ScienceKar

ScienceKar

خوش آمدید۔ یہاں آ پ کواردو میں مستند سائنسی تعلیم ، تازہ ترین تحقیق اور خبریں ملیں گی۔

17/06/2024

بار۔بی۔کیو کی سائنس

عید بقر کے موقعے پر خاندان، رشتے داروں اور دوستوں کی تواضع گوشت سے بنے مختلف کھانوں سے کی جاتی ہے۔ خاص طور پرکھلی فضا میں خوش گپیوں کے ساتھ ساتھ مصالحہ لگے گوشت کی دہکتے انگاروں پر بھنائی ہر ایک کو مرغوب ہوتی ہے۔بھنتے ہوئے گوشت کی دھواں دار مہک نتھنوں سے ٹکراتے ہیں منہ میں رال بھر آتی ہے۔ آپ نے کبھی غور کیا کہ ابلا ہوا گوشت اتنا بد ذائقہ جبکہ آگ پر بھنا گوشت اتنا بھورا، خوشبودار اور ذائقے دار کیوں ہوتا ہے؟

بار۔بی۔کیو کا ذائقہ

بار۔بی۔کیو کے مخصوص ذائقے کی بنیادی وجہ ایک کیمیائی تعامل (میلارڈ ری ایکشن) کے نتیجے میں بننے والے مرکبات ہیں۔ یہ مرکبات شکر(نشاستہ) اور امینو ایسیڈز کے آپس میں جڑنے کی وجہ سے بنتے ہیں۔ گوشت کی قسم اور درجہ حرارت وہ عوامل ہیں جو ان مرکبات کی نوعیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان مرکبات میں، فیورین، تھائیو فین، پائیریڈین اور پائرازین شامل ہیں۔

بار۔بی۔کیو کے مخصوص دھواں دار ذائقے کی وجہ کوئلے کا استعمال ہے۔جلانے پر کوئلے میں موجود کثیر سالمی(پولیمر)مرکب لیگنین کے ٹوٹنے سے کچھ مرکبات بنتے ہیں جو بار۔بی۔کیو کے مخصوص دھواں دار خوشبو اور ذائقے کی بنیادی وجہ ہیں۔ ان مرکبات میں سرنگول اور گوائیکول زیادہ اہم ہیں

بار۔بی۔کیو کے نقصانات

زیادہ پک جانے والے بار۔بی،کیو کے بھورے رنگ کی وجہ بہت سارے کاربن کے مرکبات ہیں جنھیں پولیسائیکلک ایرومیٹک ہائیڈروکاربنز کہا جاتا ہے۔ چکنائی کے قطروں کے دہکتے کوئلوں پر گرنے سےظہور میں آنے والے یہ مرکبات سرطان کا سبب بن سکتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق جلے ہوئے گوشت میں پائے جانے کیمیائی مرکبات نے چوہوں میں پراسٹیٹ کینسر کے امکان کو بڑھا دیا۔ کم درجہ حرارت پر پکائی سے ان مرکبات کے بننے کے عمل کو روکا جا سکتا ہے۔

مشورے

گوشت کو کم درجہ حرارت پر اور آہستہ آہستہ پکانے سے عضلات کے سکڑنے کا عمل دھیما پڑ جاتا ہے جس سے اس میں سختی نہیں آتی۔ علاوہ ازیں نمی کا اخراج بھی زیادہ نہیں ہوتا جس سے گوشت نرم رہتا ہے۔آخرش سرطان کی وجہ بننے والے مرکبات کی بناوٹ سے بھی بچا جا سکتا ہے۔

اس بار جب آپ گرل پر گوشت رکھیں، تو اس خوشبو کا لطف اٹھائیں جو میلرڈ ردعمل کی بدولت اُٹھتی ہے اور اپنے عزیزوں کے ساتھ اس معلوماتی اور دلچسپ سائنسی حقائق کو بھی شیئر کریں۔ عید الاضحیٰ کی خوشیوں کو سائنسی معلومات سے بھرپور بنائیں اور مزیدار کھانوں کا لطف اُٹھائیں!

عید الاضحیٰ مبارک ہو!

تحریر: ظہیریوسف

#عیدقربان

28/05/2024

Thanks for being a top engager and making it onto my weekly engagement list! 🎉 Umair Khan Niazi, Imran Suleman, مسٹر سعید

28/05/2024

گھروں کو ٹھنڈا رکھنے کا آ سان، سستا اور سائنسی حل
۔۔۔۔۔۔
محمد ظہیر یوسف
۔۔۔۔۔
ہم جانتے ہیں کہ سفید اشیا روشنی کے سارے رنگوں کا انعکاس (ریفلیکشن) کرتی ہیں۔جس کی وجہ سے سطحوں کا درجہ حرارت زیادہ نہیں بڑھنے پاتا۔ سفید رنگ کی یہ خصوصیت عمارتوں کو ٹھنڈا رکھنے میں مددگار ہو سکتی ہے۔

پرڈو یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق عام سفید پینٹ سورج کی روشنی کا 80-90٪ حصہ منعکس کرتا ہے۔ مگر یہ بالائے بنفشی شعاعوں کو جذب کرنے کی وجہ سے سطح کا درجہ حرارت بڑھا دیتا ہے جس کی وجہ اس میں ٹائٹینیم ڈائی آکسائیڈ پگمنٹ ہے۔

اگر پینٹ میں ٹائٹینیم ڈائی آکسائیڈ کی بجائے کیلشیم کاربونیٹ یعنی چاک کے ذرات شامل کر دیے جائیں تو پینٹ کا انعکاس 95.5٪ تک پہنچ جاتا ہے۔ اور اگر بیریم سلفیٹ کا پاؤڈر شامل کیا جائے تو انعکاس 98.1٪ ،تک پہنچ جاتا ہے۔ پاؤڈر کی مقدار پینٹ کا 60٪ تک ہونی چاہئے۔

یہ پینٹ نہ صرف دیکھنے میں غیر معمولی سفید ہیں بلکہ ان کے استعمال سے انتہائی تیز دھو پ میں بھی درجہ حرارت میں بھی 4.4 ڈگری سیلسیس کمی لائی جا سکتی ہے۔ باقی اوقات میں یہ کمی 10.6 ڈگری سی تک جا سکتی ہے۔اس عمل کو شعاعی ٹھنڈک( ریڈی ایٹیو کولنگ) کہا جاتا ہے۔

سطحوں کو ٹھنڈا رکھنے کا یہ طریقہ نہ صرف ماحول دوست ہے بلکہ اس میں توانائی کا استعمال بھی نہیں ہے۔ خاص سفید پینٹ ائیر کنڈیشنر کا متبادل تو نہیں مگر یہ اس کے استعمال میں خاطر خواہ کمی کا سکتا ہے۔



حوالہ جات: اے۔سی۔ایس اپلائیڈ میٹیرلز اینڈ انٹرفیسز 2021
سیل رپورٹس فزیکل سائنس 2020

20/05/2024

سائنس اساتذہ متوجہ ہوں۔

اگر آ پ نے موثر سائنسی تعلیم کے لیے کوئی عملی تجربات تیار کیے ہوں یا

سائنس کے فروغ کے لیے شاگردوں کے ساتھ مل کر اختراعی پراجیکٹ بنائے ہوں۔

تو سعادت انور صدیقی اعزاز کے لیےضرور درخواست دیں۔

19/05/2024

تربوز کے انجیکشن: حقیقت کیا ہے؟
۔۔۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو آ گ کی طرح پھیلی ہے جس میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ تربوزکو مصنوعی میٹھے (سیکارن/سیکرین) اور لال رنگ کے ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ایسا عملاً ممکن نہیں۔اس کی تین وجہیں ہیں:

1. ٹیکے سے لال رنگ پورے تربوز میں پھیلانا تقریباً ناممکن ہے۔
2. ایسے کرنے پر چھلکے اور لال گودے کے درمیان والا سفید حصہ بھی رنگین ہو جائے گا
3. ٹیکہ لگنے سے تربوز کے خراب ہونے کے چانس ہیں۔

یاد رہے کہ سیکرین کو این۔ایچ۔ایس اور ایف۔ڈی۔اے جیسے اداروں نے مصنوعی میٹھے کے طور پر استعمال کی اجازت دے رکھی ہے۔

تربوز اور ہیضہ

تربوز کھا کر پانی پینے سے بالکل بھی ہیضہ نہیں ہوتا۔ ہیضہ بیکٹیریا کی وجہ سے ہوتا ہے جس سے بچاؤ کے چند راستے یہ ہیں۔

1. تربوز کو چیک کرنے کے لیے کٹ لگوانے سے گریز کیجئے ۔ دکاندار کی بھری بیکٹیریا سے بھری ہو سکتی ہے۔
2. تربوز کو کاٹنے سے پہلے اچھی طرح دھو لیجئے ۔
3. بہت زیادہ پکا ہوا تربوز کھانے سے گریز کیجئے۔
4.تربوز کو زیادہ دنوں تک فریج میں رکھنا بھی اچھا نہیں۔ کچھ بیکٹیریا اس درجہ حرارت میں بھی نشوونما کر سکتے ہیں۔

تربوز کے فوائد

پانی کا بہترین ذریعہ: تربوز میں تقریباً 92% پانی ہوتا ہے، جو گرمیوں میں ہائیڈریشن کے لیے ایک بہترین ذریعہ ہے۔
وٹامنز اور معدنیات: یہ وٹامن A، B6، C، اور بہت سے اینٹی آکسیڈینٹس جیسے لائکوپین میں مالا مال ہوتا ہے جو صحت کے لیے مفید ہوتے ہیں۔
دل کی صحت: لائکوپین دل کی صحت کے لیے اچھا مانا جاتا ہے اور یہ خون کی شریانوں اور رگوں کی صحت کو بہتر بنا سکتا ہے۔

تربوز گرمیوں میں ایک نعمت ہے۔ اسے احتیاط کے ساتھ استعمال کیجئے اور اس کے ذائقے اور افادیت کے مزے لیجئے ۔

Photos from ScienceKar's post 11/05/2024

شمالی اور جنوبی روشنیاں: آسمان پر رنگین روشنیوں کا سحر انگیز رقص
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گزشتہ رات کے آخری پہر، یورپ اور امریکہ کے آسمانوں پر لہراتی سبز، نارنجی اور نیلی روشنیوں کا ایک دلکش نظارہ دیکھنے میں آیا۔ اس مظہر کو ایرورا کہا جاتا ہے۔ یہ ایک نادر موقع تھا کہ ایرورا کوشمالی اور جنوبی قطب سے ہٹ کر دیگر علاقوں میں بھی اپنی بھرپور آب و تاب کے ساتھ دیکھا گیا۔

ایسا سورج پر ہونے والے ایک نادر مظہر کی وجہ سے ہوا جسے کورونل ماس ایجیکشن کہا جاتا ہے۔ اس عمل میں سورج کی سطح سے آتش فشاں کے پھٹنے سے کئی بلین ٹن پلازما پیدا ہوتا ہے جو کئی ملین میل فی سیکنڈ کی رفتار سے زمین کی بالائی فضا سے ٹکرا کر ایرورا کی وجہ بنتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے نی آن سائن بورڈز میں بھری گیس سے پلازما کے ٹکراؤ پر روشنی پیدا ہوتی ہے۔

پلازما دراصل چارج شدہ ذرات مثلاً الیکٹران اور مثبت چارجوں کا ایک آمیزہ ہے جو فضا میں گیسوں کے مالیکیولوں سے ٹکرا کر ان میں الیکٹرانوں کو عارضی مدت کے لیے کم توانائی والے مدار سے زیادہ توانائی کے مدار میں لے جاتا ہے۔ یہ الیکٹران اپنے مدار میں جب واپس آتے ہیں تو مختلف رنگوں کی روشنی خارج کرتے ہیں۔

لاطینی زبان میں ایرورا کے معنی "صبح کی دیوی" ہیں۔ شمالی قطب کے ایرورا کو "ایرورا بوریالیس" کہا جاتا ہے جبکہ جنوبی قطب کے ایرورا کو "ایرورا آسٹرالیس' کا نام دیا گیا ہے۔ بوریالیس اور آسٹرالیس لاطینی زبان میں بالترتیب شمال اور جنوب کو کہا جاتا ہے۔

ظہیر یوسف

30/04/2024

شور کی آ لودگی کے صحت پراثرات: تازہ تحقیق

شور آ لودگی کی ایک قسم ہے جس میں مسلسل بڑھتی آ بادی اور انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ گاڑیوں کا شور پرندوں کے رویوں میں تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔ ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انڈوں میں پلنے والے بچے بھی اس شور کے مضر اثرات سے محفوظ نہیں۔

موقر سائنسی جریدے "سائنس" میں چھپنے والی ایک تازہ ترین تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ٹریفک کا بے ہنگم شور انڈوں میں پلنے والے پرندوں کی نشوونما پر بری طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ ایسے پرندے بڑے ہو کر صحت کے عمومی مسائل سے دو چار رہتے ہیں اور ان کی افزائش نسل کرنے کی صلاحیت بھی کم ہو جاتی ہے۔

اس تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹریفک کا شور ہمارے اندازے سے کہیں زیادہ خطرناک ہے اور رویوں میں تبدیلی کے ساتھ عمومی صحت پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

سائنس میگزین: 25 اپریل 2024

23/04/2024

بہترین چائے کی پیالی کے لیے سائنسی سفارشات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یادش بخیر، جب اک عشرہ پہلے میں لاہور میں وارد ہوا تو اکثر شامیں دوستوں کے ساتھ کیفے اور ریستورانوں کی خاک چھانتے گزرتیں۔ دوست بھی خوش خوراک اور خوش ذائقہ ملے تھے۔ جونہی کسی نئے ریستوران کے کھلنے کی خبر ملتی، ہم تین چار دوستوں کا ٹولہ وہاں پہنچ جاتا۔ کھانے کےذائقے اور معیار کا تجزیہ ہمارے چٹورے دوست روحیل اشرف 2 الفاظ میں نچوڑ کر رکھ دیتے تھے۔ اگر کھانا ان کے ‘ٹیسٹ بڈز’ کو متاثر کر پاتا تو ‘انٹرسٹنگ’ قرار پاتا، نہیں تو ‘فارغ’

اچھے کھانے توبے شمار مل جاتے ہیں مگر اچھی چائے کے لیے بہت سے ریستوران کی خاک چھان ماری مجال ہے جو کہیں ڈھنگ کی چائے ملی ہو۔ انہی دنوں یہ خیال آتا تھا کہ اگر سائنسی طریقہ کار کو استعمال میں لاتے ہوئے بہترین چائے کی ترکیب معلوم کر لی جائے تو کیا ہی بات ہے۔ ویسے مشہور زمانہ سیریز ‘بریکنگ بیڈ’ میں بھی تو کیمیاء دان سائنسی اصولوں پر ہی ایک بہترین کافی تیار کرتا ہے۔

مکمل بلاگ کا لنک پہلے کمنٹ میں۔

10/04/2024

سائنس کار کی طرف سے دلی عید مبارک۔ اس پر مسرت موقع پر پٹاخوں ، چوڑیوں اور مہندی کی سائنس بطور عیدی۔

پھلجھڑیوں اور پٹاخوں کی سائنس
https://www.facebook.com/share/p/J6QWDdMCwBwvNdAL/?mibextid=Nif5oz

کانچ کی چوڑیوں کی سائنس
https://www.facebook.com/share/p/jgUQfqX3N726or4c/?mibextid=Nif5oz

مہندی کی سائنس
https://www.facebook.com/share/p/wHQEVU774D9FPhjp/?mibextid=Nif5oz

عید، پھلجھڑیاں، پٹاخے اور سائنس
۔۔۔۔۔
بچوں کی عید پٹاخوں اور پھلجھڑیوں کے بغیر ادھوری ہے۔ آ تش بازی کے پٹاخے، دلفریب اور دیدہ زیب رنگ اور پیٹرن قابل دید ہوتے ہیں۔ آ ئیے ان دلکش نظاروں کے پیچھے کارفرما سائنس کو سمجھتے ہیں۔

آتش بازی کے دوران نکلنے والی رنگ دار روشنیوں کی وجہ دھاتی مرکبات ہیں جو رنگا رنگ شعلوں سے جلتے ہیں۔ مثلاً سوڈیم پیلے شعلے سے جلتی ہے جب کہ سٹرانشیم کا شعلہ سرخ رنگ کا ہوتا ہے۔ اسی طرح تانبا (کاپر) سبز رنگ جبکہ ایلومینم سفید شعلہ دیتے ہیں۔

شعلے کا بلند درجہ حرارت دھاتوں کو گیسی حالت میں لے جاتا ہے جہاں پرایک مخصوص روشنی (توانائی) کے انجذاب سے الیکٹران کم توانائی والے مداروں سے زیادہ توانائی والے مداروں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔یہ انتقال عارضی ہوتا ہے اورواپسی کے سفرمیں مخصوص روشنی کے اخراج سے الیکٹران اپنی ابتدائی جگہ پر واپس آ جاتا ہے۔نکلنے والی روشنی کا رنگ سات رنگوں میں سے کوئی ایک ہوتا ہے اور یہ ہر دھات کے لیے مخصوص ہے۔

رنگوں کے انتخاب کے بعد دوسرا مرحلہ پھلجڑی کو فضا میں لےجانے کا ہے۔ اس مقصد کے لیے استعمال ہونے والے مادے کو چارج یا موٹر کہا جاتا ہے جس کی ایک عام مثال دارو (گن پاوڈر) ہے۔دارو کے مرکزی اجزا میں ایک تکسیدی عامل (آکسیڈ ینٹ) مرکب پوٹاشیم نائٹریٹ (۷۵ فیصد)، چارکول (کاربن) اور گندھک (سفر) شامل ہیں۔بارود کے جلنے کے ردعمل میں پھلجڑی فضا میں بلند ہوتی ہے۔

پھلجڑی کے مرکز میں موجود دھماکہ خیزآمیزےکوایک خاص وقت پر جلانے کے لیےبتی یعنی فیوز کا استعمال کیا جاتا ہے۔یہ آمیزہ ایک ایندھن، تکسیدی عامل (پوٹاشیم کلوریٹْ یا پرکلوریٹ) اور دھاتی مرکبات (زیادہ تر کلورائیڈز) پر مشتمل ہوتا ہے اور گولیوں کی صورت میں پھلجڑی کے مرکزی حصے میں رکھا جاتا ہے۔آمیزے کے اجزا کو یکجا رکھنے کے لیے نشاستہ (مایا) اور چینی سے مدد لی جاتی ہے۔ ان گولیوں کی ترتیب پر منحصر ہے کہ آسمان پر کس طرح کا پیٹرن بنے گا۔ اسی طرح سیٹی کی آواز دینے والی پھلجڑیوں میں کچھ نامیاتی مرکبات مثلاًگیلیک اور پیکریک ایسیڈ ڈالے جاتے ہیں۔

آتش بازی سے ہوا میں معلق رہنے والے ذرات بنتے ہیں جو فضائی آلودگی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔مزید براں نائٹروجن اور سلفر کے گیسی مرکبات( آکسائیڈز) بھی وجود میں آتے ہیں جو فضائی آلودگی کے ساتھ ساتھ ایسیڈ رین کا موجب ہیں۔

تحریر: ڈاکٹر م۔ظ یوسف

10/04/2024

عید، پھلجھڑیاں، پٹاخے اور سائنس
۔۔۔۔۔
بچوں کی عید پٹاخوں اور پھلجھڑیوں کے بغیر ادھوری ہے۔ آ تش بازی کے پٹاخے، دلفریب اور دیدہ زیب رنگ اور پیٹرن قابل دید ہوتے ہیں۔ آ ئیے ان دلکش نظاروں کے پیچھے کارفرما سائنس کو سمجھتے ہیں۔

آتش بازی کے دوران نکلنے والی رنگ دار روشنیوں کی وجہ دھاتی مرکبات ہیں جو رنگا رنگ شعلوں سے جلتے ہیں۔ مثلاً سوڈیم پیلے شعلے سے جلتی ہے جب کہ سٹرانشیم کا شعلہ سرخ رنگ کا ہوتا ہے۔ اسی طرح تانبا (کاپر) سبز رنگ جبکہ ایلومینم سفید شعلہ دیتے ہیں۔

شعلے کا بلند درجہ حرارت دھاتوں کو گیسی حالت میں لے جاتا ہے جہاں پرایک مخصوص روشنی (توانائی) کے انجذاب سے الیکٹران کم توانائی والے مداروں سے زیادہ توانائی والے مداروں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔یہ انتقال عارضی ہوتا ہے اورواپسی کے سفرمیں مخصوص روشنی کے اخراج سے الیکٹران اپنی ابتدائی جگہ پر واپس آ جاتا ہے۔نکلنے والی روشنی کا رنگ سات رنگوں میں سے کوئی ایک ہوتا ہے اور یہ ہر دھات کے لیے مخصوص ہے۔

رنگوں کے انتخاب کے بعد دوسرا مرحلہ پھلجڑی کو فضا میں لےجانے کا ہے۔ اس مقصد کے لیے استعمال ہونے والے مادے کو چارج یا موٹر کہا جاتا ہے جس کی ایک عام مثال دارو (گن پاوڈر) ہے۔دارو کے مرکزی اجزا میں ایک تکسیدی عامل (آکسیڈ ینٹ) مرکب پوٹاشیم نائٹریٹ (۷۵ فیصد)، چارکول (کاربن) اور گندھک (سفر) شامل ہیں۔بارود کے جلنے کے ردعمل میں پھلجڑی فضا میں بلند ہوتی ہے۔

پھلجڑی کے مرکز میں موجود دھماکہ خیزآمیزےکوایک خاص وقت پر جلانے کے لیےبتی یعنی فیوز کا استعمال کیا جاتا ہے۔یہ آمیزہ ایک ایندھن، تکسیدی عامل (پوٹاشیم کلوریٹْ یا پرکلوریٹ) اور دھاتی مرکبات (زیادہ تر کلورائیڈز) پر مشتمل ہوتا ہے اور گولیوں کی صورت میں پھلجڑی کے مرکزی حصے میں رکھا جاتا ہے۔آمیزے کے اجزا کو یکجا رکھنے کے لیے نشاستہ (مایا) اور چینی سے مدد لی جاتی ہے۔ ان گولیوں کی ترتیب پر منحصر ہے کہ آسمان پر کس طرح کا پیٹرن بنے گا۔ اسی طرح سیٹی کی آواز دینے والی پھلجڑیوں میں کچھ نامیاتی مرکبات مثلاًگیلیک اور پیکریک ایسیڈ ڈالے جاتے ہیں۔

آتش بازی سے ہوا میں معلق رہنے والے ذرات بنتے ہیں جو فضائی آلودگی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔مزید براں نائٹروجن اور سلفر کے گیسی مرکبات( آکسائیڈز) بھی وجود میں آتے ہیں جو فضائی آلودگی کے ساتھ ساتھ ایسیڈ رین کا موجب ہیں۔

تحریر: ڈاکٹر م۔ظ یوسف

09/04/2024

Eid Mobarak

09/04/2024

کانچ کی چوڑیاں: ہنر اور سائنس کا حسین امتزاج

کانچ کی چوڑیاں اپنے دیدہ زیب رنگوں، چمک اور کھنک کی وجہ سے خوبصورتی کی علامت اور ہماری ثقافت کا اہم جزو ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ چوڑیوں کی خوبصورتی کے پیچھے کونسی سائنس اور سائنسی عوامل کار فرما ہیں۔

چوڑیوں کی بناوٹ

چوڑیاں عموماً سوڈا لائم گلاس سے بنائی جاتی ہیں جس کے بنیادی اجزاء میں سیلیکا، سوڈا (سوڈیم آکسائیڈ) اور چونا (کیلشیم آکسائیڈ) شامل ہیں۔ یہ شیشہ کافی پائدار ہوتا ہے اور اسے مختلف شکلوں میں آسانی سے ڈھالا جا سکتا ہے۔ یہی شیشہ مشروب کی بوتلوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ دیدہ زیب رنگوں کے لیے شیشے میں دھاتی آکسائیڈز شامل کیے جاتے ہیں۔ مثلاً گہرے نیلے رنگ کے لیے کوبالٹ آکسائیڈ اور سبز رنگ کے لیے کرومیم آکسائیڈ شامل کیے جاتے ہیں۔

تیاری کا عمل

سوڈا لائم کو ایک بھٹی میں تقریباً 1700 ڈگری سینٹی گریڈ تک گرم کیا جاتا ہے تاکہ یہ پگھل کر مائع بن جائے۔ چوڑیوں کی شکل دینے کے لیے اس مائع شیشے کو سانچوں میں ڈالا جاتا ہے۔ ماہر کاریگر سلاخوں اور پھونکنے کے اوزاروں سے بھی پگھلے ہوئے شیشے کو مختلف شکلوں میں ڈھال سکتے ہیں۔
دوسرے مرحلے میں چوڑیوں کو ایک اوون میں آہستہ آہستہ ٹھنڈا کیا جاتا ہے۔ یہ عمل انھیں ٹوٹنے سے بچانے اوردیرپا پائداری کے لیے ضروری ہے۔

اس عید پر، جب آپ رنگ برنگی چوڑیاں پہنیں یا دیکھیں، تو ان کی سائنسی خوبصورتی کو بھی سراہیں۔ عید مبارک!

#عیدالفطر
#

08/04/2024

Thanks for being a top engager and making it onto my weekly engagement list! 🎉 Qasim Khan, Hassan Balouch, Muhammad Ishaq 󱢏

07/04/2024

مہندی کی سائنس

تحریر: ڈاکٹر محمد ظہیر یوسف

عید کی آمد آمد ہے اور چاند رات کو دیگر تیاریوں کے ساتھ مہندی لگانے کا بھی خصوصی اہمتام کیا جائے گا۔ آئیے موقعے کی مناسبت سے مہندی کی سائنس سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مہندی، حنا کے پودے (لاسونیا انیرمس) سے حاصل ہونے والا ایک رنگ ہے جو جلد پر خوبصورت اور رنگین نقش و نگاری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ مرکب اخروٹ کے پتوں میں بھی پایا جاتا ہے۔

مہندی کا موثر جزو ایک نامیاتی مرکب "لاسون" ہے۔ یہ مرکب مہندی کے پتوں کو پیسنے پر خارج ہوتا ہے۔ ہلکی تیزابیت اسے مرکب کے اخراج میں کافی سود مندہےاسی لیے مہندی کے پیسٹ میں لیموں یا چائے شامل کی جاتی ہے۔

لاسون ایک چھوٹا اور بآسانی حل ہو جانے والا سالمہ (مالیکیول) ہے جو جلد کی بیرونی پرت میں آسانی سے جذب ہو کر جلد کی پروٹینز کے ساتھ جڑ جاتا ہے۔اس کے علاوہ یہ ناخن اور بال میں موجود کیراٹن پروٹین کے ساتھ بھی جڑسکتا ہے۔

ابتداء میں مہندی کا رنگ نارنجی ہوتا ہے مگر وقت کے ساتھ یہ گہرا ہو کر سرخی مائل بھورا ہو جاتا ہے۔ ایسا لاسون کی ہوا کے ساتھ تکسید (آکسیڈیشن) کی وجہ سے ہوتا ہے۔

مہندی کا رنگ عموماً جلد کی بیرونی تہہ اترنے تک باقی رہتا ہے جس کا دورانیہ دو سے تین ہفتے تک ہو سکتا ہے۔ تاہم فرد سے فرد یہ دورانیہ مختلف ہو سکتا ہے۔

لاسون بالائے بنفشی شعاعوں کا انجذاب کرتا ہے اسی لیے اسے سن اسکرین کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ نشان انگشت (فنگر پرنٹس) کی شناخت میں اس مرکب کے ممکنہ استعمال پر تحقیق جاری ہے۔

مہندی کی کیمیاء روایتی آرٹ اور سائنسی اصولوں کا ایک حسین امتزاج ہے۔ یہ دکھاتا ہےثقافتی رواج کیسے سائنسی بنیادوں پر قائم ہو سکتے ہیں۔

اردو میں سائنسی معلومات ، تازہ ترین خبروں اور تحقیق کے لیے فالو کریں۔

04/04/2024

فضا اور اس کی پرتیں
۔۔۔۔۔۔۔

فضا گیسوں کا ایک غلاف ہے جو سطح زمین سے لے کر 600 کلومیٹر بلندی تک پھیلا ہوا ہے۔ اگر ہم زمین کو ایک سیب کے برابر تصور کریں تو فضا اس کے چھلکے کے برابر ہوگی۔ تاہم یہ زمین کی آب و ہوا، درجہ حرارت اور موسموں پر گہرا اثر رکھتی
ہے۔

فضا کی پرتیں

فضا کی پانچ پرتیں ہیں۔ پہلی پرت سطح زمین سے تقریباً 12 کلومیٹر بلندی تک جاتی ہے۔ ٹروپوسفئیر کہلانے والی اس پرت کی بلندی تقریباً ماؤنٹ ایورسٹ کی بلندی کےبرابر ہے۔ 12 سے 15 ایفل ٹاوراوپر تلے رکھنے پر ٹروپوسفئیر جتنی بلندی حاصل ہو
گی۔ یہاں بلندی کے ساتھ درجہ حرارت میں کمی واقع ہوتی ہے۔
ٹروپو سفئیر ہی وہ تہہ ہے جہاں ہم رہتے اورسانس لیتے ہیں۔ پرندے اور بادل بھی ادھر ہی اڑتے ہیں۔ فضا کا 85 فیصد وزن )کمیت یا ماس( اسی تہہ میں مرکوز ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ فضا کا 78 فیصد حصہ نائٹروجن جب کہ 21 فیصد حصہ آکسیجن گیس پر مشتمل ہے۔ دیگر گیسوں میں آرگان ایک فیصد جب کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ 0.04 ٪شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں پارٹیکولیٹ میٹریعنی ٹھوس ذرات مثالً دھواں، گردو
غبار، پولن وغیرہ بھی پائے جاتے ہیں۔

فضا کی دوسری تہہ جو 50 کلو میٹر تک پھیلی ہے سٹریٹو سفئیر کہلاتی ہے۔5-6 ماؤنٹ ایورسٹ اوپر تلے رکھنے پریہ بلندی حاصل ہو گی۔ یہاں جہازاڑتے ہیں اور اس کے بالائی حصے میں اوزون سے بنی تہہ موجود ہوتی ہے جو سورج سے آنے والی خطرناک بالائے بنفشی شعاعوں سے ہماری حفاظت کرتی ہے۔ یہ شعاعیں جلد کے کینسر کی وجہ بن سکتی ہیں اور آنکھوں کے لیے بھی انتہائی مضر ہیں۔اوزون کی وجہ سے ہی فضا کی اس تہہ میں بلندی کے ساتھ درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے۔

زمین کی تیسری پرت میسو سفئیر ہے جو50 سے 85 کلو میٹر بلندی تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ بلندی کتنی ہے؟ بس 9 سے 10 ماؤنٹ ایورسٹ کو اوپر تلے رکھ دیجئے۔یہ فضا کی سرد ترین پرت ہے۔ خلا سے آنے والے شہابیے اس پرت میں داخل ہونے پر آگ پکڑ لیتے ہیں۔ ایسا ہوا کے مالیکیولوں کی رگڑ کی وجہ سے ہوتا ہے۔

فضا کی چوتھی پرت کو تھرمو سفئیرکہا جاتا ہے جو 85 سے 600 کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہاں ہم شمالی روشنیوں )ارورا( کا مظاہرہ دیکھتے ہیں۔ یہاں ہوا نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے اور ایک سالمے کو دوسرے سے ٹکرانے کے لیے کئی میلوں کا سفر کرنا پڑتا ہے۔۔ یہاں بین الاقوامی خلائی اسٹیشن اور کچھ سیٹلائیٹ زمیں کے گرد گردش کرتے ہیں۔

فضا کی بیرونی ترین پرت ایکسو سفئیر ہے جو سطح زمین سے600 کلومیٹر کی بلندی سے شروع ہوتی ہے۔ اس تہہ کے بعد خلا شروع ہو جاتا ہے۔

زمین کی سطح سے خلا کی حد تک، ہماری فضا ایک فعال اور حفاظتی تہہ ہے جو زندگی کے لیے مرکزی حیثیت کی حامل ہے۔

تحریر : ڈاکٹر محمد ظہیر یوسف

01/04/2024

عکس جہان نادیدہ
(2۔ شب مریخ)
۔۔۔۔۔
اس تصویر کو غور سے دیکھیے ۔ یوں لگتا ہے جیسے کسی نا معلوم ، دور دراز سیارے پر رات کا منظر ہو۔ پس منظر میں آ سماں اور جگمگاتے ستارے دکھائی دے رہے ہیں۔ سیارے کی سطح نا ہموار ہے اور ایک چھوٹی سی چٹان بھی نمایاں۔ مگر ٹھہرئیے، اسپ تصور کو ذرا لگام دیجئے ۔

کہیں یہ آ پ کو پتیسہ تو نہیں لگ رہا؟ اگر ایسا ہے تو آ پ روزے کے زیر اثر ہیں۔

یہ کوئی سیارہ یا پتیسہ نہیں۔ یہ تو کوئلے کا ایک ٹکڑا ہے جو گھر میں جلائی ہوئی لکڑی سے حاصل کیا ہے۔ اس کوئلے کی یہ تصویر الیکٹران مائیکرو اسکوپ سے معروف فوٹو گرافر Syed Mehdi Bukhari نے لی ہے۔

کوئلے کی اس ٹکڑے میں کھوکھلے متوازی چینلز دراصل ویسکولر بنڈل ہے جس کی مدد سے درخت زمین سے پانی اور خوراک جذب کر تا ہے۔

کومنٹس میں بتائیے کہ پہلی نظر میں یہ آ پ کو کیا لگا تھا؟

(یہ تصویر لمز کی مرکزی تجربہ گاہ میں موجود الیکٹران مائیکرو اسکوپ سے لی گئی اور لاہور سائنس میلہ 2022, 2023 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ بشکریہ: سید مہدی بخاری)

31/03/2024

حیرت کدہ
(1۔خوردبینی جہان کے اہرام)
۔۔۔۔۔۔
یہ اہرام مصر نہیں۔ بلکہ سیمی کنڈیکٹر سلیکان کا ایک ویفر(ویفر بسکٹ تو یاد ہوں گے آپ کو، اس کی شکل بھی ویسی ہی ہوتی ہے) ہے۔ جی ہاں وہی سیلیکان جس سے سولر سیل کے پینل بنتے ہیں۔ یہ سورج کی روشنی کو جذب کر کے اسے بجلی میں تبدیل کرتا ہے۔ مگر یہ بہت سارے اہرام کہاں سے آئے؟

یہ کوئی عام کیمرے سے لی گئی تصویر نہیں بلکہ سیلیکان کے ویفر کی الیکٹرانی خوردبین سے لی گئ ایک تصویر ہے۔ جس میں نظر آنے والے اہرام کی اوسط اونچائی 1 سے 3 مائیکرومیٹر ہے۔
دراصل اس ویفر کی سطح پر سیلیکان آکسائیڈ کے پرت کو الکلی (سوڈیم ہائیڈرو آکسائیڈ) سے کھرچا گیا ہے جس کے نتیجے میں یہ اہرام جیسی اشکال سطح پر نمودار ہو گئیں۔ مگر آخر اس عمل کی ضرورت ہی کیا تھی؟ خوبصورتی بڑھانا؟

نہیں۔ اگر سیلیکان کی سطح ہموار ہو گی تو سورج کی روشنی کا زیادہ حصہ معنکس ہو جائے گا۔ اہرام کی صورت میں یہ کھردرا پن سورج کی روشنی کو قید کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔ مگر بے فکر رہیے یہ اہرام اتنے چھوٹے ہیں کہ آپ انگلی کی پوروں سے انھیں چھو اور محسوس ںہیں کر سکتے۔

تحریر: ڈاکٹر محمد ظہیر یوسف

(یہ تصویر لمز کی مرکزی تجربہ گاہ میں موجود الیکٹران مائیکرو اسکوپ سے لی گئی ہے۔)

مزید سائنسی معلومات ، تازہ ترین خبروں اور تحقیق کے لیے پیج کو فالو کریں۔

آئزک نیوٹن، سائنسی عظمت سے شخصی خامیوں تک - WE News 31/03/2024

نیوٹن کی 297 ویں برسی پر۔ نیوٹن جیسا عظیم سائنسدان اپنی ذاتی زندگی میں کیسا تھا؟
"وی نیوز" میں بلاگوں کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس سلسلے کا پہلا بلاگ۔ بشکریہ وی نیوز

آئزک نیوٹن، سائنسی عظمت سے شخصی خامیوں تک - WE News 1665 میں طاعون کی وبا کے دوران ایک 23 سالہ نوجوان اپنے باغ میں بیٹھا درخت سے گرتا ہوا سیب دیکھتا ہے (سیب اس کے سر پر نہیں گرا تھا)۔ اس منظر نے اسے سوچنے پہ مجبور کیا کہ سیب ز...

29/03/2024

سبز ہائیڈروجن سے چلنے والی ریل کا نیا ریکارڈ
۔۔۔۔۔۔۔۔
سوئٹزرلینڈ کی ریل بنانے والی کمپنی سٹینڈلر کی تیار کردہ "فلرٹ ایچ-2" ریل نے بغیر ایندھن ری فل کیے 2803 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم کردیا۔ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈز نے اس کی تصدیق کی ہے۔ اس سے پہلے یہ ریکارڈ 1175 کلو میٹر کا تھا۔

فلرٹ ایچ-2 نے امریکہ کی ریاست کولاراڈو میں 20 مارچ کی شام کو اپنے سفر کا آغاز کیا ۔ جو 22 مارچ کی دوپہر کو اپنے اختتام کو پہنچا ۔

سبز ہائیڈروجن پانی سے برق پاشیدگی کے عمل سے تیار کی جاتی ہے۔ برق پاشیدگی کے لیے استعمال ہونے والی بجلی کا ماحولیاتی طور پر محفوظ طریقوں جیسا کہ شمسی, بادی یا پانی سے حاصل ہونا ضروری ہے۔

فیول سیل ٹیکنالوجی میں ہائیڈروجن کو ایندھن کے طور پر استعمال کرکے بجلی میں تبدیل کیا جاتا ہے جو ریل کو سفر کے لیے درکار توانائی مہیا کرتی ہے۔

تاہم سٹینڈلر نے یہ تفصیلات مہیا نہیں کیں کہ اس ریل کے فیول ٹینک کی گنجائش کتنی ہے اور اس میں کتنے فیول سیل استعمال ہوے۔

ہائیڈروجن کو مسقبل کا تیل قرار دیا جاتا ہے۔ یوکرین اور روس کے تنازع کے بعد یورپی ممالک میں ہائیڈروجن توانائی کو ایک نئی زندگی ملی ہے۔2050 تک نیٹ زیرو جیسے احداف کے حصول میں بھی ہائیڈروجن توانائی کا مرکزی کردار ہو گا۔

تحریر: ڈاکٹر ظہیر یوسف

28/03/2024

Shout out to my newest followers! Excited to have you onboard!

Farhan Balouch, Fida Khan, Qasim Khan, Muhammad Ishaq 󱢏, Ghulam Abbas Surra

24/03/2024

پلاسٹک کی آلودگی: ایک بڑھتا ہوا عالمگیر مسئلہ
---------------
عالمی سطح پر اس وقت پلاسٹک کی سالانہ پیداوار تقریباً 460 ملین ٹن تک پہنچ چکی ہے۔ گزشتہ 70 سالوں میں ہم 9 بلین ٹن پلاسٹک پہلے ہی پیدا کر چکے ہیں جس کا 10 فیصد حصہ ری سائیکل ہوتا ہے اور باقی 90 فیصد ہمارے کوڑے دانوں کی زینت بنتا ہے یا زمین میں دبا دیا جاتا ہے جہاں وہ کئی سو سال تک صحیح سلامت رہتا ہے۔

آلودگی کے ذرائع:

پلاسٹک کی آلودگی کے اہم ذرائع میں گھریلو استعمال، صنعتی فضلہ، اور کچرے کی تلفی کا غیر معیاری نظام شامل ہیں۔ زیادہ تر پلاسٹک مصنوعات جیسے شاپنگ بیگز، بوتلیں، اور فوڈ پیکیجنگ کا مناسب طریقے سے ٹھکانے نہیں لگایا جاتا۔اس بے جا استعمال کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پلاسٹک کے انتہائی باریک ریشے یعنی مائیکرو پلاسٹک کی موجودگی کی تشخیص ہوا، پانی اور حتی کہ ہمارے خون میں بھی کی جا چکی ہے۔

ماحولیاتی اثرات:

پلاسٹک کی آلودگی سے ماحولیاتی نظام پر دور رس اثرات پڑتے ہیں۔ یہ آبی حیات کے لیے خطرناک ہے، جیسے کہ مچھلیاں اور سمندری پرندے پلاسٹک کو غذا سمجھ کر نگل لیتے ہیں، جو ان کی موت کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، پلاسٹک کی آلودگی مٹی کی زرخیزی کو بھی کم کرتی ہے۔

صحت پر اثرات:

کچھ پلاسٹک کی اقسام سے نکلنے والے کیمیکل جیسے بِسفینول اے (BPA) انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں، جو ہارمون میں عدم توازن کے ساتھ، دل کی بیماریوں اور کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔

ممکنہ حل:

1۔ پلاسٹک کے نقصانات اور ماحول دوست متبادل کے بارے میں آگاہی۔
2. پلاسٹک کی مصنوعات جیسے کہ شاپنگ بیگز کی ممانعت اور بایوڈیگریڈیبل متبادل کی حوصلہ افزائی۔
3. پلاسٹک کی ری سائیکلنگ اور کچرے کی بہتر انتظامی تلفی۔
4۔ حکومتی سطح پر پلاسٹک کے استعمال پر سخت قوانین کا نفاذ۔
5. ماحول دوست پیکیجنگ کا فروغ۔
6. عوام اور مقامی کمیونٹی کو صاف ستھرائی اور ری سائیکلنگ کی مہمات میں حصہ لینے کی ترغیب۔

پلاسٹک کی آلودگی ایک سنگین مسئلہ ہے جس کا مقابلہ ہمیں مشترکہ کوششوں سے کرنا ہوگا۔ ہم سب مل کر ہی اپنے ماحول کو صاف ستھرا اور سلامت رکھ سکتے ہیں۔ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے لئے ایک بہتر مستقبل کی بنیاد رکھنے کی ضرورت ہے۔

تحریر: ڈاکٹر ظہیر یوسف

23/03/2024

پانی میں کرومیم دھات کی آلودگی: ذرائع، اثرات اور حل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان کی معیشت میں چمڑے اور ملمع کاری (الیکٹروپلیٹنگ) صنعتوں کا اہم کردار ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ صنعتیں ہمارے پینے کے پانی میں کرومیم کی سطح کو کیسے بڑھا رہی ہیں؟

صنعتوں میں کرومیم کا استعمال

کرومیم ایک دھات جو دھاتوں کی سجاوٹ یا زنگ سے بچاؤ کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اسی طرح چمڑے کی صنعت میں، چمڑے کو حرارت، پانی اور بیکٹیریا سے بچاؤ میں اس کا اہم کردار ہے۔ تاہم ایسے کارخانے اپنے فضلے میں کرومیم کی بڑی مقدار خارج کرتے ہیں، جو بعد میں پانی کے ذرائع میں شامل ہو جاتی ہے۔

صحت پر اثرات

پینے کے پانی میں کرومیم کی زیادہ سطح جلدی امراض، معدے کی خرابیوں، گردوں اور جگر کے نقصانات، اور کینسر کا سبب بن سکتی ہے۔ کرومیم کی دو حالتوں 3 اور 6 میں سے کرومیم 6 صحت کے لیے زیادہ خطرہ ہے چونکہ یہ ایک طاقتور تکسیدی عامل (آکسیڈائزنگ ایجنٹ) ہے۔

حل کیا ہے؟

عالمی ادارہ صحت کے مطابق پینے کے پانی میں کرومیم کی مقدار 50 پارٹس پر بلین (پی۔ پی۔ بی) سے تجاوز نہیں کرنی چاہئے۔ پینے کے پانی کی باقاعدہ جانچ پڑتال ضروری ہے تاکہ پانی میں اس کی مقدار کا تعین کیا جا سکے۔ خصوصاً ایسے علاقوں میں جہاں دھاتوں کی ملمع کاری یا چمڑے کے کارخانے ہیں۔ کرومیم کی پانی میں موجوگی کے لیے ٹیسٹ اسٹرپس بھی دستیاب ہوتی ہیں۔ پاکستان میں ادارہ برائے آبی تحقیق (پی۔سی۔ڈبلیو۔آر) اس میں معاونت کر سکتا ہے۔

آلودہ پانی میں لوہا ڈالا جائے تو یہ کرومیم کو ایک ناحل پذیر حالت میں تبدیل کردیتا ہے جسے فلڑ کر کے الگ کیا جا سکتا ہے۔ ریورس آسموس سے یہ بآسانی الگ ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ شمسی توانائی سے کرومیم کے خاتمے کے طریقے بھی تحقیقی مراحل سے گزر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ بازار میں دستیاب فلڑ حل پذیر دھاتوں جیسا کہ کرومیم یا آرسینک کے لیے مفید نہیں۔

تحریر: ڈاکٹر ظہیر یوسف

22/03/2024

پینے کے پانی میں آ رسینک کی موجودگی، ذرائع، صحت پر اثرات اور تدارک
۔۔۔۔۔۔۔۔
آ رسینک ایک ایسا عنصر ہے جس کے خواص دھاتوں اور غیر دھاتوں دونوں کے میان میں ہیں۔ ایسے عناصر کو دھات نما کہا جاتا ہے۔

دلچسپ اور تاریخی حقائق

آ رسینک کے مرکبات مثلآ آ رسینک آ کسائیڈ یونانی دور سے ایک مہلک زہر کے طور پر استعمال ہوتے آ ئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آ رسینک کے مرکبات دو ہزار سال سے ادویات میں بھی مستعمل ہیں۔ آ ج بھی پچاس سے اوپر چینی ادویات میں آ رسینک موجود ہے اور دیسی حکیم مردانہ قوت میں اضافے کے لیے آ رسینک سے بنے کشتے کھلاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ انتہائی کم مقدار میں یہ صحت کے لیے ضروری عنصر ہے مگر زیادہ مقدار میں ایک مہلک زہر۔

آ رسینک کے ذرائع

ہمارے خطے (پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش) میں پانی میں آ رسینک قدرتی طور پر موجود ہے کیونکہ یہاں اس کے ارضیاتی ذخائر موجود ہیں۔ زیر زمین پانی جب ان ذخائر سے گزرتا ہے تو آ رسینک کے کچھ نمکیات اس میں حل ہو جاتے ہیں۔

فصلوں میں جڑی بوٹیوں کے خاتمے کے لیے آ رسینک کے مرکبات مثلاً سوڈیم آ رسینائیٹ اور پیرس گرین شامل ہیں۔ آ سینک (5) کا ایک نامیاتی مرکب چکن فیڈ میں ڈالا جاتا ہے جس کا کام بڑھوتری کو پروان چڑھانا اور بیماریوں سے حفاظت ہے۔

پینے کا پانی اور آ رسینک

پینے کا پانی غیر نامیاتی آ سینک کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ عالمی ادارے صحت نے پانی میں آ رسینک کی زیادہ سے زیادہ مقدار 10 پارٹس پر بلین (پی پی بی) تجویز کر رکھی ہے۔ تاہم پاکستان اور انڈیا میں یہ حد 50 پی پی بی ہے۔ پاکستان میں 2017 کی ایک تحقیق کے مطابق دریائے سندھ کے ساتھ لگنے والے علاقوں کے تازہ پانی میں آ رسینک کی مقدار 100 پی پی بی سے اوپر ہے۔

آ رسینک کو پانی سے کیسے نکالا جائے؟

پانی کو ایلومینا سے بنے ایک کالم سے گزارنے پر اس میں موجود لوہے کی آ ئرن (3) میں تکسید (آ کسیڈیشن) ہو جاتی ہے۔ لوہا اس حالت میں آ رسینک کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ میگنیٹائیٹ (آ ئرن آ کسائیڈ) کے نینو ذرات بھی اس عمل کے لیے مفید ہیں۔ اسی طرح آ ئرن کلورائیڈ بھی آ رسینک کو نا حل پذیر حالت میں تبدیل کر دیتا ہے جسے تقطیر (فلٹریشن) سے باآسانی نکالا جا سکتا ہے۔ ریورس آ سموسس یعنی آ ر۔ او بھی باقی آ ئینوں کے ساتھ آ رسینک کو بھی نکال لیتا ہے۔

آ رسینک کے انسانی صحت پر اثرات

آرسینک ملے پانی کا لمبے عرصے تک استعمال شوگر اور دل کی بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کینسر( جلد، مثانے، اور پھیپھڑوں) کی ایک بڑی وجہ ہے۔ عالمی ادارے صحت کے مطابق پانی میں 100 پارٹس پر ملین (پی پی ایم) اور کینسر کا تعلق موجود ہے۔

تحریر: ڈاکٹر ظہیر یوسف

21/03/2024

نپولین سوم, 1852 سے 1870 تک فرانس کا بادشاہ رہا ہے۔ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے خاص الخاص مہمانوں کی دعوت کے لیے خاص ایلومینیم کے برتن نکلوایا کرتا تھا۔

اس دور میں، الومینیم بہت ہی قیمتی تھی اور 'چاندی (شاید سونے) سے بھی زیادہ قیمتی دھات' سمجھی جاتی تھی! لیکن پھر 1886 میں ہال-ہیرولٹ عمل کی دریافت نے سب کچھ بدل دیا۔

نئے طریقہ کار نے الومینیم کی پیداوار کو انقلابی طور پر سستا کر دیا، جس سے اس کی قیمت میں زبردست کمی آئی اور یہ عام استعمال کی چیز بن گئی۔ آج کی دنیا میں الومینیم ہماری روزمرہ کی چیزوں میں استعمال ہوتا ہے۔

ہم بجا دور پر کہہ سکتے ہیں کہ ایلومینیم نے بھی اچھے دن دیکھے ہیں۔ آ ج آ پ اپنے مہمانوں کی تواضع ایلومینیم کے برتنوں سے کر کے دیکھ لیں۔ ایک گلاس پانی ہی سہی۔

تحریر: ظہیر یوسف

11/06/2023

بڑھتی عمریا، شربت توانائی اور سائنس
---------
اپنے اصلی والے فراز صاحب ایک شعر میں دل، دامن اور چہرے کے داغوں کو عمر کی رفتار سے جوڑتے ہیں۔ اور کچھ غلط بھی نہیں کہتے کہ انسان ہو یا جانور، گزرتے لمحات اس کے چہرے پرجھریوں کی صورت میں اپنے نقوش چھوڑتے جاتے ہیں۔ بقول احمد مشتاق:
دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن
عمر بھر کون جواں کون حسیں رہتا ہے

پیرانہ سالی میں اعضا مضمحل اور جسم مائل بہ امراض ہوجاتا ہے جسکی وجہ غذا کے جزو بدن بننے کے عمل (میٹآبولزم) میں سستی اور جسم میں کچھ سالموں کی بتدریج کمی ہے۔ اوائل وقت سے ہی انسان کی کوشش رہی ہے کہ وہ بڑھاپے کو شکست دے سکے یا کم از کم اس کی آمد کوالتوا میں ڈال سکے۔ ہمیشہ جوان، صحت مند اور خوبصورت رہنے کی خواہش، ایک بہت بڑی انڈسٹری کے وجود اور بقا کی ضامن ٹھہری ہے۔

حال ہی میں سائنسی جریدے "سائنس" میں شائع ہونے والی تحقیق میں سائنس دانوں نےتوانائی کے شربتوں میں پائے جانے والے ایک سالمے ٹاؤرین کی خون میں مقدار کو طویل عمری اور اچھی صحت سے جوڑا ہے۔ چوہوں، کیڑوں اور بندروں پر کی جانے والی اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ ٹاؤرین کی عمر کے ساتھ کم ہوتی مقدار کا موٹاپے، ذیابیطس، بلند فشار خون اور ورم سے قریبی تعلق ہے۔ خوراک میں ٹاؤرین کے اضافے سے چوہوں کی عمر میں اوسطاً 10-12 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ یہ مرکب جینیاتی مادے کو توڑ پھوڑ سے بچانے اور سوزش میں کمی میں بھی معاون ہے۔

ٹاؤرین، سلفر پر مشتمل ایک امینو ایسڈ ہے جسے قوت مدافعت، ہڈیوں اور اعصابی نظام کی صحت سے جوڑا جاتا ہے۔ تاہم انسانوں کی صحت مند طویل عمری میں اس کے کردار پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

تحریر: ڈاکٹر محمد ظہیر یوسف

Telephone

Website