Muhammad Owais
Informative Video Creator
Why did Hamas attack Israel in 2023? | Israel-Palestine Conflict | Muhammad Owais
How ICC Earns Money from Cricket World Cup? | Business Model CWC 2023 | Muhammad Owais
Should Pakistan's State Bank Print Currency Notes
جو ہم سے پوچھ کہ پیدا ہمیں کیا جاتا
ہماری پہلی تمنا سری نگر ہوتی
اسلم رضا
Truth about Dr. Aafia Siddiqui Case | Uzair Paracha Case
میرے گاؤں میں ایک بوڑھے بابا تھے۔ انکے چہرے کی دراڑیں، گزرے وقتوں کی تمام روداد بیان کرتی تھیں۔ لیکن جب و مسکراتے تو اطمنان کی جو لہر انکے چہرے سے نمایاں ہوتی تھی اس بدل یہ ٹیکنالوجی کسی طور بھی نہیں۔ چہرے کی دراڑوں سے بہتی سکون کی ندیاں، ہمیشہ اس بات کا اعلان کرتی تھیں کہ میں نے اس زندگی کا راز پا لیا۔۔۔۔۔
میں نے بچپن سے انکی خاص عادت کو بہت توجہ سے دیکھا۔ ہر جمعہ کے دن وہ صبح سویرے کو اٹھتے اور نہا دھو کر مسجد کی طرف چل دیتے۔ ہمارے ہاں پہاڑوں میں تمام سردیاں برف کی شدید لپیٹ میں گزرتی ہیں۔ درجہ حرارت جسم کے خون کو منجمد کرنے کیلئے کافی ہوتا ہے۔ لیکن میں نے دیکھا کے وہ بابا جی اس شدید ٹھنڈ میں بھی جمعہ کے دن کے تمام لوازمات بخوبی صبح سویرے سرانجام دیتے اور برف سے ڈھکے پہاڑوں کو چیرتے ہوئے مسجد کی راہ ہو لیتے۔
وہ کوئی مووذن یا مولوی بالکل بھی نہ تھے۔ بلکہ اس تمام تر مشقت اور مستقل عادت کی محض صرف ایک وجہ تھی۔ اور وہ وجہ یہ تھی انہیں پہلی صف کی اول جگہ پہ بیٹھنا ہوتا تھا۔ شاید وہ جگہ ان بابا جی کا کل اثاثہ تھی۔ وہ جسم و جان کی مشقت تو سہ لیتے، لیکن اس مقام سے دستبرداری کسی طور ممکن نہ تھی۔ نہ جانے اس مقام کا عشق تھا، عقیدت تھی یا اس ضعیف کی زندگی کا راز،۔۔۔ جو بھی تھا انتہا تھا۔۔
پتہ ہے! تمہیں یہ تمام کہانی سنانے کا مقصد کیا ہے؟
تم میری زندگی میں وہی اہمیت رکھتی ہو جو وہ پہلی صف اس ضعیف بابے کی زندگی میں رکھتی تھی۔ میں تمہارے وصل کو اسی اطمنان سے تشبیہ دیتا ہوں جو بابا جی کے چہرے سے چھلکتا تھا۔ ہاں شاید تم میری زندگی کا وہی راز ہو۔۔۔۔۔
محمد اویس۔
Weather now days.
اللہ پاک مغفرت فرمائے۔ آمین
ہر لمحہ کوئی نہ کوئی ذی روح اپنی تمام تر چاہ و چاشت کو یوں ہی راہ میں بکھرا چھوڑ اس دنیا سے کوچ کر رہا ہے۔۔۔
ہم سب لاشعوری طور پر اس کوچ کرنے کی قطار میں کھڑے ہیں۔
ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ ہم سے آگے کتنے لوگ اس قطار کا حصہ ہیں اور نہ ہی ہم اسکی ترتیب کو کسی طور بھی بدلنے کی سکت رکھتے ہیں۔
ہم اس قطار سے نکل نہیں سکتے۔
نہ ہی ہم اپنے آپ کو اس کا حصہ بننے سے روک سکتے ہیں۔
تو کیوں نہ جب تک ہم اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں:
ہر لمحے کو جیا جائے۔
ہر پل کو حسین بنایا جائے۔
ترجیحات کو بدلا جائے۔
اپنی صلاحیتوں کو پہچانا جائے۔
لوگوں کو انکی اہمیت کا احساس دلایا جائے۔
اپنی آواز سے سماعتوں کو معطر کیا جائے۔
کسی کی مسکراہٹ کا سبب بنا جائے۔
محبت کی جائے۔
ہر سو امن کا پرچار کیا جائے۔
اپنے پیاروں کو یہ بتایا جائے کہ ہم ان سے محبت کرتے ہیں۔
ملامت اور سیاہ بختی کے احساس سے نکلا جائے۔
ہر لمحہ اس قطار میں اپنی باری کیلیے تیار کھڑے ہوں۔
اپنی زندگی کے ہر لمحے کو مکمل جینے کی کوشش کریں اور کبھی بھی مباحثوں، جھگڑوں اور اختلافات میں اپنے قیمتی عطا کردہ وقت کو ضائع نہ کریں۔ زندگی کا دورانیہ بہت مختصر ہے، اپنے آپ سے محبت کریں اور ان تمام اسباب میں خوش رہیں جو آپ کے پاس موجود ہیں۔
اللہ پاک آسانیاں عطا فرمائے۔
Culture
میں جھیل ڈل پہ گزاروں گا آخری لمحے
میرے خمیر میں مٹی سرینگر کی ہے
اللہ اکبر
شاہ جی کی بات کہ جات سنبھال کے رکھنا پھر۔۔۔۔
ہے کوئی محبوب جس کی بدلتے خصائل ہر روز عشق کو ایک نیا رنگ دیتے ہوں۔۔؟ سوائے ان پہاڑوں کے۔۔۔
Ultimate Reality.
ہم سب پھر اسی بغض، کینے، حسد اور اس جیسی نہ جانے کون کون سی بیماریوں میں مبتلا ہی رہے اور کوئی ہمیں اس سب کے بے معنی اور عارضی ہونے کا سبق دے کر چلا گیا۔
اللہ پاک رمضان کے اس بابرکت ماہ کے صدقے میرے بھائی کی کامل مغفرت فرمائے۔ آمین
جامعہ پنجاب لاہور۔
رنگلہ آزاد کشمیر
Home Town
شاہ جی کی اچانک کال موصول ہوئی کہ سیگریٹ ختم ہو چکے ہیں مارکیٹ جانا ہے؟
میں بائیک کیساتھ پندرہ نمبر ہاسٹل حاضر ہوا اور شاہ جی کو برکت مارکیٹ لے کہ پہنچا۔
شاہ جی ہر رویے کو بغور محسوس کرتے اور پھر بس ایک سرد آہ بھر کے چپ سے ہو جاتے۔ جیسے انہیں ہر شخص سے بیزاری محسوس ہوتی ہو۔ ٹھنڈ میں کافی لازم تھی سو سیگریٹ کیساتھ کافی سے اٹھتی بہاپ کو بھی ہم نے ماحول کا خاصا بنایا اور واپس ہاسٹل کی جانب روانہ ہوئے۔
ہاسٹل پہنچ کے شاہ جی نے واک کی آفر دی تو میں نے بھی لگے ہاتھوں حامی بھری اور ہاسٹل کے پچھلے روڈ پہ رواں ہو گئے۔
بیٹا آپکو معلوم ہے کہ ہماری اس نسل کو برباد کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ والدین کا ہے۔؟
میں نے بھی انجان بچے کی طرح نفی میں سر ہلا دیا۔
شاہ جی: دیکھو ہمارے والدین کو چاہیے تھا کہ وہ اپنی اولاد سے محبت کریں لیکن وہ بیچارے تو پیار کر بیٹھے۔۔۔۔۔۔۔
میں: شاہ جی پیار اور محبت میں کیا فرق ہے؟
شاہ جی: بیٹا پیار میں جھکنا لازم ہے۔ پیار میں جو جیسا ہے وہی بہترین ہےاور وہی سب سے اعلی ہے اور پیار تو اللہ میاں سے کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ جو محبت ہے نا۔۔ اس میں محبوب کا عیب برداشت نہیں ہوتا۔ عیب پہ سوال اٹھتا ہے اور اس عیب کو اپنے محبوب سے مٹانے کی جرت کرنی ہوتی ہے۔ ہمارے والدین کو اپنے بچوں سے محبت کرنے کی جرت کرنی تھی لیکن وہ تو پیار میں جھک گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری عقل ناقص تو دھماکوں سے گونج اٹھی کہ اتنا بڑا المیہ اتنے سادہ الفاظ میں بیان کیسے ہو سکتا ہے۔ موقع کو غنیمت جانتے ہوئے میں نے اگلا سوال داغ دیا کہ شاہ جی پھر یہ عشق کس کیفیت کا نام ہے؟؟
شاہ جی سوال سنتے ہی دھیمے سے مسکرا دیے۔۔۔ مجھے لگا کہ کم عقلی کی وجہ سے شائد کچھ غلط پوچھ بیٹھا ہوں۔ لیکن کچھ لمحوں کی دوری کے بعد وہ گویا ہوئے۔۔۔۔
دیکھو عشق جو ہے نا وہ میری تھیوری کیمطابق exist ہی نہیں کرتا۔۔۔۔ ہمارے لوگ تو پیار اور محبت کی جنونی کیفیت کو عشق کا نام دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔ لیکن عشق تو سکون ہے، ہر طلب سے دوری ہے، ہر جذبے سے بیزاری ہے اور ہر چاہت پہ حاوی ہے۔۔۔۔تو practically دیکھا جائے تو یہ کیفیت کہیں پائی نہیں جاتی سوائے ہمارے تصور کے۔۔۔۔
ڈھلتے نومبر کی ٹھرٹھراتی ہوائیں اور رات آخری کے پہر میں دھند میں لپٹی یونیورسٹی کے عین وسط میں ایک ادھیڑ عمر کا شخص نہ جانے کیوں پیار، محبت اور عشق کے داو پیچ لڑانے میں مشغول تھا اور میں ناقص عقل کا مارا بس اس گمان میں محو تھا کہ یہ جو سبق ہم کتابوں میں ڈھونڈتے پھرتے ہیں وہ تو ہمارے آس پاس کسی شاہ جی کی شکل میں منڈلا رہے ہوتے ہیں۔۔۔
محمد اویس
ہم بنائیں گے یہاں ساغرؔ نئی تصویر شوق...
ہم تخیل کے مجدد، ہم تصور کے امام_
~ ساغرؔ صدیقی