Mobile Cargo

Mobile Cargo

An android app where you can book Cargo Vehicles Online..........

20/06/2022

ہڑپہ سٹی نائی والا بنگلہ روڈ کے متوازی
جناح کمرشل زون میں دو عدد دکانیں برائے فروخت ہیں۔

ایک دوکان کا رقبہ دو مرلے تین سرساہی ہے۔
دو دکانیں ملا کر کل جگہ چار مرلے چھ سرساہی ہے۔
دکانیں تعمیر شدہ نہیں ہیں۔ اس لئے
شو روم
بینک
کارپوریٹ افس
فرنچائز
وغیرہ کے حساب سے تعمیر کی جا سکتی ہے۔

کمرشل زون میں مسجد
بالکل متصل بینک وغیرہ کی سہولیات موجود ہیں۔ دکانوں کے سامنے چالیس فٹ کشادہ روڈ ہے۔

خریدار حضرات اس نمبر پہ رابطہ کریں
03347162295

ڈیلر حضرات بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔

14/05/2022

بی ایس سی کا وہ سٹوڈنٹ با شرع نوجوان مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ ہمیشہ سب سے آگے والی لائن میں بیٹھتا تھا۔ کلاس کی لڑکیوں سے خود سے بات نہیں کرتا تھا۔ کبھی کوئی لڑکی اسے مخاطب کرتی تھی تو اس کی طرف دیکھنے کی بجائے، نظریں نیچی کر کے جواب دیتا تھا۔ کلاس کے لڑکے اس بات پر اسکا مذاق اڑاتے تھے۔ اور کچھ لڑکیوں کو اس پر جز بز ہوتے دیکھا تھا کہ وہ ان کی طرف دیکھتا کیوں نہیں۔
وہ میرےآفس میں بیٹھا تھا۔ وہ تھوڑی دیر خاموش بیٹھا رہا۔ شاید سوچ رہا تھا کہ بات کہاں سے شروع کرے۔ کہنے لگا
سر میں نے کسی عالم سے سنا کسی حدیث شریف کا مفہوم سنا تھا کہ ایک وقت آئے گا اسلام اجنبی بن جائے گا اور اسلام پر عمل کرنا اتنا مشکل ہو جائے گا جیسے کانٹوں پر چلنا۔ سر حقیقت یہ ہے کہ میں اسی صورت حال سے دوچار ہوں۔ سر میں نے یونیورسٹی میں داخلہ لیتے ہوئے اپنا ایک سال ضائع کیا ہے صرف اس لیے کہ میں چاہتا تھا کہ میں وہاں داخلہ نہ لوں جہاں میرے ساتھ نامحرم لڑکیاں ہوں۔ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے اس ملک میں صرف اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں کسی حد تک ایسا ممکن ہے۔وہاں میرا پسندیدہ ڈگری پروگرام بھی نہیں ہے اور جو ملتا جلتا ہے وہاں میرا داخلہ نہیں ہو سکا۔ اس کے علاوہ ہر ایک یونیورسٹی میں کو ایجو کیشن ہے۔ لڑکیوں کے لیے الگ سے یونیورسٹیاں ہیں لیکن لڑکوں کے لیے کوئی ایسی یونیورسٹی نہیں ہے جہاں وہ الگ سے تعلیم حاصل کر سکیں۔ یعنی یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ کو ایجوکیشن سے کچھ لڑکیوں کو تو مسئلہ ہو سکتا ہے اس لیے ان کی الگ یونیوسٹیاں بنائی گئی ہیں لیکن لڑکوں کو کو ایجوکیشن سے کوئی مسئلہ ہو یہ سوچنا بھی محال ہے اس اسلامی ملک میں۔
میرا تعلق زیادہ مذہبی گھرانے سے نہیں ہے۔ سارے خاندان میں میں اکیلا ہی اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنے کی کوشش کرر ہا ہوں۔سر میرا صوم وصلوٰۃ کا پابند ہونا اور اس عمرمیں داڑھی رکھنا ہی کسی سے برداشت نہیں ہوتا۔ میں کسی کو کچھ نہیں کہتا لیکن پھر بھی مجھے ہر طرف سے طعنے سننے کو ملتے ہیں۔ کوئی ملا کہہ کر حقارت سے بلاتا ہے تو کوئی دہشت گرد کہتا ہے۔
سر آپ جانتے ہی ہیں کہ میرے ہم عمروں میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جس کے کسی نہ کسی لڑکی سے ناجائز تعلقات نہ ہوں ۔ میں اپنے والدین سے جائز نکاح کی بات کرتا ہوں تو مذاق اڑایا جاتا ہے کہ ابھی عمر ہی کیا ہے تمہاری۔ سر مجھے بالغ ہوئے دس سال ہونے والے ہیں، یہ دس سال میں نے کیسے ناجائز کاموں سے بچتے ہوئے گزارے ہیں یہ میں جانتا ہوں یا میرا اللہ۔ سر ہاسٹل میں لڑکے اکٹھے بیٹھ کر گندی فلمیں دیکھتے ہیں، اور ایسے دوسروں کو ساتھ بیٹھنے کی دعوت دیتے ہیں جیسے یہ گناہ عظیم نہ ہو۔ جو نہ دیکھے اسے کھسرا کہہ کر اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ کلاس کی لڑکیوں کی طرف بغیر دیکھے بات کرتا ہوں تو یہی لقب ادھر سے بھی دہرایا جاتا ہے۔ کلاس میں میں سب سے آگے والی لائن میں اس لیے بیٹھتا ہوں کہ کلاس کی بے پردہ لڑکیوں کو دیکھ کر گناہ گار نہ ہوں مگر یہ کہا جاتا کہ میں لڑکیوں کو کم تر سمجھتا ہوں اس لیے انھیں آگے نہیں بیٹھنے دیتا ہوں۔ اپنی خواتین اساتذہ کے سوالوں کے جوابات ان کی طرف دیکھے بغیر دوں تو ڈانٹ سننے کو ملتی ہے۔
میں اپنے والدین سے جائز نکاح کی بات کرتا ہوں تو کہا جاتا ہے کہ پہلے پڑھائی مکمل کر کے کمانے والے ہو جاؤ لیکن یہ بھی کر لوں تب بھی نہیں کریں گے۔ مجھ سے بڑا بھائی چار سال سے اچھا کما رہا ہے، شادی کی بات کرے تو کہا جاتا ہے کہ پہلے بہنوں کی ہوگی پھر تمہاری۔ جہاں بہنوں کی ہونی ہے وہاں ان کے والدین بھی اسی انتظار میں ہیں کہ پہلے بہنوں کی ہو تو پھر اپنے بیٹوں کی کریں۔
میرے والدین کہتے ہیں کہ خود کمانے والے ہو تب شادی کریں گے، سر میرے کلاس فیلوز نے گرل فرینڈز رکھی ہوئی ہیں، وہ بھی تو خود کمانے والے نہیں ہیں۔ انکا خرچہ کیا ان کے والدین نہیں دے رہے؟
کیا نکاح کو ہم سادہ نہیں کر سکتے؟ حسب استطاعت حق مہر، دو گواہ اور ولی کی اجازت۔ ولیمہ کی استطاعت ہو تو کر دیں۔ اس پر خرچ ہی کتنا ہے کہ ہم نے اتنا مشکل بنا لیا ہے؟
کوئی بھی لڑکا لڑکی پڑھ رہے ہوں تو ان کا خرچ والدین ہی دے رہے ہوتے ہیں، ایسا کیا ہو جاتا کہ نکاح ہونے کے بعد بھی تعلیم کا خرچ دونوں طرف کے والدین کرتے رہیں؟لڑکی کے والدین لاکھوں روپے کا جہیز دینے کو تیار ہو جاتے ہیں لیکن دو تین سال تک چند ہزار ماہانہ اپنی بیٹی کو دیتے کیوں موت پڑ جاتی ہے؟ حالانکہ نکاح نہ ہوا ہو تو وہی پیسے ہر مہینے بخوشی دیتے رہتے ہیں۔
سر معاشرے میں یہی مشہور کہ ہراسمینٹ کا سامنا صرف لڑکیوں کو کرنا پڑتا ہے۔ سر یہ میرا موبائل لیں اور خود دیکھ لیں کہ رشتہ دار اور کلاس فیلو لڑکیوں کی طرف سے کیسے کیسے میسیجز آئے ہوئے ہیں۔ میں کسی کا جواب نہیں دیتا پھر بھی آتے رہتے ہیں۔
سر میں کیا کروں؟جائز طریقہ معاشرے نے میرے واسطے چھوڑا کوئی نہیں۔ ہر طرف سے گناہ کی دعوت عام ہے۔ ایسے میں ایک بیس بائیس سالہ نوجوان کب تک خود پر قابو پا کر گناہ کی دلدل میں دھنسنے سے بچ سکتا ہے؟ سر یہ معاشرہ اور خاص طور پر ہمارے والدین کیا ہمیں پاکیزہ زندگی گزارنے کے لیے کوئی راستہ مہیا نہیں کر سکتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عدنان نیازی
#نیازیات

13/05/2022

پاکستان اور انڈیا کی اشرافیہ میں فرق

پاکستان اور بھارت کی اشرافیہ کے درمیان موجود عظیم الشان فرق کو سمجھنا بڑا اہم ہے

آزادی کی تحریک کے بھارتی سائیڈ کے سیاستدان کئی سال جئیے۔ وہ اپنی زندگی میں بھارتیوں پر ایک بڑا احسان کرگئے۔

انھوں نے بھارت سے جاگیرداری کا خاتمہ کرکے، انڈسٹریلائزیشن کی بنیاد ڈال دی

اس قدم کی وجہ سے وہاں جو اشرافیہ پیدا ہوئی، وہ جینوئن کاروباری تھی۔ انھیں کمانا آتا تھا، انھیں کاروبار گرو کرنا آتا تھا

اسی وجہ سے وہاں ٹاٹا، برلا، مٹل، بجاج اور امبانی جیسے بڑے گروپس پیدا ہوئے۔ انھیں اپنی گروتھ کے لیے ایک معاشی خوشحال اور ترقی کرتی مڈل کلاس کی ضرورت تھی جنھیں مال بیچا جاسکے۔

اسی وجہ سے انھوں نے بھارت میں کاروبار دوست پالیسیاں بنائیں۔ جاگیرداری کا تو وہاں خاتمہ ہوچکا تھا۔ مربعوں کی بجائے وہاں کارخانوں پر فوکس رہا۔ دنیا بھر کے سرمایہ کاروں اور ملٹی نیشنلز کو مدعو کیا گیا۔ تاکہ اپنے ساتھ وہ سرمایہ لائیں اور بھارتیوں کی قوت خرید میں اضافہ کرسکیں

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت نے اپنی یونیورسٹیوں پر خوب انویسٹ کیا، انھیں ڈیویلپ کیا

نوے کی دہائی میں بھارت نے آئی ٹی انڈسٹری کی بنیاد رکھی جس میں مائیکروسافٹ کے فاؤنڈر، بل گیٹس کو باقاعدہ مدعو کرکے اس گروتھ کو فیول کیا

آج بھارت کم سے کم میکرو اکنامک نمبرز کے حوالے سے دنیا کی ٹاپ معیشتوں کے ساتھ مقابلہ کررہا ہے

بھارتی معشیت کچھ ہی سالوں میں 5 ٹریلین ڈالر اکانومی بننے کی راہ پر کامیابی کے ساتھ گامزن ہے

پاکستان کی صورتحال مایوس کن ہے،

یہاں آزادی کی تحریک کے لیڈران یا تو جلد انتقال کرگئے، قتل کردئیے گئے یا کھڈے لائن لگادئیے گئے

اس وجہ سے یہاں پر جاگیرداری آب و تاب سے چلتی رہی جو اب تک جاری ہے

جینوئن بزنس مائنڈ سیٹ یہاں کبھی پنپ ہی نہیں سکا۔ ہم کوئی ٹاٹا برلا، امبانی پیدا نہیں کرسکے

یہاں کی اشرافیہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں مقابلہ کرنے کے قابل ہی نہ ہوسکی

نتیجتاً یہاں پراپرٹی، چینی کے کارخانے ہی گرو کرتے رہے

چونکہ ہماری اشرافیہ کو جینوئن بزنس means سے پیسہ کمانا نہیں آتا، لہذا یہاں قرضوں اور امداد سے ملک کے اخراجات چلانے کا رواج گہرا ہوتا گیا

رہی سہی کسر بھٹو کی تباہ کن ترین معاشی پالیسیوں نے پوری کردی۔ انڈسٹری کو قومیانا ملک کے معاشی مستقبل کے لیے ذہر ثابت ہوا

امریکہ و مغرب پاکستانی اشرافیہ کی اس کمزوری کو اچھی طرح بھانپ گیا۔ اس نے بھی پاکستان کو قرضوں اور امداد کے شکنجے میں بری طرح جکڑ کر رکھا۔

آپ آج بھی دیکھ لیجیے کہ جس وقت بھارت روس کے ساتھ خالص کاروباری ڈیلز کررہا ہے، پاکستان آئی ایم ایف اور امریکہ سے بیل آؤٹ پیکج کی امید لگائے بیٹھا ہے

بھارتی اشرافیہ کی سوچ یہ ہے کہ اس وقت باقی دنیا سے سستا آئل خرید کر ہم اپنی پراڈکٹس کی کاسٹ نیچے لا کر منڈیوں میں دوسری پراڈکٹس کے مقابلے میں اچھا پرفارم کرسکتے ہیں

جبکہ پاکستانی ہڈ حرام اشرافیہ سوچ رہی ہے کہ امریکہ کی چاپلوسی کرکے ہم چند ارب ڈالرز کا پیکج حاصل کرلیں تو چند ماہ مزید آرام سے گزار لیں گے

یہی سوچ کا فرق ہے۔۔۔۔۔۔۔

کاش کے ہمیں بھارت کی طرح ہی جینوئن بزنس مائنڈ سیٹ رکھنے والی ہی اشرافیہ مل جاتی تو آج ملک کے حالات بہت بہتر ہوتے۔۔۔۔۔۔!!!!
منقول

10/05/2022

آنکھیں کھولیے،موسم روٹھ رہے ہیں
آصف محمود | ترکش | روزنامہ 92 نیوز
گرمی کی تازہ لہر نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔لیکن اس لہر اور اس کے خطرناک اثرات پر بحث، تحقیق اور گفتگو برطانیہ اور امریکہ میں ہو رہی ہے۔ امپیریل کالج لندن اور یونیورسٹی آف ہوائی میں محققین بیٹھے سوچ رہے ہیں کہ موسم کی یہ انگڑائی پاکستان کا کیا حشر کر سکتی ہے لیکن پاکستان کے کسی یونیورسٹی کے لیے یہ سرے سے کوئی موضوع ہی نہیں ہے۔سوئٹزرلینڈ میں بیٹھا ڈاکٹر رابرٹ روڈ دہائی دے رہا ہے کہ موسموں کے اس آتش فشاں کو سنجیدگی سے لیجیے ورنہ ہزاروں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے لیکن پاکستان کے اہل دانش سیاست کی دلدل میں غرق ہوئے پڑے ہیں۔

ندی خشک پڑی ہے اور چشمے کا پانی نڈھال ہے۔مارگلہ کے جنگل میں آج درجہ حرارت 42کو چھو رہا ہے۔ عید پر بارش ہوئی تو درجہ حرارت 22 تک آ گیا تھا لیکن عید سے پہلے اپریل کے آخری دنوں میں بھی یہ 40 سے تجاوز کر گیا تھا۔ مارگلہ میں چیت اورو ساکھ کے دنوں میں ایسی گرمی کبھی نہیں پڑی۔ یہ جیٹھ ہاڑ کا درجہ حرارت ہے جو چیت اور وساکھ میں آگیا ہے۔ موسموں کی یہ تبدیلی بہت خطرناک ہے لیکن یہاں کسی کو پرواہ نہیں۔ اس معاشرے اور اس کے اہل فکرو دانش کو سیاست لاحق ہو چکی اور ان کے لیے سیاست کے علاووہ کسی موضوع پر بات کرنا ممکن نہیں رہا۔

مارگلہ میں موسم گرما اچانک نہیں آتا۔ یہ ایک مالا ہے جس کے ہر موتی کا اپنا رنگ اور اپنی خوشبو ہوتی ہے۔ہر موسم دوسرے سے الگ اور جداہے۔اسُو یہاں جاڑے کا سندیسہ لے کر اترتا ہے اور چیت اُنہالے کا۔ چیت کے آخری ایام بتاتے ہیں کہ موسم گرما آنے کو ہے۔ وساکھ یہاں موسم گرما کی پہلی دستک کا نام ہے۔درختوں کی چھاؤں میٹھی ہوتی ہے مگر دھوپ میں ذرا سی حدت۔ پھر جیٹھ ہاڑ کی شدید گرمی اور آخرمیں ساون بھادوں کی بارشیں اترتی ہیں جب جنگل پہلی محبت کی طرح حسین ہو جاتا ہے۔

ایسا کبھی نہیں ہو کہ یہ تابستانی رنگ اپنی شناخت کھو دیں۔اس بار مگر وساکھ میں ہی جیٹھ کی حدت آ گئی ہے۔ندی کنارے بیٹھا ہوں، سامنے چشمے بہہ رہا ہے اور چشمے کے کنارے پر ایک کوئل نڈھال بیٹھی ہے۔ زبان باہر کو نکلی ہوئی ہے اور حدت سے اس کے کندھے اوپر کو اٹھے ہوئے ہیں۔ وقفے وقفے سے وہ چشمے میں اترتی ہے، ڈبکی سی لگاتی ہے اور پھر کنارے پر بیٹھ کر پروں کو پھڑ پھڑانے لگتی ہے۔چیت اور وساکھ کی ان دوپہرں میں تو کوئل نغمے سنایا کرتی تھی، آج مگر بدلتے موسم نے اسے گھائل کر چھوڑا۔

موسموں کی اس تبدیلی سے صرف مارگلہ متاثر نہیں ہو گا، پورے ملک پر اس کے اثرات پڑیں گے۔ مارگلہ میں تو درجنوں چشمے ہیں اور ندیاں، کچھ رواں رہتی ہیں کچھ موسموں کے ساتھ سوکھتی اور بہتی ہیں، لیکن جنگل کے پرندوں اور جانوروں کے لیے یہ کافی ہیں۔سوال تو انسان کا ہے، انسان کا کیا بنے گا۔ افسوس کہ انسان کے پاس اس سوال پر غور کرنے کا وقت نہیں۔مریض کو جیسے کوئی موذی مرض لاحق ہو جائے، ایسے اس معاشرے کو سیاست لاحق ہو گئی ہے۔ یہی ہماری تفریح ہے اور یہی ہمارا موضوع بحث۔ اس کے سوا ہمیں کچھ سوجھتا ہی نہیں۔

ابلاغ کی دنیا ان کے ہاتھ میں ہے جو سنجیدہ اور حقیقی موضوعات کا نہ ذوق رکھتے ہیں نہ اس پر گفتگو کی قدرت۔ نیم خواندگی کا آزار سماج کو لپیٹ میں لے چکا ہے۔ سر شام ٹی وی سکرینوں پر جو قومی بیانیہ ترتیب پاتا ہے اس کی سطحیت اور غیر سنجیدگی سے خوف آنے لگا ہے۔نوبت یہ ہے کہ دنیا چیخ چیخ کر ہمیں بتا رہی ہے کہ آپ ماحولیاتی تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں لیکن ہمارا دانشور صبح سے شام تک یہی گنتی کر رہا ہوتا ہے کہ کس قائد انقلاب کے جلسے میں کتنے لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔یہی حال سوشل میڈیا کا ہے۔ موضوعات کا افلاس آسیب بن چکا ہے۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن ماحولیات کی تباہی سے یکسر بے نیاز۔گلی کوچوں سے پارلیمان تک یہ سوال کہیں زیر بحث ہی نہیں کہ درجہ حرارت بڑھنے کا مطلب کیا ہے؟زیر زمین پانی کی سطح جس تیزی سے گر رہی ہے، خوفناک ہے۔ چند سال پہلے اسلام آباد میں 70 یا 80 فٹ پر پانی مل جاتا تھا لیکن اب تین سے چار سو فٹ گہرے بور کرائیں تو بمشکل اتنا پانی دستیاب ہے کہ پانچ سے دس منٹ موٹر چل سکتی ہے۔ موسم کی حدت کا عالم یہی رہا تو پانچ دس سال بعد زیر زمین پانی چھ سات سو فٹ گہرائی میں بھی مل جائے تو غنیمت ہو گی۔

اسلام آباد دارالحکومت ہے لیکن پانی کا بحران اسے لپیٹ میں لے چکا ہے۔ ایک ٹینکر اب دو ہزار کا ملتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ٹینکر بھی تو کنووں سے پانی بھر لاتے ہیں، زیر زمین پانی کی سطح یونہی نیچے جاتی رہی تو ٹینکرز کہاں سے پانی لائیں گے؟ ایک آدھ سیکٹر کو چھوڑ کر سارا شہر اس مصیبت سے دوچار ہے لیکن اپناکمال دیکھیے کہ شہر میں کسی محفل کا یہ موضوع نہیں ہے۔نہ اہل سیاست کا، نہ اہل مذہب کا نہ اہل صحافت کا۔ سب مزے میں ہیں۔

یہ بحران صرف اسلام آباد کا نہیں، پورے ملک کا ہے۔ بس یہ ہے کہ کسی کی باری آج آ رہی ہے کسی کی کل آئے گی۔جب فصلوں کے لیے پانی نہیں ہو گا اور فوڈ سیکیورٹی کے مسائل کھڑے ہو جائیں گے پھر پتا چلے گا کہ آتش فشاں پر بیٹھ کر بغلیں بجانے والوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔

جنگل کٹ رہے ہیں، درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے (یعنی کراچی کے سر پر خطرہ منڈلا رہا ہے)، گلیشیئر پگھل رہے ہیں اور سیلابوں کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ابھی گلگت بلتستان میں گلیشیر کے پگھلنے سے حسن آباد پل تباہ ہوا ہے۔ کئی گھر اس کی لپیٹ میں آئے ہیں۔ خود اس پل کی تزیراتی اہمیت تھی کہ یہ چین اور پاکستان کو ملا رہا تھا۔ پل کی تزویراتی اہمیت کی نسبت سے یہ حادثہ ہمارے ہاں زیر بحث آ جائے تو وہ الگ بات ہے لیکن ماحولیاتی چیلنج کی سنگینی کو ہم آج بھی سمجھنے سے قاصر ہیں۔اخبارات، ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا، پریس ٹاک، جلسہ عام۔۔۔۔کہیں اس موضوع پر کوئی بات ہوئی ہو تو بتائیے۔

مارگلہ کی ندیاں بھی اجنبی ہوتی جا رہی ہیں۔ ابھی چندسال پہلے درہ جنگلاں کی ندی ساون بھادوں میں یوں رواں ہوئی کہ چار ماہ جوبن سے بہتی رہی۔ اب دو سال سے خشک پڑی ہے۔ ساون اس طرح برسا ہی نہیں کہ ندی رواں ہوتی۔ رملی کی ندی بہہ تو رہی ہے مگر برائے نام۔جب پوش سیکٹروں کا سیوریج ان ندیوں میں ملا دیا جائے گا تو ندیاں شاید ایسے ہی ناراض ہو جاتی ہیں۔اب تو یوں لگتا ہے نظام فطرت ہی ہم سے خفا ہو گیا ہے۔موسم ہم سے روٹھتے جا رہے ہیں۔

ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ ماحولیات سے جڑے چیلنجز کی سنجیدگی کو سمجھا نہ گیا تو بہت بڑا اور خوفناک بحران ہماری دہلیز پر دستک دینے والا ہے۔

30/03/2022

معروف ڈراما نگار نورالہدی شاہ کی پر اثر تحریر...

پچھلی رات معافیوں کی رات کے طور پر منائی گئی۔ سب نے سب سے کھڑے کھڑے معافی مانگی اور صبح صبح ہوتے ہلکے پھلکے ہو کر سو گئے۔ سوشل میڈیا نے اسے اور بھی آسان کر دیا ہے۔ خدا کرے روزِ محشر بھی وائی فائی کام کرتا ہو اور ہم سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے سے یوں ہی رابطے میں ہوں۔ اتنی آسانی سے حقوق العباد کی اگر معافیاں روزِ محشر بھی ہو گئیں تو یقیناً حساب مختصر ہو جائے گا اور جلد از جلد ہم بہشت کے ائرکنڈیشنڈ ہال میں پہنچ چکے ہوں گے۔

معافیوں کی اُس گزر چکی رات میں حیدرآباد سے کراچی کا سفر کر رہی تھی۔ اسی سفر کے دوران سوشل میڈیا پر معافیوں کا لین دین پڑھتے ہوئے مجھے ایک ذاتی تجربہ یاد آ گیا۔

تقریباً چھ سال پہلے دبئی کے ہسپتال میں میری نواسی وقت سے بہت پہلے ساتویں مہینے کی ابتدا میں ہی پیدا ہو گئی۔ میرے گھر کا وہ پہلا بچہ تھی۔ شادی کے چار سال بعد میری بیٹی کے ہاں بچہ ہوا تھا مگر وہ بھی ان حالات میں کہ لگتا تھا کہ مکمل بنی بھی نہیں ہے۔ بالوں بھرا ننھا سا بندر کا بچہ جس کا پورا ہاتھ میری انگلی کی ایک پور پر آتا تھا۔

زندہ رہے گی یا نہیں؟ زندہ رہے گی تو نارمل ہوگی یا نہیں؟ ان سوالوں کا جواب ڈاکٹرز کے پاس بھی نہیں تھا سوائے اس جواب کے کہ سب اللہ کے اختیار میں ہے۔ ہر روز ڈاکٹرز بتاتے کہ بس ختم ہوا چاہتی ہے، فوراً پہنچو۔ بھاگے بھاگے پہنچتے۔ پھر کچھ سانسیں لینا شروع کرتی تو ایک امید کے ساتھ گھر لوٹتے۔ مگر اگلے دن امید پھر دم توڑ دیتی۔

کبھی بلڈپریشر ہائی اور کبھی لو۔ ہائی بھی اتنا کہ ہاتھوں پیروں کی انگلیاں نیلی پڑ جاتیں۔ پوچھنے پر بتایا جاتا کہ اگر بلڈ سرکیولیشن نارمل ہوگئی تو یہ ٹھیک ہو جائیں گی ورنہ جسم کا ناکارہ حصّہ بن جائیں گی۔ اسی طرح کبھی شوگر لیول ہائی اور کبھی لو ہو جاتا۔ وینٹ پر بے دم پڑی بچی نے ہماری سانسیں پھلا دیں۔ کبھی دماغ کا ٹیسٹ بتاتا کہ دماغی طور پر نارمل نہ ہوگی۔ کبھی دل میں سوراخ ملتا۔ کبھی آنکھوں کا معاملہ سامنے آ جاتا۔ اوپر سے خرچہ اتنا کہ تین لاکھ درہم پندرہ دن کا بل بن گیا۔ میرا حال یہ تھا کہ میرے سامنے میری اپنی بیٹی کے بھی آنسو تھے اور اس کے بچے کی ناممکن زندگی بھی۔ تھک کر چوُر ہو گئی۔ ایک بار تو ڈاکٹر کو بھی کہہ دیا کہ اس کو بچانے کی کوشش نہ کریں۔ بچ بھی گئی تو پتہ نہیں کس حال میں ہوگی۔ ڈاکٹر نے کہا کہ آپ کون ہوتی ہیں زندگی چھیننے کا فیصلہ کرنے والی!

انہی حالات میں ایک دن نماز میں کھڑے ہوئے میں رو دی۔ اللہ کو بے بسی سے مخاطب کرکے کہا کہ یااللہ مجھ سے ایسا کیا گناہ ہو گیا ہے کہ جس کی یہ سزا ہے؟

بالکل ہی اگلے لمحے چھپاک سے ایک منظر کی تصویر اور اس میں ایک چہرہ صرف ایک سیکنڈ کے لیے میری نگاہ یا ذہن سے گزر گیا اور حیرت کی بات کہ اگلے سیکنڈ میں مجھے یاد بھی نہ رہا کہ میں نے کیا دیکھا تھا۔

پوری نماز اسی کشمکش میں گزری پر یاد ہی نہ آیا۔ اگلے دو دن، دبئی کی سڑکوں پر ہسپتال اور گھر کے بیچ آتے جاتے، رات کو بستر میں، میں اسی کشمکش سے گزرتی رہی۔ پر یاد ہی نہ آیا کہ دیکھا کیا تھا میں نے۔ اپنے جتنے بھی گناہوں اور خطاؤں کی فہرست میرے ذہن میں تھی، انہیں گنتی رہی مگر کسی سے اس منظر کا نشان نہیں مل رہا تھا۔

دو دن بعد اچانک یاد آ گیا کہ وہ کیا منظر اور چہرہ تھا۔

پندرہ برس پرانا وہ واقعہ مجھے کبھی بھی یاد نہ آیا تھا۔

میری ایک بہت ہی قریبی رشتہ دار لڑکی، شوہر اور حالات کے ہاتھوں ستائی ہوئی، دو بچوں کو ساتھ لیے چھوٹے سے ٹاؤن سے حیدرآباد شفٹ ہوئی تھی کہ اس کا تو مستقبل تاریک تھا ہی پر کسی طرح بچوں کا مستقبل سنور جائے۔ اس کے بیٹے بیٹی کو میں نے حیدرآباد کے بہت ہی اچھے اسکولوں میں داخل کروایا۔ اسے بچوں سمیت تب تک اپنے گھر میں رکھا جب تک ان کی رہائش کا بندوبست نہ ہوا۔ اسی دوران اس کی بیٹی کا نویں کلاس کا بورڈ کا امتحان بھی ہوا اور وہ بچی اے گریڈ مارکس لے کر پاس ہو گئی۔ رزلٹ کے اگلے دن وہ بچی روتی ہوئی اسکول سے لوٹی۔ پتہ چلا کہ کلاس ٹیچر مس حبیب النسا نے اسے پوری کلاس کے سامنے کہا ہے کہ تم تو اتنے نمبر لینے والی نہیں ہو۔ کس سے سفارش کروائی ہے؟ بھری کلاس میں اس بے عزتی پر وہ بچی بری طرح رو رہی تھی۔ بچی کی حالت دیکھ کر ماں بھی رو رہی تھی۔ اوپر سے بچی نے کہہ دیا کہ اب وہ اس اسکول نہیں جائے گی۔

میں ہمیشہ سے مظلوم کے حق کے لیے لڑنے مرنے پر تُل جانے والی رہی ہوں اور اس طرح کے جھگڑوں میں خدائی فوجدار کی طرح کوُد پڑنے کی عادت رہی ہے میری۔

فوراً گاڑی نکالی اور پہنچ گئی اسکول۔ حیدرآباد کے اکثر لوگ مجھے پہچانتے تھے۔ میں سیدھی پرنسپل کے آفس میں گئی اور ہنگامہ مچا دیا کہ ایک بچی اپنی محنت سے پڑھی ہے۔ ایک چھوٹے ٹاؤن سے مستقبل بنانے آئی ہے اور حالات کی وجہ سے پہلے سے ہی سہمی ہوئی ہے۔ اس کی اس طرح ٹیچر حبیب النسا نے پوری کلاس کے سامنے انسلٹ کی ہے!

میرے ہنگامے پر مس حبیب النسا کو حاضر کیا گیا۔ سادہ سی خاتون مگر چہرے پر ٹھہراؤ۔ کہنے لگیں ہاں میں نے کہا ہے، کیونکہ مجھے وہ بچی اتنی ہوشیار نہیں لگتی جتنے نمبر اس نے لیے ہیں۔ یقیناً یا سفارش کی ہے، یا کاپی کی ہے۔

مجھے پتہ تھا کہ وہ بچی بچاری سفارش کروانے کی طاقت نہیں رکھتی۔ نہ ہی اپنی سہمی ہوئی شخصیت کی وجہ سے کاپی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ رٹے مار کر اس نے امتحان دیا تھا اور اتفاق سے وہی سوال آگئے جن کے جواب اسے یاد تھے۔

میں مس حبیب النسا پر برس پڑی کہ یہ کہاں کا انصاف ہے! آپ صرف چھوٹے شہر کی بچی دیکھ کر اسے کمتر قرار دے رہی ہیں اور اس کا مستقبل برباد کر رہی ہیں۔ میری آواز یوں بھی بھاری ہے، اس میں مزید گرج آ گئی۔ مس حبیب النسا اسکول کی باقی ٹیچرز کی بھی ناپسندیدہ تھیں۔ سو ان کی کھنچائی کا تماشہ دیکھنے پرنسپل کے آفس کے باہر ٹیچرز جمع ہوگئیں۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ بھی خوش تھیں کہ چلو کوئی تو ہے مس حبیب النسا کو سنانے والا۔

قصہ مختصر کہ پرنسپل نے بھی انہیں کچھ سخت الفاظ کہے اور میرے ساتھ میرے گھر آ کر اس بچی کو سوری کہا۔ راستے بھر وہ بھی مس حبیب النسا سے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتی آئیں۔۔۔۔۔۔ یوں یہ معاملہ تمام ہوا۔

یہ نیتاً میری ایک نیکی تھی۔ ایک مظلوم ماں اور اس کی بچی کی مدد۔

اس کے بعد کے برسوں میں اُس فیملی کے اور بھی کئی مسائل حل کرتے ہوئے اور دکھ سکھ بانٹتے ہوئے یہ واقعہ میرے ذہن سے بالکل ہی اتر گیا۔ یہاں تک کہ بعد میں جب میں خود زندگی کی ایک بہت بڑی آزمائش سے گزری اور اسی فیملی نے میرے ساتھ بُرا رویّہ رکھا تو بھی وہ بات ماضی میں اُن پر اپنے احسان کے طور پر بھی یاد نہ آئی۔ جس طرح انسان اپنے ساتھ برا کرنے والوں پر کیے گئے احسانات فطری طور پر یاد کرتا ہے۔

دبئی میں جب سسک کر نماز میں میں نے اللہ کو کہا کہ مجھ سے ایسی کیا غلطی ہوگئی ہے جس کی سزا میں مجھ پر اولاد کی تکلیف آ گئی ہے۔۔۔ جواب میں وہ حیات اسکول کی پرنسپل مس بِلو کے آفس کے اس منظر کی ایک سیکنڈ کی تصویری جھلک اور مس حبیب النسا کا چہرہ تھا۔

میں کراچی آئی۔

میری ایک کزن مس حبیب النسا کے ساتھ اسی اسکول میں پڑھاتی رہی تھیں اور وہ بھی مس حبیب النسا سے ناراض رہا کرتی تھیں، اور ان کی بیٹی سلویٰ مس حبیب النسا سے ان کے گھر پر جا کر قرآن بھی پڑھی تھی اور اسکول میں بھی پڑھی تھی۔ میں نے سلویٰ سے مس حبیب النسا کا نمبر مانگا اور اسے پوری بات بتائی۔
جواب میں اس نے کہا کہ آپ کو صحیح جواب ملا ہے۔ میں نے بچپن مس حبیب النسا کے پاس قرآن پڑھتے ہوئے گزارا ہے۔ وہ حافظِ قران ہونے کے ساتھ ساتھ فقہ اور حدیث سنَد کے ساتھ پڑھی ہوئی ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر انہوں نے اپنے ضعیف والدین کی خدمت میں جوانی گزار دی مگر شادی نہ کی کہ والدین کو ان کی ضرورت تھی۔ اپنے آخری دنوں میں ان کے والد بہت ہی ضعیف اور مشکل ہو گئے تھے مگر وہ کبھی اس مشکل ڈیوٹی میں اُف تک نہ کہتی تھیں بلکہ والد کے پیچھے پیچھے دوڑی دوڑی پھرتی تھیں۔ ان کے غسل خانے کے کام بھی وہ اپنے ہاتھوں سے کرتی تھیں۔ مگر وہ لوگوں کو اس لیے پسند نہیں کہ منہ پر صاف صاف اور سچ بولتی ہیں۔
سلویٰ سے نمبر لے کر میں نے مس حبیب النسا کو فون کیا۔ میرا نام سن کر وہ خوش ہو گئیں۔ میں نے کہا کہ میں ایک ضروری کام کے سلسلے میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں۔ فوراً کہا کہ آ جائیے۔

اگلے دن صبح ہوتے ہی میں کراچی سے حیدرآباد سیدھی ان کے گھر ان کے آگے ایک ہی صوفہ پر بیٹھی تھی۔ وہ کچھ بوڑھی اور کمزور ہو چکی تھیں۔ اس بات پر خوش تھیں کہ ایک مشہور رائٹر خاص طور پر ان سے ملنے آئی ہے۔

خوش ہو کر کہنے لگیں کہ میں ریٹائر ہو چکی ہوں اور حیات اسکول چھوڑ چکی ہوں اور ایک پرائیویٹ اسکول میں پرنسپل ہوں۔ آپ کا فون آیا تو میں نے اپنی ٹیچرز کو بتایا کہ نورالہدیٰ شاہ مجھ سے ملنا چاہتی ہیں۔ میری ٹیچرز نے کہا کہ ان کا بیوہ عورت کے حقوق سے متعلق ایک ڈرامہ چل رہا ہے۔ وہ اس موضوع پر آپ سے شرعی مشورہ کرنا چاہتی ہوں گی۔

میں نے کہا، آپ کو یاد ہے میں حیات اسکول میں آپ کی شکایت لے کر آئی تھی؟

انہوں نے لمحہ بھر سوچا، پھر انکار میں سر ہلا دیا کہ مجھے یاد نہیں۔

میں نے یاد دلانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ پرنسپل کے آفس میں میں بہت اونچی آواز میں سخت الفاظ کے ساتھ آپ سے لڑی تھی۔۔۔ آپ کو یاد ہے؟
ذرا سوچا، پھر انکار میں سر ہلا دیا۔

میں نے کہا کہ میں نے تقریباً آپ کی انسلٹ کی تھی، آپ کو یاد نہیں؟

کہنے لگیں کہ مجھے ایسا کچھ بھی یاد نہیں پڑتا۔

قریب ہی بیٹھے ہوئے میں نے جھک کر ان کے پیر چھو لیے اور ان کے سامنے دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا کہ میں نے ایسا کیا تھا اور میں آپ سے اپنے اس عمل کی معافی مانگنے آئی ہوں۔

مس حبیب النسا نے ایک دم سے معافی کے لیے جڑے میرے ہاتھوں کو دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔ یہ نہیں پوچھا کہ آج اتنے برسوں بعد کیسے یہ خیال آیا اور کس مجبوری نے تمہیں جھکایا ہے۔ انتہائی سنجیدگی سے کہا کہ میں نے آپ کو دل سے معاف کیا۔ اللہ میری معافی آپ کے لیے قبول فرمائے اور آپ جس بھی مشکل میں ہیں اسے آسان کرے اور آپ پر آئی ہوئی آزمائش کو معاف کرے۔۔۔

اس کے بعد انہوں نے بات بدل دی۔ بڑی دیر تک اِدھر اُدھر کی باتیں کرتی رہیں۔ بڑے شوق سے مجھے کھلاتی پلاتی رہیں۔ دعاؤں کے ساتھ مجھے خدا حافظ کہا۔ ڈیڑھ گھنٹے کی ملاقات میں انہوں نے بات کا رُخ اس طرف آنے ہی نہیں دیا کہ میں اپنی مجبوری کی اصل کہانی انہیں سناتی۔

چند دنوں بعد میں واپس دبئی لوٹ گئی جہاں اینکیوبیٹر میں ایک ننھی سی جان میں ہماری جان پھنسی ہوئی تھی۔

میری وہ نواسی اس سال ستمبر میں چھ سال کی ہو جائے گی۔ ماشالله بہت ہی شرارتی ہے۔ بہت ہی ذہین اور باتونی۔ گھنگریالے بالوں اور بڑی بڑی آنکھوں کے ساتھ بالکل ہی گڑیا سی لگتی ہے۔ اللہ نے اسے ہر عیب سے بچا لیا۔ بس ایک ہاتھ کی چھوٹی انگلی کی اوپر کی پور نیلی پڑنے کے بعد دوبارہ نارمل حالت میں نہیں آئی اور انگلی سے جھڑ گئی۔ اس ایک پور کی کمی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ انسان کی تخلیق کا معاملہ کیا ہے اور کس کے ہاتھ میں ہے۔

مس حبیب النسا آج بھی حیات ہیں۔

مگر یہ تجربہ مجھے سکھا گیا کہ معافی دراصل کیا چیز ہوتی ہے اور نیکی کرنے کا تکبر انسان کو کس طرح سزا کا مستحق بناتا ہے اور یہ کہ نیکی خود ایک سوالیہ نشان ہے کہ وہ نیکی ہے بھی کہ نہیں۔۔۔ اسی لیے یہ دریا میں ڈالنے والی چیز ہے۔ اور یہ جانا کہ ہم محض اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہم رسمی معافی تلافی کرتے ہوئے پچھلی گلی سے بہشت کی طرف نکل جائیں گے۔

معافی آپ کی انا کے ٹکڑے ٹکڑے مانگتی ہے جو رب کو نہیں چاہیں، بلکہ اس انسان کے پیروں میں جا کر رکھنے ہوتے ہیں، جس کے ساتھ آپ نے زیادتی کی ہوتی ہے

29/03/2022

ناشتے کے لیے کچھ سامان لینا تھا تو بیکری پہ جانا ہوا ، اتنا رش نہیں تھا۔ اسی اثنا میں ایک گداگر عورت جو حلیے سے ہی کافی میلی کچیلی لگ رہی تھی اندر داخل ہوئی ۔ اس نے آتے ہی کاونٹر پہ ہاتھ آگے کیا جس میں دس اور بیس کے نوٹ تھے اور جن کو اس نے بنڈل کی صورت میں ترتیب دے رکھا تھا۔ دوسرے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا شاپر تھا جس میں سکے کھنک رہے تھے ۔
کاونٹر پہ میرا بل بنایا جارہا تھا۔اس نے کاونٹر پر موجود دوسرے لڑکے سے کہا " اے ستائیس سو روپے تے چار سو دے سکے" لڑکے نے کہا بس ایک ہزار دو ۔ لیکن وہ مُصر رہی کہ پورے پیسے پکڑو ۔ وہ دس بیس والے نوٹ اور سکے دے کر بڑے نوٹ مانگ رہی تھی ۔ بیکری والے نے گن کر ہزار روپیہ نکالا اور نوٹ پکڑا دیا ۔ اس نے ایک پیپسی اور بسکٹ بھی لیے اور باہر نکل گِئی ۔ شیشے سے باہر دیکھا تو اس کی بیٹی اور ایک لڑکا بھی موجود تھا وہ ادھر ہی پیپسی پینے لگے ۔
میں نے بیکرز سے پوچھا یہ روز آتی ہے ؟ اس نے بتایا جی ہاں روز پانچ بجے آ کر بڑے نوٹ لے جاتی ہے اگر میں نہ دوں تو ساتھ والی دکانوں سے بھی تبدیل کروا لیتی ہے ۔ اور تقریبا اتنی ہی رقم روز لے آتی ہے عید یا خاص موقعوں پر تو اس سے دوگنا رقم ہوتی ہے ۔
میں سامان لے کر باہر نکلی تو وہ جیسے انتظار میں تھی ، گاڑی کا دروازہ کھولا تو وہی الاپ " اللہ کے نام پہ کوئی پنج دس روپے ۔۔" میں نے کہا " بہن ابھی تین ہزار تمہارے ہاتھ میں ہیں ، اتنے تو میرے پاس بھی نہیں "
پھر وہ برا سا منہ بنا کر دوسرے راہگیر کی طرف مڑی اور اس سے دس روپے لے کر ہی پلٹی ۔
یہ گداگر مافیا پورے خاندان کے ساتھ جس طرح رقم اینٹھ رہا ہے ان کے تو بینک اکاونٹ بھرے ہونگے ۔ کہ کھانا بھی یہ مانگ کر کھاتے ہیں ۔ نہ سکولوں کی فیس ، نہ بجلی کے بل ، نہ کرائے نہ نئے کپڑوں کی فکر ۔۔۔۔ پھر یہ سارا سرمایا کہاں کھپاتے ہونگے ؟
کوئی ہوٹل ، ہسپتال ، میرج ہال ، ٹیکسی اسٹینڈ ، مارکیٹ ان سے خالی نہیں ہے ، ہٹے کٹے ہڈ حرام مستحق افراد کا حق مار کر کھا رہے ہیں ۔ ان کا اپنا روزہ ہوگا نہیں، اور رمضان میں دروازے پیٹ پیٹ کر زکوة اور صدقات کے لیے روزہ داروں کی زندگی اجیرن کریں گے ۔ خدارا کسی مستحق سفید پوش تک یہ رقم پہنچائیے لیکن ان رجسٹرڈ فقیروں کو نہیں ان کی فی کس آمدنی ہم سے زیادہ ہے ۔ لیکن سفید پوش طبقہ فاقے سے ہے ۔۔

Asifa Ambreen Qazi
[ آصفہ عنبرین قاضی ]

04/01/2022

We need Marketing executive for our private limited company

22/12/2021

کیا آپ بزنس مین ہیں؟
کیا آپکو سامان کی نقل و حمل کیلئے لوڈر گاڑیوں کی ضرورت پڑتی ہے؟
کیا آپ کو مناسب ریٹ لینے کیلئے مختلف ڈرائیورز یا اڈے والوں سے رابطہ کرنا پڑتا ہے؟

اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو آپ کا کام ہوگیا آسان
موبائل کارگو ایپ کے ذریعے۔
بس ایپ پہ ارڈر کریں اور ہم رابطہ کریں گے آپ کیلئے مختلف ڈرائیورز سے اور بک کریں گے آپ کیلئے گاڑی سستے ترین ریٹس پر۔

ابھی پلے سٹور پہ سرچ کریں Mobile Cargo

یا

مزید معلومات کیلئے کال یا واٹس ایپ کریں
03001175077

نوٹ: فی الوقت ہماری سروس صرف ملتان شہر و مضافات میں دستیاب ہے۔
فی الوقت ہمارے پاس لوڈر رکشہ ہیوی بائیک، پک اپ راوی،شہہ زور کی سہولت دستیاب ہے

22/12/2021

اب پیسے کمانا ہوا آسان۔۔۔۔۔۔۔۔

موبائل کارگو پرائیویٹ لمیٹڈ کی طرف سے ملتان سٹی میں ایک نئی سکیم کا اجراء کیا گیا ہے جس کے ذریعے آپ نقد کیش انعامات حاصل کر سکتے ہیں۔۔

لوڈر رکشہ ہیوی بائیک
پک اپ راوی
شہہ زور یا جیک
مزدا 14,16,18,20,،22 فٹ

میں سے کسی بھی گاڑی کے ڈرائیور کو رجسٹرڈ کروانے پہ فی ڈرائیور پچاس روپے نقد انعام حاصل کریں۔
جتنے زیادہ ڈرائیور اتنا زیادہ انعام

رجسٹریشن میں صرف دو چیزیں درکار ہوں گی۔
ڈرائیور کے ڈرائیونگ لائسنس کی تصویر
گاڑی کی نمبر پلیٹ کی تصویر

نوٹ: کمپنی ڈرائیور کو جو بھی بکنگ آرڈر دے گی اسکا سات فیصد کمیشن وصول کرے گی۔۔
مثلا دس ہزار کی بکنگ پہ صرف سات سو روپے کمپنی کا کمیشن ہے۔ ڈرائیور کا کمپنی کی اس پالیسی سے متفق ہونا ضروری ہے۔۔

نوٹ: یہ افر صرف ملتان شہر و مضافات کیلئے ہے

مزید معلومات کیلئے کال کریں
03001175077
یا موبائل کارگو پرائیویٹ لمیٹڈ کا آفس وزٹ کریں
ایڈریس: چائنا روڈ انڈسٹریل اسٹیٹ ملتان

22/12/2021

موبائل کارگو پرائیویٹ لمیٹڈ کی طرف سے ملتان سٹی میں ایک نئی سکیم کا اجراء کیا گیا ہے جس کے ذریعے آپ نقد کیش انعامات حاصل کر سکتے ہیں۔۔

لوڈر رکشہ ہیوی بائیک
پک اپ راوی
شہہ زور یا جیک
مزدا 14,16,18,20,،22 فٹ

میں سے کسی بھی گاڑی کے ڈرائیور کو رجسٹرڈ کروانے پہ فی ڈرائیور پچاس روپے نقد انعام حاصل کریں۔

رجسٹریشن میں صرف دو چیزیں درکار ہوں گی۔
ڈرائیور کے ڈرائیونگ لائسنس کی تصویر
گاڑی کی نمبر پلیٹ کی تصویر

نوٹ: کمپنی ڈرائیور کو جو بھی بکنگ آرڈر دے گی اسکا سات فیصد کمیشن وصول کرے گی۔۔
مثلا دس ہزار کی بکنگ پہ صرف سات سو روپے کمپنی کا کمیشن ہے۔ رجسٹر ہونے والے ڈرائیور کا کمپنی کی اس پالیسی سے متفق ہونا ضروری ہے۔۔

22/12/2021

موبائل کارگو پرائیویٹ لمیٹڈ کا پہلا یوکے والا نمبر تبدیل کردیا گیا ہے۔۔
آج سے موبائل کارگو پرائیویٹ لمیٹڈ کا آفیشل نمبر یہ ہے
03001175077
ڈرائیورز اور ایپ یوزرز نوٹ فرما لیں۔
شکریہ

Telephone