THORI C WAFA

THORI C WAFA

Good

09/12/2022

السلام علیکم ڈئیر ممبرز
یہ جو اپنے اردگرد آپ اور ہم بے روزگار ڈاکٹروں اور فارغ پھرنے والے engineers کی ایک فوج دیکھ رہے ہیں، اسکی بہت سی وجوہات ہیں- ان میں سے کچھ وجوہات کو دور کرنا ہمارے بس میں ہے اور ہمیں کرنا بھی چاہئے-
سب سے پہلا غلط کام جو ہم کرتے ہیں وہ ہے اپنے بچوں پر اپنی سوچ زبردستی مسلط کرنا- یعنی بچوں کو force کرنا کہ وہی professions اختیار کریں ورنہ پتہ نہیں کونسی قیامت آجائیگی- آج آپکے دباؤ میں آکر اپکا۔بچہ آپکی بات تو مان لے گا لیکن مردہ دلی سے- اور اسکا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ایک اچھا engineer یا ڈاکٹر نہیں بن سکے گا کیونکہ دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے وہ ان شعبوں میں وہ گہرائی حاصل نہیں کرسکے گا جو کہ اسکو کوئی اچھی job یا free lancer کا کام دلوا۔سکے-
دوسری وجہ ہماری یہ سوچ ہے جس کے تحت ہم نے کچھ کاموں کو چھوٹا اور کچھ کو بڑا سمجھ لیا ہے- اس سوچ کے پیچھے نہ تو کوئی ٹھوس وجہ ہے اور نہ ہی یہ سوچ اخلاقی طور پر ٹھیک ہے- یہ صرف ایک stereotype معاشرہ کا حصہ ہونے کی وجہ سے ہمارے ذہنوں میں develop ہو جاتی ہے اور اسکو اپنی آنے والی نسلوں کی بھلائی کے لیے بدلنا بہت ضروری ہے
اپنی اولاد پر، اپنے خون پر بھروسہ رکھیں- جہان تک ممکن ہو انکو ان کی مرضی کا شعبہ select کرنے کی اجازت اور آزادی دیں- آپ یقین کریں کہ اگر آپ نے انکی تربیت کا حق پوری طرح ادا کیا ہے تو وہ آپکے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائیں گے
Best of luck

11/11/2022
07/03/2022

کسی سے نفرت کرو گے تو اسکی اھمیت اور بڑھ جاے گی
اسے معاف کر کے اسے شرمندہ کر دو۔۔۔

07/03/2022
07/03/2022

سائیکالوجی کی تحقیق کے مطابق خاموش رہنا اس بات کی علامت نہیں کہ آپ کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔۔۔یہ اس بات کی علامت ہے کہ آپ سمجھتے ہیں سامنے والا آپ کے خیالات سننے کے لیے ابھی تیار نہیں ہے۔

27/01/2022

حالت میری مجھ سے نہ معلوم کیجیئے,
مدت سے میرا مجھ سے کوئی رابطہ نہیں...

23/01/2022

بس اک نظر ہی تو تھا دیکھنا
اور اک نظر .. نظر آ گئے ہو تم!

20/12/2021

کبھی یاد آؤں تو پوچھنا
ذرا اپنی فرصتِ شام سے

کِسے عِشق تھا تیری ذات سے
کِسے پیار تھا تیرے نام سے

ذرا یاد کر کہ وہ کون تھا
جو کبھی تجھے بھی عزیز تھا

وہ جو جی اُٹھا تیرے نام سے
وہ جو مر مٹا تیرے نام پے

ہمیں بے رُخی کا نہیں گلہ
کہ یہی وفاؤں کا ہے صلہ

مگر ایسا جرم تھا کونسا ؟
گئے ہم دعا ؤ سلام سے

کبھی یاد آؤں تو پوچھنا
ذرا اپنی فرصتِ شام سے

18/12/2021

لے دے کے اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے
کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم

16/10/2021

*ھنسی روک کر دکھائیے*

راوی کہتا ہے ہمارے محلے میں ابو الحسن نبالی نامی ایک بزرگ فوت ہوگئے، عمر رسیدہ تھے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔

خیر ساتھ والی مسجد میں ان کی نماز جنازہ اور پھر تدفین کے بعد تابوت واپس لایا گیا۔

رات کا وقت تھا مسجد بند ہونے کے باعث تابوت کو مسجد کے دروازے کے سامنے رکھا گیا تاکہ صبح خادم اٹھا کر اسے اپنی جگہ رکھے گا.

رات کوئی ساڑھے تین بجے کا ٹائم ہوگا کہ ایک شخص مسجد آیا۔

مسجد کا دروازہ بند تھا، وہ شخص کچھ دیر انتظار کرتا رہا۔ سردیوں کے دن تھے، اسے سردی لگ گئی۔

اس نے تابوت کھولا اور اندر سوگیا۔ آدھا گھنٹہ بعد خادم آگیا۔

خادم نے ایک نمازی کی مدد سے تابوت کو محراب کے ساتھ بنی مخصوص جگہ پر رکھ دیا۔😊

نیند کی غنودگی کی وجہ سے انہیں تابوت کے وزن کا بھی اندازہ نہ ہوا۔

مؤذن نے اذان دی۔ لوگ نماز کے لیے پہنچے۔ جماعت کھڑی ہوگئی۔

پچاس کے قریب نمازی جماعت میں شامل تھے۔ میں پہلی صف میں کھڑا تھا اور دوسری رکعت تھی کہ سامنے تابوت پہ میری نظر پڑی۔

عجب خوفناک منظر دیکھا کہ تابوت ہل رہا ہے۔ میرے جسم میں سنسنی خیز ایک لہر دوڑ اٹھی۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں۔

تابوت بدستور ہل رہا تھا۔
شاید میت کا ہیولا کھڑا ہو۔
اتنے میں وہ شخص اٹھا اس نے تابوت سے سر باہر نکال کر پوچھا "تم لوگوں نے نماز پڑھ لی "؟

*اللہ معاف کرے،*
لوگوں کی دوڑیں لگ چکی تھیں۔ میں تو الٹے پیر ہزار کی سپیڈ سے گھر کی طرف دوڑا۔

گھر پہنچ کر معلوم ہوا کہ میں ننگے پیر ہی گھر پہنچا ہوں۔😄

امام صاحب تو پہلے ہی بے ہوش ہو کر زمین پہ گر پڑے تھے،
کچھ لوگ دوڑتے ہوئے دیواروں سے ٹکرانے کی وجہ سے گرے ہوئے تھے،

کچھ میری طرح ننگے پیر باہر بھاگ رہے تھے،
کچھ وضو خانوں کے پاس پھسل کر گر چکے تھے،
سب اندھا دھند بھاگ رہے تھے😄،

جو شخص تابوت میں تھا وہ پیچھے سے دوڑ رہا تھا۔
اور پوچھ رہا تھا اؤئے مینو وی تے دسو ہویا کی اے..😅

01/10/2021

عشق کیجے تو نکاح بھی کیجے
ورنہ اظہار کر کے زندگیاں تباہ نہ کیجیے

15/09/2021

یادوں کی اک بھیڑ مرے ساتھ چھوڑ کر
کیا جانے وہ کہاں مری تنہائی لے گیا

11/09/2021

HUM KO HAI SAMJH SARI MAGAR DIL BHI TO SAMJHY

KHOYA HAI JISAY HUM NAY HAMARA HI KAHAN THA....

02/09/2021

کسی کو کیا بتاتا میں
کسی کو کیا سُناتا میں
بہت لمبی کہانی تھی
بہت غمگیں فسانے تھے
بہت گہری محبت تھی
بہت کم ظرف لوگوں سے
بہت مظبوط رشتے تھے
بہت کمزور لوگوں سے
وہ سب نظروں کا دھوکہ تھا
وہ جادوگر زمانے تھے
بہت آسان لوگوں کے
بہت مشکل بہانے تھے
لہو میں ڈوب کر پایا
سُراغِ زندگی میں نے
بہت بے ضرر لوگوں کے
بہت قاتل نشانے تھے
تعلق جن سے رکھا تھا
تعلق ٹوٹ جانے پر
بہت سستے نکل آئے
بہت انمول جانے تھے

04/08/2021

بکر مزنی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"ابو بکر رضی اللہ عنہ بہت زیادہ [نفل] نمازوں اور روزوں کی وجہ سے بلند درجے پر فائز نہیں ہوئے، بلکہ یہ تو ان کے دل میں کچھ تھا [جس کی وجہ سے انہیں بلند درجہ ملا]" ابن عُلَیّہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دل میں اللہ کی محبت اور خلقِ الہی کیلیے خیر خواہی تھی"

24/07/2021

السلام علیکم

جس طرح اندھیرے کمرے میں روشنی کی ایک کرن، اندھیرے کو ختم کر دیتی ہے ، بلکل اسی طرح کبھی زندگی میں ایک چھوٹی سی نیکی، اچھا عمل کسی کی زندگی کو تبدیل کر دیتا ھے، کوشش کریں اپنے اِردگرد نیک عمل کے روشن چراغ جلاتےجائیں کیوں کے یہ روشنی آپکی زندگی میں آنے والے مشکل وقت کے اندھیروں کو ختم کر دے گی
ایک مسکراہٹ ،ایک میٹھا بول، روزانہ صدقہ، روزانہ کوئی نیکی اور روانہ ایک خراب عادت کو ترک کرنا زندگی کو بہت دلکش بنا دیتی ھے
‏اے ہمارے مہربان رب ہماری آنکھوں میں حیاء، دلوں میں اپنا خوف اور زبان پر خیر کے کلمات جاری فرما ۔
*آمین یارب العالمین*

22/07/2021

‏کبھی کِسی عورت کو اُس کی رضا کے بغیر مت اپنانا، اور اپنا لو تو کبھی اُس سے مُحبّت کی خواہش مت کرنا۔
میں نے عورت کو ہمیشہ بہت کمزور سمجھا تھا مُوم کی گُڑیا کی طرح، لیکن ایک عُمر بَرتنے کے بعد میں نے یہ جانا ہے کہ عورت مُوم ہے یا پتھر، اِس بات کا فیصلہ وہ خودکرتی ہے، کسی دوسرے شخص کو اسے مُوم یا پتھر کا خِطاب دینے کا حق نہیں ہوتا۔ وہ خود چاہے تو محبوب کے اِشاروں کی سِمت مُڑتی رہتی ہے، اور پتھر بننے کا فیصلہ کر لے تو کوئی شخص بھکاری بن کر بھی اُس کی ایک نگاہِ التفات نہیں پا سکتا۔۔۔!! 🙂

24/06/2021

اسےپانامیری خواہش تھی اوراسے خوش دیکھنا میرے التجا۔
میں خواہش چھوڑسکتاھوں لیکن التجا نہیں ۔

07/06/2021

میری دعائیں مجھے جتاتی ہیں
تُو مجھ میں اب بھی بستا ہے۔۔!

میں لاکھ چراؤں نگاہ تجھ سے
تُو مجھ میں اب بھی تکتا ہے

کتنی ہی رہوں جدا تجھ سے
تُو مجھ سنگ چلتا لگتا ہے

محسوس یہ ہو ۔۔ گم صم ہو کر
تُو مجھ میں اب بھی ہنستا ہے

میں سو جاؤں جب چُپ کر کے
تُو مجھ میں اب بھی جگتا ہے

میری دعائیں مجھے جتاتی ہیں
تُو مجھ میں اب بھی بستا ہے!

24/03/2021

فنا کہتے ہیں کس کو موت سے پہلے ہی مر جانا
بقا ہے نام کس کا اپنی ہستی سے گزر جانا

جو روکا راہ میں حر نے تو شہہ عباس سے بولے
مرے بھائی نہ غصے میں کہیں حد سے گزر جانا

کہا اہل حرم نے روکے یوں اکبر کے لاشے پر
جواں ہونے کا شاید تم نے رکھا نام مر جانا

بقا میں تھا فنا کا مرتبہ حاصل شہیدوں کو
وہاں اس پر عمل تھا موت سے پہلے ہی مر جانا

نہ لیتے کام گر سبط بنی صبر و تحمل سے
لعینوں کا نگاہ خشم سے آساں تھا مر جانا

دکھائی جنگ میں صورت ادھر جا پہنچے وہ کوثر
یہ اصغر ہی کی تھی رفتار ادھر آنا ادھر جانا

یہاں کا زندہ رہنا موت سے بد تر سمجھتا ہوں
حیات جاوداں ہے کربلا میں جا کے مر جانا

مہراج سرکشن پرشاد شاد (١٨٦٤-١٩٤٠)
حیدر آباد، ہندوستان

انتخاب: وحیدہ اقبال
سیالکوٹ، پاکستان

24/03/2021

اب دماغ و دل میں وہ قوت نہیں وہ دل نہیں
شادؔ اب اشعار میرے در خور محفل نہیں

تو مرے اشک ندامت کی حقیقت کچھ نہ پوچھ
اس کا ہر قطرہ وہ دریا ہے جہاں ساحل نہیں

گھر خدا کا تھا مگر بت اس میں آ کر بس گئے
اب مرقع ہے حسینوں کا ہمارا دل نہیں

نکتہ چیں ہو میری رندانہ روش پر کیوں کوئی
میں کوئی زاہد نہیں واعظ نہیں عاقل نہیں

پردہ داری کرتی ہے در پردہ لیلیٰ عشق کی
جذبۂ دل قیس کا ہے پردۂ محمل نہیں

انقلاب‌ دہر سے الٹا زمانے کا ورق
اہل محمل وہ نہیں وہ رونق محفل نہیں

ہند میں چلنے لگی ہے اب ہوائے انقلاب
شادؔ سچ ہے یہ جگہ رہنے کے اب قابل نہیں

ساغر مے پیش کر کے شیخ کہلاتا ہوں میں
ہدیۂ احقر ہے یہ گو آپ کے قابل نہیں

حق میں اب عاشق کے دیکھیں فیصلہ ہوتا ہے کیا
عشق کا دعویٰ حضور حسن تو باطل نہیں

مہراج سرکشن پرشاد شادؔ (١٨٦٤-١٩٤٠)
حیدر آباد، ہندوستان

انتخاب: وحیدہ اقبال
سیالکوٹ، پاکستان

24/03/2021

بڑھ چلا عشق تو دل چھوڑ کے دنیا اٹھا
خود بخود جوش مے ناب سے شیشہ اٹھا

دست نازک سے زر گل کا بھی اٹھنا ہے محال
یہ تو فرمائیے کس وجہ سے توڑا اٹھا

جب پکارے لب جاں بخش سے وہ مر گئے ہم
نا توانوں سے نہ بار دم عیسیٰ اٹھا

خاکساروں میں نہیں ایسے کسی کی توقیر
قد آدم مری تعظیم کو سایا اٹھا

یاد اس بت کی نمازوں میں جو آئی مجھ کو
تپش شوق سے ہر بار میں بیٹھا اٹھا

منیرؔ شکوہ آبادی (١٨١٤-١٨٨٠)
رام پور، ہندوستان

انتخاب: وحیدہ اقبال
سیالکوٹ، پاکستان

24/03/2021

فصل بہار آئی ہے پیمانہ چاہئے
بلبل کے ساتھ نعرۂ مستانہ چاہئے

عشاق شمع حسن کو کیا کیا نہ چاہئے
پرواز رنگ کو پر پروانہ چاہئے

پیری میں رات دن ہمیں پیمانہ چاہئے
رعشہ کے بدلے لغزش مستانہ چاہئے

وحشت میں بات عقل کی سننا نہ چاہئے
کانوں میں پنبۂ کف دیوانہ چاہئے

کنگھی بناؤں چوب عصائے کلیم کی
تسخیر مار گیسوئے جانانہ چاہئے

دریائے وحدت و چمن دہر سے ہمیں
در یگانہ سبزۂ بیگانہ چاہئے

آب و غذائے عاشق دنداں محال ہے
روز آب و دانۂ در یکدانہ چاہئے

میں سائل کمال جنوں ہوں مرے لئے
کجکول کاسۂ سر دیوانہ چاہئے

اسرار حق ہیں دل میں مگر دل ہے بے خبر
اس گنج کے لئے یہی ویرانہ چاہئے

سیر بہشت چاہتے ہیں نشہ میں مدام
مستوں کو چشم حور کا پیمانہ چاہئے

گو بے نقاب رہتے ہو پردے میں ہے حجاب
در پردہ ہم سے آپ کو چھپنا نہ چاہئے

عاشق بنا کے ہم کو جلاتے ہیں شمع رو
پروانہ چاہئے انہیں پروانہ چاہئے

اے پیر مے فروش در توبہ کی طرح
وا روز حشر تک در مے خانہ چاہئے

تا مرگ آشنا نہ ہوا ایک سبزہ رنگ
تربت پر اپنی سبزۂ بیگانہ چاہئے

دشمن ہے وہ تو تم بھی نہ ہو دوست اے منیرؔ
اپنا برا نہ چاہئے اچھا نہ چاہئے

منیرؔ شکوہ آبادی (١٨١٤-١٨٨٠)
رام پور، ہندوستان

انتخاب: وحیدہ اقبال
سیالکوٹ، پاکستان

23/03/2021

خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو

یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو

گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو

خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو

ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو

خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

احمد ندیم قاسمی (١٩١٦-٢٠٠٦)
لاہور، پاکستان

انتخاب: وحیدہ اقبال
سیالکوٹ، پاکستان

22/03/2021

مرا سینہ ہے مشرق آفتاب داغ ہجراں کا
طلوع صبح محشر چاک ہے میرے گریباں کا

ازل سے دشمنی طاؤس و مار آپس میں رکھتے ہیں
دل پر داغ کو کیوں کر ہے عشق اس زلف پیچاں کا

کسی خورشید رو کو جذب دل نے آج کھینچا ہے
کہ نور صبح صادق ہے غبار اپنے بیاباں کا

چمکنا برق کا لازم پڑا ہے ابر باراں میں
تصور چاہیئے رونے میں اس کے روئے خنداں کا

دیا میرے جنازے کو جو کاندھا اس پری رو نے
گماں ہے تختۂ تابوت پر تخت سلیماں کا

کسی سے دل نہ اس وحشت سرا میں میں نے اٹکایا
نہ الجھا خار سے دامن کبھی میرے بیاباں کا

تہہ شمشیر قاتل کس قدر بشاش تھا ناسخؔ
کہ عالم ہر دہان زخم پر ہے روئے خنداں کا

امام بخش ناسخؔ (١٧٧٢-١٨٣٨)
لکھنؤ، ہندوستان

انتخاب: وحیدہ اقبال
سیالکوٹ، پاکستان

22/03/2021

مزہ وصال کا کیا گر فراق یار نہ ہو
نہیں ہے نشے کی کچھ قدر اگر خمار نہ ہو

نہ روئے تا کوئی عاشق یہ حکم ہے اس کا
کہ شمع بھی مری محفل میں اشک بار نہ ہو

جو ہچکی آئی تو خوش میں ہوا کہ موت آئی
کسی کو یار کا اتنا بھی انتظار نہ ہو

ذقن ہے سیب تو عناب ہے لب شیریں
نہیں ہے سرو وہ خوش قد جو میوہ دار نہ ہو

وہ ہوں میں مورد نفرت کہ درکنار ہے یار
پئے فشار کبھی گور ہم کنار نہ ہو

نہ آئے کنج لحد میں بھی مجھ کو خواب عدم
اگر سرہانے کوئی خشت کوئے یار نہ ہو

برنگ حسن بتاں ہے دل شگفتہ مرا
جو اس چمن میں خزاں ہو تو پھر بہار نہ ہو

گئی ہے کیسی زمانے سے رسم سرگرمی
عجب نہیں ہے جو پتھر میں بھی شرار نہ ہو

نہ ہنسنے سے کبھی ہم راز پوش واقف ہوں
برنگ غنچہ جگر جب تلک فگار نہ ہو

تری مژہ کی جو تشبیہ اس سے ترک کریں
کسی کے تیر سے کوئی کبھی فگار نہ ہو

دم اخیر تو کر لیں نظارہ جی بھر کے
الٰہی خنجر سفاک آب دار نہ ہو

یہی ہے قلزم غم میں مری دعا یا رب
قیام اس میں کوئی بھی حباب دار نہ ہو

وہ صبح سینۂ صد چاک میں ہے داغ جنوں
کہ جس سے دیدۂ خورشید بھی دو چار نہ ہو

ہوس عروج کی لے جائیں گر یہ دنیا سے
کبھی بلند ہوا سے کوئی غبار نہ ہو

کمال صورت بے درد سے تنفر ہے
نہ دیکھیں ہم کبھی اس گل کو جس میں خار نہ ہو

ہزاروں گور کی راتیں ہیں کاٹنی ناسخؔ
ابھی تو روز سیہ میں تو بے قرار نہ ہو

امام بخش ناسخؔ (١٧٧٢-١٨٣٨)
لکھنؤ، ہندوستان

انتخاب: وحیدہ اقبال
سیالکوٹ، پاکستان

20/03/2021

کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں لگتا ہے کہ ہم جس کے پیچھے چل رہے وہ صحیح ہے جب کہ حقیقت تو یہی ہوتی ہے کہ ایک سیراب کے پیچھے جا رہے ہوتے ہیں جو کہ کبھی ہاتھ نہیں آتا۔

17/03/2021

صبح کو حشر بھی ہے کٹ گئی گر آج کی رات
دے رہا ہے مرا دل کل کی خبر آج کی رات

میرے نالوں میں غضب کا ہے اثر آج کی رات
لوگ تھامے ہوئے بیٹھے ہیں جگر آج کی رات

ضبط مانع ہے کہ وہ شوخ شکایت نہ کرے
بے صدا آہ بھی ہے مثل اثر آج کی رات

ٹوٹے پڑتے ہیں فلک سے بھی ستارے پیہم
چننے بیٹھا ہے جو افشاں وہ قمر آج کی رات

ضبط نالہ نے یہ اندھیر کیا سینے میں
بن گیا گھٹ کے دھواں سوز جگر آج کی رات

منشی نوبت رائے نظرؔ لکھنوی (١٨٦٤-١٩٢٣)
لکھنؤ، ہندوستان

انتخاب: وحیدہ اقبال
سیالکوٹ، پاکستان

17/03/2021

انتظار حشر کر سکتے نہیں ناکام عشق
آج ہی ہو جائے ہونا ہو جو کل انجام عشق

ابتدا میں درد فرقت موت ہے انجام عشق
اہل دل کو نا موافق ہے ہوائے بام عشق

بے خودی میں ڈبڈبا آئے ہیں آنسو آنکھ میں
المدد اے ضبط چھلکا چاہتا ہے جام عشق

اس کی الفت نے کیا رسوائے عالم کس قدر
انگلیاں اٹھتی ہیں جاتے ہیں جدھر بدنام عشق

کیوں نصیحت میں تری ناصح ہیں یہ دل سوزیاں
کیا ترے دل پر گزرتے ہیں مرے آلام عشق

چشم گریاں قلب نالاں کی شماتت قہر ہے
دونوں مل کر اک مجھی کو دیتے ہیں الزام عشق

حسرتیں بھی آج دل کے ساتھ ہی دم توڑ دیں
آگے پیچھے ساتھ والوں کا نہ ہو انجام عشق

بام پر آ کر ذرا بکھرائیے زلف دراز
پھیل جائے سارے عالم میں سواد شام عشق

اور کیا اعجاز ہوتا حسن لیلیٰ کے لیے
مر گیا مجنوں مگر زندہ ہے اب تک نام عشق

چار ہی دن میں نظرؔ تم اس قدر گھبرا گئے
آسماں سے کوئی پوچھے گردش ایام عشق

منشی نوبت رائے نظرؔ لکھنوی (١٨٦٤-١٩٢٣)
لکھنؤ، ہندوستان

انتخاب: وحیدہ اقبال
سیالکوٹ، پاکستان

17/03/2021

یہ کہہ کے رخنہ ڈالئے ان کے حجاب میں
اچھے برے کا حال کھلے گا نقاب میں

یا رب وہ خواب حق میں مرے خواب مرگ ہو
آئے وہ مست خواب اگر میرے خواب میں

تحقیق ہو تو جانوں کہ میں کیا ہوں قیس کیا
لکھا ہوا ہے یوں تو سبھی کچھ کتاب میں

میں اور ذوق بادہ کشی لے گئیں مجھے
یہ کم نگاہیاں تری بزم شراب میں

ہیں دونوں مثل شیشہ پہ سامان صد شکست
جیسا ہے میرے دل میں نہیں ہے حباب میں

یہ عمر اور عشق ہے آزردہؔ جائے شرم
حضرت یہ باتیں پھبتی تھیں عہد شباب میں

مفتی صدرالدین آزردہؔ (١٧٨٩-١٨٦٨)
دلی، ہندوستان

انتخاب: وحیدہ اقبال
سیالکوٹ، پاکستان

17/03/2021

ہے مفت دل کی قیمت اگر اک نظر ملے
یہ وہ متاع ہے کہ نہ لیں مفت اگر ملے

انصاف کر کہ لاؤں میں پھر کون سا وہ دن
محشر کے روز بھی نہ جو داد جگر ملے

پروانہ وار ہے حد پرواز شعلہ تک
جلنے ہی کے لیے مجھے یہ بال و پر ملے

آنے سے خط کے جاتے رہے وہ بگاڑ سب
بن آئی اب تو حضرت دل لو خضر ملے

کیا شکر کا مقام ہے مرنے کی جاہے دل
کچھ مضطرب سے آج وہ بیرون در ملے

عالم خراب ہے نہ نکلنے سے آپ کے
نکلو تو دیکھو خاک میں کیا گھر کے گھر ملے

ہے شام ہجر آج او ظالم او فلک
گردش وہ کر کہ شام سے آ کر سحر ملے

گو پاس ہو پہ چین تو ہے اس بگاڑ میں
کیا لطف تھا لڑے وہ ادھر اور ادھر ملے

دل نے ملا دیں خاک میں سب وضع داریاں
جوں جوں رکے وہ ملنے سے ہم بیشتر ملے

ٹوٹے یہ بخیہ زخم کا ہمدم کہیں سے لا
خنجر ملے کٹار ملے نیشتر ملے

تھا اصل میں مراد ڈبونا جہان کا
قابل سمجھ کے گویا ہمیں چشم تر ملے

اس کی گلی میں لے گئے آزردہؔ کو اسے
دی تھی دعا یہ کس نے کہ جنت میں گھر ملے

مفتی صدرالدین آزردہؔ (١٧٨٩-١٨٦٨)
دلی، ہندوستان

انتخاب: وحیدہ اقبال
سیالکوٹ، پاکستان

15/03/2021

قصر جاناں تک رسائی ہو کسی تدبیر سے
طائر جاں کے لیے پر مانگ لوں میں تیر سے

ان کو کیا دھوکا ہوا مجھ ناتواں کو دیکھ
میری صورت کیوں ملاتے ہیں مری تصویر سے

گالیاں دے کر بجائے قم کے اے رشک مسیح
آپ نے مردے جلائے ہیں نئی تدبیر سے

صدقے اے قاتل ترے مجھ تشنۂ دیدار کی
تشنگی جاتی رہی آب دم شمشیر سے

عشوے سے غمزے سے شوخی سے ادا سے ناز سے
مٹنے والا ہوں مٹا دیجے کسی تدبیر سے

اک سوال وصل پر دو دو سزائیں دیں مجھے
تیغ سے کاٹا زباں کو سی دئے لب تیر سے

کچھ نہ ہو اے انقلاب آسماں اتنا تو ہو
غیر کی قسمت بدل جائے میری تقدیر سے

زندگی سے کیوں نہ ہو نفرت کہ محو زلف ہوں
قید ہستی مجھ کو بیدمؔ کم نہیں زنجیر سے

بیدمؔ شاہ وارثی (١٨٧٦-١٩٣٦)
بارہ بنکی، ہندوستان

انتخاب: وحیدہ اقبال
سیالکوٹ، پاکستان

Videos (show all)

#فاطمہ_محمود

Telephone

Website