Clifton News

Clifton News

shahid butt.cliftan news Karachi

06/11/2022

ایوان صدر میڈیکل سنٹر کی جانب سے چار ماہ میں 94لاکھ 96ہزار روپے اخراجات ہونے کا انکشاف

06/11/2022
06/11/2022

جلدی آؤ پانچ سو یا ہزار میں اپنے والدین کی بخشش کرائیں
دیر نہ کریں مولانا صاحب کو اور بھی کافی کام ہیں
اللہ ہدایت دے

این آئی آر سی کراچی کی عدالت نے نجی کمپنی کو13 مزدورں کو واجبات سمیت ملازمت پر بحال کرنے کا حکم دہے دیا، 17/09/2022

این آئی آر سی کراچی کی عدالت نے نجی کمپنی کو13 مزدورں کو واجبات سمیت ملازمت پر بحال کرنے کا حکم دہے دیا،

این آئی آر سی کراچی کی عدالت نے نجی کمپنی کو13 مزدورں کو واجبات سمیت ملازمت پر بحال کرنے کا حکم دہے دیا، تازہ ترین خبریں روزانہ اپنے میل باکس میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے نیوز لیٹر میں سبسکرائب کریں۔ بے فکر رہیں، ہمیں بھی سپیمنگ سے نفرت ہے!

17/09/2022

=============

*ٹرانس جینڈر کے نام سے دھوکہ نہ کھائیں*

وہ چار شہر تھے.
آبادی تقریباً دس لاکھ کے قریب تھی.
صبح کا وقت تھا... وہ سب اپنے کام کاج میں مصروف تھے....

اچانک بلکی سی گڑگڑاہٹ کی آواز پیدا ہونے لگی اور زمین ہلنے لگی.. ایسے لگا جیسے زلزلہ آ گیا ہو.. لوگ اس پراسرار آواز اور پھر زمین ہلنے کی وجہ سے گھبرا کر گھروں سے باہر نکل آئے تاکہ زلزلے کے نتیجے میں مکانات اگر زمین بوس ہوئے تو وہ اپنی جان بچا سکیں. پھر گڑگڑاہٹ کی آواز اور زمین ہلنا رک گئی..

چند لمحے سکون رہا اور پھر زمین اتنی شدت سے ہلنے لگی کہ مکانات گرنے لگے لیکن لوگ چونکہ پہلے جھٹکے کے بعد گھروں سے نکل آئے تھے اس لیے مکانات کے گرنے کے باوجود بھی سب لوگ، زخمی یا ہلاک بونے سے بچ گئے.. زمین کی حرکت میں شدت آتی جا رہی تھی لیکن لوگوں نے ایک بات نوٹ کی کہ یہ زلزلہ صرف اتنے حصے میں آ رہا تھا جتنے حصے میں شہری آبادی تھی. شہر سے باہر کی سڑکیں اور راستے بالکل ٹھیک اور نارمل حالت میں تھے.. جتنی جگہ پر شہر کے مکانات تھے اتنے علاقے کی زمین اردگرد سے کئی فٹ اونچی ابھر آئی تھی. یوں لگ رہا تھا جیسے صرف شہر کے علاقے کے نیچے کی زمین میں بیلچہ گھسا کر اتنے علاقے کی مٹی کو نیچے والی زمین سے الگ کر دیا گیا ہو. شہر کے لوگ انتہائی خوفزدہ اور پریشان ہو چکے تھے. وہ شہر کے علاقے سے باہر بھی نہیں نکل سکتے تھے کیونکہ شہر کی زمین کافی اونچی اٹھ چکی تھی اور دونوں زمینوں کے درمیان گہری کھائی سی بن چکی تھی.. ایک بار پھر گڑگڑاہٹ اور زمین کی حرکت رک گئی تھی اور پھر یوں لگا جیسے پورے شہر کی زمین کو کسی نے ہاتھ میں اٹھا لیا ہو اور زمین کے اس ٹکڑے نے جہاں شہر واقع تھا، آسمان کی جانب پرواز شروع کر دی..

پھر کئی کلومیٹر اوپر بلندی پر پہنچ کر زمین کے اس ٹکڑے کو الٹا کر کے زمین کی طرف پوری قوت سے پھینک دیا گیا. سارے شہر کے انسان سر کے بل تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہے تھے. ان کے درمیان اور نیچے زمین کے درمیان فاصلہ تیزی سے کم ہو رہا تھا اور پھر ایک زوردار دھماکے کے ساتھ پورے کا پورا شہر اپنی آبادی سمیت زمین کے ساتھ الٹا ٹکرا گیا اور سب کچھ ملیامیٹ ہو گیا..

یہ بہت تیزی اور شدت سے ہوا تھا..

شہر کی ساری آبادی ایک سیکنڈ میں پس کر پاؤڈر جیسی بن گئی.. کچھ افراد زندہ بچ گئے تھے لیکن وہ شدید زخمی ہو گئے تھے. انہوں نے شدید زخمی بونے کے باوجود اپنی جان بچانے کے لیے اس علاقے سے نکلنے کے لیے دوڑ لگا دی.. ارد گرد ہر طرف مٹی دھول کے بادل رہ گئے تھے. مکانات مکمل طور پر مٹی کے ساتھ مٹی ہو چکے تھے.. پھر اچانک آسمان سے پتھروں کی برسات شروع ہو گئی اور وہ پتھر ان انسانوں کو لگنے لگے جو زخمی تھے اور جان بچا کر بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے..

ایک بات بہت عجیب تھی..

ہر ایک پتھر پر ان کے الگ الگ نام لکھے ہوئے تھے.. پتھر پر جس جس کا نام ہوتا تھا وہ پتھر صرف اسی کے جسم پر گر کر اس کو کچل رہا تھا..

پھر وہ سب بھاگنے والے بھی مر گئے..

ہر طرف خاموشی چھا گئی. صرف پانچ منٹ پہلے جہاں ہنستا بستا شہر تھا وہاں صرف دھوئیں کے بادل رہ گئے تھے اور مکمل طور پر خاموشی کا راج قائم ہو چکا تھا..

اس پورے شہر کو اس کی زمین اور آبادی سمیت جبرئیل فرشتے نے اپنے پر کے ذریعے سے اٹھایا تھا اور پھر بلندی پر لے جا کر الٹا پٹخ دیا تھا.. اور پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے باقی شہروں کو ان کی آبادیوں سمیت اٹھا کر بلندی سے الٹا پٹخ کر تباہ کر دیا تھا..

ان لوگوں کے ساتھ یہ کیا ہوا تھا؟ کیوں بوا تھا اور یہ لوگ کون تھے؟

یہ سب لوگ بدترین عذابِ الہی کا شکار ہوئے تھے..

یہ سب حضرت لوط علیہ السلام کی قوم سے تعلق رکھتے تھے.. یہ سب ایک ایسے گناہ کے عادی تھے جو انتہائی بدترین تھا..
.......................

کچھ دن پہلے....

پاکستان کی /کا پہلی /پہلا ٹرانس جینڈر ڈاکٹر بن گئی / بن گیا... اسے خوب خوب پروموٹ کیا جا رہا ہے.. سر آنکھوں پر بٹھایا جا رہا ہے. سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا پر یوں لگتا ہے جیسے ایک طوفان آ گیا ہو.. صرف ایک یہی خبر ہر طرف تیزی سے پھیلائی جا رہی ہے.. ایک ایسا بہت بڑا گروہ جو پاکستان میں زیرِ زمین اور دنیا بھر میں سرعام موجود ہے ٹرانس جینڈر نامی لعنت کو عزت دار اور فطرت کے عین مطابق ثابت کرنے میں مصروف ہے..

یہ ٹرانس جینڈر کون ہے؟
یہ ایک مکمل مرد بے.. جسمانی طور پر اس کے اندر کوئی نقص نہیں تھا. شادی کرنے اور اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے مالا مال تھا لیکن اس کے اندر نفسیاتی طور پر ایسی خرابی پیدا ہو گئی تھی کہ یہ لڑکیوں کی طرح ناز و ادا دکھانے لگا. یہ لڑکی تو نہیں تھا لیکن اس نے خود کو لڑکی تصور کر لیا.. اس کے اندر ہم جنس پرستی کی علت پیدا ہو گئی..

پاکستان میں سن دو ہزار اٹھارہ میں ایک قانون پاس ہوا جس کے تحت ایسے لوگ جو مرد ہونے کے باوجود خود کو عورت سمجھتے ہیں یا عورت خود کو مرد سمجھتی بے وہ خود کو اپنی من پسند جنس کے طور پر پیش کر سکتے ہیں..

چنانچہ اس نے بھی خود کو ٹرانس جینڈر عورت کے طور پر نادرا کے آفس میں رجسٹر کروا لیا.. اب یہ جسمانی طور پر مرد خود کو ذہنی طور پر عورت ثابت کرکے ٹرانس جینڈر بن چکا بے کیونکہ اسے یہ کرنے کی آزادی اس ملک نے دی ہے. اگرچہ وہ مرد ہے لیکن اگر صرف ذہنی طور پر خود کو عورت سمجھتا بے تو اسے خود کو عورت کے طور پر شو کرنے کے سب ہی حقوق ملنے چاہئیں.. یہ جسمانی طور پر نارمل مرد بے تو ہوتا رہے، اسے کاغذات میں ٹرانس جینڈر عورت کے طور پر سمجھا جائے..

بعض لوگ ہیجڑوں کو ٹرانس جینڈر سمجھ لیتے ہیں. یہ شدید غلط فہمی بے.. ان بیچاروں کو تو کوئی پوچھتا بھی نہیں.

انہیں ہیجڑا کہلانے کے لیے کسی قانون کی ضرورت نہیں. وہ تو جسمانی طور پر ہی ادھورے ہیں.. نامکمل ہیں.. انہیں تو سپریم کورٹ الگ شناخت دے چکی بے..

یہ قانون ہیجڑوں کے لیے نہیں بلکہ جسمانی طور پر نارمل مرد عورتوں کے لیے بنایا گیا ہے..

یہ قانون جسمانی طور پر نارمل لیکن ذہنی طور پر نفسیاتی مریضوں کے لیے بنایا گیا ہے. پاکستان کے سب ہی ی ڈاکٹر چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ اس قسم کے نفسیاتی افراد کا مکمل علاج موجود ہے. وہ دوبارہ ذہنی طور پر نارمل ہو سکتے ہیں تو پھر انہیں ہم جنس پرستی کی طرف راغب کیوں کیا جا رہا ہے؟

یہ نئے بننے والے قانون کی مہربانی بے کہ جسمانی طور پر مکمل مرد خود کو عورت قرار دے کر کسی دوسرے مرد کے ساتھ شادی کر کے دونوں پھر ہم جنس پرستی کی زندگی گزار سکتے ہیں.

ایسا قانون حضرت لوط علیہ السلام کی اس قوم کے اندر بھی نہیں بن سکا تھا جسے اس گناہ کی پاداش میں بدترین عذاب کا نشانہ بنا کر روئے زمین سے اس کا وجود ہی مٹا دیا گیا تھا..

یہ عذابِ الہی کو دعوت دینے کی کوشش کی جا رہی ہے.. یاد رکھیے اس قانون کے ذریعے ہم جنس پرستی جیسے عظیم گناہ کو پاکستان جیسی مسلمان ریاست میں جائز قرار دے دیا گیا ہے.. اور سب ہی پاکستانی یا تو لاعلمی کی وجہ سے خاموش ہیں یا پھر جبراً خاموش کروا دیے گئے ہیں.. ان ہم جنس پرستوں کے لیے آسانی پیدا کر دی گئی ہے کہ جس طرح چاہیں یہ اپنے من پسند گناہ کا سلسلہ جاری رکھ سکتے ہیں..

حضرت لوط علیہ السلام کی قوم میں کچھ لوگ ایسے تھے جو اس گناہ سے شدید نفرت کیا کرتے تھے. وہ لوگ آواز بھی اٹھاتے تھے. شور بھی مچاتے ہوں گے. احتجاج بھی کرتے ہوں گے. کمزور اور کم ہونے کے باوجود اپنے حصے کا کام کرتے ہوں گے. اللہ تعالیٰ نے انہیں اس عذاب سے بچا لیا.. وہ دنیا اور آخرت میں بھی اللہ کی پکڑ سے بچ گئے اور جنت میں اپنا گھر بنا چکے تھے.. فتنوں کے لحاظ سے یہ بہت مشکل ترین وقت بے.. اب حق کی آواز بلند کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے.. اس گناہ کا سب میڈیا والوں کو علم بے لیکن انہیں روزی روٹی کے شکنجے میں اس طرح جکڑ دیا گیا ہے کہ ان کی روحیں بھی قید ہو گئی ہیں.. ضمیر مر گئے ہیں،، آواز نہیں اٹھا سکتے..

نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے کہ گناہ کے خلاف زبانی کلامی آواز اٹھانے والوں کا ایمان دل میں برا کہنے والوں سے ایک درجہ اوپر کا ہوتا بے..

میں کوشش کرتا رہوں گا کہ اپنے آپ کو ایمان کے اس درجے پر لازمی قائم رکھوں.. جس میں صرف دل میں برائی کو برا نہ کہا جاتا ہو بلکہ برائی کے خلاف آواز بلند کی جاتی ہو..

یاد رکھیے اور کسی غلط فہمی میں مت رہیے کہ عذاب صرف پرانی قوموں پر ہی آیا کرتا تھا. پتھر صرف انہی پر برستے تھے. چہرے صرف انہیں کے مسخ ہوتے تھے. نہیں ایسا نہیں ہے. یہ شدید غلط فہمی بے.. نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک حدیث میں یہ بھی فرمایا ہے کہ جب گناہوں کا یہ عالم ہوگا تو انتظار کرو تیز آندھیوں کا، آسمان سے پتھروں کے برسنے کا، چہرے مسخ ہونے کا...اور زمین میں دھنسائے جانے کا...

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے حصے کا کام کرنے کی توفیق اور ہمت عطا فرمائے، آمین.

___________________

03/08/2022

*‏ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺧﯿﺎﻻﺕ جذﺑﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺑﺎﻃﻦ ﮐﺎ ﻋﮑﺲ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﮐﯿﺰﮔﯽ ﻻﺋﯿﮟ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺧﻮﺩﺑﺨﻮﺩ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﺳﮑﻮﻥ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ گی...

03/08/2022

مجھے یقین ھے بکھر جائے گا یہ میرا وجود ۔۔
کبھی جو عشق نبی "صلی اللہ علیہ وسلم" کے مدار سے نکلا ۔۔۔

03/08/2022

🎋السلام علیکم.
صبح بخیر
احساس اوراحسان کرنے والا کبھی مفلس نہیں ہوتا"‎
صبح سویرے اٹھنا،
الله کو یاد کرنا
اسکا شکر ادا کرنا

اپنے پیاروں کودعاؤں میں یاد رکھنا
الله کو بہت اچھا لگتا هے.
دعا
الله آپ کو اور آپ سے وابستہ سب لوگوں کو اپنی رحمتوں کے ساۓ میں ہمیشه شاد و آباد رکھے.‎ 🌺
اللہ پاک- آپ کو صبح و شام اپنی نعمتوں، رحمتوں اوربرکتوں سے مالا مال فرمائے سب مشکلات کو آسان کرے-🌺
آمین .🎋

03/08/2022

جہالت مختلف تعلیمی اداروں کی ڈگریوں سے محرومی کا نام نہیں ۔

جہالت کی اصل تعریف ،

کم ظرفی ،

عجز و انکساری سے محرومی ،

انسانیت کی تذلیل ،

اور قطع رحمی ھے ۔

26/07/2022

جامعہ کراچی: بی ڈی ایس فرسٹ پروفیشنل سالانہ امتحانات برائے 2022 ء کے نتائج کا اعلان

ناظم امتحانات جامعہ کراچی ڈاکٹر سید ظفرحسین کے مطابق بی ڈی ایس فرسٹ پروفیشنل سالانہ امتحانات برائے 2022 ء کے نتائج کا اعلان کردیاگیا ہے۔نتائج کے مطابق امتحانات میں 99 طلبہ شریک ہوئے،86 طلبہ کوکامیاب قراردیاگیا جبکہ 13 طلبہ ناکام قرارپائے۔کامیابی کا تناسب 86.87 فیصدرہا۔

17/07/2022

*بلوچستان: ضلع لسبیلہ میں بلدیاتی الیکشن 28 اگست کو ہوگا*

الیکشن کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں بلدیاتی الیکشن 28 اگست کو ہوگا۔

رپورٹس کے مطابق میونسپل کمیٹی ژوب کے تمام وارڈز میں بھی 28 اگست کو الیکشن ہوگا۔

موسیٰ خیل، مستونگ، جعفر آباد اور دکی کی مختلف یونین کونسلوں میں بھی 28 اگست کو پولنگ ہوگی

الیکشن کمیشن کے مطابق کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ 18جولائی ہے

09/07/2022

کلفٹن نیوز کی جانب سے تمام اہل وطن کو عید الضحیٰ مبارک ۔

08/07/2022

عبدالستار ایدھی کا کہنا تھا کہ میرا مذہب انسانیت ہے جو دنیا کے ہر مذہب کی بنیاد ہے عبدالستار ایدھی وطن عزیز کاایک بہت بڑا نام ،جو شاید دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے ہی پیدا ہوئے تھے۔آج انسانیت کے خادم عبدالستار ایدھی صاحب کی برسی ہے

06/07/2022

ایک جانور اپنے اوپر ظلم برداشت نہیں کر سکتا

06/07/2022

نوے برس کے ضعیف آدمی کے پاس کوئی پیسہ نہیں تھا۔ مالک مکان کو پانچ مہینے سے کرایہ بھی نہیں دے پایا تھا۔ ایک دن مالک مکان طیش میں کرایہ وصولی کرنے آیا ۔ بزرگ آدمی کا سامان گھر سے باہر پھینک دیا۔

سامان بھی کیا تھا۔ ایک چار پائی ‘ ایک پلاسٹک کی بالٹی اور چند پرانے برتن ۔ پیرانہ سالی میں مبتلا شخص بیچارگی کی بھرپور تصویر بنے فٹ پاتھ پر بیٹھاتھا۔ احمد آباد شہر کے عام سے محلہ کا واقعہ ہے۔ محلے والے مل جل کر مالک مکان کے پاس گئے۔ التجا کی کہ اس بوڑھے آدمی کو واپس گھر میں رہنے کی اجازت دے دیجیے۔ کیونکہ اس کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔

دو ماہ میں اپنا پورا کرایہ کہیں نہ کہیں سے ادھا ر پکڑ کر ادا کر دے گا۔ اتفاق یہ ہواکہ ایک اخبار کا رپورٹر وہاں سے گزر رہا تھا۔ اسے نحیف اور لاچار آدمی پر بہت ترس آیا۔تمام معاملہ کی تصاویر کھینچیں۔ ایڈیٹر کے پاس گیا کہ کیسے آج ایک مفلوک الحال بوڑھے شخص کو گھر سے نکالا گیا۔ اور پھر محلہ داروں نے بیچ میں پڑ کر دو ماہ کا وقت لے کر دیا ہے۔ ایڈیٹر نے بزرگ شخص کی تصاویر دیکھیں تو چونک اٹھا۔

رپورٹر سے پوچھا کہ کیا تم اس شخص کو جانتے ہو۔ رپورٹر ہنسنے لگا کہ ایڈیٹر صاحب ۔ اس بابے میں کونسی ایسی غیر معمولی بات ہے کہ کوئی بھی اس پر توجہ دے۔ اسے تو محلہ والے بھی نہیں جانتے۔ ایک وقت کا کھانا کھاتا ہے۔ برتن بھی خود دھوتا ہے۔ معمولی سے گھر میں جھاڑ پوچا بھی خود لگاتا ہے۔ اس کو کس نے جاننا ہے۔

ایڈیٹر نے حد درجہ سنجیدگی سے رپورٹر کو کہا کہ یہ ہندوستان کا دومرتبہ وزیراعظم رہ چکا ہے اور اس کا نام گلزاری لال نندہ ہے۔ رپورٹر کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا۔ ہندوستان کا وزیراعظم اور اس بدحالی میں۔ خیر اگلے دن اخبار چھپا تو قیامت آ گئی۔ لوگوں کو معلوم ہوا کہ یہ عاجز سا بوڑھا ہندوستان کا دوبار وزیراعظم رہ چکا ہے۔

وزیر اعلیٰ اور وزیراعظم کو بھی معلوم ہو گیا کہ گلزاری لال کس مہیب مفلسی میں سانس لے رہا ہے۔ خبر چھپنے کے چند گھنٹوں بعد‘ ریاست کا وزیراعلیٰ ‘چیف سیکریٹری اور کئی وزیر اس محلے میں پہنچ گئے۔ سب نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ آپ کو سرکاری گھر میں منتقل کر دیتے ہیں اور سرکار ماہانہ وظیفہ بھی لگا دیتی ہے۔

خدارا اس معمولی سے مکان کو چھوڑیے۔ مگر گلزاری لال نے سختی سے انکار کر دیا کہ کسی بھی طرح کی سرکاری سہولت پر اس کا کوئی حق نہیں ہے۔ وہ یہیں‘ اسی کوارٹر میں رہے گا۔ گلزاری لال کے چند رشتہ داروں نے منت سماجت کر کے بہر حال اس بات پر آمادہ کر لیا کہ ہر ماہ‘ پانچ سو روپے وظیفہ قبول کر لے۔ سابقہ وزیراعظم نے حد درجہ مشکل کے بعد یہ پیسے وصول کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ اب اس قلیل سی رقم میں کرایہ‘ کھانا پینا شروع ہو گیا۔

مالک مکان کو جب علم ہوا کہ اس کا کرایہ دار پورے ملک کا وزیراعظم بن چکا ہے۔ تو گلزاری لال کے پاس آیا اور پیر پکڑ لیے کہ اسے بالکل معلوم نہیں تھا کہ اس کا کرایہ دار اس اعلیٰ ترین منصب پر فائر رہ چکا ہے۔ بوڑھے شخص نے جواب دیا کہ اسے یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ وہ کون ہے۔ وہ تو ایک معمولی سا کرایہ دار ہے اور بس۔ جب تک گلزاری لال زندہ رہا‘ اسی مکان میں رہا اور مرتے دم تک پانچ سو روپے میں گزارا کرتا رہا۔

گلزاری لال نندہ حیرت انگیز کردار کا انسان تھا۔ سیالکوٹ میں 1898 میں پیدا ہوا۔ اور 1998 میں احمد آباد میں فوت ہو گیا۔ جواہر لال نہرو کے انتقال کے بعد 1964 میں وزیراعظم رہا۔ اور 1966میں لال بہادر شاستری کے انتقال کے بعد بھی اس بلند پایہ منصب پر فائز رہا۔ *بنیادی طور پر ایف سی کالج لاہور سے اقتصادیات کی تعلیم حاصل کرتا رہا۔ دراصل وہ اقتصادیات کا استاد تھا۔*

ممبئی اور احمد آباد کی یونیورسٹیوں میں پڑھاتا رہا۔ سیاست میں آیا تو یونین منسٹر‘ وزیر خارجہ اور ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن بھی رہا۔ متعدد بار لوک سبھا کا ممبر بھی منتخب ہوا۔ گلزاری لال کافلسفہ تھا کہ زندگی کو بہت سادہ گزارنا چاہیے۔ کسی شان و شوکت کے بغیر انتہائی قلیل رقم میں خوش رہنا ہی اصل امتحان ہے۔ویسے گلزاری لال سادگی بلکہ عسرت میں رہنے کی جو مثال قائم کر گیا اس کے لیے حد درجہ مضبوط کردار کی ضرورت ہے۔

نناوے سال کی عمر میں فوت ہوتے وقت‘ اس کے پاس کسی قسم کی جائیداد‘ کوئی بینک بیلنس اور کوئی ذاتی گھر تک نہیں تھا۔
بس ایک عزت و احترام کا وہ خزانہ تھا جو امیر سے امیر لوگوں کے پاس بھی نہیں ہوتا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوستان میں سیاست میں حد درجہ کرپشن ہے مگر اس کے باوجود ہمیں بارہا گلزاری لال جیسے کردار مل ہی جاتے ہیں ۔انڈیا میں کئی ایسے بلند سطح کے سیاست دان موجود ہیں جن کے اثاثے کچھ بھی نہیں ہیں۔

یہ پڑھتے وقت خیال رکھئیے کہ یہ تاریخ کا ایک ورق ھے، اسے اپنے ہاں تلاش کرنے کی کوشش نہ کیجئے.
بس اپنے اپنے پسندیدہ لیڈروں بلکہ خداؤں کو کسی بھی عیب سے مبرا جانتے ہوئے، ان کی پرستش جاری رکھئیے.

29/06/2022

مریدین کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے 😜

مشہور و معروف روحانی شخصیت و پیر کو بہلا پھسلا کر تقریباً آٹھ کروڑ روپے کا چُونا لگانے والے مریدین بڑی رقم لیکر فرار ہوگئے۔ اس سنسنی خیز واقعہ کی متعلقہ پیر نے پولیس کو رپورٹ تک نہ درج کروائی کہ کہیں ان کے لاکھوں مریدین کا دل ان سے کٹھا نہ ہوجائے۔

قابل اعتماد ذرائع کے مطابق سجادہ نشین دربار عالیہ کے آستانہ شریف پر ایک ٹھگ مرید کی شکل میں چند ماہ قبل ان کے بزنس مین کے روپ میں جلوہ افروز ہوا اور روتے ہوئے پیر صاحب سے التجاء کی کہ اس کا بزنس بہت نقصان میں جا رہا ہے لہذا آپ دُعا کریں کہ میری مشکل آسان ہو جائے۔ پیر صاحب نے اس دُکھی شخص کے لیے خصوصی دُعا فرمائی اور وہ شکریہ ادا کرتا ہوا چلا گیا۔ ذرائع کے مطابق چند روز بعد وہی شخص قیمتی تحفے و تحائف سے لدا پھُندآ آیا اور بولا کہ پیر صاحب کی دعا سے میرا بزنس نفع میں جا رہا ہے، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ یہ حقیر سا نذرانہ قبول فرمائیں۔ پیر صاحب نےاس ٹھگ مرید سے بھاری نذرانہ قبول کر لیا۔ کچھ دن گزرے ہی نہ تھے کہ وہی شخص اچانک دوبارہ نمودار ہوا اور پیر صاحب سے دعا کی التجاء کی کہ اس کا دوبارہ بزنس چمک اُٹھے اور اس بزنس میں منافع ہو۔ پیر صاحب نے پھر دعا فرمائی اور وہ شخص چلا گیا۔ چند روز بعد وہی شخص ایک قیمتی گاڑی بطور تحفہ لے کر پیر صاحب کی خدمت میں حاظر ہوا اور بولا یہ سب آپ کی دعا کا نتیجہ ہے کہ میرا بزنس دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے اور نفع بھی خوب مل رہا ہے تو سوچا آپ کی خدمت میں یہ حقیر سا تحفہ پیش کروں، قبول فرما کر شکریہ کا موقع دیں۔ پیر صاحب نے بلا حیل و حجت قیمتی گاڑی کا تحفہ قبول کر لیا اور بنارسی ٹھگ خوشی خوشی روانہ ہو گیا۔

وہی شخص کچھ دنوں بعد پھر پیر صاحب کے آستانہ پر حاظر ہوا اور نہایت ملتجیانہ لہجہ میں بولا، پیر صاحب! دعا کی درخواست ہے کہ اللہ میرے بزنس کو اور چمکائے۔ پیر صاحب نے نہایت خشوع و خضوع سے دعا فرمائی اور وہ شخص اپنے نامعلوم ٹھکانے کی جانب روانہ ہوگیا۔ چند روز ہی گزرے تھے کہ وہ بہروپیا پیر صاحب کے آستانہ پر چار عدد برینڈ نیو چمچماتی گاڑیوں کے ساتھ حاضر ہوا اور ادب و احترام سے یہ حقیر سا نذرانہ پیر صاحب کی خدمت میں یہ کہہ کر پیش کر دیا کہ یہ سب آپ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے اور میرا بزنس خوب چمک گیا ہے۔ پیر صاحب نے اس بار حیران ہو کر سوچا کہ ایسا کون سا بزنس ہے جس میں اتنا شاندار منافع ہو رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی ان کے دل میں اس شاندار بزنس میں شراکت داری کی خواہش جاگی جس کا انہوں نے اس بنارسی ٹھگ سے برملا اظہار کیا جسے دوسری جانب سے فوری طور پر قبول کر لیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پیر صاحب نے اس شخص کو مبلغ آٹھ کروڑ روپے بزنس میں لگانے کے لیے دیے اور وہ شخص چلا گیا اور ایسا گیا کہ آج تک اس کا کوئی سرا کھُرا نہ ملا۔ ذرائع کے مطابق ابھی پیر صاحب اس شدید صدمہ سے نکل نہ پائے تھے کہ انہیں ایک اور شاک لگا، وہ یہ کہ تمام گاڑیاں رینٹ کی تھیں جو کہ ایک شوروم سے لی گئی تھیں۔ ذرائع کے مطابق اس اندوہناک واقعہ کی پیر صاحب نے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی اور صبر کے گھونٹ پی کر رہ گئے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پیر صاحب نے اس کا واویلا اس لیے نہیں کیا کہ ان پر جان نچھاور کرنے والے دنیا بھر میں موجود لاکھوں کی تعداد میں مریدین کیا سوچیں گے کہ وہ پیر صاحب کی خدمت میں جو نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں، وہ کیسے اتنی آسانی سے کوئی فراڈیا ہڑپ کر سکتا ہے۔ پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک پولیس کو پیر صاحب کی جانب سے اس ٹھگ کے خلاف کسی قسم کی قانونی کارروائی کے لیے کوئی تحریری درخواست موصول نہیں ہوئی ہے۔ پولیس کے اعلیٰ افسر کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں لگتا کہ پیر صاحب اس بنارسی ٹھگ کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

11/06/2022

حرمین شریفین کی انتظامیہ کی جانب سےایک تقریب منعقد کی گئی جس میں مسجد نبوی کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبر مبارک کے بارے میں مکمل وضاحت کی گئی “

تشریح وتوضیح:-
گزشتہ ساڑھے پانچ صدیوں میں کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک تک نہیں جا سکا ہے۔
وہ حجرہ شریف جس میں آپ اور آپ کے دو اصحاب کی قبریں ہیں، اس کے گرد ایک چار دیواری ہے، اس چار دیواری سے متصل ایک اور دیوار ہے جو پانچ دیواروں پر مشتمل ہے۔
یہ پانچ کونوں والی دیوار حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے بنوائی تھی۔ اور اس کے پانچ کونے رکھنے کا مقصد اسے خانہ کعبہ کی مشابہت سے بچانا تھا۔
اس پنج دیواری کے گرد ایک اور پانچ دیواروں والی فصیل ہے۔ اس پانچ کونوں والی فصیل پر ایک بڑا سا پردہ یا غلاف ڈالا گیا ہے۔ یہ سب دیواریں بغیر دروازے کے ہیں،
لہذا کسی کے ان دیواروں کے اندر جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
روضہ رسولؐ کی اندر سے زیارت کرنے والے بھی اس پانچ کونوں والی دیوار پر پڑے پردے تک ہی جا پاتے ہیں۔

روضہ رسولؐ پر سلام عرض کرنے والے عام زائرین جب سنہری جالیوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو جالیوں کے سوراخوں سے انہیں بس وہ پردہ ہی نظر آ سکتا ہے، جو حجرہ شریف کی پنج دیواری پر پڑا ہوا ہے۔
اس طرح سلام پیش کرنے والے زائرین اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر کے درمیان گو کہ چند گز کا فاصلہ ہوتا ہے لیکن درمیان میں کل چار دیواریں حائل ہوتی ہیں۔
ایک سنہری جالیوں والی دیوار، دوسری پانچ کونوں والی دیوار، تیسری ایک اور پنج دیواری، اور چوتھی وہ چار دیواری جو کہ اصل حجرے کی دیوار تھی۔
گزشتہ تیرہ سو سال سے اس پنج دیواری حجرے کے اندر کوئی نہیں جا سکا ہے سوائے دو مواقع کے۔
ایک بار 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ کے دور میں ان کا غلام
اور دوسری بار 881 ہجری میں معروف مورخ علامہ نور الدین ابو الحسن السمہودی کے بیان کے مطابق وہ خود۔

مسجد نبوی میں قبلہ کا رخ جنوب کی جانب ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ مبارک ایک بڑے ہال کمرے میں ہے۔
بڑے ہال کمرے کے اندر جانے کا دروازہ مشرقی جانب ہے یعنی جنت البقیع کی سمت۔
یہ دروازہ صرف خاص شخصیات کے لیے کھولا جاتا ہے۔ اس دروازے سے اندر داخل ہوں تو بائیں جانب حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالی عنہا کی محراب ہے۔ اس کے پیچھے ان کی چارپائی (سریر) ہے۔
العربیہ ویب سائٹ نے محقق محی الدین الہاشمی کے حوالے سے بتایا کہ ہال کمرے میں روضہ مبارک کی طرف جائیں تو سبز غلاف سے ڈھکی ہوئی ایک دیوار نظر آتی ہے۔
1406 ہجری میں شاہ فہد کے دور میں اس غلاف کو تبدیل کیا گیا۔
اس سے قبل ڈھانپا جانے والا پردہ 1370 ہجری میں شاہ عبد العزیز آل سعود کے زمانے میں تیار کیا گیا تھا۔
مذکورہ دیوار 881 ہجری میں اُس دیوار کے اطراف تعمیر کی گئی جو 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے تعمیر کی تھی۔ اس بند دیوار میں کوئی دروازہ نہیں ہے۔ قبلے کی سمت اس کی لمبائی 8 میٹر، مشرق اور مغرب کی سمت 6.5 میٹر اور شمال کی جانب دونوں دیواروں کی لمبائی ملا کر 14 میٹر ہے۔
کہا جاتا ہے کہ 91 ہجری سے لے کر 881 ہجری تک تقریباً آٹھ صدیاں کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو نہیں دیکھ پایا۔
اس کے بعد 881 ہجری میں حجرہ مبارک کی دیواروں کے بوسیدہ ہو جانے کے باعث ان کی تعمیر نو کرنا پڑی۔ اس وقت نامور مورخ اور فقیہ علّامہ نور الدین ابو الحسن السمہودی مدینہ منورہ میں موجود تھے، جنہیں ان دیواروں کی تعمیر نو کے کام میں حصہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔
وہ لکھتے ہیں 14 شعبان 881 ھ کو پانچ دیواری مکمل طور پر ڈھا دی گئی۔ دیکھا تو اندرونی چار دیواری میں بھی دراڑیں پڑی ہوئی تھیں، چنانچہ وہ بھی ڈھا دی گئی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اب مقدس حجرہ تھا۔ مجھے داخلے کی سعادت ملی۔ میں شمالی سمت سے داخل ہوا۔ خوشبو کی ایسی لپٹ آئی جو زندگی میں کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔
میں نے رسول اللہ اور آپ کے دونوں خلفاء کی خدمت میں ادب سے سلام پیش کیا۔ مقدس حجرہ مربع شکل کا تھا۔ اس کی چار دیواری سیاہ رنگ کے پتھروں سے بنی تھی، جیسے خانہ کعبہ کی دیواروں میں استعمال ہوئے ہیں۔ چار دیواری میں کوئی دروازہ نہ تھا۔
میری پوری توجہ تین قبروں پر مرکوز تھی۔ تینوں سطح زمین کے تقریباً برابر تھیں۔ صرف ایک جگہ ذرا سا ابھار تھا۔ یہ شاید حضرت عمر کی قبر تھی۔ قبروں پر عام سی مٹی پڑی تھی۔ اس بات کو پانچ صدیاں بیت چکی ہیں، جن کے دوران کوئی انسان ان مہر بند اور مستحکم دیواروں کے اندر داخل نہیں ہوا۔
علامہ نور الدین ابو الحسن سمہودی نے اپنی کتاب (وفاءالوفاء) میں حجرہ نبوی کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ”اس کا فرش سرخ رنگ کی ریت پر مبنی ہے۔
حجرہ نبوی کا فرش مسجد نبوی کے فرش سے تقریبا 60 سینٹی میٹر نیچے ہے۔
اس دوران حجرے پر موجود چھت کو ختم کر کے اس کی جگہ ٹیک کی لکڑی کی چھت نصب کی گئی جو دیکھنے میں حجرے پر لگی مربع جالیوں کی طرح ہے۔ اس لکڑی کے اوپر ایک چھوٹا سا گنبد تعمیر کیا گیا جس کی اونچائی 8 میٹر ہے اور یہ گنبد خضراء کے عین نیچے واقع ہے“۔
یہ سب معلومات معروف کتاب ”وفاء الوفاء با اخبار دار المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم“ کے مؤلف نور الدین ابو الحسن السمہودی نے اپنی مشہور تصنیف میں درج کی ہیں----واللہ اعلم بالصواب
صرف آپ ہی پڑھ کر آگے نہ بڑھ جائیں بلکہ یہ تحریر صدقہ جاریہ ہے ، شیئر کرکے باقی احباب تک پہنچائیے ، شکریہ, اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردہ تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے ایمان میں تازگی کا باعث ہو .. جزاک اللہ خیرا کثیرا

11/06/2022

گزشتہ دنوں راولپنڈی کی18سالہ آسیہ نے61سالہ راناشمشاد سے محبت کی شادی کرلی۔آسیہ کاکہناہےکہ راناشمشاد انکےمحلےاور علاقےمیں فلا ح وبہبود کےکام کرتےتھے بس انکی یہی ادا مجھے دیوانہ کر گی!

میں تمام بھائیوں سے کہوں گا کہ عوام کی فلاح و بہبود کے کام کرتے رہیں اسکا اجر اللّہ دے گا 😉🥳

08/06/2022

دہکھیں اس معذور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کو کہ جس نے معذوری کو اپنی کمزوری نہیں بنایا 🤔😳👇

08/06/2022

لوگ پٹرول میں مزید اضافے کی خبر سن کر احتجاج کرنے کی بجائے ، ٹینکیاں فل کروانے ہزاروں کی تعداد میں نکل کھڑے ہوں تو سمجھ جائیں کہ ظلم کے خلاف مزاحمت مر چکی ہے۔
مفتاح اسمعیل نے قہقہ لگا کر کہا ہے کہ مزید مہنگا کریں گے ، جب مزید مہنگا ہو ، تب ساتھ گیلن بھی ضرور لے جائیں۔ شاید چار دن مزید نکل جائیں۔ آج جتنی گاڑیاں اور موٹر سائیکل پٹرول پمپ کے سامنے تھے اتنے کسی چوک میں احتجاجا اکٹھے ہوتے تو حالات کچھ اور ہوتے ۔۔

٫٫ اسی لیے تو مرا گاؤں دوڑ میں ہارا تھا ، جو بھاگ سکتے تھے وہ بیساکھیاں بنا رہے تھے۔۔۔۔ ،،

06/06/2022

بلوچستان کے پشتون علاقے شیرانی کے قیمتی جنگلات کے بعد ، بونیر اور اب مومند سوات اور شانگلہ کی جنگلات میں آگ لگنا اور ساتھ ساتھ افغانستان میں سرحد کے قریبی پشتون علاقہ نورستان کی جنگلات جلنا کیا کوئی اتفاق ہے یا کوئی منصوبہ -قدرتی وسائل کی تباہی کا یہ تسلسل خوفناک لگتا ہے

03/06/2022

ایف بی آر کا عائشہ منزل دھمتھل سویٹس پر چھاپہ، دکان سیل 👇

Videos (show all)

جلدی آؤ پانچ سو یا ہزار میں اپنے والدین کی بخشش کرائیں دیر نہ کریں مولانا صاحب کو اور بھی کافی کام ہیں اللہ ہدایت دے
ایک جانور اپنے اوپر ظلم برداشت نہیں کر سکتا
دہکھیں اس معذور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کو کہ جس نے معذوری کو اپنی کمزوری نہیں بنایا 🤔😳👇
ایف بی آر کا عائشہ منزل دھمتھل سویٹس پر چھاپہ، دکان سیل 👇
کراچی میں پی سی ہوٹل کی چھت گر گئی، 2 افراد جاں‌ بحقکراچی میں فائیو اسٹار ہوٹل پی سی کی چھت گرنے سے دو افراد جاں بحق اور...
ڈیفنس کراچی کے معروف رئیلٹر اور مصنف اعظم معراج کی کتاب کا ٹی وی پر تزکرہ 👇🌹
ایران کے ساحلی شہر چابھار میں انوکھا احتجاج مرغی کا گوشت مھنگا ھونے پر عوام نے سرکاری مرغی خانہ پر  دھاوا بول دیا
میں ب زبان ہوں مجھے پیاس لگی ہے کیا آپ مجھے اللہ کی رضا کی خاطر پانی پلائیں گے*بلوچ رائیٹس🥀*
ALLAH PAK ki shaan ❤️Sindh k Regestaani ilaqay TharParkar me aaj Toofani Barish hui or Olay b parey.
*بہت احتیاط کریں ۔۔۔۔۔ آج کل 🍉  تربوز میں کیڑے آرھے ہیں، اچھی طرح چیک کرکے کھائیں ۔۔۔ 😓🤥*
Parvez Ilahi deserves Oscar for acting.He is first person I have seen who requires oxygen for a dislocated shoulder،،،،،...

Telephone

Website