Sohaib Ullah Dawar
Al Jammeat media All Jammeat media
(حصہ دوم)
جدون : جائے ولادت ، تاریخ پیدائش ، خاندانی پس منظر اور ابتدائی تعلیم پر روشنی ڈالیں؟
قاضی صاحب: سکول ریکارڈ کے مطابق میری تاریخ پیدائش پانچ اکتوبر ۱۹۵۲ ہے ۔ میرے والد کا نام حاجی مصباح اللہ اور دادا کا نام مولوی حمید اللہ ہے، میرا خاندان بنیادی طور پر زمیندار اور کا شکار ہے،
میرے والد صاحب زمیندار تھے، البتہ میرے دادا مرحوم ایک عالم دین تھے جو خاندانی پیشے کو برقرار رکھتے ہوئے زیادہ تر مال مویشی پالتے تھے تاہم پھر بھی بعض طلباء کو ان مشاغل کے ساتھ ساتھ کتابیں
پڑھاتے تھے۔ میں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے پرائمری اور ہائی سکول سے حاصل کی۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے دادا مرحوم سے بھی ابتدائی کتابیں پڑھیں ۔ ہائی سکول میں پڑھنے کے دوران بندہ ہر فن کی ابتدائی بلکہ وسطانی کتب بھی پڑھ چکا تھا یعنی مروج نصاب میں آدھے سے زیادہ کتا بیں پڑھ چکا تھا۔
جدون: درس نظامی کی دیگر کتا بیں کہاں اور کن اساتذہ سے پڑھیں؟ قاضی صاحب: جب ہم پڑھتے تھے اس اُس وقت میں مروج درجات نہیں تھے، چنانچہ سکول کے بعد میں حضرت مولانا سید اصغر (عرف ما نیری مولوی صاحب) سے پڑھتا رہا، موقوف علیہ تک کتابیں آپ سے پڑھیں، پھر دار العلوم عربیہ مظہر الاسلام تورڈھیر میں حضرت مولانا شیخ شمس الہادی صاحب محمد صاحب ( عرف کابل مولوی صاحب) اور مولانا حمد اللہ صاحب بام شاه منصور و خیل والے ۔ اور نحو کی مختلف عالی ان کی کتابیں مثلاً ادب، معانی، منطق ، فلسفہ، صرف بار پھر پڑھا۔ رمضان المبارک میں مولانا فتح محمد صاحب کے پاس ان کے گاؤں جہانگیرہ میں منطق و فلسفہ کے عالی کتب پڑھنے ۔ کے لئے جاتا تھا ان سے مطول دوبارہ پڑھی، اس طرح مولانا شمس الہادی صاحب سے مسلم الثبوت پڑھی اور یاد کی ۔ جدون : فنون کے اساتذہ میں آپ کن اساتذہ سے زیادہ متاثر ہیں؟ اور فنون میں آپ کے اساتذہ کا
منھج کیا تھا ؟
قاضی صاحب: جہاں تک تاثر کی بات ہے تو میں ہر استاد سے متاثر ہوں نیز ان کا منبج وہی تھا جو اسلاف سے چلا آ رہا ہے۔
جدون : دار العلوم حقانیہ میں کس سن میں داخل ہوئے اور دورہ حدیث میں کن کن اساتذہ سے استفادہ کیا ؟
قاضی صاحب: ۷۵ /۱۹۷۴ء میں دارالعلوم حقانیہ میں رہا، دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک تو مادر علماء ہے،
یہاں پر دورہ حدیث میں حضرت شیخ الحدیث مولانا عبد الحق صاحب ، مولانا عبد الحلیم صاحب زروبوی،مولانا مفتی محمد فرید صاحب، مولانا محمد علی سوائی، مولانا سید شیر علی شاہ صاحب اور مولانا سمیع الحق صاحب سے استفادہ کیا۔
جدون : مولانا سمیع الحق شہید کے اہتمام کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟
قاضی صاحب مولانا سمیع الحق صاحب تو ہمارے دور سے بہت بعد اہتمام سنبھال چکے تھے۔ البتہ ان کے دور میں دارالعلوم تعمیرات اور تعداد طلباء کے حوالے سے بہت ہی آگے گیا۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے
معروف عالم دین شیخ التفسیر والحدیث مولانا قاضی فضل اللہ جان ایڈوکیٹ کے حالات زندگی
(حصہ اول)
مولانا قاضی فضل اللہ صاحب ایک ممتاز مذہبی اسکالر اور محقق ہیں، آپ لاہور ضلع صوابی سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کی علمی، دینی اور سیاسی خدمات کی ایک طویل فہرست ہے لیکن یہ پاکستانی قوم کی بد قسمتی ہے کہ قابل اور ذہین لوگ جس فیلڈ میں بھی ہوں ان کو یہاں عزت نہیں دی جاتی ہے اور نہ ہی ان حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے اکثر اوقات ایسے قابل اور ذہین لوگ ملک کو خیر باد کہہ کر بیرون دنیا میں خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ قاضی فضل اللہ صاحب بھی اس ملک کے ممتاز مذہبی اسکالر ہیں، اللہ تعالی نے آپ کو بلا کا ذہن دیا ہے ، آج امریکہ کے اسلامک سنٹر میں درس و تدریس کے ساتھ ساتھ مستشرقین اور دیگر اسلام مخالف قوتوں کے شبہات کا علمی جواب دینے کی خدمات سر انجام سے رہے ہیں، آپ نے انگلش، اردو، پشتو اور عربی میں تفاسیر لکھنے کا سلسلہ شروع کیا ہے جن میں بعض مطبوع ہیں اور بعض زیر طباعت ہیں، تفسیر میں آپ کی مہارت کا اعتراف تمام مکاتب فکر کے اہل علم نے کیا ہے۔ اس طرح آپ نے علوم القرآن، علوم الحدیث، فقہ، سیرت، سکیولر ازم اور سوشلزم سمیت کئی اہم موضوعات پر کتابیں لکھی ہیں۔ آپ بینظیر کے دور حکومت میں (جمعیت علماء اسلام کے )قومی اسمبلی کے ممبر رہے، بجٹ پر آپ نے جو تجاویز دی ہیں اس سے پہلے کسی نے ایسی تجاویز نہیں دی ہیں۔ اس وجہ سے بینظیر بھٹو کہتی تھی کہ پارلیمنٹ میں دو ماہر سیاسیات ہیں ایک میں اور دوسرا قاضی فضل اللہ ۔ ان تمام خصائص کے باجود آپ کی تواضع اور عاجزی کی یہ حالت ہے کہ آپ اپنی حالات کسی ایک کتاب میں نہیں لکھتے ہیں۔ مختلف محققین اور اسکالرز نے بندہ سے آپکی حالات زندگی کے حوالے سے رابطہ کیا تو جب فروری ۲۰۲۰ میں قاضی صاحب پاکستان آئے، بندہ نے ان کی خدمت میں حاضری دی اور اس سے انکی حالات زندگی کے حوالے سے انٹرویو لیا جو نذر قارئین ہے۔
(مولانا سعید الحق جدون )
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرویز مشرف کا ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے اصل اختلاف کیا تھا؟ جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے غوری میزائل کی رینج کو 1500 کلومیٹر سے بڑھانے کی کوشش کی تو مشرف کو شک ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کا ٹارگٹ اسرائیل ہے بس یہیں سے ایک قومی ہیرو کو زیرو بنانے کی سازش شروع کر دی گئی
افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر پریشان ہونے والے غزہ کی طرف توجہ دیں، مولانا فضل الرحمان
غزہ میں قتل عام اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی بند کی جائے، سربراہ جے یو آئی.
مولانا فضل الرحمان صاحب کا برطانوی کمشنر سے گفتگو
Maulana Fazl ur Rehman
صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان شیخ الاسلام حضرت اقدس مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا جناح کنونشن سنٹر اسلام آباد میں منعقدہ "قومی اجتماع حرمت مسجد اقصیٰ اور امت مسلمہ کی ذمہ داری" سے خطاب
امام ابوحنیفہ رح مرنے سے پہلے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ھوئے فرمایا۔کہ مناظرے نہیں کرنا۔اور واجہ بھی بتائے ۔
بزبان حضرت مولانا قاضی فضل اللہ جان ایڈوکیٹ صاحب
Qazi Fazl Ullah Advocate
صرف 5 منٹ کیلئے سوچ لیں کہ ہم اتنے بے حس کیوں ہوگئے ہیں؟
مصر کی معروف اسلامی درسگاہ الازہر نے غزہ پر اسرائیلی جارحیت پر سخت ردعمل دیا ہے۔
جامعۃ الازہر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطینیوں کا قتل اورتخریب کاری صہیونیوں اور ان کے حامیوں کے چہرے پر نا مٹنے والا سیاہ دھبہ ہے۔
جامعۃ الازہر کے مطابق مغربی میڈیا کی متعصبانہ کوریج نے ان کی آزادی اظہار اور تحفظ انسانی حقوق کے دعوے بے نقاب کردیے۔
ان کا کہنا تھاکہ فلسطینی عوام کا جذبہ حب الوطنی اور قربانیوں کو سلام پیش کرتے ہیں، اسلامی ممالک کی حکومتیں صہیونی ریاست کیلےمتحد مغرب کےخلاف اپنی صفیں مضبوط کریں۔
خیال رہے کہ حماس کے حملوں کے بعد غزہ پر اسرائیلی بمباری تیز ہوگئی اور ہزاروں ٹن بارود محصور غزہ پر گرایا گیا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے بجلی، پانی اور ایندھن بھی بند کردیا گیا ہے جس کے بعد سے غزہ میں انسانی بحران سر اٹھا رہا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے غزہ پر بمباری کے نتیجے میں ایک ہزار سے زائد افراد شہید اور سیکڑوں زخمی ہوگئے جبکہ شہدا میں بڑی تعداد میں بچے بھی شامل ہیں۔
اسرائیل نے رہائشی عمارتوں، مساجد، دکانوں، فیکٹریوں اور ایمبولینسوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔
حضرت مولانا سید عدنان کاکاخیل صاحب
کف ار سے بیت ال مقدس کو آ ز ا د کرنا ایسا ف ر ض ہے جیسا کہ پانچ وقت کی نماز فرض ہے ۔
اسلامی ممالک کے سارے میزائیل تیرے اس پھتر پر قربان
آج فجر کی نماز کے بعد شیخ الاسلام حضرتِ اقدس مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتھم العالیہ نے فلسطینی مسلمانوں اور قبلہ اوّل القدس کے محافظوں کیلئے دیر تک دُعائیں فرمائیں ۔ پھر مخاطب ھوکر فرمایا :"بہتر تو یہ ھے نماز فجر میں قنوتِ نازلہ کا اھتمام کیا جائے ۔ کم ازکم ھر نماز کے بعد قنوتِ نازلہ والی دعاء ضرور پڑھی جائے اور دُعاؤں کا خوب اھتمام کیا جائے ۔ اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کو اپنی دُعاؤں میں خصوصی طور پر یاد رکھا جائے ۔"
سوال ۔قائد اعظم کہاں پیدا ہوئے؟
جواب ۔اڈیالہ جیل میں ۔
سوال ۔ابھی قائد اعظم ہوتے تو کہاں ہوتے؟
جواب ۔ سنٹر جیل میں ۔
6 اکتوبر 1879
یومِ ولادت
شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ
یااللہ ہمیں حقیقی معنی میں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے
مختصر جامع سوانح حیات
6 اکتوبر ۔۔۔۔ 1976ء ۔۔۔۔ 47 واں ۔۔۔۔ یومِ وفات
مفتئ اعظم پاکستان حضرتِ اقدس مولانا مفتی مُحمّد شفیع صاحب عثمانی دیوبندی نوّر اللہ مرقدہ ٬ سابق مفتئ اعظم
دارالعلوم دیوبند الھند
تحریر وترتیب : محمد طاھر قاسمی دھلوی ابن حضرت مولانا قاری دین محمد قاسمی میواتی ثم الدھلوی رحمۃ اللہ علیہ
جامع مسجد حوض رانی نئی دھلی
تعارف :
آپ اپنے دور کے عظیم مُفسّر ومُحدِث ، عالم بے بدل ، مُدبّر عصر ، فاضلِ اجلّ ، فقیہ الامّت ، سلوک وتصوّف کے امام ، عارف بِاللہ ، شیخِ کامل ، بلند پایہ علمی خاندان کے چشم وچراغ اور دارالعلوم دیوبند کے ممتاز عالم ومفتی تھے ، آپ قوی الاستعداد اور استحضار علم کے ساتھ فقہ وادب میں خاص امتیاز رکھتے تھے ۔ آپ دیوبند کے زمانۂ قیام میں دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء کی مسند پر صدر مفتی کی حیثیت سے کئی سال فائز رہے ۔ قیامِ پاکستان کے قیام کے بعد دستور ساز اسمبلی کے بورڈ آف تعلیمات اسلام کے رکن کی حیثیت سے اسلامی دستور کی ترتیب میں بھی حصہ لیا ، آپ تحریک پاکستان کے ممتاز رہنما تھے اور بعد میں مفتئ اعظم پاکستان کے لقب سے مشہور ہوئے ۔ پاکستان کی سب سے بڑی اسلامی درسگاہ دارالعلوم کراچی کا قیام آپ ہی کی کوششوں کا مرہونِ منت ہے ۔
ولادت :
آپ کی ولادت باسعادت شعبان المعظّم 1314ھ مطابق 25؍ جنوری 1897ء کی درمیانی شب میں قصبہ دیوبند ضلع سہارنپور میں ہوئی ۔ آپ کے والد ماجد حضرت مولانا محمد یاسین صاحب دیوبندیؒ ، دارالعلوم دیوبند میں فارسی کے مسلّمہ استاذ ، جید عالم دین ، صاحبِ نسبت بزرگ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے متوسّلین میں تھے ۔ اصلاً دیوبند کے رہنے والے تھے ۔ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے ہی آپ کا نام محمد شفیع تجویز فرمایا ، سلسلۂ نسب سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے ۔
تعلیم و تربیت :
آپ نے ایک دینی ماحول میں آنکھ کھولی اور بچپن ہی سے جلیل القدر علماء کی صحبت میں بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا ، پانچ سال کی عمر میں حافظ محمد عظیم صاحبؒ کے پاس دارالعلوم دیوبند میں قرآن کریم کی تعلیم شروع کی ، فارسی کی تمام مروّجہ کتب اپنے والد محترم سے دارالعلوم دیوبند میں پڑھیں ، حساب فنون ریاضی کی تعلیم اپنے چچا حضرت مولانا منظور احمد صاحبؒ سے حاصل کی ، سولہ سال کی عمر میں دارالعلوم دیوبند کے درجہ عربی میں داخل ہوئے ، آپ نے شروع سے لے کر آخر تک دارالعلوم دیوبند ہی میں تعلیم حاصل کی ۔ اور 1336ھ مطابق 1918ء میں 22 سال کی عمر میں فارغ التحصیل ہوئے ۔
جن عظیم المرتبت علماء امت سے آپ نے شرفِ تلمّذ حاصل کیا ان میں امام العصر حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ ، مفتئ اعظم ہند حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمٰن عثمانیؒ ، شیخ الاسلام حضرت علامہ شبّیر احمد عثمانیؒ ، عارف باللہ حضرت مولانا سیّد اصغر حسین دیوبندیؒ ، فخرالعلماء حضرت مولانا حبیب الرحمٰن عثمانیؒ اور شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی امروہویؒ جیسے اکابر علماء اساطین علم فن شامل ہیں ۔
درس و تدریس :
زمانۂ طالب علمی میں آپ کا شمار نہایت ذہین اور محنتی طلباء میں ہوتا تھا اور امتحانات میں ہمیشہ امتیاز کے ساتھ کامیاب ہوتے تھے اسی لئے اساتذہ آپ سے بے حد شفقت و محبت کا سلوک کرتے تھے ۔ تعلیم سے فراغت کے بعد 1337ھ مطابق 1919ء میں ہی دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ اور ذمہ داران نے آپ کے علم و استعداد پر اعتماد کرتے ہوئے آپ کو دارالعلوم دیوبند کے ابتدائی کتب کی تعلیم کے لئے استاذ مقرر فرمایا ۔ پھر آپ اپنی علمی قابلیت و لیاقت کی وجہ سے بہت جلد تدریسی ترقی کی منزلیں طے کرکے درجۂ علیا کے اساتذہ میں شامل ہوگئے اور تقریباً ہر علم و فن کی جماعتوں کو پڑھایا ۔ فقہ و ادب سے شروع ہی سے مناسبت رہی ۔ آپ کا درس ہمیشہ ہر جماعت میں مقبول رہا مگر دورۂ حدیث کی مشہور کتاب ابوداؤد شریف اور عربی ادب کی مشہور کتاب مقامات حریری کا درس تو ایسا ہوتا تھا کہ مختلف ملکوں کے علماء اور اساتذہ بھی شریک ہونا سعادت سمجھتے تھے ۔ دارالعلوم دیوبند میں تدریس کے دوران مختلف ملکوں انڈونیشیاء ، ملائشیاء ، سنگار پور ، برما ، برصغیر پاک و ہند ، افغانستان ، بخارا ، سمرقند وغیرہ کے تقریباً تیس ہزار طلباء نے آپ سے شرف تلمّذ حاصل کیا ، ان میں سے ہزاروں اب بھی مختلف ملکوں میں دین کی خدمت میں مصروف ہیں ۔
دارالعلوم دیوبند کی تدریس کے دوران حضرت مولانا مفتی عزیزالرحمٰن عثمانیؒ نے فتویٰ کے سلسلہ میں آپ سے کام لینا شروع کیا ، وہ سوالات کے جوابات خود لکھتے اور آپ سے لکھواتے اور اصلاح و تصدیق کے بعد یہ روانہ کردئے جاتے ۔ 1350ھ مطابق 1932ء میں منصبِ افتاء پر فائز ہوئے اور آپ کے کمالِ استعداد کی بنا پر آپ کو دارالعلوم دیوبند کا صدر مفتی بنادیا گیا ۔ گویا حضرت مفتئ اعظم مولانا مفتی عزیزالرحمٰن عثمانیؒ کا قائم مقام بنایا گیا ، یہ سب آپ کی لیاقت اور قوت علمی کے آثار تھے ۔ آپ کو اس عظیم کام کی اہمیت کا بہت احساس تھا کیونکہ دارالعلوم دیوبند میں نہ صرف برِصغیر کے کونے کونے سے استفتاء موصول ہوتے تھے بلکہ دنیا بھر کے ملکوں سے مسلمان مختلف مشکل فقہی مسائل کے بارے میں آخری فیصلوں کے لئے دارالعلوم دیوبند سے رجوع کیا کرتے تھے ، آپ اپنی جگہ یہ سمجھتے تھے کہ وہ صدر مفتی کے منصب کا حق پوری طرح ادا نہیں کرسکیں گے تاہم حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ اور حضرت مولانا سید اصغر حسین دیوبندیؒ کی سرپرستی امداد و اعانت کے وعدے پر آپ نے یہ عظیم منصب قبول کیا ، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ نے صدر مفتی کے عظیم منصب کا حق پوری طرح ادا کیا اور قیامِ پاکستان تک اس عظیم عہدہ پر فائز رہے ۔ آپ دو بار اس عہدہ سے سرفراز ہوئے ، پہلی مرتبہ 1350ھ مطابق 1931ء سے 1454ھ مطابق 1935ء تک اور دوسری مرتبہ 1359ھ مطابق 1940ء سے 1361ھ مطابق 1942ء تک ۔ آپ کے زمانے میں 26 ؍ ہزار کے قریب فتاویٰ لکھے گئے ۔ فتویٰ نویسی کے علاوہ دارالعلوم دیوبند میں درجۂ علیاء کی کتابوں کی تدریس بھی آپ سے متعلق رہی ۔ آپ کے جن فتاویٰ کی نقلیں دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم کراچی میں محفوظ ہیں صرف ان کی تعداد ستتر ہزار ایک سو چوالیس ہے ، زبانی فتاویٰ کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے ۔
راہِ سلوک :
آپ ابتداء میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ سے بیعت ہوئے ، حضرت شیخ الہندؒ کی وفات کے بعد حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ سے رجوع فرمایا ۔ حضرت تھانویؒ کو آپ کے علم و فضل پر بڑا اعتماد تھا ۔ حضرت تھانویؒ نے آپ کی علمی و روحانی صلاحیتوں کو دیکھ کر اجازت و خلافت سے بھی سرفراز فرمایا ۔ آپ تعلیم ظاہر کے ساتھ تعلیم باطن میں بھی کمال کو پہنچے ؛ اسی لئے آپ کے متوسلین اور عقیدت مند بکثرت موجود ہیں اور مخلوق خدا کو فائدہ پہنچ رہا ہے ساری عمر دینی علوم کی تدریس و تصنیف کے ساتھ افاضہ باطنی میں بھی مصروف رہے ۔
حضرت حکیم الامت تھانویؒ کے خلفاء و مجازین میں آپ (حضرت مفتئ اعظم) کو ایک خاص مقام حاصل تھا ۔ حضرت حکیم الامت تھانویؒ آپ پر خاص توجہ فرمایا کرتے تھے آپ تقریباً 20 بیس سال تک حضرت حکیم الامت تھانویؒ کی صحبت میں رہے اور ان کی زیر نگرانی کئی عظیم تالیفات اپنے قلم فیض رقم سے تصنیف فرمائیں ، جیسے احکام القرآن ، حیلہ ناجزہ وغیرہ ، آپ پر حکیم الامت حضرت تھانویؒ کو ایک خاص اعتماد تھا ۔ حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ فرماتے ہیں کہ :
"حضرت حکیم الامت تھانویؒ کو حضرت مفتی صاحبؒ کی علمی و فقہی بصیرت پر اس قدر اعتماد تھا کہ اپنے ذاتی معاملات میں بھی ان سے مشورہ لیتے اور فتویٰ طلب فرماتے اور اس پر عمل فرماتے تھے ، ایک مرتبہ حضرت حکیم الامتؒ نے فرمایا کہ " اللہ تعالیٰ مفتی محمد شفیع کی عمر دراز کرے ، مجھے ان کی ذات سے دو خوشیاں ہیں ایک تو ان کی ذریعہ علم حاصل ہوتا رہتا ہے اور دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میرے بعد بھی کام کرنے والے موجود ہیں ۔" ( اکابر علماء دیوبند )
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ فرماتے ہیں کہ :
" حضرت مفتئ اعظم ہمارے شیخ حضرت حکیم الامتؒ کے علمی و روحانی جانشین اور ان کی تعلیمات و ارشادات کے عظیم ترجمان ہیں ۔" ( اکابر علماء دیوبند )
حضرت حکیم الامت تھانویؒ کے علاوہ دیگر اکابرین امت بھی آپ کی علمی و فقہی بصیرت پر مکمل اعتماد کرتے تھے ان میں حضرت علامہ سید انور شاہ کشمیریؒ ، حضرت علامہ شبّیر احمد عثمانیؒ ، حضرت علاّمہ ظفر احمد عثمانیؒ ، حضرت مولانا سید اصغر حسین دیوبندیؒ ، حضرت علامہ سید سلیمان ندویؒ ، حضرت مولانا مفتی محمد حسن امرتسریؒ وغیرہم جیسے مشاہیر علم و فضل بھی ہر معاملے میں آپ سے رائے لیتے تھے اور آپ کو وقت کا محقق ، فقیہ ، مدبر ، مفسر اور مفتئ اعظم تسلیم کرتے تھے ۔
تحرہکِ پاکستان میں کردار :
حضرت مفتئ اعظمؒ نے دینی و علمی خدمات کے علاوہ سیاسی و ملی خدمات بھی انجام دی ہیں ۔ آپ نے اپنے شیخ و مربی حضرت حکیم الامت تھانویؒ کے ایماء پر تحریک پاکستان میں زبردست عملی حصہ لیا اور کھلم کھلا مسلم لیگ کے نظریات کی حمایت و تائید فرمائی ، حضرت حکیم الامتؒ کے حکم پر قائد اعظم کی دینی تربیت میں اہم کردار ادا کیا اور زعماء لیگ کی اصلاح کے لئے تبلیغ دین کا حق ادا کیا ۔ شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ اور علامہ ظفر احمد عثمانیؒ کے شانہ بشانہ قیام پاکستان کے لئے کوشاں رہے ، مسلم لیگ کی حمایت میں ایک تاریخ ساز فتویٰ بھی جاری کیا جس کی تائید برصغیر کے اکابر علماء نے کی ، سرحد ریفرنڈم میں علامہ عثمانیؒ کے ہمراہ طوفانی دورہ کیا اور رائے عامہ کو مسلم لیگ کے حق میں کرنے کے لئے بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب فرمایا اور شب و روز محنت کرکے ریفرنڈم میں کامیابی حاصل کی ۔ تقسیم ملک کے بعد آپ نے پاکستان کی قومیت اختیار کی اور 1368ھ مطابق 1949ء میں دیوبند سے ہجرت فرماکر پاکستان تشریف لے گئے قیام پاکستان کے بعد شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کی معیت میں قرارداد مقاصد کی ترتیب و تدوین میں اہم کردار ادا کیا ، پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے بورڈ آف تعلیمات اسلام کے رکن کی حیثیت سے اسلامی دستور کی ترتیب میں آپ کا تعاون لیا گیا ۔ اور پھر مملکت پاکستان کی اسلامی شناخت کے قیام و ترقی اور نفاذ اسلام کے لئے تاعمر کوشاں رہے اور جدو جہد فرماتے رہے ۔
علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کی رحلت کے بعد آپ جمعیت علماء اسلام پاکستان کے صدر منتخب ہوئے اور بحیثیت صدر آپ نے ملکی و ملی کاموں میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے عظیم کارنامے انجام دئے ۔ علاوہ ازیں دینی تعلیم کے فروغ کے لئے 1370ھ مطابق 1951ء میں نہایت بے سرو سامانی کے عالم میں کراچی میں ایک دینی مدرسہ قائم فرمایا جو بہت جلد ایک مرکزی دارالعلوم کی شکل اختیار کرگیا ، جو اس وقت کراچی میں علوم اسلامیہ کا سب سے بڑا مرکز ہے اور آج پاکستان میں ثانی دارالعلوم دیوبند ہے ۔ دارالعلوم کراچی سے ایک جریدہ " البلاغ " جاری کیا گیا جو بین الاقوامی شہرت کا حامل ہے ۔ آپ نے افتاء و فقہ پر جتنا کام تن تنہا انجام دیا ہے وہ درحقیقت ایک جماعت کا کام تھا ۔ آپ کی انہیں خدمات کے باعث پاکستان میں آپ کو مفتئ اعظم پاکستان کا لقب دیا گیا جو یقیناً ان شایان تھا ۔ حضرت مفتی صاحبؒ پاکستان میں مسلک دیوبند کے عظیم داعی اور ترجمان تھے ۔ دارالعلوم کے ایک قیمتی جوہر اور عظیم فرزند تھے ۔ آپ اپنی ذاتی خوبیوں اور لیاقتوں کی بنا پر سارے ہی طبقۂ اہل علم کے معتمد تھے ۔
آپ کا علمی کارنامہ :
آپ کے سیکڑوں تلامذہ برصغیر کے علاوہ مختلف ممالک میں دینی خدمات انجام دے رہے ہیں ، آپ کا علم وسیع اور گہرا تھا ۔ تقریباً تمام متداول دینی علوم میں عمدہ صلاحیت کے مالک تھے اور بہت سی دینی کتابوں کے مصنف تھے ۔ آپ کو تصنیف کا ذوق ابتداء سے تھا ، آپ نے تعلیم و تدریس ، تبلیغ و اصلاح اور خدمت افتاء کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا ۔ آپ کے قلم سے سیکڑوں تالیفات منظر عام پر آئیں ۔ آپ نے دو سو کے قریب کتابیں تصنیف فرمائیں ، تفسیر ، حدیث ، فقہ اور مناظرے میں نہایت مفید تصانیف کا ذخیرہ آپ کے قلم سے نکلا اور خواص و عوام کے لئے نہایت مفید ثابت ہوا ، شعر و شاعری کا ذوق بھی زمانۂ طالب علمی سے تھا ۔ عربی ، فارسی اور اردو میں نہایت عمدہ قصائد ، مراثی اور واقعاتی نظمیں لکھیں ہیں جن کا مجموعہ شائع ہوچکا ہے ۔ آخری دور میں تفسیر معارف القرآن لکھی جو علم تفسیر میں آپ کا بہت ہی زبردست عظیم الشان علمی کارنامہ ہے ۔ اور بقول حضرت مولانا ظفر احمد عثمانیؒ آپ نے اس تفسیر کو تالیف فرماکر علماء کرام مفسرین کرام اور پوری ملت اسلامیہ پر احسانِ عظیم فرمایا ہے ۔ اگر آپ صرف ایک یہی خدمت انجام دیتے تو ان آپ کی عظمت و رفعت اور عند اللہ مقبولیت کے لئے کافی تھی ۔ لیکن اس کے علاوہ آپ کی علمی خدمت اپنی جگہ اتنی اہم اور نفع بخش ہے کہ خواص و عوام اس سے مستغنی نہیں رہ سکتے اور ہر اہل علم آپ کی علمی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے پر مجبور ہے ۔ غرض دارالعلوم دیوبند کے مکمل ترجمان علماء حق کی سچی نشانی اور خانقاہِ تھانویؒ کے قابل فخر نمائندے تھے ۔
حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ کی چھوٹی بڑی تصانیف کی تعداد ڈیڑھ سو سے زائد ہے جن میں اہم کتابوں کے نام یہ ہیں : ( 1 ) تفسیر معارف القرآن آٹھ جلدوں میں ( 2 ) امداد المفتین آٹھ جلدوں میں ( 3 ) جواہر الفقہ دس جلدوں میں ( 4 ) احکام القرآن مولفہ حضرت مولانا ظفر احمد عثمانیؒ میں بھی تعاون کیا ۔ ( 5 ) آلاتِ جدیدہ کے شرعی احکام ( 6 ) اسلام کا نظامِ اراضی ( 7 ) قرآن میں نظامِ زکوٰۃ ( 8 ) احکام حج ( 9 ) مسئلہ سود ( 10 ) تنقیح المقال فی تصحیح الاستقبال ( 11 ) الارشاد الی بعض احکام الالحاد ( 12 ) مقادیر شرعیہ در اوزان ہندیہ ( 13 ) عائلی قوانین پر مختصر تبصرہ ( 14 ) ختم النبوۃ فی القرآن ( 14 ) ختم النبوۃ فی الحدیث ( 15 ) ہدیۃ المہدیین فی آیت خاتم النبیین ( 16 ) سیرت خاتم الانبیاء ( 17 ) آداب المساجد ( 18 ) آداب النبی ﷺ ( 19 ) نجات المسلمین ( 20 ) مقام صحابہؓ ( 21 ) دستور قرآنی ( 22 ) چند عظیم شخصیات ( 23 ) فتوح الہند ( 24 ) مجالس حکیم الامتؒ وغیرہم علمی شاہکار ہیں ۔
آپ کی ایک بڑی علمی یادگار دارالعلوم کورنگی کراچی ہے ۔ اس ادارہ نے بہت ہی قلیل عرصہ میں عالمِ اسلام میں دین کے مضبوط قلعہ کی شکل اختیار کرلی اور دیکھتے ہی دیکھتے طالبانِ علومِ نبوت اور داعیانِ حق کا مرکز بن گیا ۔ دارالعلوم کراچی اپنے وسیع رقبہ ، شعبہ جات اور کارکردگیوں کے پیشِ نظر صحیح معنوں میں ایک بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی بن چکا ہے ۔ اس ادارہ نے اب تک ہزاروں علماء و فضلاء ، مُحدّثین و مُفسّرین ، فقہاء و ادبا اور مُبلغین و مُجاہدین اسلام پیدا کئے ہیں ۔
حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ کی ایک بڑی خوش نصیبی آپ کے لائق و فائق اور عالم و فاضل فرزندان گرامی ہیں جنھوں نے آپ کی علمی وراثت کو نہ صرف یہ کہ جاری رکھا بلکہ اس میں مزید چار چاند لگادئے ہیں ۔ حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سابق صدر مھتمم جامعہ دارالعلوم کراچی اور مختلف کتابوں کے مصنف ہیں ۔ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم ، عالمِ اسلام کے ممتاز عالمِ دین ، قدیم و جدید علوم کے ماہر ، اسلامی اقتصادیات پر سند اور درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں ۔ ان کے علاوہ دیگر صاحبزادے بھی بہترین عالم و فاضل ہوئے ہیں ۔ بہر حال آپ ساری زندگی دین کی خدمت میں مصروف رہے اور مفتئ اعظم پاکستان کی حیثیت سے آخر دم تک مسلمانوں کی اصلاح و فلاح کا فریضہ انجام دیتے رہے ۔
وفات :
11؍ شوّال المکرّم 1396ھ مطابق 6؍ اکتوبر 1976ء کی درمیانی شب میں 83؍ سال کی عمر میں داعئ اجل کو لبّیک کہا ۔ ایک لاکھ سے زائد عقیدت مندوں نے نماز جنازہ پڑھی اور دارالعلوم کراچی کے احاطہ میں تدفین عمل میں آئی ۔
انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
( تاریخ دارالعلوم دیوبند : 130/2۔ 255 ، دارالعلوم دیوبند کی جامع ومختصر تاریخ ص : 514 ، تذکرۂ اکابر ص : 185 ، سو بڑے عُلماء ص : 79 ، دارالعلوم دیوبند کی پچاس مثالی شخصیات ص : 174 ، ملت اسلام کی مُحسن شخصیات ص : 209 ، ملفوظاتِ مفتئ اعظم پاکستان ص : 43 ، مَشاہیر علماء 60/2 ، بڑوں کا بچپن ص : 123 ، علماء دیوبند کے آخری لمحات ص : 176 ، تذکرہ مشاھیر ہند ص : 122 )
15 ستمبر 2007
یوم شہادت استاد محترم زینت المحدثین شیخ العرب والعجم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد حسن جان شہید رحمہ اللّٰه علیه
اللّٰه تعالیٰ جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاء فرماۓ آمین ثم آمین
شیخ المشائخ، استاد المحدثین والفقہاء والعلماء، شیخنا و مربینا، پیر طریقت، رہبر شریعت مفتی اعظم شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد فرید صاحب رحمہ اللہ نور اللہ مرقدہ
تاریخ پیدائش:
اپریل 1926 ء
1952 ء میں غورغشتوی بابا رح سے سند فراغت حاصل کی۔
حضرت مفتی صاحب رح قطب العالم والارشاد، امام العلماء والصلحاء حضرت مولانا خواجہ عبدالمالک صدیقی قدس اللہ سرہ کے خلیفہ مجاز تھے۔
تقریبا ایک لاکھ فتاویٰ لکھ چکے ہیں۔
1996 ء کو نماز فجر میں فالج کا حملہ ہوا۔
دو ہزار سے زائد خلفاء
جبکہ
چھ لاکھ سے زائد مریدین ہیں۔
مشہور خلفاء میں
حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب،
چارسدہ کے مولانا سید گوہر شاہ صاحب،
شیخ القرآن مولانا غلام محمد صادق صاحب،
شیخ الحدیث مولانا محمد ادریس صاحب،
ضلعی امیر شیخ الحدیث مولانا محمد ھاشم خان صاحب،
مولانا مفتی پیر گوہر علی شاہ صاحب جی ایس،
اور امیر ختم نبوت مولانا پیر حزب اللہ جان صاحب
وغیرھم شامل ہیں۔
9 جولائی 2011 ء کو علم و معرفت کا یہ آفتاب غروب ہوگیا۔۔۔
(انا للہ وانا الیہ راجعون)
صوبہ کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ
یہی بات گورنر خیبر پختونخوا کی عوامیت کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے-اور انکی یہ خاصیت مخالفین کو ایک آنکھ نہیں بھاتی-
بات یہ ہے کہ عید الاضحٰی کے تیسرے روز گورنر صاحب ایک دوست کے گھر سے نکل رہا تھا کہ اسی اثناء میں ایک شہری نے انکے ساتھ بات کرنے کی کوشش کی گورنر صاحب نے انکو بلا کر اس سے مسئلہ دریافت کیا لیکن وہ بات کرنے سے جھجک محسوس کررہا تھا،آنجناب نے اسکا حوصلہ بندھاتے ہوئے کہا لگتا ہے کہ آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں بتاو کیا مسئلہ کیا ہے ؟انہوں نے فورا کہا کہ میری دو بچیاں معذور ہیں طویل عرصہ سے انکی شدید خواہش ہے کہ وہ بھی دیگر بچیوں کی طرح آپکے ساتھ ملے-گورنر صاحب نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اس آدمی کو اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا کر انکے گھر تشریف لے گئے-انکی بچیوں کے ساتھ مل کر انکے ساتھ پیار کیا،جس سے بچیاں انتہائی خوش ہوگئیں بلکہ خوشی سے سرشار تھیں-اس شہری اور انکے گھر والوں نے کہا کہ آج ہمارے لئے ایک تاریخی دن ہے کہ ایک صوبے کا گورنر ہماری ایک معمولی سی خواہش پر ہماری معذور بچیوں کی دلجوئی کے لئے ہمارے گھر تشریف لائے-انہوں نے کہا کہ اس گورنر ہاوس کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ گزشتہ ادوار میں گورنر کا اس طرح عوام میں گھل مل کر جانا ایک ناممکن بات ہوا کرتی تھی-جبکہ آج موجودہ گورنر صاحب نے اسکو ممکن بنادیا-اور صوبے کے گورنروں کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے-صوبہ اس سے قبل اس طرح کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے-درحقیقت یہ گورنر راج نہیں بلکہ عوام کے دلوں پر راج ہے۔
منقول از مولانا امان اللہ حقانی صاحب
قرآن_پاک کی بےحرمتی نامنظور
سويڈن قرآن کريم کے بےحرمتی کسی صورت برداشت نہیں.
قائد سندھ علامہ راشد خالد محمود سومرو صاحب
حضرت مولانا عبد الرشید صاحب
سورة الکہف💖
مناظر اسلام حضرت مولانا مفتی ندیم المحمودی صاحب کا حیاتِ مفتی عبدالشکور شہید رحمہ اللہ پر مختصر بیان
ہر مومن کا کہنا ہے ختم نبوت زندہ باد
مسعود اظہر صاحب کا انداز دیکھیں🌷
جس طرح عمران خان اسد عمر شاہ محمود قریشی اعجاز چوہدری وغیرہ نے ارشد شریف کی غائبانہ نماز جنازہ اپنے آفس کے لان میں ادا کی ہے۔
عوام کو چاہیے وہ فتنہ مارچ میں بھی اسی طرح اپنے گھر بیٹھ کر “غائبانہ شرکت” فرمائیں۔
حافظ حمد اللہ صاحب ترجمان پی ڈی ایم
مفتی تقی عثمانی کا یوم پیدائش
October 27, 1943
مفتی محمد تقی عثمانی عالم اسلام کے مشہور عالم اور جید فقیہ ہیں۔ آپ کا شمار عالم اسلام کی چند چوٹی کی علمی شخصیات میں ہوتا ہے۔ آپ 1980ء سے 1982ء تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982ء سے 2002ء تک عدالت عظمی پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ کے جج رہے ہیں۔ آپ اسلامی فقہ اکیڈمی، جدہ کے نائب صدر اور جامعہ دارلعلوم، کراچی کے نائب مہتمم بھی ہیں۔ اس کے علاوہ آپ آٹھ اسلامی بینکوں میں بحیثت مشیر کام کر رہے ہیں۔
مفتی محمد تقی احمد عثمانی تحریک پاکستان کے کارکن اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی کے سب سے چھوٹے فرزند اور موجودہ مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ آپ کی پیدائش27 اکتوبر 1943ء کو ہندوستان کے صوبہ اترپردیش کے ضلع سہارنپور کے مشہور قصبہ دیوبند میں ہوئی۔..
محبت کیا ہے دل کا درد سے معمور ہو جانا
متاعِ جاں کسی کو سونپ کر مجبور ہو جانا
قدم ہیں راۂ اُلفت میں تو منزل کی ہوس کیسی
یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چُور ہو جانا
یہاں تو سر سے پہلے دل کا سودا شرط ہے یارو
کوئی آسان ہے کیا سرمد و منصور ہوجانا
بَسا لینا کسی کو دل میں دل ہی کا کلیجا ہے
پہاڑوں کو توبس آتا ہے جل کر طور ہوجانا
نظر سے دور رہ کر بھی تقی وہ پاس ہیں میرے
کہ میری عاشقی کو عیب ہے مہجور ہوجانا...............................................
مفتی تقی عثمانی صاحب اس وقت مدینہ منورہ میں ہے
27 اکتوبر 2022
ٰیؓ
یہ ظلم کا موسم کب بدلے گا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
کوئی جواب دےےےےے
احاطہ عدالت میں آٸے جمع غفیر سے شیر دل بےباک قیادت مفتی کفایت اللہ صاحب کا اہم اور مختصر خطاب۔۔۔
جب تک حکومت گھروں میں راشن نہیں پہنچاتی لاک ڈاون غیر شرعی ہے کورونا سے فوت شدہ میت کی بے حرمتی برداشت نہیں مساجد کی بندش کے خلاف اپنے موقف پر قاٸم ہوں انسانیت کی تذلیل نہ کی جاٸے
M***i Kifayat Media
مفتی کفایت اللہ صاحب کی گرفتاری کے خلاف احتجاجی مظاہرہ
Ahmadudin Dawar
کرونا قدرتی نہیں مصنوعی ہے، چین اور امریکہ کا فیفت جنریشن وار ہے، امریکہ میں کرونا سے کوئی نہیں مرا سب جھوٹ بول رہے ہیں، سنت میں برکت، خیر اور نجات ہے، سنت طریقوں صفائی وغیرہ پر عمل کر کے مساجد کھول دی جائے -
مولانا محمد خان شیرانی سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل -
مفتی کفایت اللہ صاحب
مفتی کفایت اللہ صاحب کا مدارس کے دفاع میں تاریخی خطاب
#Sohaib_dawar
حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب قائد عوام کو عجیب انداز میں دعوت
#Sohaib_dawar_official
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا کرونا وائرس کے حوالے سے پوری قوم کے نام اہم پیغام
امید کی آخری کرن مولانا فضل الرحمان
💖زما کتاب کی د نفرت هڈو نامه نشته دے💓
💖زہ همیشه په محبت د خلکو زڑونه تڑم💓
جمعیت طلباء اسلام دوستوں کا گروپ فوٹو
یہ ہے انصارالاسلام کے جانباز سپاہی جن کا پیشہ ہے زندگیوں میں خوشیاں بانٹنا اور غم لوگوں کےاٹھاکر سمندر برد کرنا
جنہیں کہ کبھی غدار کہاجاتا ہے تو کبھی راء کےایجنٹ
لیکن انہوں نے کبھی پیچھےمڑکر دیکھنے کی ذحمت نہیں کی ہمیشہ اپنی قیادت کےحکم پر جان جوکھوں میں ڈال دیا لبیک کہی
الحمدللہ
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍوَّعَلَى آلِ مُحَمَّدٍكَمَاصَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌمَجِيد
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍوَّعَلَى آلِ مُحَمَّدٍكَمَابَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌمَّجِيد
Videos (show all)
Contact the organization
Telephone
Website
Opening Hours
Monday | 09:00 - 17:00 |
Tuesday | 09:00 - 17:00 |
Thursday | 10:51 - 16:14 |