Quran tafseer
Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Quran tafseer, Education Website, .
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم الله الرحمن الرحيم
سورۂ بقرہ
آیت نمبر49
ترجمہ:"اور (یاد کرو)جب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی جو تمہیں بہت برا عذاب دیتے تھے، تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ چھوڑ دیتے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش تھی '
تفسیر:
اس سے پہلی آیات میں بنی اسرائیل پر کی گئی نعمتوں کا ذکر ہوا اور اب یہاں سے ان نعمتوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے ارشاد فرمایا کہ اے بنی اسرائیل! میری وہ نعمت یاد کرو کہ جب ہم نے تمہیں فرعون کی پیروی کرنے والوں سے نجات دی جو تمہیں بہت برا عذاب دیتے تھے۔
فرعون نے بنی اسرائیل پر نہایت بے دردی سے محنت شقت کے دشوار کام لازم کر رکھے تھے پتھروں کی چٹانیں کاٹ کر ڈھوتے ڈھوتے ان کی کمریں اورگردنیں زخمی ہوگئی تھیں غریبوں پر ٹیکس مقرر کئے ہوئے تھے جو غروب آفتاب سے قبل جبراًوصول کئے جاتے تھے اورجوٹیکس نہ دے پاتا اسے سخت سزائیں ملتی تھیں۔
مصر کے بادشاہوں کا لقب فرعون ہوتا تھا۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانہ کے فرعون کا نام ولید بن مُصْعَبْ بن رَیان تھا اور اس آیت میں اُسی کا ذکر ہے۔اس کی عمر چار سو سال سے زیادہ ہوئی اس آیت میں آلِ فرعون سے اس کے پیروکار مراد ہیں
فرعون نے خواب دیکھا کہ بیت المقدس کی طرف سے ایک آگ آئی اوراس نے مصر کو گھیر کر تمام قبطیوں کو جلا ڈالا جبکہ بنی اسرائیل کوکوئی نقصان نہیں ہوا۔ اس خواب سے اسے بڑی وحشت ہوئی کاہنوں نے تعبیر دی کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہوگا جو تیری ہلاکت اور تیری سلطنت کی تباہی کا سبب بنے گا۔ یہ سن کر فرعون نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل میں جو لڑکا پیدا ہو اُسے قتل کردیا جائے۔
یوں ہزاروں کی تعداد میں بچے قتل کئے گئے۔ قدرتِ الٰہی سے اس قوم کے بوڑھے جلد مرنے لگے تو قبطی سرداروں نے گھبرا کر فرعون سے شکایت کی کہ ایک طرف بنی اسرائیل میں موت کی کثرت ہوگئی ہے اور دوسری طرف ان کے بچے بھی قتل کئے جا رہے ہیں اگر یہی صورت حال رہی تو ہمیں خدمتگار کہاں سے ملیں گے؟اس پر فرعون نے حکم دیا کہ ایک سال بچے قتل کئے جائیں اور ایک سال چھوڑدئیے جائیں تو جو سال چھوڑنے کا تھا اس میں حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پیدا ہوئے اور قتل کے سال حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت ہوئی۔یہ واقعہ سورۂ قصص کے پہلے رکوع میں کافی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم الله الرحمن الرحيم
سورۂ بقرہ
آیت نمبر48
ترجمہ:"اور اس دن سے ڈروجس دن کوئی جان کسی دوسرے کی طرف سے بدلہ نہ دے گی اور نہ کوئی سفارش مانی جائے گی اور نہ اس سے کوئی معاوضہ لیا جائے گا اور نہ ان کی مددکی جائے گی۔"
تفسیر:
اے بنی اسرائیل ! قیامت کے اس دن سے ڈرو جس دن کوئی شخص کسی کافر کی طرف سے بدلہ نہ دے گا, نہ کافر کے بارے میں کسیکی کوئی سفارش مانی جائے گی , نہ کافرسے جہنم کے عذاب سے نجات کے بدلے کوئی معاوضہ لیا جائے گا , نہ کفارسے اللہ تعالیٰ کا عذاب دور کیا جائے گا اور نہ ان کی مددکی جائے گی۔
شفاعت کی امید پر گناہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے اچھے ڈاکٹر کے مل جانے کی امید پر کوئی زہر کھالے یا ہڈیوں کے ماہر ڈاکٹر کے ملنے کی امید پرگا ڑی کے نیچے آکر سارے بدن کی ہڈیاں تڑوالے۔معلوم ہوا کہ قیامت کے دن کافر کو نہ کوئی کافر اور نہ کوئی مسلمان نفع پہنچا سکے گا
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم الله الرحمن الرحيم
سورۂ بقرہ
آیت نمبر47
ترجمہ:"اے اولادِیعقوب یاد کرو میرا وہ احسان جو میں نے تم پر کیا اور یہ کہ اس سارے زمانہ پر تمہیں بڑائی دی"
تفسیر:
یہاں سے ایک بار پھر بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کے احسانات یاد کرنے کاحکم دیا گیا ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت ترک کرنے سے ڈریں
اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں یاد کرنے کا حکم دیاجارہا ہے وہ یہ ہیں :
(1)تمام اہلِ زمانہ پر فضیلت و برتری
(2)دریامیں راستہ بن جانا
(3)فرعون سے نجات
(4) تورات کا عطا ہونا
(5)بچھڑے کی پوجا پر معافی مل جانا
(6)ایک گروہ کا مرنے کے بعد زندہ کیا جانا
(7)بادلوں سے سایہ ملنا
(8)مَن و سَلویٰ نازل ہونا
(9)پانی کے بارہ چشمے جاری ہوجانا
(10)زمینی اناج عطا کیا جانا وغیرہ
یہ تمام نعمتیں ان کے آباؤ اجداد کو عطا کی گئی تھیں اور چونکہ جو نعمت آباؤ اجداد کو ملی ہو وہ ان کی اولاد کے حق میں بھی نعمت ہوتی ہے ا س لئے ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ اے یعقوب کی اولاد! میرا وہ احسان یاد کروجو میں نے تم پر کیا اور میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی پیروی کر کے اور ان کے دین میں داخل ہو کر میری ان نعمتوں کا شکر ادا کرو۔
عوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم الله الرحمن الرحيم
سورۂ بقرہ
آیت نمبر46,45
ترجمہ:"اور صبر اور نماز سے مددحاصل کرواور بیشک نماز ضرور بھاری ہے مگر ان پر جو دل سے میری طرف جھکتے ہیں ۔جنہیں یقین ہے کہ انہیں اپنے رب سے ملنا ہے اور انہیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔"
تفسیر:
س آیت کی تفسیر یہ ہے ..... اس سے پہلی آیات میں بنی اسرائیل کوسید المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے اوران کی شریعت پر عمل کرنےاور سرداری ترک کرنے اور منصب و مال کی محبت دل سے نکال دینے کا حکم دیا گیا اور ا س آیت میں ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ اے بنی اسرائیل! اپنے نفس کو لذتوں سے روکنے کے لئے صبر سے مدد چاہو اگر صبر کے ساتھ ساتھ نماز سے بھی مدد حاصل کرو تو سرداری اورمنصب و مال کی محبت دل سے نکالنا تمہارے لئے آسان ہو جائے گا بیشک نماز ضرور بھاری ہے لیکن ان لوگوں پر بھاری نہیں جو دل سے میری طرف جھکتے ہیں۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے مسلمانو! تم رضائے الٰہی کے حصول اور اپنی حاجتوں کی تکمیل میں صبر اور نماز سے مدد چاہو۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۵، ۱ / ۵۰)
سبحان اللہ! کیا پاکیزہ تعلیم ہے۔ صبر کی وجہ سے قلبی قوت میں اضافہ ہے اور نماز کی برکت سے اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہوتا ہے اور یہ دونوں چیزیں پریشانیوں کو برداشت کرنے اور انہیں دور کرنے میں سب سے بڑی معاون ہیں۔
گناہوں اور خواہشات سے بھرے ہوئے دلوں پر نماز بہت بوجھل ہوتی ہے عشق اورمحبت الٰہی سے لبریز اور خوفِ خدا سے جھکے ہوئے دلوں پر نماز بوجھ نہیں بلکہ نماز ان کیلئے لذت و سرور اور روحانی و قلبی معراج کا سبب بنتی ہے
یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے رب سے ملاقات پر یقین رکھتے ہیں اور اُس مولیٰ کریم کے دیدار کی تڑپ رکھتے ہیں۔
اس میں بشارت ہے کہ آخرت میں مؤمنین کو دیدار الٰہی کی نعمت نصیب ہو گی نیزاللہ تعالیٰ سے ملاقات اور اس کی طرف رجوع میں ترغیب و ترہیب دونوں ہیں اور ان دونوں کو پیشِ نظر رکھنا نماز میں خشوع پیدا ہونے کا ذریعہ ہے، گویا نماز میں خشوع و خضوع قائم رکھنے کا حکم بھی دیا اور اس کے حصول کا طریقہ بھی بتادیا۔
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم الله الرحمن الرحيم
سورۂ بقرہ
آیت نمبر44
ترجمہ:"کیا لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور اپنی جانوں کو بھولتے ہو حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو تو کیا تمہیں عقل نہیں"
تفسیر:
یہ آیت مبارکہ یہودیوں کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے مشرکینِ عرب کو حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے مبعوث ہونے کی خبر دی تھی اور حضور پرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی پیروی کرنے کی ہدایت کی تھی ،پھر جب حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ مبعوث ہوئے تو یہ ہدایت کرنے والے حسد سے خود کافر ہوگئےیا ان یہودی علماء کے بارے میں ہے جن سے ان کے مسلمان رشتہ داروں نے دینِ اسلام کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا: تم اس دین پر قائم رہو، محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا دین حق اور کلام سچا ہے تو انہیں فرمایا گیا کہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود کو بھلاتے ہو
یہاں ایک بات ذہن نشین رکھیں کہ معمولی فساد اس وقت بہت بڑے فتنے اور تباہی کی شکل اختیار کرلیتا ہے جب اس کا ارتکاب کرنے والے خود وہ لوگ ہوں جو دوسروں کوتو بھلائی کا حکم دیتے ہوں لیکن جب ان کے عمل سے پردہ اُٹھے تو معلوم ہو کہ گناہوں کے سب سے بڑے مریض یہی ہیں قول و فعل کا تضاد اور خلوت و جلوت کا فرق دنیا و آخرت دونوں لئے بہت نقصان دہ ہے
حضرت عدی بن حاتم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا ’’قیامت کے دن کچھ لوگوں کو جنت کی طرف لے جانے کا حکم ہو گا، یہاں تک کہ جب وہ جنت کے قریب پہنچ کر اس کی خوشبو سونگھیں گے ، اس کے محلات اور ا س میں اہل جنت کے لئے اللہ تعالیٰ کی تیار کردہ نعمتیں دیکھ لیں گے، تو ندا دی جائے گی :انہیں جنت سے لوٹا دو کیونکہ ان کا جنت میں کوئی حصہ نہیں۔ (یہ ندا سن کر) وہ ایسی حسرت کے ساتھ لوٹیں گے کہ اس جیسی حسرت کے ساتھ ان سے پہلے لوگ نہ لوٹیں ہوں گے، پھر وہ عرض کریں گے :’’یارب عَزَّوَجَلَّ! اگر تو اپنا ثواب اور اپنے اولیاء کے لئے تیار کردہ نعمتیں دکھانے سے پہلے ہی ہمیں جہنم میں داخل کر دیتا تو یہ ہم پر زیادہ آسان ہوتا۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا ’’ میں نے ارادۃً تمہارے ساتھ ایسا کیا ہے(اور ا س کی وجہ یہ ہے کہ ) جب تم تنہائی میں ہوتے تو بڑے بڑے گناہ کر کے میرے ساتھ اعلانِ جنگ کرتے اور جب لوگوں سے ملتے تو عاجزی و انکساری کے ساتھ ملتے تھے، تم لوگوں کو اپنی وہ حالت دکھاتے تھے جو تمہارے دلوں میں میرے لئے نہیں ہوتی تھی، تم لوگوں سے ڈرتے اور مجھ سے نہیں ڈرتے تھے، تم لوگوں کی عزت کرتے اور میری عزت نہ کرتے تھے،تم لوگوں کی وجہ سے برا کام کرنا چھوڑ دیتے لیکن میری وجہ سے برائی نہ چھوڑتے تھے، آج میں تمہیں اپنے ثواب سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے عذاب کا مزہ بھی چکھاؤں گا۔
یاد رہے کہ اس آیت میں فرمایا ہے کہ جب دوسروں کو وعظ و نصیحت کرتے ہو تو خود بھی عمل کرو، یہ نہیں فرمایا کہ جب عمل نہیں کرتے تو وعظ و نصیحت کیوں کرتے ہو؟ کیونکہ عمل کرنا ایک واجب ہے اور دوسروں کو برائی سے روکنا دوسرا واجب ہے ۔ اگر ایک واجب پر عمل نہیں تو دوسرے سے کیوں رُکا جائے
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم الله الرحمن الرحيم
سورۂ بقرہ
آیت نمبر43
ترجمہ:"اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو"
تفسیر:
}اس سے پہلی آیات میں یہودیوں کو ایمان لانے کا حکم دیا گیا،پھر انہیں حق کو باطل کے ساتھ ملانے اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نبوت کے دلائل چھپانے سے منع کیا گیا ،اب ان کے سامنے وہ شرعی احکام بیان کئے جا رہے ہیں جو ایمان قبول کرنے کے بعد ان پر لازم ہیں ، چنانچہ فرمایا گیا کہ اے یہودیو! تم ایمان قبول کرکے مسلمانوں کی طرح پانچ نمازیں ان کے حقوق اورشرائط کے ساتھ ادا کرو اور جس طرح مسلمان اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اسی طرح تم بھی اپنے مالوں کی زکوٰۃ دواور میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور ان کے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہم کے ساتھ با جماعت نماز ادا کرو۔(تفسیرکبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ:۴۳، ۱ / ۴۸۵، روح البیان، البقرۃ،تحت الآیۃ: ۴۳،۱ / ۱۲۱، خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۲، ۱ / ۴۹، ملتقطاً)
اس آیت میں جماعت کے ساتھ نماز اداکرنے کی ترغیب بھی ہے
نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا تنہا پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتا ہے
اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو با جماعت نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین
Allah♥
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم الله الرحمن الرحيم
سورۂ بقرہ
آیت نمبر42
ترجمہ:"اور حق سے باطل کو نہ ملاؤ اور دیدہ و دانستہ حق نہ چھپاؤ"
تفسیر:
یہودی علماء نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت اور نبوت سے متعلق تورات کی آیتیں چھپاتے بھی تھے اور کبھی کچھ بیان کرتے تو ان کے ساتھ اپنی طرف سے کچھ باطل باتیں بھی ملادیا کرتے تھے مثلا اپنے پیروکاروں سے کہتے کہ محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نبی تو ہیں لیکن ہمارے لئے نہیں دوسروں کیلئے ہیں۔یہودی علماء نے اسطرح کی کئی باتیں گھڑی ہوئی تھیں جنکے ذریعے وہ جان بوجھ کر حق چھپانے اور حق و باطل کو ملا کر دھوکہ دینے کے طریقے اختیار کئے ہوئے تھے ۔
علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر ایک کو چاہئے کہ وہ حق کو باطل سے نہ ملائے اور نہ ہی حق کو چھپائے کیونکہ اس میں فساد اور نقصان ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ حق بات جاننے والے پر اسے ظاہر کرنا واجب ہے اور حق بات کو چھپانا ا س پر حرام ہے
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم الله الرحمن الرحيم
سورۂ بقرہ
آیت نمبر41
ترجمہ:"اور ایمان لاؤ اس (کتاب )پر جو میں نے اتاری ہے وہ تمہارے پاس موجود کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے اور سب سے پہلے اس کا انکار کرنے والے نہ بنو اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑی قیمت نہ وصول کرواور مجھ ہی سے ڈرو"
تفسیر:
اے بنی سرائیل کے علماء! اس قرآن پر ایمان لاؤ جو میں نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل کیا ہے اور وہ تمہارے پاس موجود کتاب تورات و انجیل کی تصدیق کرتا ہے اور تم اہل کتاب میں سے قرآن مجید اور میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے سب سے اَوّلین منکر نہ بنو ورنہ جو لوگ تمہارے پیچھے لگ کر کفر اختیار کریں گے تو انکا وبال بھی تم پر ہوگا۔
اس آیت میں دنیاکے حقیر و ذلیل مال کے بدلے اللہ تعالیٰ کی آیات بیچنے سے منع کیا گیا ہے اوریہاں اُن آیات سے توریت و انجیل کی وہ آیات مراد ہیں جن میں حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اوصاف و علامات کا بیان ہے۔ قرآن پاک کی یہ آیات ان یہودیوں کے متعلق نازل ہوئیں جنہیں اپنی قوم سے نذرانے اور وظائف ملتے تھے اور انہیں ڈر تھا کہ اگر قوم کو معلوم ہوگیا کہ تورات میں محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی یہ نشانیاں بیان کی گئی ہیں تو وہ ان سرداروں کو چھوڑکر محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لے آئیں گے اور یوں ان کے نذرانے بند ہوجائیں گے۔ اسی کو فرمایا جارہا ہے کہ دنیا کے قلیل مال کے بدلے اللہ تعالیٰ کی آیتیں بیچتے ہیں۔
اس آیت اور اس کے بعد والی آیت سے معلوم ہوا کہ یہودی علماء اپنے باطل مفادات، نفسانی خواہشات اور جاہلانہ تَوَہُّمات کی بنا پر اپنی کتابوں میں موجود آیات کو چھپاتے تھے حالانکہ علماء کا منصب توحق بات کا اعلان کرنا، حق اور باطل کو جدا کرنا، مالی و ذاتی مفادات کو دین پر قربان کرنااور دین کا محافظ بننا ہے۔
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم الله الرحمن الرحيم
سورۂ بقرہ
آیت نمبر40
ترجمہ:"اے یعقوب کی اولاد! یاد کرو میرا وہ احسان جو میں نے تم پر کیا اور میراعہد پورا کرو میں تمہاراعہد پورا کروں گا اورصرف مجھ سے ڈرو"
تفسیر:
آیت نمبر 40سے لے کرآیت نمبر150تک کی اکثر آیات میں بنی اسرائیل کے عروج وزوال، عزت و ذلت، اِقبال و اِدبار، جزا و سزااورقومی و اجتماعی اچھے برے کردار کا تذکرہ ہے۔ اسی بیان کو قرآن پاک میں باربار دہرایا گیا ہے۔
اس باربار کے تکرار میں ایک بڑی حکمت قوموں کے عروج و زوال اور عزت و ذلت کا فلسفہ سمجھانااور مسلمانوں کو اس سے عبرت دلانا ہے کہ جس طرح بنی اسرائیل پیغمبروں کی اولاد ہونے، جلیل القدر انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامکی امت ہونے اور تورات جیسی کتاب رکھنے کے باوجود اپنے اعتقادوعمل کے بگاڑ پر ذلیل و رسوا اور مغلوب و مقہور ہوئی جبکہ توبہ و رجوع اور نبی و کتاب کی تعلیمات پر عمل کرنے کی صورت میں معزز و غالب ہوئی اسی طرح امت ِ مسلمہ بھی اپنے عروج و زوال کے اسباب کو اِسی آئینے میں دیکھ سکتی ہے۔
قرآن میں بیان کردہ بنی اسرائیل کا قومی اور اجتماعی کردار اور موجودہ دور کے مسلمانوں کا قومی اور اجتماعی کردار سامنے رکھ کر موازنہ کرلیں۔ خود ہی سمجھ آجائے گا کہ آ مسلمان مغلوبیت، ذلت اور پستی کا شکار کیوں ہیں ؟
’اسراء‘‘ کا معنیٰ ’’عبد‘‘ یعنی بندہ اور ’’اِیل ‘‘سے مراد ’’ اللہ ‘‘ تو اسرائیل کا معنیٰ ہوا ’’عبداللہ‘‘یعنی اللہ کا بندہ
س آیت میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے زمانے کے یہودیوں کو مخاطب کر کے ان سے فرمایا گیا : اے بنی اسرائیل! میرے وہ احسان یاد کرو جو میں نے تمہارے آباؤ اجداد پر کئے جیسے
انہیں فرعون سے نجات دی
ان کیلئے دریا میں گزرگاہ بنادی
بادل کو ان پرسائبان بنادیا
کھانے کیلئے ان پر مَن و سَلْویٰ اتارا
ان کے لئے پانی کے چشمے جاری کئے
انہیں طاقتور قوموں پر فتح عطا فرمائی
توریت جیسی عظیم کتاب انہیں عطا فرمائی تمہیں اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا زمانہ عطا کیا جن کی آمد کی بشارت تورات اور انجیل میں دی گئی ہے۔
یہاں یاد کرنے سے مراد ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی کرکے ان نعمتوں کا شکر بجالائیں کیونکہ کسی نعمت کا شکر نہ کرنا اس کو بھلادینے کے مترادف ہے۔
بنی اسرائیل!تم میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر ایمان لاکر وہ عہد پورا کرو جو تم نے مجھ سے کیا اور میں اس کے ثواب کے طور پر تمہیں جنت میں داخل کر کے تمہارے ساتھ کیا ہوا عہد پور اکروں گا اور اپنے عہد کو پورا کرنے کے معاملے میں کسی اور سے ڈرنے کی بجائے صرف مجھ سے ڈرو۔‘‘
قول یہ ہے کہ اس سے وہ عہد مراد ہے جواللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے ذریعے بنی اسرائیل سے لیاکہ میں آخری زمانے میں حضرت اسماعیلعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی اولاد میں ایک نبی کوبھیجنے والاہوں تو جس نےان کی پیروی کی اور اس نور کی تصدیق کی جسے وہ لے کرآئے تو میں ا س کے گناہ بخش دوں گا اور اسے جنت میں داخل کروں گااور اسے دگنا ثواب عطا کروں گا
س کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ عہد ہے جوسورہ مائدہ میں یوں ہے:
بیشک اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیااور ہم نے ان میں بارہ سردار قائم کیے اور اللہ نے فرمایا: بیشک میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اگر تم نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور میرے رسولوں پر ایمان لاؤ اور ان کی تعظیم کرو اور اللہ کو قرض حسن دو توبیشک میں تم سے تمہارے گناہ مٹا دوں گا اور ضرور تمہیں ان باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں تو اس (عہد) کے بعد تم میں سے جس نے کفر کیا تو وہ ضرور سیدھی راہ سے بھٹک گیا۔
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم الله الرحمن الرحيم
سورۂ بقرہ
آیت نمبر38,39
ترجمہ:"ہم نے فرمایا: تم سب جنت سے اتر جاؤ پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کی پیروی کریں گے انہیں نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔اور وہ جو کفر کریں گے اور میری آیتوں کوجھٹلائیں گے وہ دوزخ والے ہوں گے،وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے"
تفسیر:
ہدایتالٰہی کے پیروکاروں کی لئے بشارت ہے کہ انہیں نہ تو قیامت کی بڑی گھبراہٹ کا خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے بلکہ بے غم جنت میں داخل ہوں گے۔ یہاںسب کو اترنے کا فرمایا ہے اس میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت حواء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کےساتھ ان کی اولاد بھی مراد ہے جوابھی حضرت آدمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پشت میں تھی
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم الله الرحمن الرحيم
سورۂ بقرہ
آیت نمبر37
ترجمہ:"پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بےشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان"
تفسیر:
حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی دعا میں یہ کلمات عرض کئے
"’’اے ہمارے رب !ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اگر تُو نے ہماری مغفرت نہ فرمائی اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ضرور ہم نقصان والوں میں سے ہوجائیں گے۔‘‘"
حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے" حضرت آدمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اجتہادی خطا ہوئی تو عرصۂ دراز تک حیران و پریشان رہنے کے بعد انہوں نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی: اے میرے رب!عَزَّوَجَلَّ، مجھے محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے صدقے میں معاف فرمادے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تم نے محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)کو کیسے پہچانا حالانکہ ابھی تو میں نے اسے پیدا بھی نہیں کیا؟حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے عرض کی: اے اللہ عَزَّوَجَلَّ! جب تو نے مجھے پیدا کر کے میرے اندر روح ڈالی اور میں نے اپنے سر کو اٹھایا تو میں نے عرش کے پایوں پر ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُمُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘لکھا دیکھا،تو میں نے جان لیا کہ تو نے اپنے نام کے ساتھ اس کا نام ملایا ہے جو تجھے تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تو نے سچ کہا، بیشک وہ تمام مخلوق میں میری بارگاہ میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔ تم اس کے وسیلے سے مجھ سے دعا کرو میں تمہیں معاف کردوں گا اور اگر محمد(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا
آیت میں توبہ کا لفظ ہے ۔
یہ لفظ جب اللہ تعالیٰ کیلئے آئے تو اس کا معنیٰ اللہ تعالیٰ کا اپنی رحمت کے ساتھ بندے پر رجوع کرنا ہے یا بندے کی توبہ قبول کرنا ہے
یہ لفظ جب بندے کیلئے آئے تو دوسرے مفہوم میں ہے ۔توبہ کا اصل مفہوم اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا ہے۔
امام نووی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکے کلام کا خلاصہ ہے کہ توبہ کی تین شرائط ہیں :
(1) گناہ سے رک جانا
(2) گناہ پر شرمندہ ہونا
(3) گناہ کو چھوڑ دینے کا پختہ ارادہ کرنا۔
اگر گناہ کی تلافی اور تدارک ہو سکتا ہو تو وہ بھی ضروری ہے
عوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم الله الرحمن الرحيم
سورۂ بقرہ
آیت نمبر36,35
ترجمہ:"اور ہم نے فرمایا: اے آدم!تم اورتمہاری بیوی جنت میں رہو اوربغیر روک ٹوک کے جہاں تمہارا جی چاہے کھاؤ البتہ اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ حد سے بڑھنے والوں میں شامل ہوجاؤ گے۔توشیطان نے ان دونوں کو جنت سے لغزش دی پس انہیں وہاں سے نکلوا دیا جہاں وہ رہتے تھے اور ہم نے فرمایا :تم نیچے اترجاؤ۔ تم ایک دوسرے کے دشمن بنو گے اور تمہارے لئے ایک خاص وقت تک زمین میں ٹھکانہ اور (زندگی گزارنے کا)سامان ہے۔"
تفسیر:
حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے شیطان مردود ہوا تھا لہٰذا وہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نقصان پہنچانے کی تاک میں رہا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماورحضرت حوا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاسے فرمایا کہ جنت میں رہو اور جہاں دل کرے بے روک ٹوک کھاؤالبتہ اِس درخت کے قریب نہ جانا۔ شیطان نے انہیں وسوسہ ڈالا اورکہنے لگا کہ تمہیں تمہارے رب عَزَّوَجَلَّنے اس درخت سے اس لیے منع فرمایا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تم ہمیشہ زندہ رہنے والے نہ بن جاؤاوراس کے ساتھ شیطان نے قسم کھاکر کہا کہ میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔ اس پر انہیں خیال ہوا کہ اللہ پاک کی جھوٹی قسم کون کھا سکتا ہے ، اس خیال سے حضرت حوا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہانے اس میں سے کچھ کھایا پھر حضرت آدمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیا توانہوں نے بھی کھالیا اور یہ خیال کیا کہ اللہ تعالیٰ کی ممانعت حرام قرار دینے کیلئے نہ تھی بلکہ ایک ناپسندیدگی کا اظہار تھا ۔یہاں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اجتہاد میں خطا ہوئی اور خطائے اجتہادی گناہ نہیں ہوتی۔ چنانچہ شیطان کے دھوکے کی وجہ سے انہوں نے اس ممنوعہ درخت کا پھل کھالیا اور پھل کھاتے ہی ان کے پردے کے مقام بے پردہ ہوگئے اور وہ اسے چھپانے کیلئے ان پر پتے ڈالنے لگے۔اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ کیا میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟اور میں نے تم سے یہ نہ فرمایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے؟ اس کے بعد حکمِ الٰہی ہوا کہ تم زمین پر اترجاؤ۔ اب تمہاری اولادآپس میں ایک دوسرے کی دشمن ہوگی اور تم ایک خاص وقت تک زمین میں رہوگے۔زمین پر تشریف آوری کے بعد حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام ایک عرصے تک اپنی لغزش کی معافی مانگتے رہے حتیّٰ کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کواللہ تعالیٰ کی طرف سے چند کلمات سکھائے گئے،پھر جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ان کلمات کے ساتھ توبہ و معافی کی درخواست کی تو وہ قبول ہوئی۔
’’ظلم ‘‘کا معنیٰ ہے’’ کسی شے کواس کی اپنی جگہ کے علاوہ کسی اور جگہ رکھنا‘‘ اور یہاں آیت میں ظلم خلافِ اَولیٰ کے معنی میں ہے۔ یاد رہے کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ظالم کہنا گستاخی اورتوہین ہے اورجو انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو ظالم کہے وہ کافر ہے یہ بھی یاد رہے کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام معصوم ہوتے ہیں اوران سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوتا ان کے معصوم ہونے پربیسیوں دلائل ہیں نبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرشتوں سے افضل ہیں اور جب فرشتوں سے گناہ صادر نہیں ہوتا تو ضروری ہے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے بھی گناہ صادر نہ ہوکیون کہ اگر انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بھی گناہ صادر ہو تو وہ فرشتوں سے افضل نہیں رہیں گے۔
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم الله الرحمن الرحيم
سورۂ بقرہ
آیت نمبر34
ترجمہ:"اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا"
تفسیر:
اللہ تعالیٰ نےفرشتوں کو حکم فرمایا کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام کو سجدہ کریں کیونکہ اس میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی فضیلت کا اعتراف اور اپنے مقولہ’’اَتَجْعَلُ فِیْهَا‘‘ کی معذرت بھی ہے۔ ملائکہ مقربین سمیت تمام فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور تکبر کے طور پر یہ سمجھتا رہا کہ وہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے افضل ہے اپنے اس باطل عقیدے، حکمِ الٰہی سے انکار اور تعظیم نبی سے تکبر کی وجہ سے وہ کافر ہوگیا۔حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور ابلیس کا واقعہ قرآن پاک کی سات سورتوں میں بیان کیا گیا ہے۔
سجدے کی دو قسمیں ہیں
(۱)عبادت کا سجدہ
(۲) تعظیم کا سجدہ۔
’’عبادت کا سجدہ‘‘ کسی کو معبود سمجھ کر کیا جاتا ہے
’’ تعظیم کا سجدہ‘‘ وہ ہوتا ہے جس سے مسجود( جسے سجدہ کیا جائے اس) کی تعظیم مقصود ہوتی ہے ۔
’’ سجدئہ عبادت‘‘ اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے کسی اور کے لیے نہیں ہوسکتا اورنہ کسی شریعت میں کبھی جائز ہوا۔
فرشتوں نے حضرت آدمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تعظیمی سجدہ کیا تھا اور وہ باقاعدہ پیشانی زمین پر رکھنے کی صورت میں تھا ،صرف سر جھکانا نہ تھا۔… تعظیمی سجدہ پہلی شریعتوں میں جائز تھا لیکن ہماری شریعت میں منسوخ کردیاگیا اب کسی کے لیے جائز نہیں ہے۔ کسی پیر یا ولی یا مزار کو تعظیمی سجدہ کرنا حرام ہے لیکن تعظیمی سجدہ کرنے والوں پر یہ بہتان باندھنا کہ یہ معبود سمجھ کر سجدہ کرتے ہیں یہ اس تعظیمی سجدہ سے بڑا جرم ہے کیونکہ یہ مسلمانوں کو مشرک اور کافر کہنا ہے۔
اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ تکبرایسا خطرناک عمل ہے کہ یہ بعض اوقات بندے کوکفر تک پہنچا دیتا ہےاس لئے ہر مسلمان کو چاہے کہ و ہ تکبر کرنے سے بچے ۔
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم الله الرحمن الرحيم
سورۂ بقرہ
آیت نمبر33
ترجمہ:"فرمایا اے آدم! بتادے انہیں سب اشیاء کے نام جب آدم نے انہیں سب کے نام بتادئیے فرمایا میں نہ کہتا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمانوں اور زمین کی سب چھپی چیزیں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو"
تفسیر:
(میں تمہاری ظاہری و پوشیدہ باتوں کو جانتا ہوں) فرشتوں نے جو بات ظاہر کی تھی وہ یہ تھی کہ انسان فساد انگیزی اور خون ریزی کرے گا جو بات چھپائی تھی وہ یہ تھی کہ خلافت کے مستحق وہ خود ہیں اور اللہ تعالیٰ ان سے زیادہ علم فضل والی کوئی مخلوق پیدا نہ فرمائے گا
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم الله الرحمن الرحيم
سورۂ بقرہ
آیت نمبر32
ترجمہ:"(فرشتوں نے)عرض کی: (اے اللہ !)تو پاک ہے ۔ ہمیں تو صرف اتنا علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا دیا ، بے شک تو ہی علم والا، حکمت والا ہے۔"
حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے علمی فضل اورکمال کو د یکھ کر فرشتوں نے بارگاہِ الٰہی میں اپنے عِجز کا اعتراف کیا اور اس بات کا اظہار کیا کہ انکا سوال اعتراض کرنے کیلئے نہ تھا بلکہ حکمت معلوم کرنے کیلئے تھا اب انکو اِنسان کی فضیلت اور اسکی پیدائش کی حکمت معلوم ہوگئی ہے
اس آیت سے انسان کی شرافت اور علم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم الله الرحمن الرحيم
سورۂ بقرہ
آیت نمبر31
ترجمہ:"اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ"
تفسیر:
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر تمام اشیاء پیش فرمائیں اور بطورِ الہام کے آپ کو ان تمام چیزوں کے نام، کام، صفات، خصوصیات، اصولی علوم اور صنعتیں سکھا دیں۔
تمام چیزیں فرشتوں کے سامنے پیش کرکے ان سے فرمایا گیا کہ اگر تم اپنے اس خیال میں سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے فرشتوں پرافضل ہونے کا سبب’’ علم‘‘ ظاہر فرمایااسسے معلوم ہوا علم خلوتوں اور تنہائیوں کی عبادت سے افضل ہے۔
حضرت ابو ذررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے مجھ سے ارشاد فرمایا’’اے ابو ذر!رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تمہاراا س حال میں صبح کرنا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب سے ایک آیت سیکھی ہو یہ تمہارے لئے 100 رکعتیں نفل پڑھنے سے بہتر ہے اورتمہاراا س حال میں صبح کرنا کہ تم نے علم کا ایک باب سیکھا ہوجس پر عمل کیا گیا ہو یا نہ کیا گیاہو،تو یہ تمہارے لئے 1000نوافل پڑھنے سے بہتر ہے
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم الله الرحمن الرحيم
سورۂ بقرہ
آیت نمبر30
ترجمہ:"اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے اور خونریزیاں کرے اور ہم تجھے سراہتے ہوئے تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے"
تفسیر: اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق سے پہلے فرشتوں سے فرمایاکہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ اس پر فرشتوں نے عرض کی کہ اے اللہ عَزَّوَجَلَّ ! کیا تو زمین میں اس کو نائب بنائے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خون بہائے گاحالانکہ ہم ہر وقت تیری تسبیح کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو مجھے معلوم ہے وہ تمہیں نہیں معلوم.
پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق کے بعد انہیں تمام چیزوں کے نام سکھادیے اورپھر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کرکے فرمایا کہ اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ تم ہی خلافت کے مستحق ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ۔ فرشتوں نے یہ سن کر عرض کی اے اللہ عَزَّوَجَلَّ ! ہمیں تو صرف اتنا علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھادیا ساری علم و حکمت تو تیرے پاس ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا اے آدم!تم انہیں اِن تمام اشیاء کے نام بتادو ۔ جب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے انہیں ان اشیاء کے نام بتادیئے تواللہ تعالیٰ نے فرمایا اے فرشتو!کیا میں نے تمہیں نہ کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی تمام چھپی چیزیں جانتا ہوں اور میں تمہاری ظاہر اور پوشیدہ باتوں کو جانتا ہوں۔
خلیفہ اُسے کہتے ہیں جو احکامات جاری کرنے اور دیگر اختیارات میں اصل کا نائب ہوتا ہے تمام انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ہیں لیکن یہاں خلیفہ سے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مراد ہیں
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ اسسے پاک ہے کہ اس کو کسی سے مشورہ کی حاجت ہوالبتہ یہاں خلیفہ بنانے کی خبر فرشتوں کوظاہری طور پرمشورے کے انداز میں دی گئی ۔اس سے اشارۃً معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اہم کام کرنے سے پہلے اپنے ما تحت افراد سے مشورہ کر لیا جائے تاکہ ا س کام سے متعلق ان کے ذہن میں کوئی خلش ہو تو اس کا ازالہ ہو جائے یا کوئی مفید رائے مل جائے جس سے وہ کام مزید بہتر انداز سے ہو جائے ۔
فرشتوں کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے کیون کہ خلیفہ بنانے میں میری حکمتیں تم پر ظاہر نہیں انہی انسانوں میںاولیاء بھی انبیاء بھی ہوں گے، اور علماء بھی اوریہ حضرات علمی اور عملی دونوں فضیلتوں کے جامع ہوں گے
۔
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم الله الرحمن الرحيم
سورۂ بقرہ
آیت نمبر29
ترجمہ:"وہی ہے جس نے تمہارے لیے بنایا جو کچھ زمین میں ہے پھر آسمان کی طرف استوا (قصد) فرمایا تو ٹھیک سات آسمان بنائے اوروہ سب کچھ جانتا ہے"
تفسیر: تمام انسانوں کو فرمایا گیا زمین میں جو کچھ ، کانیں ، کھیتی، پہاڑ دریا،سمندر وغیرہ ہیں سب کچھ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دینی اور دنیاوی فائدہ کے لیے بنایا ہے۔ دنیاوی فائدہ یہ کہ دنیا کی چیزوں کو کھاؤ پیواور اپنے کاموں میں لاؤ جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ممانعت نہ ہو دینی فائدہ یہ ہے کہ زمین کے عجائبات دیکھ کرتمہیں اللہ تعالیٰ کی حکمت اور قدرت کی معرفت نصیب ہو اور ۔تو ان نعمتوں کے باوجود تم کس طرح اللہ تعالیٰ کا انکار کرسکتے ہو؟
اس آیت سے معلوم ہوا ... جس چیز سے اللہ تعالیٰ نے منع نہیں فرمایا وہ ہمارے لئے حلال ہے
کائنات کی تخلیق اور اسے وجود میں لانا اللہ تعالیٰ کے کامل علم کی دلیل ہے کیونکہ ایسی حکمت سے بھری مخلوق کا پیدا کرنا ایک ایک شے کا علم رکھے بغیر ممکن اور متصور نہیں کافرمرنے کے بعد زندہ ہونے کوناممکن سمجھتے تھےکافروں کے اس عقیدے کے غلط و باطل ہونے پر ایک عظیم دلیل قائم کی گئی ہے جب اللہ تعالیٰ قدرت اور علم والا ہے تو موت کے بعد دوبارہ زندہ کرنا کیسے ناممکن ہوسکتا ہے؟
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم الله الرحمن الرحيم
سورۂ بقرہ
آیت نمبر28
ترجمہ:"تم کیسے اللہ کے منکر ہوسکتے ہو حالانکہ تم مردہ تھے تواس نے تمہیں پیدا کیا پھر وہ تمہیں موت دے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا پھر اسی کی طرف تمہیں لوٹایا جائے گا"
تفسیر:
تم کسطرح خدا کے منکر ہوتے ہو حالانکہ تمہارا اپنا حال اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کاتقاضا کرتا ہے تم بدن میں روح ڈالے جانے سے پہلے تمام مراحل میں مردہ تھے بے جان جسم تھے پھر اسنے تم میں روح ڈال کر تمہیں زندگی دی پھر زندگی کی مدت پوری ہونے پر تمہیں موت دے گا
تمہیں پھرزندہ کرے گا اس سے یا توقبر کی زندگی مراد ہے جو سوال کے لیے ہوگی یا قیامت کی پھر تم حساب کتاب اور جزا کے لیے اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے تو اپنے اس حال کو جان کرکفر کرنا نہایت عجیب ہے
غور کریں توہم مسلمانوں کے لئے نصیحت ہے ہم کچھ نہ تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندگی عطا کی زندگی کے لوازمات اور نعمتوں سے نوازا
اس کی نعمتوں سے فائدہ اٹھا کر اس کی یاد سے غافل ہونا ور ناشکری کرناسی طرح ہمارے شایانِ شان نہیں ہے
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم الله الرحمن الرحيم
سورۂ بقرہ
آیت نمبر27
ترجمہ::"وہ جو اللہ کے عہد کو توڑ دیتے ہیں پکا ہونے کے بعد اور کاٹتے ہیں اُس چیز کو جس کے جوڑنے کا خدا نے حکم دیا اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں وہی نقصان میں ہیں"
فاسقین کون ہیں؟
جو اللہ کے عہد کوتوڑتے ہیں۔
لا ال الا الله کا پاس نہیں رکھتے ۔
قطع رحمی کرتے ہیں۔کر بندوں کے ساتھ کیےگئے عہد توڑ ڈالتے ہیں ۔
قطع رحمی کرتے ہیں۔
اس سے مراد وہ عہد ہے جو اللہ تعالیٰ نے گزشتہ آسمانی کتابوں میں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے کے متعلق فرمایا تھا۔
کچھ مفسرین کے مطابق عہد تین ہیں
پہلا عہد وہ جو اللہ تعالیٰ نے تمام اولادِ آدم سے لیا کہ اس کی ربوبیت کا اقرار کریں
دوسرا عہد انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ خاص ہے کہ رسالت کی تبلیغ فرمائیں اور دین قائم کریں
۔ تیسرا عہد علماء کے ساتھ مخصوص ہے کہ حق کو نہ چھپائیں
جن چیزوں کے ملانے کا حکم دیا گیا وہ یہ ہیں
1:رشتے داروں سے تعلقات جوڑنا
رشتہ داروںسےاچھاسلوک کےفائدے
رزق عمر اور میںبرکت ہوتیہے
حسن سلوک یہ ہے کہ ہر حال میں اچھا کرنا
2:مسلمانوں کے ساتھ دوستی اور محبت کرنا
3:تمام کتابوں کی تصدیق کرنا
4:حق پر جمع ہونا
ان کو قطع کرنے کا معنیٰ ہے
1:رشتے داروں سے تعلق توڑنا
2:انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نہ ماننا
3:اللہ تعالیٰ کی کتابوں کی تصدیق نہ کرنا