Hania,z collectioz
Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Hania,z collectioz, Shopping & retail, .
🥀❤️🥀
.Sir Philip Sidney ;
Bilamik valley skardu
Phander Valley, Gilgit Baltistan
خوشی بڑھانے والا ہارمون
(قاسم علی شاہ)
ایلس کا باپ علاقے کا سب سے بڑا زمین دار تھا۔ اس کی جاگیر گاؤں کے ایک سرے سے شروع ہوکر دوسرے کونے تک پھیلی تھی، جس میں انار اور سیب کے باغات اور مختلف قسم کی سبزیاں اُگی تھیں۔ ایلس کا بچپن نازو نعم میں گزرا تھا۔ گھر میں پیسے کی ریل پیل تھی۔ اس نے باپ کی جاگیر کو پھلتے پھولتے دیکھا تھا۔ جب وہ بیس سال کی ہوئی تو اس کا باپ حادثے کا شکار ہوکر فوت ہوگیا۔ خاندان والوں نے جاگیر سنبھالنے کی ذمہ داری ایلس کوسونپ دی۔ وہ ابھی جاگیر دارانہ کاموں کوسمجھ بھی نہیں پائی تھی کہ گاؤں میں خشک سالی آگئی۔ یہ پہلی لہر تھی جس نے زیادہ نقصان نہیں کیا لیکن دوسری لہر خاصی خطرناک تھی، اس نے فصلوں سے زندگی چھین لی، رفتہ رفتہ کھیت بنجر ہوگئے، ہر طرف ویرانی چھاگئی اور گاؤں کی رونق بھی ختم ہوگئی۔ باپ کی ناگہانی موت اور معاشی بدحالی نے ایلس کوشدید صدمہ پہنچایا۔ اس کی ذہنی حالت بگڑ گئی۔ وہ ہر صبح حویلی سے نکل کر بنجر کھیت میں کھڑے درخت کے پاس آبیٹھتی۔ یہ درخت بھی مرجھا گیا تھا، تنے کے ساتھ ٹیک لگائے وہ گھنٹوں خلا میں گھورتی رہتی جیسے کسی معجزے کا انتظار کر رہی ہو، کئی ماہ گزر گئے لیکن کچھ نہیں بدلا۔ مایوسی بھرے خیالوں نے اسے ڈیپریشن میں مبتلا کر دیا تھا۔ وہ تنہائی میں بیٹھتی تو اچانک چلانے لگتی، اسے اپنا کمرہ قید خانے جیسا محسوس ہوتا اس لیے وہ دن کا زیادہ وقت باہر گزارتی۔ ایک دن وہ درخت کے پاس بیٹھی خیالوں میں گم تھی کہ اچانک اس نے جڑوں کے پاس ایک چھوٹا سا پودا نکلتا ہوا دیکھا۔ ایلس نے ہاتھ بڑھا کر اسے چھوا تو اس کے اندر ہلچل مچ گئی۔ وہ روز صبح اس ننھے پودے کے پاس آتی، اس کی دیکھ بھال کرتی اور اسے پانی پلاتی۔ جیسے جیسے وہ بڑھتا گیا ویسے ویسے ایلس کی مایوسی بھی ختم ہوتی گئی۔ اسے امید ملنا شروع ہوگئی تھی۔کچھ عرصے بعد پودا چھوٹا سادرخت بن گیا تو ایلس کی امید مزید مضبوط ہوگئی۔ اگرچہ ڈیپریشن نے اس کے دل و دماغ پر گہرے اثرات چھوڑے تھے لیکن ننھے پودے نے اسے بھرپور امید دی تھی۔اسے معلوم ہوگیا تھا کہ مایوسی کی رات جس قدر بھی تاریک ہو اس کے بعد روشن صبح ضرور ہوتی ہے۔ وہ بھاگ کر گئی اور کچھ دیر میں تمام گاؤں والوں کو پودے کے پاس لے آئی، انھیں پودے کی کہانی سنائی اوریہ بھی بتایا کہ ہمیں نااُمید نہیں ہونا چاہیے، ہمیں یہ یقین رکھنا چاہیے کہ بہت جلد گاؤں کا قحط ختم ہوگا اور ایک بار پھریہاں ہر طرف ہریالی ہوگی۔ ایلس کی باتوں سے مایوس چہروں پر امید کی خوشی جگمگانے لگی۔
زندگی میں رونما ہونے والے واقعات ہمارے جسمانی نظام پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ہم خوش ہوتے ہیں یا غمگین، خوف میں ہوتے ہیں یا سرور میں، ان سب کا تعلق دماغ میں بننے والے کیمیکل سے ہوتا ہے۔جب انسان طویل دورانیے پر مشتمل ڈیپریشن میں چلا جاتا ہے تو اس کے جسم میں کورٹیسول کی سطح بلند ہوجاتی ہے جو نہ صرف اس کے ڈیپریشن کو مزید بڑھاتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اضطراب اور بے چینی کو بھی زیادہ کرتی ہے۔ اس کی یادداشت کی صلاحیت کمزور ہوجاتی ہے، مدافعتی نظام کمزور ہوجاتا ہے اور ایسا فرد بے خوابی کا شکار ہوجاتا ہے۔
اسی طرح سیروٹونن ایسا ہارمون ہے جس کا تعلق انسان کی خوشی کے ساتھ ہے۔ یہ ہمارے دماغ اور جسم میں موجود اعصابی خلیوں کے درمیان پیغام رسانی کا عمل سر انجام دیتا ہے۔ جب اس کی سطح کم ہوجاتی ہے تو اس کی وجہ سے فرد ڈپریشن، ذہنی تناؤں جیسی بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس ہارمون کا 10فی صد حصہ ہمارے دماغ میں جب کہ 90فی صد حصہ معدے کے قریب والے خلیوں میں پایا جاتا ہے۔
سیروٹونن ہمارے مزاج کو چلاتا ہے۔ یہ ہمیں اچھا محسوس کرواتا ہے۔ جب جسم میں اس کی سطح ضرورت کے مطابق ہو تو ہم چیزوں پر زیادہ توجہ دے پاتے ہیں اور ہم جذباتی طور پر مستحکم ہوتے ہیں۔ جب اس کی سطح کم ہوجائے تو ہم بے چینی اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔
جسم کا زیادہ تر سیروٹونن ’جی آئی ٹریکٹ“ میں ہوتا ہے جہاں یہ آنتوں کے کام کو منظم کرنے میں مدد دیتا ہے اور آنتوں کی حفاظت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جب معدے میں غیر صحت مند خوراک چلی جائے تو آنت سیروٹونن کے اخراج کو تیز کر دیتا ہے جس سے ہاضمے کی رفتار میں اضافہ ہوجاتا ہے اور جسم ان نقصان دہ چیزوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیروٹونن کھانے کے دوران ہماری بھوک کو کم کرنے میں بھی کردار ادا کرتا ہے۔
سیروٹونن، ایک اور نیورو ٹرانسمیٹر ڈوپامین کے ساتھ مل کرنیند کے معیار کوبہترکرنے میں کردار ادا کرتا ہے جس سے ہم گہری نیند لیتے ہیں۔ ہمارے دماغ کو میلاٹونن بنانے کے لیے بھی سیروٹونن کی ضرورت ہوتی ہے، جس کی بدولت ہم نیند سے جاگتے ہیں۔
سیروٹونن ہمارے خون میں پلیٹلیٹس کے ذریعے جاری ہوتا ہے جو زخموں کو ٹھیک کرنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ خون کی سب سے چھوٹی نالیوں اور شریانوں کو تنگ کرنے کا سبب بھی بنتا ہے جو خون کے بہاؤ کو سست کرتا ہے جس کے ذریعے زخم جلدی مندمل ہو جاتا ہے۔
سیروٹونن کی سطح ہماری ہڈیوں کی کثافت میں کردار ادا کر تی ہے۔ آنتوں میں سیروٹونن کی زیادہ مقدار ہڈیوں کو کمزور بناتی ہے جو ہڈیوں کے ٹوٹنے کا باعث بنتی ہے۔
آئیے جانتے ہیں کہ ہم اپنے جسم میں سیروٹونن کی سطح کیسے بڑھاسکتے ہیں تاکہ ہم خوش رہ سکیں۔
• اپنی خوراک میں ایسی چیزیں شامل کریں جن میں پروٹین شامل ہو۔ تحقیق بتاتی ہے کہ سیروٹونین کی مقدار بنانے کا بہترین طریقہ پروٹین کھانا ہے۔
• سورج کی روشنی میں رہیں۔ اس سے وٹامن ڈی بڑھتا ہے، نظام انہضام بہتر ہوتا ہے۔ جلد اچھی ہوتی ہے۔ جن خطوں میں سورج نکلتا ہو وہاں کے لوگ ذہنی طورپر زیادہ صحت مند ہوتے ہیں اس کے برعکس جو علاقے ہر وقت بادلوں کے لپیٹ میں ہوں وہاں ذہنی عارضوں کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔
• ہر انسان کے جسم میں ایسے مثبت جراثیم پائے جاتے ہیں جو اس کے جسم کی حفاظت کرتے ہیں۔ہمیں ایسی خوراک کھانی چاہیے جو ہمارے جسم کی حفاظت کرنے والے بیکٹیریا کو مضبوط بناسکیں۔
• روزانہ ورزش یا چہل قدمی کریں، یہ بھی سیروٹونین بڑھانے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ وہ تمام لوگ جن کی عمر چالیس کے قریب ہے ان کے لیے میر امشورہ ہے کہ آج ہی سے ورزش شروع کریں وگرنہ وہ دن دور نہیں جب آپ دوا کے سہارے جی رہے ہوں گے۔
• میٹھا (چینی) کا استعمال کم کریں کیوں کہ اس سے ہارمونز کی سطح کم ہوجاتی ہے۔ اس کے بجائے قدرتی میٹھا جیسے کہ گڑ، کھجور اور پھل کھائیں۔ ٹی وی اشتہارات میں میٹھی چیزوں کے بارے میں یہ تصور دیا جاتا ہے کہ جو یہ کھاتا ہے وہ زیادہ خوش رہتا ہے لیکن یہ غلط ہے۔ چینی سیروٹونین کا دشمن ہے۔
• ذہنی تناؤ پر قابو پائیں کیوں کہ یہ چیز بھی سیروٹونین کی مقدار کو کم کردیتی ہے، جس سے انسان خوش نہیں رہتا۔
• گہری نیند لیں۔ اپنے کمرے کو آرام دہ، پرسکون اور خوش بودار بنائیں تاکہ آپ گہری نیند لے سکیں۔ سونے سے دو گھنٹے پہلے کھانا کھائیں، موبائل کا استعمالہ کریں۔ دماغ کو یہ پیغام دیں کہ میں نے اپنی مصروفیات ختم کر دی ہیں اور اب میں نے سونا ہے۔ نیند سے پہلے ماضی کی اچھی یادیں ذہن میں دہرائیں۔ اس سے آپ کے اندر شکرگزاری کے جذبات پیدا ہوں گے۔
• Omega 3
خوراک کھائیں۔ یہ خوراک مچھلی کے تیل اور اخروٹ پر مشتمل ہوتی ہے، البتہ اس سلسلے میں ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کریں۔
• Vitamin B6
خوراک کھائیں۔ اس سے سیروٹونین کی سطح بہتر رہتی ہے۔ بھنے چنوں میں وٹامن 6B خاصی مقدار میں پائی جاتی ہے۔
• کھانے پینے کے معمول کومنظم بنائیں۔ بھوک لگنے پر کھائیں۔ ناشتہ بروقت کریں، دوپہر کو مختصر کھانا کھائیں۔ خوراک کے حوالے سے کسی ماہر غذائیات سے مشورہ کریں اور اس کی تجویز کے مطابق اپنی خوراک میں سلاد، پروٹین، دہی وغیرہ شامل کریں۔
• معاشرتی بندھن مضبوط بنائیں۔ لوگوں سے ملیں، اس کی بدولت انسان کی پریشانیاں کم ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس اکیلے رہنے والے فرد کے جسم میں سیروٹونین کی سطح کم ہوجاتی ہے۔
• مساج کروائیں۔ اس سے جسمانی تھکاوٹ اترجاتی ہے اور انسان کی طبیعت خوش گوار ہوجاتی ہے جس سے سیروٹونین کی سطح بڑھ جاتی ہے۔
• تخلیقی سرگرمیاں اپنائیں۔ باغبانی یا مصوری کریں۔ ہمارے دماغ کے تخلیقی اعصاب جس قدر زیادہ استعمال ہوتے ہیں، سیروٹونین کی مقدار بھی اتنی بڑھتی ہے۔
• ڈارک چاکلیٹ کھائیں، جس میں شوگر نہ ہو، اس سے بھی سیروٹونین کی سطح بڑھ جاتی ہے۔
• کھانے کے دوران غیر ضروری خیالات نہ سوچیں، کھانا حاضر دماغ ہوکر کھائیں اور اس سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کریں۔
• فطرت کے قریب رہیں۔ گھاس پر چلیں، بارش میں چہل قدمی کریں، چودھویں کا چاند دیکھیں۔ساحل سمندرکا نظارہ کریں۔
• رضا کارانہ طورپر کام کریں اور معاشرے کی فلاح کے لیے اپنی خدمات پیش کریں۔
• جانور پالیں۔ جانوروں کی دوستی بے غرض ہوتی ہے۔ ان کے ساتھ وقت گزارنے سے ذہنی تناؤ کم ہوتا ہے۔
• اروماتھراپی، یعنی خوشبو کے ذریعے علاج کرائیں۔ گھر اور دفتر میں خوشبو کا استعمال کریں اس سے طبیعت خوش گوار ہوجاتی ہے جس سے سیروٹونین کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔
نانگا پربت
دنیا کا سب سے بے رحم پہاڑ جسے “قاتل پہاڑ” کا لقب دیا گیا ہے۔
پاکستان میں دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیوں میں سے 5 موجود ہیں، جن میں کے ٹو، گاشر برم اول، براڈ پیک، گاشر برم دوم، اور نانگا پربت شامل ہیں۔
نانگا پربت، جو کہ 8126 میٹر (26660 فٹ) بلند ہے، ہمالیہ کے پیشانی پر واقع ہے۔ یہ پہاڑ سیاسی طور پر گلگت بلتستان کے علاقے میں ہے اور ضلع دیامر کے اندر آتا ہے۔
نانگا پربت اپنی قدرتی جلال اور مشکلات کی وجہ سے دنیا بھر کے کوہ پیماؤں کے لیے ایک سحر انگیز چوٹی ہے، جو انہیں اپنی حدود آزمانے کے لیے مجبور کرتی ہے۔ اس پہاڑ کی تاریخ اور اس سے منسلک داستانیں انسان کو اس کے سامنے بے بس ہونے کا احساس دلاتی ہیں، اور یہ پہاڑ اپنے دامن میں ایک ایسی پراسراریت چھپائے ہوئے ہے جو دیکھنے والوں کو ہمیشہ مسحور کیے رکھتی ہے۔
نانگا پربت، کو پہلی بار 1953 میں آسٹریا کے کوہ پیما ہرمن بول نے سر کیا تھا۔ اس وقت تک، اس پہاڑ پر کئی مشن ناکام ہو چکے تھے اور بہت سے لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
پہلی کوشش 1895 میں ہوئی تھی، جب الفریڈ ممرے نے اسے سر کرنے کی کوشش کی۔ لیکن الفریڈ ممرے اور ان کے ساتھیوں کو نانگا پربت پر پہلی ہی کوشش میں اپنی جان گنوانی پڑی۔ 1953 تک، تقریباً 31 کوہ پیما اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے تھے اور نانگا پربت کو "قاتل پہاڑ" کے نام سے جانا جانے لگا تھا۔
پاکستانی کوہ پیماؤں میں سے سب سے پہلے نانگا پربت کو سر کرنے کا اعزاز قومی ہیرو، میجر محمد اقبال کو حاصل ہوا۔ انہوں نے 1989 میں اس بلند و بالا چوٹی کو سر کر کے پاکستان کا نام روشن کیا۔ اس کامیابی کے ساتھ ہی وہ نانگا پربت کو سر کرنے والے پہلے پاکستانی کوہ پیما بن گئے۔
نانگا پربت کو سب سے زیادہ بار سر کرنے کا اعزاز پاکستانی کوہ پیما **علی سدپارہ** کو حاصل ہے، جنہوں نے اس پہاڑ کو **چار** بار کامیابی سے سر کیا تھا۔ علی سدپارہ ایک انتہائی تجربہ کار اور قابل کوہ پیما تھے جنہوں نے نانگا پربت کو نہ صرف موسم گرما میں بلکہ 2016 میں سردیوں میں بھی سر کیا تھا، جو کہ ایک تاریخی کارنامہ تھا۔
علی سدپارہ کی نانگا پربت سے وابستگی اور ان کے اس پہاڑ کو بار بار سر کرنے کی کامیابیاں انہیں کوہ پیمائی کی دنیا میں ایک نمایاں مقام عطا کرتی ہیں۔
نانگا پربت کو سر کرنے کے لیے بنیادی طور پر تین اہم راستے ہیں، جو اسے دنیا کے مشکل ترین اور متنوع چیلنجز فراہم کرتے ہیں۔ یہ راستے مختلف سمتوں سے پہاڑ تک پہنچنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں
1. **راکیوٹ/کینچن روٹ (Rakhiot/Kinshofer Route)**:
- یہ نانگا پربت کا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا اور نسبتاً آسان راستہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ راستہ پہاڑ کی شمالی جانب سے گزرتا ہے اور راکیوٹ گلیشیئر سے شروع ہوتا ہے۔ 1953 میں ہرمن بوہل نے اسی راستے سے پہلی بار نانگا پربت کو سر کیا تھا۔
2. **دیامیر فیس (Diamir Face)**:
- یہ راستہ نانگا پربت کی مغربی جانب سے گزرتا ہے۔ یہ دیامیر ضلع سے شروع ہوتا ہے اور راکیوٹ روٹ کے بعد دوسرا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا راستہ ہے۔ 1962 میں ایک جرمن-پاکستانی ٹیم نے اسی راستے سے پہاڑ کو سر کیا تھا۔
3. **روپال فیس (Rupal Face)**:
- یہ راستہ نانگا پربت کی جنوبی جانب سے گزرتا ہے اور اسے دنیا کا سب سے بڑا اور مشکل ترین پہاڑی چہرہ مانا جاتا ہے۔ یہ راستہ انتہائی دشوار اور خطرناک ہے، اور اس کے ذریعے پہاڑ کو سر کرنے کے لیے زبردست مہارت اور طاقت درکار ہوتی ہے۔ 1970 میں، مشہور کوہ پیما رین ہولڈ میسنر (Reinhold Messner) اور اس کے بھائی گونتر میسنر (Günther Messner) نے اس راستے سے چڑھائی کی تھی۔
یہ تینوں راستے اپنی نوعیت اور مشکلات کے اعتبار سے منفرد ہیں، اور کوہ پیما ان میں سے کسی بھی راستے کا انتخاب کرتے ہوئے اپنی مہارت، تجربہ، اور تیاری کے مطابق نانگا پربت کو سر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
رین ہولڈ میسنر اور ان کے بھائی گونتر میسنر نے 1970 میں نانگا پربت کو روپال فیس کے ذریعے سر کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے یہ کارنامہ انجام دیا اور نانگا پربت کی چوٹی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے، لیکن اس مہم کا انجام ایک المناک حادثے پر ہوا۔
چوٹی سر کرنے کے بعد، نیچے اترتے وقت گونتر میسنر کی طبیعت خراب ہو گئی۔ ان دونوں بھائیوں نے زیادہ محفوظ اور آسان راستہ اختیار کرنے کی کوشش کی، مگر حالات انتہائی خطرناک ہو گئے۔ رین ہولڈ نے اپنے بھائی کو بچانے کی پوری کوشش کی، مگر گونتر میسنر برفانی تودے کی زد میں آ کر لاپتہ ہو گئے اور ان کی موت ہو گئی۔
گونتر کی لاش کو کئی سالوں تک نہیں مل سکی، اور یہ ایک بڑی معمہ بن گئی۔ بالآخر، 2005 میں، گونتر میسنر کے باقیات نانگا پربت کے دیامیر فیس کے قریب پائے گئے، جس نے ان کی موت کی تصدیق کی۔
رین ہولڈ میسنر نے نانگا پربت کو سر تو کر لیا تھا، مگر اپنے بھائی کی موت کے صدمے نے ان پر گہرا اثر ڈالا۔ بعد میں انہوں نے اس مہم کے بارے میں کتابیں بھی لکھیں اور اس حادثے کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا۔ ان کی یہ مہم کوہ پیمائی کی تاریخ میں ایک انتہائی دشوار اور دلخراش واقعات میں شمار کی جاتی ہے۔
رین ہولڈ میسنر نے اپنے بھائی گونتر میسنر کے ساتھ نانگا پربت کی مہم اور اس کے دوران پیش آنے والے حادثے پر ایک فلم بھی بنائی ہے۔ یہ فلم **"Nanga Parbat"** کے نام سے 2010 میں ریلیز ہوئی تھی۔
لاہور کا انارکلی بازار جنوبی ایشیا کے قدیم ترین بازاروں میں سے ایک ہے جو آج بھی موجود ہے۔ 1890 کی دہائی میں بھی یہ بازار اپنی رونق اور اہمیت کے لیے مشہور تھا۔ اس کی تاریخ کم از کم 200 سال پرانی ہے، اور اس کا نام قریب ہی موجود ایک مقبرے سے منسوب ہے جسے مغل دور کی مشہور کنیز انارکلی کا مقبرہ سمجھا جاتا ہے۔
انارکلی بازار خاص طور پر اپنے روایتی کھانوں، دستکاریوں، اور کڑھائی کے کام کے لیے مشہور ہے۔ یہاں پرانی ثقافت اور روایتوں کی جھلک آج بھی دیکھی جا سکتی ہے، اور یہ بازار لاہور کی تاریخی اور ثقافتی ورثے کا ایک اہم حصہ ہے۔ مختلف دستکاریوں اور روایتی کپڑوں سے لے کر لذیذ کھانوں تک، انارکلی بازار اپنی منفرد پہچان رکھتا ہے اور دور دراز سے آنے والے سیاحوں کے لیے ایک اہم کشش کا مرکز ہے۔
إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسْتَعین
Today the best ⚡❤🩹
Rehmat Afridi
Actres # jamilanagudu with and also known as in movie📽📺👈
❤❤❤❤❤
iew
إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسْتَعین
Today the best ⚡❤🩹
Actres # jamilanagudu with and also known as in movie📽📺👈
❤❤❤❤❤
🥀❤️🥀
❤️❤️❤️❤️❤️
🥀🍃💕🤍💕🌿✨️
الفاظ ✍🥀💛📿.
🥀🍃💕🤍💕🌿✨️
💛 🌷 💘
الفاظ🌼❤️🥀🤍🕊️
🥀❤️🥀
Skardu
✍🥀💛📿.
🥀🍃💕🤍💕🌿✨️
💛 🌷 💘