوانہ طریقہ کے مطابق جلایا جائے۔ شیخ عثمان مروَندی نے فرمایا کہ خاتون آپ کے گھر کی فرد تھی اس لیے میری اجازت لینے کی ضرورت نہیں، آپ اسے لے جائیں۔
گھر والوں نے جب اس عورت کی میت اٹھانا چاہی تو اٹھائی نہ جا سکی۔ دوچار اور بندے بلوائے کیونکہ یوں لگ رہا تھا کہ میت زمین کے ساتھ چپک گئی ہے۔ جب کافی لوگوں سے عورت کی میت نہ اٹھائی گئی تو شیخ عثمان نے فرمایا کہ اس عورت کی قسمت میں جلنا نہیں ہے۔ خاندان والوں نے شیخ عثمان مروَندی سے پوچھا کہ پھر کیا کِیا جائے؟
شیخ عثمان مروَندی نے فرمایا کہ اس کی قسمت میں دفن ہونا لکھا ہے۔ چونکہ وہ عورت آپ کا چہرہ دیکھ کر کلمہ پڑھ چکی تھی اور وہ کلمہ سوائے شیخ عثمان مروَندی کے کسی اور نے نہیں سنا، اس لیے شیخ عثمان مروَندی نے اس عورت کو دفنانے کا حکم دیا۔
آج بھی سید عثمان مروندی کے عرس کے موقع پر اس خاتون کی قبر سے مہندی نکالی جاتی ہے جو سہون کے بازاروں سے ہوتی ہوئی دربار سید عثمان مروندی پر ختم ہوتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سید عثمان مروندی نے 100 سال عمر پائی۔ آخری 3 سالوں میں آپ پر مکمل جذب کی کیفیت طاری ہوگئی تھی۔ بالآخر 21 شعبان 673 ہجری کو آپ کا وصال ہوا اور آپ کے مبارک وجود نے سہون کو سہون شریف بنادیا۔
"جان لو کہ اللّٰه کے ولیوں کو نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں"
منم عثمان مروندی کہ یارِ خواجہ منصُورم
ملامت کرد ایں خلقے و من بردار می رقصم
(میں عثمان مروندی ہوں اور میرے دوست خواجہ منصور حلاج ہیں۔ دنیا مجھے ملامت کرتی ہے اور میں اس پر رقص کرتا ہوں)
﴿خان آصف: اللّٰه کے ولی﴾
·•قلندر نامه•·
حصہ ششم: قلندر کی فتح اور راجہ کی شکست
راجہ جیر جی مسلسل کوششیں کررہا تھا کہ سید عثمان مروندی کو سہون سے باہر نکالا جائے لیکن ہر مرتبہ کوشش ناکام رہتی۔ پھر کتے والا واقعہ دیکھ کر اور زیادہ پریشان ہوگیا اور سوچنے لگا کہ یہ طاقت کیسے کم کی جاسکتی ہے؟
آخر اس نے نجومیوں کو اپنے دربار میں بلوایا اور سید عثمان کی روحانی طاقت بند کرنے کا راستہ پوچھا تو نجومیوں نے کہا کہ اگر کسی مسلمان کے پیٹ میں حرام کھانا اتار دیا جائے تو اس کی طاقت ختم ہوسکتی ہے۔ راجہ کو یہ ترکیب اچھی لگی۔
اب راجہ اپنا آپ منوانے کیلئے سید عثمان کی بارگاہ میں اس طرح بن کر آتا گویا وہ سید عثمان کا بہت عقیدت مند ہے لیکن یہ اس کی ایک چال تھی۔ وہ اکثر تحفے اور مال بھیجتا رہتا۔ ایک دن اس نے ایک بڑے سے تھال میں اپنے ایک درباری کے ہاتھوں کھانا بھیجا۔ جب وہ درباری کھانا لے کر سید عثمان کے آپس آیا تو پہلے آپ کے مریدین نے اس سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ درباری نے کہا کہ آج راجہ نے آپ کیلئے کھانا بھیجا ہے۔
مرید یہ کھانا لے کر سید عثمان کے پاس گیا۔ سید عثمان نے پوچھا کہ کیا ہے یہ؟ مرید بولا کہ آج راجہ نے سب کیلئے کھانا بھیجا ہے۔ سید عثمان نے کھانے پر سے جب کپڑا ہٹایا تو جلال میں آکر فرمایا کہ یہ کیا ہے! جو مرید کھانا اندر لے کر آیا تھا، وہ بھی لرز گیا۔ شیخ عثمان نے جلال میں فرمایا کہ ہم نے بہت مرتبہ راجہ کو ہدایت پر لانے کیلئے ڈھیل دی لیکن اس کی قسمت میں ہدایت نہیں۔ اِدھر شیخ عثمان نے حرام کھانے کے برتن الٹے کیے، دوسری طرف بادشاہ کا پورا دربار الٹ گیا اور یوں سہون پر ایک ہی حکومت قائم کردی گئی جس کا بے تاج بادشاہ تھا سید عثمان مروندی۔
آگے اس سلسلہ کا آخری حصہ بیان کیا جائے گا انشاء اللّٰه
﴿خان آصف: اللّٰه کے ولی﴾
·•قلندر نامه•·
حصہ پنجم: شیخ عثمان کی کرامت اور فقیر کی آزادی
سہون کا بازارِ حُسن ویران ہوچکا تھا۔ طوائفیں جاچکی تھیں۔ مریدین کو شیخ عثمان کا حکم تھا کہ ناپاک مکانات جو کبھی بے حیائ کا ڈیرہ تھے، مسمار کردیے جائیں۔ مریدین شیخ کے حکم سے مکانات گرا رہے تھے۔
جس شخص کی زمین پر یہ مکانات قائم تھے، وہ ایک ہندو سردار تھا اور دربارِ سہون میں بھی کافی معزز تھا۔ جب اس نے اپنی زمین پر مکانات بغیر اجازت کے مسمار ہوتے دیکھے تو مریدین سے کہا کہ تم کو کس نے اجازت دی ہے کہ میری زمین سے مکانات ختم کرو؟ مریدین نے شیخ کے خیمہ کی طرف اشارہ کردیا۔ ابھی وہ زمیندار شیخ عثمان کے خیمہ میں داخل ہونے لگا تھا کہ شیخ عثمان خود باہر تشریف لے آئے۔
ہندو زمیندار نے شیخ عثمان سے بھی وہی سوال کیا کہ تم کس کے حکم سے مکانات گرا رہے ہو؟ یہ میری زمین ہے! تمہیں کس نے اجازت دی؟ شیخ عثمان بڑی بے نیازی سے بولے کہ یہ اللّٰه کی زمین ہے اور اس لیے ہمیں کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں۔
ہندو زمیندار آپ کو لہو و لعب بکنے لگا اور ساتھ ہی دھمکی دی کہ میں حاکمِ سہون سے شکایت کروں گا کہ وہ تمہیں یہاں سے نکال دے۔ زمیندار واپس جانے لگا تو شیخ عثمان نے اپنا عصاء اس کی کمر پر مارا اور وہ زمیندار وہیں مر گیا۔ خیر پھر سب مریدین اپنے کام میں مصروف ہوگئے۔
یہ خبر حاکمِ سہون تک پہنچی کہ اس کے دربار کا ایک معزز شخص ماردیا گیا ہے۔ حاکم اسی موقع کی تلاش میں تھا۔ اس نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ سید عثمان کو گرفتار کرکے دربار لایا جائے۔ کچھ دیر بعد شیخ سید عثمان دربارِ سہون میں بے خوف داخل ہوئے تو حاکم نے پوچھا کہ تم نے میرے دربار کا ایک معزز شخص کیوں قتل کیا؟ شیخ عثمان بے نیازی سے بولے کہ میں نے کسی شخص کو قتل نہیں کیا۔ ہاں! ایک کُتے کو مارا ہے، فلاں جگہ اس کی قبر ہے۔ شیخ عثمان بے خوف و خطر گفتگو فرما رہے تھے۔
حاکمِ سہون راجہ جیر جی بولا کہ جسے تم کتا کہہ رہے ہو ، وہی ہمارا معزز درباری تھا۔ شیخ عثمان اپنی بات پر قائم تھے کہ انسان نہیں تھا، کتا تھا۔ آخر بہت اصرار کے بعد بات یہ طے ہوئی کہ قبر کھولنے پر اگر انسان برآمد ہوا تو شیخ عثمان اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ سہون چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں گے اور اگر کتا برآمد ہوا تو شیخ عثمان سہون میں ہی رہیں گے۔
قبر کھولی جارہی تھی۔ سب درباری خوش تھے کہ آج ہمیں شیخ عثمان سے نجات مل جائے گی اور بازارِ حسن کی ویرانی واپس آبادی میں تبدیل ہو جائے گی۔ لیکن جب قبر کھلی تو سب لوگوں نے دیکھا کہ قبر میں انسان نہیں، کتا تھا۔ آخر شیخ عثمان واپس اپنے خیمے میں تشریف لے آئے۔
ایک دن شیخ عثمان نے آنکھیں بند کیں اور فرمایا کہ بودلہ! اب واپس آجاو! تمہاری آزمائش ختم ہوئ۔ تم کامیاب ہوگئے! سب مریدین حیران تھے کہ شیخ عثمان کی زبان اقدس سے یہ نام پہلی مرتبہ سنا ہے۔ آخر مریدین نے شیخ سے پوچھ لیا کہ حضور! کون ہے یہ بودلہ؟ شیخ عثمان نے فرمایا کہ وہ تمہارا بھائی اور ہمارا مرید ہے۔
شیخ عثمان نے اپنے خیمے میں یہ الفاظ کہے، وہاں سہون کے قلعے میں قید وہی فقیر جو ایک مخصوص جگہ سے مٹی اور کنکر صاف کرتا تھا، اور جو زنجیروں میں قید تھا، اچانک اس فقیر کی زنجیریں ٹوٹ گئیں اور وہ نعرہ بلند کرنے لگا کہ میرا مرشد آگیا! میرا مرشد آگیا! یونہی وہ قید خانہ سے باہر نکل آیا۔ اب ایک مشکل سامنے تھی اور وہ تھی قلعے کی بلند اور مضبوط دیوار۔ ابھی وہ فقیر اسی کشمکش میں تھا کہ دیوار کسے پار کی جائے کہ اچانک قلعہ کی دیوار میں بڑا سا شگاف آیا اور وہ فقیر اس شگاف کو عبور کرتا ہوا سیدھا سید عثمان کی بارگاہ میں پہنچ کر شیخ کے پاؤں سے لپٹ گیا۔ مریدین نے پہلی مرتبہ اسے دیکھا تھا۔
ہاں! یہی فقیر تھا وہ بودلہ جو شیخ عثمان مروَندی کے سہون تشریف لانے سے قبل اسی مخصوص جگہ کو صاف کرتا تھا اور کہتا تھا کہ میرے مرشد آنے والے ہیں! بودلہ کے جسم پر بہت سے زخم تھے کیونکہ قید خانہ میں ان پر کافی تشدد کیا جاتا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چند دنوں کے اندر بودلہ کے زخم اس کے شیخ کی صحبت میں بیٹھنے کے باعث مندمل ہوتے گئے اور بودلہ کا جسم زخموں سے صاف ہوگیا۔
پھر حاکمِ سہون کا انجام کیا ہوا؟ کیسے سارا سہون شیخ عثمان مروَندی کا عقیدت مند ہوگیا؟
واقعہ اگلے حصہ میں پڑھیے
﴿خان آصف: اللّٰه کے ولی﴾
·•قلندر نامه•·
حصہ چہارم: سہون آمد اور بازارِ حسن کی ویرانی
سید کبیر الدین کا صاحبزادہ سید عثمان اپنے مرشد کی ہدایت پر سندھ کے علاقے سہون میں تشریف لایا۔ یہ وہ علاقہ تھا جہاں ساری رات رقص و سرود کی محفلیں منعقد ہوتی تھی اور لوگ غلط کاری میں ساری رات گزار دیتے تھے۔ حیاء نام کی کوئ چیز یہاں نہیں تھی۔ جب عثمان اپنے مریدین اور عقیدت مندان کے ساتھ سہون داخل ہوئے تو معلوم ہوا کہ یہاں بازارِ حُسن روزانہ رات کو سجتا ہے اور لوگ بازار کے کناروں پر کلیوں اور پھولوں کے ہار بیچتے ہیں تاکہ اپنی ظاہری بدبو کو چھپا سکیں۔
مریدین نے وہاں پر موجود چند ایک مسلمانوں سے جگہ کے حالات اور لوگوں کے خیالات اور مزہب کے بارے میں پوچھا تو وہ مسلمان کہنے لگے کہ تم شریف لوگ یہاں کہاں آگئے ہو؟ یہ باتیں تو گناہوں سے بھری ہوئ ہے۔ یہاں تمہاری کوئی نہیں سنے گا۔ جلد سے جلد یہاں سے کہیں اور چلے جاؤ۔ ہم سے پوچھو! کیسے گزارہ کرتے ہیں ان گناہوں کے ماحول میں ہم۔
مریدین معلومات لے کر سید عثمان کے پاس آئے اور انہیں بتایا کہ حضور ہم غلط جگہ پر آگئے ہیں، ہمیں یہاں سے فورا کہیں اور جانا چاہیے! یہ بستی گناہوں کی بستی ہے! شیخ نے کہا کہ ہم خود یہاں نہیں آئے بلکہ بھیجے گئے ہیں۔ ہم درست جگہ آئے ہیں اور یہی ہماری آخری منزل ہے۔
سہون میں ایک ہندو راجا جیر جی کا قلعہ تھا اور وہی اس علاقے کا حاکم تھا۔ روزانہ ایک درویش ایک مخصوص جگہ سے مٹی اور کنکر صاف کرتا اور کہتا کہ میرے مرشد آرہے ہیں! میرے مرشد آرہے ہیں! حاکمِ سہون اسے درگزر کرتا رہتا۔ ایک دن حاکمِ سہون نے نجومیوں سے اپنے مستقبل کا حال پوچھا۔ نجومیوں نے ستاروں کی گردش دیکھ کر حساب لگایا لیکن ڈر کے باعث حاکم کو اصل بات نہیں بتاتے تھے۔
آخر حاکم کے اصرار پر نجومیوں نے بتایا کہ آپ کی سلطنت ایک مسلمان درویش کے ہاتھوں ختم ہوجائے گی۔ یہ بات سن کر حاکم نے اس شخص کو، جو مخصوص جگہ سے روزانہ مٹی اور کنکر صاف کرتا اور کہتا تھا میرے مرشد آرہے ہیں، اسے قید کروادیا اور سخت اذیتیں دینے لگا۔ روزانہ اس فقیر پر تشدد ہوتا یہاں تک کہ اس کے جسم پر واضح زخم آجاتے۔ پھر بھی وہ اپنے مرشد کا نام لینے سے نہیں رکتا۔ کون تھا وہ فقیر؟ آگے بیان کرتے ہیں۔
جب سید عثمان اپنے مریدین کے ساتھ سہون میں رہے تو ایک رات بازارِ حسن کا عالم یہ ہوگیا کہ جو بھی اس بازار میں داخل ہونے لگتا، لرزتے قدموں سے واپس آجاتا۔ ہر شخص پر ایک دہشت تھی حالانکہ اس بازار میں کسی کو بھی داخل ہونا منع نہیں تھا۔ پھر بھی کوئی اس بازار میں جا نہیں سکا۔ کچھ بازار کے امیر نے بازار سے واپس آنے والے لوگوں سے پوچھا کہ بازار میں داخل کیوں نہیں ہوئے؟ انہوں نے کہا کہ بازار میں ہمیں خوف اور دہشت محسوس ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ کوئی نظر نہ آنے والی شے ہمیں بازارِ حسن میں داخل ہونے سے روکتی ہے۔
لوگوں کی یہ بات سن کر بازار کے بڑوں نے سوال کیا کہ کسی کو بھی بازارِ حسن میں داخلہ سے منع نہیں کیا گیا پھر کوئ کیوں اس بازار میں نہیں آتا؟ ضرور یہ درویشوں کا ہی کام ہوگا۔ بازار کے رئیس افراد اس درویش کے خیمہ تک پہنچ گئے۔ مریدین سے پوچھا کہ تم لوگ یہاں کیوں آئے ہو؟ مریدین نے کہا کہ ہم شیخ کے حکم پر یہاں آئے ہیں۔ امیرِ بازار نے پوچھا کہ تمہارا شیخ کون ہے؟ انہوں نے خیمہ کی طرف اشارہ کردیا۔
رؤساء بازار جب شیخ کے خیمہ میں داخل ہوئے تو ان کی آواز ہی نہ نکلی۔ آخر شیخ نے خود پوچھ لیا کہ تم لوگ کون ہو؟ وہ لوگ جواب نہ دے سکے اور لرزتے قدموں کے ساتھ واپس چلے گئے۔ روسائے بازار کی یہ حالت دیکھ کر اس بازار کی طوائفیں خود شیخ کے پاس آگئیں اور کہا کہ ہمارے کام کو نہ روکیے! درویش سید عثمان نے کہا کہ لوگوں سے پوچھ لیں! کسی کو میں نے منع نہیں کیا کہ وہ بازار نہ جائے! پھر آپ مجھ پر کس طرح بازار ویران کرنے کا الزام لگاسکتی ہیں؟ آخر جب بات نہ بنی تو وہ طوائفیں بازار چھوڑ کر کہیں اور چلی گئی۔ بازارِ حسن، ویران ہوچکا تھا۔
سید عثمان نے اپنے مریدین کو حکم دیا کہ ناپاک مکان گرادیے جائیں۔ مریدین نے شیخ کے حکم پر مکانات گرانا شروع کردیے اور اس طرح سہون شہر ایک فقیر کے باعث طوائفوں سے پاک ہوگیا
پھر کیا ہوا؟ وہ حاکم! وہ سہون کا حکمران! اس کا انجام کیا ہوا؟ اور جو فقیر کنکر پتھر اٹھا کر جگہ صاف کرتا تھا، اس کو قید سے کیسے نکالا گیا؟
تفصیل اگلے حصے میں
﴿خان آصف: اللّٰه کے ولی﴾
·•قلندر نامه•·
حصہ سوم: سید کبیر الدین اور بابا ابراہیم علیھم الرحمه کا انتقال
سید کبیر الدین کا صاحبزادہ عثمان کچھ عرصہ بخارا رہنے کے بعد شیخ جلال الدین سرخ پوش بخاری سے اجازت لے کر نجف چلا گیا تاکہ مولا علی علیہ السلام کے مزار شریف کی زیارت کرے اور فیض سمیٹے۔ وہاں کسی نے عثمان سے کہا کہ کربلا چلے جاؤ! تمہارے والد سید کبیر الدین بڑی شدت سے تمہارا انتظار کررہے ہیں۔ عثمان نجف سے سیدھے کربلا چلے گئے جہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ سید کبیر الدین کی آخری ساعت آن پہنچی ہے۔
سید کبیر الدین نے اپنے پیارے صاحبزادے عثمان کو سینے سے لگایا اور پھر بہت سی دعائیں دیں اور اس واقعہ کے کچھ دن بعد سید کبیر الدین کا انتقال ہوگیا۔ عثمان کیلئے اب سایہ شفقت صرف اس کے مرشد بابا ابراہیم تھے۔ عثمان سیدھے اپنے مرشد بابا ابراہیم کے پاس چلے گئے لیکن سید بابا ابراہیم نے بھی یہ بات کہی کہ عثمان! میرے خلیفہ بابا جمال مجرد کے پاس چلے جاؤ اور باقی منزلیں وہاں حاصل کرو۔ میرا وقت قریب آچکا ہے۔ عثمان کیلئے والد اور مرشد کا سایہ بیک وقت آٹھ جانا بہت بڑا صدمہ تھا۔ باوجود اس بڑے صدمہ کے عثمان نے آہ و زاری نہ کی لیکن آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے جو کہ انسانی فطرت ہے۔
پھر عثمان، اپنے مرشد کے خادمِ خاص بابا جمال الدین مجرد کے پاس حاضر ہوئے اور سلوک کی باقی منزلیں وہاں طے کیں۔ پھر بابا جمال مجرد کے حکم پر دین کی اشاعت اور فروغ کی خاطر سندھ چلے گئے۔
﴿خان آصف: اللّٰه کے ولی﴾
•·قلندر نامه·•
حصہ دوم؛ سید کبیر الدین کے صاحبزادے کی تعلیم و تربیت
سید کبیر الدین کا صاحبزادہ تعلیم و تربیت میں بھی عظیم تھا۔ کہا جاتا ہے کہ صرف و نحو میں آپ کو بہت مہارت حاصل تھی (درس نظامی میں یہ دو مضامین ہیں۔ نحو میں عربی گرامر یعنی قائدے قانون پڑھے جاتے ہیں جبکہ صرف میں ایک لفظ کے کئی صیغے یعنی گردان بنائ جاتی ہیں)۔
جب یہ صاحبزادہ سن شعور کو پہنچا تو بابا ابراہیم رحمۃ اللّٰه علیہ نامی بزرگ سے بیعت کی اور سخت مجاہدہ کرنے کے بعد شیخ سے خرقہ حاصل کیا۔ بابا ابراہیم کی سوانح کے متعلق کسی نے نہیں لکھا کہ وہ کہاں کے رہنے والے تھے اور کس سلسلہ میں بیعت تھے۔ پھر حرمین شریفین کی زیارت کی خاطر حجاز مقدس روانہ ہوگئے۔
حرمین میں سید کبیر الدین کے یہ صاحبزادے سید جلال الدین بخاری (جو مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے دادا ہیں) سے ملاقات ہوئی اور کئی سال وہاں سخت ریاضتیں اور مجاہدے کیے۔ پھر انہی کے ساتھ حرمین سے بخارا تشریف لائے۔ بخارا کی سرحد پر موجود سپاہیوں نے دونوں سے آمد کی وجہ معلوم کی تو جلال الدین بخاری نے فرمایا: ہم دونوں سید ہیں اور بخارا کے علماء کی صحبتوں سے فیضیاب ہونے کیلئے آئے ہیں۔
سپاہیوں نے ان دونوں سیدوں کو حاکم بخارا کے دربار میں پہنچادیا۔ حاکم نے سوال کیا کہ تمہارے پاس اس کی کیا دلیل ہے کہ تم لوگ سید ہو؟ سید جلال الدین بخاری نے فرمایا کہ ہمارا دعویٰ ہی ہماری دلیل ہے۔ اس پر حاکم بخارا نے کہا کہ بہت سے لوگ سید ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اصل میں سید زادے تو بہت کم ہیں! کسی کا زبانی دعویٰ اس کا سید ہونا ثابت نہیں کرتا۔
جلال الدین سرخ پوش بخاری نے پوچھا کہ پھر آپ کیسے مطمئن ہوں گے؟ حاکم نے کہا سنا ہے کہ آگ سیدوں کو نہیں جلاتی! اگر تم جلتی آگ میں سے گزر جاؤ تو میں مان لوں گا کہ تم سید ہو۔ جلال الدین بخاری نے پُر جلال لہجے میں فرمایا؛ حاکمِ بخارا! آگ جلاؤ! جب آگ جلائی گئی تو سید جلال الدین بخاری بسم اللّٰه پڑھتے ہوئے آگ میں داخل ہوگئے اور دوسری طرف سے نکل آئے۔ یہ منظر دیکھ کر حاکمِ بخارا نے آپ سے معافی مانگی اور اپنی بیٹی کا نکاح سید جلال الدین سرخ پوش بخاری سے کردیا۔
ایک مرتبہ سید جلال الدین بخاری نے جذب کی کیفیت میں سید کبیر الدین کے صاحبزادے کو مخاطب کرکے فرمایا؛
"سید! میں نے معرفت کے آسمان پر ایک شہباز دیکھا ہے اور وہ شہباز تُم ہو"
کون تھا وہ شہباز؟ سید کبیر الدین کا صاحبزادہ؟ ہاں! تم نے درست پہچان کی! وہ سید، وہ شاہباز وہ نوجوان آج سید عثمان مروندی المعروف لال شہباز قلندر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وہی جس نے سہون کی ناپاک سرزمین کو اپنے نورِ معرفت اور تبلیغ و ہدایت کے ذریعے معطر کردیا تھا!
سہون کی ناپاک سرزمین؟ یہ کیوں کہا؟ تفصیلی واقعہ آگے حصوں میں بیان ہوگا انشاء اللّٰه
﴿خان آصف: اللّٰه کے ولی﴾
·•قلندر نامه•·
حصہ اول: سید کبیر الدین کا عجیب خواب
سید کبیر الدین نامی ایک بزرگ جو سیدنا امام جعفر الصادق کی اولاد میں سے تھے اور حسینی سید ہیں، انہوں نے شادی نہیں کروائی تھی۔ ایک دن ایک عجیب خواب دیکھا کہ نہایت دلکش باغ ہے اور اس میں نہریں بہہ رہی ہیں۔
اچانک ان کی نظر ایک بچہ پر پڑتی ہے جو کہتا ہے کہ محترم! مجھے یہاں سے باہر نکالیے۔ اتنے میں سید کبیر الدین کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ وہ اس بچہ کی بات پر توجہ نہیں دیتے۔ کچھ دنوں بعد وہی خواب آتا ہے جس میں وہی بچہ اسی خوبصورت باغ میں ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ محترم! مجھے یہاں سے نکالیے۔ سید کبیر الدین کہتے ہیں؛ یہاں رہنا زیادہ اچھا ہے۔ وہ بچہ کہتا ہے کہ حضرت! یہاں سے باہر آنا بھی بہتر ہے۔
اس مرتبہ خواب میں جو منظر نامہ اور خاص طور پر بچے نے جو بات کہی تھی، وہ دل میں تھی۔ ایک بزرگ کے پاس تشریف لے گئے جو خوابوں کی تعبیر کا علم رکھتے تھے۔ جب انہیں اپنا خواب سنایا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ نے شادی کی ہے؟ سید کبیر الدین نے فرمایا کہ نہیں! انہوں نے فرمایا کہ پھر آپ کو جلد نکاح کرلینا چاہیے کیونکہ خواب میں نظر آنے والا بچہ آپ ہی کا ہے جو بڑا مقام پائے گا۔ سید کبیر الدین نے جب اپنی خواہش دوستوں کے سامنے ظاہر کردی تو یہ خبر اس جگہ کے بادشاہ کو پہنچی جس نے حال ہی میں خواب دیکھا تھا کہ کوئ بزرگ ہستی اس بادشاہ کو کہہ رہی ہے کہ اپنی عفیفہ بیٹی کا نکاح سید کبیر الدین سے کردو۔ اس طرح سید کبیر الدین کا نکاح ہوگیا۔
جب سید کبیر الدین کے ہاں ایک صاحبزادے کی ولادت ہوئ تو آپ نے غور سے بچے کے نقش و نگار دیکھے جو بالکل اسی بچے کی طرح کے تھے جو سید کبیر الدین نے خواب میں دیکھا تھا۔ وہ بچہ عثمان کے نام سے جانا جاتا تھا۔
کون عثمان؟ اگلا حصہ پڑھیے
﴿ حوالہ؛ اللّٰه کے ولی: خان آصف﴾
Click here to claim your Sponsored Listing.
Category
Contact the place of worship
Website
Address
Sheikhupura
Ittefaq Masjid Akram City Petrol Pump (PSO)
Sheikhupura, 39350
The Official Page of Waqas Kashif commonly referred to Molvi Rafeeq Sahib, is a Pakistani religious and Islamic scholar, preacher, and public speaker.
Sheikhupura, 39350
LOVE AND SHINE THE WORLD The Lord Make His Face Shine On You, And Be Gracious To You. Numbers 6:25
Street Virkan
Sheikhupura, 056
شبیر ع کا وہ کرتا ہے زاہرا ع کے ہاتھ میں یہ حشر کا میدان ہے یا ہے یہ کربلا �����
Street No 2 Gloria Colony Sheikhupura
Sheikhupura
live streaming
Pakistan Adventist Seminary & College Farooqabad
Sheikhupura, 39500
Adventist Broadcasting Network Pakistan (ABN Pakistan) YouTube media channel which is sharing the gospel. This channel is providing a Bible study guide in the Urdu language.
Sheikhupura
My page is about islamic videos Tilawat, Naats,Taqreer, whatsapp status, related to islamic content
Jandiala Sher Khan
Sheikhupura
یا علی ع کہتی ہے دنیا مجھے نوکر تیرا اب مجھے دولتِ دنیا کی تمنا ہی نہیں