Uzma Mujahid Official

Uzma Mujahid Official

Public Figure

18/02/2024

ہماری 2023/2022 کی تمام ای۔بکس ڈسکاؤنٹ پر ایولیبل ہیں۔۔
زردادقلبم شوی 400/Rs
دہلیزدل کادیا 300/Rs
دلباران عشقاء250/Rs
من درفقیرجاناں 300/Rs
نزول عشق 250/Rs
رقیب عشقم+لمس قربونت عشقم400/

16/02/2024

اس دن خوب بھر بھر کے مینہ برسا تھا۔زرداد کی فلائیٹ کینسل ہونے پر اسے واپس گھر آنا پڑا تو پہلی نظر ہی ٹیرس پر جھومتی علیزے پر پڑی تھی۔فلائیٹ ڈیلے اور اپنےکام کو لے کروہ انتہائی تفکر میں گھرا ہونےکے باوجود بھی علیزے کو دیکھ کر وہ ایک سکون کے احساس میں مبتلا ہوا تھا اور بنا چینج کیئے ٹیرس کی طرف قدم بڑھائے۔ہروہ منظر جو دور سے دھندلا تھا پاس آنے پر شفاف تھا جبکہ زرداد بےطرح ٹھٹھکا تھا۔دوبٹے کی ڈھال سے آزاد ،کڑاہی دار سفید کاٹن کے سوٹ میں ملبوس لڑکی ،شاید اپنے وجود کی اٹھانوں سے بےخبر تھی جبھی اپنی مستی میں گم مور کی طرح پنکھ پھیلائے ،کھلی فضا میں بازو وا کیئے ہوئے تھے۔زرداد اپنے قدم اسکی طرف اٹھنے سے روک نہیں پایا تھا۔
ایسے ضروری ہو مجھکو تم
جیسے ہوائیں سانسوں کو
ایسے تلاشوں میں تمکو
جیسےکہ پیرزمینوں کو
ہنسنا یا رونا ہو مجھے
پاگل سا ڈھونڈو میں تمہیں
کل مجھ سے محبت ہونا ہو
کل مجھکو اجازت ہونا ہو
ٹوٹےدل کےٹکڑے لےکر
تیرےدرپرہی رہ جاؤنگا۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکے سامنے رکتے زردادحیدر کے دل نے کچھ لمحوں میں کتنی صدائیں بن لی تھیں ،سامنے ٹہری لڑکی پوری طرح سے انجان تھی جب اپنے سامنےساکت ہوتے وجود کو دیکھتے وہ رکی تھی۔
"حیدر ،اوہ گاڈ سچ میں ،اللہ تعالی کتنے اچھے ہیں نا اگر اسوقت ہم ان سے کچھ اور مانگ لیتے تو شاید وہ بھی ہمیں دے دیتے۔۔۔ہنم۔۔۔پر ہم ان سے آپکے سوا کیا مانگتے ؟ہاں شاید اپنا میتھ اچھا ہونے کی دعا۔۔۔۔"علیزے اسے دیکھتے بہت ایکسائیٹڈہوئی تھی۔زردادکےشانوں پر اسکا ہاتھ جانہیں سکتا تھا جبھی اسکی کمر کے اردگرد ہاتھ ڈالےاسکے سینے پر سر ٹکائے چہک رہی تھی جبکہ وہ جتنا زاہد وحامد ہوتا،صنف مخالف کے وجودکی نرماہٹیں اسکے اندر ایک یک برق سی بھرنے لگی تھیں وہ چاہ کر بھی علیزے کو جھٹک نہیں پارہا تھا۔اتنی بارش میں اسے اپنا وجود پسینے میں بھیگتا محسوس ہورہا تھا۔
"آپ۔۔نے۔۔۔آپ نے ہمیں کیوں مانگا علیزے۔ہم تو پہلے ہی آپکے ہیں؟"زردادنےٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی جو بھیگنے کی وجہ سےکچھ چبھن کا احساس دے رہی تھی جبکہ اسکی وائٹ شرٹ پوری طرح بھیگ چکی تھی۔
"او۔۔۔نہیں تو ،ہم چاہتے ہیں آپ ہمیشہ ہمارے دل میں رہیں۔۔۔۔زردادقلبم شوی ،رادرقلبم شوی(میرے دل کا گہنا بن کے، میرے دل کا دل بن کے)۔"
اس نے پرجوش آواز میں کہا تھا جبکہ زردادچونکا ،وہ بھی اسکی طرح مختلف زبانوں پر عبور چاہتی تھی ،جانے کیوں وہ لڑکی زردادحیدر کی پرچھائی بن کے رہنا چاہتی تھی۔زردادنے بارش میں بھیگے رخساروں کو سہلایا تو وہ جیسےاسکی آزمائش بننے لگی تھی۔
“حیدر آپکو پتا ہے ہمیں بارش بہت پسند ہے۔۔”وہ دونوں ہاتھ آسمان کی اوور کیئےچہرہ اوپر کیئے کن من ہوتی بارش کو پوری طرح خود میں محسوس کرتی بولی تو زرداد نےاثبات میں سرہلایا تھا۔بارش کی بوندوں کو مٹھی میں قید کرتی لڑکی اسوقت زردادحیدر کو اس شام کا سب سے حسین منظر لگی تھی۔وہ بغور اسکی روشن پیشانی ،ناک اور پھر لبوں سے ٹھوڑی تک کا سفر کرتے بارش کےقطروں کو دیکھنے لگا جو ابھی بھی اپنا رستہ بناتےاسکی گردن سےہوتے شرٹ کی اتھاہ گہرائیوں میں گم ہوگئے تھے۔حالنکہ اس مقام پرزردادحیدر کی تلاش ختم ہوجانی چاہیئےتھی پرسفید کاٹن کی شرٹ سےجھانکتے دلفریب منظر کےنشیب وفراز زردادحیدرکو بےساختہ گستاخی پر مجبور کرگئے تھے۔علیزے اپنے اور اسکےرشتے کی گھمبیرتا سےواقف نہیں تھی وہ تو ایک باحواس مرد تھا جس پر حق ملکیت کا احساس پوری طرح اجاگر ہوتے اسےسامنےکے دلفریب مناظرپر بار بار بھٹکنے پر مجبور کررہا تھا۔اس نے بنا محسوس کرائے علیزے پر جھکتے اسےنرم بازووں کا حصار دیا تو علیزے اسکی اتنی سی توجہ پاتےبےحد کہلہلائی تھی جبکہ اسکی نادانیاں زردادحیدرکی بےچینیوں کومزیدبڑھاوا دیتیں شوق رفاقت کےجذبات بھڑکارہی تھیں۔اس نے بوند بوند برستی بارش کے قطروں کو لبوں سے اسکی پیشانی سےچننا چاہا تووہ شرارتی سی علیزےکی ناک کارخ کرگئیں زردادحیدر کےلبوں نے کسی پیاسےمسافر کی مانند اسکی ناک کا سفر کیا تو بوندیں مزیدشرارت بامائل ہوتی لبوں سے گریبان کا سفرطےکرگئیں ۔وہ ان خطاوار بوندوں سےناراض ناراض سےعلیزےکی گردن پر سختی سےلب جماگیا تھا جبکہ وہ کسی بت مانند ٹہری زردادحیدرکا یہ ناآشنا لمس محسوس کررہی تھی جانےکیوں دھڑکنوں میں عجیب سا احساس اجاگر ہوا تھا وہ بےاختیار خود پر جھکے زردادحیدر کی گردن میں بازو حمائل کرگئی تو وہ چونکتے کسی خواب نگری سےواپس آتے علیزے کے الجھن زدہ چہرے کو دیکھنے اور پھر سختی سے لب بھینچے اسکا بازو اپنے گلے سے جھٹکا۔
اس سے پہلے کہ وہ کوئی گھمبیرخطا کرکے اسکےمعصوم ذہن میں کوئی ناگواری پیدا کرتا اسے پیچھے ہٹاتے تیز تیز قدموں سے وہاں نکل گیا تھا اور پھر ملازمہ کے ذریعے اسے پیغام بھیج کر بلوا لیا تھا۔رات گئے تک یہ بارش شدید طوفان کی شکل اختیار کرچکی تھی ،اتنی کہ جون میں بھی سرما کی شدت محسوس ہورہی تھی۔کھانا ان دونوں نے ایک ساتھ ہی کھایا تھا اور کھانا کھاتے ساتھ ہی وہ اپنا لیپ ٹاپ اٹھائے مصروف ہوگیا تھا جبکہ علیزےکے پاس کرنے کو کچھ خاص تھا نہیں جبھی وہ جلدی سونے چلی گئی تھی۔پر کچھ دیر ہی گزری تھی جب ،بادلوں کی گھں گرج اسے وحشت میں مبتلا کرنے لگی اور وہ لاؤنچ میں زرداد کے پاس لوٹ آئی تھی۔
"وہاٹ ہپینڈ علیزے،ہمیں لگا آپ سوگئی ہونگی؟"زرداد نےاسے دیکھ کر اپنا لیپ ٹاپ سیمٹتے ہوئے کہا تو وہ زرداد کےپاس آکر بیٹھی تھی۔
"حیدر۔۔۔وہ۔۔وہ ہم آپکے پاس سوجائیں۔۔ ہمیں بادلوں سے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔"زرداد کو اٹھتے دیکھ اس نے فورا اسکا ہاتھ تھاما جب وہ اجنبھے سے اسے دیکھنے لگا تھا۔
"بٹ کیوں؟آئی تھنک دن تک تو آپکی بادلوں سے اچھی خاصی دوستی تھی اینڈآپ انجوائے بھی کررہےتھے انکے ساتھ۔"زرداد نے جمائی روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئےعلیزے کو غیرسنجیدگی سے لیتے ہوئے کہا۔
"بٹ ابھی ،بہت زور کی آواز ہے ہمیں ،ڈر لگ رہا ہے۔"وہ بھی زرداد کے ساتھ کھڑی ہوئی تو وہ اسے ایک نظر دیکھتےبےبس ہوا تھا کتنی مشکل۔سے تو اس نے شام میں خود کو سنبھالا تھا اگر وہ اسکے پاس آکر رہے گی تو یقینا وہ خود کو مزید پیشمان سا خطاوار محسوس کرتا تبھی اسکے روم کی طرف بڑھ گیا۔چونکہ اسکا روم گھر کے ایج پر تھا جبھی ،باہر ہوتی گھن گرج باآسانی کھڑکی سے اسے دہلا رہی تھی۔
"سوجائیں علیزے ہم یہاں ہیں،کچھ نہیں کہہ رہے بادل آپکو۔۔۔"زردادپر اگرچے نینیدکی خماری تھی اسکےباوجود وہ اسے بہلانے کو اسکے روم میں موجود چئیر پر بیٹھا تھا جبکہ وہ فورا بیڈ کی طرف بڑھتے کمفرٹر میں مقید ہوئی زردادسیل پر مصروف تھا جب ایک بار پھر بادلوں نے اپنا جوبن دکھایا علیزے نے دونوں ہاتھ کان پر رکھے چیخ ماری تو زرداد کو ناچار اپنا شغل ترک کیئے اسکے پاس آنا پڑا تھا۔
"آپ علیزے کے ساتھ سوئیں گے؟"وہ حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھی جو اسکے برابر لیٹا انتہائی دلچسپی سے اسکے حیران حیران، تاثرات دیکھ رہا تھا۔
"ہاں کوئی مسئلہ ہے کیا ہمارے ساتھ سونے پر آپکو؟آئی تھنک بادلوں سے نمٹنے کا اور کوئی حل نہیں ہےہمارے پاس۔۔۔"
حیدر نے اسکے تکیے پر بکھرے بال سیمیٹے تھےجب اسکا چہرہ حیدر کے لمس پر عجیب سے احساس سے دہک اٹھا تھا۔
"نہیں ہمیں مسئلہ تو کوئی نہیں ہےلیکن ہم ،آپ۔۔۔ہمارا مطلب ہے آپ یہاں سوجائیں ہم کاؤچ پر جاکر سوجائیں گے۔"علیزے نے اسکے پہلو سے اٹھنا چاہا تھا جب حیدر نے اپنے بازو کا ایک حصار سا اسکے سینے اور بیڈ کے درمیان بنایا تھا۔اسکے بازو کے حصار کو ناسمجھی سے دیکھتی علیزے نے کچھ بولنے کو پرتولے تھے جب حیدر نے اس کے اوپر جھکتے ہوئے اپنے اطلسی ہونٹوں سے اسکے بارفشیں ہونٹوں کو چھوا تھا۔وہ بھی بندہبشر تھا جب حسن کھل کےاسطرح پورے اسحقاق سے بکھرا تھا تو وہ کب تک نظریں چرائے رہ سکتا تھا۔اسی پل اس نے ایک عہد جڑا تھا ،کبھی بھی علیزے کو خود سے الگ نہ کرنے کا،وہ زردادحیدرکیلئےقلب شوی کی مانند رہنے والی تھی جسکی مسکراہٹ ،جسکے بھولےپن میں زردادحیدر کی سانس اٹکنےجارہی تھی۔
علیزے تحیرزدہ سی اسکی حرکت کو دیکھتی اسکی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔آج کل حیدر اسے اپنے ہونٹوں کے لمس سے جو آشنائی دےرہا تھا وہ علیزےکو پریشان کررہی تھی۔جانے کیوں وہ عجیب احساس میں گھر رہی تھی۔زردادحیدر نے اسکا حیران ہونا بخوبی دیکھا اور مسکراتے ہوئے اس کے اوپر سے ہٹتے اسکے برابر تکیے پر سرٹکاتے اسکا سر اپنے بازو پر رکھا تھا۔
"جب زردادحیدر آپکے آس پاس ہوں لیزے تو؟ آپکو ان سے دور جانے کے بہانے ڈھونڈنا الاؤ نہیں ہے۔ہم یہاں ہیں صرف آپکیلئے اور آپ بیڈ چھوڑ کر صوفے پر جانے کا سوچ رہی ہیں جو کہ ہمیں بلکل پسند نہیں آیا ہےبس یہ عمل اسکی سزا سمجھ لیں آپ جب جب ہم سے دور جانے کی بات کریں گی ہم ایسےہی آپکوسزا دیا کریں گے۔"
حیدر کی آواز میں ناراضگی نمایاں تھی۔علیزے کی جان پر بنی وہ زرا سا اوپر کو اٹھتے اسکا چہرہ دیکھنے لگی تھی جو بلکل سپاٹ تھا۔یقینا وہ علیزے سے تضاد بھرا کوئی مذاق نہیں کرتا تھا۔
"ہم نے اسیلئے بولا تھا تاکہ آپ یہاں کھلے ہوکر سوسکیں ۔لیزے کا بیڈ تو چھوٹا ہے نا اور آپ اس پر نہیں سوسکیں گے حیدر۔۔۔"وہ اسکا ہاتھ اپنے
مخروطی ہاتھوں میں لیئے بےچین سی بولی تھی۔
"اوہوں گنجائش دلوں میں ہونا چاہیئے علیزےحیدربیڈ کا کیا ہے ہم دونوں اتنی آسانی سے اس پر ایڈجسٹ ہوسکتے ہیں۔۔بلکہ آپ چاہیں تو اپنے سونے کیلئے اس بندے کا وسیع سینہ بھی استعمال کرسکتی ہیں یقین مانیں یہ ہمارے لیئے بےحد مسرت کا باعث ہوگا۔"
حیدر نے اسکا ہاتھ اپنے چہرے پر مسلا تھا۔علیزے اسکی داڑھی کی چبھن پر زرا سا مسکائی تھی جبکہ زردادحیدراسکی مسکان کی خوبصورتی میں کھوساگیا تھا۔
"سوری ہمارا ایسا کوئی مطلب نہیں تھا اور ہمیں اچھا لگے گا ،آپ ادھر ہونگے ہم ڈریں گے بھی نہیں۔۔۔"
علیزے نے زرداد کی حرکت دہراتے اسکےہونٹوں کو چھوا اور پھر اپنے رخسار اسکے رخساروں سے مس کیئے،اسکےپیار کا انداز لوٹایا تھا۔علیزے انجانے میں اس شخص کے اندر نئی آگ جلارہی تھی۔
"مت اتنی پیاری لگا کریں علیزے کہ حیدر کی جان نکلنے لگے۔۔۔"
حیدر نے اسے ایک دم خود میں بھینچتے ہوئے گھمبیر آواز میں اسکے کانوں کے پاس سرگوشی کی تو وہ اسکی شدتوں پر گھبرائی تھی۔زردادخود بھی نہیں جانتا وہ اس عمرکی قید سے خود کو آزاد کیوں محسوس کررہا تھا؟اس نے شاید ہی علیزے کے ساتھ عمربھر کے خواب سجائے ہوں بلکہ جوں جوں علیزے ،بالپکن کی حدیں کراس کرتی جوانی کی دہلیز پر قدم دھررہی تھی اسکے اندر ایک عجیب پکڑ دھکڑ ہونے لگی تھی۔جب وہ اپنے اور زرداد کےرشتے کی سمجھ بوجھ میں آئے گی تو کیا تب بھی وہ ایسے بچکانہ حرکت کرسکے گی؟اور سب سے بڑھ کر کیا وہ زرداد کو اپنا ہمسفر بناپائےگی جبکہ ،وقت بڑھتے زردادحیدر کی عمرڈھلنےوالی ہوگی۔۔۔ایک دم کئی جان لیوا سوچیں اس پر حملہ آور ہوئیں تو اسکے اندر سناٹے بھرنے لگے تھے۔علیزے کو ایک رشتے کی آگاہی نہیں بلکہ اپنے ،ماں باپ کی موت کی وجہ بھی پتا چلی تو شاید وہ ہمیشہ کیلئے زردادحیدر سے دور ہوجائےاور تب وہ اسکی جدائی ہرگز برداشت نہیں کرسکے گا۔عجیب منجدھار میں پھنسی زندگی بنتی جارہی تھی جو دل و دماغ کی تاویلیوں میں قید ہوگئی تھی مستقبل کےاندیشے مکمل خوشی نہیں دے پارہے تھے۔زردادنے بےچینی میں گھرتے علیزے سے فاصلہ بنایا تھا۔
"آپ نے کہاتھا آپ علیزے کو میتھ کے ایگزام میں ہیلپ کریں گے کل ہمارا ایگزام ہے اور ہم شاید اس بار بھی فیل ہوجائیں۔" زرداحیدرنے چونک کراسے دیکھا تھا آیا یہ اسکےشدت سے پرلمس پر طرز تغافل تھا یا وہ واقعی ایگزام کو لےکر ٹینس تھی۔پر اسکے تاثرات دیکھ کر کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھا۔
"ہم بھی تو اپنے ایگزام میں فیل ہورہے ہیں علیزے حیدر ،فیل ہونا اتنی بھی بری بات نہیں ہوتی ہے۔"زردادحیدرکھوئےکھوئےاندازمیں جانے اسے کون کون سے مفہوم سمجھانا چاہتا تھا جو ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی تھی۔
"پرمام ،ڈیڈ تو کہتے تھے آپ بہت جینئس ہو پھر آپ کیسے فیل ہوسکتے ہیں؟"علیزے الجھی تھی زردادحیدر اسکی معصومیت کی گتھیاں سلجھانےلگا تھا۔
"اگر آپ چاہتی ہیں نا ہم اور آپ ہمارے ایگزام میں فیل نہ ہوں تو آپکو حیدر کی کچھ باتیں ماننی ہوں گی ۔"
زردادحیدرجانتا بھی تھا کہ وہ اس لڑکی کی عمر سے بڑے حساب چاہتا تھا پر وہ دل کا کیا کرتا جو لمحہ بہ لمحہ اسکی طرف مائل ہورہا تھا۔کہیں رومی کی باتیں سچ تو نہیں تھیں؟وہ کم سن کلی پر ایمان کھورہا تھاپر وہ اسکے نکاح میں تھی یہ الفت فطری تھی جو وہ اسکا بیمار ہورہا تھا۔
"بتائیں نا حیدر ،آپ ہمیشہ اچھی باتیں بتاتے ہیں۔۔"
وہ پراشتیاق انداز میں زردادحیدر کے شانے پر سررکھے بولی تھی۔زردادکیلئے یہ تنہائی اور یہ وجودآزمائش بن رہا تھا جبھی وہ اٹھ بیٹھا۔
"علیزے اگر آپکو کامیاب ہونا ہے تو اپنے خوف پر قابو پانا ہوگا۔بالفرض اگر آج ہم یہاں نا ہوتے تو کیا کرتیں آپ؟کسکو اپنے پاس بلاتیں؟"
زرداد نے اس سچویشن پر بازپرس کی شاید وہ اپنا دھیان بٹانا چاہتا تھا۔
"تو ہم دایا جان کو بلالیتے۔۔۔"علیزے نے جھٹ سے جواب دیا جب وہ نفی میں سرہلا گیا۔
"نہیں علیزے ،دوسروں کےسہارے لینا چھوڑ دیں ،اپنی اون پر جینا سیکھیں۔۔۔"زردادکےلب وہ لہجے میں ایک زمانے کی تھکن آسمٹی تھی جبکہ وہ اسے ناسمجھی سے دیکھنے لگی۔باہر بارش شاید رک چکی تھی تبھی بادلوں کی گھن گرج میں کمی تھی۔
"رہ لیں گی نا آپ اکیلے؟"زردادکا اندازایسا ناقابل فہم تھا کہ وہ سرہلاگئی تھی اور کیا کرتی۔زرداد اسکے قریب سے اٹھ گیا تھا جبکہ علیزے اسے جاتے دیکھ رہی تھی جیسےکسی بچے کا من پسند کھلونا کوئی اور لےگیا ہو۔پر زردادنے کہا تھا اسے ڈرنا نہیں ہے اور وہ واقعی نہیں ڈری۔اس نے اکیلے سنںبھلنا سیکھ لیا تھا۔
#ناول

★★★★★★★★★★★★★★★

آبریش کو سوئے ابھی کچھ دیر گزری تھی جب وہ اسکے روم میں آیا تھا۔چونکہ سیکورٹی کے لحاظ سےنورمحل میں ہر طرح کی بیفکری تھی تبھی وہ بھی ان سب کی طرح دروازے بندکرکے نہیں سوتی تھی۔
اسفندیار نے نائٹ بلب کی روشنی میں اسکے دودھیائی چکمدار چہرے کو دیکھا تھا اور اس پر جھکتے گویا اپنے رشتے کا استحقاق جتاتا لمس چھوڑا تو وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی تھی۔
"تم یہاں کیا کررہے ہو؟"
وہ اسے سامنے دیکھ کر چٹخی تھی اس رات کے بعد سے انکا سامنا نہیں ہوا تھا۔
"اماں سائیں بتارہی تھیں کہ انکی بہو مجھے یاد کررہی تھی؟"
وہ آبریش کا ہاتھ تھامے اسکے برابر لیٹا تھا۔وہ اسکی حرکت پر سیخ پا ہوتی اٹھنے لگی تھی جب اسفندیار نے اپنا بازو اسکے سینہ پر رکھتے اسکے اٹھنے کی کوشش ناکام بنادی تھی۔
"اگر بناکسی فضول حرکت کے خاموشی سے لیٹی رہیں گی تو یقین مانیں آپکا اپنا فائدہ ہے۔"
اسفندیار نے اپنے مخصوص دھیمے انداز میں کہتے اسکے تنے تنے نقوش کا جائزہ لیا تھا۔
"ہاں فائدے نقصان کی بات تم نہیں کروگے اسفندیار تو اور کون کرے گا لیکن میں تمہیں یہ بتادوں کہ میں اساوری نہیں ہوں جو تمہاری عیاشی کا سامان کرے۔"
وہ اسکا ہاتھ اپنے سینے سے ہٹانے کی تگ ودو کرتے بولی تھی جبکہ اسکی بات اسفندیار جیسے کول مائینڈ بندے کو بھی چٹخ گئی تھی۔اب کے اس نے آبریش کے دونوں ہاتھ اپنی گرفت میں لیئے تھے۔
"آپ نے مجھے بہت مایوس کیا ہے آبریش لگتا ہی نہیں کہ آپ امریکہ جیسے کھلے ڈلے ماحول سے آئی ہیں ۔وہیں ٹیپکل بیویوں والے طعنے بہرحال میں اپنی اس دن کی حرکت پر معذرت کرنے آیا تھا لیکن یہاں آکر پتا چل رہا ہے کہ آپکا دماغ تو اچھا خاصہ خراب ہوچکا ہے جسے درست کرنے کیلئے مجھے رخصتی کا انتظار کرنا فضول لگ رہا ہے۔"
اسکی گھمبیر آواز نے کمرے کے ماحول کو پرسرار سا بنایا تھا۔
"یہ تمہاری شدید غلط فہمی ہے اسفندیار کہ میں تمہیں رخصتی کا موقع بھی دونگی۔"
اس نے استہرائیہ انداز میں کہتے اسفندیار کا مذاق ہی اڑایا تھا جب اسفندیار نے اس پر جھکتے ہوئے اپنے لب اسکے عریاں لباس سے جھانکتی کہکشاؤں پر رکھتے کچھ خاص لمحے مستعار لیئے تھے۔
"تو موقع چاہیئے کسے آبریش صاحبہ۔۔۔"
اسکا ذومعنی انداز اور حرکتیں آبریش کو ٹھنڈے پسینے سے تر کرگئی تھیں۔یہاں موجود اسفندیار کے اس انداز سے تو وہ ناواقف ہی تھی۔
"کک۔۔۔کیا کررہے ہوتم ،اگر تمہیں لگتا ہے میں اساوری کی طرح تمہاری زورزبردستی پر خاموش ہوجاؤنگی تو۔۔۔۔"
"شش۔۔۔چپ بلکل چپ آبریش ،جانتی ہیں اس لمحے میں آپکی سانس لینے آواز بھی مجھے بلکل اچھی نہیں لگ رہی ہے آیا کہ کسی رقیب کا ذکر۔۔۔"
اسفندیار نے مصنوعی بٹنوں سے اٹی اسکی شرٹ کو اسکے سینے سے رہا کیا تو حددرجہ بولڈ رہنے کے باوجود بھی آبریش اس حرکت پر خود میں سمٹ گئی تھی جبکہ اسفندیار شاید اس بات سے آگاہ ہی نہیں تھا کہ اسوقت وہ آبریش پر اپنے حق جتانے کی ہر حد سےگزر رہا تھا شاید۔
آبریش نے اپنے وجود کو حجاب کی آڑ میں لینے کی خاطر اسفندیار کی طرف پیٹھ کرلی تھی۔
عریاں کہکشاؤں کا منظر تو جیسے بادلوں کی اوٹ میں چھپ گیا تھا پر اسفندیار ان شادابی ہونٹوں کی لذت سے محرومی کا بھی شکار ہوا تھا۔
اسکے ہاتھ آبریش کی کمر کے بل خم میں الجھتے ناف کا پیالہ ناپنے لگے جس نے میں محبت کے كنكر پھینک پھینک کر اپنی پیاس بجھانے کو اپنے لب اسکی کمر پر رکھ دئیے تھے۔
اسقدر جان لیوا لمس ،آبریش کو لگ رہا تھا اگر وہ اسی طرح کچھ دیر مزید اسکے سامنے بےبس ہوئی تو اپنا آپ ہار دے گی۔اس سے پہلے کہ اسفندیار کے ہاتھوں کا پرحدت لمس اسکی پیٹھ سے ہوتے اسکے وجود کو اس بےحجاب لباس سے مکمل آزادی بخشتا وہ اسے جھٹکتے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
دل کی دھڑکنیں ادھم مچاتیں ،کسی انہونی کا اشارہ دے رہی تھیں۔
"پلیز اسفندیار تم جاؤ یہاں سے۔"
وہ اسکی جانب ہنوز پیٹھ کیے ٹہری تھی جب وہ بستر سے اٹھتے اسکے مقابل آیا تھا اور اسے پشت سے جکڑے دیوار کے ساتھ لگاتے اسکا رخ اپنی جانب کرلیا ۔
"کیوں؟ابھی سے ہار گئیں آپ جبکہ میں تو آپکو آپکے بھاری لفظوں کے مطلب بھی نہیں سمجھا پایا جو آپ میری ماں کے سامنے بول کر آئی ہیں۔"
اسفندیار کے لہجے نے اسے ڈگمگایا تھا۔وہ اسکی چاہ میں مغلوب ہوکر اسکے وجود پر اپنی راجھستانی قائم کرنے نہیں آیا تھا بلکہ وہ تو اسکے بولے لفظوں کو کسی تماچے کی مانند لوٹانے آیا تھا۔
"آپ نے ہی تو کہا تھا اس محل کے مردوں کو جہاں موقع میسر آئے وہ اسے اپنی عیاشی کا اڈہ بنالیتے ہیں تو آبریش شاہ مجھ پر یہ فرض کردیا گیا ہے کہ ان لفظوں کا قرض لٹاؤں ،میں آپکو بتاؤں کہ آپ کس قدر اپنی بات کی سچی ہیں۔"
دھیرے دھیرے اسفندیار کی آواز ہی نہیں بلکہ اسکی گرفت بھی سختی پکڑ رہی تھی جبکہ وہ گنگ سی ٹہری تھی۔
"مجھے لگا تھا جب کبھی میرے کردار کی گواہی کا موقع آیا تو آپ صف اول آکر مجھے باکردار ثابت کریں گی کیونکہ کئی بار کے ایسے مواقع تھے کہ اپنا پورا حق رکھنے کے باوجود میں نے آپکی طرف دیکھنا بھی گناہ سمجھا تو آپ نے یہ کیسے مان لیا کہ اسفندیارولی اسقدر گراوٹ کا شکار شخص ہوگا جو اپنے گھر کی بیٹی پر بری نگاہ ڈالے گا ؟"
اسفندیار کے دونوں ہاتھ اسکے کندھوں میں گڑ سے گئے تھے۔
آبریش کے دل ودماغ میں دھواں سا بھررہا تھا جب اس نے اپنے لبوں کی جنبش کے ساتھ ،اپنے جبڑوں کا کمال بھی آبریش کے نازک وجود پر چھوڑا تو وہ تڑپ اٹھی تھی۔
"مم۔۔مجھے غلط فہمی ہوئی تھی۔۔سس۔۔سوری اسفندیار۔۔۔"
اسوقت آبریش کو کچھ نظر نہیں آرہا تھا ماسوائے اسکے کہ وہ اپنی غلطی مان کر اس شخص سے جان خلاصی کرلیتی ۔
"ایسے کیسے میری جان ،اتنی آسانی سے معافی تھوڑی نہ ملے گی۔۔۔"
اسفندیار نے کہتے ساتھ ہی اسکے وجود کو لباس کی قید سے رہا کیا تو وہ چیخ اٹھی تھی جبکہ وہ اس پر جھکتے اسکے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں کی ظالم قید میں لےگیا تھا۔۔۔۔


یہ انتہائی خوبصورت ای۔بکس آپ اوریجنل قیمت ❌/ڈسکاؤنٹ پرائس 600 پر حاصل کرسکتے ہیں۔۔۔مزید تفصیلات کیلئے انباکس کریں۔۔۔۔
♡♡。♡♡

12/02/2024

"لیزےبیبی ،سر آپکوروم میں بلارہے ہیں۔"
وہ ابھی گھر میں داخل ہوئی تھی جب آتے ساتھ ہی پیغام ملاتھا۔زرداد کے آنے کی خبر تو گویا ہفت قلیم ہاتھ میں آجانے جیسی تھی۔اس نےہاتھوں میں پکڑا سکول بیگ ایک طرف پھینکا اور تیزی سے اسکے کمرے کی طرف بڑھی تھی۔سامنے ہی وہ اپنی رولنگ چئیر پر شاید اسی کے انتظار میں بیٹھا تھا۔گزرے پانچ سالوں نےاسکی صحت پرگہرا اثر ڈالا تھا۔کثرت سے تمباکو نوشی نےاسکےسرخ وسپیدہونٹوں کو کملادیا تھا تو وہیں ہمہ وقت ایک فریم لیس چمشہ اسکی آنکھوں کی زینت بنا رہتا ۔ابھی وہ تیس سال کا ہندسہ ہی عبور کررہا تھا مگر وقت اور حالات کی گردش نے جس بھنور میں لیا تھا وہ اپنی عمر کے لوگوں جتنا شوخ وچنچل نہیں رہا تھا۔ضمیر پر جو ایک مستقل بوجھ تھا وہ اسےاردگرد سے بیگانہ رکھتا تھا۔علیزے کی آہٹ پاتے وہ چونکا تھا جسکے چہرے پراسکی آمد کا جان کر لالی بکھری ہوئی تھی۔
"آپ آگئے؟آپکو پتا بھی ہے ہم نے آپکو کتنا یاد کیا ہے۔نا تو آپ ہماری کوئی کال اٹھا رہے تھے نا ہیروشن بی کے کسی مسیج کا جواب دیا۔آپکو پتا ہے ہم کتنےزیادہ پریشان ہوگئے تھے۔"
وہ اسکےسامنے دوزانو بیٹھتے اسکےدونوں ہاتھ تھامےروہانسےانداز میں بول رہی تھی جبکہ وہ خاموش نظروں سے اسکا جائزہ لینے میں مصروف تھے۔وائٹ یونیفارم پر نیوی بلو شولڈر پٹی ،ترتیب سے بنائی گئی دو چٹیا اور بھیگی سبز آنکھیں۔پھولےگالوں پر چھائی سرخی اور یاقوتی ہونٹوں پر چھلکتا گلابی پن ،کچھ بھی تو نیا نہیں تھا پھر اسے کچھ الگ ،لگ رہا تھا۔
"پریشان ہونا چھوڑ دیں لیزے کیونکہ ہماری جاب ،ہمارےوقت پر ہمارا بس نہیں ہےاور کھانا نا کھانے کی ضد کیوں کررکھی ہے آپ نے؟"
اسےیاد آیا تھا کہ وہ یہاں کس وجہ سے موجود تھا۔صبح ہی روشن بی نےانہیں کال کرکے علیزے کی بھوک ہڑتال کا بتایا تھا اور وہ سب چھوڑ چھاڑ کریہاں آن پہنچا۔
"اگر کھانا نا چھوڑتے تو آپ کیسے یہاں آتے؟"
اس نے ضدی بچے کی طرح کہتے ہوئے اپناسراسکے گھٹنوں پر ٹکایا تو وہ سیدھے ہوتے اسکا سر اپنے گھٹنوں سے ہٹاگیاتھا۔گویا ناراضگی کا جواب ،ناراضگی سے ہی دیا گیا تھا۔
"کتنی بار کہیں آپکو علیزے ،اب آپ بچی نہیں ہیں ۔اس سال آپ نے میٹرک کے ایگزامز دینے ہیں اور نیکسٹ سیشن میں کالج جوائن کرنا ہے آپکو۔آپکی یہ بچوں والی حرکتیں کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہیں اب ہمارے لیئے سو بی میچور علیزے ،روشن بی سے کہیں کھانا لگائیں ہم آرہے ہیں۔"
اسکی آنکھوں میں چھایا غصہ ،کمال ضبط کی مثال تھا جو بمشکل اسےسخت سنانے سے خود کو بعض رکھے ہوئے تھا۔
"پر ہم روز روز گھر کا کھانا کھا ،کھا کر تھک چکے ہیں ہمیں باہر جانا ہے۔"
علیزے پر زرا بھی اسکی ڈانٹ کا اثر نہیں ہوا تھا اور ہنوز اسی ضدی انداز میں کہا تھا۔
"علیزے۔۔۔"
"کہا نا گھر کا کھانا نہیں کھانا ہے۔"وہ سامنے موجود شخص کے عہدے اور رعب سے زرا بھی مرعوب ہوئے بغیر بولی تو مقابل کی آنکھوں میں حیرانی در آئی تھی۔
"آپ کب سے اتنی ضدی ہوگئیں علیزے؟"
مقابل نے دانت کچکچاتےہوئے اسے بازو سے تھامے کھڑا کیا تھا ۔علیزے اس گرفت پر بلبلائی تو اسے اندازہ ہوا کہ وہ انجانے میں اسے ہرٹ کررہا تھا تبھی فورا اسکا بازو چھوڑتے،اسے شانوں سے تھامے اپنے سامنے کیا تھا۔جب وہ اسکی زرا سی توجہ پاتے کشادہ سینے پر سررکھتے سسک اٹھی تھی۔
"ہمیں یہاں نہیں رہنا ہے،ہمیں اپنے ساتھ لےجایا کریں جہاں بھی جائیں،ہم ہروقت آپکے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔۔۔"
زرداد حیدر نے حیرت سے اپنے سینے سے لگی علیزےکو دیکھا تھا۔یہ پہلی بار نہیں تھا کہ وہ اسطرح اسکے سینے سے لگی کچھ بول رہی تھی نا اسکے یہ آنسوؤ پہلی بار زردادحیدر کے سینے پہ اپنا نقش نہیں چھوڑ رہے تھے لیکن پہلی بار کچھ ایسا انوکھا تھا جو وہ محسوس کررہا تھا۔علیزے کو یوں اپنے سینے سے لگانےسے،اندرکی جلن کا احساس کم ہورہا تھا ،پیاسی دھرتی پر باراں کا سماں تھا اور ایک تشنگی سی مٹتی محسوس ہورہی تھی۔وہ جو بےچین سا ادھر ادھر گھوم رہا تھا ایسا لگ رہا تھا کسی منزل کا سائیہ میسر آیا ہو۔پر اسکی یہ حالت کچھ دیر کیلئے تھی اور پھر وہ اسےنرمی سے خود سے الگ کرگیا تھا۔
اسے شانوں سے تھامے اپنے سامنے کیا اور بغور اسکا جائزہ لینے لگا تھا۔ایسا کیا انوکھا تھا جو آج سے پہلے وہ علیزےحیدرمیں نہیں دیکھ پایا تھا؟
زردادحیدر کی آنکھیں اس معصوم اپسرائی چہرے سے ہوتیں اسکے وجود سے پھوٹتی کونپلوں پر آٹکی تھیں۔وہ چونک اٹھا تھا۔عیلزےکایہ روپ اور یہ منظر اسکی آنکھیں چندھیانے لگا تھا اور اسکے ماتھے پر پرشکن لکیروں کا جال بچھنے لگا تھا۔
"آپکا دوبٹہ کہاں ہے علیزے؟"
زرداد کی بات پر اس نے ناسمجھی سے اسے دیکھا تھا۔وہ اسکی آنکھوں میں ابھرتی حیرت سے انجان نہیں تھا کیونکہ آج سے پہلے زرداد نے کبھی اس سے دوبٹے کا جو نہیں کہا تھا۔
"وہ۔۔تو۔۔۔سکول یونیفارم کے ساتھ یہی دوبٹہ لیا جاتا ہے۔"
علیزے نے گرے کلر کی شولڈرسٹرپ میں جکڑی دوبٹہ نما پٹی کی طرف اشارہ کیا تو زرداد حیدر کی آنکھوں میں سرخی ابھری تھی۔
"آج کے بعد آپ یہ ربن پٹی نہیں بلکہ پراپر چادر میں سکول جائیں گی علیزے۔۔۔۔۔ریممبراٹ،روشن بوا۔۔۔روشن بوا۔۔۔"
زرداد حیدر نےاسکے شانے جھٹکتے ہوئے حکم دیا تو وہ منہ بسور گئی تھی۔
"پرحیدر،پرنسپل میم۔۔۔"
"میں ان سے بات کرلونگا۔۔"
علیزے نے اسے امریکن سکول رولز سے آگاہ کرنا چاہا تو زردادحیدر نےبحث کی گنجائش ہی ختم کردی تھی جب روشن بوا اندر آئی تھیں۔
"بوا ،آپکو علیزے کی ڈریسنگ کا کوئی خیال کیوں نہیں ہے وہ کیا پہن رہی ہیں کیا نہیں اس بات کا دھیان رکھنا ضروری سمجھ رہی ہیں آپ کہ نہیں؟"
زردادحیدرنے علیزے سےنظریں ہٹائے اب کے بوا کی کلاس لی تو وہ آئیں،بائیں ،شائیں کرتی نظر آئی تھیں۔
"علیزے گڑیا تو ہمیشہ سے ایسے لباس پہنتی ہیں ،بیٹا اور آپ خود ہی تو لاتے ہیں پھر۔۔۔"
"منع بھی تو کرسکتی ہیں آپ مجھے ،کیا علیزے آپکی اپنی بیٹی ہوتی تو بھی آپ اسے اسطرح اسکول بھجتیں؟"
زرداد حیدر کے اندیشوں سے بےپرواہ علیزے ناخن چباتی اسے بوا پر غصہ ہوتے دیکھ کر مزید کنفیوژ ہورہی تھی۔
"غلطی ہوگئی بیٹا ہم اسکیلئےمعذرت کرتے ہیں۔آئیندہ سے دھیان رکھیں گے۔"
روشن بوا نے فورا سے معذرت کی تو وہ ان دونوں سے رخ پھیرگیا تھا۔۔۔۔۔
چائلڈ ہوڈ+فورسڈمیرج نکاح بیسڈ ناول ناول۔۔۔۔
Bing Bang Offer on new and old ebooks For more detail inbox on page۔۔۔۔۔۔۔۔

03/12/2023

روشن بی نے حیرت زدہ نظروں سے اسے دیکھا جو آئینے کےسامنےٹہری آسمان سے اتری کوئی اپسرا معلوم ہورہی تھی۔وہ پراشتیاق نظروں سے اسے دیکھتے اندرداخل ہوئیں جب روشن بی کے عکس کو دیکھتے وہ پوری طرح مسکائی تھی۔
"ہم کیسے لگ رہے ہیں روشن بی؟"
علیزےکےہونٹوں کے نیچےموجودسنہرا تل مسکرایا تھا اور ساتھ ہی اسکےرخساروں پر ڈمپل ابھرکےمعدوم ہوئےتھے جبکہ نیچرل گلابی ہونٹ آج گہرے رنگ کی لال لپ اسٹک میں لتھڑےتھےتوسبزآنکھوں کی چمک ہی نرالی تھی۔
"بہت پیاری آسمان سے اتری پری جیسی،پر یہ ساڑھی کہاں سے آئی آپکےپاس گڑیا؟کیا زرداد نے دلائی ہے۔۔۔؟"روشن بی نے اسکی نظراتارنےکوپلومیں بندھےچندسکےاس پر وارے تواسکی مسکراہٹ فخر سےمزیدگہری ہوئی تھی جبکہ وہ انکی غلط فہمی پر مسکرائی تھی۔اگر اسے پتا ہوتا کہ زرداد کوساڑھی اور ریڈرنگ اتنا پسندہے تووہ اس دن لےلیتی پراگلی بار کا سوچتے اس نےخود کو مطمئن کیا تھا۔
"پریہ سب؟کیا اسکول میں کوئی فنکشن ہےگڑیا؟"روشن بی نےاسے خاموش مسکراتے دیکھ کر اسکےشانےپربکھراپلو سیٹ کرتے ہوئےپوچھا تھا جب وہ زوروشور سے نفی میں سرہلاگئی تھی۔
"نہیں ہم ،حیدرسے ملنےجارہےہیں روشن بی۔"علیزےنےاپنی تیاری کا مقصدبتایاتوروشن بی ٹھٹھکی تھیں۔زردادحیدرسےتووہ پہلے بھی ملنےجاتی تھی بلکہ شاید وہ گھر پر واحدشخص تھی جسےزردادحیدرسےملنےکی جلدی رہتی تھی پر اس بار اسکا انداز انوکھاتھا۔
"یوں سج سنور کےگڑیا؟"روشن بی نےکچھ جھجھکتے ہوئےپوچھا جب اس نے زورشور سےسراثبات میں ہلاتے،ہائی ہیل سینڈل اٹھائے تھے۔
"جی روشن بی تاکہ حیدر ہمیں تیار دیکھ کر ڈیٹ پر لےجائیں جیسےرومی آپی کولےکرجاتے ہیں۔"
علیزےکےانکشاف نے ان پر گھڑوں پانی پھیرا تھا۔اگرزردادحیدرکےکانوں میں اسکےعظیم فرمودات اورنادرخیالات پہنچ جاتے توروشن بی کی خیر نہیں تھی۔وہ انکی تربیت پرحرف لانے پرتلی تھی۔
"یہ۔۔۔یہ سب کس نے کہا آپکو علیزےکہ حیدرسےملنے کیلئےایسےتیار ہوناضروری ہےاور کھانے پر تو وہ آپکو ہمیشہ لےکرجاتے ہیں گڑیاپھراتنی محنت۔۔۔"
"پرہمیں کھانےپرنہیں جانا روشن بی ہمیں حیدرکےساتھ ڈیٹ پرجانا ہے۔"
علیزےنےروشن بی کو کم عقل گردانتےفلسفہ جھاڑا جبکہ وہ دل تھام کر ںیٹھ گئی تھیں۔
"علیزےگڑیا یہ سب ۔۔۔یہ سب کس نے کہا آپکو؟"
روشن بی جانتی تھیں علیزےکبھی اس نہج پر نہیں سوچتی یقینا اسکے پیچھےکوئی اور تھا۔
"ضربان نے،اس نے کہا ہےاگر ہم چاہتے ہیں حیدرہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں تو ہمیں انکےساتھ ڈیٹ پر جانا ہوگا بلکل رومی آپی کی طرح ریڈساڑھی میں۔"
روشن بی کے سامنے اپنی تیاری کے محرکات بیان کرتے بہت فخر سےضربان کی پڑھائی پٹی کا بتارہی تھی جب زردادحیدر کی گاڑی کا ہارن دروازے پر سنائی دیا تھا۔
"حیدرآگئے۔۔۔"وہ ستارہ آنکھوں میں روشنی دہکاتی باہر لپکی جبکہ روشن بی کے پاس کچھ کہنے ،سننے اور روکنے کو کچھ نہیں تھا شاید وہ چاہتی تھیں زرداد حیدر ،ضربان کی لگائی آگ کا فیصلہ خود کرے۔
ادھر وہ جیسے ہی گاڑی سےنکلا تھا سامنے ہی علیزے اپنے کم سن حسن ،کو دوآتشہ کیئےزردادحیدرکیلئےآزمائش بن کر آٹہری تھی۔
اپنے روم کی بالکونی سے جھانکتےضربان کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ وہ اچھے سے جانتا تھا زرداد حیدر کو سرخ رنگ سے کتنی نفرت تھی اور علیزے سرتاپیرسرخ رنگ میں رنگی اسکے سامنے تھی۔
"حیدر۔۔۔"وہ اسکی طرف جوش وخروش سے لپکی تھی جب زرداد نے اپنے قریب آتی علیزے حیدر کو بازو سے تھامے ایک طرف کیا تھا۔علیزےکےشانےپراٹکا پلو ایک طرف ہوا تو کم سن کلیاں ،کھلے گریبان سے جھانکتی نظرآئیں۔زردادکا دماغ سنسنااٹھا تھا اس تصور سے کہ وہ ملازموں کے سامنےاس حلیے میں تھی۔
"یہ سب کیا ہے لیزے؟وہاٹ دا ہیل از دس۔۔۔روشن بی ،روشن بی۔۔۔"
ایک نظر اس پر ڈالتے وہ قہرآلود آواز میں روشن بی کو آوازیں دینے لگا تھا۔
"یہ سب ہم نے آپکیلئے کیا ہے حیدر تاکہ آپ ہمیں بھی رومی آپی کی طرح ڈیٹ پر لےجائیں۔"
علیزےحیدر اسکے سرخ چہرے کو نوٹس میں لائے بغیر پھرسے اسکے بازو سے کمبل ہوئی جب وہ اسےپیچھے جھٹک گیا تھا۔علیزے،ہائی ہیلز کا بیلنس قائم نہیں رکھ سکی تھی اور نیچےگری تھی۔
ضربان حیدر کو اس لڑکی پر تھوڑا ترس ضرور آیا تھا پر وہ اسکی وجہ سے اذیت میں تھا ،اپنے بھائی سے دور ہوچکا تھا جبھی بالکونی سے نکلتے روم میں آگیا تھا اور تیز آواز میں میوزک چلائے اپنے سلگتے اعصاب کو ٹھنڈا کرنے لگا۔
"علیزے بچے۔۔۔"روشن بی نے آتے ساتھ ہی اسے سنبھالا جو حیرت و بےیقینی سے اسے دیکھ رہی تھی۔اسے یاد نہیں تھا کہ زردادحیدر نے اسے کبھی یوں جھٹکا ہو یا ان تیوروں میں بات کی ہو۔
"یہ سب کیا ہے روشن بی؟یہ تربیت کررہی ہیں آپ اسکی۔جانتی ہیں سرخ رنگ سے مجھےکتنی نفرت ہے اور پھر یہ سب خرافات ڈالیں گی آپ اسکے ذہن میں؟کانٹ بلیو اٹ۔۔۔"
وہ بنا حقیقت جانےساراملبہ روشن بی کی تربیت پر ڈال گیا تھا جنکی آنکھیں اسکے سرد لب ولجے پر بھیگی تھیں۔
"آپ روشن بی پر کیوں غصہ ہورہے ہیں حیدر،یہ ڈریس ہم نے اپنی مرضی سے پہنا ہے۔ہمیں ضربان نے کہا تھا اگر ہم چاہتے ہیں حیدر ہمارے علاوہ کسی کے ساتھ ڈیٹ پر نہ جائیں تو ہم آپکا فیورٹ کلر پہن کر آپکے سامنے آجائیں پھر آپ ہمیں ڈیٹ پر لےجائیں گے۔"
علیزے نے روشن بی پر اسکا غصہ کرنے کا بہت برا مانتے انجانے میں ضربان کی لگائی چنگاری کا پتا زرداد کو دیا تو وہ اسے بےیقینی سے دیکھ کر رہ گیا تھا۔
"یہ سب کرنے کا ضربان نے کہا ہے آپکو؟"
زردادکی حیرت میں ڈوبی آواز پر اس نے بھیگی آنکھوں کو جھپکتے اثبات میں سرہلایا اور تیزی سے واپس پلٹتے انیکسی میں گم ہوگئی۔اپنے روم میں آتے اس نے روم لاک کیا اور آئینے کے سامنے رک کے خود کو دیکھا۔وہ اسوقت اپنی عمر سے کئی گنا بڑی عورتوں کا حلیہ اپنائے ہوئے تھی پر اسے حیدر کے سامنےاچھا لگنا تھا یہ اسکی خواہش تھی جو اسکے دل ودماغ میں پنپتی تھی۔پر حیدر نے اسے ریجکٹ کردیا۔علیزے کا دماغ کلسنے لگا تھا اس نے انتہائی بےدردی سے اپنی چوڑیوں سے لےکر وجود پر سجسئے مصنوعی زیور کو چور چور کیا تھا۔
ادھر زردادکوبری طرح شرمندگی نےآن گھیرا تھا بنا اصل بات جانے وہ کیسے علیزے کو ہرٹ کرسکتا تھا؟اس بات پہ بھپرا وہ ضربان کے روم میں آیا جہاں دیواریں پھاڑ میوزک نے اسکا ویلکم کیا تھا۔ "یہ گھر میں رہنے کا کونساطریقہ ہے ضربان؟"زردادنے پلگ کو سوئچ کرتےضربان پر غصہ ہونے سے خود کو کنٹرول میں رکھتے پوچھا تھا۔
"کیا؟گھر میں رہنے کے بھی کوئی طریقے ہوتے ہیں بھائی؟"ضربان کا مصنوعی حیرت بھرا انداز زرداد کو تلملانے پر مجبور کیا تھا۔زرداد کا اس کمرے
میں دم گھٹنے لگا تھا جہاں چاروں اظراف رنگ برنگی ،ریسلرز،انمیٹڈ کریکٹرز کے فوٹو نصب کیئے گئے تھے۔
"پانچ منٹ میں مجھے لاؤنچ میں نظر آئیں آپ۔۔۔"زرداد انگلی اٹھائے اسے وران کرتے کہا تو اس نےمسکراتے ہوئےسرتسلیم خم کیا تھا۔زرداداسکی حرکتوں پر کلستا ہوا باہر آگیا تھا جبکہ وہ اسی لاپرواہ انداز میں اسکے سامنے تھا۔
"کیا اس حرکت کی وجہ جان سکتا ہیں ہم ضربان؟آخر علیزے کو اس منفی پروپگنڈہ کے ذریعے آپ کیا جتلانا چاہ رہے تھے؟"زرداد نے اسکے سامنے بیٹھتےہوئے پوچھا تھا جو چہرے کے کئی زاویے بنائےبیٹھا تھا۔
"آفکورس میں نے تو اسکا ہی بھلا چاہا تھا،آفٹرآل وہ آپکی بیٹرہاف ہے تو۔۔۔۔"
"ضربان ہم نے آپ سے جو پوچھا ہے صرف اتنا ہی جواب چاہیئے اور ہم اچھے سے جانتے ہیں کہ آپکو علیزے کی کتنی فکر ہے سو ڈوںٹ بی اورر سمارٹ۔۔۔"اب کے زردادحیدر کی آواز کافی بلندتھی۔ضربان بےچینی سےبائیں ٹانگ ہلاتے ہوئے بری طرح سے اپنے ناخن بھی چبارہا تھا۔
"پتا نہیں کیا ریزن تھی مگر اسکی آنکھوں میں آیا ہر آنسوؤں مجھے عجیب سا سکون دے رہا تھا۔مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آپ نے اسے اسکی اوقات یاد دلائی۔۔۔"ضربان کےچہرے پرفتح کا احساس ابھرا جبکہ زرداد نے تاسف سے نفی میں سرہلایا تھا۔
"ان بلیوایبل ضربان ،ہم سوچ نہیں سکتے تھے کہ آج بھی آپ اسی مقام پر ٹہرے ہوئےجہاں پانچ سال پہلے تھے۔وہ ایک بےضرر لڑکی ہے ضربان ،جسکی ذات یہاں کسی کیلئےخطرہ نہیں ہے تو پھر اسطرح کی حرکتیں کوئی معنی نہیں رکھتی ہیں۔۔سوائے اسکہ ،کہ یہ چیز بہت ڈسٹربنگ ہے ضربان۔۔"زرداد نےاسے پھر سے سمجھانا چاہا تھا۔
"بٹ یہ آپکولگتا ہےبھائی کہ علیزےبےضرر ہے ،شی سٹولن ایوری تھنگ ایون کہ آپ رومی سے پوچھیں اسکا اور میرا کنسرن ایک ہی ہے۔۔۔۔اس شاطر لڑکی نے ہم سے آپکو چھین لیا ہے پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ بےضرر لڑکی ہے۔"ضربان اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے تقریبا احتجاج کرتے ہوئے بولا تو زرداد اسکے اندر کی نیگٹوٹی پر کڑھ کے رہ گیا تھا۔
زردادایک بار پھر سے الجھ چکا تھا۔شاید ضربان کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہ علیزے کے چکر میں اپنےبھائی کو سب سے زیادہ ہرٹ کررہا تھا۔ایک طویل لیکچر کے بعد وہ ضربان سے پرامید ہوچکا تھا کہ شاید وہ علیزےکے معماملے میں درگزر سے کام لے۔۔۔۔
ای۔بک ناول
زردادقلبم،شوی۔۔۔
💞💞💞💞💞
دسمبرلارہا ہے ای۔بک ریڈرز کیلئے نئی آفرز اس سال کی بہترین نئیو ای۔بکس کے ساتھ۔۔۔

🏷️زردادقلبم شوی💖💞23k /600
(ٹوئنٹی رہڈرز والی آفر ختم ہوچکی ہے)

🏷️من درفقیرجاناں 23k/300

🏷️دلباران عشقاء 23k/200

دسمبر کی رومنیت سے بھرپور بہترین لانگ رومینٹک ناول اب آپکو ایک ساتھ ڈیل میں ملیں گے 800/ Rs
+بونس میں ملے گا آپکو "دلباران عشقاء" کا پی۔ڈی
ایف بلکل فری۔۔۔۔۔۔

اولڈ ای۔بکس آفرز۔۔۔۔22k

🔗ڈیل 1📚📚
🏷️رقیب عشقم (پارٹ 1)
🏷️لمس قربونت عشقم(پارٹ 2)
400/
🔗ڈیل 2📚📚
🏷️نزول عشق
🏷️دہلیز دل کا دیا
400/
🔗ڈیل 3📚📚
🏷️اسیرمحبت
🏷️مژگان محبت
🏷️When beast fall in Love

150/

😘😘📚اسکے علاوہ آپ ڈیل آفرز میں اولڈ ای۔بکس کوئی 2 ڈیل ،اسپیشل ڈسکاؤنٹ کے ساتھ650/ میں بھی لےسکتے ہیں۔۔۔۔۔

بکنگ اسٹارٹ ناؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لاسٹ ڈیٹ 5th دسمبر

18/09/2023

"قبول ہے۔"
اپنے قریب سے ابھرتی دھیمی آواز پہ اس نے سختی سے آنکھیں میچ لیں۔
"لکمیر"
داؤ جان کی آواز پہ اس نے بند آنکھیں کھولتے ایک شکایتی نگاہ ان پہ ڈالی اور مولوی کی طرف متوجہ ہوگیا جو اس سے قبولیت کی سند لے رہا تھا۔
"ابرش بیٹا آپ میرو کو اندر لے جائیں۔"
داؤ جان نے ابرش(لکمیر کی بہن) کو کہا تو وہ زور شور سے سرہلاتے اسے بازو سے تھامتے ہوئے میرب حیات کے کمرے کی طرف بڑھی تھی ۔
"ابرش! لکمیر کے کمرے میں لے کے جائیں۔"
داؤجان کی بھاری آواز پہ میرو کے لبوں سے ایک خاموش سسکی ابھری تھی ۔
لکمیر نے سرخ آنکھوں سے سیاہ چادر کے ہالے میں جاتی دبلی پتلی لڑکی کو دیکھا اور رخ موڑ لیا۔
"بہت برا کیا تم نے انابیہ شاہ بہت برا۔"
خاموش شکوہ سامنے ڈرائینگ روم کی دیوار پہ لگی تصویر سے کرتے وہ وہاں موجود مہمانوں سے ملنے لگا تھا جو اسکی زندگی کے نئے سفر پہ اسے مبارکباد دے رہے تھے۔
شاہ حویلی میں لگا تماشہ ختم ہوچکا تھا سب ہی دھیرے دھیرے وہاں سے نکلتے گئے تھے ۔
نوکروں سے ہٹ کے حویلی میں اسوقت تین افراد موجود تھے جو اپنی اپنی جگہ سسک رہے تھے۔
ان سناٹوں کو توڑنے والی آواز گھر کے پرانے خوبصورت پیتل کے نقش ونگار سے مزین ٹیلی فون کی تھی۔

"ہیلو لکمیر یہ تم ہونا ،تت۔۔تم ایسا کیسے کرسکتے ہو میرے ساتھ ۔۔مم۔۔میں نے شادی سے انکار نہیں کیا تھا لکیمر صرف کچھ وقت۔۔"
دوسری طرف سے آتی آواز کا گلہ گھونٹتے ہوئے اس نے ریسور کو کریڈل پہ رکھ دیا تھا۔
وہ جو لڑکی اسکی سانسوں سے اسے پہچان لیتی تھی بھلا یہ ممکن تھا کہ وہ اسکی اذیتوں سے آگاہی نا پاتی ؟
فون ایک بار پھر بج اٹھا تھا لکمیر نے کال اٹھانے کی بجائے ایکسٹینشن کی وائر نکال دی تھی۔
وہ سوقت صرف یہی کرسکتا تھا اور کچھ ممکن ہی کہاں تھا بھلا؟
جہاں لفظ محبت آجائے' وہاں اپنی ذات کچھ نہیں ہوتی۔ ہم محبت محرم سے کریں یا نا محرم سے' جہاں عزتِ نفس کو مجروح کر کے' محبت نبھائی جائے تو وہاں ایک وقت ایسا آتا ہے جہاں ہم خود کی ذات کو نگلتے ہیں۔
اک نظر الفت کے لیے ہم اپنے من پسند شخص کے سامنے روتے' ہنستے ' خود کو آزماتے اور کبھی تو گڑ گڑانے میں بھی کوئی عار نہیں سمجھتے۔
وہ بھی رویا تھا اپنی محبت کو آنسوؤں کی شکل میں اسکے پاؤں کی زنجیر کرنا چاہا تھا لیکن وہ نہیں رکی تھی اور پھر وقت وہ ان دونوں کا نہیں رہا تھا جس نے عارضی فاصلوں کی عمر تمام کردی تھی۔
نگاہ پھر سے سامنے اٹھی تو ہمیشہ آنکھوں کو تسکین دینے والا منظر سامنے تھا۔
داؤ جی کے کندھے پہ سر رکھے ایک طرف کو بیٹھی انابیہ شاہ اور دوسری طرف بیٹھے لکمیر شاہ کتنی مکمل تصویر تھی اپنے اندر ایک جامع کہانی لیے ہوئے۔۔ لیکن اس تصویر کو گرہن لگا تھا لکمیر شاہ اور داؤ جی کے قدموں کے درمیان بیٹھی میرب حیات کی موجودگی سے۔

نم آنکھوں سے تصویر دیکھتے اس نے آگے بڑھتے اس فریم فوٹو کو دیوار سے ہٹایا تھا اور ٹی۔وی ٹیبل کی ڈرا میں رکھتے گویا اسے زندگی سے نکالنے کی آخری کوشش تھی اسے شاید لگ رہا تھا جتنی آسانی سے دیوار سے تصویر اتاری ہے اتنی ہی آسانی سے وہ انابیہ شاہ کو بھول جائے گا پر کہاں ممکن تھا جو اسکے دل میں کنند کردی گئی تھی۔

بھاری قدم اٹھائے کمرے کی طرف بڑھا تھا جہاں زندگی کی اذیت ناک تصویر اسکی منتظر تھی جو سامنے ہی صوفے پہ دبکی بیٹھی تھی اسکیلئے بھی یہ سب جھلینا اتنا آسان نہیں تھا وہ جو لمحوں میں حوالے بدل کے بیٹھی تھی بھلا اسکی اوقات کہاں تھی کہ وہ لکمیر شاہ کے بستر کی زینت بنتی؟
داؤ جان نے اسکی ذات پہ ستم کرتے چاند کے ساتھ زمین کو ملانے کی کوشش کی تھی۔
اسے دیکھتے ہی لکمیر شاہ کے پرانے درد جاگ اٹھے تھے۔ کچھ کھونے کا احساس شدت سے غالب آیا تھا اگر وہ نہ ہوتی تو شاید ہی دنیا کی کوئی دیوار انکے درمیان آتی۔
"تت۔۔تم یہاں کیا کررہی ہو؟"
انتہائی فضول سوال جسکا جواب کچھ دیر پہلے ہی مل چکا تھا۔
میرو اس دل چور آواز پہ لڑکھڑاتے ہوئے کھڑی ہوئی تھی۔
"وہ داؤ۔۔۔"
"داؤ کہیں مرجاؤ میرب حیات کیا تم مرجاؤ گی؟"
وہ منجمند حواسوں سے اسکے سر پہ پہنچا تھا ۔
وہ خوف سے تھر تھر کانپتی سر اثبات میں ہلاگئی تھی ،ایک ہی شخص تو تھا دنیا میں اگر وہ اسکی بھی نہ سنتی تو؟
جبھی لکمیر نے اسے بازو سے پکڑے دروازے کی طرف دھکیلا تھا۔
"تو مرجاؤ میرب حیات شاہ لیکن یہاں نظر نہ آؤ ،کیوں کہ لکمیر شاہ کو تمہارا وجود،تمہاری یہ حثیت یہاں پر قطعاً گوارہ نہیں ہے ،سمجھی تم۔۔۔۔ یہ روم یہ جگہ صرف اور صرف انابیہ شاہ کی ہے سمجھ رہی ہونا تم میری بات کو جانتی تھی نا تم سب؟ پھر کیوں نہیں بولی تم؟ تمہاری نیت میں کھوٹ تھا لیکن اتنا جان لو تم کہ لکمیر شاہ
صرف اور صرف انابیہ شاہ کا ہے ہمیشہ سے اور ہمیشہ اسی ۔۔۔۔کا ہی رہے گا ،یہ رشتے یہ ڈور میرے لیے پھندا تو بن سکتے زندگی نہیں ،کیونکہ زندگی صرف ایک بار ملتی ہے اور وہ صرف انابیہ شاہ ہے۔۔۔"
سیاہ چادر میں لپٹے وجود نے اوائل شب کی تذلیل پہ آہ بکا کرتی سسکیوں کو اپنے اندر دبایا تھا اور دروازہ وا کیے باہر نکل گئی تھی۔
اپنے ٹھکرائے جانے کا دکھ نہیں تھا کیونکہ وہ مسلط کی گئی تھی یہ تو روز اول سے طے تھا کہ لکمیر شاہ صرف انابیہ شاہ کا ہے تو بھلا وہ چاند پہ گرہن کیسے ثابت ہوتی؟...............
وہ نیم سرگوشی میں لب وا کیے اسکا نام لینے کی جسارت کرتے ٹوٹی ہوئی ڈالی کی طرح اسکے سینے سے لگی تھی اتنے دنوں کی جدائی پہ حوصلہ ٹوٹا تھا یا کچھ اور تھا جو وہ اسکے سینے میں پناہ ڈھونڈتے رودی تھی۔
ملن کے دیپ بھی رلارہے تھے اور جدائی کی گھڑیوں نے بھی رلایا تھا عجب شے تھی یہ محبت بھی۔

لکمیر اسکی بےخودی کو دیکھتے اندر تک شانت ہوا تھا ۔
مطلب کہ وہ آج بھی لکمیر شاہ کی دیوانی تھی پردیس نے اس پہ کوئی اثر نہیں چھوڑا تھا۔ وہ سب اسکے وہم تھے کہ انابیہ شاہ بدل گئی تھی ۔
شاید محبت ایسے ہی ہوتی ہے جو اپنے سے جڑے انسان کیلئے حددرجہ پوزیسو اور وہمی کردیتی ہے؟

"داؤ جان بھی آئے ہیں کیا تمہارے ساتھ میں؟"
وہ اس سے شکوؤں کی بہتات کرتے تھکی تو سر اسکے سینے سےاٹھائے خود کو کمپوذ کیے باہر کی جانب بڑھنے لگی تھی ۔
اپنی بےاختیاری اور پوزیشن کا احساس چہرہ سرخ کررہا تھا جب لکمیر نے اسے دوبارہ کھینچتے ہوئے دیوار کے ساتھ لگایا تھا۔اور خود بھی اسکے قریب لگ کے کھڑا ہوا تھا۔
"مجھے محسوس کرنے دو انابیہ شاہ کہ آج چھ مہینوں بعد تم میرے سامنے ہو میں تمہیں چھوسکتاہوں؟"
چہرہ اسکے ہونٹوں کے قریب کیے انگشت شہادت نے اسکے رخساروں کا احاطہ کیا تو وہ اس آشنا لمس پہ پلکیں جھکا گئی تھی۔
لکمیر دیوانہ ہوا تھا پلکوں کی اس ادا پہ جبھی اس پہ جھکتے ان عارضوں کو لبوں سے چھوا تھا جب کہ ایک سنسنی سی انابیہ شاہ کے وجود میں دوڑی تھی۔ لکمیر کی جسارتیں بڑھنے لگی تھیں۔
اتنے دن بعد من پسند شخص کا لمس میسر آتے ہی شدت سے اسکی پیاس جاگی تھی ،وہ اسکا محرم نہیں تھا لیکن دل کو یقین تھا کوئی ظالم سماج درمیان میں نہ تھا تو انکی محبت میں کوئی امتحان کیوں حائل ہوگا؟
تبھی اس نے خود کو روکنے کے بجائے اسے سپردگی کا احساس دیتے لبوں سے اسکے لبوں کو چھوا تو وہ جیسے جی اٹھا تھا۔
قطرہ قطرہ اسکی سانسوں کی مہک خود میں اتارتے وہ بےخود سا اسکے دائیے بائیں ہتھلیوں کو جمائے انابیہ شاہ کے دونوں ہاتھوں کو سختی سے اپنے مضبوط ہاتھوں کی گرفت میں جکڑے ہوے تھا جب وہ خود کو سیراب کرتے نڈھال ہوتی اسکے شانے پہ سرٹکاگئی تھی۔

"بہت یاد کیا ہے میں نے لکمیر تمہیں جانتے ہو تمہاری قربت کی چاہ اکثر بےکل اور اداس رکھتی تھی مجھے ۔
انابیہ شاہ کو تمہاری یادوں نے پہروں رلایا ہے ۔"
اسکی شرٹ کے کالر کو سختی سے جکڑے وہ بولی تو وہ اسے مزید خود میں پروس گیا تھا۔
Complete Novel link....
ebook novel

https://youtu.be/-wK_ZP8pekA

Want your business to be the top-listed Shop in Jeddah?
Click here to claim your Sponsored Listing.

Category

Telephone

Address

Jeddah

Other Book Stores in Jeddah (show all)
Saam Stationery Saam Stationery
جدة, السعودية
Jeddah, 22233

كتب ابن مصر - Ibn Masr Books كتب ابن مصر - Ibn Masr Books
Jeddah

لبيع كتب المنهج المصري

Nowsaudisoq Nowsaudisoq
Jeddah
Jeddah

Nene Rome Nene Rome
الورود
Jeddah, 22230

اهلا بكم عملائنا الاعزاء ستجدون اندر الكتب بأسعار رمزيه

Wanderdust_ksa Wanderdust_ksa
Jeddah

Not your ordinary subscription box ! For middle grade readers . 👧👦

Booki online bookstore Booki online bookstore
Jeddah

Online bookstore

Riadh market Riadh market
Hera
Jeddah

Thise page show the beg market in sahudia

Our Whale Stationery Our Whale Stationery
Jeddah, 23762

Novel Mekkah Novel Mekkah
Jakarta
Jeddah

ICBS ICBS
Al Jameah Street
Jeddah, 22273

Retail Company

مكتبة الكتاب العربي مكتبة الكتاب العربي
Jeddah, 21421

مكتبة الكتاب العربي - www.arabbook.com انشر كتابك واحصل على أعلى نسبة من هنا: arabbook.com/publishing