free tip

free tip

Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from free tip, Health/Beauty, .

24/01/2024

*نکاح میں کفو و غیر کفو کی کیا تفصیل ہے؟*

سوال

مجھے یہ پوچھنا ہے کہ یہ نکاح میں غیر کفو کیا ہے؟ ڈیٹیل میں بیان کیجیے!

جواب
’’کفو‘‘ کا معنی ہے: ہم سر، ہم پلہ، برابر۔ انسانی عقل کا تقاضا اور تجربہ یہ ہے کہ اگر شوہر نسب، دین داری، شرافت، پیشے اور مال داری میں بیوی کے ہم پلہ یا اس سے بڑھ کر نہ ہو تو عموماً نکاح کے حقیقی مصالح و دیرپا مقاصد کا حصول مشکل ہوجاتاہے، بیوی کے اولیاء کے لیے بھی اس میں عار ہوتی ہے اور بسا اوقات اس کے برعکس شوہر کو ساری زندگی جھک کر رہنا پڑتاہے؛ اس لیے شریعت نے فطری جذبے کا لحاظ رکھتے ہوئے کچھ بنیادی اور اہم باتوں میں جانبین سے برابری کو ملحوظ رکھاہے۔

اگرلڑکااورلڑکی نسب، مال ،دِین داری ،شرافت اورپیشے میں ایک دوسرے کے ہم پلہ ہوں تویہ دونوں ایک دوسرے کے ’’کفو‘‘ قرار پائیں گے، ان کاباہمی رضامندی کے ساتھ نکاح درست ہے۔ اور اگر لڑکا اور لڑکی کے درمیان مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق برابری نہ ہو تو اسے ان دونوں کا آپس میں ’’غیر کفو‘‘ (یعنی ہم پلہ نہ) ہونا قرار دیا جائے گا۔ اگر ولی(والد یا دادا وغیرہ) اور عورت اس رشتے پر راضی ہوں خواہ وہ رشتہ ہم سر نہ ہو تو بھی نکاح جائز ہے۔ اور اگر عورت اولیاء کی اجازت و رضامندی کے بغیر غیر کفو میں نکاح کرلے تو اولاد پیدا ہونے سے پہلے تک اولیاء کو یہ نکاح فسخ کرانے کا حق ہوتاہے۔

الموسوعة الفقهية الكويتية میں ہے:

"١ - الْكَفَاءَةُ لُغَةً: الْمُمَاثَلَةُ وَالْمُسَاوَاةُ، يُقَال: كَافَأَ فُلاَنٌ فُلاَنًا مُكَافَأَةً وَكِفَاءً وَهَذَا كِفَاءُ هَذَا وَكُفْؤُهُ: أَيْ مِثْلُهُ، يَكُونُ هَذَا فِي كُل شَيْءٍ، وَفُلاَنٌ كُفْءُ فُلاَنَةَ: إِذَا كَانَ يَصْلُحُ بَعْلاً لَهَا، وَالْجَمْعُ أَكْفَاءٌ... فَفِي النِّكَاحِ: عَرَّفَهَا الْحَنَفِيَّةُ بِأَنَّهَا مُسَاوَاةٌ مَخْصُوصَةٌ بَيْنَ الرَّجُل وَالْمَرْأَةِ ( ٣٤/ ٢٦٦)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الْكَفَاءَةُ تُعْتَبَرُ فِي أَشْيَاءَ (مِنْهَا النَّسَبُ)...(وَمِنْهَا إسْلَامُ الْآبَاءِ)... (وَمِنْهَا الْحُرِّيَّةُ)... (وَمِنْهَا الْكَفَاءَةُ فِي الْمَالِ)...(وَمِنْهَا الدَّيَّانَةُ)...(وَمِنْهَا الْحِرْفَةُ)". (الْبَابُ الْخَامِسُ فِي الْأَكْفَاءِ، ١/ ٢٩٠ - ٢٩١) فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144010200270

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

24/01/2024

*شرعی پردہ کیا ہے؟*

سوال

شرعی پردہ کیا ہے؟

جواب
شرعی پردے کا مطلب یہ ہے کہ شریعت نے عورت کو جتنے پردے کا حکم دیا ہے، اس کا اہتمام کرتے ہوئے پردہ کرے، عورت کا تمام بدن ستر ہے، اپنے گھر میں بھی اس کو مستور اور پوشیدہ رکھنا فرض اور لازم ہے، مگر چہرہ اور دونوں ہاتھ کہ ہر وقت ان کو چھپائے رکھنا بہت دشوار ہے، اس لیے یہ اعضاء ستر سے خارج ہیں، اپنے گھر میں ان اعضاء کا کھلا رکھنا جائز ہے، البتہ گھر سے باہر نکلتے ہوئے ان کا چھپانا بھی ضروری ہے۔

اس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ پردہ کے تین درجات ہیں :

1- شرعی حجابِ اشخاص، یعنی عورتیں اپنے گھروں میں ہی رہیں، اس کی دلیل یہ ہے: {وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ} (الاحزاب:۳۳) ’’اورتم اپنے گھروں میں قرار سے رہو۔‘‘

2-ضرورت کے تحت جب عورت کو گھر سے باہر جانا پڑے تواس وقت کسی برقع یالمبی چادر کو سر سے پیر تک اوڑھ کر نکلے جس کاحکم قرآنی آیت {یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ} (الاحزاب:۵۹) میں دیا گیا ہے، مطلب یہ کہ سر سے پاؤں تک عورت اس میں لپٹی ہو اور چہرہ اور ناک بھی اس میں مستور ہو، صرف ایک آنکھ راستہ دیکھنے کے لیے کھلی ہو۔

3-پورا جسم تو مستور ہو، مگر چہرہ ہتھیلیاں کھلی ہوں، أئمہ اربعہ میں سے امام شافعیؒ ،امام مالکؒ، اما م احمدؒ نے تو چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنے کی مطلقاًاجازت نہیں دی، خواہ فتنہ کا خوف ہو یا نہ ہو، البتہ امام اعظمؒ نے فرمایا کہ اگرفتنہ کاخوف ہو تو کھولنا منع ہے، لیکن اس زمانہ میں خوفِ فتنہ نہ ہونے کا احتمال ش*ذ و نادر ہے اور نادر معدوم کے حکم میں ہوتا ہے، اس لیے متأخرین فقہاءِ احناف نے بھی وہی فتویٰ دے دیا جو أئمہ ثلاثہ نے دیا تھا کہ جوان عورت کے چہرہ یا ہتھیلیوں کا کھولنا ناجائز اور پردہ کرنا ضروری ہے ۔

مولانا ادریس کاندہلوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے {وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ} کے تحت لکھا ہے :

’’عورت کو اپنی یہ زینتِ ظاہرہ (چہرہ اوردونوں ہاتھ ) صرف محارم کے سامنے کھلا رکھنے کی اجازت ہے، نامحرموں کے سامنے کھولنے کی اجازت نہیں، عورتوں کو اس بات کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں کہ وہ سربازار چہرہ کھول کر اپنا حسن وجمال دکھلاتی پھریں، حسن وجمال کا تمام دارومدار چہرہ پر ہے اور اصل فریفتگی چہرے پر ہی ختم ہے، اس لیے شریعتِ مطہرہ نے زنا کا دروازہ بند کرنے کے لیے نامحرم کے سامنے چہرہ کھولنا حرام قراردیا‘‘ . (معارف القرآن، کاندھلوی رح)

رئیس المفسرین حضرت عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما آیتِ قرآنی {یآیها النبي قل لا زواجك وبنا تك ونساء المؤمنین ید نین علیهن من جلابیبهن ذلك ادنی ان یعرفن فلایؤذین} کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

تفسير الألوسي = روح المعاني (11/ 264):
"وقال ابن عباس وقتادة: تلوي الجلباب فوق الجبين وتشده ثم تعطفه على الأنف وإن ظهرت عيناها لكن تستر الصدر ومعظم الوجه، وفي رواية أخرى عن الحبر رواها ابن جرير، وابن أبي حاتم وابن مردويه تغطي وجهها من فوق رأسها بالجلباب وتبدي عيناً واحدةً".

یعنی خدائے پاک نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا کہ اپنے سروں اور چہروں کو ڈھانک کر نکلیں اور صرف ایک آنکھ یا دو آنکھیں کھلی رکھیں۔

لہذا عورت جب بھی اپنے گھر سے نکلے (خواہ بازار کے لیے ہو یا سفر کے لیے) چہرے سمیت پورے بدن کے پردے کے ساتھ نکلے، ورنہ گناہ ہو گا۔ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن سے سفرِ حج کے دوران بھی پردے کی پابندی منقول ہے۔

گزشتہ تفصیل سے معلوم ہواکہ اجنبی کے سامنے عورت پر چہرے کا پردہ لازم ہے، اور اجنبی سے مراد ہر وہ شخص ہے جس سے عورت کا نکاح ہوسکتاہو، (مثلاً چچازاد، پھوپھی زاد، ماموں زاد، خالہ زاد، بہنوئی، نندوئی، دیور وغیرہ) ان سب سے بھی چہرے کا پردہ کرنا چاہیے، اگر مشترکہ خاندانی رہائش ہو تو گھریلو امور انجام دیتے ہوئے بڑی چادر لے کر اس کا گھونگٹ بنالیا جائے؛ تاکہ چہرے پر نگاہ نہ پڑے۔ فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 14410420039

Website

Address


Rajshahi Division