THORI C WAFA
Good
السلام علیکم ڈئیر ممبرز
یہ جو اپنے اردگرد آپ اور ہم بے روزگار ڈاکٹروں اور فارغ پھرنے والے engineers کی ایک فوج دیکھ رہے ہیں، اسکی بہت سی وجوہات ہیں- ان میں سے کچھ وجوہات کو دور کرنا ہمارے بس میں ہے اور ہمیں کرنا بھی چاہئے-
سب سے پہلا غلط کام جو ہم کرتے ہیں وہ ہے اپنے بچوں پر اپنی سوچ زبردستی مسلط کرنا- یعنی بچوں کو force کرنا کہ وہی professions اختیار کریں ورنہ پتہ نہیں کونسی قیامت آجائیگی- آج آپکے دباؤ میں آکر اپکا۔بچہ آپکی بات تو مان لے گا لیکن مردہ دلی سے- اور اسکا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ایک اچھا engineer یا ڈاکٹر نہیں بن سکے گا کیونکہ دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے وہ ان شعبوں میں وہ گہرائی حاصل نہیں کرسکے گا جو کہ اسکو کوئی اچھی job یا free lancer کا کام دلوا۔سکے-
دوسری وجہ ہماری یہ سوچ ہے جس کے تحت ہم نے کچھ کاموں کو چھوٹا اور کچھ کو بڑا سمجھ لیا ہے- اس سوچ کے پیچھے نہ تو کوئی ٹھوس وجہ ہے اور نہ ہی یہ سوچ اخلاقی طور پر ٹھیک ہے- یہ صرف ایک stereotype معاشرہ کا حصہ ہونے کی وجہ سے ہمارے ذہنوں میں develop ہو جاتی ہے اور اسکو اپنی آنے والی نسلوں کی بھلائی کے لیے بدلنا بہت ضروری ہے
اپنی اولاد پر، اپنے خون پر بھروسہ رکھیں- جہان تک ممکن ہو انکو ان کی مرضی کا شعبہ select کرنے کی اجازت اور آزادی دیں- آپ یقین کریں کہ اگر آپ نے انکی تربیت کا حق پوری طرح ادا کیا ہے تو وہ آپکے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائیں گے
Best of luck
کسی سے نفرت کرو گے تو اسکی اھمیت اور بڑھ جاے گی
اسے معاف کر کے اسے شرمندہ کر دو۔۔۔
سائیکالوجی کی تحقیق کے مطابق خاموش رہنا اس بات کی علامت نہیں کہ آپ کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔۔۔یہ اس بات کی علامت ہے کہ آپ سمجھتے ہیں سامنے والا آپ کے خیالات سننے کے لیے ابھی تیار نہیں ہے۔
حالت میری مجھ سے نہ معلوم کیجیئے,
مدت سے میرا مجھ سے کوئی رابطہ نہیں...
بس اک نظر ہی تو تھا دیکھنا
اور اک نظر .. نظر آ گئے ہو تم!
کبھی یاد آؤں تو پوچھنا
ذرا اپنی فرصتِ شام سے
کِسے عِشق تھا تیری ذات سے
کِسے پیار تھا تیرے نام سے
ذرا یاد کر کہ وہ کون تھا
جو کبھی تجھے بھی عزیز تھا
وہ جو جی اُٹھا تیرے نام سے
وہ جو مر مٹا تیرے نام پے
ہمیں بے رُخی کا نہیں گلہ
کہ یہی وفاؤں کا ہے صلہ
مگر ایسا جرم تھا کونسا ؟
گئے ہم دعا ؤ سلام سے
کبھی یاد آؤں تو پوچھنا
ذرا اپنی فرصتِ شام سے
لے دے کے اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے
کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم
*ھنسی روک کر دکھائیے*
راوی کہتا ہے ہمارے محلے میں ابو الحسن نبالی نامی ایک بزرگ فوت ہوگئے، عمر رسیدہ تھے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔
خیر ساتھ والی مسجد میں ان کی نماز جنازہ اور پھر تدفین کے بعد تابوت واپس لایا گیا۔
رات کا وقت تھا مسجد بند ہونے کے باعث تابوت کو مسجد کے دروازے کے سامنے رکھا گیا تاکہ صبح خادم اٹھا کر اسے اپنی جگہ رکھے گا.
رات کوئی ساڑھے تین بجے کا ٹائم ہوگا کہ ایک شخص مسجد آیا۔
مسجد کا دروازہ بند تھا، وہ شخص کچھ دیر انتظار کرتا رہا۔ سردیوں کے دن تھے، اسے سردی لگ گئی۔
اس نے تابوت کھولا اور اندر سوگیا۔ آدھا گھنٹہ بعد خادم آگیا۔
خادم نے ایک نمازی کی مدد سے تابوت کو محراب کے ساتھ بنی مخصوص جگہ پر رکھ دیا۔😊
نیند کی غنودگی کی وجہ سے انہیں تابوت کے وزن کا بھی اندازہ نہ ہوا۔
مؤذن نے اذان دی۔ لوگ نماز کے لیے پہنچے۔ جماعت کھڑی ہوگئی۔
پچاس کے قریب نمازی جماعت میں شامل تھے۔ میں پہلی صف میں کھڑا تھا اور دوسری رکعت تھی کہ سامنے تابوت پہ میری نظر پڑی۔
عجب خوفناک منظر دیکھا کہ تابوت ہل رہا ہے۔ میرے جسم میں سنسنی خیز ایک لہر دوڑ اٹھی۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں۔
تابوت بدستور ہل رہا تھا۔
شاید میت کا ہیولا کھڑا ہو۔
اتنے میں وہ شخص اٹھا اس نے تابوت سے سر باہر نکال کر پوچھا "تم لوگوں نے نماز پڑھ لی "؟
*اللہ معاف کرے،*
لوگوں کی دوڑیں لگ چکی تھیں۔ میں تو الٹے پیر ہزار کی سپیڈ سے گھر کی طرف دوڑا۔
گھر پہنچ کر معلوم ہوا کہ میں ننگے پیر ہی گھر پہنچا ہوں۔😄
امام صاحب تو پہلے ہی بے ہوش ہو کر زمین پہ گر پڑے تھے،
کچھ لوگ دوڑتے ہوئے دیواروں سے ٹکرانے کی وجہ سے گرے ہوئے تھے،
کچھ میری طرح ننگے پیر باہر بھاگ رہے تھے،
کچھ وضو خانوں کے پاس پھسل کر گر چکے تھے،
سب اندھا دھند بھاگ رہے تھے😄،
جو شخص تابوت میں تھا وہ پیچھے سے دوڑ رہا تھا۔
اور پوچھ رہا تھا اؤئے مینو وی تے دسو ہویا کی اے..😅
عشق کیجے تو نکاح بھی کیجے
ورنہ اظہار کر کے زندگیاں تباہ نہ کیجیے
یادوں کی اک بھیڑ مرے ساتھ چھوڑ کر
کیا جانے وہ کہاں مری تنہائی لے گیا
HUM KO HAI SAMJH SARI MAGAR DIL BHI TO SAMJHY
KHOYA HAI JISAY HUM NAY HAMARA HI KAHAN THA....
کسی کو کیا بتاتا میں
کسی کو کیا سُناتا میں
بہت لمبی کہانی تھی
بہت غمگیں فسانے تھے
بہت گہری محبت تھی
بہت کم ظرف لوگوں سے
بہت مظبوط رشتے تھے
بہت کمزور لوگوں سے
وہ سب نظروں کا دھوکہ تھا
وہ جادوگر زمانے تھے
بہت آسان لوگوں کے
بہت مشکل بہانے تھے
لہو میں ڈوب کر پایا
سُراغِ زندگی میں نے
بہت بے ضرر لوگوں کے
بہت قاتل نشانے تھے
تعلق جن سے رکھا تھا
تعلق ٹوٹ جانے پر
بہت سستے نکل آئے
بہت انمول جانے تھے
بکر مزنی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابو بکر رضی اللہ عنہ بہت زیادہ [نفل] نمازوں اور روزوں کی وجہ سے بلند درجے پر فائز نہیں ہوئے، بلکہ یہ تو ان کے دل میں کچھ تھا [جس کی وجہ سے انہیں بلند درجہ ملا]" ابن عُلَیّہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دل میں اللہ کی محبت اور خلقِ الہی کیلیے خیر خواہی تھی"
السلام علیکم
جس طرح اندھیرے کمرے میں روشنی کی ایک کرن، اندھیرے کو ختم کر دیتی ہے ، بلکل اسی طرح کبھی زندگی میں ایک چھوٹی سی نیکی، اچھا عمل کسی کی زندگی کو تبدیل کر دیتا ھے، کوشش کریں اپنے اِردگرد نیک عمل کے روشن چراغ جلاتےجائیں کیوں کے یہ روشنی آپکی زندگی میں آنے والے مشکل وقت کے اندھیروں کو ختم کر دے گی
ایک مسکراہٹ ،ایک میٹھا بول، روزانہ صدقہ، روزانہ کوئی نیکی اور روانہ ایک خراب عادت کو ترک کرنا زندگی کو بہت دلکش بنا دیتی ھے
اے ہمارے مہربان رب ہماری آنکھوں میں حیاء، دلوں میں اپنا خوف اور زبان پر خیر کے کلمات جاری فرما ۔
*آمین یارب العالمین*
کبھی کِسی عورت کو اُس کی رضا کے بغیر مت اپنانا، اور اپنا لو تو کبھی اُس سے مُحبّت کی خواہش مت کرنا۔
میں نے عورت کو ہمیشہ بہت کمزور سمجھا تھا مُوم کی گُڑیا کی طرح، لیکن ایک عُمر بَرتنے کے بعد میں نے یہ جانا ہے کہ عورت مُوم ہے یا پتھر، اِس بات کا فیصلہ وہ خودکرتی ہے، کسی دوسرے شخص کو اسے مُوم یا پتھر کا خِطاب دینے کا حق نہیں ہوتا۔ وہ خود چاہے تو محبوب کے اِشاروں کی سِمت مُڑتی رہتی ہے، اور پتھر بننے کا فیصلہ کر لے تو کوئی شخص بھکاری بن کر بھی اُس کی ایک نگاہِ التفات نہیں پا سکتا۔۔۔!! 🙂
اسےپانامیری خواہش تھی اوراسے خوش دیکھنا میرے التجا۔
میں خواہش چھوڑسکتاھوں لیکن التجا نہیں ۔
میری دعائیں مجھے جتاتی ہیں
تُو مجھ میں اب بھی بستا ہے۔۔!
میں لاکھ چراؤں نگاہ تجھ سے
تُو مجھ میں اب بھی تکتا ہے
کتنی ہی رہوں جدا تجھ سے
تُو مجھ سنگ چلتا لگتا ہے
محسوس یہ ہو ۔۔ گم صم ہو کر
تُو مجھ میں اب بھی ہنستا ہے
میں سو جاؤں جب چُپ کر کے
تُو مجھ میں اب بھی جگتا ہے
میری دعائیں مجھے جتاتی ہیں
تُو مجھ میں اب بھی بستا ہے!
فنا کہتے ہیں کس کو موت سے پہلے ہی مر جانا
بقا ہے نام کس کا اپنی ہستی سے گزر جانا
جو روکا راہ میں حر نے تو شہہ عباس سے بولے
مرے بھائی نہ غصے میں کہیں حد سے گزر جانا
کہا اہل حرم نے روکے یوں اکبر کے لاشے پر
جواں ہونے کا شاید تم نے رکھا نام مر جانا
بقا میں تھا فنا کا مرتبہ حاصل شہیدوں کو
وہاں اس پر عمل تھا موت سے پہلے ہی مر جانا
نہ لیتے کام گر سبط بنی صبر و تحمل سے
لعینوں کا نگاہ خشم سے آساں تھا مر جانا
دکھائی جنگ میں صورت ادھر جا پہنچے وہ کوثر
یہ اصغر ہی کی تھی رفتار ادھر آنا ادھر جانا
یہاں کا زندہ رہنا موت سے بد تر سمجھتا ہوں
حیات جاوداں ہے کربلا میں جا کے مر جانا
مہراج سرکشن پرشاد شاد (١٨٦٤-١٩٤٠)
حیدر آباد، ہندوستان
انتخاب: وحیدہ اقبال
سیالکوٹ، پاکستان
اب دماغ و دل میں وہ قوت نہیں وہ دل نہیں
شادؔ اب اشعار میرے در خور محفل نہیں
تو مرے اشک ندامت کی حقیقت کچھ نہ پوچھ
اس کا ہر قطرہ وہ دریا ہے جہاں ساحل نہیں
گھر خدا کا تھا مگر بت اس میں آ کر بس گئے
اب مرقع ہے حسینوں کا ہمارا دل نہیں
نکتہ چیں ہو میری رندانہ روش پر کیوں کوئی
میں کوئی زاہد نہیں واعظ نہیں عاقل نہیں
پردہ داری کرتی ہے در پردہ لیلیٰ عشق کی
جذبۂ دل قیس کا ہے پردۂ محمل نہیں
انقلاب دہر سے الٹا زمانے کا ورق
اہل محمل وہ نہیں وہ رونق محفل نہیں
ہند میں چلنے لگی ہے اب ہوائے انقلاب
شادؔ سچ ہے یہ جگہ رہنے کے اب قابل نہیں
ساغر مے پیش کر کے شیخ کہلاتا ہوں میں
ہدیۂ احقر ہے یہ گو آپ کے قابل نہیں
حق میں اب عاشق کے دیکھیں فیصلہ ہوتا ہے کیا
عشق کا دعویٰ حضور حسن تو باطل نہیں
مہراج سرکشن پرشاد شادؔ (١٨٦٤-١٩٤٠)
حیدر آباد، ہندوستان
انتخاب: وحیدہ اقبال
سیالکوٹ، پاکستان
بڑھ چلا عشق تو دل چھوڑ کے دنیا اٹھا
خود بخود جوش مے ناب سے شیشہ اٹھا
دست نازک سے زر گل کا بھی اٹھنا ہے محال
یہ تو فرمائیے کس وجہ سے توڑا اٹھا
جب پکارے لب جاں بخش سے وہ مر گئے ہم
نا توانوں سے نہ بار دم عیسیٰ اٹھا
خاکساروں میں نہیں ایسے کسی کی توقیر
قد آدم مری تعظیم کو سایا اٹھا
یاد اس بت کی نمازوں میں جو آئی مجھ کو
تپش شوق سے ہر بار میں بیٹھا اٹھا
منیرؔ شکوہ آبادی (١٨١٤-١٨٨٠)
رام پور، ہندوستان
انتخاب: وحیدہ اقبال
سیالکوٹ، پاکستان
فصل بہار آئی ہے پیمانہ چاہئے
بلبل کے ساتھ نعرۂ مستانہ چاہئے
عشاق شمع حسن کو کیا کیا نہ چاہئے
پرواز رنگ کو پر پروانہ چاہئے
پیری میں رات دن ہمیں پیمانہ چاہئے
رعشہ کے بدلے لغزش مستانہ چاہئے
وحشت میں بات عقل کی سننا نہ چاہئے
کانوں میں پنبۂ کف دیوانہ چاہئے
کنگھی بناؤں چوب عصائے کلیم کی
تسخیر مار گیسوئے جانانہ چاہئے
دریائے وحدت و چمن دہر سے ہمیں
در یگانہ سبزۂ بیگانہ چاہئے
آب و غذائے عاشق دنداں محال ہے
روز آب و دانۂ در یکدانہ چاہئے
میں سائل کمال جنوں ہوں مرے لئے
کجکول کاسۂ سر دیوانہ چاہئے
اسرار حق ہیں دل میں مگر دل ہے بے خبر
اس گنج کے لئے یہی ویرانہ چاہئے
سیر بہشت چاہتے ہیں نشہ میں مدام
مستوں کو چشم حور کا پیمانہ چاہئے
گو بے نقاب رہتے ہو پردے میں ہے حجاب
در پردہ ہم سے آپ کو چھپنا نہ چاہئے
عاشق بنا کے ہم کو جلاتے ہیں شمع رو
پروانہ چاہئے انہیں پروانہ چاہئے
اے پیر مے فروش در توبہ کی طرح
وا روز حشر تک در مے خانہ چاہئے
تا مرگ آشنا نہ ہوا ایک سبزہ رنگ
تربت پر اپنی سبزۂ بیگانہ چاہئے
دشمن ہے وہ تو تم بھی نہ ہو دوست اے منیرؔ
اپنا برا نہ چاہئے اچھا نہ چاہئے
منیرؔ شکوہ آبادی (١٨١٤-١٨٨٠)
رام پور، ہندوستان
انتخاب: وحیدہ اقبال
سیالکوٹ، پاکستان
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو
خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو
ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
احمد ندیم قاسمی (١٩١٦-٢٠٠٦)
لاہور، پاکستان
انتخاب: وحیدہ اقبال
سیالکوٹ، پاکستان
مرا سینہ ہے مشرق آفتاب داغ ہجراں کا
طلوع صبح محشر چاک ہے میرے گریباں کا
ازل سے دشمنی طاؤس و مار آپس میں رکھتے ہیں
دل پر داغ کو کیوں کر ہے عشق اس زلف پیچاں کا
کسی خورشید رو کو جذب دل نے آج کھینچا ہے
کہ نور صبح صادق ہے غبار اپنے بیاباں کا
چمکنا برق کا لازم پڑا ہے ابر باراں میں
تصور چاہیئے رونے میں اس کے روئے خنداں کا
دیا میرے جنازے کو جو کاندھا اس پری رو نے
گماں ہے تختۂ تابوت پر تخت سلیماں کا
کسی سے دل نہ اس وحشت سرا میں میں نے اٹکایا
نہ الجھا خار سے دامن کبھی میرے بیاباں کا
تہہ شمشیر قاتل کس قدر بشاش تھا ناسخؔ
کہ عالم ہر دہان زخم پر ہے روئے خنداں کا
امام بخش ناسخؔ (١٧٧٢-١٨٣٨)
لکھنؤ، ہندوستان
انتخاب: وحیدہ اقبال
سیالکوٹ، پاکستان
مزہ وصال کا کیا گر فراق یار نہ ہو
نہیں ہے نشے کی کچھ قدر اگر خمار نہ ہو
نہ روئے تا کوئی عاشق یہ حکم ہے اس کا
کہ شمع بھی مری محفل میں اشک بار نہ ہو
جو ہچکی آئی تو خوش میں ہوا کہ موت آئی
کسی کو یار کا اتنا بھی انتظار نہ ہو
ذقن ہے سیب تو عناب ہے لب شیریں
نہیں ہے سرو وہ خوش قد جو میوہ دار نہ ہو
وہ ہوں میں مورد نفرت کہ درکنار ہے یار
پئے فشار کبھی گور ہم کنار نہ ہو
نہ آئے کنج لحد میں بھی مجھ کو خواب عدم
اگر سرہانے کوئی خشت کوئے یار نہ ہو
برنگ حسن بتاں ہے دل شگفتہ مرا
جو اس چمن میں خزاں ہو تو پھر بہار نہ ہو
گئی ہے کیسی زمانے سے رسم سرگرمی
عجب نہیں ہے جو پتھر میں بھی شرار نہ ہو
نہ ہنسنے سے کبھی ہم راز پوش واقف ہوں
برنگ غنچہ جگر جب تلک فگار نہ ہو
تری مژہ کی جو تشبیہ اس سے ترک کریں
کسی کے تیر سے کوئی کبھی فگار نہ ہو
دم اخیر تو کر لیں نظارہ جی بھر کے
الٰہی خنجر سفاک آب دار نہ ہو
یہی ہے قلزم غم میں مری دعا یا رب
قیام اس میں کوئی بھی حباب دار نہ ہو
وہ صبح سینۂ صد چاک میں ہے داغ جنوں
کہ جس سے دیدۂ خورشید بھی دو چار نہ ہو
ہوس عروج کی لے جائیں گر یہ دنیا سے
کبھی بلند ہوا سے کوئی غبار نہ ہو
کمال صورت بے درد سے تنفر ہے
نہ دیکھیں ہم کبھی اس گل کو جس میں خار نہ ہو
ہزاروں گور کی راتیں ہیں کاٹنی ناسخؔ
ابھی تو روز سیہ میں تو بے قرار نہ ہو
امام بخش ناسخؔ (١٧٧٢-١٨٣٨)
لکھنؤ، ہندوستان
انتخاب: وحیدہ اقبال
سیالکوٹ، پاکستان
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں لگتا ہے کہ ہم جس کے پیچھے چل رہے وہ صحیح ہے جب کہ حقیقت تو یہی ہوتی ہے کہ ایک سیراب کے پیچھے جا رہے ہوتے ہیں جو کہ کبھی ہاتھ نہیں آتا۔
صبح کو حشر بھی ہے کٹ گئی گر آج کی رات
دے رہا ہے مرا دل کل کی خبر آج کی رات
میرے نالوں میں غضب کا ہے اثر آج کی رات
لوگ تھامے ہوئے بیٹھے ہیں جگر آج کی رات
ضبط مانع ہے کہ وہ شوخ شکایت نہ کرے
بے صدا آہ بھی ہے مثل اثر آج کی رات
ٹوٹے پڑتے ہیں فلک سے بھی ستارے پیہم
چننے بیٹھا ہے جو افشاں وہ قمر آج کی رات
ضبط نالہ نے یہ اندھیر کیا سینے میں
بن گیا گھٹ کے دھواں سوز جگر آج کی رات
منشی نوبت رائے نظرؔ لکھنوی (١٨٦٤-١٩٢٣)
لکھنؤ، ہندوستان
انتخاب: وحیدہ اقبال
سیالکوٹ، پاکستان
انتظار حشر کر سکتے نہیں ناکام عشق
آج ہی ہو جائے ہونا ہو جو کل انجام عشق
ابتدا میں درد فرقت موت ہے انجام عشق
اہل دل کو نا موافق ہے ہوائے بام عشق
بے خودی میں ڈبڈبا آئے ہیں آنسو آنکھ میں
المدد اے ضبط چھلکا چاہتا ہے جام عشق
اس کی الفت نے کیا رسوائے عالم کس قدر
انگلیاں اٹھتی ہیں جاتے ہیں جدھر بدنام عشق
کیوں نصیحت میں تری ناصح ہیں یہ دل سوزیاں
کیا ترے دل پر گزرتے ہیں مرے آلام عشق
چشم گریاں قلب نالاں کی شماتت قہر ہے
دونوں مل کر اک مجھی کو دیتے ہیں الزام عشق
حسرتیں بھی آج دل کے ساتھ ہی دم توڑ دیں
آگے پیچھے ساتھ والوں کا نہ ہو انجام عشق
بام پر آ کر ذرا بکھرائیے زلف دراز
پھیل جائے سارے عالم میں سواد شام عشق
اور کیا اعجاز ہوتا حسن لیلیٰ کے لیے
مر گیا مجنوں مگر زندہ ہے اب تک نام عشق
چار ہی دن میں نظرؔ تم اس قدر گھبرا گئے
آسماں سے کوئی پوچھے گردش ایام عشق
منشی نوبت رائے نظرؔ لکھنوی (١٨٦٤-١٩٢٣)
لکھنؤ، ہندوستان
انتخاب: وحیدہ اقبال
سیالکوٹ، پاکستان
یہ کہہ کے رخنہ ڈالئے ان کے حجاب میں
اچھے برے کا حال کھلے گا نقاب میں
یا رب وہ خواب حق میں مرے خواب مرگ ہو
آئے وہ مست خواب اگر میرے خواب میں
تحقیق ہو تو جانوں کہ میں کیا ہوں قیس کیا
لکھا ہوا ہے یوں تو سبھی کچھ کتاب میں
میں اور ذوق بادہ کشی لے گئیں مجھے
یہ کم نگاہیاں تری بزم شراب میں
ہیں دونوں مثل شیشہ پہ سامان صد شکست
جیسا ہے میرے دل میں نہیں ہے حباب میں
یہ عمر اور عشق ہے آزردہؔ جائے شرم
حضرت یہ باتیں پھبتی تھیں عہد شباب میں
مفتی صدرالدین آزردہؔ (١٧٨٩-١٨٦٨)
دلی، ہندوستان
انتخاب: وحیدہ اقبال
سیالکوٹ، پاکستان
ہے مفت دل کی قیمت اگر اک نظر ملے
یہ وہ متاع ہے کہ نہ لیں مفت اگر ملے
انصاف کر کہ لاؤں میں پھر کون سا وہ دن
محشر کے روز بھی نہ جو داد جگر ملے
پروانہ وار ہے حد پرواز شعلہ تک
جلنے ہی کے لیے مجھے یہ بال و پر ملے
آنے سے خط کے جاتے رہے وہ بگاڑ سب
بن آئی اب تو حضرت دل لو خضر ملے
کیا شکر کا مقام ہے مرنے کی جاہے دل
کچھ مضطرب سے آج وہ بیرون در ملے
عالم خراب ہے نہ نکلنے سے آپ کے
نکلو تو دیکھو خاک میں کیا گھر کے گھر ملے
ہے شام ہجر آج او ظالم او فلک
گردش وہ کر کہ شام سے آ کر سحر ملے
گو پاس ہو پہ چین تو ہے اس بگاڑ میں
کیا لطف تھا لڑے وہ ادھر اور ادھر ملے
دل نے ملا دیں خاک میں سب وضع داریاں
جوں جوں رکے وہ ملنے سے ہم بیشتر ملے
ٹوٹے یہ بخیہ زخم کا ہمدم کہیں سے لا
خنجر ملے کٹار ملے نیشتر ملے
تھا اصل میں مراد ڈبونا جہان کا
قابل سمجھ کے گویا ہمیں چشم تر ملے
اس کی گلی میں لے گئے آزردہؔ کو اسے
دی تھی دعا یہ کس نے کہ جنت میں گھر ملے
مفتی صدرالدین آزردہؔ (١٧٨٩-١٨٦٨)
دلی، ہندوستان
انتخاب: وحیدہ اقبال
سیالکوٹ، پاکستان
قصر جاناں تک رسائی ہو کسی تدبیر سے
طائر جاں کے لیے پر مانگ لوں میں تیر سے
ان کو کیا دھوکا ہوا مجھ ناتواں کو دیکھ
میری صورت کیوں ملاتے ہیں مری تصویر سے
گالیاں دے کر بجائے قم کے اے رشک مسیح
آپ نے مردے جلائے ہیں نئی تدبیر سے
صدقے اے قاتل ترے مجھ تشنۂ دیدار کی
تشنگی جاتی رہی آب دم شمشیر سے
عشوے سے غمزے سے شوخی سے ادا سے ناز سے
مٹنے والا ہوں مٹا دیجے کسی تدبیر سے
اک سوال وصل پر دو دو سزائیں دیں مجھے
تیغ سے کاٹا زباں کو سی دئے لب تیر سے
کچھ نہ ہو اے انقلاب آسماں اتنا تو ہو
غیر کی قسمت بدل جائے میری تقدیر سے
زندگی سے کیوں نہ ہو نفرت کہ محو زلف ہوں
قید ہستی مجھ کو بیدمؔ کم نہیں زنجیر سے
بیدمؔ شاہ وارثی (١٨٧٦-١٩٣٦)
بارہ بنکی، ہندوستان
انتخاب: وحیدہ اقبال
سیالکوٹ، پاکستان