Health and physical education
The purpose of this page is to aware people about Health and Physical education.
اچھے لیپ ٹاپ کی نشانیاں
ریم: کم از کم 8 جی بی یا زیادہ سے 16 جی بی
اگر ریم 8 جی بی ہو تو ایک سلاٹ میں ہونی چاہئے اور ایک سلاٹ خالی ہو اس میں 8 جی الگ سے خرید کر ڈالی جا سکتی ہے یعنی ریم بعد میں زیادہ کی جا سکتی ہے
ہارڈ ڈسک یعنی میموری ssd ہونی چاہئے جبکہ hdd تین گنا slow ہوتی ہے اور بیٹری بھی زیادہ استعمال کرتی ہے اس لیے صرف ssd ہی کام کے لیے بہتر ہے
جنریشن جتنی زیادہ اتنا ہی جدید یعنی 4th جنریشن سے 5th بہتر اور 5th سے 6th بہتر
سب سے جدید اس وقت تک 11th جنریشن ہے
پروسیسر کی 3 اقسام:
core i3، i5 & i7.
جبکہ
i7 is the best
اگر آپ نے
گرافیکل کام کرنا ہے تو
کم از کم 2gb گرافک کارڈ بھی ضروری ہے
بیٹری 🔋 lithium سیلز کی ہونی چاہئے
لیپ ٹاپ کی بیٹری جتنے mAh کی ہوتی ہے وہ بھی دیکھ لیں
یوزڈ used میں لیپ ٹاپ لیں تو تسلی کر لیں کہ کتنے mAh بیٹری بقایا ہے
Second hand
لیپ ٹاپ لیتے ہوئے زیادہ تر دھوکہ ڈسپلے میں ہوتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی اصل ڈسپلے نکال کر کوئی لوکل ڈالا ہوتا ہے، اس کو چیک کرنے کا طریقہ
اگر آپ نے استعمال شدہ لیپ ٹاپ لینا ہے تو یہ معلومات آپ کے لیے ہے
دکان دار پرانا لیپ ٹاپ بیچتے ہوئے ایسا وال پیپر لگاتے ہیں کہ لوگ ڈسپلے دیکھ کر ہی خوش جاتے ہیں اور وال پیپر بھی اس طرح کا ہوتا ہے کہ ڈیمج پگزل پر نظر نہیں جاتی
ڈسپلے چیک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ
لیپ ٹاپ کی brightness فل کر لیں اس کے بعد
آپ نے نوٹ پیڈ اوپن کرکے اسے ساری سکرین پر پھیلا دینا ہے اس سے ساری سکرین سفید ہو جائے گی
اس طرح سکرین میں اگر کوئی پگزل ڈیمج ہے یا کسی جگہ سے سکرین پر دباؤ آیا ہوا ہے تو وہاں سے کالے نشان نظر آ جائیں گے
دوسرا آپ نے جو لیپ ٹاپ لینا ہے اسے انٹرنیٹ پر سرج کر کے اس کی specification میں دیکھ لیں کہ مطلوبہ لیپ ٹاپ کو کونسا ڈسپلے لگا ہے lcd ہے یا led
اگر lcd ہو تو سکرین کو سائیڈو سے دیکھنے سے ڈسپلے ٹھیک نظر نہیں آتا یہ lcd کی نشانی ہے
اور led زیادہ بہتر ڈسپلے ہے
دوسرا اہم سوال ہے بٹنوں کا
کیا کوئی بٹن خراب تو نہیں
جو لیپ ٹاپ خریدنا ہو اس لیپ ٹاپ سے گوگل پر سرچ کریں
Keyboard tester
یہ 1 mb کا سوفٹویر ہے ڈاؤنلوڈ اور انسٹال کر کے اسے اوپن کریں
اور لیپ ٹاپ کے بٹنوں کو ایک ایک کر کے دباتے جائیں
جو جو بٹن ٹھیک ہو گا وہ سکرین پر سبز رنگ میں بدلتا جائے گا
پروسیسر کو چیک کرنے کے لیے آپ نے گوگل میں سرچ کرنا ہے
CPU Z
اس چھوٹے سے سافٹویئر کو ڈاؤنلوڈ اور انسٹال کر کے اوپن کرنا ہے
اوپن کرنے کے بعد پہلے ہی آپشن میں CPU کی معلومات درج ہوں گی
اس CPU معلومات میں نام والے کالم کے سامنے درج نمبر آپ کو جنریشن کا بتائیں گے
غور سے سمجھیں
مثلاً
Inter core i3,
اس کے بعد اگر تین ہندسے اور لکھے ہوں تو پروسیسر فرسٹ جنریشن ہے
اگر چار ہندسے ہوں تو سیکنڈ یا اس سے اگلی جنریشنز ہیں
مثلاً
Intel core i3.,,,, 803
یعنی i3 کے بعد تین ہندسے آئے تو مطلب فرسٹ جنریشن
Intel core i3.,,,, 2304
اس مثال میں i3 کے بعد چار ہندسے آئے تو یہ دوسری جنریشن
اسی طرح
Intel core i3.,,,, (3)405
Inter core i3.,,,, (4)505
ان دو مثالوں میں بھی چار ہندسے ہیں لیکن پہلی مثال میں شروع کا ہندسہ 3 ہے تو تیسری جنریشن
دوسری مثال میں شروع کا ہندسہ 4 ہے تو چوتھی جنریشن
یاد رہے کہ پہلے ہندسے کو سمجھانے کے لیے گول بریکٹ لگائی ہے
CPU. Z
اسی سوفٹویر کی مدد سے آپ cache اور mother board کی معلومات بھی لے سکتے ہیں
اور یہی سوفٹویر آپ ram کی معلومات اور گرافک کارڈ کی معلومات بھی دے گا
اگر لیپ ٹاپ میں گرافک کارڈ نہیں ہوگا تو معلومات بھی نظر نہیں آئیں گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہارڈ ڈسک اور بیٹری 🔋 چیک کرنے کا طریقہ
استعمال شدہ لیپ ٹاپ خریدتے وقت ہارڈ ڈسک اور بیٹری چیک کرنے کا طریقہ
آپ نے گوگل پر سرچ کرنا ہے
hard disk sentinel
اس سوفٹویر کو ڈاؤنلوڈ اور انسٹال کر کے اوپن کریں
Health
اور
Performance
کی پرسنٹیج ظاہر ہو جائیں گی
اگر ہارڈ ڈسک میں کوئی پرابلم ہو
تو health اور performance لیول 100 پرسنٹ نہیں ہوتا
نیچے نوٹ بھی لکھا ہوتا ہے ہارڈ ڈسک ٹھیک ہو تو بتا دیا جاتا ہے اگر پرابلم یعنی bad sector ہوں تو نوٹ میں لکھے ہوتے ہیں
Temperature option
اسی سوفٹویر کے ٹمپریچر آپشن میں آپ ہارڈ ڈسک کا درجہ حرارت معلوم کر سکتے ہیں
Smart option
ہارڈ ڈسک کے باقی سارے ٹیسٹ
سمارٹ آپشن میں دیکھ سکتے ہیں
سمارٹ آپشن میں ٹیسٹ ویلیو 0 ہونی چاہئے
اگر ہارڈ ڈسک مرمت شدہ ہو یعنی مکینک نے bad sector نکالے ہوں تو ویلیو 0 نہیں ہوتی
Information option
اس آپشن میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آپ کی ہارڈ کس قسم کی ہے
ایس ایس ڈی ہے یا ایچ ڈی ڈی وغیرہ
بیٹری 🔋 چیک کرنے کا طریقہ
سٹارٹ سٹارٹ مینو پر رائٹ کلک کر کے ونڈوز پاور شیل اوپن کریں
اس میں آپ نے یہ لکھنا ہے 👇
powercfg/betteryreport/output
آگے لکھنا ہے
-c:\bettery.html-
یعنی یہ آپ نے پاتھ لکھنا ہے اس کے بعد enter کلک کرکے بیٹری رپورٹ محفوظ کر لیں
سی ڈرائیو میں آپ کی بیٹری رپورٹ محفوظ ہے اسے اوپن کرکے بیٹری کی معلومات دیکھ لیں
اس رپورٹ میں پتہ چل جاتا ہے کہ جب لیپ ٹاپ نیا بنا تھا تو بیٹری کتنی تھی
استعمال ہونے کے ابھی کتنی بیٹری بقایا بچی ہے۔
ذہن اور معدے کا رشتہ
لکھاری : ڈاکٹر مومنہ نور اور ڈاکٹر لبنیٰ مرزا
ایک صحت مندانہ زندگی سب سے نایاب تحفہ ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ زندگی انسان کو ایک بارملتی ہے۔لیکن جس طرح ایک صحت مند زندگی ایک بڑی نعمت ہے اسی طرح ایک علیل زندگی ایک زحمت بھی ہے۔ لہذٰا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنےجسم کو صحت مند رکھیں۔ جدید تحقیق کے مطابق : "صحت مند ہونے سے مراد یہ ہے کہ انسان ، جسمانی، ذہنی اور سماجی لحاظ سے بہترین حالت میں ہو"۔400 سال قبل مسیح تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ بیماریاں آسمان سے اترتی ہیں اور یہ ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ بقراط پہلا یونانی طبیب تھا جس نے یہ کہا کہ بیماریاں دیوتاؤں کی طرف سے نہیں آتیں بلکہ انسانوں کی غیر ذمہ دارنہ طرزِ زندگی ، لاپراواہی اور غفلت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔اور یہ کہ اچھی نیند ، متوازن خوراک اور تواتر کے ساتھ ہلکی پھلکی ورزش سے کئی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔ بعد میں آنے والی صدیوں نے دیکھا کہ انسانی بیماریوں کو سائنسی نقطہ نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بیماریوں کی تمام ذمہ داری مریضوں پر عائد نہیں ہوتی ہے۔ بہت سی بیماریاں ایسی ہیں جو ماحولیات یا حادثات کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ زمانہِ موجود میں میڈیکل سائنس نے نہ صرف بہت سی بیماریوں پر نہ صرف قابو پا لیا ہے بلکہ احتیاطی تدابیر کے استعمال سے متعدد بیماریوں سے بچ رہنا ممکن ہو گیا ہے۔
انسانی جسم میں ' معدہ' ایک اہم عضو ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق معدے کے بیمار پڑنے سے 200 کے قریب مزید بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ معدہ ہماری خوراک کو توڑ کر اس کو خون میں جذب کرنے میں مدد کرتا ہے۔ جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو خوراک منہ سے ایک نالی کے ذریعے معدے میں داخل ہوتی ہے۔اس نالی کو ایسو فیگس esophagus کہا جاتا ہے۔ جب خوراک معدے میں آتی ہے تو معدہ اپنے اندر انزائم اور تیزاب پیدا کرتا ہے۔انزائم کیمیائی عمل کرتے ہیں اور تیزاب ہضم کرنے والے جُوس کا اہم جزوہیں۔ ان دونوں کا مرکب خوراک کو توڑ ڈالتا ہے تاکہ خوراک بڑی اور چھوٹی آنت میں جا سکے۔ ایک صحت مند زندگی گزارنے کے لیے معدے کا ہر وقت صحت مند رہنا بہت ضروری ہے۔ اگر اس میں کوئی بیماری پیدا ہو جائے تو زندگی عذاب بن جاتی ہے۔ کیا معدے کی بیماری کا تعلق انسانی دماغ سے بھی ہے؟ معدے میں کیا بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں اور ان کا تدارک کیسے ممکن ہے ؟ آج ہم اس پر بات کریں گے۔
گیسٹروایسوفیجیل ریفلکس ڈیزیز Gastro esophageal reflux disease ایک ایسی بیماری کا نام ہے جس میں معدے میں پایا جانے والا تیزاب معدے کی حدود سے نکل کر کھانے کی نالی یعنی ایسوفیگس میں چلا جاتا ہے۔ اس سے مریض کو چھاتی میں جلن محسوس ہوتی ہے۔ یہ بیماری مریض کی زندگی کا معیار خراب کر دیتی ہے ۔ اگر کسی مریض کو طویل عرصے سے گیسٹروایسوفیجیل ریفلکس ڈیزیز کی شکایات ہوتو اس کی کھانے کی نالی میں زخم پیدا ہو جاتے ہیں۔اس سے ایک اور سخت بیماری وجود میں آتی ہے ۔ جس کا نام ریفلکس ایسوفجائٹس Reflux esophagitis ہے۔
ان کے علاوہ پیپٹک السر ڈیزیزPeptic ulcer disease ، ایک ایسی بیماری ہے جس میں پیٹ اور اس سے اگلا حصّہ یعنی ڈیوڈینم Duodenum میں کسی وجہ سے زخم بن جائیں۔ ان زخموں کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک اہم وجہ ہیلیکو بیکٹر پائی لوری Helicobacter pylori نامی جراثیم ہے ۔ اس کہ علاوہ درد کُش ادویات اور سگریٹ نوشی بھی اس کا باعث بن سکتی ہیں۔ ان وجوہات کے علاوہ کوئی بھی بڑی بیماری ،یا کوئی ایسا حادثہ جس کے باعث دماغ پر چوٹ آئے ،یا پھر جسم کا کوئی بڑا حصہ جل جائے، ان سب کی وجہ سے بھی پیٹ میں زخم بن سکتے ہیں۔چونکہ ایسے اوقات میں جسم میں موجودہ خون معدے سے نکل کر جسم کےزیادہ اہم حصّوں کا رخ کر لیتا ہے۔ معدے میں خون کی کمی سے یہ زخم پیدا ہو جاتے ہیں۔ اسی لئے ہسپتال میں ایسے مریض جو کہ کسی بیماری کا شکار ہوں ان کو معدے کے زخم سے بچاؤ کے لئے پہلے ہی ایسی ادویات فراہم کی جاتی ہیں جو معدے کی حفاظت کریں۔ ان ادویات کو پروٹون پمپ ان ہیبیٹرز proton pump inhibitors کہتے ہیں۔ یہ معدے میں تیزاب کو کم کرتی ہیں۔
معدے کے زخم کیسے پیدا ہوتے ہیں ؟
یہ سمجھنے کے لئے ہمیں پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ عام حالات میں معدہ اپنی حفاظت کیسے کرتا ہے.۔ معدے میں ہر وقت تیزاب ہوتا ہے جو کہ ہاضمے کے لئے بہت ضروری ہے۔ لیکن عقل یہ کہتی ہے کہ تیزاب تو نقصان دہ ہوتا ہے۔ یہی سوال سائنس کی دنیا کے کئی قارئین نے بھی اٹھایا کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ اتنا تیز تیزاب معدے کے اندر ہو اور وہ معدے کو نقصان نہ پہنچائے۔ ہمارے اندر اس تیزاب سے بچاؤ کے لئے کچھ حفاظتی نظام ہیں۔ مثلاً :
(1) معدے کے اندرونی استر میں ایک بلغم کی جھلی ہے جو کہ تیزاب کو دیوار سے لگنے سے بچاتی ہے۔ اس بلغم میں بائیکاربونیٹ نامی ایک کیمیکل ہوتا ہے ،جس کی پیدائش سے وہ تیزاب جو دیوار ک ساتھ لگ بھی جائے اس کا اثر کم کر دیتا ہے۔
(2) معدے میں خون کی فراہمی کا نظام بھی ایسا بنا ہوا ہے کہ وہ زخموں کو بننے سے روکتا ہے۔ خون معدے کو ایسے عناصر فراہم کرتا ہے جس میں خود حفاظتی خصوصیات ہوتی ہیں۔ اور اس کے علاوہ خون ان نقصان دہ عناصر کو معدے کی دیواروں سے دور لے جاتا ہے۔
(3) معدے کی دیواروں کی یہ ایک خصوصیت ہے کہ یہ باقی جسم کے حصّوں کی دیواروں سے زیادہ مضبوط بنی ہوئی ہیں- ان دیواروں کے سیلز (خلیے) آپس میں مضبوطی سے جڑے ہوتے ہیں جس سے تیزاب دیوار کے باہر والے حصّے تک نہیں پہنچ سکتا اور اس کا معدے کی حدود سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے- ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اگر زخم بن بھی جائے تو وو جلد از جلد بھر جاتا ہے۔ جس سے زیادہ نقصان سے بچت ہو جاتی ہے۔ اگر ان حفاظتی اقدامات میں کوئی مسئلہ بن جائے تو معدے میں زخم بننے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔
ذہنی پریشانی بھی معدے کے زخم کی ایک بڑی وجہ ہے ۔ اس کا ثبوت ہمیں تاریخ سے بھی ملتا ہے ۔ جب بھی کوئی اس قسم کا حادثہ ہوا ہو جو عام عوام میں بے چینی کا سبب بنے ۔ اس کے بعد یہ دیکھا گیا ہے کہ معدے میں زخم کی شکایات زیادہ پائی جاتی ہیں۔ . جب بھی کوئی جنگ پیش آئی ہو ،یا کوئی سیلاب ،یا زلزلہ ،یا ملک کی معیشت میں کوئی زوال آیا ہو ۔ ان سب حالات میں معدے کی بیماریاں عام ہو جاتی ہیں ۔ ہماری انٹرنل میڈیسن کی ریذیڈنسی کے دنوں میں آئی سی یو کے اٹینڈنگ ڈاکٹر گریر نے بتایا کہ ٹریننگ کے دوران ایک ریذیڈنٹ ڈاکٹر کو معدے میں شدید السر ہوگئے جن سے خون بہنے لگا تھا ۔ اس لیے یہ بات اہم ہے کہ شدید ذہنی دباؤ کی صورت میں طب کے پیشے سے متعلق افراد بروقت مدد حاصل کریں۔ جن افراد کی اپنی صحت ٹھیک نہ ہو وہ دوسروں کا بھی اچھی طرح سے علاج نہیں کرسکیں گے۔
انسانوں کے علاوہ جانوروں میں بھی کچھ اس قسم کی علامات طبی سائنسدانوں کو ملی ہیں۔ جانوروں پر جو تحقیقی تجربے کیے گئے ۔ ان سب میں یہ دیکھا گیا کہ اضطراب کی صورت میں جانوروں کے معدے میں زخم بن گئے۔ مثال کی طور پر ،اگر چوہوں کے بچوں کو چھوٹی عمر میں ان کی ماں سے علیحدہ کر دیا جائے تو دیکھا گیا کہ ان چوہوں میں معدے کے زخم بن جاتے ہیں۔ نئی تحقیق کے مطابق کسی قسم کا ذہنی تناؤ بھی ان بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کی درج ذیل وجوہات ہیں:
1۔ دماغ اور معدے کا آپس میں لین دین کا ایک سلسلہ ہے جس کو گٹ برین ایکسز (gut brain axis) کا نام دیا گیا ہے۔ دماغی بوجھ سے معدے پر برا اثر پڑتا ہے۔ اور معدے کی بیماریاں دماغ پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ذہنی بوجھ سے پیٹ میں پائے جانے والے تیزاب کی مقدار زیادہ ہو جاتی ہے جس سے زخم بن سکتے ہیں۔
2۔ ذہنی پریشانی کے دوران کارٹیسول جو کہ ایک ہارمون ہے، اس کی مقدار زیادہ ہوجاتی ہے۔ کارٹیسول زیادہ ہونے کے ناطے پیٹ میں تیزابیت بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔
3۔ دماغی بوجھ یا تناؤ کی صورت میں سگریٹ نوشی یا کسی اور نشے میں مبتلا ہونے کا احتمال زیادہ ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے بھی پیپٹک السر ڈیزیز ہونے کا امکان زیادہ ہو جاتا ہے۔
4۔ پریشانی کی صورت میں انسان کا ایسی ادویات لینے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے جس سے پیٹ میں زخم بن جائیں ۔ اس کے علاوہ پریشانی میں اگر نیند بھی کم لی جائے تو کارٹیسول کی مقدار بھی زیادہ ہو سکتی ہے. اور جیسا کہ ہم بات کر چکے ہیں ،ایسا جب بھی ہو تو زخم بن سکتا ہے۔ ان سب وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ذہنی پریشانی کا اثر صرف دماغ تک نہیں رہتا بلکہ باقی جسم کو بھی اثر کرتا ہے خاص طور پرمعدے جیسے اہم عضو کو۔ ان بیماریوں سے بچنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ زندگی سے ذہنی تناؤ بھی کم کیا جائے. اس کے درج ذیل کچھ طریقے ہیں:
1۔ اپنی غذا کا خاص خیال رکھیں۔ پھلوں اور سبزیوں کے استعمال سے معدے اور آنتوں کی صحت پر مثبت اثر مرتب ہوتا ہے۔
2۔ ورزش کی عادت کو برقرار رکھیں۔ ہفتے میں کم از کم تین دن ورزش کرنا ضروری ہے۔ ایک ہفتے میں کم از کم 150 منٹ کی درمیانہ شدت کی ورزش نہایت ضروری ہے۔
3۔ ریلیکسیشن ایکسرسائزز ( ذہنی سکون دینے والی ورزشیں) کرنا. ان کے طریقے ویڈیوز انٹرنیٹ پر یوٹیوب پر موجو ہیں۔ یوگا اس کی ایک عمدہ مثال ہے۔
4۔ سگرٹ نوشی اور باقی نشے سے پرہیز کرنا۔
5۔ اپنی نیند کا خاص خیال رکھنا۔
6۔ ایسے کام میں حصّہ لینا جس سے خوشی ملے۔ یہ کام ہر کسی کے لیے مختلف ہو سکتے ہیں.۔ آپ کو جس سے خوشی ملے اس کے بارے میں سوچیں۔ اور کوشش کریں کہ روز مرہ کی زندگی میں اس کو شامل کریں۔
7۔ سگریٹ نوشی اور باقی نشے سے پرہیز کریں۔ اور اگر ضرورت پیش آئے ہ تو مینٹل ہیلتھ سپیشلسٹ کے پاس بھی جایا جا سکتا ہے جیسا کہ سائکیٹرسٹ یا سائکولوجسٹ۔ یاد رکھیں زندگی اور صحت سب سے بڑی نعمتیں ہیں اور اپنے اجسام اور اعصاب کو صحت مند رکھنا ہماری اہم ذمہ داری ہے۔
(اس مضمون کو ایڈٹ کرنے کے لیے نعیم اشرف صاحب کا شکریہ )
*سمعیہ مشتاق*
*Ppsc female Lecturer* *Merit No 03*
میری کمیشن کے امتحان کی تیاری کی حکمت عملی
کچھ اس طرح سے تھی.
سب لوگوں کی طرح میں نے بھی پہلے انٹر ، بی اے اور پھر ایم اے کا کورس پڑھا تھا
بہت سی چیزیں ہر لیول پہ ایک جیسی تھیں جیسا کہ پیمائشیں۔
اس کے بعد معروضی کتابیں پڑھنا شروع کیں
ساتھ ساتھ ایم اے کی کتابوں کو بھی پڑھنا جاری رکھا۔گوگل سے جتنے بھی معروضی سوال ملتے تھے وہ پڑھے۔ فیس بک پہ مختلف گروپس جوائن کئیے ہوۓ تھے۔ الغرض جو بھی مواد فزیکل ایجوکیشن کے حوالے سے ملتا تھا میں نے اس کو گھول کے پی لیا۔
اس کے علاوہ میں نے ایک بات نوٹ کی کہ انڈیا والے فزیکل ایجوکیشن میں ہم سے بہت آگے ہیں ان کے مختلف گروپس فیس بک پہ جوائن کئیے
وہاں سے پڑھا
امتحان سے پہلے سخت محنت کی تھی راتوں کو جاگ جاگ کے پڑھا تھا۔ 20 دسمبر کو جس دن کمیشن کا امتحان تھا میں پر اعتماد تھی۔ لیکن پیپر دیکھتے ہی پتا چلا کہ اس میں سے اکثر سوالوں کا مجھے کوئی آئیڈیا نہیں تھا
( اتنا پڑھنے کے باوجود)
میں نے اس پیپر کی تیاری میں جو معروضی طرز کتابیں پڑھی تھیں ان میں
ڈوگرز
پروفیسر جعفر حسین جگ
شفقت رسول
کی کتابیں شامل ہیں
پیپر کا سکینڈل بن گیا۔ اور اتنا گندا پیپر ہو ا تھا کہ دوبارہ تیاری کے لئے ہمت چاہیے تھی
لیکن جب پیپر کینسل ہو گیا میں نے تھوڑا بہت پڑھنا جاری رکھا
پھر ایک دم سے پیپر ری کنڈکٹ کی کال آ گئی یہ وہ وقت تھا جب میری بلکل بھی ریویژن نہیں تھی
اور میں نے تقریبا پیپر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا
لیکن سر سہیل نے مجھے کہا کہ جب ماسٹرز کیا ہوا ہے تو آپ ٹیسٹ میں appear ہوں اب کی بار میں نے دس معروضی کتابیں پڑھی تھیں ان کو سمجھا بھی تھا اور رٹ بھی لیا ہوا تھا
لیکن ریویژن نہیں تھی
بہرحال پیپر ہوا اور سر سہیل کی موٹیویشن تھی کہ پیپر اچھا ہو گیا
میرا خیال تھا کہ 60 نمبر تو لازمی آئیں گے
لیکن49
انٹرویو کی کال بہت جلدی آ گئی تھی تیاری کا وقت نہیں ملا اور ان دنوں میں شدید مائگرین کا شکار تھی
ساتھ BS Maths last semester k final exams چل رہے تھےآخری پیپر 21 کو تھا اور 23 کو انٹرویو تھا
مائگرین بھی ان دنوں شدید تھا
انٹرویو کی تیاری کا وقت نہیں ملا
لیکن میں نے اپنا ایک دھانسو قسم کا تعارف تیار کیا
اپنی انگلش کمیونیکیشن کو زرا مزید پالش کیا
اور سب سے اہم بات ڈریسنگ
میل کا ڈریس کوڈ تو مخصوص ہے
لیکن فی میل کے لئے مسئلہ ہے
اس پہ توجہ کرنا ضروری ہے
ایک دو کتابیں پڑھیں اور یہی تیاری تھی
انٹرویو والے دن جب میری باری آئی
چئیرمین نے کہا introduce youserself ابھی ایک جملہ بولا تھا کہ
بات کاٹ کے پوچھا گیا
what is two nation theory
i explained well
پھر اگلا سوال
what is aforestation
I answered confidentally
پھر پوچھا
what is deforestation
اس کے بعد ماہر مضمون نے کچھ embarrassing سوال کئیے
why you have 10 years gap in ur bachelors and masters
I replied sir i got married
He said ok
Then next question was
from where You done your masters
I said from an affiliated college
He was not pleased to listen it
After that next question was
Annual or semester
i said annual
he was offended
مجھے پتا چل گیا تھا کہ یہ سب باتیں میرے حق میں نہیں جاتیں
میرا فیورٹ سبجیکٹ پوچھا گیا
میں نے اناٹومی اور بائیو مکینکس بتایا
سبجیکٹ کے حوالے سے سوالات کئیے گئے جن کو میں نے اچھے سے explain کیا
پورے اعتماد کے ساتھ۔ تقریبا دس سوال سبجیکٹ کے حوالے سے پوچھے گئے جن میں سے دو مجھے نہیں آۓ
انٹرویو کے فورا بعد میں نے سر سہیل کو بتایا کہ کیا کیا پوچھا گیا
اسی وقت سر نے کہا
آپ سیلیکٹ ہو جائیں گی
اور اللہ کے کرم سے فائنل لسٹ میں میرا نام آ گیا
اوپر بیان کی گئی تمام باتوں سے ہٹ کے نماز اور دعاؤں کو میری کامیابی میں سب سی زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
*Personal Experience from a Ppsc successful candidate*
*For Motivation and Guideline*
Copy
سرکیڈین ردھم
تحریر: قدیر قریشی
جولائی 08، 2022
عام طور پر اکثر لوگ صبح وقت پر اٹھنے کے لیے الارم لگا کر سوتے ہیں- لیکن بہت سے لوگوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ ان کی آنکھ الارم سے پہلے کھل جاتی ہے اور وہ الارم بجنے کا انتظار کرنے لگتے ہیں تاکہ اٹھ کر نئے دن کا آغاز کریں- ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی وجہ ہمارے جسم کا سرکیڈین ردھم کا نظام ہے جو دن اور رات کے حساب سے سونے اور جاگنے کے لیے جسم کو تیار کرتا ہے- جب شام کے بعد ماحول میں روشنی کم ہونے لگتی ہے تو دماغ میں موجود پائنیل گلینڈ ایک ہارمون خارج کرنے لگتا ہے جسے میلاٹونن کہتے ہیں- یہ ہارمون جسم کو نیند کے لیے تیار کرتا ہے- آپ کے انہضام اور تنفس کا نظام سست ہونے لگتا ہے، دل کی دھڑکن کچھ سست ہو جاتی ہے، جسم کا میٹابولزم بھی سست ہو جاتا ہے اور آپ کو نیند آنے لگتی ہے- صبح معمول کے وقت جاگنے سے بھی پہلے (ابھی آپ سو رہے ہوتے ہیں) آپ کا دماغ آپ کے جسم کو دن بھر کے کام کے لیے تیار کرنے لگتا ہے- جسم میں میلاٹونن کی مقدار کم ہونے لگتی ہے، دل کی دھڑکن کچھ تیز ہو جاتی ہے، آپ کی نیند کچی ہو جاتی ہے تاکہ جاگتے ہی آپ کا جسم دن بھر کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جائے-
یہ سرکیڈیم ردھم صرف انسانوں میں ہی نہیں ہر جانور، پودے، حتیٰ کہ یک خلوی مائیکروبز میں بھی پائی جاتی ہے- روشنی اور اندھیرے کا سائیکل اس ردھم کو کنٹرول کرتا ہے- جدید زندگی میں نیند کی کمی کی شکایت بہت عام ہے- اس کی ایک بڑی وجہ مصنوعی روشنی اور خصوصاً ایل سی ڈی سکرین کی روشنی ہے- ہمیں شعوری طور پر خواہ کتنا ہی احساس ہو کہ اب رات ہو گئی ہے ہمیں سو جانا چاہے، لیکن اگر ہم سونے سے فوراً پہلے بھی سیل فون یا کمپیوٹر کی سکرین کے سامنے ہوتے ہیں تو ہماری آنکھوں میں تیز روشنی جا رہی ہوتی ہے جو پائینیل گلینڈ کو میلاٹونن بنانے سے روکے رکھتی ہے- سرکیڈیم ردھم ایک خودکار نظام ہے جو ہمارے شعوری کنٹرول میں نہیں ہے- اس لیے سرکیڈین ردھم کو قائم رکھنے کے لیے سونے کے وقت سے آدھ گھنٹہ پہلے اپنے کمپیوٹرز اور سیل فون آف کر دیجیے- بستر پر سیل فون کے بجائے کوئی کتاب لے کر جائیے اور سونے سے پہلے دھیمی روشنی میں کتاب کا مطالعہ کیجیے- اس سے آپ کی سرکیڈیم ردھم قائم رہے گی اور آپ کو وقت پر نیند آ جائے گی
Why physical education is important
ULCER
The position of In performance training the agility defined as "a skill related component of physical fitness that relates to the ability to repidly change inter body in space speed and accuracy..🏃🏃🔥🔥
What is acceleration sprint training?
Quick Reference. A special form of sprint training in which running speed is gradually increased from jogging to striding and, finally, to sprinting at maximum pace. Each component is usually about 50 m long.Acceleration sprints are a good form of anaerobic training.