راز حیات
خوب صورت الفاظ کی تو فروانی هے همارے هاں..بس خوبصورت احس
اسے کہتے ہیں Clarity of Mind
اگر آپ دعوت دین کا جذبہ رکھتے ہیں تو اس سے اچھی کوئی بات نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ یہ جذبہ اور کام آپ کی زندگی کو بامقصد زندگی بنا دیتا ہے۔ مگر آپ کو یہ کام درست حکمت عملی کے ساتھ کرنے کے اصول سمجھنے ہوں گے۔
٭ پہلی بات آپ یہ سمجھ لیجئے کہ اس کام کے دو مدارج ہیں۔ پہلا یہ کہ کوئی شخص باعمل مسلمان بن جائے۔ باعمل مسلمان اسے کہتے ہیں جس کی عملی زندگی میں مذہب کسی نہ کسی درجے میں موجود ہو۔ ہم سے جب کوئی ذاتی حیثیت میں رابطہ کرکے کہتا ہے کہ باعمل مسلمان بننے کے لئے ہمیں کیا کرنا ہوگا ؟ تو ہم کہتے ہیں بس دو کام شروع کردیجئے آپ بہترین باعمل مسلمان بن جائیں گے۔ پہلا یہ کہ فرائض کی پابندی شروع کردیجئے۔ دوسرا یہ کہ حرام سے پرہیز اختیار کر لیجئے۔ پھر حرام کی ہم انہیں یہ تفصیل بھی بیان کردیتے ہیں کہ حرام سے پرہیز صرف حرام کی کمائی سے پرہیز نہیں ہوتا۔ بلکہ کسی کے خلاف سازش کرنا، کسی کے لئے گڑھا کھودنا، کسی کا حق مارنا وغیرہ بھی حرام ہی ہے۔ لہذا ان حرکتوں سے بھی بچنا ہوگا۔
اس ضمن میں بالخصوص نماز کے حوالے سے ہم یہ تاکید کرتے ہیں کہ شروع میں آپ نے سنتیں نہیں پڑھنی۔ صرف فرض پڑھئے، چھ ماہ تک اس کی مکمل پابندی نظر آئے تو تب سنتیں شروع کیجئے گا ورنہ نہیں۔ یہ تلقین ہم اس لئے کرتے ہیں کہ لوگ بالعموم ترک نماز کا سنتوں کی وجہ سے شکار ہوتے ہیں۔ صرف چار، دو اور تین فرض ہوں تو یہ خطرہ 99 فیصد ختم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح جب کوئی دیندار آدمی ہم سے یہ پوچھتا ہے کہ نماز کی پابندی نہیں ہوتی۔ کیا کریں ؟ تو اسے بھی ہم یہی کہتے ہیں کہ سنتیں ترک کردیجئے۔ اور ہم نے درجنوں کیسز میں دیکھ رکھا ہے کہ اس ترکیب سے فرض کی پابندی ہوجاتی ہے۔ کوئی پوری نماز چھوڑ دے اس سے بہتر ہے صرف سنتیں چھوڑ دے اور فرض کی پابندی رکھے کہ باز پرس اسی کی ہوگی۔
٭ دوسرا درجہ ہے تقوی کا۔ ہمارے داعی سب سے مہلک غلطی یہ کرتے ہیں کہ ایک آدمی باعمل مسلمان ہی نہیں۔ اسے اس کمی کا احساس ہوا اور کسی حضرت سے رابط کیا تو یہ اسے پہلے ہی دن سے جنید بغدادی بنانے کے چکر میں پڑ جاتے ہیں۔ جو شخص جمعے کی نماز بھی ترک کرتا آیا ہے اس پر پہلے ہی دن آپ جنید بغدادی والا نصاب مسلط کریں گے تو لکھ کر دیتے ہیں یہ دو تین ہفتوں میں ہی اپنی پرانی دنیا میں یہ کہتا ہوا لوٹ جائے گا
"بہت مشکل ہے بھئی، دین پر چلنا اپنے بس کی بات نہیں"
یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ہم تقوی والی پٹاری کھولتے ہی نہیں۔ ہماری کوشش بس یہ ہوتی ہے کہ وہاں لوگوں کو باعمل مسلمان بننے والا نصاب ہی پیش کریں۔ کوئی تقوی کے نصاب کی بات کرے تو ہم کہہ دیتے ہیں
"یہ نصاب نجی سطح پر دستیاب ہے۔ فیس بک وال پر نہیں"
یوں نجی رابطے کی صورت پھر ہم پہلے اسے اس راہ کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہیں اور پھر کسی "شیخ" کی جانب روانہ کر دیتے ہیں۔ ہم شیخ وہی تجویز کرتے ہیں جو امیروں سے بیزار ہو اور غریبوں سے محبوب جیسی محبت کرتا ہو۔ پھر چاہے وہ کوئی گمنام ہی کیوں نہ ہو۔ یقین جانیئے اس باب میں ہم نے ایسے شیوخ بھی تجویز کر رکھے ہیں جو ہمیں جانتے تک نہیں۔ اور جو باقاعدہ بیعت بھی نہیں کرتے۔ بس متقی ہستیاں ہیں سو ہم جسے بھیجتے ہیں، یہ کہہ کر بھیجتے ہیں
"ان کے ساتھ وقت گزارا کرو اور ان کی نصیحتوں پر عمل کیا کرو"
داعی کو یہ بات اچھی طرح سمجھنی ہوگی اللہ سبحانہ و تعالی نے مال پر فرض عبادت رکھی تو بس اتنی کی سال میں ایک بار سو میں سے ڈھائی روپے ادا کردو زکوۃ کی فرض عبادت اداء ہوگئی۔ مال اور بدن دونوں کی مشقت والی فرض عبادت رکھی تو 70 سال کی زندگی میں بس ایک بار۔ بدن کے ظاہر کی عبادت رکھی تو گھنٹے ہمیں 24 دیئے لیکن ان میں نماز بس اتنی رکھی کہ کل ملا کر ایک گھنٹہ بھی نہیں لگتا۔ اور بدن کی باطنی عبادت رکھی تو سال میں دن 365 مگر روزے صرف 30 دن کے۔ اگر غور کیجئے تو اس نے اپنے بندے کا 90 فیصد وقت اور پیسہ اسی کے تصرف میں چھوڑا۔ اپنے لئے اس میں سے بہت معمولی سا حصہ مانگا۔
قابل غور نکتہ یہ ہے کہ فرض عبادات وہ عبادات ہیں جن کی باز پرس ہوگی۔ سو جہاں باز پرس اور جوابدہی رکھی وہاں مقدار بھی بہت ہی معمولی رکھی۔ اور یہ وہ مرحملہ ہے جسے ہم نے باعمل مسلمان بننے کا نصاب بتایا ہے۔ جہاں تک اس مرحلے میں حرام سے بچنے والے معاملے کا تعلق ہے تو وہ تو ہے ہی عین فطری معاملہ۔ کسی فطری کام کی پابندی میں مشکل کیسی ؟ مثلا ہم میں سے کون ہے جو یہ نہیں چاہتا کہ اسے کوئی دھوکہ نہ دے۔ سو اس معاملے میں جو اپنے لئے آپ پسند کر رہے ہیں وہی خود بھی دوسروں کے لئے اختیار کرنا کونسا مشکل کام ہے ؟ وہ حدیث مبارکہ تو سب نے ہی سنی ہے کہ مومن وہ ہے جو اپنے بھائی کے لئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرے۔ اس کا یہی تو مفہوم ہے۔ ہم یہ بات پسند نہیں کرتے کہ کوئی ہمارے خلاف سازش کرے تو پھر ہم یہ کس حق سے چاہتے ہیں کہ ہمیں دوسروں کے خلاف سازش کی چھوٹ ہونی چاہئے ؟۔ اردو کا تو محاورہ ہے کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ سو اگر سازش سے بچنا ہے تو دوسروں کی خلاف سازشیں کرنی تو بند کرنی پڑیں گی۔ اسی اصول کے مطابق ناپسندیدہ طرزعمل کا دائرہ وسیع کرتے جایئے اور بچتے جایئے۔ آپ انشاءاللہ ایک بہترین باعمل مسلمان ہوں گے۔
تقوی کے مدارج کی خاص بات یہ ہے کہ یہ مدارج فرائض سے حاصل نہیں ہوتے۔ جنید بغدادی روحانیت کی عظمت تک فرض نمازوں، روزے، حج، اور زکوۃ کی ادائیگی سے نہیں پہنچے تھے۔ ان عبادات سے تو وہ باعمل مسلمان بنے تھے۔ تقوی کے تمام مدارج نفلی عبادات سے سر ہوتے ہیں۔ اس میں نفل نمازیں، نفلی روزے، نفلی حج، عمرے، اور چیئرٹی یعنی صدقات کی ادائیگی وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن ان مدارج میں بھی سب سے کلیدی کردار مسنون زندگی کا ہے۔ مسنون زندگی کے لئے الگ سے کوئی اعمال تو اختیار نہیں کرنے پڑتے کہ اضافی بوجھ کا ڈر ہو۔ مسنون زندگی یہ ہے کہ کھانا تو ہم سب کھاتے ہیں۔ بس کھانا کھانے کا طریقہ وہ اختیار کرنا ہوتا ہے جو اللہ کے رسول ﷺ کا طریقہ ہے۔ راستے پر ہم سب چلتے ہیں، بس راستے پر چلنے کا طریقہ وہ اختیار کرنا پڑتا ہے جو اللہ کے رسول ﷺ کا راستے پر چلنے کا طریقہ تھا۔ دوستیاں تو ہم سب لگاتے ہیں، بس دوستی لگانے اور نبھانے کا طریقہ وہ رکھنا ہوتا ہے جو اللہ کے رسول ﷺ کا اس ضمن میں طریقہ تھا۔
زندگی مسنون ہو تو پھر نفلی عبادات کا گڑ جتنا ڈالتے جائیں گے اتنے ہی تقوی کے مدارج طے ہوتے چلے جائیں گے۔ تقوی کے اس سفر میں بس احتیاط ایک ہی ہے۔ وہ یہ کہ اپنی آنکھیں آزمائشوں کے لئے کھلی رکھنی ہوں گی۔ ضروری نہیں کہ آزمائشیں آئیں۔ لیکن جب یہ آتی ہیں تو دو شکلوں میں آتی ہیں۔ یا تو زندگی میں نعمتوں کی فراوانی ہوجاتی ہے۔ بالعموم فراوانی کو "برکت" کی نظر سے ہی دیکھا جاتا ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ یہ برکت صرف اس صورت میں ہے جب یہ آپ کے اعمال میں کوئی کمی کوتاہی نہ لا پائے۔ اگر اس کے نتیجے میں اعمال کمزور ہوتے چلے جائیں تو سمجھ جایئے کہ آپ آزمائش میں صرف ہیں نہیں بلکہ اس میں فیل بھی ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
آزمائش کی دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ مشکلات شروع ہوجاتی ہیں۔ مشکلات کو بھی بالعموم دیندار لوگ بڑی لاپروائی سے "امتحان" قرار دیدیتے ہیں۔ جی ہاں ! یہ امتحان ہے بھی مگر اس صورت میں کہ یہ آپ کی دینداری کا پتہ تک نہ ہلا سکے۔ اگر آپ بے صبرے ہوگئے۔ واویلے شروع کردیئے، اور اعمال میں بھی کوتاہی شروع ہوگئی تو آپ اس امتحان میں فیل ہورہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم سے کوئی کہتا ہے کہ وہ تقوی اختیار کرنا چاہتا ہے تو ہم اسے آزمائشوں والا سبق سب سے پہلے پڑھاتے ہیں۔ اور صاف کہہ دیتے ہیں کہ اگر آزمائشوں کا سامنا نفسیاتی یا اعصابی کمزوری کے سبب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو پھر رسک مت لیجئے۔ بس باعمل مسلمان ہی رہئے۔ اور اس کا دائرہ ذرا وسیع کرتے چلے جایئے۔ مثلا کبھی کبھی نفلی نماز اور روزے کا چلن بھی اختیار کر لیجئے۔ وقتا فوقتا کسی غریب کی مدد کردیا کیجئے۔ اس زمانے میں کوئی باعمل مسلمان بن جائے یہ بھی کوئی معمولی مقام نہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالی ہم سب کو توفیق عطاء فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
رعایت اللہ فاروقی
قاری صاحب کچھ وقت آپ نے بھی تابعداری میں گزارہ ہے ؟
ایک کمنٹ ۔
الحمد للہ ثم الحمدللہ کچھ وقت نہیں بلکہ سارا وقت 43 سال تابعداری میں گزارے ہیں تب جا کر اولاد ڈاکٹر اور انجینئر بنی ہے۔ انا کی جنگیں لڑنے والوں کے بچے سگنل پر رومال اور گنڈیریاں بیچتے ہیں ۔
ہم نے شروع میں اندازہ کر لیا تھا کہ اپنی طبیعت فاختہ والی ہے جو ایک اچھی ماں کی صفت ہوتی ہے ۔جبکہ وائف کی طبیعت میں شکرے والی سختی ہے ۔ جو باپ بننے کے لئے ضروری ہے ۔ ہم نے بغیر کسی فوٹو سیشن کے پاور اسٹک وائف کے حوالے کر دی کہ آپ نے ابا بننا ہے اور بچوں کی ماں والا رول ہم ادا کریں گے ۔ لہذا مائیں تو بچوں کو باپ سے ڈراتی ہیں ، ہم بچوں کو ماں سے ڈراتے تھے ، جس ٹیسٹ میں نمبر کم ہوں ہم اس کا ریزلٹ گاڑی میں ہی دفن کر آتے تھے ، بچے نے جماعت سے نماز نہ پڑھی ہو تب بھی ہم مثبت رپورٹنگ کرتے تھے ، اسکول میں ٹیچر بھی شکایت کرے تو گھر میں ہمیشہ اچھی خبر ملتی تھی وغیرہ وغیرہ 🤣😄۔
بہت مدت بعد وائف کو اندازہ ہوا کہ اس کے ساتھ واردات ہو گئ ہے ۔ بچے دل ❤️ سے مجھے اپنی ماں ، ہمراز اور شفیق دوست سمجھتے تھے جبکہ اماں ایسی ولن بن گئ تھیں جس سے ابا سمیت سارے ڈرتے تھے ۔ بعد میں وائف کہتی رہیں کہ " پیو بنو پیو" ہم نے عرض کیا کہ ایک گھر میں دو پیو نہیں رہ سکتے 😎
بس اک ٹیس سی دل میں اٹھتی تھی ،اک درد جگر میں ہوتا تھا جب وائف پھر بھی گلہ کرتی تھی کہ فلاں فلاں کے شوہر تو ،،، ،،،،، ،،،
قاری حنیف ڈار
شادی برادری سے باہر ہی کرنی چاہئے ۔ کزنز سے شادی سینکڈ ہینڈ موبائل خریدنے کے مترادف ہوتا ہے ،جس میں ڈھیر ساری پچھلی فائلیں پہلے سے لؤڈ ہوتی ہیں جو اگلے گھر میں بھی دھماکے کرتی رہتی ہیں ، جس طرح اوجھڑی کیمپ کے اسکریپ کو خرید کر لے جانے والوں کی دکانوں میں لوہا کوٹتے کوٹتے اچانک کسی ہینڈ گرینیڈ کو بھی ہتھوڑا لگ جاتا تھا اور دکان کا مالک اپنے چھوٹو سمیت اللہ پاک کو پیارا ہو جاتا تھا اور بریکنگ نیوز بن جاتی تھی کہ اوجھڑی کیمپ کے اسکریپ میں دھماکہ ۔۔ دو افراد اللہ کو پیارے ۔۔ مرحوم پچھلے ہفتے ہی پنڈی سے اسکریپ خرید کر لایا تھا ۔
آپس کے والدین کی یا بہن بھائیوں کی شادی سے پہلے کی وارداتیں انڈے بچے دیتی رہتی ہیں ۔ دلہن کی انٹرنل میموری بھی ماضی سے فل ہوتی ہے اور دولہا بیچارہ کچھ بھی ڈاؤن لوڈ کرنا چاہے تو جواب آتا ہے کہ اپکی میموری کی اسپیس کم ہے ،پہلے کچھ ڈیلیٹ کریں ۔ دلہن اپنے میکے کی کسی فائل کو ہاتھ لگانے نہیں دیتی نتیجہ گھر کی بربادی ۔
نہ صرف جینز شارٹ سرکٹ کے ذریعے بیمار بچے پیدا کرتے ہیں بلکہ دولہا اور دلہن کی یادیں بھی شارٹ سرکٹ کا شکار ہو جاتی ہیں ۔ دولہا کسی اور پیرائے میں بات کرتا اور دلہن اسے امی جی کی ایپ پر کھولتی ہے تو مطلب کچھ یوں نکالتی ہے کہ لڑائی شروع ہو جاتی ہے ۔ اور آخری بات یہ کہ دلہن وقت کے ساتھ ساتھ اپنی ماں کی کاپی بنتی جاتی ہے جس کی وجہ سے شوہر کو کک نہیں ملتی ۔
ایک دوست جو دوسری شادی کر کے پھنس گیا تھا ، اس سے کہا کہ یار کم از کم پہلی کو اس کے حق حقوق تو دیا کرو ۔۔۔۔۔۔ عجیب بےبسی کا پوز بنا کر کہنے لگا قاری صاحب قسمے جونہی گھر میں داخل ہوتا ہوں تو لگتا ہے پھپھو سامنے کھڑی ہے سب کچھ ارتھ ہو جاتا ہے اور بس چائے پی کر واپس آ جاتا ہوں ۔۔۔
ازدواجیات قاری حنیف ڈار ۔
انیس سو تیئیس میں اس دنیا میں کیا ہو رہا تھا, تب میرے آباو اجداد کے مسائل اور وسائل کیا تھے، وہ حلال کماتے تھے یا حرام، میرے آج کو نہ تو ان سب حقائق سے رتی برابر فرق پڑتا ہے نہ ہی دنیا سے جا چکے اپنے ان آبا سے آج میری کوئی خاص جزباتی وابستگی ہے اور نہ ہی میں انکی زندگی کے بارے میں واجبی سے زیادہ معلومات ہی رکھتا ہوں۔
دوہزار ایک سو تیئیس میں موجود میری اگلی نسل کی بھی دوہزار تیئیس میں موجود اپنے آبا و اجداد یعنی مجھ سے نہ کوئی جزباتی وابستگی ہو گی, نہ ہی خود کو ملنے والے منقولہ ترکے پر وہ میرے احسان مند ہونگے نہ میرے شب و روز، کاوشوں اور خوابوں کے بارے میں انہیں واجبی سے زیادہ کوئی معلومات ہونگی۔
المیہ البتہ یہ ہے کہ پھر بھی ہماری زندگی کی بیشتر سرگرمیوں کے پیچھے اپنی اگلی نسلوں کی مالی اور مادی سیکورٹی کا لاشعوری احساس ہوتا ہے۔
اس سے بھی تلخ حقیقت یہ ہے کہ جب میری اگلی نسلیں میری احسان مند ہوئے بغیر میرے چھوڑے ہوئے ترکے سے لطف اندوز ہو رہی ہونگی میں نہ صرف اس ترکے اور انکی خوشیوں اور غموں سے بے نیاز ہو چکا ہونگا بلکہ اپنی زندگی کے ہر لمحے کے بدلے میں سزا یا جزا پانے کے عمل سے گزر رہا ہونگا۔۔۔ محمد رضوان خالد چوھدری
https://youtu.be/kFyX2SXErI8
Learn English with shebaz ...
انگلش سیکھنے کے لئیے ایک بہترین چینلز ۔۔جو جو لوگ سیکھنا چاہتے اسکو سبسکرائب کر لیں ۔۔۔
12 Error of verbs. sentence correction. 12 Errors of verbs
منقول
یہ سبق آموز تحریر ڈی ایس پی پریڈی ملک صفدر نے میرے بیٹے محراب خان کھوسہ ایڈووکیٹ کو ارسال کی ہے
ایڈووکیٹ سرفراز چیمہ پیشے کے لحاظ سے وکیل تھا , ملکوال اور منڈی بہاوالدین کی عدالتوں میں لوگوں کی پہلی ترجیح وہ ہی ہوتا تھا.
فیس لاکھوں میں لیتا اور قتل عمد کے ملزموں ہی کو نہیں بلکہ مجرموں کو بھی بری کروا لیا کرتا تھا.
پھر وقت بدلتا ہے اس کی عمر ڈھل جاتی ہے وہ بوڑھا ہو جاتا ہے.
آنکھوں کی بینائی اس حد تک کم پڑ جاتی ہے کہ سامنے کھڑی اپنی سگی بیٹی تک کو نہیں پہچان سکتا , سارا روپیہ پیسہ اولاد بانٹ لیتی ہے.
بیٹے اپنی بیویوں بچوں کو لے کر یورپ سیٹ ہو جاتے ہیں جبکہ بیٹی کی شادی کسی جاگیردار گھرانے میں ہو جاتی ہے.
ایڈووکیٹ سرفراز چیمہ صاحب گھر میں اکیلے رہ جاتے ہیں.
اولاد چونکہ مظلوموں کی دھوکے سے ہتھیائی گئی دولت پر پلی بڑھی یا ظالموں کے ظلم چھپانے کے لئے دی گئی دولت پر جوان ہوئی ہوتی ہے.
لہذا اس میں مروت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی , باپ کو ساتھ رکھنے کے لیے کوئی بھی راضی نہیں ہوتا.
پھر متفقہ فیصلہ ہوتا ہے کہ والد صاحب کے لئے چوبیس گھنٹے کا ملازم اور ایک سیکورٹی گارڈ کا انتظام کیا جائے.
ظالموں کے لئیے ڈھال بن کر مظلوموں کو انصاف کی دہلیز سے خالی ہاتھ واپس موڑ دینے والا ایڈووکیٹ سرفراز چیمہ یوں ملازمین کے سہارے پر زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے.
پچھلے دنوں ان کا بڑا بیٹا بیوی بچوں کے ہمراہ اپنی سالی کی شادی پر پاکستان آیا ہوا تھا , رشتہ داروں نے اس کو شرمندہ کر کے اپنے والد صاحب کو ملنے پر مجبور کر دیا.
وہ اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ اپنے باپ کو ملنے اس کے گھر چلا آیا , جس وقت وکیل صاحب کا بیٹا اپنے باپ کو ملنے آیا اس وقت میں بھی وہیں موجود تھا.
ان کے باپ کے کمرے سے شدید بدبو آ رہی تھی کیونکہ کئی بار رات کو اٹھ کر ٹائلٹ نہیں جا پاتے تھے.
ملازمین کو آواز دیتے تو وہ سنی ان سنی کر دیتے اور یوں پیشاب بستر پر ہی نکل جاتا تھا.
بستر دھونا تو دور کی بات ملازمین بستر بدلنا بھی مناسب نہیں سمجھتے تھے.
یوں چیمہ صاحب اسی بدبودار گیلے بستر پر پڑے زندگی گزارنے پر مجبور تھے.
جب ان کا بیٹا کمرے میں داخل ہوا تو ناک پر رومال رکھ کر بنا باپ کو ملے ہی واپس مڑ گیا , میں حیرت سے یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا.
چونکہ سرفراز چیمہ صاحب کو نظر نہیں آتا تھا لہذا ان کا بیٹا باہر گیا اور سیکورٹی گارڈ کو سمجھا بجھا کر کمرے کے اندر داخل کیا.
خود ناک پر رومال رکھے دروازے کی دہلیز پر کھڑے ہو کر باپ کو سلام کیا اور اپنی جگہ پر ملازم کو آگے بڑھا دیا.
ملازم نے جا کر بوڑھے وکیل کو گلے لگا لیا اور بوڑھا بیچارا نوکر کو ہی اپنا بیٹا سمجھ کر چومتا رہا.
بعد ازاں بیوی بچوں کی باری آئی تو ایسے ہی بیوی بچے دہلیز میں کھڑے رہے اور ملازمہ اور اس کے بچے وکیل صاحب کی بہو اور پوتے پوتیاں بن کر ان کو ملتے رہے وکیل صاحب انہیں اپنا خون سمجھ کر دعائیں دیتے رہے.
زیادہ سے زیادہ دس منٹ وکیل کا بیٹا بہو بچے گھر میں رکے اور پھر نکل گئے , نہ انہوں نے جاتے ہوئے باپ کو الوداعی نظر دیکھا اور نہ ہی کوئ بات کی باپ کو کوئی چیز بھی نہیں دی.
میں حیرت سے بیٹھا یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کل کلاں کو جب یہ شخص اپنےباپ کی جگہ پر ہو گا تو اس کے بچے اس کے ساتھ کیا رویہ اپنائیں گے ؟
چاہنے کے باوجود بھی میں سرفراز چیمہ صاحب کو حقیقت نہ بتا سکا کہ جن لوگوں کو وہ بہو بیٹا اور پوتے پوتیاں سمجھ کر مل رہے تھے وہ در حقیقت ان کے گھر کے ملازمین تھے ان کے بیٹے نے تو باپ کے قریب جانا بھی مناسب نہیں سمجھا.
بیٹے کے اس طرح کا رویہ اپنانے میں کسی اور کا نہیں بلاشبہ وکیل صاحب کا اپنا ہی ہاتھ تھا.
خیر میں تھوڑی دیر وکیل صاحب کے پاس بیٹھا، ان کی بیمار پرسی کی اور پھر بوجھل دل کے ساتھ وہاں سے چلا آیا.
مگر یہ واقع مجھے بہت کچھ سمجھا گیا.
*مجھے سب سے پہلی چیز یہ سمجھ آئی کہ مال اور اولاد آزمائش اور فتنہ کیسے بنتے ہیں*
*دوسری چیز یہ سمجھ آئی کہ پیشہ کوئی بھی اپناؤ مگر کبھی ظالم کے ساتھ کھڑے نہ ہو اور*
*تیسری اور سب سے اہم بات یہ سمجھ آئی کہ اپنی اولاد کو رشتوں سے محبت اور دوسروں کا احترام کرنا ضرور سکھاؤ ان کے دل میں کبھی دولت اور عہدے کا لالچ پیدا نہ کرو*.
یقینا یہ تینوں کام وکیل صاحب نہیں کر سکے مگر میری خواہش ہے کہ اس سچے واقعہ کو پڑھنے والے لوگ ضرور ان حقائق کا خیال کر لیں قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جائے.
وکیل صاحب کا وقت تو گزر گیا مگر ہمارا اور آپ کا وقت آج شروع ہو رہا ہے-منقول
یہ سبق آموز تحریر ڈی ایس پی پریڈی ملک صفدر نے میرے بیٹے محراب خان کھوسہ ایڈووکیٹ کو ارسال کی ہے
ایڈووکیٹ سرفراز چیمہ پیشے کے لحاظ سے وکیل تھا , ملکوال اور منڈی بہاوالدین کی عدالتوں میں لوگوں کی پہلی ترجیح وہ ہی ہوتا تھا.
فیس لاکھوں میں لیتا اور قتل عمد کے ملزموں ہی کو نہیں بلکہ مجرموں کو بھی بری کروا لیا کرتا تھا.
پھر وقت بدلتا ہے اس کی عمر ڈھل جاتی ہے وہ بوڑھا ہو جاتا ہے.
آنکھوں کی بینائی اس حد تک کم پڑ جاتی ہے کہ سامنے کھڑی اپنی سگی بیٹی تک کو نہیں پہچان سکتا , سارا روپیہ پیسہ اولاد بانٹ لیتی ہے.
بیٹے اپنی بیویوں بچوں کو لے کر یورپ سیٹ ہو جاتے ہیں جبکہ بیٹی کی شادی کسی جاگیردار گھرانے میں ہو جاتی ہے.
ایڈووکیٹ سرفراز چیمہ صاحب گھر میں اکیلے رہ جاتے ہیں.
اولاد چونکہ مظلوموں کی دھوکے سے ہتھیائی گئی دولت پر پلی بڑھی یا ظالموں کے ظلم چھپانے کے لئے دی گئی دولت پر جوان ہوئی ہوتی ہے.
لہذا اس میں مروت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی , باپ کو ساتھ رکھنے کے لیے کوئی بھی راضی نہیں ہوتا.
پھر متفقہ فیصلہ ہوتا ہے کہ والد صاحب کے لئے چوبیس گھنٹے کا ملازم اور ایک سیکورٹی گارڈ کا انتظام کیا جائے.
ظالموں کے لئیے ڈھال بن کر مظلوموں کو انصاف کی دہلیز سے خالی ہاتھ واپس موڑ دینے والا ایڈووکیٹ سرفراز چیمہ یوں ملازمین کے سہارے پر زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے.
پچھلے دنوں ان کا بڑا بیٹا بیوی بچوں کے ہمراہ اپنی سالی کی شادی پر پاکستان آیا ہوا تھا , رشتہ داروں نے اس کو شرمندہ کر کے اپنے والد صاحب کو ملنے پر مجبور کر دیا.
وہ اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ اپنے باپ کو ملنے اس کے گھر چلا آیا , جس وقت وکیل صاحب کا بیٹا اپنے باپ کو ملنے آیا اس وقت میں بھی وہیں موجود تھا.
ان کے باپ کے کمرے سے شدید بدبو آ رہی تھی کیونکہ کئی بار رات کو اٹھ کر ٹائلٹ نہیں جا پاتے تھے.
ملازمین کو آواز دیتے تو وہ سنی ان سنی کر دیتے اور یوں پیشاب بستر پر ہی نکل جاتا تھا.
بستر دھونا تو دور کی بات ملازمین بستر بدلنا بھی مناسب نہیں سمجھتے تھے.
یوں چیمہ صاحب اسی بدبودار گیلے بستر پر پڑے زندگی گزارنے پر مجبور تھے.
جب ان کا بیٹا کمرے میں داخل ہوا تو ناک پر رومال رکھ کر بنا باپ کو ملے ہی واپس مڑ گیا , میں حیرت سے یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا.
چونکہ سرفراز چیمہ صاحب کو نظر نہیں آتا تھا لہذا ان کا بیٹا باہر گیا اور سیکورٹی گارڈ کو سمجھا بجھا کر کمرے کے اندر داخل کیا.
خود ناک پر رومال رکھے دروازے کی دہلیز پر کھڑے ہو کر باپ کو سلام کیا اور اپنی جگہ پر ملازم کو آگے بڑھا دیا.
ملازم نے جا کر بوڑھے وکیل کو گلے لگا لیا اور بوڑھا بیچارا نوکر کو ہی اپنا بیٹا سمجھ کر چومتا رہا.
بعد ازاں بیوی بچوں کی باری آئی تو ایسے ہی بیوی بچے دہلیز میں کھڑے رہے اور ملازمہ اور اس کے بچے وکیل صاحب کی بہو اور پوتے پوتیاں بن کر ان کو ملتے رہے وکیل صاحب انہیں اپنا خون سمجھ کر دعائیں دیتے رہے.
زیادہ سے زیادہ دس منٹ وکیل کا بیٹا بہو بچے گھر میں رکے اور پھر نکل گئے , نہ انہوں نے جاتے ہوئے باپ کو الوداعی نظر دیکھا اور نہ ہی کوئ بات کی باپ کو کوئی چیز بھی نہیں دی.
میں حیرت سے بیٹھا یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کل کلاں کو جب یہ شخص اپنےباپ کی جگہ پر ہو گا تو اس کے بچے اس کے ساتھ کیا رویہ اپنائیں گے ؟
چاہنے کے باوجود بھی میں سرفراز چیمہ صاحب کو حقیقت نہ بتا سکا کہ جن لوگوں کو وہ بہو بیٹا اور پوتے پوتیاں سمجھ کر مل رہے تھے وہ در حقیقت ان کے گھر کے ملازمین تھے ان کے بیٹے نے تو باپ کے قریب جانا بھی مناسب نہیں سمجھا.
بیٹے کے اس طرح کا رویہ اپنانے میں کسی اور کا نہیں بلاشبہ وکیل صاحب کا اپنا ہی ہاتھ تھا.
خیر میں تھوڑی دیر وکیل صاحب کے پاس بیٹھا، ان کی بیمار پرسی کی اور پھر بوجھل دل کے ساتھ وہاں سے چلا آیا.
مگر یہ واقع مجھے بہت کچھ سمجھا گیا.
*مجھے سب سے پہلی چیز یہ سمجھ آئی کہ مال اور اولاد آزمائش اور فتنہ کیسے بنتے ہیں*
*دوسری چیز یہ سمجھ آئی کہ پیشہ کوئی بھی اپناؤ مگر کبھی ظالم کے ساتھ کھڑے نہ ہو اور*
*تیسری اور سب سے اہم بات یہ سمجھ آئی کہ اپنی اولاد کو رشتوں سے محبت اور دوسروں کا احترام کرنا ضرور سکھاؤ ان کے دل میں کبھی دولت اور عہدے کا لالچ پیدا نہ کرو*.
یقینا یہ تینوں کام وکیل صاحب نہیں کر سکے مگر میری خواہش ہے کہ اس سچے واقعہ کو پڑھنے والے لوگ ضرور ان حقائق کا خیال کر لیں قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جائے.
وکیل صاحب کا وقت تو گزر گیا مگر ہمارا اور آپ کا وقت آج شروع ہو رہا ہے-
کھوکھلی اناؤں کے مارے
کھوکلی اناؤں کے ماروں کی کچھ نشانیاں ہیں۔
یہ لوگ بنیادی طور پر کم ظرف ہوتے ہیں۔ یہ صرف دکھنے میں بڑے لگتے ہیں پر حقیقت میں یہ بہت’چھوٹے ہوتے ہیں۔چھوٹے دل اور حوصلے والے۔ یہ خوشامد پسند ہوتے ہیں۔ انہیں اپنی تعریف کرتے اور کرواتے رہنا بے حد پسند ہوتا ہے۔ یہ خود نمائی کے شوقین ہوتے ہیں۔ انہیں اپنا آپ گھڑی گھڑی جتانے کی لت لگی ہوتی ہے۔ یہ ’ریکگنیشن‘ کے بھوکے ہوتے ہیں۔ یہ ہمیشہ ’پلے سیف‘ کی پالیسی کو اپنا رکھتے ہیں۔ ان میں قربانی کا حوصلہ تو بالکل نہیں ہوتا اور یہ ہر معمولی خطرے سے بھی خود کو بچانے کی کوشش میں مصروف عمل رہتے ہیں،
کھوکلی اناؤں والے آپ کو بلا کے حاسد، کینہ پرور اور انتقامی ملیں گے۔ یہ وہ بیماریاں ہیں جن سے ان کے باطن گھٹے ہوتے ہیں اور یہ ان کا کچھ نہیں کر پاتے۔
کھوکلی انا ہمیشہ احسان فراموش اور بے قدری ہوتی ہے۔ انہیں احسان تسلیم کرتے اور اس کا بدلہ چکانے میں جھجک محسوس ہوتی ہے اور کئی معاملات میں یہ اپنے آپ کو ان احسانات کا ’ڈزرونگ‘ سمجھ رہے ہوتے ہیں حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔
کھوکلی انا ہمیشہ بھوکی اور لالچی رہتی ہے۔ یہ آپ کا خون تک چوس کر ہضم کر جاتی ہے اور ہمیشہ ’اور کی دوڑ‘ میں مصروف رہتی ہے۔ اور یہ دوڑ صرف مادی چیزوں کی نہیں ہوتی بلکہ انسانی رویوں، جذبات اور خلوص، خدمت کی بھی ہوتی ہے۔ انہیں ہر وقت مزید خدمت، مزید قربانی، مزید خلوص اور مزید ’پروٹوکول‘ درکار ہوتا ہے۔
ایک خوبی بہرحال ان میں ہوتی ہے کہ وہ کمال کی ’پرسیپشن مینجمنٹ‘ کرتے ہیں۔ اپنا تراشیدہ چہرہ کبھی بے نقاب نہیں ہونے دیتے۔
اپنی صحت کی جانچ کے لیے سالانہ کون کون سے ٹیسٹ کروانے چاہئیں؟
1۔ CBC. (کمپلیٹ بلڈ کاونٹ)۔ یہ خون میں موجود مختلف خلیات یعنی ریڈ بلڈ سیلز، وائٹ بلڈ سیلز آور وائٹ بلڈ سیلز کی تمام اقسام اور پلیٹ لیٹس کی تعداد اور خون میں موجود ہیموگلوبن کی مقدار بتاتا ہے۔ اگر آپ خون میں ہیموگلوبن کی کمی مطلب اینمیا کا شکار ہیں (جسے عرف عام میں خون کی کمی کہا جاتا ہے) یا جسم میں کوئی انفیکشن یا الرجک پروسیس چل رہا ہے تو اس ٹیسٹ سے پتہ چل جاتا ہے۔
2۔ LFTs (لیور فنکشن ٹیسٹ)۔ یہ جگر کا ٹیسٹ ہے۔ جس میں جگر کے نارمل کام کرنے کی صلاحیت کو چیک کرنے کے لیے خون میں بلی ریوبن اور کچھ اینزائمز کو جانچا جاتا ہے۔ بلی ریوبن ایک مادہ ہے جو کہ ہمارے خون کے سرخ خلیات کی توڑ پھوڑ سے بنتا ہے اور جگر اس کو جسم سے صاف کرنے کے لیے دیگر کچھ مادوں کے ساتھ جوڑتا ہے اور پھر یہ جسم سے خارج ہو جاتا ہے۔ اگر جگر کے نارمل فنکشن میں کوئی خرابی ہو تو بلی ریوبن کی مقدار خون میں ایک مخصوص ویلیو سے بڑھ جاتی ہے۔
3۔ RFTs (رینل فنکشن ٹیسٹ)۔ یہ گردوں کی جانچ کا ٹیسٹ ہے۔ اس میں خون میں موجود یوریا اور کریٹینن کو جانچا جاتا ہے اور اگر ان کی مقدار ایک مخصوص حد سے زیادہ ہو تو یہ گردوں کی خرابی کو ظاہر کرتا ہے
4۔ Lipid profile Test. یہ جسم میں موجود مختلف طرح کے لپڈز کی جانچ کرتا ہے یعنی کولیسٹرول ، ہائی ڈینسٹی لائیپو پروٹینز اور لو ڈینسٹی لائیپو پروٹینز۔ جن افراد کی فیملی ہسٹری میں دل کے امراض ہوں ان کو (خاص طور پر مرد حضرات کو) یہ ٹیسٹ سال میں ایک بار ضرور کروانا چاہیے۔ لپڈز لیول میں اگر تھوڑی بہت گڑ بڑ ہو تو آپ ابتدائی لیول پر اس کی جانچ کر کے اپنی خوراک میں تبدیلی اور ورزش کو روٹین کا حصہ بنا کر دل کے خطرناک امراض سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ مردوں میں دل کے امراض کا تناسب زیادہ ہے۔ لہذا سب مرد حضرات کو بیس سال کی عمر کے بعد یہ ٹیسٹ ضرور کروانا چاہیے اور جن کے ماں باپ میں سے کسی کو دل کا مرض ہے تو وہ سالانہ یہ ٹیسٹ ضرور کروائیں۔
5۔ BSL. ( بلڈ شوگر لیول )۔ یہ ٹیسٹ خون میں موجود گلوکوز کی مقدار بتاتا ہے۔ اگر آپ کی فیملی ہسٹری میں ڈایا بٹیز (شوگر) کی بیماری ہے تو سالانہ اپنا یہ ٹیسٹ ضرور کروائیں
6۔ Stool test . ترقی یافتہ ممالک میں ہر چھ ماہ بعد سکریننگ ٹیسٹ میں یہ بھی کیا جاتا ہے۔ کولون اور ریکٹم کے مختلف امراض خصوصا کینسر کو جلدی پکڑنے کے لیے یہ ٹیسٹ بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اس ٹیسٹ میں سٹول سیمپل کی مائیکروسکوپک جانچ کی جاتی ہے کہ اس میں خون ، پس یا کوئی اور ایبنارمل مادہ تو موجود نہیں ہے۔
7۔ Urine complete examinatiom۔
اس ٹیسٹ میں یورین کی مکمل مائیکروسکوپک جانچ کی جاتی ہے کہ اس میں بیکٹریا ، خون ، پس یا کرسٹلز وغیرہ تو موجود نہیں۔۔یہ ٹیسٹ یورینری ٹریکٹ کی بیماریوں کی جانچ کے لیے
ضروری ہے
انتخاب
#قراةالعین زینب ایڈووکیٹ
خوشگوار شادی شدہ زندگی
ایک عورت تھی جس کا خاوند اُس سے بہت پیار کرتا تھا۔
اس عورت سے اُس کی خوشیوں بھری زندگی کا راز پوچھا گیا کہ..
وہ بہت لذیذ کھانا پکاتی ہے؟ یا اس کا خاوند اس کے حسن و جمال پر فریفتہ ہے؟
یا وہ بہت زیادہ بچے پیدا کرنے والی خاتون رہی ہے؟ یا پھر اس کی محبت کا کوئی اور راز ہے؟
عورت نے یوں جواب دیا:
خوشیوں بھری زندگی کے اسباب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات کے بعد خود عورت کے اپنے ہاتھوں میں ہیں۔
عورت چاہے تو وہ اپنے گھر کو جنت بنا سکتی ہے اور اگر چاہے تو جہنم بنا دے۔
مت سوچیے کہ مال و دولت خوشیوں کا سبب ہے۔ تاریخ میں کتنی ہی مالدار عورتیں ایسی ہیں جن کے خاوند اُن سے کنارہ کش ہو گئے۔
نہ ہی بہت زیادہ بچے پیدا کرنے والی عورت ہونا کوئی بہت بڑی خوبی ہے۔ کئی عورتوں نے دس دس بچے جنے مگر وہ اپنے شوہروں سے کوئی خصوصی التفات و محبت نہ پا سکیں بلکہ نوبت طلاق تک جا پہنچی
اچھا کھانا پکانا بھی کوئی خوبی نہیں ہے، سارا دن کچن میں کھانے پکانے کے باوجود بھی عورتیں خاوند کی شکایت کرتی نظر آتی ہیں
تو پھر آپ ہی بتا دیں اس پُرسعادت اور مسرت بھری زندگی کا راز؟ اور آپ اپنے اورخاوند کے درمیان درپیش مسائل و مشکلات سے کس طرح نپٹا کرتی تھیں؟
اُس نے جواب دیا:
جس وقت میرا خاوند غصے میں آتا اور بلا شبہ میرا خاوند بہت ہی غصیلا آدمی تھا، میں اُن لمحات میں (نہایت ہی احترام کیساتھ) مکمل خاموشی اختیار کر لیا کرتی تھی۔ احترام کےساتھ خاموشی یعنی آنکھوں سے حقارت اور طنزیہ پن نہ جھلکے۔ آدمی بہت عقلمند ہوتا ہے ایسی صورتحال کو بھانپ لیتا ہے۔
تو آپ ایسے میں کمرے سے باہر کیوں نہیں چلی جایا کرتی تھیں؟
اُس نے کہا: خبردار ایسی حرکت مت کرنا، اس سے تو ایسا لگے گا، تم اُس سے فرار چاہتی ہو اور اُسکا نقطہ نظر نہیں جاننا چاہتی خاموشی تو ضروری ہے ہی، اس کے ساتھ ساتھ خاوند جو کچھ کہے اُسے ناصرف سُننا بلکہ اُس سے اتفاق کرنا بھی اُتنا ہی اشد ضروری ہے۔
میرا خاوند جب اپنی باتیں پوری کر لیتا تو میں کمرے سے باہر چلی جاتی تھی، کیونکہ اس سارے شور، شرابے کے بعد میں سمجھتی تھی کہ اُسے آرام کی ضرورت ہے۔
میں اپنے روزمرہ کے گھریلو کاموں میں لگ جاتی، اور اپنے دماغ کو اُس جنگ سے دور رکھنے کی کوشش کرتی
تو آپ اس ماحول میں کیا کرتی تھیں؟ کئی دنوں کیلئے لا تعلقی اور بول چال چھوڑ دینا وغیرہ؟
اُس نے کہا:
ہرگز نہیں، بول چال چھوڑ دینے کی عادت انتہائی گھٹیا اور خاوند سے تعلقات کو بگاڑنے کیلئے دورُخی تلوار کی مانند ہے۔ اگر تم خاوند سے بولنا چھوڑ دیتی ہو تو ہو سکتا ہے شروع میں اُس کیلئے یہ تکلیف دہ ہو۔ شروع میں وہ تم سے بولنے کی کوشش بھی کریگا۔ لیکن جس طرح دن گزرتے جائیں گے وہ اِس کا عادی ہوتا چلا جائے گا۔ تم ایک ہفتہ کیلئے بولنا چھوڑو گی تو اُس میں تم سے دو ہفتوں تک نہ بولنے کی استعداد پیدا ہو جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ وہ تمہارے بغیر بھی رہنا سیکھ لے۔
خاوند کو ایسی عادت ڈال دو کہ تمہارے بغیر اپنا دم بھی گھٹتا ہوا محسوس کرے گویا تم اُس کیلئے ہوا کی مانند ہو. گویا تم وہ پانی ہو جس کو پی کر وہ زندہ رہ رہا ہو۔ باد صبا بنو باد صرصر نہیں..
اُس کے بعد آپ کیا کرتی تھیں؟
اُس عورت نے کہا:
میں دو یا دو سے کچھ زیادہ گھنٹوں کے بعد جوس یا پھر گرم چائے لے کر اُس کے پاس جاتی، اور اُسے نہایت سلیقے سے کہتی، لیجیئے چائے پیجیئے۔ مجھے یقین ہوتا تھا کہ وہ اس لمحے اس چائے یا جوس کا متمنی ہو گا. میرا یہ عمل اور اپنے خاوند کے ساتھ گفتگو اسطرح ہوتی تھی کہ گویا ہمارے درمیان کوئی غصے یا لڑائی والی بات سرے سے ہوئی ہی نہیں۔ جبکہ اب میرا خاوند ہی مجھ سے اصرار کر کے بار بار پوچھ رہا ہوتا تھا کہ کیا میں اُس سے ناراض تو نہیں ہوں۔ میرا ہر بار اُسے یہی جواب ہوتا تھا کہ نہیں میں تو ہرگز ناراض نہیں ہوں۔
اسکے بعد وہ ہمیشہ اپنے درشت رویے کی معذرت کرتا اور مجھ سے گھنٹوں پیار بھری باتیں کرتا تھا۔
تو کیا آپ اُس کی ان پیار بھری باتوں پر یقین کر لیتی تھیں؟
ہاں، بالکل. میں جاہل نہیں ہوں۔ کہ میں اپنے خاوند کی اُن باتوں پر تو یقین کر لوں جو وہ مجھے غصے میں کہہ ڈالتا ہے اور اُن باتوں کا یقین نہ کروں جو وہ مجھے محبت اور پرسکون حالت میں کہتا ہے؟
تو پھر آپکی عزت نفس کہاں گئی؟
کیا عزت اسی کا نام ہے کہ تم غصے میں آئے ہوئے ایک شخص کی تلخ باتوں پر تو یقین کرکے اُسے اپنی عزت نفس کا مسئلہ بنا لومگر اُس کی اُن باتوں کو کوئی اہمیت نہ دو جو وہ تمہیں پیار بھرے اور پرسکون ماحول میں کہہ رہا ہو!
میں فوراً ہی اس غصے کی حالت میں دی ہوئی گالیوں اور تلخ و ترش باتوں کو بھلا کر اُنکی محبت بھری اور مفید باتوں کو غور سے سنتی تھی۔
جی ہاں، خوشگوار اور محبت بھری زندگی کا راز عورت کی عقل میں موجود ہے مگر یہ راز اُسکی زبان سے بندھا ہوا ہے۔
Nimra Shayan
#آزادیاں #پابندیاں
عمل (actions) کی بنیاد پر انسان تیرہ (۱۳) طرح کی آزادیوں کی تمنا کر سکتا ہے اور تیرہ (۱۳) طرح کی ہی پابندیوں کا شکار ہو سکتا ہے:
۱- دیکھنے کی آزادی یا پابندی (آنکھ کا استعمال)
۲- سننے کی آزادی یا پابندی (کان کا استعمال)
۳- سونگھنے کی آزادی یا پابندی (ناک کا استعمال)
۴- چکھنے کی آزادی یا پابندی (زبان کا استعمال)
۵- چھونے کی آزادی یا پابندی (ہاتھ کا استعمال)
۶- سوچنے کی آزادی یا پابندی (دماغ کا استعمال)
۷- احساس کرنے کی آزادی یا پابندی (دل کا استعمال)
۸- بولنے کی آزادی یا پابندی (زبان کا استعمال)
۹- پکڑنے/اُٹھانے کی آزادی یا پابندی (ہاتھ کا استعمال)
۱۰- چلنے کی آزادی یا پابندی (پاؤں کا استعمال)
۱۱- افزائش کرنے کی آزادی یا پابندی (اعضاء جنس کا استعمال)
۱۲- اخراج کرنے کی آزادی یا پابندی (اعضاء اخراج کا استعمال)
۱۳- سانس لینے کی آزادی یا پابندی (اعضاء تنفس کا استعمال)
آزادیوں اور پابندیوں کی انتہایں وہ ہیں جن میں انسان اِن تیرہ کی تیرہ جہتوں میں آزاد ہوں یا پھر پابندیوں کا شکار ہوں تاہم عام طور پر انسان اِن دونوں انتہاؤں کے درمیان میں ہی ہوتے ہیں۔
(عبدالغفور / ۵ جولائی ۲۰۲۲)
Abdul Ghafur
حمل کے ابتدائی ایام میں ایک کامن غلطی جو اکثر لوگ کرتے ہیں۔ اور عموماً نئے شادی شدہ جوڑوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ جسکی وجہ سے پہلے بچوں میں معذوری یا مس کیرج کی ریشو بہت زیادہ ہے۔
ہوتا یہ ہے کہ ایک لڑکی کے پچھلے ماہ والے مینسٹرل پیریڈ کی تاریخ گزر گئی۔ چند دن یا ایک ہفتہ اوپر گزر گیا۔ یا کوئی ایک ڈیٹ ہے ہی نہیں کہ بہت سی لڑکیوں کے پیریڈز ریگولر نہیں ہوتے۔ خود سے اندازہ لگایا جاتا کہ ایک ماہ گزر چکا ہے۔ حالانکہ شادی سے قبل ہی لڑکیوں کو اپنی ڈیٹ ریگولر کرنے کی طرف دھیان دینا چاہیے۔
شادی کے بعد ڈیٹ گزر گئی حمل کے لیے یورین ٹیسٹ ہوتا جو نیگیٹو آتا۔ پھر الٹرا ساؤنڈ کروا لیا جاتا۔ اور الٹرا ساؤنڈ کرنے والے آپی بہت جلدی میں ہوتی ہیں۔ حمل کو نہیں دیکھ پاتیں۔ (ایسا میرے اپنے ساتھ ہوا ہے) یا بیٹا ایچ سی جی بلڈ ٹیسٹ بہت جلد کروا لیا جاتا اور اس میں بھی حمل ظاہر نہیں ہوتا۔
اب غلطی یہ ہوتی کہ حمل موجود تھا مگر ابھی ظاہر نہیں ہوا اور لڑکی نے کوئی ایسی دوا لے لی جس سے پیریڈز ہوجائیں۔ اس نے یہ سمجھا کہ ویسے ہی پیریڈز نہیں ہو رہے۔ جب کہ اندر تو حمل ٹھہر چکا ہے۔ متلی دل گھبرانا چکر آنا حمل کی عموماً ابتدائی علامات ہوتی ہیں۔ مگر ایسا سب کے ساتھ نہیں ہوتا اور یہی غلط فہمی ہوجاتی۔
بلکل ایسا ہی ہمارے ساتھ ضوریز احمد کے بڑے بھائی کی باری بھی ہوا تھا۔ جو پیدائش کے وقت ہی وفات پاگئے تھے۔ ہم نے تینوں ٹیسٹ کرائے مگر حمل ظاہر نہ ہوا، میرے منع کرنے کے باوجود اہلیہ نے دوا کھانی شروع کر دی۔ پتا نہیں یار یہ لڑکیوں کو کیا جلدی ہوتی ہے ماں بننے کی۔ خیر وہ دوا تو پورے ماہ کی تھی وہ مختلف رنگ والی گولیوں کا پتا ۔ چند دن بعد ہی طبیعت کچی پکی سی ہوئی۔ ہسپتال گئے الٹرا ساؤنڈ ہوا تو ڈاکٹر نے مبارک دی کہ آپ ماں بننے والی ہیں۔
دوا فوراً روک دی۔ مگر میرے دل میں کہیں نہ کہیں یہ خدشہ بیٹھ گیا کہ اس دوا نے زائگوٹ کو کوئی نقصان نہ پہنچایا ہو۔ جب ڈاکٹروں سے اس کے متعلق بات کی تو انہوں نے مجھے پریشان کرنا مناسب نہیں سمجھا اور کہا کہ کچھ نہیں ہوگا۔ خود ریسرچ کی تو معلوم ہوا کہ سنگین غلطی ہوگئی ہے۔ حمل ہو چکنے کے بعد ایسے ہارمون لینا جو پیریڈز ہونے کے لیے ہوتے خطرناک ہے۔ چاہے انجانے میں ہی کیوں نہ لیے جائیں۔ خدا جانے بچے کی گروتھ کا نہ ہونا اس وجہ سے ہے یا کوئی انوائرمنٹل فیکٹر تھا۔ جنیٹک فیکٹر نہیں تھا ہم نے مکمل ٹیسٹنگ کروائی۔ جنیٹک ہوتا تو IUGR ضوریز کو بھی متاثر کرتا۔
حمل نو ماہ تک رہا بیٹے کی گروتھ نہیں ہو سکی تھی اور 900 گرام کا بیٹا پیدا ہوا۔ دوران پیدائش ہی وفات ہوگئی۔ ضوریز احمد ماشاءاللہ 2700 گرام کے تھے۔
آپ وہ دوا کتنے دن لیتے ہیں اور کونسی لیتے ہیں۔ آپکے آنے والے بچے پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ اس وقت سٹیم سیلز ہوتے ہیں جن کی تقسیم در تقسیم سے ہمارے جسم کے تمام اعضاء بشمول دماغ بننا ہوتا ہے۔ ان سیلز میں کوئی بھی نقص آجانا جو معلوم نہیں ہوسکتا۔ پیدائش کے وقت یا بعد ظاہر ہوتا ہے۔ مس کیرج نہیں ہوتا نہ کوئی جسمانی عضو ڈیمج ہوتا ہے، بچہ ٹھیک پیدا ہوتا مگر ذہنی پسماندگی یعنی Intellectual Disability اور سیری برل پالسی کی دیگر وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے۔
جلد بازی میں ایسی کوئی دوا نہ کھائیں۔ انتظار کریں کم از کم پیریڈز گزرنے کے بعد ایک سے ڈیڑھ ماہ تک۔ یعنی آپکو 15 جون کو پیریڈز ہونے تھے نہیں ہوئے ۔ اب سولہ جون کو ہی یورین ٹیسٹ پازیٹو نہیں آجانا۔ ہر لڑکی حمل کے ظاہر ہونے کی علامات اور دورانیہ مختلف ہوتا ہے۔۔کچھ میں فوراً ظاہر ہوجاتا اور کچھ میں تاخیر سے۔ آپ کو 15 جون سے 15 جولائی تک انتظار کرنا ہے۔۔ پندرہ دن بعد یورین بلڈ ٹیسٹ اور الٹرا ساؤنڈ اس ڈاکٹر سے کروانا ہے جسے پیچھے لائن میں لگے مریض چیک کرنے کی کوئی جلدی نہ ہو۔
وہ تحمل سے آپکی بات سنے اور چیک اپ کرے۔ کوشش کریں کہ گائناکالوجسٹ کی بجائے سرٹیفائیڈ ریڈیالوجسٹ سے اپنا اسکین کروائیں۔ جس کا یہ کام ہے وہی کرے میں بار ہا کہہ چکا ہوں کہ گائناکالوجسٹ کا کام الٹراساؤنڈ کرنا نہیں ہے۔ مگر کرتی سب ہی ہیں۔ الگ سے الٹرا ساؤنڈ کروا کر آنا سب کی سمجھ اور افورڈ ایبیلٹی میں نہیں آتا۔ کہ یہ پریکٹس ہی یہاں نہیں ہے اور جو افورڈ کر سکتے انکو بھی ڈاکٹر یہ چیز گائیڈ نہیں کرتے۔
ہم ضوریز احمد کی باری لاہور سے گوجرانولہ اور علی پور چھٹہ ایک ایک دن آنے والی پروفیسر ڈاکٹر صائمہ اقبال سے نو ماہ ملتے رہے۔ انہوں نے ہماری پچھلی ہسٹری کو جان کر پہلے دن ہی ہمیں کہا کہ آپ افورڈ کر سکتے ہیں تو ریگولر ریڈیالوجسٹ سے اسکین کروا کر آپ نے میرے پاس آنا ہے۔ اور ہم ایسا ہی کرتے تھے۔ 2500 ریڈیالوجسٹ کی فیس تھی اور 1500 ڈاکٹر کی۔ میرے ٹیچر ہونے کیوجہ سے ریڈیالوجسٹ صاحب ہم سے 1500 اور ڈاکٹر صاحبہ 1000 لیتی تھیں۔ میں ہر ریڈیالوجسٹ کے کلینک میں الٹرا ساؤنڈ ہوتے وقت پاس ہی کھڑا ساری ریڈنگز خود دیکھ رہا ہوتا تھا۔ کچھ لوگوں کو میل ریڈیالوجسٹ سے اسکین کروانے پر اعتراض ہوتا مگر مجھے اور اہلیہ کو ایسی کوئی ریزرویشن نہیں تھی۔ اور میں ہر بار اہلیہ کے ساتھ خود گائناکالوجسٹ کے پاس بھی اندر جاتا تھا۔ ڈاکٹر صاحبہ سے ساری بات میں خود کرتا تھا۔
خیر بات کہیں اور نکل گئی۔ جب تک ہر طرح سے تسلی نہ ہو جائے کہ حمل نہیں ہے تب کوئی دوا لیں۔
خطیب احمد