FIZA SAQIB Writer
writer
BY FIZZA SAQIB
EPISODE # 10
(DON'T COPY AND PASTA WITHOUT MY PERMISSION 🚫🚫)
راستے میں اسے ارمش ملا۔۔۔ ہلکی نیلی شرٹ ، اور جینز پہنے ایک کندھے پر بیگ لٹکائے اسی طرف آرہا تھا۔۔۔ اسکو دیکھ کر سکندر کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ آئی۔۔ اور اس کی طرف بڑھا۔۔۔
وہ اس کی طرف آیا اور ارمش کے بال بیگاڑے جو اسنے محنت سے بنائے تھے۔۔۔
"کیا یار سکندر!!! سارا سٹائیل خراب کر دیا۔۔۔" ارمش نے چڑتے ہوئے کہا۔۔۔
" اچھا یہ چھوڑ یہ بتا دوسرا کمینہ کہاں ہے نظر نہیں آرہا۔۔۔۔؟؟؟ کچھ دیر پہلے تو نکلا ہے کلاس سے۔۔۔"
"ہاں وہ عینی کو لینے گیا ہے۔۔۔ "
"اچھا اچھا چل ٹھیک۔۔۔ آجا کینٹین چلتے ہیں۔۔ زری ویٹ کر رہی ہوگی۔۔۔" وہ کہہ کر آگے بڑھنے لگا۔۔۔
"ارے ہاں ارمش!!! یاد آیا۔۔ زری تمھیں لائبریری میں بولا رہی تھی۔۔۔ میں تمھیں ڈھونڈتے ہوئے یہیں آگیا۔۔۔" سکندر نے ارمش کے ساتھ چلتے ہوئے کہا۔۔۔
"پہلی تو بات یہ کہ اسے زری صرف میں بول سکتا ہوں۔۔ تم یا تو پورا نام لو اسکا اور اگر تمھارے منہ میں تکلیف ہوتی ہے نہ آسکا اتنا بڑا نام لینے سے تو, تو اسے سمپل زی بول لیا کر۔۔۔ " ارمش نے سکندر کی گردن دبوچتے ہوئے کہا۔۔۔
"آ آ آ آ آ !! ارمش یار چھوڑ نا گردن میری۔۔۔ اگر تیری ہونے والی بھابھی بھی یہاں ہوئی نہ۔۔۔ تو اسنے شادی کے بعد طعنے دے دے کر مار دینا ہے کہ میں نے آپ کو اس حال میں دیکھا تھا پہلے اور فلاں فلاں ۔۔۔۔" سکندر کی چیخ پر ہی ارمش نے اپنی گرفت ڈھیلی کی لیکن سکندر کی زبان کو بریک نہ لگی۔۔۔
"تو بولتا رہ۔۔۔۔ میں جا رہا ہوں زری ویٹ کر رہی ہوگی۔۔۔" ارمش اسے کہہ کر چلا گیا اور وہ پہلے حیران ہوا پھر قہقہہ لگا کر وہ یونی کی پچھلی طرف چل دیا۔۔۔
وہ لائبریری آیا اور پوری لائبریری چھان ماری لیکن اسے زری کہیں نہیں ملی۔۔۔ تو وہ لائبریری سے باہر آکر اسے کال کرنے لگا جو دوسری بیل پر ہی اٹھا لیا گیا تھا لیکن۔۔۔
"کہاں ہو تم ارمش۔۔۔؟؟؟ کب سے تمہارا ویٹ کر رہی ہوں کینٹین میں۔۔۔ کونسی اپنی ماں کے ساتھ لگے ہوئے تھے۔۔۔ تمھاری کلاس تو بیس منٹ کی ختم ہوئی وی ہے۔۔۔ فوراً آؤ۔۔۔" وہ جو کچھ بولنے ہی لگا تھا دوسری طرف سے اسکی نون سٹاپ چلتی زبان سن کر فون کو گھورا۔۔۔ کیونکہ زری میڈم اپنی بات کہ کر فون بند کر چکی تھی۔۔۔ اسے منٹ لگا ساری بات سمجھنے میں ۔۔
اسنے زری کو پارکینگ میں آنے کو کہا اور دوسرا میسج سکندر کو کیا ۔۔۔
" بدلے کے لیے تیار رہنا۔۔۔" دوسری طرف سے ہسنے والے دو ائموجی بھیجیے گئے تھے۔۔۔۔
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨
بہت بہت مبارک ہو آپ کو کیپٹن تبریز۔۔۔۔ یہ ہمارے اس مشن کی پہلی کامیابی ہے۔۔۔"
ہیڈ آفس کے میٹنگ روم میں لگے LED پر چلتی خبر کو دیکھ کر وہاں بیٹھے جونیئرز اور سینیرز کیپٹنز نے تبریز صاحب کو مبارکباد پیش کی۔۔۔
"بہت شکریہ آپ سب کا۔۔ لیکن اس کامیابی کا میں اکیلا حق دار نہیں ہوں۔۔۔ اس ملک کے کچھ سیکریٹ ایجنٹس بھی اس کامیابی کے حق دار ہیں۔۔۔ اور میری خواہش ہے کہ میں ان نوجوانوں سے ملوں جو اپنے وطن کے لیے جان دینے کو حاضر ہیں۔۔۔"
تبریز صاحب نے اپنے سینیرز کو دیکھتے ہوئے کہا تو سب کے چہروں پر مسکراہٹ آئی۔۔۔
"کیپٹن تبریز!! ہم آپکی یہ خواہش ضرور پوری کرتے لیکن ان ایجنٹس کا کہنا ہے کہ جب تک یہ مشن کمپلیٹ نہ ہو جائے ان کے اصل نام آپ کو نہ بتائیں جائیں۔۔۔ آپ کو تب تک انکے کورٹ ورڈ سے رکھے گئے نام ہی لینے پڑیں گے۔۔۔" وہاں بیٹھے کیپٹن آیان نے کہا جو تبریز صاحب سے جونئیر تھے۔۔۔۔
"ہیں۔۔۔ یہ کیا بات ہوئی۔۔۔؟؟؟ میں سمجھا نہیں وہ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں۔۔۔؟؟ "
تبریز صاحب کو حیرت ہوئی تھی کیپٹن آیان کی بات سن کر۔۔۔۔
"سر یہ تو اب انکو ہی پتہ ہو۔۔۔ ہمیں تو نہیں معلوم۔۔۔" آیان نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔۔۔
"لیکن سر ایسا پہلے تو کبھی نہیں ہوا پھر اب۔۔۔" تبریز صاحب کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی۔۔ اسلئے کیپٹن اسد سے پوچھا۔۔۔
"خیر چھوڑیں۔۔۔ آپ ہمیں یہ بتائیں کہ آپنے یہ بلاسٹ کیسے کیا یا کروایا۔۔۔۔؟؟؟"
"یہ کام میرے ان ایجنٹس کی وجہ سے ہوا ہے جن کا آپ لوگ مجھے نہیں بتا رہے۔۔۔ خیر میں ضد نہیں کروں گا۔۔۔ جب کہ رہی بات بلاسٹ کی تو وہ ہم نے ڈرگز والا ٹرک چینج کر دیا تھا جو شہریار کا ڈرائیور لے کر آیا تھا۔۔۔ جو کہ ہماری ہی ٹیم کا ایک ایجنٹ 43 ہے۔۔۔ اس ٹرک میں ہم نے کچھ آٹومیٹک بمب فٹ کئے تھے۔۔ جو ہم فجر کے قریب بلاسٹ کردیا۔۔۔ " تبریز صاحب نے اپنے ٹیم میمبرز کو پوری تفصیل بتائی۔۔۔۔
"تو سر اس طرح تو سب کا شک ڈرائیور پر نہیں جائے گا۔۔۔؟؟؟" آیان نے پھر سوال کیا۔۔۔
"جونیئر کیپٹن ہمارے ایجنٹس کو ہم نے اسلئے اتنی سخت ٹریننگ نہیں دی کہ وہ کوئی غلطی کر سکیں۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ اس نے معاملہ سمبھال لیا ہوگا۔۔۔ اور کس طرح یہ تو اب اسی سے ہی پوچھنا۔۔۔ " تبریز صاحب نے اسے بتایا۔۔۔
"ہممم!!! ٹھیک ٹھیک۔۔۔" آیان نے بھی سمجھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
" اب کیپٹن تبریز اس مشن کی دوسری طرف آتے ہیں۔۔۔۔ ڈرگز کو تو ہم نے ختم کردیا ہے۔۔۔ لیکن ہمیں ان لڑکیوں تک جلد از جلد پہنچنا ہے۔۔۔ جو وہ بیچنے کے لیے دوسرے ملک لے کر جا رہے ہیں۔۔۔" کیپٹن اسد نے تبریز صاحب سے کہا۔۔۔
"جی سر!!! اب ہمارا نیکسٹ ٹارگٹ یہی ہے۔۔۔ اور کچھ important information ملیں ہیں ہمیں شہریار کے لیپٹاپ میں سے جن سے مجھے لگتا ہے ہمیں کافی مدد ملے گی۔۔۔ اور وہاں مائکرو کمرے بھی لگوادیے ہیں جس سے ان کی ایک ایک حرکت پر ہماری نظر ہوگی۔۔۔۔" تبریز صاحب نے تفصیلی جواب دیا۔۔۔۔
"اوکے بیسٹ آف لک کیپٹن تبریز فار یور نیکسٹ ٹاسک۔۔۔
Ok best of luck captain Tabreez !! For ur next tasks..."
"اچھا چلیں آج کی میٹنگ یہی ختم کرتے ہیں۔۔۔ کیپٹن آپ کی واپسی کب کی ہے یہاں سے۔۔۔؟؟؟"
"سر میں دو تین دن اور ہوں یہاں پھر مجھے کچھ دنوں کے لئے کراچی جانا ہے اسی مشن کے سلسلے میں۔۔۔۔" تبریز صاحب نے اپنے آگے کا پلین بتایا۔۔۔۔
" چلو ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔ اللّٰہ آپکو کامیاب کرے۔۔۔ آمین۔۔۔" سب نے آمین کہا اور روم سے باہر آگئے۔۔۔
🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀
"انو!!! آپ تیار رہنا۔۔۔ میں گھر آؤں گا تو مال چلیں گے۔۔۔ شاپنگ کرنے۔۔۔" وہ ابھی چینج کرکے لیٹی ہی تھی کہ موبائیل وائبریٹ ہوا۔۔ دیکھا تو زایان کا میسج پڑھ کر مسکرائی۔۔
"اوکے بھیا!!! رایان بھیا بھی جائیں گے۔۔۔؟؟؟ " اسنے آگے سے میسج کیا۔۔۔
"نہیں اس نکمے کو رہنے دو۔۔۔اسکے ساتھ پھر کبھی چل لیں گے۔۔۔" زایان نے جواب دیا تو وہ ہنستے ہوئے نیچے آئی رضیہ بیگم کو بتانے ۔۔۔
"امی !!! زایان بھیا کہہ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ شوپینگ پر جانا ہے۔۔۔ جب وہ آئیں۔۔۔ تو آپ بتادیں کے آپ کو کیا چاہئے۔۔۔۔؟؟"
"نہیں انو!!! مجھے کچھ نہیں چاہیئے۔۔۔ آپ لوگ انجوائے کرو۔۔۔ بس جلدی گھر آجانا میں اکیلی ہوں گی۔۔۔" رضیہ بیگم نے اسے پیار سے کہا۔۔۔
"کیوں بابا کہاں گئے۔۔۔؟؟؟
پھر کسی بزنس پارٹی پر گئے ہیں میری پیاری ممی کو چھوڑ کر۔۔۔" انو نے مضوعی غصے سے کہا۔۔۔
"ہاہاہاہا!!! نہیں نہیں وہ میٹنگ میں گئے ہیں دو ہفتوں کے لئیے۔۔۔ صبح ناشتے پر بتانا بھول گئے تھے ۔۔۔" رضیہ نے نظریں چوڑاتے ہوئے کہا۔۔
"اچھا چلیں ٹھیک ہے۔۔۔ میں اب ریڈی ہونے جا رہی ہوں۔۔۔"
انو انکی گلے لگتی ہوئی بولی اور اوپر چلی گئی۔۔۔
جاری ہے۔۔
________________________________________________________
YOU ARE MY LIFELINE
BY FIZZA SAQIB
EPISODE # 9
AANI JAZAIB SPECIAL ✨😍
(Don't copy and paste without my permission 🚫)
اسلام وعلیکم روحان بھیا!! کیسے ہیں۔۔؟؟؟" روحا اپنی نیند پوری کرکے ناشتے کی میز پر آئی تو روحان بیٹھا احمد کو ناشتہ کروا رہا تھا۔۔۔ جبکہ افشین کچن میں تھی۔۔۔
"ارے واہ!! روح۔۔۔ وعلیکم السلام بچے میں ٹھیک ہوں۔۔۔ آپ بتاؤ آپ کا مری کا ٹرپ کیسا رہا۔۔۔؟؟" روحان نے روحا کے سر پر ہاتھ رکھ کر پیار کرتے ہوئے کہا۔۔۔
" روح پھوپھو!! آپ کہاں تھیں۔۔۔؟؟؟" احمد نے روح کے گال پر کس کرتے ہوئے کہا۔۔۔ کیونکہ روحا کی کرسی احمد کے برابر ہی ہوتی تھی۔۔۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ روحا احمد سے سب سے زیادہ اٹیچ بھی گھر میں۔۔۔
" احمد پھوپھو جانی۔۔!! سنو فول دیکھنے گئیں تھیں۔۔۔ جیسے آپ نے ہو ما لون (home alone) میں دیکھی تھی۔۔۔" روحا نے اسے کہا ۔۔
" مجھے بھی دیکھنی تھی۔۔۔" اسنے منہ بناتے ہوئے کہا۔۔
"کوئی بات نہیں میں آپ کو پھرسے لے جاؤں گی۔۔۔ ابھی پھوپھو جانی آپکے لئیے بہت سارے ٹوائز لے کر آئی ہیں۔۔ جلدی سے ناشتہ کرو پھر دیکھاتی ہوں میں اپنے بےبی کو۔۔۔" اسنے احمد کے بال بیگاڑتے ہوئے کہا۔۔۔۔
"روح تم اٹھ گئی۔۔۔؟؟؟ زی آئی تھی جانے سے پہلے تمہارے روم میں لیکن تم سو رہی تھی۔۔۔ اسلیے چلی گئی یونی۔۔۔" افشین بھابھی نے ناشتہ پلیٹ میں نکالتے ہوئے کہا۔۔۔
" جی آپی نیند بہت آئی تھی۔۔ اس لیے لیٹتے ہی سو گئی تھی۔۔۔ " روحا نے جواب دیا۔۔۔
(روحا افشین کو بھابھی کہتی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ روحا کا کہنا تھا کہ وہ بھابھی صرف اپنے شوہر کے بڑے بھائی کی بیوی کو ہی بولے گی۔۔۔ اور اسکی اس بات پر افشین کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا۔۔۔)
"روح!! آپ کو پتا ہے نہ کہ آپکی یونی اسٹارٹ ہوگئی ہے۔۔۔؟؟ اب کل سے جانا ہے آپ نے بھی۔۔۔" روحان نے ناشتہ کرتے ہوئے روحا کو یاد کروایا۔۔۔
"جی بھیا!! مجھے یاد ہے۔۔ میں کل سے جوائن کروں گی۔۔ انشاللہ۔۔" اس نے جواب دیا۔۔ تو روحان سر ہلا کر ناشتہ کرنے لگا۔۔ اور وہ بھی ناشتہ کرنے لگی۔۔۔
تھوڑی دیر میں روحان چلا گیا اور روحا بھی احمد کو لے کر اپنے روم میں آگئی۔۔۔ اس کے ساتھ کھیلتے ہوئے ٹائم کب گزرا پتا ہی نہ چلا کہ زی روحا کے روم میں آئی۔۔
اور اس کی حالت دیکھ کر لگ رہا تھا کہ وہ گھر آتے ڈائریکٹ اس کے روم میں آئی ہے۔۔۔ زی نے روم میں آتے ہی چیخ ماری اور فوراً روحا کے گلے لگی۔۔۔
"تم کبھی تمیز والے طریقے سے روم میں نہیں آسکتی۔۔" روحا نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔۔۔
کہنے کو زرتاشہ روحا سے ایک سال بڑی تھی لیکن لگتا کہیں سے نہیں تھا۔۔۔
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨
"جی ناظرین!! آپ کو ایک اہم خبر سے آگاہ کرتے چلیں کہ اسلامہ آباد کے ایک عالیشان بنگلے میں دھماکہ پیش آیا ہے فجر کے قریب۔۔ اور آپ کو مزید بتاتے چلیں کے پولیس کا کہنا ہے کہ یہاں سے انہیں ڈرگز اور کچھ مختلف اقسام کی چیزیں ملیں ہیں جن سے سابت ہوتا ہے کہ یہاں پر رہنے والے مرد حضرات اسمگلنگ کا کام کرتے تھے۔۔۔ ابھی کے لیے اتنا ہی اللّٰہ حافظ۔۔۔"
اس نے خبر سن کر ریموٹ زور سے LED پر مارا۔۔۔ جس کو زمین بوس ہونے میں زیادہ وقت نہ لگا۔۔۔
"اتنا بڑا نقصان۔۔۔ کیسے ؟؟؟ کیسے ہو سکتا ہے یہ۔۔۔؟؟؟ کیسےےےےےےے؟؟؟ آج سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تو اب۔۔۔ ؟؟؟ "
اسنے اپنے گارڈز کو دیکھتے ہوئے کہا جو سر جھکائے کھڑے تھے۔۔۔
"مجھے وہاں کی CCTV فوٹیج چاہیے بشیر شام تک۔۔۔ سمجھھھےےےے ؟؟؟"
وہ انہیں حکم دیتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہال سے نکلتا چلا گیا۔۔۔
"ڈیڈ !! آپ کچھ کریں گے کہ نہیں۔۔ ؟؟ اتنا بڑا نقصان ہوگیا ہے ہمارا۔۔ جبکہ مال یہاں سے بلکل ٹھیک نکلا تھا۔۔ پھر یہ سب۔۔۔؟؟ "
شہریار ہال سے نکل کر میٹنگ روم میں آیا اپنے باپ کے پاس۔۔۔ جو سر ہاتھوں میں گرائے شکستہ حالت میں بیٹھا تھا۔۔۔
"ڈرائیور کو بلاؤ۔۔ ابھی اسی وقت اور بشیر کو بھی۔۔۔ " اسے ایک دم جیسے کچھ یاد آیا۔۔۔
تھوڑی دیر میں ڈرائیور اور بشیر اس روم میں سر جھکائے کھڑے تھے۔۔۔
"کیا کیا ہے تم نے ہاں۔۔؟؟ کیونکہ کل صرف ہمارا مال ہی وہاں پہنچنا تھا۔۔۔ بولووو ؟؟۔۔۔ جواب دو خاموش کیوں کھڑے ہو۔۔۔؟؟؟"
شہریار نے خان کی گردن دبوچتے ہوئے اسے دیوار سے لگاتے ہوئے دھارا تھا۔۔۔
"شہری تحمل سے کام لو۔۔ اس طرح مسئلہ حل نہیں ہوگا۔۔ بلکہ بڑھے گا۔۔۔ " حیدر نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔
"ہاں بولو!! اب خان تم وہاں کب پہنچے تھے اور کب نکلے تھے۔۔ اور تمھیں کسی پر شک تو نہیں۔۔۔ "
اتنی دیر سے چپ بشیر نے اپنا بولنا ضروری سمجھا۔۔ اگر اب بھی نہ بولتا تو اسکی خود کی نوکری خطرے میں آ سکتی تھی۔۔
"صاب جی!! ہم وہاں تقریباً بارہ بجے پہنچا تھا۔۔ اور ایک جبے نکل آیا تھا۔۔۔ ہاں وہاں ہمیں ایک گارڈ پر شک ہے۔۔ وہ عجیب عجیب نظروں سے ہمیں دیکھ رہا تھا۔۔۔ جیسے ہم نے اسکا بیوی چھڑ دی ہو ۔۔" اسنے جواب دیتے ہوئے آخر میں منہ بناتے ہوئے کہا۔۔۔
"خاااااااااان !! اور کس گارڈ پر شک ہے؟؟؟ اگر اسکو سامنے لایا جائے تو تم پہچان سکتے ہو۔۔۔ اور اس گارڈ کی ڈیوٹی کہاں تھی۔۔؟؟؟"
شہریار نے خان کو لمبا کھینچا تو اسنے اپنے منہ کے زاویے بنانا بند کیے۔۔ تو حیدر نے اس سے سوال کیا۔۔۔
" وہ صاب جی جب ہم ٹرک سے سمان اتارا رہا تھا تو وہ وہاں کھڑا تھا۔۔ اسلئے وہ مجھے مشکوک لگا۔۔۔" خان اب کی بار فرفر بولتا چلا گیا۔۔۔
" ہممم!! ٹھیک ہے تم جاؤ۔۔۔۔ یہ ہو نہ ہو آرمی والوں کا کام ہے۔۔۔ میرا شک انہیں پر ہے۔۔۔ پندرہ سال پہلے بھی انہوں نے ہمارے ہر معاملے میں داخل اندازی کی تھی۔۔ جس کا نتیجہ ہم نے میجر دورانی کو ماروا کر ان کو مقصد سے پیچھے ہٹانا ضروری تھا۔۔۔
لیکن لگتا ہے کہ اب پھر سے یہ چاہتے ہیں کہ ان کا کوئی جانباز سپاہی پھر سے دردناک موت مرے۔۔۔" حیدر نے خان اور بشیر کو جانے کا اشارہ کیا اور ان کے جانے کے بعد شہریار سے کہا۔۔۔
"لیکن ڈیڈ!! آرمی کو ہمارے اس اسمگلنگ کا کیسے پتہ۔۔۔؟؟؟ کیا کوئی ہماری ڈیلرز میں سے ان کے ساتھ ملا ہوا تھا۔۔۔؟؟؟" شہریار نے سوچتے ہوئے کہا۔۔۔
"خیر تم یہ چھوڑو۔۔۔ اس کو میں اپنے طریقے سے سنبھال لوں گا۔۔۔ "
حیدر یہ کہہ کر وہاں سے نکل گیا۔۔۔
🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀
وہ گیٹ کے پاس بینچ پر بیٹھی تھی۔۔۔ کالج کی چٹی کے بعد ابھی اسے وہاں بیٹھے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ ایک گاڑی گیٹ کے پاس آکر رکی۔۔۔ اور کوئی باہر آیا۔۔۔
"آپ۔۔؟؟؟ آپ کیوں آئے ہیں۔۔۔؟؟ بھائی کہاں ہیں۔۔۔؟؟ انہوں نے لینے آنا تھا نہ مجھے۔۔۔؟؟؟" اسنے گاڑی سے اترنے والے شخص کو دیکھ کر پاس آتے ہوئے کہا۔۔۔
"اسے کہیں جانا تھا۔۔۔ اس لیے مجھے بھیجا ہے۔۔۔ ورنہ مجھے کوئی شوق نہیں ہے۔۔۔ اپنی انسلٹ بار بار کروانے کی۔۔۔ اور بیٹھو اب۔۔ " اسکو قریب آتا دیکھ کر اسنے گلاسز اتارے اور دل سے مسکرایا تھا اور بہت محبت سے اس سے بات کرنے لگا تھا لیکن اس کی بات سن کر مسکراہٹ پل میں سمٹی اس غصہ ضبط کرتا بول کر گاڑی میں بیٹھا۔۔۔ وہ بھی دوسری طرف آکر بیٹھ گئی۔۔۔ تو اس نے خاموشی سے کار اسٹارٹ کی۔۔۔
" غصہ ایسے کر رہے ہیں جیسے میں ان کی اسٹوڈینٹ ہوں۔۔۔ انہہ۔۔" وہ اپنی طرف سے ہلکی آواز میں بول رہی تھی لیکن کار میں پن ڈرپ سائلنس ہونے کی وجہ سے جازب نے اسکی آواز با آسانی سن لی تھی۔۔۔
" کیا۔۔ کیا کہا۔۔۔ تم نے ابھی۔۔؟؟؟" اسکی بات سن کر جازب کو جھٹکا لگا تھا۔۔۔ اسنے فوراً کار روکی۔۔۔
"کچھ نہیں۔۔۔ میں نے تو کچھ نہیں کہا۔۔" اس نے اپنا رخ کھڑکی کی طرف کرتے ہوئے کہا۔۔۔
"اور کس کس کو پتا ہے کہ میں ٹیچر ہوں اور یہ کہ سکندر کا دوست ہوں۔۔؟؟؟" جازب نے اسکا رخ اپنی طرف کرتے ہوئے کہا۔۔۔
"کیا مسئلہ ہے۔۔ آپ کے ساتھ۔۔۔؟؟ میں بھائی سے بولوں گی کہ آئندہ آپ کو نہ بھیجیں لینے۔۔۔ ارمش بھائی کو بھیج دیں۔۔۔ وہ آپ سے تو اچھے ہیں۔۔۔" وہ اپنا بازو سہلاتے ہوئے بولی۔۔ تو وہ تھوڑا شرمندہ ہوا۔۔۔ لیکن اس کی اگلی بات پر اسکا دماغ پھر سے گھوم گیا۔۔۔ اور اسے پھر سے کندھے سے پکڑ کر اپنے اتنا قریب کیا کہ اسے اسکی گرم سانسیں اپنے چہرے پر محسوس ہو رہی تھیں۔۔۔
"میری ایک بات کان کھول کر سن لو۔۔ اگر میرے سامنے کسی اور کو فوقیت دی یہ میرے علاوہ کسی اور کے اتنا قریب جانے کی کوشش کی تو میں اسے جان سے مار دوں گا۔۔۔ سمجھیں میری بات۔۔۔ ؟؟؟"
اسنے ڈر کر سر ہلایا۔۔ اور آنکھوں سے دو موتی ٹوٹ کر نیچے گرے۔۔۔ اور یہاں اس کا صبر جواب دے گیا۔۔ اس سے پہلے کے وہ اپنے منہ زور جذبات کے آگے ہتھیار ڈالتا۔۔۔ اس نے عینی کو پیچھے کیا۔۔۔
"سوری" کہہ کر کار اسٹارٹ کی پھر باقی کا سفر دونوں نے خاموشی سے گزارہ۔۔۔
جاری ہے۔
____________________________
Or btao bhaee kesi lgi aj ki episode
New couple introduce krvaya hai...
Btao kesa lga yeh couple..😁🤭
YOU ARE MY LIFELINE
BY FIZZA SAQIB
EPISODE # 8
(DON'T COPY AND PASTA WITHOUT MY PERMISSION 🚫)
وہ جیسے ہی کاریڈور میں داخل ہوئی تو سفید رنگ کی ٹائلز اور بلیک کلر کے دروازے اس محل کو اندر سے بھی ویسے ہی خوبصورت بنا رہے تھے۔۔ جیسا وہ باہر سے تھا۔۔
وہ ایک ایک کر کے دروازے کھول کر اندر جا رہی تھی اور مائیکرو کمرے فٹ کر کے بیس سے تیس سیکنڈ میں باہر آہی تھی۔۔
ابھی اس نے پانچواں دروازہ کھولا ہی تھا کہ اسے اپنے پیچھے آہٹ محسوس ہوئی کچھ پل کے لیے اسکا دل زور سے دھڑکا۔۔۔ پھر اپنے آپ کو سنبھال کر پیچھے مڑنے لگی ۔۔ تو وہاں اپنے ہی طرح کی ڈریسنگ میں ایک لڑکی کو دیکھا۔۔۔ جو اسکو کچھ پکڑا کر وہاں سے پچھلے دروازے کی طرف بڑھی۔۔۔
اس نے روم میں جا کے دیکھا تو وہ ایک میٹنگ روم تھا۔۔۔ جہاں ہر کرسی کے آگے اک لیپٹاپ پڑا ہوا تھا لیکن شاید یہ ان لوگوں بد قسمتی تھی۔وہ اک لیپٹاپ کر پاس گئی اور اپنی USB نکال کر ایک لیپٹاپ پر لگائی اور ہاتھوں میں پکڑا کاغذ کھولا جس پکھا تھا "ruri45"۔ اس نے اک فولڈر کھولا جس میں وہ پاسورڈ مانگ رہا تھا ۔اس نے جلدی جلدی پاسورڈ ڈالا اور فایل USB میں کاپی کرنے لگی۔۔۔۔۔ فائلز کاپی ہونے تک وہ اس روم میں ٹیبل کے پاس لگے LED کے پیچھے ایک مائیکرو کیمرا کر چکی تھی۔
اس نے اپنی گھڑی میں ٹائم دیکھا اور کھڑکی سے نیچے جھانکا تو سامان ٹرک سے نکل چکا تھا۔ اس نے ڈرائیور کو اشارہ کیا اور لیپٹاپ سے USB نکال کر باہر آگئی اور پچھلے دروازے سے نکلنے ہی لگی تھی کہ باہر سے کسی نے دروازہ کھولا اور گارڈز اندر آنے لگے ۔ اس نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ وہ پکڑی نہیں گئی ۔۔۔
درختوں سے ہوتی ہوئی وہ اب اسی جگہ کھڑی تھی جہاں ٹرک ڈرائیور اسے اتار کر گیا تھا۔
"سر کام ہو گیا ہے اور آلیہ میرے ساتھ ہے۔۔۔" اس نے کان میں لگی بلوٹوتھ ڈوایس پہ کہا۔
"Ok I'll catch u up there.."
دوسری طرف سے جواب آیا۔۔۔۔ اور کچھ دیر میں ٹرک اس جگہ سے دور نکل گیا۔ لیکن اب انکے ساتھ ایک فرد اور موجود تھا جو انکی ہی ٹیم میمبر تھی۔۔۔
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨
دوپہر کی سخت دھوپ میں ایک ریستوران کے سامنے ایک گاری رکی۔۔۔ گرے تھری پیس سوٹ پہنے، نیلی آنکھوں پر سن گلاسس لگائے، بھورے لمبے بالوں کو جیل سے سیٹ کیے ، بائیں ہاتھ میں برینڈڈ گھری پہنے۔۔۔
وہ اپنے دو بارڈی گارڈز کیساتھ ریستوران میں داخل ہوا تو وہاں کے ورکرز اسے دیکھا تو اپنے کام چھوڑ کر اسکے ریسروڈ ٹیبل کی طرف اسکو راہ دیکھائی تو وہ اس طرف چل دیا، اور انتظار کرنے لگا ۔
"آئ ایم سوری سر! آپ کو میری وجہ سے انتظار کرنا پڑا۔۔۔" ابھی اسے بیٹھے پانچ منٹ ہی ہوئے تھے کہ ایک لڑکا اسکے سامنے آ کر بیٹا۔
" تمھیں پتا ہے نہ کہ مجھے انتظار کرنا نہیں پسند۔۔۔" اس نے غصے سے کہا ۔
"آٔیندہ نہیں ہوگا سر۔۔۔" لڑکے نے سر جھکا کر کہا۔
"خیر یہ بتاؤ جو کام کہا تھا وہ ہوا کہ نہیں؟؟؟؟"
"جی سر کام ہو گیا ہے آپ ہمیں کچھ کہیں اور وہ کام ہو نہ، ایسا ہو نہیں سکتا۔۔" لڑکے نے اپنا کالر جھاڑتے ہوئے کہا۔
" زیادہ بولو نہیں کام کی بات بتاؤ، کیا کرتی ہے وہ لڑکی، کہاں جاتی ہے، کس کے ساتھ رہتی ہے؟؟ شادی شدہ ہے یا نہیں ، خیر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اگر ہؤی بھی تو طلاق ہو سکتی ہو یا پھر بیوہ۔۔۔" اس نے غصے سے میز پر ہاتھ مار کر کہا۔۔۔
"سر وہ لڑکی ہوسٹل میں رہتی ہے ، پچھلے چار سال سے اسکا نام بیلا ہے۔ اسکے باپ اور بھائی نے اسے گھر سے نکال دیا تھا ، یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنی پہچان بدلی ہے۔ وہ ایک ریستوران میں ویٹریس کے طور پہ کام کرتی ہے". لڑکے نے سب کچھ رٹو طوطے کی طرح بتا دیا۔
"ہممم۔ ہاسٹل کا پتا دو مجھے، میں ابھی جاؤں گا اسے دیکھنے۔ تم نے اچھا کام کیا ہے، اسکی قیمت تمھارے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دی جائے گی ۔۔۔اب تم جا سکتے ہو۔۔"
اسکا جواب سن کر لڑکے کے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ آئی ۔
شہریار نے جیسے ہی ہاسٹل کے سامنے گاڑی روکی تو کوئی تیزی سے اسکے پاس سے گزر کر ہاسٹل کے دروازے میں داخل ہوا اور پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ گاڑی سے نکل کر جو سختی سے کچھ بولنے لگا تھا لیکن اسکے الفاظ منہ میں ہی رہ گئےاور وہ اپنی جگہ پر ساکت کھڑا اس لڑکی کو دیکھنے لگا اور اپنے ارد گرد سے بیگانہ وہ بس اسے ہی دیکھے گیا۔۔۔۔
اسکا چہرہ اجرک کی چادر سے ڈھکا ہوا تھا اور گھنگرالے بالوں کی لٹیں جو اسکے چہرے کو چھو رہی تھیں، اور ایک آنکھ جو چادر سے باہر تھی ہلکی کالی آنکھوں میں ایسے کشش تھی جو ہر دیکھنے والے کو اپنے دسترس میں لے لیتی
"Jinjaa yeopoda!" (really mesmerizing! )
اس نے ہلکی آواز میں کہا۔
"سر اندر جانا ہے؟" اسکو ایک جگہ کھڑا دیکھ کر گارڈ نے اس سے پوچھا۔
"نہیں آج نہیں ملنا، چلا واپس"
یہ کہہ کر وہ جس طرح آیا تھا ویسے ہی واپس چلا گیا۔۔۔۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
"جازب یار عینی کو کالج سے پک کر لینا۔۔۔ مجھے ذرا جانا ہے کام سے۔۔۔" اس نے کینٹین جاتے ہوئے میسج کیا ۔۔آگے سے اوکے کے جواب پر اس نے سکون کا سانس لیا۔۔۔۔
اس کا میسج پڑھ کر جازب کے چہرے پر مسکراہٹ آئی جو وہ فوراً چھپا گیا۔۔۔
"چلو جی عینی صاحبہ آج آپ سے بھی ملاقات ہو ہی جائے۔۔۔ اتنے دنوں سے ہمارا بیچارہ دل بے چین ہے۔۔۔" اسنے اپنی چیزیں سمیٹتے ہوئے کہا۔۔۔ اور اپنی کار کیز لے کر باہر آیا ۔۔
"Yeh Dosti💝 Hum Nhi tooryn gyn....
Tooryn gyn dam magar....🥰
Tera Saath naaa chooryn gye... 😘😘"
وہ کینٹین میں بیٹھا موبائل میں مصروف تھا۔۔ اسی لمحے پیچھے سے ایک نسوانی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی۔۔۔ جس نے اسے پیچھے مڑنے پر مجبور کیا۔۔۔
وہ نیلی کلر کی فراک پہنے ، لمبے سنہرے بال جو اسکی کمر کو ڈھک رہے تھے۔۔۔ گلے میں دوپٹا ڈالے اسکی طرف پشت کئی بیٹھی۔۔۔ اپنی دوست کے ساتھ گانے میں۔ مصروف تھی۔۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھنے لگا کہ اسکا چہرہ دیکھ سکے۔۔ پھر اپنا سر جھٹک کر کینٹین سے نکلتا چلا گیا۔۔
راستے میں اسے ارمش ملا۔۔۔ ہلکی نیلی شرٹ اور جینز پہنے ، ایک کندھے پر بیگ لٹکائے اسی کی طرف آ رہا تھا۔۔۔ اسکو دیکھ کر سیکندر کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ آئی۔۔۔ اور اس کی طرف بڑھا۔۔
جاری ہے۔۔۔
____________________________
YOU ARE MY LIFELINE
BY FIZZA SAQIB
EPISODE # 7
LONG EPISODE🥳🥳🥳💞
"روح آگئی۔۔۔؟؟؟ ابھی جوگنگ کرنے کرنے گیا تھا تو نہیں تھی۔۔"
ارمش نے روحا کے روم کی لائٹ ون دیکھتے ہوئے سوچا ۔۔ اور اس کے روم کی طرف بڑھ گیا۔۔۔
"ارے روح۔۔۔ کب آئی آپ۔۔ اور کیسا رہا مری کا ٹرپ۔۔۔ مزہ آیا میری بہن کو، اور کتنا مس کیا مجھے۔۔۔" ارمش نے اس سے ایک ہی ساتھ سارے سوال ڈالے۔۔۔
"اف بھائی کیا ہوگیا ہے۔۔ اتنے سارے سوال ایک ساتھ نہ کیا کریں۔۔۔ اور ابھی مجھے نیند آئی ہے۔۔ آپ پلیز جائیں اور زی کو کہیے گا کہ مجھ سے مل کر جائے یونی۔۔۔" وہ اپنے بھائی کے گلے لگتے ہوئے بولی بعد میں بیڈ کی طرف جاتے ہوئے زرتاشہ کو بھی میسج دیا۔۔۔
"اوئئئئئے۔۔ تم نے میرے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔۔۔ اور زری کو میں صبح صبح منہ نہیں لگانا چاہتا۔۔۔ جب اٹھو گی تو مل لینا ۔۔" وہ اس سے بولتا روم سے باہر آگیا۔۔۔
"ہاہاہاہا! لگتا ہے رات میں پھر چھیڑا ہے زی نے بھائی بول کر۔۔۔ ہاہاہاہا بیچارے بھائی۔۔ ہائے میرا معصوم بھائی۔۔ ایک منٹ، ایک منٹ یہ کیا بول دیا معصوم۔۔۔ توبہ توبہ کوئی معصوم نہیں یہ۔۔ چل روحا سوجا پھر اٹھ کر بڑے کام کرنے ہیں۔۔"
وہ لیٹتے ہوئے بولی اور تھوڑی دیر میں ہی نیند کی دیوی اس پر مہربان ہوگئی تھی۔۔۔
وہ اپنے روم میں آیا اور چینج کرنے کے لیے واشروم جا ہی رہا تھا کہ اس کا فون بجا۔۔۔ اسکرین پر نمبر دیکھ کر وہ مسکرایا تھا۔۔۔
" ہاں جگر ! بول کیا کام پڑگیا اتنی صبح صبح اور وہ دوسرا کمینہ کہاں مرا پڑا ہے۔۔؟؟؟ ارمش نے فون اٹھاتے ہوئے کہا ۔۔
" ہاں جانی! ضروری تو نہیں کہ میں کسی کام کے لیے ہی کال کروں ۔۔۔ ویسے میں نے یہ کہنا تھا کہ جلدی آجانا یار یونی بہت دیر کر دیتے ہو تم پھر سر جب سزا دیتے ہیں تو مجھے بلکل اچھا نہیں لگتا۔۔۔ اور دوسرا یہ کہ اس جاہل سے میری بھی کوئی بات نہیں ہوئی۔۔۔ تو آجا پھر دیکھتے ہیں آسکو بھی ۔۔" دوسری طرف سے تفصیلی جواب آیا۔۔۔
"چلو ٹھیک ہے۔۔۔ میں آجاؤں گا جلدی۔۔" ارمش نے کہہ کر فون کو کان سے ہٹا کر گھورا اور تیار ہونے چلا گیا۔۔
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨
"تبریز صاحب آپ اپنے ہی بچوں سے یہ بات کیوں چھپا رہے ہیں ۔۔۔ اور آپ یہ بات بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہماری اولاد کتنی سمجھدار ہے۔۔ وہ آپ کو ضرور سمجھے گی۔۔۔"
رضیہ بیگم اپنے شوہر کو سمجھاتے ہوئے بولیں ۔۔
"نہیں رضی، یہ میرے وعدے کی خلاف ورزی ہوگی۔۔ میں یہ بات مشن مکمل ہونے سے پہلے کسی کو کچھ نہیں بتا سکتا ۔۔۔" تبریز صاحب نے تحمل سے منا کرتے ہوئے کہا ۔۔
"ٹھیک ہے جیسا آپ کو صحیح لگے۔۔۔" رضیہ بیگم نے بھی نم رضامندی دے دی تھی۔۔۔
"اسلام وعلیکم بابا، ماما" زایان اپنا کوٹ کرسی پر ڈالتے ہوئے۔۔ رضیہ بیگم کی پیشانی چومتے ہوئے کہا۔۔
"ہاں ہاں تم بس اپنی ماں سے ہی پیار کرتے ہو۔۔ میں تو ایسی ہی ہوں ۔۔" تبریز صاحب نے زایان سے کہا۔۔
"ہاہاہاہا! بابا چھوڑے آسکو ۔۔۔ میں ہوں نا آپ کا پیارا بیٹا۔۔۔" رایان نے اپنے باپ کے گلے میں ہاتھ ڈالے بولا ۔۔
"چلو چلو! ہٹو پیچھے تم تو ، اپنے مطالب کے لیے ہی باپ سے ملتے ہو یا بات کرتے ہو۔۔۔ " انہوں نے رایان کو پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا ۔۔۔
"جی بلکل آپ کو پتا ہے آپکے لئیے نا زایان سڑیل ہی ٹھیک ہے ۔۔۔۔ جو نہ کسی سے سیدھے منہ بات کرتا ہے نہ ہی ہنستا مسکراتا ہے۔۔۔ انہہ "
رایان نے تنگ کرنے کے لیے تبریز صاحب سے کہا تو زایان نے اسے گھوری سے نوازہ۔۔۔
"ارے سڑیل اور کھڑوس آپ ہیں۔۔ زایان بھیا نہیں۔۔ اور بابا آپ کو پتا ہے رایان بھیا اتنا لاڈ کیوں کر رہے ہیں آپ سے۔۔۔؟؟؟ اسلیے کیونکہ یہ نہ کل۔۔۔" انو نے میز پر آتے ہوئے دونوں بھائیوں کی باتیں سن لیں تھیں۔۔ تبھی زایان کی سائیڈ لی۔۔۔ اور آخر میں رایان سے بدلہ لینا نہ بھولی۔۔۔
رایان جو سکون سے انو کی بات سن رہا تھا۔۔ اس کی آدھی بات چھوڑنے پر پانی کا پھندا لگا۔۔۔ اور انو کو آنکھ کے اشارے سے منا کیا۔۔ لیکن تبریز صاحب دونوں کو دیکھ چکے تھے اشارہ کرتے۔۔۔ اسلیے رعب دار آواز میں بولے ۔۔
"کیا بات ہے انو۔۔؟؟؟ کیا چھپا رہی ہیں آپ لوگ ہم سے ۔۔؟؟؟ "
"وہ بابا کل نہ۔۔۔ رایان بھیا۔۔۔ رات کو گھر لیٹ آئے تھے ۔۔ اور کھانے پر بھی نہیں تھے ۔۔۔" انو نے ایک آنکھ ونک کر کے رایان اور زایان کو دیکھا تو رایان نے اپنا ہاتھ منہ پر پھیر کر یہ اشارہ دیا کہ ( بیٹا جی اب آپ بچیں ) تو زایان نے مسکراہٹ روکنے کے لیے اپنا سر نیچے کیا۔۔۔۔
"ہاں تو برخوردار آپ کچھ کہنا پسند کریں گے اپنی صفائی میں کہ نہیں۔۔۔ ؟؟؟" تبریز صاحب نے رایان سے پوچھا ۔۔۔
"وہ بابا میں ۔۔۔۔۔۔"
"بابا میں نے اس سے کچھ کام بولا تھا وہی کرنے میں تھوڑا ٹائم لگ گیا۔۔۔۔۔" رایان جو بولنے ہی لگا تھا بیچ میں زایان نے بات کاٹ کر کہا۔۔۔
"ہممم۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔ لیکن کوشش کیا کرو جلدی آنے کی گھر رایان۔۔۔ ورنہ مت آنا عائندہ سے۔۔۔"
انھوں نے رایان کو دیکھ کر کہا تو وہ سر جھکا گیا۔۔۔
"ججی بابا۔۔۔"
" آج تو میں نے جھوٹ بول کر بچا لیا۔۔۔ اب یونی سے واپسی پر ئیس کریم لے آنا پلیز۔۔۔۔ ورنہ بابا کو بتا دوں گی کہ آپ کل یونی بھی نہیں گئے تھے ۔۔۔" انو رایان کے پاس جھکتے ہوئے بولی ۔۔
"موٹی ۔ انو کی بچی!! جھوٹ بول کر بھی ڈانٹ پروا تو دی نہ ۔۔۔"
رایان نے اسکو غصے سے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔
"ہی ہی ہی!! ئیس کریم ۔۔۔" انو کہتے ہوئے اٹھ گئی ۔۔۔
"چلیں میں چلتی ہوں بابا، بھیا، ممی۔۔۔ اللہ حافظ۔۔" سب کو کہتے ہوئے وہ ڈرائیور کے ساتھ کالج کے لیے نکل گئی۔۔۔
تو زایان اور رایان بھی گھر سے نکلے۔۔۔
" بس اللّٰہ میرے بچوں کو اسی طرح ہنستا مسکراتا رکھے۔۔۔۔ اور ان بتا دینا رضی کہ میں شاید دو ہفتوں کے لئیے جا رہا ہوں میٹنگ کے لیے ملک سے باہر ۔۔۔۔" انھوں نے اپنے بچوں کو دعا دی اور اپنی شریک حیات کو کہہ کر چلے گئے ۔۔۔
🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀
"زری جلدی چلو یار سر جازب کلاس میں آگئے ہوں گے۔۔۔ پھر ہمیں جانے نہیں دیں گے ۔۔۔"
ارم جلدی جلدی زرتاشہ کا ہاتھ پکڑ کر کلاس کی طرف چلنے لگی۔۔۔
"آرام سے چلو یار کیا ہو گیا ہے ۔۔۔۔ " زی نے اسکی سپیڈ دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔
"آیک تو تم لیٹ آئی ہو اوپر سے مجھے بول رہی ہو۔۔۔ آہستہ چلنے کو ۔۔۔" ارم نے گھورتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
"میں کیا کروں یار ۔۔ اس ارمش کے بچے نے دیر کی ہے ۔۔ پتا نہیں کس کے لیے تیار ہو کر آتا ہے ۔۔۔" زی نے منہ بناتے ہوئے کہا۔۔۔
اسکی بات سن کر ارم نے قہقہہ لگایا۔۔۔
(یہ اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی کا منظر ہے جہاں زرتاشہ اور ارم اپنا (ایم بی بی ایس) (MBBS) کر رہی تھیں۔۔۔)
وہ لوگ اپنی گلاس میں پہنچی ہی تھیں کہ ارم سے کوئی بہت بری طرح ٹکرایا۔۔۔
"او ہیلو مسٹر!! یہ کون سا طریقہ ہے جانے کا۔۔۔ اندھرے ہو کیا۔۔ جو نظر نہیں آتا کہ سامنے کوئی ہے کہ نہیں۔۔۔"
"سوری میں نے دیکھا نہیں۔۔" آگے سے جواب آیا ۔۔۔
"ہاں دیکھو گے بھی کیسے اندھے جو ہو ۔۔۔" وہ پھر اسی طرح بولی تو زی نے اسے چپ ہونے کا اشارہ کیا تو وہ اپنی جگہ پر سکون سے بیٹھی۔۔۔۔
ابھی کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ سر کلاس میں داخل ہوئے۔۔ بلیک پینٹ کوٹ پر کندھے پر لیپٹاپ کا بیگ لٹکائے ، آنکھوں پر فریم لیس گلاسس لگائے وہ بلاشبہ ایک وجہہ شخصیت کا مالک تھا۔۔۔ اور اس کی ہلکی بڑی شیو اور کالی آنکھیں اس کو رعب دار بنانے کے لیے کافی تھی ۔۔ عمر میں وہ کوئی پچیس چھبیس سال کا تھا۔۔۔
"اسلام وعلیکم کلاس!! ہاؤ ار یو آل۔۔۔، آئی ہوپ یو آل ار فائن۔۔۔"
(How are you all ?? I hope you all are fine...)
"وعلیکم السلام یس سر!! وی آل ار فائن الحمدللہ۔۔۔۔" سب نے جواب دیا۔۔۔
" ہممممم ، چلیں کلاس سٹارٹ کرتے ہیں اب۔۔۔ " سر پوری کلاس پر نظر ڈال کر ابھی بورڈ کی طرف مڑنے ہی والے تھے کہ ان کی نظر ایک اسٹوڈینٹ پر پڑی۔۔۔
"مسٹر سکندر!! آپ یہاں سونے آئے ہیں۔۔۔؟؟؟" انہوں نے آواز بلند کرتے ہوئے اس اسٹوڈینٹ کو پکارا۔۔۔۔۔
"ججججی سر!! سوری رات کو دیر سے سویا تھا۔۔۔ " اسنے آنکھیں مسلتے ہوئے کہا۔۔۔
"کیا میں نے پوچھا آپ سے۔۔۔؟؟ " سر جازب نے رعب دار آواز میں کہا تو وہ سر جھکا گیا۔ ۔۔
"سوری سر!! اب نہیں ہوگا ایسا۔۔۔ اور تم زرہ باہر ملو مجھے بتاتا ہوں۔۔۔ " اس نے پہلا جملہ سر سے کہا ، جبکہ دوسرا دل میں کہا۔۔۔
"اوکے!! ئنڈ بی کونسنٹرٹ اون دی لیکچر۔۔۔" سر جازب اپنی ہنسی دبا کر بورڈ کی طرف مڑتے ہوئے بولے۔۔۔
"اب آیا مزہ ٹکٹیں مارتا پھر رہا تھا۔۔۔ انہہہ" ارم نے زی کے کان میں سرگوشی کی۔۔۔
"چھوڑو کیا ہوگیا ہے تمھیں۔۔۔ کیوں اس کے پیچھے پڑ گئی ہو۔۔۔"
زی نے ارم ٹوکتے ہوئے کہا۔۔۔
وہ لیکچر دے کر تھوڑی دیر بعد اپنے اوفس میں موجود تھا۔۔ جب کوئی بنا نوک کئے اوفس میں داخل ہوا اور کرسی پر بیٹھ کر دونوں پیر جوتوں سمیت اس کی میز پر رکھے۔۔۔۔
"یہ کیا طریقہ ہے مسٹر سکندر۔۔۔؟؟؟ پاؤں نیچے کرو۔۔۔ ابھی کوئی اسٹوڈینٹ آگیا تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔۔۔ " اس نے سیکندر کی حرکت پر منہ بناتے ہوئے کہا۔۔۔
"نہ تو مجھے یہ بتا مجھے پر غصہ کیوں کیا۔۔۔؟؟؟ سب کے سامنے ، ہاں یہ عزت ہے میری تیری نظر میں۔۔۔ نہیں یہ دن دیکھنے سے پہلے مجھے کچھ ہو کیوں نہیں گیااااااا"۔۔ اس نے ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا۔۔۔
"اوف!!!! شروع ہوگئی تیری نوٹنکی۔۔۔۔ اور دوسرا یہ کہ ایک یہی جگہ ہے۔۔ جہاں میں اپنا رعب دیکھا سکتا ہوں۔۔۔ ورنہ ہر وقت تم ہی اپنا رعب جھاڑتے رہتے ہو ۔۔۔"
جازب نے بھی اپنا حساب برابر کیا۔۔۔
"چل میں تھوڑی دیر میں ملتا ہوں۔۔ ایک لیکچر ہے میرا تھرڈ ئیر میں۔۔۔" وہ اسکو دیکھتے ہوئے بولا جس کا صاف مطلب تھا کہ۔۔ چل نکل یہاں سے۔۔۔
جاری ہے۔۔۔
۔
__________________________________
So sryy guyzz itni dino sy episode nhi di.. Janti hn Meri galti ha isky liye extremely sryy 😔 lekin mn ab Koshish krungi ky jaldi jaldi dun episode... Inshallah ❤️
Or apny apny reviews achy achy dea kryn yeh next vext ky ilawa he krna😝
YOU ARE MY LIFELINE
BY FIZZA SAQIB
EPISODE # 6
(DON'T COPY AND PASTA WITHOUT MY PERMISSION)
"افشین میں ذرا جا رہا ہوں۔۔ ایک دوست سے ملنے۔۔۔ تھوڑی دیر میں آجاؤں گا۔۔" روحان نے جلدی جلدی جاتے ہوئے افشین سے کہا ۔۔
"اس وقت خیر ہے نہ سب۔۔؟؟؟" افشین نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا۔۔
"ہاں ہاں سب ٹھیک ہے۔۔۔ بس اسکا فون آیا ہے۔۔۔ تو جا رہا ہوں۔۔" روحان نے تفصیل سے بتایا۔۔
" اچھا ٹھیک ہے۔۔۔ فی امان اللہ" افشین نے پر سکون ہوتے ہوئے کہا۔۔
تھوڑی دیر میں روحان ایک سنسان روڈ پر آیا اور اپنی گاڑی سے اتر کر جنگل کی طرف قدم بڑھا دیے۔۔ تھوڑی دور جا کر وہ ایک چھوٹے سے گھر میں داخل ہوا۔۔ وہاں جا کر اس نے اپنا لیپٹاپ اون کیا۔۔۔
"ہاں بولو! کیا پلین ہے آگے کا۔۔۔ ؟؟ " اس نے لیپٹاپ پر سب کو کنیکٹ کیا۔۔
"ایس پی روحان ( SP ROHAN) سب کلیر ہے۔۔۔ بس آپ نے وہاں پہنچنا ہے ٹائم پر۔۔۔"
"اوکے گڈ ! اور کیا صورتحال ہے ٹرک کی۔۔؟؟"
"سر ٹرک میں مال چینج کر دیا گیا ہے اور ایجنٹ 43 ٹرک لے کر نکل چکا ہے۔۔" دوسری طرف سے جواب آیا۔۔۔
"اوکے میں نکلتا ہوں پھر۔۔" روحان لیپٹاپ بند کر کے ایک کمرے میں گیا۔۔۔ اور الماری سے ایک ڈریس نکالا اور پندرہ منٹ میں وہ پولیس وردی میں اپنا والٹ اور گن لے کر باہر آیا۔۔۔ اور گاڑی میں بیٹھ کر وائرلیس ڈیوائس کان میں فٹ کی ۔۔
"یس ایجنٹ 43! میں نکل رہا ہوں۔۔" اس نے بات کرتے کرتے گاڑی سٹارٹ کی۔۔۔
"اوکے روحان۔۔" دوسری طرف سے بس یہی کہہ کر فون بند کردیا گیا۔۔۔
تھوڑی دیر میں روحان وہاں موجود تھا۔۔۔ لیکن اب وہاں وہ اکیلا نہیں تھا۔۔۔
(روحان اپنے باپ کا بزنس دنیا والوں کے سامنے سنبھالتا ہے۔۔ لیکن وہ اس کے ساتھ آرمی کے ساتھ مل کر ملک کی حفاظت کرتا تھا۔۔۔ یہ اس کا شوق تھا۔۔ لیکن زمہ داریوں کی وجہ سے وہ صحیح طرح اس فیلڈ میں نہیں آسکا۔۔
لیکن وہ کہتے ہیں نہ کہ جب اللہ تعالیٰ راستہ بناتا ہے تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔۔ اسی طرح اس مشن میں روحان کو بھی شامل کرلیا گیا تھا۔۔۔
یہ اس کا دوسرا مشن تھا۔۔۔ کچھ ایجنٹس کے ساتھ مل کر۔۔۔۔)
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨
زایان گھر واپس آیا تو ہر طرف خاموشی تھی۔۔
"سب کہاں ہیں اماں!!!" اس نے ملازمہ سے پوچھا۔۔
"صاحب جی! بڑی بیگم صاحبہ پڑوس میں گئیں ہیں اور چھوٹی بیگم صاحبہ اپنے روم میں ہیں۔۔۔ اور بڑے صاحب ابھی نہیں آئے۔۔۔"
"اچھا ٹھیک ہے" زایان کہہ کر اپنے روم میں آگیا۔۔ اپنا کوٹ ہینگر پر رکھتے وہ فریش ہونے چلا گیا۔۔۔ اور آکر وہ انو کے کمرے کی طرف چل دیا۔۔۔
"اسلام وعلیکم گڑیا! کیا کر رہی ہو۔۔۔؟؟" وہ ہلکا سا نوک کر کے اندر آیا تو انو کو بیڈ پر اپنی کتابیں پھیلیں دیکھ کر بولا۔۔۔
"وعلیکم السلام بھیا! کیسے ہیں ؟؟ میں کچھ نہیں اسائمنٹ بنا رہی تھی۔۔۔ آپ کو بھوک لگی ہے تو کھانا دوں۔۔؟؟
"ارے نہیں گڑیا۔۔ سب ساتھ کھاتے ہیں۔۔ اور میں بلکل ٹھیک ہوں۔۔" زایان نے اس کی پیشانی چومتے ہوئے کہا۔۔۔
"اچھا بھیا! اور آپ کو ایک بات بتاؤں۔۔؟؟" انو نے زایان کے کان کے پاس تھوڑا جھکتے ہوئے کہا ۔
"ہاں ہاں بتاؤ۔۔؟؟" اس نے بھی شرارت سے کہا ۔
"وہ نہ آج رایان بھیا یونی نہیں گئے۔۔۔" اس نے زایان اور رایان کی شکایت کرتے ہوئے کہا۔۔
جس پر زایان کا قہقہہ بلند ہوا ۔۔۔
اور کوئی اس کو اس طرح ہنستا دیکھ لیتا تو بے ہوش ہو جاتا۔۔
وہ ایسا ہی تھا انو کے ساتھ زایان ہمیشہ پر سکون اور شرارتی ہی رہتا تھا۔۔ جبکہ رایان کے سامنے سنجیدہ ہونا بنتا تھا کیونکہ اس کی قصر رایان جو پوری کر دیتا تھا ۔۔
"آپ ہنس کیوں رہے ہیں۔۔؟؟" اس نے منہ بناتے ہوئے کہا۔۔
"اچھا سوری۔۔ ویسے آپ کو کس نے بتایا کہ وہ نہیں گیا ۔۔" اس نے انو سے پوچھا۔۔
"وہ جب میں کالج سے آئی تھی تو ان کے روم میں ساری بکس رکھی ہوئی تھیں۔۔" اس نے زایان کو بتایا۔۔۔
اور اسی طرح وہ تھوڑی دیر باتیں کرتے رہے۔۔۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
تھوڑی دیر میں ٹرک سوپر ہائی وے پر اپنی منزل کی طرف رواں تھا اور جس جگہ ناقہ بندی کی گئی تھی پولیس کی طرف سے۔۔
وہاں ٹرک روک کر اس نے روحان کو اشارہ کیا تو اس نے ٹرک کا پیچھلا دروازہ کھول کر کسی کو اندر جانے کا اشارہ کیا۔۔ اور واپس آکر اسکو اشارہ کیا تو وہ سر ہلاتا ہوا ٹرک لے کر چلا گیا۔۔
"ایجنٹ 35 ! آپ کو میری آواز آرہی ہے۔۔۔ ؟؟"
"یس سر! " اس نے جواب دیا۔۔
"اوکے اپنا کام جلدی کرنے کی کوشش کیجئے گا کیونکہ میرا وہاں زیادہ دیر روکنا خطرے سے خالی نہیں ہوگا۔۔" اس نے کہا۔۔
"اوکے سر! میں پوری کوشش کرونگی کہ جلدی ہو جائے کام۔۔" اس نے جواب دے کر ڈیوائس بند کی۔۔
کچھ دیر میں ٹرک ایک بہت بڑے محل نما بنگلہ کے سامنے تھا۔۔ جہاں ان سمگلنگ لرز کی میٹنگز ہوتی تھیں اور مال بھی پہلے یہاں جما کیا جاتا تھا۔۔۔
گارڈز اپنی ڈیوٹی پر تھے اور ٹرک دیکھ کر ایک گارڈ ڈرائیور کے پاس آیا۔۔
"ہاں خان! کس نے بھیجا ہے۔۔؟؟" گارڈ نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا۔۔
"ہمرے کو شہری صاب نے بھیجا ہے کچھ چیزیں ہیں ان کا اس بس میں۔۔" گارڈ نے شہریار کا نام سن کر تھوڑا پیچھے ہوا۔۔۔
"کوڈ بتاؤ خان؟؟ ہم کیسے مان لیں تم ان کے ہی آدمی ہو۔۔ اور اس میں مال ہی ہے نہ کہ کچھ اور ۔"
"معافی قبول کر لی گئی۔۔ ، اعتماد ختم ہوگیا۔۔ "
("Apology accepted, trust deined..")
گارڈ نے کوڈ سن کر اسکے لئے گیٹ کھولا۔۔ وہ ٹرک لے کر اندر آیا تو وہ ایک کھولا میدان تھا۔۔۔ جہاں جگہ جگہ درخت لگائے گئے تھے سیفٹی کے لئے۔۔۔
وہ تھوڑا آگے گیا اور ٹرن لے کر ایک درخت کی آڑ میں روکا۔۔
اس نے اتر کر پیچھے کا دروازہ کھولا۔۔ اس کے کھولنے پر کوئی نیچے اترا اور سر کے اشارے سے وہاں سے نکلتا چلا گیا۔۔۔
وہ وہاں سے بھاگتی ہوئی درختوں کی مدد سے چھپتے چھپاتے۔۔ بنگلے کے پیچھے آئی۔۔
یہاں سے اسے اندر جانے کا راستہ نظر آیا۔۔ اسنے اپنی ریوالور نکالی اور محتاط قدم اٹھاتی ہوئی اندر کی طرف جانے ہی لگی تھی کہ گارڈز باہر آتے نظر آئے۔۔۔
دو گارڈز گیٹ کے سامنے کھڑے ہو گئے جبکہ اوپر کی منزل پر 4 گارڈز ہر سیکنڈ بعد اپنی جگہ چینج کر رہے تھے۔۔۔ وہ فوراً درخت کے پیچھے چھوپی۔۔ اور ایک طائرانہ نظر سب پر ڈال کر ہوڈی سے اپنا چہرہ چھپا کر نکلی اور گیٹ کی طرف بڑھی گارڈز اسکو اپنی طرف آتا دیکھ کر آگے آئے۔۔۔
"کون ہو تم اور یہاں کیا کر رہے ہو۔۔؟؟ ایک گارڈ نے کہا۔۔
"وہ میں جھولی ہوا میں آیا تھا۔۔ تھوڑی دیر کے لئے۔۔" اسنے اپنی آواز بدلتے ہوئے کہا۔۔
"ہممم! ٹھیک ہے جاؤ۔۔" گارڈ نے اس کو اندر جانے دیا کیونکہ اسنے اپنی ڈریسنگ اندر کے خاص میل ورکرز کی طرح کی ہوئی تھی۔۔۔
(ISI اپنی ٹرینیگ کے دوران اپنے ایجنٹس کو ہر طرح کی چیزیں سیکھاتے ہیں جیسا کہ ، آواز بدلنا اپنا گیٹپ چینج کرنا اور ہر طرح کی سچویشن کو ہینڈل کرنا)
جاری ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
kesi lgi episode... Apny reviews lazmi dea kryn..