Friends rent A car sharaqpur

Friends rent A car sharaqpur

Friends Rent A car
we have all kinds of cars with driver or without driver ....

Photos from Friends rent A car sharaqpur's post 03/06/2022

Available for rent with out driver ......

03/06/2022
Photos from Friends rent A car sharaqpur's post 24/09/2021

Available for rent .....

02/08/2021

‏ایک بینک ڈکیتی کے دوران ڈکیت نے چیخ کر سب سے کہا ‘کوئی بھی نہ ہلے، سب چپ چاپ زمین پر لیٹ جائیں، رقم لوگوں کی ہے اور جان آپ کی اپنی ہے۔’
سب چپ چاپ زمین پر لیٹ گئے۔ کوئی اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ اسے کہتے ہیں مائنڈ چینج کانسیپٹ (سوچ بدلنے کا تصور) ‏ڈکیتی کے بعد گھر واپس آئے تو ایم بی اے پاس نوجوان ڈکیت نے پرائمری پاس بوڑھے ڈکیٹ سے کہا ‘چلو رقم گنتے ہیں۔

بوڑھے ڈکیت نے کہا تم پاگل ہو گئے ہو اتنے زیادہ نوٹ کون گنے، رات کو خبروں میں سن لینا کہ ہم کتنا مال لوٹ کر لائے ہیں۔ ‏اسے کہتے ہیں تجربہ جو کہ آج کل ڈگریوں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

دوسری جانب جب ڈاکو بینک سے چلے گئے تو منیجر نے سپروائزر سے کہا کہ پولیس کو فون کرو۔ سپروائز نے جواب دیا ‘رک جائیں سر ! پہلے بینک سے ہم دونوں اپنے لیے دس لاکھ ڈالرز نکال لیتے ہیں اور ہاں ‏وہ چالیس لاکھ ڈالرز کا گھپلہ جو ہم نے حالیہ دنوں میں کیا ہے وہ بھی ڈاکوؤں پر ڈال دیتے ہیں کہ وہ لوٹ کر لے گئے۔’ اسے کہتے ہیں وقت کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا، اور مشکل حالات کو اپنے فائدے کے مطابق استعمال کرنا۔

منیجر ہنس کر بولا ‘ہر مہینے ایک ڈکیتی ‏ہونی چاہیے۔ اسے کہتے ہیں بوریت ختم کرنا، کیونکہ ذاتی مفاد اور خوشی جاب سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔
اگلے دن اخبارات اور ٹی وی پر خبریں تھیں کہ ڈاکو بینک سے سو ملین ڈالرز لوٹ کر فرار۔ ڈاکوؤں نے بار بار رقم گنی لیکن وہ پچاس ملین ڈالرز سے زیادہ نہ نکلی۔ ‏بوڑھا ڈاکو غصے میں آ گیا اور چیخا ‘ہم نے اسلحہ اٹھایا۔اپنی جانیں رسک پر لگائیں اور پچاس ملین ڈالرز لوٹ سکے، جبکہ بینک منیجر نے بیٹھے بیٹھے چند انگلیاں ہلا کر پچاس ملین ڈالرز لوٹ لیا۔ اس سے ‏پتا چلتا ہے کہ تعلیم کتنی ضروری ہے۔ ہم چور نہیں پڑھے لکھے ہونا چاہیے تھا۔

اسی لئے کہتے ہیں علم کی قیمت سونے کے برابر ہوتی ہے..

06/03/2021

👈 *ہر عمل سے پہلے تفتیش کرنا ضروری ہے* 👉

میری یہ بچپن سے عادت رہی ہے کہ جب محلے کی دکان سے کچھ بھی لیا، انہوں نے اخباری ٹکڑے میں لپیٹ کر دیا تو شے کے استعمال کے بعد اس ٹکڑے کو ضرور دیکھا اور پڑھا۔ یہ 2007 کی بات ہے میں اسلام آباد میں ستارہ مارکیٹ کے ساتھ جی سیون فور میں ایک مکان میں رہتا تھا اور اس وقت سی ایس ایس کی تیاری کر رہا تھا۔ ستارہ مارکیٹ میں تازہ جلیبی بن رہی تھی وہ خریدی تو اخبار کا ساتھ آنے والا ٹکڑا پوری زندگی تبدیل کر گیا۔

ہوا کچھ یوں کہ اُس ٹکڑے پر ایک کالم چھپا ہوا تھا۔ کالم نگار کا نام اب یاد نہیں ہے لیکن اس نے جو لکھا تھا وہ سب یاد ہے حرف بہ حرف تو نہیں، لیکن یاد ہے۔ آپ بھی پڑھیں۔

اُس نے لکھا کہ:
میں کل اپنے ایک کاروباری دوست کے پاس دفتر گیا چائے پی گپ شپ لگاتے ہوئے گھر جانے کا وقت ہو گیا۔ جب دفتر سے باہر نکل رہے تھے تو کلرک نے آ کر ایک شکایت لگائی کی جناب فلاں چپڑاسی سست ہے کام نہیں کرتا، ڈرائیور نے بھی اسکی ہاں میں ہاں ملائی۔

میرے اُس دوست نے کہا اگر کام نہیں کرتا تو کس لیے رکھا ہوا ہے، فارغ کرو اسے۔ میں نے فورا مداخلت کی اور کہا، کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ ایک دفعہ اس سے بات کر لو، کیا پتہ اسکے کچھ مسائل ہوں۔ پھر میں نے اپنے دوست کو ایک آنکھوں دیکھا واقعہ سنایا۔

شیخ صاحب لاہور میں ایک معمولی سے دفتر میں ملازم تھے، دن کچھ ایسے پھرے کہ اسی دفتر کے صاحب کو پسند آ گئے اور یوں انکی فیملی میں ہی شیخ صاحب کی شادی ہو گئی۔

قدرت شیخ صاحب پر مہربان تھی، دن رات اور رات دن میں بدلتے گئے اور شیخ صاحب ایک دکان سے ایک مارکیٹ اور پھر ایک فیکٹری سے دو، چار، اور پھر نہ جانے کتنی فیکٹریوں کے مالک بنتے گئے۔

دھن برستا گیا، دو بچے ہو گئے۔ شیخ صاحب نے کرائے والے کمرے سے ایک اپارٹمنٹ اور پھر لاہور کے انتہائی پوش علاقے میں دو کنال کی ایک کوٹھی خرید لی۔ مالی کی ضرورت پیش آئی تو چکوال سے آئے ہوئے سلطان کو فیکٹری سے نکال کر اپنی کوٹھی میں پندرہ سو روپے ماہوار پر اپنی کوٹھی پر ملازم رکھ لیا۔

سلطان ایک انتہائی شریف اور اپنے کام سے کام رکھنے والا انسان تھا، نہ کسی سے کوئی جھگڑا، نہ کوئی عداوت، نہ کبھی کوئی شکایت۔ ایک بار شیخ صاحب دن کے دس بجے کسی کام سے گھر واپس آئے تو گاڑئ دروازے پر ہی کھڑی کر دی کہ ابھی واپس دفتر جانا تھا۔ دروازے سے گھر کے داخلئ دروازے کے درمیان اللہ جانے کیا ہوا کہ پودوں کو پانی دیتے سلطان کے ہاتھ سے پائپ پھسلا اور شیخ صاحب کے کپڑوں پر پوری ایک تیز پھوار جا پڑی،

شیخ صاحب بھیگ گئے۔ سلطان پاؤں میں گر گیا، گڑگڑا کر معافی مانگنے لگا کہ صاحب غلطی ہو گئی۔ لیکن شیخ صاحب کا دماغ آسمان پر تھا۔ غصے میں نہ آو دیکھا نہ تاو، وہیں کھڑے کھڑے سلطان کو نوکری سے نکال دیا۔کہا شام سے پہلے اس گھر سے نکل جاؤ۔

سلطان بیچارہ سامان کی پوٹلی باندھ کر گھر سے نکل کر دروازے کے پاس ہی بیٹھ گیا کہ شاید صاحب کا غصہ شام تک ٹھنڈا ہو جائے تو واپس بلا لیں۔ شام کو شیخ صاحب واپس آئے، دیکھا سلطان ابھی تک بیٹھا ہوا تھا، گارڈ کو کہا اسے دھکے دیکر نکال دو، یہ یہاں نظر نہ آئے، صبح ہوئی تو سلطان جا چکا تھا۔ رب جانے کہاں گیا تھا۔

وقت گزرتا گیا، شیخ صاحب کے تیزی سے ترقی پاتے کاروبار اور فیکٹریوں میں ایک ٹھہراؤ سا آنے لگا۔ کاروبار میں ترقی کی رفتار آہستہ آہستہ کم پڑتی گئی۔ لیکن شیخ صاحب زندگی سے بہت مطمئن تھے۔

پھر ایک فیکٹری میں آگ لگ گئی، پوری فیکٹری جل کر راکھ ہو گئی۔ کچھ مزدور بھی جل گئے۔ شیخ صاحب کو بیٹھے بٹھائے کروڑوں کا جھٹکا لگ گیا۔ کاروبار میں نقصان ہونا شروع ہوا تو شیخ صاحب کے ماتھے پر بل پڑنا شروع ہو گئے۔ بڑا بیٹا یونیورسٹی کا سٹوڈنٹ تھا،

دوستوں کے ساتھ سیر پر مری گیا واپسی پر حادثہ ہوا تو وہ جوان جہان دنیا سے رخصت ہو گیا۔ شیخ صاحب کی کمر ٹوٹ گئی۔

نقصان پر نقصان ہوتے گئے۔ دو کنال کی کوٹھی بیچ کر دس مرلے کے عوامی طرز کے محلے میں آ گئے۔ جب عقل سے کچھ پلے نہ پڑا تو پیروں فقیروں کے ہاں چلے گئے کہ شاید کوئی دعا ہاتھ لگ جائے اور بگڑی ہوئی زندگی پھر سے سنور جائے۔ باقی ماندہ کاروبار بیچ کر اور کچھ دیگر پراپرٹی کو رہن رکھ کر بنک سے قرضہ لیا اور چھوٹے بیٹے کو ایک نیا کاروبار کر کے دیا۔

اسکے پارٹنر دوست نے دغا کیا اور اکثر پیسہ ڈوب گیا۔ شیخ صاحب ساٹھ سال کی عمر میں چارپائی سے لگ گئے۔

ایک دن ایک پرانا جاننے والا ملنے آیا ، حالات دیکھے تو بہت افسوس کیا۔ کہا شیخ صاحب انڈیا سے ایک بزرگ آئے ہوئے ہیں، بہت بڑے اللہ والے ہیں، داتا صاحب کے پاس ہی ایک مکان میں انکا چند دن کا قیام ہے، اگر ان کے پاس سے دعا کروا لیں تو اللہ کرم کرے گا۔

شیخ صاحب فورا تیار ہو گئے۔ اس مکان پر پہنچے، ملاقات کی، مسئلہ بیان کیا۔ انہوں نے آنکھیں بند کیں، کچھ دیر مراقبے کی کیفیت میں رہے، پھر آنکھیں کھولیں، شیخ کو دیکھا اور کہا "تم نے سلطان کو کیوں نکالا تھا؟"

شیخ کے سر کے اوپر گویا ایک قیامت ٹوٹ پڑی، آنکھوں سے آنسوؤں کی ایک نہ تھمنے والی لڑی جاری ہو گئی، شیخ بزرگ کے پاؤں میں گر گیا، معافیاں مانگنے لگا۔ بزرگ نے اسے کہا میری بات سنو۔ پروردگار رازق ہے، وہ رزق ضرور دے گا لیکن اسکا وسیلہ انسانوں کو ہی بنائے گا۔اوپر سے نیچے آتے پانی کی تقسیم جس طرح نہروں نالوں کی طرح ہوتی ہے رزق کی تقسیم اسی طرح ہے۔

پروردگار کے نزدیک ہم میں سے ہر ایک شخص وسیلہ ہے کسی اور کے رزق کا۔ اگر آپ وسیلہ بننے سے انکار کرو گے تو تمہارے حصے کا وہ رزق جو اس وسیلے سے تمہیں بطور معاوضہ مل رہا تھا ختم ہو جائے گا۔

تمہیں لاکھوں کروڑوں سلطان کو پندرہ سو روپے دینے کے لیے ملتے تھے۔ تم نے وہ روک لیے، اوپر والے نے تمہارا معاوضہ ختم کر دیا۔ اب جاؤ اور سلطان کو ڈھونڈو، اگر وہ مان جائے معاف کر دے تو تمہارے دن پھر جائیں گے۔

شیخ کی دنیا لٹ گئی، وہ سر پیٹتا گھر آیا پرانے کاغذات ڈھونڈتا رہا کہ شاید کہیں سلطان کا کوئی پتہ، کوئی شناختی کارڈ، کوئی اور معلومات مل سکیں۔ کچھ بھی نہ ملا تو شیخ دیوانہ وار سلطان کو ڈھونڈنے چکوال جانے والی بس میں بیٹھ کر چکوال چلا گیا۔

سلطان نہ ملا۔

چھوٹا بیٹا ڈھونڈتا ڈھونڈتا چکوال اڈے پر آ پہنچا اور باپ کو واپس لاہور لے آیا۔ لیکن شیخ کے دل کا سکون ختم ہو گیا تھا۔ کچھ دن بعد شیخ پھر گھر سے غائب ہوا تو بیٹے کو معلوم تھا کہ کہاں ملے گا۔

وہ چکوال پہنچا تو دیکھا باپ زمین پر بیٹھا سر میں راکھ ڈال رہا تھا اور کہہ رہا تھا سلطان تم کہاں ہو، سلطان تم کہاں ہو۔ بیٹا خود روتا ہوا باپ کو واپس لے آیا۔ چند دن کے بعد شیخ کا انتقال ہو گیا۔

کالم نگار نے لکھا، میں نے اپنے دوست کو یہ پوری کہانی سنائی اور اسے کہا، چپڑاسی کو نہ نکالو، اسکا رزق تمہارے رزق سے جُڑا ہے، اسے تو رب کہیں اور سے بھی دے دے گا کہ اس کے پاس وسیلہ بنانے کے لیے کسی چیز کی کوئی کمی نہیں لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اس معاوضے والی نعمت سے محروم ہو جاؤ۔

مجھے یہ واقعہ پڑھے ہوئے تیرہ سال گزر گئے ہیں۔ آپ یقین کریں اس نے میری زندگی بدل دی۔ میں مالی معاملات میں بہت زیادہ محتاط ہو گیا۔ اگر کسی کے پاس دس بارہ رہ گئے تو نہیں مانگے کہ کہیں رب کریم سے ملنے والا معاوضہ کم نہ ہو جائے۔

میں نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر اور نیک نیتی سے وسیلہ بننے کی کوششیں کیں، خاندان میں جو بھی مستحق ہیں انکا خیال رکھنے کی کوشش کی۔ میں ان تیرہ سالوں میں کبھی تنگ دست نہیں ہوا۔ ایک سے بڑھ کر ایک وسیلہ ملتا گیا اور میں آگے بڑھتا رہا۔۔۔۔

Photos from Friends rent A car sharaqpur's post 03/03/2021
22/02/2021

بہترین نصیحت
*میں اگر لو (LU) بسکٹس چھوڑ دوں تو کیا فرانس کنگال ہو جائے گا؟*
*ٹوٹل سے ایک لیٹر پیٹرول تو ڈلواتے ہیں اس سے کیا فرق پڑے گا۔۔*
*گارنیر کی کاسمیٹکس میں سے چند ایک ہی تو لیتے ہیں وہ بھی مہینے بعد۔۔۔*

*یاد رکھیں۔۔*
*کوئی عمل معمولی نہیں ہوتا۔۔*
*اگر یہی بات وہ چڑیا سوچ لیتی*
*جو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آگ بجھانے کے کے لیے اپنی چونچ میں پانی بھر کر لے کے جا رہی تھی۔ اسے بھی اچھی طرح پتہ تھا*
*ایک قطرہ پانی سے اس آگ کو کچھ نہیں ہوگا مگر اسے یہ باتیں اچھی طرح پتہ تھی کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس کا نام آگ لگانے والوں میں نہیں بلکہ آگ بجھانے والوں میں لکھا جائے گا*
*ہم جو کر سکتے ہیں وہ کریں گے۔*😊

Photos from Friends rent A car sharaqpur's post 20/02/2021

Available for rent without driver
For booking and more information visit our office or context
Malik kamran aaba
03237009572

Photos from Friends rent A car sharaqpur's post 21/01/2021

Available for rent ......

Photos from Friends rent A car sharaqpur's post 20/01/2021

Available for rent on daily and monthly basis.....

10/01/2021

Must Read 😂😂😂copied
ایک صبح کسی صاحب کے گھر کے باہر کھڑی گاڑی چوری
ہوگئی۔ لیکن شام ڈھلتے ہی وہی گاڑی صاف ستھری حالت میں مکمل پالش کے ساتھ اسی جگہ کھڑی پائی گئی جہاں سے چوری ہوئی تھی۔ اور گاڑی کے اندر ایک خط پڑا تھا جس پر تحریر تھا:
میں تہہِ دل سے معذرت خواہ ہوں کہ مجھے یہ قدم اٹھانا پڑا۔ میری بیوی کی ڈیلیوری کے باعث حالت تشویش ناک تھی۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آپا رہا تھا کہ کیسے اسے ہسپتال پہنچاؤں۔ بس اس وجہ سے میں نے چوری جیسا گھناؤنا قدم اٹھایا مگر میں اپنے کیے پر شرمندہ ہوں اور امید کرتا ہوں آپ مجھے میری اس حرکت پر معاف کر دیں گے۔
میری طرف سے آپ اور آپ کی فیملی کے لیے ایک عدد تحفہ۔ آج رات کے شو کی ٹکٹیں اور ساتھ میں کچھ کھانے پینے کی چیزیں بھی قبول کیجیے۔ یہ سب اس مدد کے بدلے میں ہے جو آپ کی گاڑی کے ذریعے سے ہوئی۔

گاڑی کا مالک یہ سب پڑھ کر مسکرایا۔ بغیر محنت گاڑی بھی دھلی دھلائی ملی اور مفت میں رات کے شو کی ٹکٹیں۔

رات کو جب فیملی فلم دیکھ کر واپس آئی تو ان کے گھر ڈکیتی کی واردات کی جاچکی تھی۔ پورا گھر سامان سے خالی کیا جاچکا تھا اور وہیں پر ایک خط پڑا ملا جس پر لکھا تھا:
امید ہے فلم پسند آئی ہوگی۔

10/01/2021

پی ایس ایل کی ڈرافٹ سے واپسی گھر جاتے وقت شعیب ملک کی گاڑی ٹرک سے ٹکرا گئی،

31/12/2020

ﺍﮔﺮ ﻗﺎﺭﻭﻥ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺁﭘﮑﯽ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﮮ ﭨﯽ ﺍﯾﻢ ﮐﺎﺭﮈ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺧﺰﺍﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﻥ ﭼﺎﺑﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ بہتر ﮨﮯ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﺗﺮﯾﻦ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻋﺎﺟﺰ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﻗﺎﺭﻭﻥ ﭘﺮ ﮐﯿﺎ ﺑﯿﺘﮯ ﮔﯽ؟

ﺍﮔﺮ ﮐﺴﺮﯼٰ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﮭﮏ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ﺻﻮﻓﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺗﺨﺖ ﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺁﺭﺍﻡ ﺩﮦ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻝ ﭘﺮ ﮐﯿﺎ ﮔﺰﺭﮮ ﮔﯽ؟

ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﻗﯿﺼﺮ ﺭﻭﻡ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻏﻼﻡ ﺷﺘﺮ ﻣﺮﻍ ﮐﮯ ﭘﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺑﻨﮯ ﺟﻦ ﭘﻨﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﮨﻮﺍ ﭘﮩﻨﭽﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ پنکھے اوراے ﺳﯽ ﮐﮯ ﮨﺰﺍﺭﻭﯾﮟ ﺣﺼﮯ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﮐﯿﺴﺎ ﻟﮕﮯ ﮔﺎ؟

ﺁﭖ ﺍپنی خوبصورت ﮐﺎﺭ ﻟﯿﮑﺮ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻓﺮﺍﭨﮯ ﺑﮭﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮔﺰﺭ ﺟﺎﺋﯿﮯ، ﮐﯿﺎ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﻮﮌﻭﮞ ﭘﺮ غرور اور گھمنڈ ہوگا ؟

ﮨﺮﻗﻞ بادشاہ ﺧﺎﺹ ﻣﭩﯽ ﺳﮯ ﺑﻨﯽ ﺻﺮﺍﺣﯽ ﺳﮯ ﭨﮭﻨﮉﺍ ﭘﺎﻧﯽ ﻟﯿﮑﺮ ﭘﯿﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍِﺱ ﺁﺳﺎﺋﺶ ﭘﺮ ﺣﺴﺪ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺗﻮ ﺍﮔﺮ ﺍﺳﮯ آپ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ کے ف*ج کا پانی پیش کریں گے ﺗﻮ ﻭﮦ ﮐﯿﺎ ﺳﻮﭼﮯ ﮔﺎ؟

ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻣﻨﺼﻮﺭ ﮐﮯ ﻏﻼﻡ ﺍﺱ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﭨﮭﻨﮉﮮ ﺍﻭﺭ ﮔﺮﻡ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﻣﻼ ﮐﺮ ﻏﺴﻞ ﮐﺎ ﺍﮨﺘﻤﺎﻡ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻮﻻ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ، ﮐﯿﺴﺎ ﻟﮕﮯ ﮔﺎ ﺍﺳﮯ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺗﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﯽ ﺟﺎﮐﻮﺯﯼ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﮯ ﺗﻮ؟

جناب ﺁﭖ ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﯽ ﺭﺍﺣﺖ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮦ ﺭﮨﮯ ہیں ، ﺑﻠﮑﮧ ﺳﭻ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺁﭖ ﺟﯿﺴﯽ ﺭﺍﺣﺖ ﮐﺎ ﺳﻮﭺ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻣﮕﺮ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺠﯿﺌﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺗﻮ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﻠﯿﮟ آپ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺼﯿﺐ ﺳﮯ ﻧﺎﻻﮞ ﮨﯽ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺟﺘﻨﯽ ﺭﺍﺣﺘﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﺳﻌﺘﯿﮟ ﺑﮍﮪ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺳﯿﻨﮧ ﺍﺗﻨﺎ ﮨﯽ ﺗﻨﮓ ﮨﻮﺗﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ !!!

*ﺍﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﮧ ﭘﮍﮬﯿﺌﮯ، ﺷﮑﺮ ﺍﺩﺍ ﮐﯿﺠﯿﺌﮯ ﺧﺎﻟﻖ ﮐﯽ ﺍﻥ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺟﻦ ﮐﺎ ﺷﻤﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ سکتا*😊

30/12/2020

ملا نصیر الدین ایک دن ایک کلو کلیجی گھر لے ائے بیوی محترمہ سے کہا کلیجی بھون لو ، میں آتا ہوں ۔
کلیجی بھونتے ہوئے بیوی نے زرا سی کلیجی ٹیسٹ کی تو مزے کی لگی اس طرح کرتے کرتے وہ ساری کلیجی ہڑپ کرگئ۔

ملا نصیرالدین جب گھر واپس آئے کلیجی سے متعلق سوال کیا تو بیوی نے بلی کی جانب اشارہ کیا کہ میں نے کلیجی دھو کے رکھی تو یہ بلی کمینی کھاگئی ...

ملاجی نے بلی کو اٹھایا اور ترازو میں تولا تو بلی کا وزن ایک کلو تھا ، ملاجی بولے زوجہ محترمہ کلیجی ایک کلو تھی اور بلی کھاگئی جبکہ بلی کا کل ملاکر وزن بذات خود ایک کلو سے زرا سا کم ہے اگر یہ بلی کا وزن ہے تو کلیجی کہاں ہے اور اگر یہ کلیجی کا وزن ہےتو بلی کہاں ہے۔
اب اگر پاکستانی عوام بھی خان صاحب سے پوچھے کہ کرپشن اگر ختم ھوئی تو پھر خزانہ کیوں خالی ھے.. اگر خزانہ خالی ھے تو کون کون سے ترقی یافتہ پراجکٹس پر خرچ کیا ھے.... مطلب کرپشن اور خالی خزانہ بلی اور کلیجی کیطرح ھے..

29/12/2020

عرب حکیم اور دانشمند لوگ ہیں۔ ان کی کہاوتیں اور امثال حکمت سے لبریز ہوتی ہیں ۔ذیل میں کچھ عرب کہاوتیں بڑی دلچسپ اورنصیت آموز ہیں ۔

عرب کہتے ہیں کہ پانی وہیں سے پیو جہاں سے گھوڑا پیتا ہے کیونکہ نسلی گھوڑا ناپاک پانی کو منہ نہیں لگاتا ۔

سکون سے سونا ہو تو چارپائی وہیں بچھائو جہاں بلی سوتی ہے ،کیونکہ بلی ہمیشہ پر سکون جگہ کا ہی انتخاب کرتی ہے ۔

پھل وہ کھائو جسے کیڑا کھائے بغیر چھوکر گزرا ہو ۔ کیونکہ کیڑا صرف پکے پھل کو ہی تلاش کرتا ہے ۔

گھر اس جگہ بنائو جہاں اژدھا دھوپ سیکنے کنڈلی مارتا ہو ۔ کیونکہ اژدھا استراحت کے لئے صرف ایسی جگہ کا انتخاب کرتا ہے جو مضبوط اور پختہ ہونے کے ساتھ سردیوں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈی ہو۔

پانی کے لئے کھدائی وہاں کریں جہاں پرندے گرمی سے بچنے کے لئے پناہ لیتے ہوں ۔ کیونکہ جہاں پرندے پناہ لیتے ہیں وہاں پانی ہوتا ہے ۔


کامیابی چاہتے ہو تو سونے اور اٹھنے میں پرندوں کی روٹین اپنالو ۔ کیونکہ رزق کی تلاش کا سب سے مناسب وقت کا انتخاب پرندے ہی کرتے ہیں جو کامیابی کا سب سے موثر طریقہ ہے۔“❤❤

22/12/2020

ایک فوٹو گرافر نے اپنی دکان کے باہر بورڈ لگایا ہوا تھا۔ جس پر درج ذیل 3 تحریریں لکھی ھوئی تھیں۔

20 روپے میں آپ جیسے ہیں ، ویسی فوٹو بنوائیں۔
30 روپے میں آپ جیسا سوچتے ہیں ، ویسی فوٹو بنوائیں-
اور
50 روپے میں آپ لوگوں کے سامنے جیسے دِکھنا چاہتے ہیں ، ویسی فوٹو بنوائیں!

مرتے وقت اس فوٹو گرافر نے بتایا کہ مجھ سے ہمیشہ لوگوں نے 50 روپے والی فوٹو بنوائی ھے۔۔۔

اس کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ ( اکثر ) لوگ پوری زندگی دوسروں کو دکھانے کے لئے گزاردیتے ہیں۔ ساری زندگی دکھاوا کرتے ہیں۔ اور 20 روپے والی زندگی نہیں گزارتے!!

آپ جیسے بھی ھیں ، بہت اچھے ھیں ۔۔۔۔
*20 روپے والی زندگی گزاریں زیادہ خوش رھیں گے۔۔*
سیاسی پوسٹ نہیں ہے اگر ہم اس فارمولا پر عمل پیرا ہو جائیں تو کافی حد تک اپنی مشکالات پر قابو پا سکتے ہیں
یہ نہ سوچیں کہ کون آپ کے بارے میں کیا سوچتا ہے۔

Photos from Friends rent A car sharaqpur's post 20/12/2020

Available for rent ...

Photos from Friends rent A car sharaqpur's post 19/12/2020

Available for rent
03014115200

15/12/2020

تحصیل شرقپور کی یونین کونسل کوٹ محمود میں متوقع بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے میٹنگ حاجی جمیل احمد کی رہائش گاہ کوٹ محمود میں ہوئی۔جس میں برادری کے معززین کی کثیر تعداد نے شرکت کی جس میں تمام دوستوں اور برادری کی باہمی مشاورت سےحاجی ملک عبدالرشید (مرحوم) کے بیٹے حاجی ملک وقاص رشید کو یونین کونسل کوٹ محمود سے امیدوار برائے چیئرمین منتخب کیا گیا۔ برادری کے تمام لوگوں کا کہنا تھا۔کہ ہماراہر طرح کا تعاون حاجی ملک وقاص رشید کے ساتھ ہو گا۔
اس موقع پر حاجی ملک وقاص رشید نے معززین برادری کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا۔کہ جس امید سے آپ لوگوں نے مجھے منتخب کیا ہے۔میں اللّٰہ پاک سے دعا گو ہوں کہ اللہ پاک مجھے آپ دوستوں کی امیدوں پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اللہ پاک مجھے میرے والد (مرحوم )کی طرح عوام کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

Photos from Friends rent A car sharaqpur's post 05/12/2020

ALHAMDULILLAH.. BRAND NEW HONDA CIVIC NOW AVAILABLE AT FRIENDS RENT A CAR

08/10/2020

بھیک دینے سے غریبی ختم نہیں ہوتی!
"ہم نے دو نوعمر بچوں کو لیا
ایک کو پرانے کپڑے پہنا کر بھیک مانگنے بھیجا
اور دوسرے کو مختلف چیزیں دے کر فروخت کرنے بھیجا،
شام کو بھکاری بچہ آٹھ سو
اور مزدور بچہ ڈیڑھ سو روپے کما کر لایا.
اس سماجی تجربے کا نتیجہ واضح ہے۔
دراصل بحیثیت قوم، ہم بھیک کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں
اور محنت مزدوری کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں.
ہوٹل کے ویٹر، سبزی فروش اور چھوٹی سطح کے محنت کشوں کے ساتھ ایک ایک پائی کا حساب کرتے ہیں
اور بھکاریوں کو دس بیس بلکہ سو پچاس روپے دے کر سمجھتے ہیں کہ جنت واجب ہوگئی.
ہونا تو یہ چاہئے کہ مانگنے والوں کو صرف کھانا کھلائیں
اور مزدوری کرنے والوں کو ان کے حق سے زیادہ دیں.
ہمارے استاد فرماتے ہیں کہ بھکاری کو اگر آپ ایک لاکھ روپے نقد دے دیں تو وہ اس کو محفوظ مقام پر پہنچا کر اگلے دن پھر سے بھیک مانگنا شروع کر دیتا ہے.
اس کے برعکس
اگر آپ کسی مزدور یا سفید پوش آدمی کی مدد کریں تو
وہ اپنی جائز ضرورت پوری کرکے زیادہ بہتر انداز سے اپنی مزدوری کرے گا.
کیوں نہ گھر میں ایک مرتبان رکھیں؟ بھیک کے لئے مختص سکے اس میں ڈالتے رہیں.
مناسب رقم جمع ہو جائے تو اس کے نوٹ بنا کر ایسے آدمی کو دیں جو بھکاری نہیں.
اس ملک میں لاکھوں طالب علم، مریض، مزدور اور خواتین ایک ایک ٹکے کے محتاج ہیں.
صحیح مستحق کی مدد کریں تو ایک روپیہ بھی آپ کو پل صراط پار کرنے کے لئے کافی ہو سکتا ہے.
یاد رکھئے!
بھیک دینے سے گداگری ختم نہیں ہوتی،بلکہ بڑھتی ہے.
خیرات دیں،
منصوبہ بندی اور احتیاط کے ساتھ،
اس طرح دنیا بھی بدل سکتی ہے اور آخرت بھی.
باقی مرضی آپ کی"

04/10/2020

سنگاپور میں امتحانات سے قبل ایک اسکول کے پرنسپل نے بچوں کے والدین کو خط بھیجا جس کا مضمون کچھ یوں تھا۔۔
" محترم والدین!
آپ کے بچوں کے امتحانات جلد ہی شروع ہونے والے ہیں میں جانتا ہوں آپ سب لوگ اس چیز کو لے کر بہت بے چین ہیں کہ آپ کا بچہ امتحانات میں اچھی کارکردگی دکھائے۔
لیکن یاد رکھیں یہ بچے جو امتحانات دینے لگے ہیں ان میں (مستقبل کے) آرٹسٹ بھی بیٹھے ہیں جنھیں ریاضی سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس میں بڑی بڑی کمپنیوں کے ترجمان بھی ہوں گے جنھیں انگلش ادب اور ہسٹری سمجھنے کی ضرورت نہیں ۔
ان بچوں میں (مستقبل کے) موسیقار بھی بیٹھے ہوں گے جن کے لیے کیمسٹری کے کم مارکس کوئی معنی نہیں رکھتے ان سے ان کے مستقبل پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا۔
ان بچوں میں ایتھلیٹس بھی ہو سکتے ہیں جن کے فزکس کے مارکس سے زیادہ ان کی فٹنس اہم ہے۔
لہذا اگر آپ کا بچہ زیادہ مارکس لاتا ہے تو بہت خوب لیکن اگر وہ زیادہ مارکس نہیں لا سکا تو خدارا اسکی خوداعتمادی اور اس کی عظمت اس بچے سے نہ چھین لیجئے گا۔
اگر وہ اچھے مارکس نہ لا سکیں تو انھیں حوصلہ دیجئے گا کہ کوئی بات نہیں یہ ایک چھوٹا سا امتحان ہی تھا وہ زندگی میں اس سے بھی کچھ بڑا کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں!!!

02/10/2020

👇👇ذندگی کی اک اہم حقيقت 👇👇

کسی نے دنیاں کے امیر ترین شخص بل گیٹس سے پوچھا، کیا دنیا میں آپ سے امیر ترین کوٸی ہے ؟؟
بل گیٹس نے کہا جی ہاں! ایک ہے جو مجھ سے زیادہ امیر ترین ہے۔
پھر اس نے کہانی شروع کی۔

ایک ایسے وقت میں جب میرے پاس زیادہ پیسے نہیں تھے اور نہ ہی شہرت۔ ایک دن میں نیویارک کے اٸیرپورٹ پر تھا اور وہاں ایک اخبار بیچھنے والا سامنے آیا۔ میں ایک اخبار خریدنا چاہتاتھا لیکن میرے پاس چھوٹے ڈالر نہیں تھے۔ میں نے اخبار واپس کر دیا اور کہا کہ سوری میرے پاس کھلے نہیں ہے۔ انہوں جواب میں کہاں! کوٸی بات نہیں، میں یہ آپ کو مفت میں دے رہا ہو۔ میں نے انکار کیا لیکن اسکی بہت اسرار پر میں نے ان سے اخبار مفت میں لے لیا۔

اتفاقاً 3 سال بعد میں اسی اٸیر پورٹ پر دوبارہ اترا۔ لیکن اس دفہ بھی میرے پاس چھوٹے پیسے نہیں تھے۔ اخبار بیچنے والا پھر آیا اور اخبار پیش کیا۔ میں نے انکار کیا کہ میں یہ نہیں لے سکتا میرے پاس کھلے نہیں ہے۔ اس نے پھر کہاں کہ آپ پیسے نہ دے. یہ میں اپنی جیب سے ادا کر لونگا مجھے زیادہ نقصان نہیں ہے۔ اور میں نے وہ اخبار لے لیا۔

ٹھیک 19 سال بعد میں امیر اور مشہور ہوگیا۔ مجھے وہ اخبار بیچنے والا زہن میں آیا اور میں اسکی تلاش کرنے لگا۔ ڈیڑھ مہینہ بعد میں اسے ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگیا۔

میں نے ان سے پوچھا کیا آپ مجھے جانتے ہیں ؟ وہ کہنے لگا ہاں کیوں نہیں، آپ بل گیٹس ہے۔ میں نے پھر پوچھا کیا آپ کو یاد ہے میں نے آپ سے مفت میں اخبار لیا تھا ؟ وہ کہنے لگا ہاں میں نے دو دفعہ دیا تھا۔

میں نے ان سے کہاں کہ آپ نے میری مدد کی تھی، اب آپ بتاٶ دنیا میں جو کچھ بھی آپکو چاہیے میں دلا دونگا ؟
وہ کہنے لگا سر! میں نہیں سمجھتا کہ آپ کی یہ مدد میرے اس مدد کہ برابر ہوگی جو میں نے آپکی کی تھی۔ میں نے پوچھا کیوں ؟
وہ کہنے لگا! سر میں نے آپ کی مدد اس وقت کی تھی جب میں ایک غریب اخبار بیچنے والا تھا۔ اور آپ اس وقت مدد کر رہے ہو جب آپ امیر بن گٸے ہو۔ یہ دونوں کیسے ایک دوسرے سے میچ کر سکتی ہے ؟

اس دن مجھے معلوم ہوا کہ اخبار بیچنے والا مجھ زیادہ امیر ترین تھا کیونکہ اس نے کسی کی مدد کرنے کے لیے خود امیر بننے کا انتظار نہیں کیا۔ لوگوں کو یہ سمجھ میں آنا چاہیے کہ امیر ترین وہ ہے جن کے دل امیر ترین ہے وہ نہیں جن کے پاس بہت سارا پیسہ ہو

30/09/2020

ایک ٹویوٹا پراڈو کے دروازے پہ ڈینٹ تھا۔ اسکے مالک نے ڈینٹ والا دروازہ کبھی مرمت نہیں کرایا. کوئی پوچھتا تو وہ بس یہی کہتا "زندگی کی دوڑ میں اتنا تیز نہیں چلنا چاہیے کہ کسی کو اینٹ مار کر گاڑی روکنی پڑے"۔
سننے والا اس کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر قدرے حیران ہوتا اور پھر سمجھتے، نہ سمجھتے ہوئے سر ہلا دیتا؛

-سرگوشی سنو گے یا اینٹ سے بات سنو گے !

ایک نوجوان بزنس مینیجر اپنی برانڈ نیو ٹویوٹا پراڈو میں دفتر سے ڈی ایچ اے میں واقع گھر جاتے ہوئے ایک پسماندہ علاقے سے گزرا جو مضافات میں ہی واقع تھا. اچانک اس نے ایک چھوٹے بچے کو بھاگ کر سڑک کی طرف آتے دیکھا تو گاڑی آہستہ کردی. مگر پھر بھی اس نے بچے کو کوئی چیز اچھالتے دیکھا۔ ٹھک کی آواز کے ساتھ ایک اینٹ اس کی نئی گاڑی کے دروازے پر لگی تھی. اس نے فوراً بریک لگائی اور گاڑی سے باہر نکل کر دروازہ دیکھا جس پر کافی بڑا ڈینٹ پڑ چکا تھا.

اس نے غصے سے ابلتے ہوئے بھاگ کر اینٹ مارنے والے بچے کو پکڑا اور زور سے جھنجھوڑا. "اندھے ہوگئے ہو، پاگل کی اولاد؟ تمہارا باپ اس کے پیسے بھرے گا؟" وہ زرو سے دھاڑا

میلی کچیلی شرٹ پہنے بچے کے چہرے پر ندامت اور بے چارگی کے ملے جلے تاثرات تھے.

"سائیں، مجھے کچھ نہیں پتہ میں اور کیا کروں؟

میں ہاتھ اٹھا کر بھاگتا رہا مگر کسی نے گل نئیں سنی." اس نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں کچھ کہا. اچانک اس کی آنکھوں سے آنسو ابل پڑے اور سڑک کے ایک نشیبی علاقے کی جانب اشارہ کیا "ادھر میرا ابا گرا پڑا ہے. بہت وزنی ہے. مجھ سے اُٹھ نہیں رہا تھا، میں کیا کرتا سائیں؟"۔

بزنس ایگزیکٹو کے چہرے پر ایک حیرانی آئی اور وہ بچے کے ساتھ ساتھ نشیبی علاقے کی طرف بڑھا تو دیکھا ایک معذور شخص اوندھے منہ مٹی میں پڑا ہوا تھا اور ساتھ ہی ایک ویل چیئر گری پڑی تھی۔ ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ شائد وزن کے باعث بچے سے ویل چیئر سنبھالی نہیں گئی اور نیچے آگری اور ساتھ ہی پکے ہوئے چاول بھی گرے ہوئے تھے جو شاید باپ بیٹا کہیں سے مانگ کے لائے تھے۔

"سائیں، مہربانی کرو. میرے ابے کو اٹھوا کر کرسی پر بٹھا دو." اب میلی شرٹ والا بچہ باقاعدہ ہچکیاں لے رہا تھا۔

نوجوان ایگزیکٹو کے گلے میں جیسے پھندا سا لگ گیا۔ اسے معاملہ سمجھ آگیا اور اپنے غصے پر بہت ندامت محسوس ہورہی تھی۔ اس نے اپنے سوٹ کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھ کر پوری طاقت لگا کر کراہتے ہوئے معذور شخص کو اٹھایا اور کسی طرح ویل چیئر پر بٹھا دیا۔ بچے کے باپ کی حالت غیر تھی اور چہرہ خراشوں سے بھرا پڑا تھا۔

وہ بھاگ کر اپنی گاڑی کی طرف گیا اور بٹوے میں سے پچاس ہزار نکالے اور کپکپاتے ہاتھوں سے معذور کی جیب میں ڈال دیے۔ پھر ٹشو پیپر سے اس کی خراشوں کو صاف کیا اور ویل چیئر کو دھکیل کر اوپر لے آیا۔ بچہ ممنونیت کے آنسوؤں سے اسے دیکھتا رہا اور پھر باپ کو لیکر اپنی جھگی کی طرف چل پڑا۔ اس کا باپ مسلسل آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتے ہوئے نوجوان کو دعائیں دے رہا تھا۔

نوجوان نے بعد میں ایک خیراتی ادارے کے تعاون سے جھگی میں رہنے والوں کے لیے ایک جھگی سکول کھول دیا اور آنے والے سالوں میں وہ بچہ بہت سے دوسرے بچوں کے ساتھ پڑھ لکھ کر زندگی کی دوڑ میں شامل ہوگیا۔

وہ پراڈو اس کے پاس مزید پانچ سال رہی، تاہم اس نے ڈینٹ والا دروازہ مرمت نہیں کرایا. کبھی کوئی اس سے پوچھتا تو وہ بس یہی کہتا "زندگی کی دوڑ میں اتنا تیز نہیں چلنا چاہیے کہ کسی کو اینٹ مار کر گاڑی روکنی پڑے"۔

اوپر والا کبھی ہمارے کانوں میں سرگوشیاں کرتا ہے اور کبھی ہمارے دل سے باتیں کرتا ہے. جب ہم اس کی بات سننے سے انکار کردیتے ہیں تو وہ کبھی کبھار ہمارے طرف اینٹ بھی اچھال دیتا ہے۔
پھر وہ بات ہمیں سننا پڑتی ہے۔

ہم جہاں ملازمت، بزنس، خاندان، بیوی بچوں کی خوشیوں کے لیے بھاگے جارہے ہیں، وہیں ہمارے آس پاس بہت سی گونگی چیخیں اور سرگوشیاں بکھری پڑی ہیں۔ اچھا ہو کہ ہم اپنے ارد گرد کی سرگوشیاں سن لیں تاکہ ہم پر اینٹ اچھالنے کی نوبت نہ آئے۔
منقول

29/09/2020

*نسبت سے فرق تو پڑتا ہے*

گندم میں کنکرہوتا ہے، کیا وہ کنکر گندم کے بھاؤ نہیں بکتا؟
وہ بھی گندم کے حساب سے ہی تلتا ہے۔
اسی طرح جو ﷲ والوں کی مجالس میں بیٹھتا ہے
وہ کھرا نہ بھی ہو، کھوٹا ہی ہو…
ان شاء ﷲ اس کا حساب کتاب، اور بھاؤ، اسی گندم کے بھاؤ لگ جائے گا اور ان شاء ﷲ وہ بھی اسی طرح بوریوں میں پیک ہو کے تُلے گا اور کندھوں پہ اٹھایا جائے گا
اور اگر وہ دور رہا تو آوارہ پڑے کنکر کی طرح پاؤں تلے روندا جائے گا یا اٹھا کر باہر پھینک دیا جائیگا۔

ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﺩﻭ ﺍﯾﻨﭩﯿﮟ ﻟﯿﮟ
ﺍﯾﮏ ﺍﯾﻨﭧ ﮐﻮ
ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﺎ ﺩﯾﺎ..
ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﻨﭧ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﺨﻼ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﺎ ﺩﯼ..
ﺍﯾﻨﭩﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺟﯿﺴﯽ ....
ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺍیک ....
ﻟﮕﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ...
ﻟﯿﮑﻦ ﺍﯾﮏ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﻣﺴﺠﺪ ﺳﮯ ﮨﻮﺋﯽ...
ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﺨﻼ ﺳﮯ....
ﺟﺲ ﺍﯾﻨﭧ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﺨﻼ ﺳﮯ
ﮨﻮﺋﯽ.....
ﻭﮨﺎﮞ ﮨﻢ ﻧﻨﮕﺎ ﭘﺎﻭﮞ ﺑﮭﯽ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﭘﺴﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﺍﯾﻨﭧ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻠّﻪ ﺳﮯ ﮨﻮﺋﯽ ﻭﮨﺎﮞ ﮨﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﯿﺸﺎﻧﯿﺎﮞ ٹیکتے ﮨﯿﮟ ﺍﺳﮑﻮ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﺳﮯ ﭼﻮﻣﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﻮﺳﮧ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ..
ﺩوﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺭﺗﺒﮯ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻕ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﻮﺍ!...
ﻗﯿﻤﺖ ﺍﯾﮏ ﺗﮭﯽ ﭼﯿﺰ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﺗﮭﯽ.....
ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺳﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﯾﻨﭧ ﺍﯾﮏ
ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻧﮯ ﻟﮕﺎئی ﺑﮭﯽ...
ﻓﺮﻕ ﺻﺮﻑ ﯾﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ
ﺍﻟﮓ ﺍﻟﮓ ﺗﮭﯽ
*"ﺍﭘﻨﯽ ﻧﺴﺒﺖ اللّٰہ ☝ والوں ﺳﮯ ﺭﮐﮭﯿﮟ ﯾﻘﯿﻨﺎ ﺑﮩﺖ ﻓﺮﻕ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ!!"*

*فرینڈز رینٹ اے کار شرقپور *

27/09/2020

ایک جہاز پر پاس بیٹھی باحجاب لڑکی سے ایک لبرل خیالات کا حامل شخص بولا: "آئیں کیوں نہ کچھ بات چیت کر لیں، سنا ہے اس طرح سفر بآسانی کٹ جاتا ہے۔"
لڑکی نے کتاب سے نظر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور کہا: "ضرور، مگر آپ کس موضوع پر بات کرنا چاہیں گے؟"
اُس شخص نے کہا: "ہم بات کر سکتے ہیں کہ اسلام عورت کو پردے میں کیوں قید کرتا ہے؟ یا اسلام عورت کو مرد کے جتنا وراثت کا حقدار کیوں نہیں مانتا؟
لڑکی نے دلچسپی سے کہا: "ضرور، لیکن پہلے آپ میرے ایک سوال کا جواب دیجیئے۔"
اس شخص نے پوچھا: "کیا؟"
لڑکی نے کہا: "گائے، گھوڑا اور بکری ایک سا چارہ یعنی گھاس کھاتے ہیں، لیکن۔۔۔ گائے گوبر کرتی ہے، گھوڑا لید کرتا ہے اور بکری مینگنی کرتی ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟"
وہ شخص اس سوال سے چکرا گیا اور کھسیا کر بولا: "مجھے اس کا پتہ نہیں۔"
اس پر لڑکی بولی: "کیا آپ سمجھتے ہیں کہ، آپ خدا کے بنائے قوانین، پردہ، وراثت اور حلال و حرام پر بات کے اہل ہیں۔۔۔۔ جبکہ خبر آپ کو جانوروں کی غلاظت کی بھی نہیں ؟"
یہ کہہ کر لڑکی اپنی کتاب کی طرف متوجّہ ہوگئی اور مرد کھسیانا ہو کر سونے کی ایکٹنگ کرنے لگا
بس یہ ہی حال ہماری قوم کا بھی ہمیں اپنے گھر کی خبر تک نہیں ہوتی لیکن ہم دانشور اور سیاست دان بن کر دنیا کے ہر ایشو میں ٹانگ اڑانا فرض سمجھتے ہیں

20/09/2020

عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں ۔۔۔
ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی،نوکری کی طلب لئےحاضر ھوا،
قابلیت پوچھی گئ، کہا ،سیاسی ہوں ۔۔
(عربی میں سیاسی،افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے والے معاملہ فہم کو کہتے ھیں)
بادشاہ کے پاس سیاست دانوں کی بھر مار تھی،
اسے خاص " گھوڑوں کے اصطبل کا انچارج " بنا لیا
جو حال ہی میں فوت ھو چکا تھا.
چند دن بعد ،بادشاہ نے اس سے اپنے سب سے مہنگے اور عزیز گھوڑے کے متعلق دریافت کیا،
اس نے کہا "نسلی نہیں ھے"
بادشاہ کو تعجب ھوا، اس نے جنگل سے( سائیس ) کو بلاکر دریافت کیا،،،،
اس نے بتایا، گھوڑا نسلی ھے لیکن اس کی پیدائش پر اس کی ماں مرگئ تھی، یہ ایک گائے کا دودھ پی کر اس کے ساتھ پلا ھے.
مسئول کو بلایا گیا،
تم کو کیسے پتا چلا، اصیل نہیں ھے؟؟؟
اس نے کہا،
جب یہ گھاس کھاتا ھےتو گائیوں کی طرح سر نیچے کر کے
جبکہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لےکر سر اٹھا لیتا ھے.
بادشاہ اس کی فراست سے بہت متاثر ھوا،
مسئول کے گھر اناج،گھی،بھنے دنبے،اور پرندوں کا اعلی گوشت بطور انعام بھجوایا.
اس کے ساتھ ساتھ اسے ملکہ کے محل میں تعینات کر دیا،
چند دنوں بعد، بادشاہ نے مصاحب سے بیگم کے بارے رائے مانگی،
اس نے کہا.
طور و اطوار تو ملکہ جیسے ھیں لیکن "شہزادی نہیں ھے،"
بادشاہ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ، حواس بحال کئے، ساس کو بلا بیجھا،
معاملہ اس کے گوش گذار کیا. اس نے کہا ، حقیقت یہ ھے تمہارے باپ نے، میرے خاوند سے ھماری بیٹی کی پیدائش پر ھی رشتہ مانگ لیا تھا، لیکن ھماری بیٹی 6 ماہ ہی میں فوت ھو گئ تھی،
چنانچہ ھم نے تمہاری بادشاہت سے قریبی تعلقات قائم کرنے کے لئے کسی کی بچی کو اپنی بیٹی بنالیا.
بادشاہ نے مصاحب سے دریافت کیا، "تم کو کیسے علم ھوا،"
اس نے کہا، اس کا "خادموں کے ساتھ سلوک" جاہلوں سے بدتر ھے،
بادشاہ اس کی فراست سے خاصا متاثر ھوا، "بہت سا اناج، بھیڑ بکریاں" بطور انعام دیں.
ساتھ ہی اسے اپنے دربار میں متعین کر دیا.
کچھ وقت گزرا،
"مصاحب کو بلایا،"
"اپنے بارے دریافت کیا،" مصاحب نے کہا، جان کی امان،
بادشاہ نے وعدہ کیا، اس نے کہا:
"نہ تو تم بادشاہ زادے ھو نہ تمہارا چلن بادشاہوں والا ھے"
بادشاہ کو تاؤ آیا، مگر جان کی امان دے چکا تھا،
سیدھا والدہ کے محل پہنچا، "والدہ نے کہا یہ سچ ھے"
تم ایک چرواہے کے بیٹے ھو،ہماری اولاد نہیں تھی تو تمہیں لے کر پالا ۔
بادشاہ نے مصاحب کو بلایا پوچھا، بتا،
"تجھے کیسے علم ھوا" ؟؟؟
اس نے کہا،
"بادشاہ" جب کسی کو "انعام و اکرام" دیا کرتے ھیں تو "ہیرے موتی، جواہرات" کی شکل میں دیتے ھیں،،،،
لیکن آپ "بھیڑ ، بکریاں، کھانے پینے کی چیزیں" عنایت کرتے ھیں
"یہ اسلوب بادشاہ زادے کا نہیں "
کسی چرواہے کے بیٹے کا ہی ھو سکتا ھے.
عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں ۔۔۔
عادات، اخلاق اور طرز عمل ۔۔۔ خون اور نسل دونوں کی پہچان کرا دیتے ھیں ۔

اگر پوسٹ اچھی لگے تو براے مہربانی لائیک ، کمنٹ اور شئیر ضرور کریں

Videos (show all)

With friends .....
Rent py gari ly k ja k eysa v hota hy log eysa v krty hy .....

Telephone

Address

Lahore
52000