Syed N.A.Z Hussaini
Deputy Chief Engineer Irrigation West Pakistan
District gazetteer Rahim Yar Khan1984.Called him as a Irrigation Department West Pakistan.
ہمیں بچپن سے استاد کی عزت کرنا سکھایا جاتا رہا ===================
میرے محسن اور سرپرست Syed N.A.Z Hussaini مجھے بچپن میں ساتھ لے کر اپنے ایک استاد کو گاہے بگاھے ملنے جاتے وه بہت ضعیف العمر تھے ۔ ان کو نہایت ادب سے جھک کر ملتے ۔ کرسی پر بیٹھتے تو بہت آگے ہو کر کبھی ٹیک لگا کر نہ بیٹھتے ۔ حسینی صاحب چیف انجنیئر انهار کے عهدے پر تھے اس وقت ۔
میں آج بھی اپنے استادوں کو جھک کر گھٹنوں کو چھو کر ملتا ہوں ۔ میری رانی اور بچے ساتھ ہوتے ہیں اور احمد پور شرقیہ جاتا ہوں تو اساتزه کرام کے گھر کی چوکھٹ پر حاضری دیتا ہوں ۔ بچوں کو سكهانے کے لیے ان کے سامنے اپنے محترم استاد کے گھٹنے چھوتا ہوں وه بھی ڈھیروں دعا ئیں دیتے ہیں ۔
میرے پرائمری سکول کے پرنسپل شیخ واجد علی اب فوت ہو گئے ہیں ۔ لیکن نیشنل انگلش اسکول احمد پور شرقیہ میں(1962/1966) ان کی دی ہوئی تعلیم و تربیت اب بھی یاد ھے ان کا نام ہمیشہ مشعل راہ رہتا ھے ۔ اللّه جنت میں بلند مقام دے ۔ نیچے ان کی تصویر ھے ۔ رنگین بعد میں کی گئی ۔ دوسری تصویر میں ہمارے گھر حسینی منزل میں 1976 میں تشریف لاۓ تب میں نے یہ تصویر لی ۔ سامنے حسینی صاحب بیٹھے ہیں ۔ اور ساتھ میں شیخ واجد علی صاحب ۔ پھر انکے دوست ۔
تحریر
رانا پرویزالحسن صادق نارو ۔
سرائیکی زبان کے تین بڑے شعراء کرام۔۔۔
حافظ عبدالکریم دلشاد سے کلام بھی سنا ھے ۔ یہ احمد پور شرقیہ کے تھے اور کبھی كبهار حسینی منزل محلہ شکاریاں میں میرے محسن اور مربی سید نور علی ضامن حسینی کی محفل میں آتے ۔ ان کے اشعار سنے جاتے ۔ بوقت رخصت حسینی صاحب ان کو مٹھی بھر روپے بھی عنايت فرما دیتے ۔ ہوتا ایسے کہ میرے والد صاحب کو آواز دیتے وه کچھ روپے مٹھی بند صاحب بہادر کو پکڑا دیتے اور حسینی صاحب ، دلشاد صاحب کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے روپے دے دیتے ۔
میرے والد محترم مرتے دم تک جب بھی حسینی صاحب کا ذکر کرتے انکو صاحب بہادرہی کہتے رہے۔ یہ ان کی عقیدت تھی
جندو پیر لیاقت پور کے صوفی فیض محمّد دلچسپ کی وفات کے بعد انکے گھر کئی بار گیا ۔ تب ان کے بیٹے احمد دین سے ملا ۔ ان کی ہاتھ سے لکھی ایک بیاض بھی دیکھی جسے وه مشاعروں میں اپنے ساتھ رکھتے ۔ اس سے دیکھ کر اور زبانی بھی کلام سنایا کرتے تھے ۔
دلکش اماموی سے واقف نہیں ہوں ۔
تحریر
رانا پرویزالحسن صادق
میں اپنا غم کس سے کہوں اپنے آپ سے کہے جا رہا ہوں ۔
میں چند قریبی دوستوں سے اپنی Sadiq Library کی كتابوں کی بابت اپنے خدشات کا اظہار کر چکا ہوں ۔
میری مادر علمی Hussaini Library کا جو حشر ہو چکا وه میرے سامنے ھے ۔ جب وارث علم دوست نہ ہوں تو لائبریری کا برا حشر ہوتا ھے ۔
جناب میر زاہد حسین رهنما تحریک آزادی پاکستان رئیس اعظم صادق آباد نے نااہل وارثان سے کئی لائبریریاں خرید کر محفوظ کیں ۔
اب انکی عظیم لائبریری کس حال میں ھے عرصہ ہوا جا نہیں سکا کہ وہاں میر فضلی ان کے فرزند اپنے والد کے ممدوحوں سے تعلق رکھنے کے روادار نہیں ۔ وہاں 17ہزار سے زائد کتب تھیں ۔
حسینی صاحب کے دادا سید غلام مصطفے شاہ نے 1880ء کے لگ بھگ اس حسینی لائبریری کا ڈول ڈالا تھا 70 قلمی نسخے تھے ۔ جو سینکڑوں برس پرانے تھے ۔ فارسی کے زیادہ اور عربی و اردو کے کم ۔
جن کو اندر سے دیمک کھا گئی ۔ اب کیا کہوں کس سے کہوں اپنا دکھ اپنے آپ سے کہے جا رہا ہوں ۔ جب قلمی نسخوں کی بربادی کا علم بڑی بی بی صاحبہ سیدہ صغراء حسینی والا شان کو ہوا تو سخت خفا ہوئیں ۔ میں جب احمد پور شرقیہ گیا ۔ تو بہت مدت بعد جب سے ہم سے پرده ہوا تھا دروازے کے پیچھے سے مجھے طلب فرما یا اور گویا ہوئیں ۔ کہ آپ یہ Hussaini Library اپنے پاس رحیم یار خان لے جاؤ ۔ ورنہ کتب برباد ہو جائیں گی ۔ میں نے مؤدبانه عرض کیا کہ بی بی صاحبہ طالبان علم آتے تو ہیں ۔ اور آپ کے بابا جان کا نام لیتے ہیں ۔ انکے نام کو زندہ رہنے دیں ۔ بی بی صاحبہ والا شان خاموش ہو گئیں ان کے صاحب زادے سید نقی حسینی صاحب بھی موجود تھے ۔
میں اپنا غم کس سے کہوں اپنے آپ سے کہے جا رہا ہوں۔۔۔۔۔۔
رانا پرویزالحسن صادق
میرے محسن Syed N.A.Z Hussaini
اس معاملہ میں بہت سخت تھے ۔ ایک ایک درخت کو دیکھتے ۔ SDO سے لے کر Cheif Engineer کی پوسٹ تک تمام نہروں پر درختوں کی حفاظت کا خاص خیال رکھا جاتا ۔ 1932میں ستلج ویلی پراجیکٹ کے افتتاح پر یہ درخت لگائے گئے ۔ انگریز افسر اور ہمارے ریاستی افسر بڑی سختی کرتے ۔ حسینی صاحب نے جب رحیم یار خان کی ٹاؤن پلاننگ کی تو بہت درخت لگوائے ۔ آپ دیکھتے ہیں کہ تمام شہر میں اب تک قدیم درخت کثیر تعداد میں دکھائی دیتے ہیں ۔ كینال کالونی تو ان کے دور کے درختوں سے بھری پڑی ھے ۔ میں دوران ملازمت محکمہ انهار کے مكهتلف سب ڈویژنز میں تعینات رہا ۔ 70/1980 کی دها ئی میں بہت سے پرانے بوڑھے ملازم تھے جو درختوں کی چھاؤں میں بیٹھ کر حسینی صاحب کی یادیں اور باتیں دہراتے تھے ۔ عزیز مكرم ظفر چانڈیو صاحب کا بچپن بھی ریسٹ ہاؤسز میں گزرا ان کے والد محترم بھی محکمہ انہار میں مختلف جگہ بطور SDO تعینات رھے ۔ وه بھی حسینی صاحب کا ذکر بہت محبت اور احترام سے کیا کرتے تھے ۔
میں دوران ملازمت جس ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرتا وہاں کا مالی /چوکیدار بتاتا کہ فلاں درخت کے نیچے حسینی صاحب بیٹھتے تھے تو میں ہمیشہ اسی کے نیچے کرسی ڈالے گهنٹوں بیٹھا پرانی یادیں دهراتا رہتا ۔ پرانے ملازم ان کے دور کی باتیں کرتے۔ حسینی صاحب عظیم انسان تھے ۔ ان کی درختوں سے محبت آج بھی یاد رکھی جاتی ھے ۔
تحریر
پرویز صادق
Shehzad Usmani sb
سنتے تھے کہ آپ کی ایک قدیم خاندانی تلوار ھے جو کئی صدياں پرانی ھے ۔ آج دیکھ بھی لی ۔ یہ سب خاندانی وقار کا ثبوت ہوتا ھے ۔ قدیم کتب خانہ ہو یا اسلحہ خواہ کوئی ایک قلمی نسخہ ۔ Hussaini Library میں قدیم کتب کے قلمی نسخے تو دیمك کھا گئی ۔ Syed N.A.Z Hussaini کے پانچ اسلحہ لآئسنس تھے ۔ تھری ناٹ تھری رآئفل ، 38 بور ریوالور ، 30 بور ماؤزر آٹومیٹک پسٹل اور دو بارہ بور دونالی بندوقیں ۔
اب صرف ایک بارہ بور دونالی بندوق باقی ھے ۔ مجھے بہت دکھ ہوتا ھے ۔ لیکن میں کیا کر سکتا ہوں ۔
روش بندہ پروری علم نہیں حكمت ھے ۔اور وه صرف امتحان سے حاصل كرده نمبروں سے نہیں ملتی بلکہ ورثہ میں ملتی ھے ۔
Saying of
Syed N.A.Z Hussaini
برسوں پہلے بچپن میں اپنے بزرگ، محسن اور سرپرست سید نور علی ضامن حسینی ڈپٹی چیف انجنیئر ایریگیشن کے ساتھ مغربی پاکستان کے بہت سے ریسٹ ہاؤسز میں جاتا رہا۔ محکمہ انہار کے دفاتر کو بھی شاندار حالت میں دیکھا ۔ پھر خود ملازم ہوا تب بھی مجھے پرانی یادآتی تو عظمت رفته کے نوحے کہا کرتا تھا ۔
اب خود ریٹآئر ہوا تو بہت کچھ ختم ہو چکا تھا ❤️ ۔ مرمت نہ ہونے کے سبب یہ عالیشان سیٹ اپ ہی تباہ ہو گیا ۔ ماہ و سال بھی تو سو برس سے اوپر ہو گئے ہیں ۔ ان درختوں کی بھی یاد آتی ھے جو پھلدار تھے اور سایہ دار بھی ۔ آدم والی كینال ریسٹ ہاؤس میں ایک آم کا پودہ تھا دیسی آم کا اس سے ٹپکے کے آم اتنے لذیز اور میٹھےاترتے تھے کہ بس بالٹی بهروا کر برف ڈلوا کر ٹھنڈے ہونے پر چوسنے بیٹھتا تو پیٹ بهرنے پر ہی ہاتھ کھینچتا ۔ میری شوگر کبھی بلند نہ ہوتی ۔ اس کا نام ہی شوگر فری رکھ دیا ۔ وه درخت یاد آتے ہیں جن کی چھاؤں میں بیٹھتا تھا ۔ اب وه درخت سوکھ گئے ہیں ۔ بہت دکھ ہوتا ھے جب کبھی کسی ریسٹ ہاؤس پر چلا جاؤں ۔
بہاول پور كینال زون کے یہ چند ریسٹ ہاؤس جو ابھی بہتر حالت میں ہیں ۔
آم کادرخت جوسوکھ گیا وه درد ناک منظر ھے ۔ تحریر Pervez Sadiq