Hafiz Bakht Ali

Hafiz Bakht Ali

Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Hafiz Bakht Ali, Shopping & retail, .

09/06/2023

دوپہر کے وقت مارکیٹ گیا تو ایک بابا جی زمین پر بالٹی اور لیموں لیے بیٹھے شکنجی بیچ رہے تھے۔ ارد گرد شکنجی اور جوس والی رہڑیاں تھیں جہاں رش تھا۔ میں نے ایک گلاس بنانے کا کہا تو معلوم ہوا کہ وہ بول نہیں سکتے اور سماعت سے بھی محروم ہیں۔ شکنجی پینے کے بعد میں نے حلق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
" واہ ❤️ مزہ ہی آ گیا ۔۔ ٹھنڈا کر دیا" ۔ وہ خوش ہو کر میری طرف دیکھتے رہے۔ کتنے کا گلاس ہے ؟ انہوں نے کاغذ میرے سامنے کر دیا جس پر "تیس روپے" درج تھا۔ میں نے سو روپے دیئے اور چلا گیا۔ پیچھے آ کر میری کمر پر ہاتھ رکھ کر ستر روپے آگے بڑھا دیئے۔ میں نے کہا آپ رکھ لیں یہ آپ کے ہی ہیں۔ پہلے میری طرف پھر آسمان کی طرف دیکھا اور واپس چلے گئے ۔۔۔۔

کچھ دیر بعد گھر سے کچھ کپڑے آنے تھے میں وہ لینے گیا۔ کنڈیکٹر سے پیسے پوچھے تو کہنے لگا آپ اس بار ایسے ہی لے جائیں۔ مجھے حیرت ہوئی کیوں کہ پچھلی مرتبہ سامان کے تین سو روپے دیئے تھے۔ میرے زور دینے پر اس نے کہا آج مجھے کسی اور کا سامان لانے پر خاصے پیسے ملے ہیں۔ آپ کے سامان کے پیسے لینے کا دل نہیں میں خوشی سے کہہ رہا ہوں۔۔ مجھے فوراً سے بابا جی یاد آئے ۔۔ یہ شاید یقین کی بات ہے یہ کوئی زنجیر ہے شاید ۔۔۔

میں اکثر ایسا کرتا ہوں کہ میرے وائلٹ میں کم پیسے رہ جائیں تو کسی مزدور یا دہاڑی دار کو دے دیتا ہوں۔ ایک مرتبہ میرے پاس صرف ایک ہزار روپے تھے اور مجھے شاید بارہ ہزار روپے کی ضرورت تھی۔ میں نے کچھ دیر سوچا اور پھر سامان لا کر امی کو دے دیا کہ چاول تو بنا دیں۔ پھر پیکٹ بنا کر بائیک پر نکل گیا ۔ راستے میں کوڑا چننے ، رکشے والے اور رہڑی والوں کو دے کر گھر آ گیا۔ آپ یقین کریں ابھی ایک گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا کہ مجھے ایک کال آئی۔ سیشن کی ڈیل طے ہوئی اور ایڈوانس پندرہ ہزار روپے میرے اکاؤنٹ میں شفٹ کر دیئے گئے۔۔۔

میں موبائل فون ایک طرف رکھ کر مسکرانے لگا اور مجھے بابا اکرام گجر کی بات یاد آئی " پتر! ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ایک کے بدلے ہمارے دس دیتا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ایک کے بدلے اپنے دس واپس کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے دس کا حساب دنیا کا کوئی ریاضی دان یا کیلکولیٹر نہیں کر سکتا" ۔ یہ عادت والد صاحب سے لی ، کاروبار میں نقصان ہو جاتا یا کوئی بڑی پریشانی آتی تو والدہ سے کہتے چاول بنا کر بانٹ دو ، یا پھر کسی رشتے دار یا جاننے والے کی طرف راشن بھیجا کرتے تھے۔ تب میں سوچتا تھا کہ ایک تو نقصان اور پھر ابو ہیں کہ ۔۔۔۔

آپ کسی کا وہ مسئلہ یا پریشانی حل کر دیجیے جو آپ کے اختیار میں ہے تو اللہ تعالیٰ آپ کی وہ پریشانی ختم کر دیں گے جو آپ کے اختیار میں نہیں ہے۔ آپ کے بڑے مسئلے حل ہو جائیں گے۔ بانٹنے والے تقسیم کرنے والے بن جائیں تو آپ کے بگڑے کام بھی بن جائیں گے۔
محبتیں سلامت رہیں ❤️
منقول

31/05/2023

میں اس معاشرے کا ڈاکٹر ہوں جہاں مریض کو موت ڈاکٹر کی وجہ سے آتی ہے اور شفاء پیر کی دعا کی وجہ سے۔۔
آج صبح چلڈرن کمپلیکس میں پیش آنے والے واقعے کی جتنا بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔۔
یہ جو تھپڑ ڈاکٹر صاحب کو پڑ رہے ہیں یہ سسٹم اور معاشرے کا بھیانک چہرہ ہے اور ڈاکٹرتنظیموں کی ناکامی ہے جو آج تک اپنا سیکورٹی بل پاس نہیں کرا سکیں۔
اگر ان ڈاکٹر صاحب کی جگہ کیسی بیوروکریسی کا بندہ ھوتا یا انکا بندہ ہوتا جنکا نام لینے پہ بھی آج کل اٹھا لیا جاتا ہے تو خاموشی نہ میڈیا پہ ہوتی نہ ہی اسمبلی میں۔۔
کیا ڈاکٹر اس ملک کے خدمت کرنے والوں میں نہیں۔۔ کیا ڈاکٹرز نے COVID-19 جیسے Pandemic میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش نہیں کیا۔۔
آخر کب تک ڈاکٹرز ان جاہل، اور اجڈ لوگوں کے تشدد کا شکار ہوتے رہیں گے۔۔
اب ڈاکٹرز تنظیموں کو seriously 😐 😳 سوچنا ہوگا۔۔

اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
جب آدمی ہمت کرتا ہے
ہر بگڑا کام سنورتا ہے
اے ڈاکٹر کیوں دلگیر ہے تو
کیوں غم کی بنا تصویر ہے تو

ڈاکٹروں کو سیکورٹی انکا بُنیادی حق ہے جوکہ ان کو ملنا چاہیے۔۔

لاہور میں موجود جیتنا بھی ڈاکٹرز کی تنظیمیں ہیں اس واقعے پر سخت ردعمل دیں اور جب تک ڈاکٹروں کے حقوق پورے نہیں کئے جاتے تب تک اپنی سروسز ہولڈ رکھیں۔۔ گورنمنٹ اور پرائیویٹ سیکٹر دونوں میں۔۔

31/05/2023

چلڈرن ہسپتال لاہور کے آئ سی یو میں ایک پری میچور(جو اپنے مقرہ وقت پیدائش سے پہلے پیدا ہوجاۓ،یہ بچہ سات مہینے میں ہی پیدا ہوگیا تھا)بچہ لایا جاتا ہے
،جسے کسی قسم کا کوئی حفاظتی ٹیکہ نا لگا ہونے کی وجہ سے نمونیا ہوجاتا ہے،یہ بچہ وینٹیلیٹر پر منتقل کیا جاتا ہے ،نمونیا کی شدت سے بچے کا پھیپھڑہ پھٹ جانے کی وجہ سے اسے پھیپھڑے کے اندر ایک نالی لگا دی جاتی ہے اور اس بچے کے گھر والوں کی اسکی مکمل حالت بتائ جاتی ہے جس پر اسکے لواحقین اطمینان کا اظہار کرتے ہیں ،بعد میں اسی بچے کی وفات پر وارڈ میں ہنگامہ ہوتا ہے اور ایک ایسا ڈاکٹر جس کا اس بچے کے بیڈ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا وہ بیچارہ مریض کے رشتہ داروں کے ہاتھ چڑھ جاتا ہے اور وہ لوگ مار مار کے اس ڈاکٹر کے ناک کے ہڈی اور دماغ کی ہڈی توڑ دیتے ہیں،
کیوں؟؟؟
یہ نہیں پتا۔۔۔
انکے نزدیک انکے بچے کا علاج ٹھیک نہیں کیا گیا...
شاید وقت سے پہلے بچے کی پیدائش بھی ڈاکٹر کی غلطی تھی؟؟؟
یا بچے کو حفاظتی ٹیکے وقت پر نالگنا ڈاکٹر کی غلطی تھی؟؟؟
اور ڈاکٹر بھی اسکی جو انکے علاج پر معمور ہی نہیں تھا ؟؟؟
اس ڈاکٹر کا بس یہ قصور تھا کہ وہ اس وقت وہاں سے بھاگ نا سکا اور لواحقین کے ہتھے چڑھ گیا جو کہ محکمہ پولیس سے تعلق رکھتے تھے ،،، اور اجکل پولیس والوں کے اختیارات کا سب کو پتا ہی ہے کہ جس کو مرضی پکڑ کر رگڑ دیں کوئی پوچھنے والا نہیں ۔۔۔
ڈاکٹر پر تشدد کے باعث ڈاکٹر کی دماغ کی ہڈی کے ٹوٹنے کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب جنرل ہسپتال کے آئ سی یو میں داخل ہیں مگر جب ایف آئی آر درج کروانے کی بات ہوئ تو پولیس اپنے پیٹی بھائیوں پہ پرچہ کاٹنے پر راضی نہ تھی ،
پھر احتجاجاً فیروز پور روڈ بند کرنے پر ایک کمزور سی ایف آئی آر درج کی گئ۔۔۔
سوال یہ ہے کہ ایک ادارے کی رہائش گاہ پہ حملہ کرنے کی سزا انسان کو پوری دنیا میں نشان عبرت بنا دینا ہے تو باقی اداروں کی عمارتیں مقدس نہیں ہیں کیا؟؟؟
انکی توڑ پھوڑ پہ اتنی کمزور سی ایف آئی آر کیوں؟؟؟
کیوں ایسا کوئ قانون نہیں جو ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کا دفاع کرنے کیلئے ہو؟؟؟
2 سال پہلے وکلاء نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کو تہس نہس کر دیا تھا،ان میں سے کسی ایک کو کوئ سزا نہ ہوسکی۔۔۔
اگر تب سزا ہوئ ہوتی تو آج لوگ ہسپتالوں کو بھی توڑنے سے ڈرتے ہوتے۔۔۔
کیا سرکاری ہسپتال سرکاری املاک میں نہیں آتے کیا؟؟؟
اور اس سب میں باقی بچوں کے علاج میں جو خلل آیا اسکا ذمہ دار کون؟

پچھلی پوسٹ میں ڈاکٹر پر تشدد کی ویڈیو لگائی تھی

31/05/2023

خبردار ہوشیار رہو

آج کل پاکستان کے مختلف شہروں میں ہر فرد کے موبائل فون میں میں نے خود دیکھا ہیں " نان کسٹم موبائل واٹس ایپ گروپ "۔جو ہمارے غریب لڑکے اور لڑکیوں کو اپنے جال میں لانے کے لیے بنایا گیا ہے اس گروپ میں ایڈمن سستے موبائل اور لیپ ٹاپ واچ کی فوٹوز سینڈ کرتا ہے اور ساتھ میں موبائل کی قیمت 1000ہزار لیپ ٹاپ کی 15000 اور واچ کی قیمت 5000 جس میں یہ غریب لوگوں کو لالچ میں لے آتے ہیں اور غریب لوگ لالچ میں آ کر اسے پرسنل میں ایس ایم ایس کر دیتے ہے کہ سر مجھے یہ موبائل چاہیے تو ایڈمن اس کو بولتا ہے کہ آپ اس ایزی پیسہ نمبر پر ہاف قیمت ادا کر دو باقی قیمت پارسل کے بعد ادا کر دینا غریب آدمی خوش ہو کر اسے ہاف قیمت اسے سینڈ کر دیتا ہے فر ایڈمن اس کو بولتا ہے کہ آپ پانچ منٹ انتظار کرے میں آپ کا پارسل پیک کرواتا ہوں اور آپ کو TCS کی سلپ اور پارسل کی ویڈیو سینڈ کرتا ہوں لیکن وہ آپ Fake Tcs ( جعلی) کی سلپ بنا کر سینڈ کر دیتا ہے اور پارسل کی ویڈیو انٹرنیٹ سے ڈونلوڈ کر کے آپ کو سینڈ کر دیتا اور بولتا ہے آپ کو 24 گھنٹے میں پارسل پہنچ جاۓ گا اور ساتھ میں یہ بولتا ہے کہ آپ نے TCS دفتر نہیں جانا کیونکہ ہمارا TCS والوں ساتھ کوئ رابطہ نہیں ہوتا کیونکہ ہمارا مال نان کسٹم ہوتا ہے وہ فر آگے نہیں بھیجتے اسلیے ہم نے آپنا خود کا TCS دفتر بنایا ہوا ہے Tcs والا آپ سے خود رابطہ کرے گا اور جب 24 گھنٹے گزرتے ہیں تو آپ کو ایک واٹس ایپ پر ایک ایس کرتا ہے Fake TCS والا اور بولتا ہے کہ سر آپ کا پارسل میں لے کر آرہا ہوں آپ مجھے TCS کی سلپ اور پارسل کی ویڈیو سینڈ کریں کسٹمر تو دونوں چیزے سینڈ کرتا ہے لیکن TCS والا دوبار ایس ایم ایس کرتا ہے کہ سلپ میں CN نمبر کراس ہے مجھے CN نمبر سینڈ کریں گے تو ہی میں پارسل آپ کا آپ کے ایڈریس پر لے آؤں گا کسٹمر ایڈمن کو ایس ایم ایس کرتا ہے سر مجھے CN نمبر سینڈ کریں تو ایڈمن بولتا ہے 2 منٹ انتظار کرو میں اونر سے لے کر سینڈ کرتا ہوں 2منٹ بعد ایڈمن میسج کرتا ہے کہ کسٹمر کی ہاف قیمت ادا کرنے والی بقایا رہتی ہے تو اونر کہتا ہے کہ بقایا قیمت ادا کرے گے تو ہیں CN نمبر ملے گا غریب آدمی فر لالچ میں آکر بقایا قیمت ایزی پیسہ کر دیتا ہے فر ایڈمن CN نمبر سینڈ کرتا ہے تو کسٹمر TCS والے کو CN نمبر سینڈ کرتا ہے تو وہ آگے سے بولتا ہے کہ ادھر ابھی ہماری نان کسٹم گاڑی چیک ہو رہی ہے تو آدھا گھنٹا لگ جاۓ گا یہاں تو آدھے گھنٹے بعد TCS والا فر میسج کرتا ہے کہ کسٹم والوں نے ہمارا سارا مال پکڑ لیا ہے تو کسٹم والے ایک پارسل کا 9000 ہزار مانگ رہے ہیں تو آپ جلدی میں آپ کو ایزی پیسہ نمبر سینڈ کر رہا ہوں اس پر قیمت ادا کر دو باقی پارسل والے لوگ بھی قیمت ادا کر رہے ہیں اور وائس کرتا ہے کہ آپ سوچو کہ آپ کسٹم ادا کر دو گے تو آپ کا 1000ہزار والا موبائل 60000 میں مارکیٹ میں سیل ہو سکے گا ادھر آ کر تو آپ کو پتہ چل جانا چاہیے کہ یہ لوگ صرف آپ کے ساتھ فراڈ کر رہے ہیں لیکن کچھ لوگ فر لالچ میں آکر 9000ہزار سینڈ کر دیتے ہیں
تقریباً ہر شہر میں یہ گروپ چل رہا ہے اور یہ لوگ نہ جانے کہاں سے ہیں اور آپ اگر ان سے گودام کا ایڈریس پوچھو تو یہ ہر شخص کو علیحدہ علیحدہ ایڈریس بتاتے ہیں زیادہ تر بلوچستان کا ایڈریس کسی کو چمن بارڈر کسی کوہٹہ کسی کو گوادر کسی کو قلعہ سیف اللہ کسی کو ایران بارڈر اور یہ لوگ آپ سے بہت پیارے انداز میں بات کرتے ہیں کہ ہر شخص ان کی جال میں پھنس جاۓ۔
سب مل کر اس کام میں ہماری مدد کیجیے تاکہ غریب لوگ اس فراڈ سے بچ سکیں اس میسج کو میں چاہتا ہوں کہ پورے پاکستان میں سینڈ کیا جاۓ

30/05/2023

📱منگیتر سے باتیں کرکے اُسے خراب نہ کرو...

ہمارے معاشرے میں اکثریت شادی سے پہلے منگیتر سے بات کرتی ہے، جب انہیں روکا جاتا ہے سمجھایا جاتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ کبھی کبھی کرتے ہیں، کچھ کہتے ہیں کہ ہم حدود میں رہ کر بات کرتے ہیں، کچھ کہتے ہیں کہ شادی سے پہلے انڈرسٹینگ ہوجاتی ہے اس لیے کرتے ہیں، کچھ کہتے ہیں کہ اسکے بغیر دل نہیں لگتا شادی میں دیر ہے تو بات کرکے دل بہلا لیتے ہیں وغیرہ وغیرہ...

یقین جانیں یہ تمام دلائل ذرہ برابر وذن نہیں رکھتے سیدھی بات ہے ہمارا اپنے نفس پر کنٹرول ہی نہیں ہے ہم خواہشات کے غلام بنے ہوۓ ہیں، جو دل کہتا ہے وہ ہم کرتے ہیں، ضمیر کی آواز ہمیں نہیں آتی، کہتے ہیں منگیتر کے بغیر دل نہیں لگتا ارے یہی تو آذمائش ہے کہ اپنے نفس کو مار کر اپنی آگے کی زندگی بنانی ہے، یہی تو امتحان ہے کہ ہم اللہ کے حکم کو اوپر رکھتے ہیں یا اپنی دلی خواہشات کو پورا کرتے ہیں، جہاں 20 سے 25 سال انتظار کیا وہاں ایک دو سال انتظار کرنے میں کیا برائ ہے...

لیکن نہیں

ہم تو اپنے نفس کی مانیں گے، ایک ساتھی کہنے لگا "کبھی کبھی کرتے ہیں" ارے جناب کبھی کبھی بھی کیوں کرتے ہو میرے دوست...؟

تمہارا یہ "کبھی کبھی" کسی دن گلے میں آجاۓ گا پھر ساری عمر ایک دوسرے کو طعنے دیتے پھرو گے کہ شادی کے بعد بہت بدل گۓ ہو...

ایک ساتھی نے کہا "انڈرسٹینڈنگ ہوجاتی ہے" جیسے کسی نرانی مخلوق سے نکاح ہونے جارہا ہے جو انڈرسٹینڈنگ کی انہیں ضرورت ہے، انڈرسٹینگ کے چکر میں گاڑی کے اپنے گیئر پھنس جاتے ہیں اور لگانے پر بریک بھی نہیں لگتا نتیجہ کسی برے ایکسڈنٹ سے کم نہیں نکلتا،
جاؤ جا کر دیکھو معاشرے میں منگیتر کے نام پر کس قدر بے حیائ عام ہوچکی ہے، ہوٹلیں ریسٹرونٹس، کافی شاپس بھرے پڑے ہیں، کون ہے ؟ جواب ملتا ہے آپ کی ہونے والی بھابھی...اور تو اور تحفے تحائف کی لین دین اعلی سطح پر جاری ہے، بڑا مہنگا اینڈرائڈ موبائل گفٹ کیا جارہا ہے، کڑھائ والا سوٹ بھیجا جارہا ہے، یہاں تک بات محدود نہیں ہوتی بعض تو تمام حدیں پار کرجاتے ہیں کہ یہاں لکھنے سے گریذ کرتا ہوں...

دراصل منگیتر سے بات کرنا تمام برائیوں کا زینہ ہے، پہلے بات ہوتی ہے کہیں گے صرف بات کرتے ہیں پھر دیکھنا دکھانا ہوگا، تصاویر بھیجی جائیں گی، پھر آہستہ آہستہ ایک دوسرے کے لیۓ تحفے خریدے جائیں گے، بات آگے بڑھے گی ملاقات کرنے کے مواقع ڈھونڈے جائیں گے...بات کرتے کرتے آہستہ آہستہ انسان دوسرے گناہوں کی طرف جانے لگتا ہے...

اور میرے دوست اگر تم صرف موبائل پر ہی بات کرتے ہو نا تو یہ بھی تم خود اپنے منگیتر کو اپنے ہاتھ سے خراب کر رہے ہو، ساری شرم حیا ادب و آداب تم خود اپنے ہاتھ سے ختم کر رہے ہو، نکاح کی برکتیں رحمتیں سب اپنے ہاتھ سے ختم کر رہے ہو، جو لوگ نکاح سے پہلے موبائل فون پر باتیں کرتے ہیں نکاح کے بعد انکی زندگی پر 100 فیصد اسکے اثرات مرتب ہوتے ہیں، شادی کے کچھ ہفتوں بعد ہی تم خود محسوس کرو گے کہ بیوی میری عزت نہیں کرتی، میرا کہنا نہیں مانتی، جو بات پہلے تھی وہ اب نہیں رہی، وہ ادب، وہ اخلاق، وہ پیار، وہ محبت، وہ وعدے، وہ قسمیں سب ہوا میں گم ہوجائیں گے...
لہذا میرے بھائیو اس چیز سے مکمل دور رہنا ہے، اپنے نفس پر قابو پانا ہے، آپ کی ہی منگیتر ہے کیوں اس سے بات کرکے اسے خراب کر رہے ہو، تھوڑا سا صبر کرلو، ذرا خدا تعالی کی مہر لگ جانے دو...

اسی طرح بہنوں سے کہوں گا کہ یہ جو نکاح سے پہلے سہانے خواب دکھاتا ہے، محبت کے دعوے بھرتا ہے، یقین جانیں یہ خود شادی کے بعد کسی اور کے خواب دیکھے گا، کسی اور سے ہاتھ ملاۓ گا، کسی اور کے ساتھ مسکراۓ گا، خود دوستوں سے کہتا پھرے گا کہ تمہاری بھابھی اچھی ہے لیکن کوئ اور ہوتی تو کیا ہی بات تھی...واللہ میری بہنوں!
نکاح سے پہلے منگیتر سے رابطہ تمہارا مقام، تمہاری عزت شوہر کی نظر میں ختم کرکے رکھ دے گا...

نکاح کے بعد ہی ایک دوسرے کو دیکھنا، باتیں کرنا، ملاقات کرنا درحقیقت عزت، ادب، اخلاق اور غیرت مندی کا مظاہرہ ہے، یہی لوگ کامیاب اور خوشگوار ازدواجی زندگی گزارتے ہیں کہ نکاح سے پہلے دونوں نفس پر قابو کیے کبھی ہمکلام نا ہوۓ، انہوں نے اللہ کے احکامات اور رسول اللہﷺ کے فرمان کو اولین ترجیح دی، اس عمل کو گناہ کبیرہ مانتے رہے، یہ شرم و حیا کے پیکر بنے رہے، انہوں نے بذرگوں کی روایات کو سامنے رکھا، فحاشی کے اس دور میں بھی خواہشات کے خلاف لڑتے رہے اور اب انکی زندگی خوب سے خوب تر ہونے کو ہے، خدا گواہ ہے کہ بے شمار برکتیں اور رحمتیں انکے نکاح کا انتظار کررہی ہیں...

رب تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرماۓ...آمین...!!!

24/05/2023

!!...ماں دوائیوں سے کہاں ٹھیک ہوتی ہیں...!!

ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ كا ﭘﻨﮑﭽﺮ ﻟﮕﻮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﯿﮟ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮨﻔﺘﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺟﺎﻭﮞ ﺗﻮ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ ،ﺩﯾﺮ ﺗﻮ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﮩﺎﮞ ﭘﭽﮭﻠﮯ ﺗﯿﻦ ﮨﻔﺘﮯ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﮔﺰﺍﺭ ﮨﯽ ﻟﻮﮞ ﺗﻮ ﮔﺮﻣﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﭼﮭﭩﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺑﺎﺭ ﭼﻼ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ۔ ﺍﺳﯽ ﺳﻮﭺ ﺑﭽﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﮈ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻨﺪﺭﮦ ﺳﻮﻟﮧ ‏ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﻮﺟﻮﺍﮞ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﺘﻮﺟﮧ ﭘﺎﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﻋﺠﯿﺐ ﺳﻮﺍﻟﯿﮧ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻧﺐ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ، ﺟﯿﺴﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮦ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﻟﯿﮑﻦ ﺭﺵ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﭘﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔

ﺟﺐ ﭘﻨﮑﭽﺮ ﻟﮓ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﮐﻮ 1000 ﺭﻭﭘﮯ ﮐﺎ ﻧﻮﭦ ﺩﯾﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ 100
ﺭﻭﭘﮯ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﺑﺎﻗﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﺮ ﺩﯾﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﮐﺮ ﺟﻮﻧﮩﯽ
ﻭﺍﭘﺲ ﺷﮩﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﮍﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻟﮍﮐﺎ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁ ﮐﺮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ :

" ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺟﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻣﺰﺩﻭﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ، ﺁﺝ ﺩﯾﮩﺎﮌﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﯽ ﺁﭖ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮐﺎ ﮐﺮﺍﯾﮧ 100 ﺭﻭﭘﮯ ﺩﮮ ﺩﯾﮟﮔﮯ" ؟؟

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﭼﭩﺘﯽ ﺳﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮈﺍﻟﯽ، ﺳﺎﺩﮦ ﺳﺎ ﻟﺒﺎﺱ، ﻣﺎﺗﮭﮯ ﭘﺮ ﺗﯿﻞ ﺳﮯ ﭼﭙﮑﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺎﻝ، ﭘﺎﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﯿﻤﻨﭧ ﺑﮭﺮﺍ ﺟﻮﺗﺎ، ﻣﺠﮭﮯ ﻭﮦ ﺳﭽﺎ ﻟﮕﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ 100 ﺭﻭﭘﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﺎتھ ﭘﺮ ﺭﮐھ ﺩﺋﯿﮯ ،ﻭﮦ ﺷﮑﺮﯾﮧ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭼﻠﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﮐﯿﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺁﯾﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ، "ﺳﻨﻮ، ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺩﯾﮩﺎﮌﯼ ﮐﺘﻨﯽ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﮯ؟"

ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﺎﻗﯽ ﮐﮯ 800 ﺭﻭﭘﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ
ﺑﮍﮬﺎ ﺩﯾﮯ۔ ﻭﮦ ﮨﭽﮑﭽﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﭩﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ

" ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺟﺎﻥ ! ﻣﯿﺮﺍ ﮔﮭﺮ ﻣﻨﮉﮬﺎﻟﯽ ﺷﺮﯾﻒ ﮨﮯ، ﻣﯿﮟ دو تین گھنٹے میں ﭘﯿﺪﻝ ﺑﮭﯽ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﮐﻞ ﺳﮯ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﯽ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﭨﮭﯿﮏ ﻧﮩﯿﮟ، ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﺩﯾﮩﺎﮌﯼ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ
ﻟﮕﯽ، ﺳﻮﭼﺎ ﺁﺝ ﺟﻠﺪﯼ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﮐﺮ ﻟﻮﮞ ﮔﺎ".

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ:
" اﭼﮭﺎ ﯾﮧ ﭘﯿﺴﮯ ﻟﮯ ﻟﻮ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻭﺍﺋﯽ ﻟﮯ ﺟﺎﻧﺎ"

ﻭﮦ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ :
" ﺩﻭﺍﺋﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﮐﻞ ﮨﯽ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺁﺝ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺭﮨﻮﮞ ﮔﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ، ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺩﻭﺍﺋﯽ ﺳﮯ ﮐﮩﺎﮞ ﭨﮭﯿﮏ ہوﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺑﺎﺑﻮﺟﯽ"۔۔😓😓

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ " ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟"

ﺍﺗﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺲ ﺑﮭﯽ ﺁ ﮔﺌﯽ، ﻭﮦ ﺑﺲ ﮐﯽ ﭼﮭﺖ ﭘﺮ ﻟﭙﮏ ﮐﺮ ﭼﮍﮪ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﺑﻮﻻ

"ﮔﻠﻮ " ۔

ﮔﻠﻮ ﮐﯽ ﺑﺲ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺩﻭﺭ ﮨﻮﺗﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﮔﻠﻮ ﮐﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﯿﮯ ﮨﻮﺋﮯ 800 ﺭﻭﭘﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﮨﺘﮭﯿﻠﯽ ﭘﺮ ﭘﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺋﯽ ﺳﭩﺮﯾﭧ ﮐﮯ ﺭﺵ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ کو یکدﻡ ﺑﮩﺖ ﺍﮐﯿﻼ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻣﻮﭨﺮﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﮐﺎ ﺭﺥ ﺭﯾﻠﻮﮮ ﺍﺳﭩﯿﺸﻦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﻮﮌ ﻟﯿﺎ۔ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﮐﻮ ﺍﺳﭩﯿﻨﮉ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﺍ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭨﻮﮐﻦ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭨﮑﭧ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ 700 ﺭﻭﭘﮯ ﻣﯿﮟ ساہیوﺍﻝ ﮐﺎ ﭨﮑﭧ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﮯ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﻨﭻ ﭘﺮ ﺑﯿﭩھ ﮔﯿﺎ۔ ﮐﺐ ﮔﺎﮌﯼ ﺁﺋﯽ، ﮐﯿﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﺍ ﮐﭽﮫ ﺧﺒﺮ ﻧﮩﯿﮟ، ساہیوال ﺍﺳﭩﯿﺸﻦ ﭘﺮ ﺍﺗﺮ ﮐﮯ ﭘﮭﺎﭨﮏ ﺳﮯ اپنے گاؤں کی وین ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﺍ، ﺁﺧﺮﯼ ﺑﭽﮯ ﮨﻮﺋﮯ 100 ﺭﻭﭘﮯ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺟﺐ ﺷﺎﻡ ﮈﮬﻠﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺳﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺻﺤﻦ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯽ ﭘﺮ ﺍﻣﯽ ﺟﺎﻥ ﺳﺮ ﭘﺮ ﮐﭙﮍﺍ ﺑﺎﻧﺪﮬﮯ ﻧﯿﻢ ﺩﺍﺭﺯ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﮍﺍ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺩﻭﺍﺋﯽ ﮐﺎ ﭼﻤﭻ ﺑﮭﺮ ﮐﺮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﭘﻼ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔

ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﺍﻣﯽ ﺟﺎﻥ ﺍﭨھ ﮐﺮ ﮐﮭﮍﯼ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻧﭽﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯿﮟ ‏ﻣﯿﺮﺍ ﭘﺘﺮ ﺧﯿﺮ ﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﺁ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ! ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮﮞ " ۔ 😍

میں آﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮭﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﻭﮌ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﺟﺎ ﻟﮕﺎ۔😓 ﺑﺲ ﮐﮯ ﮔﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﮮ "ﮔﻠُﻮ" ﮐﺎ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﭼﮩﺮﮦ ﯾﮏ ﺩﻡ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ 800 ﺭﻭﭘﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﯿﮯ ﺗﮭﮯ۔

والدین کی جان اپنے بچوں میں ہوتی اس بات کا خیال رکھا کریں۔ والدین کا کوئی نعم البدل نہیں، اگر آپ انہیں کچھ نہیں دے سکتے تو خیر ھے لیکن انہیں اپنی زندگی میں سے وہ قیمتی وقت ضرور دیں جن سے انہیں احساس ہو گے وہ آپ کے لئے انتہائی اہم ہیں۔
!!!۔۔ماں دوائیوں سے کہاں ٹھیک ہوتی ہیں۔۔۔۔!!!!

ماں باپ کو آپکے پیسوں کی نہیں آپکی بھیجی دواؤں کی نہیں آپ کی ضرورت ہوتی ہے.

خوش رہیں۔۔خوشیاں بانٹیں ،،!! 💞

23/05/2023

سرکاری ہسپتال میں ایک بندے کو بلڈ دینے گیا۔
فرصت ملنے پر ادھر موجود ٹک شاپ سے برگر اور جوس خریدا اور مزے سے وہیں کھڑے کھڑے کھانا پینا شروع کر دیا۔
عین اسی وقت میری نظر بنچ پر بیٹھے ایک معصوم بچے پر پڑی جو بڑی حسرت سے دیکھ رھا تھا۔
میں نے انسانی ہمدردی میں جلدی سے اس بچے کیلئے بھی برگر اور جوس خریدے جو بچے نے بلا تکلف لیکر جلدی جلدی کھانے لگا۔
بیچارہ پتہ نہیں کب سے بھوکا ھوگا۔
یہ سوچ کر میں نے خدا کا شکر ادا کیا جس نے مجھے ایک بھوکے کو کھانا کھلانے کی توفیق بخشی۔
اتنی دیر میں بچے کی ماں، جو اس کی پرچی بنوانے کیلئے کھڑکی پر کھڑی تھی، واپس آئی اور بچے کو برگر کا آخری ٹکڑا کھاتے دیکھا۔
پھر اچانک پتہ نہیں اسے کیا ھوا کہ وہ دونوں ہاتھ اٹھا کر، باقاعدہ قبلہ رخ ھوکر، اس شخص کو بددعائیں دینے لگی جس نے اس کے بچے کو یہ چیزیں لیکر دی تھیں۔
کہہ تو وہ بہت کچھ رھی تھی، مگر میں نے وھاں سے فرار ھوتے ھوئے جو چند باتیں سنیں وہ یہ تھیں:
انتہائی بیغیرت اور خبیث تھا وہ شخص جس نے میرے بچے کو برگر لے کے دیا۔

میں 25 کلومیٹر دور سے کرایہ لگا کر اس کے خالی پیٹ ٹیسٹ کروانے لائی تھی😆😝😜
منقول

23/05/2023

گندم سے فری ہو کر کسان ۔تھریشر شادی بیاہ پر کرائے پر چلا سکتے ہیں 😅😅

22/05/2023

لبنانی شخص اپنی کہانی سناتا ہے کہ میں جاپان کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں ٹھرا ہوا تھا -
میں ہوٹل کے سوئمنگ پول میں اترا تب میرے علاوہ وہاں کوئی نہیں تھا،نہاتے نہاتے می‍ں نے سوئمنگ پول میں پیشاب کر دیا کسی کیمیکل کی وجہ سے چند لمحوں میں پورے سوئمنگ پول کے پانی کا رنگ تبدیل ہوگیا
سکیورٹی پر معمور افراد فوری پہنچ گئے اور مجھے سوئمنگ پول سے نکالا، میری نظروں کے سامنے عملہ آیا اور سوئمنگ پول کے پانی کو تبدیل کر دیا -
مجھے ہوٹل کے ریسیپشن میں بلایا گیا میرا پاسپورٹ اور سامان مجھے پکڑا دیا گیا اور ہوٹل سے مجھے باہر کر دیا -
اب میں شہر کے جس بھی ہوٹل کا رخ کرتا ریسیپشن پر بیٹھا عملہ میرا پاسپورٹ دیکھ کر کہتا تم ہی ہو نا جس نے سوئمنگ پول میں پیشاب کیا تھا -
مجھے کسی فائیو سٹار ہوٹل میں روم نہیں ملا، میں نے اپنے سفارت خانے کا رخ کیا اور انہیں ساری کہانی سنا دی، سفارت خانے سے یہ راہنمائی ملی کہ ایسا ہوٹل تلاش کریں جہاں سوئمنگ پول نہ ہو -
میں جب جاپان چھوڑنے کیلئے ائیرپورٹ امیگریشن پہنچا تھا میرے پاسپورٹ پر مہر لگاتے ہوئے وہاں کے ایک آفیسر نے کہہ دیا امید ہے آپ کو اچھا سبق ملا ہوگا -
وہ لبنانی شخص کہتے ہیں تین دنوں میں پورا جاپان جان چکا تھا کہ میں ہی تھا جس نے سوئمنگ پول میں پیشاب کیا تھا، اس واقعے کو عرصہ بیت گیا آج بھی کوئی جاپانی مجھے نظر آتا ہے تو مجھے لگتا ہے اسے بھی پتہ ہوگا.
دوسری طرف ہمارے ملک میں اربوں ڈالر ملک کے لوٹ لیے گیے، خزانہ خالی کر دیا گیا لیکن
کسی کو پتہ ہی نہیں ہے کہ کون لوٹ گیا، کون کھا گیا، کس نے ہاتھ صاف کیا -
ہمارے اداروں نے ہمیں معلوم ہی ہونے نہیں دیا کہ کون کون ک ت ے کا بچہ ٹانگ اٹھا کر قومی خزانے میں کتنا پیشاب کر گیا ہے

22/05/2023

*رومن اردو ایک بڑی غلطی:*

رومن اُردو سے مراد
اُردو الفاظ کو انگریزی حروف تہجی کی مدد سے لکھنا ہے.

مثلاً کتاب کو Kitaab اور دوست کو Dost لکھنا۔

اس طرزِ تحریر کو دشمنِ اردو کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا۔

اگر قارئین اس بات کو نہیں سمجھے کہ رومن اردو سے اردو رسم الخط کو کیا خطرہ لاحق ہے تو اس کو سمجھنے کے لیئے ترکوں کی مثال دی جا سکتی۔

سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد ١٩٢٨ء میں سیکولر ذہنیت کے حامل کمال اتا ترک نے کئی طریقوں سے اسلام سے اپنی نفرت کا اظہار کیا۔ جیسا کہ آذان پر پابندی، حج و عمرہ کرنے کو ممنوع قرار دیا گیا،
ایا صوفیہ جیسی عظیم الشان مسجد کو میوزیم میں تبدیل کیا گیا اور یہاں تک کہ ہجری کیلنڈر کی جگہ عیسوی کلینڈر کو نافذ کیا گیا۔

کمال اتا ترک نے اسلام دشمنی کا ایک اور ثبوت دیا اور ترکی زبان جو عربی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی اسے بدل کر رومن حروف میں لکھنے کا حکم دے دیا۔

جواز یہ پیش کیا گیا کہ اس سے شرح خواندگی اوپر آئے گی۔ لیکن اس اقدام کا اصل مقصد آنے والی تُرک نسل کو اسلامی کتب جو عربی رسم الخط میں تھیں ان سے دور کرنا تھا۔ اس بات کا واضح ثبوت ترکی کے پہلے وزیر اعظم عصمت انونو کے ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ ”حرف انقلاب کا مقصد نئی نسل کا ماضی سے رابطہ منقطع کرنا اور ترک معاشرے پر مذہب اسلام کی چھاپ اور اثر و رسوخ کو کمزور بنانا ہے۔” (یادداشتِ عصمت انونو، جلد دوئم، ص، 223)

یہ اسلام دشمن منصوبہ کامیاب رہا اور آنے والی نسل دیگر کتب تو دور کی بات قرآن مجید پڑھنے میں بھی دشواری کا سامنا کر رہی تھی۔ کیونکہ قرآن مجید بھی عربی رسم الخط میں ہے۔ نتیجے کے طور پر سلطنت عثمانیہ کے زمانے میں لکھی جانے والی بیش بہا کتب کا خزانہ تو موجود تھا لیکن ترک ان کتابوں کو پڑھنے سے قاصر تھے۔

کسی نے ان حالات کا کیا خوب تجزیہ کیا ہے کہ ترک قوم رات کو سوئی تو پڑھی لکھی لیکن صبح اٹھی تو ان پڑھ ہو چکی تھی کیونکہ ان کا واسطہ ایک ایسے رسم الخط سے پڑا تھا جس سے وہ نابلد تھے۔

ترک اس حادثے کو اب تک نہیں بھولے اور اسی حوالے سے صدر رجب طیب اردوگان نے کہا تھا، ’’دنیا میں مجھے ایسی کوئی قوم بتا دیں جو اپنی تاریخ اور تہذیب کے اصلی نسخوں ہی کو پڑھنے سے محروم ہو؟“

افسوس کہ ہماری قوم بھی ہر گزرتے دن اپنے رسم الخط کو فراموش کرتی جا رہی ہے اور ہم بھی یہی غلطی دُہرا رہے ہیں۔

حکومت کی جانب سے رفاہِ عامہ کے لئئے جاری ہونے والے پیغامات ہوں یا پھر موبائل کمپنیوں کی جانب سے موصول ہونے والے اشتہارات اب ہر جگہ رومن اردو نے پنجے گاڑھ لیئے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ رومن اردو کا آغاز کب ہوا لیکن اسے ”عروج“ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے کہ فیس بک، ٹوئٹر اور واٹس ایپ نے بخشا۔ابتدائی ایام میں جب موبائل فونز میں اردو کی بورڈ (Keyboard) میسر نہ تھا تو رومن اردو لکھنا سب کی مجبوری تھی لیکن یہ مجبوری ہماری عادت اور سُستی بن گئی اور اب اردو کی بورڈ موجود ہونے کے باوجود ہم رومن اردو کو چھوڑنے پر راضی نہیں۔ (اگر آپ کے موبائل فون میں اردو کی بورڈ میسر نہیں تو پلے اسٹور سے باآسانی ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔)

کچھ افراد کا کہنا ہے کہ اردو کی بورڈ استعمال کرتے ہوئے اردو لکھنا مشکل اور وقت طلب کام ہے تو ان کے لیئے عرض ہے کہ جاپانی اور چینی انٹرنیٹ بلکہ کسی بھی جگہ رومن رسم الخط کا استعمال نہیں کرتے بلکہ اپنے رسوم الخط کو ترجیح دیتے ہیں۔

کیا اردو اب جاپانی اور چینی زبان سے بھی مشکل ہو گئی ہے جو ہم اس سے دور ہو رہے ہیں؟اسی طرح کچھ احباب اردو رسم الخط سے اس لیئے بھاگتے ہیں کہ املاء کی غلطی کے باعث کوئی ان کا مذاق نہ اڑائے جیسے کہ اگر لفظ ”کام“ کو رومن اردو میں لکھنا ہو تو یوں لکھا جا سکتا ہے Kaam یا kam بلکہ Km لکھنے سے بھی کام بن جائے گا۔ کیونکہ اس کے لکھنے کا کوئی اصول نہیں۔ لیکن اگر اردو رسم الخط کا استعمال کرتے ہوئے کام کو ”قام“ لکھ دیا تو غلطی پکڑی جا سکتی ہے۔ اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے اگر کوئی ہمارے املاء کی تصحیح کر دے تو ہمیں اس کے لیئے ان کا شکر گزار ہونا چاہیئے ۔

رومن اردو کی جانب ہمارے جھکاؤ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم بحیثیت قوم انگریزی زبان سے بیحد مرعوب ہیں۔

ہمیں اس بات کو سمجھنے میں دیر نہیں لگانی چاہیئے کہ کسی بھی زبان کو بننے اور بگڑنے میں وقت لگتا ہے یا پھر یوں کہا جائے کہ آنے والی نسلیں زبان کی صورت بناتے یا بگاڑتے ہیں۔

ہمارے ہاں ایک نسل تو رومن اردو لکھتے بڑی ہو گئی

اور

اگر اب بھی رومن اردو کا راستہ نہ روکا گیا تو حالات وہی ہو جائیں گے کہ اردو تحریر دیکھ کر لوگوں کو سمجھ ہی نہ آئے گی کہ لکھا کیا ہے اور اس بات پر سارے متفق ہیں کہ

جس زبان کا رسم الخط نہ رہے تو اس کے دامن میں موجود ادب کا بیش بہا سرمایہ بھی ضائع ہو جاتا ہے۔ تمام دوستوں سے گزارش ہےکہ اردو رسم الخط کا استعمال کریں شروع میں کچھ دن ٹینشن ھوگی پھر تیزی آ جاۓ گی❤️
منقول

22/05/2023

Let's. Laugh.

CAN you help ME
*کسی کو پتہ ہے کہ؟؟*
😅🙂دل پر رکھنے والا پتھر کہاں سے ملے گا اورکتنے کلو کا ہونا چاہیے؟ 🙄

کسی کے زخموں پر نمک چھڑکنا ہو تو کونسا ٹھیک رہے گا؟؟
*ساده یا آیو ڈین والا؟۔۔۔*🤪

وہ پوچھنا یہ تھا کہ بھاڑ میں جانے کے لئے رکشہ ٹھیک رہے گا یا ٹیکسی؟؟ 😬

کوئی بتا سکتا ہے کہ لوگ عزت کی روٹی کمانے میں لگے ہوئے ہیں...کوئی عزت کا سالن کیوں نہیں کماتا؟؟ 😉

ایک بات بتائیے کہ یہ جو
ڈنر سیٹ ہوتا ہے اس میں لنچ کر سکتے ہیں کیا؟؟ 🤔

ایک اور بات بتائیے کہ جن کی دال نہیں گلتی * اُن کو سبزی گلانے کی اجازت ہے کیا؟؟* 😜

پوچھنا یہ تھا
کہ اگر کسی سے چکنی چپڑی باتیں کرنا ہو تو
کون سا گھی صحیح رہے گا دیسی یا بناسپتی ؟؟*😃

کسی کو پتہ ہے غلطیوں پر ڈالنے والا پردہ کہاں ملتا ہےاور کتنے میٹر کا لینا ہوگا؟؟🤭

کوئی مجھے بتائے گا کہ جو لوگ کہیں کے نہیں رہتے تو پھر وہ کہاں رہتے ہیں؟؟ 😅

ایک یہ بات بھی پوچھنا ہے کسی کا مذاق اڑانا ہو تو...کتنی اونچائی تک اڑایا جائے ؟؟ 🤣

اور ہاں کوئی یہ بتائے گا کہ کسی کو مکھن لگانا ہو تو گائے کا ٹھیک رہے گا یا بھینس کا ؟؟ 😇

کہیں سے پوچھ کے بتائیے گا کہ کسی کے معاملے میں ٹانگ اڑانی ہو تو
کونسی ٹھیک رہے گی دائیں یا بائیں والی؟؟

مسکرانا صحت کے لیے اچھا ہے ۔😁😁😁 مسکرائیے۔۔۔.
اور....خوش رئیے 😁😁😁

09/05/2023

👈نیا فتنہ

آج کل کچھ لوگ بڑے زور و شور سے واویلا کر رہے ہیں کہ، کعبہ کے گرد گھومنے سے پہلے کسی غریب کے گھر گھوم آؤ۔۔۔

مسجد کو قالین نہیں کسی بھوکے کو روٹی دو۔۔۔

حج اور عمرہ پر جانے سے پہلے کسی نادار کی بیٹی کی رخصتی کا خرچہ اٹھاؤ۔۔۔

تبلیغ میں نکلنے سے بہتر ہے کہ کسی لاچار مریض کو دوا فراہم کر دو۔۔۔

مسجد میں سیمنٹ کی بوری دینے سے افضل ہے کہ کسی بیوہ کے گھر آٹے کی بوری دے آؤ۔۔۔

یاد رکھیں۔۔۔👇

دو نیک اعمال کو اس طرح تقابل میں پیش کرنا کوئی دینی خدمت یا انسانی ہمدردی نہیں بلکہ عین جہالت ہے۔
اگر تقابل ہی کرنا ہے تو دین اور دنیا کا کرو اور یوں کہو !

15 ، 20 ﻻکھ ﮐﯽ ﮔﺎﮌﯼ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ لو ﺟﺐ ﻣﺤﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﻮﮐﺎ ﺳﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ ۔۔۔

50 ، 60 ﮨﺰﺍﺭ ﮐﺎ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ لو ﺟﺐ ﻣﺤﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯿﮏ ﻣﺎﻧﮕﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ ۔۔۔

ﮨﺮ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﮮ ﺳﯽ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻟﮕﻮﺍئو ﺟﺐ گرمی میں بغیر بجلی کے سونے والا کوئی نہ ہو ۔۔۔

ﺑﺮﺍﻧﮉﮈ ﮐﭙﮍﮮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺧﺮﯾﺪو ﺟﺐ ﺳﮍﮎ ﭘﺮ ﭘﮭﭩﮯ ﮐﭙﮍﮮ ﭘﮩﻨﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ ۔۔

یہ کروڑوں کی گاڑیاں ، لاکھوں کے موبائل فونز اورہزاروں کے کھلونے خریدتے وقت ان دانشوروں کو زحمت گوارا کیوں نہیں ہوتی۔۔۔؟

آخر یہ چِڑ کعبہ مسجد حج وعمرہ اور تبلیغ ہی سے کیوں ہے۔۔۔؟

ان ضروریات کا فرائض سے موازنہ کر کے فرائض سے غفلت کا درس دینے والے جب اپنی شادیوں پر عورتیں نچاتے ہیں تب ان کو کیوں یاد نہیں ہوتا کہ وہ بھی کسی کی بیٹیاں اور بہنیں ہیں...
ہزاروں آرام دہ اشیاء خریدتے وقت ان کو غریب کی بن بیاہی بیٹیاں نظر کیوں نہیں آتی ہیں؟

اک بار ضرور سوچیں
کیا
انسانیت کی خاطر غیر ضروری امور ترک کرنا بہتر ہے یا کہ فرائض کا ترک؟؟

07/05/2023

*دہی کی تاریخ!!!*

دہی کو عربی میں ”لبن“ فارسی میں ”ماست“ اور انگریزی میں یوگرٹ کہتے ہیں

صدیوں سے یہ انسانی خوراک کا حصہ رہا ہے۔ زمانہ قبل از تاریخ کا انسان بھی گائے‘ بکری‘ بھینس‘ اونٹ اور بھیڑ کے دودھ کو بطور غذا استعمال کیا کرتا تھا۔ ان کے مویشیوں کے دودھ کی مقدار کم ہوتی تھی اس لیے وہ اسے جانوروں کی کھالوں یا کھردرے مٹی کے برتنوں میں جمع کرلیتے تھے تاکہ بہ وقت ضرورت آسانی سے استعمال میں آجائے۔
شروع شروع میں اسے جانوروں سے حاصل کرنے کے بعد اسی طرح کچی حالت میں رکھنے کی کوشش کی گئی لیکن کچے دودھ کو محفوظ حالت میں رکھنا‘ وہ بھی اس طرح کہ اس کی غذائیت بھی برقرار رہے ناممکن سی بات ثابت ہوئی۔ اس مسئلے کا حل اتفاقی طور پر دریافت ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ جنوب مغربی ایشیا کے وسیع علاقوں میں سفر کرنے والے ”نوماد“ قبیلے والے دودھ کی شکل میں اپنی رسد کو بھیڑ کی کھال سے بنے ہوئے تھیلے میں رکھا کرتے اور اسے اپنے جانوروں کی پیٹھ پر باندھ دیا کرتے تھے۔ ایام سفر میں وہ تھیلے مسلسل ہلتے رہتے اس پر سورج کی تپش بھی اپنا اثر دکھاتی رہتی۔ نتیجتاً ہ دودھ خمیر بن کر نیم ٹھوس شکل اختیار کرلیتا۔ وہ اس بات سے ناواقف تھے کہ بھیڑ کی کھال کے اندرونی حصے میں چھپے ہوئے بیکٹریا نے دودھ کو خمیر کرکے دہی کی شکل دے دی ہے۔

ابتداءمیں دودھ کی اس شکل کو بہت کم مقدار میں استعمال کیا جاتا تھا کیوں کہ نوماد قبیلے والے اسے زہریلا سمجھتے تھے پھر آہستہ آہستہ تجربے سے یہ بات سامنے آئی کہ دودھ کی یہ نئی شکل مضر صحت نہیں معجزاتی غذا ہے۔ جب اس کی افادیت سامنے آئی تو اسے بنانے کا طریقہ دریافت کیا گیا۔ دودھ کو جمانے کے لیے انہوں نے اس میں تھوڑا سا دہی ملالیا۔ اس تجربے نے کامیابی عطا کی اور پھر دھیرے دھیرے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ کھٹا اور خمیر کیا ہوا دودھ تازہ دودھ سے بہت زیادہ فائدے مند ہے۔ یہ نہ صرف زیادہ عرصے تک اچھی حالت میں رہتا ہے بلکہ اس کا ذائقہ بھی مزیدار ہوجاتا ہے۔

بلغاریہ کے لوگوں کی طبعی عمر دیگر ممالک سے زیادہ ہے۔ سائنسدانوں نے مسلسل تجربوں اور تجزیہ کے بعد پتا چلایا کہ اس کی ایک وجہ دہی بھی ہے۔ وہاں کے لوگ دہی کا استعمال بہت زیادہ کرتے ہیں۔

فرانس میں اسے ”حیات جاوداں“ کا نام دیا گیا ہے۔ 1700ءمیں فرانس کا کنگ فرسٹ کسی بیماری میں ایسا مبتلا ہوا کہ کوئی علاج کارگر نہیں ہوتا تھا۔ بادشاہ سوکھ کا کانٹا ہوگیا تھا۔ نقاہت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ وہ بیٹھنے کی قوت بھی کھو چکا تھا۔ اس کے علاج کے لیے مشرق بعید کے ایک معالج کو بلایا گیا۔ اس نے بادشاہ کو صرف دہی کا استعمال کرایا اور کنگ فرسٹ صحت یاب ہوگیا۔

فرانس ہی کے ایک ماہر جراثیم پروفیسر میچسنٹکو لکھتے ہیں کہ دہی درازی عمر کی چابی ہے۔ اس کے استعمال سے نہ صرف انسان بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے بلکہ عمر بھی طویل پاتا ہے۔
Live longer look younger
نامی کتاب میں مصنف نے اسے معجزاتی غذا کہا ہے۔
ء1908کے نوبل انعام یافتہ ایلی میٹ ٹنگوف وہ پہلا ماہر تھا جس نے برسوں کی تحقیق کے بعد اس کے خواص پر تحقیق کی اور بتایا کہ یہی وہ غذا ہے جو انسان کو طویل عمرگزارنے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔

آنتوں کے نظام کے اندر ایک خاص تعداد میں بیکٹیریا پائے جاتے ہیں جنہیں فلورا کہا جاتا ہے۔ دہی فلورا کی پرورش میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ انٹی بایوٹک ادویات فلورا کو ختم کردیتی ہیں اسی لیے بعض ڈاکٹر صاحبان اینٹی بائیوٹک ادویات کے ساتھ دہی کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ دہی بیکٹیریا کے انفیکشن کو بھی روکتا ہے۔

غذائی ماہرین کے مطابق دہی میں پروٹین‘ کیلشیم اور وٹامن بی اچھی خاصی مقدار میں موجود ہوتی ہے۔ البتہ آئرن اور وٹامن سی اس میں بالکل نہیں ہوتا۔ گائے کے دودھ کے مقابلے میں بھینس کے دودھ سے بنا ہوا دہی زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ اس میں چکنائی پروٹین اور دوسرے غذائی اجزاءزیادہ پائے جاتے ہیں۔ دہی کے اوپر جو پانی ہوتا ہے اس میں وٹامن اورمنرلز وغیرہ اچھی خاصی مقدار میں موجود ہوتی ہیں کیوں کہ وہ دودھ کا ہی پانی ہوتا ہے۔ جب دودھ جمتا ہے تو پانی اس کے اوپر آجاتا ہے جسے دہی میں ملالیا جاتا ہے۔
دہی نہ صرف کھانوں کو لذت بخشتا ہے بلکہ غذائیت بھی فراہم کرتا ہے۔ جسم کی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ نہ صرف بہ آسانی ہضم ہوجاتا ہے بلکہ آنتوں کے نظام پر بھی خوشگوار اثر ڈالتا ہے۔ اسے صحت مند بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس میں چکنائی اور حرارے انتہائی کم مقدار میں ہوتے ہیں۔ ایک کپ دہی کے اندر صرف 120حرارے (کلوریز) پائے جاتے ہیں۔ اتنی کم مقدار میں کلوریز کے حامل دہی میںایسے کئی اقسام کے غذائی اجزاءہوتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ مثلاً پروٹین‘ مکھن نکلے دودھ سے بنے دہی کے ایک کپ میں 8 گرام پروٹین ہوتی ہے۔ جب کہ خالص دودھ سے بنے دہی کے ایک کپ میں 7 گرام۔ دہی کی اتنی ہی مقدار میں (مکھن نکلے ہوئے دودھ سے بنائے گئے دہی میں) ایک ملی گرام آئرن‘ 294 ملی گرام کیلشیم‘ 270 گرام فاسفورس‘ 50 ملی گرام پوٹاشیم اور 19 ملی گرام سوڈیم پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وٹامن اے (A) 170 انٹرنیشنل یونٹ۔ وٹامن بی (B) ایک ملی گرام۔ تھیا مین 44 ملی گرام۔ وٹامن بی (ریبوفلاوین) 2 ملی گرام اور وٹامن سی (ایسکور بک ایسڈ) بھی 2 ملی گرام پایا جاتا ہے۔

ڈائٹنگ کرنے اور وزن کرنے والوں کے لیے دہی ایک آئیڈیل خوراک ہے کیوں کہ اس کے اندر حراروں کی تعداد انتہائی کم ہوتی ہے جس کی مقدار اوپر لکھی جاچکی ہے۔ مندرجہ بالا مقدار میں 13 گرام کاربوہائیڈریٹس پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح چکنائی کی مقدار بھی بہت کم ہوتی ہے۔ دہی کے ایک کپ میں 4 گرام چکنائی پائی جاتی ہے۔ جب کہ خالص دودھ سے بنے دہی میں یہ مقدار بڑھ کر 8 گرام ہوجاتی ہے۔

دہی میں ایک خاص قسم کے بیکٹیریا پائے جاتے ہیں۔ یہ بیکٹیریا ایک خاص درجہ حرارت پر رکھے جانے والے دودھ کے اندر بڑی تیزی سے پیدا ہوکر بڑھتے چلے جاتے اور دودھ کو نصف ٹھوس حالت میں لادیتے ہیں جسے دہی کہا جاتا ہے۔ یہ بیکٹیریا بہت بڑی مقدار میں وٹامن بی مہیا کرتے ہیں جو آنتوں کے نظام کو صحت مند رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

دودھ کے کھٹا ہوتے ہی لیکٹوز خمیر ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ ایک شفاف مایہ کی شکل اختیار کرلیتا ہے جسے لیکٹک ایسڈ کہتے ہیں ۔ یہ نظام ہضم کو قوت فراہم کرنے کے علاوہ غذا کو ہضم کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وزن کم کرنے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔ دہی کے بیکٹیریا کی زندگی کا انحصار لیکٹوز پر ہے۔ وہی اسے لیٹک ایسڈ میں تبدیل کرتی ہیں۔ لیکٹوز کی خاصیت ہے کہ وہ توانائی کی بڑی مقدار فراہم کرنے کے ساتھ آنتوں کی صحت کا بھی ضامن اور درازی عمر کا سبب بنتا ہے

Videos (show all)

گندم سے فری ہو کر کسان   ۔تھریشر شادی بیاہ  پر کرائے پر چلا سکتے ہیں 😅😅
*🇵🇰انگریز کا عطا کردہ حسب نسب🙏*
Travelling in business class in a Chinese High speed train, so many gadgets and other stuff for a train journey.....
*اخلاق کے اعلیٰ مقام پر پہچنے کیلئے پاکستانیوں بڑا وقت لگے گا*ہم جس طرح کے لوگ ہیں ہمارے اوپر حکمران بھی اسی طرح کے مسلط...
دشمن کے بچے پڑھ لکھ کر کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور جنہوں نے دشمن کے بچوں کو پڑھانا تھا ان کے اپنے بچے ہی آج ملک میں بے روز...
Thanks a lot Dr sahb...next time will be there together ..insha Allah

Telephone

Website