Pakistan Current Affairs
This Page is all about Health Related Issues of Pakistan. Not only Health Issues but other General Public Issues too.
Have you followed Digital Mandi?
If not, please do follow
Digital Mandi
Khanpuri Blood orange
؛The Little Match Girl
ماچس والی لڑکی
{عالمی شہرت یافتہ ادیب ہینز کرسچن اینڈرسن کی مشہور کہانی کا اردو ترجمہ}
بَلا کی سردی تھی۔ شام اندھیری ہونا شروع ہو گئی تھی۔ بالآخر رات آگئی۔ سال کی آخری رات۔
ایک چھوٹی سی غریب بچّی، ننگے سَر، ننگے پاؤں گلیوں میں پھر رہی تھی۔ جب وہ گھر سے نکلی تھی تو اس کے پاؤں میں اس کے اپنے نہیں بلکہ ماں کے چپل تھی لیکن وہ کس کام کے؟ وہ تو اس کے ننھے ننھّے پاؤں سے بہت بڑے تھے۔ صبح جب وہ سڑک پار کرنے لگی تھی تو ایک تیز رفتار گھوڑا گاڑی سے بچنے کی کوشش میں چپل اس کے پاؤں سے اتر گئے۔ ایک تو گٹر میں گر گیا ، دوسرا ایک لڑکا اس کا منہ چڑاتا ہوا، لے کر بھاگ گیا۔
جب سے بچّی ننگے پاؤں پھر رہی تھی، پاؤں سردی کی شدت سے نیلے ہو رہے تھے۔ اس نے ایک پھٹا پرانا ایپرن باندھا ہوا تھا۔ ماچسوں کے کچھ پیکٹ اس نے ایپرن کی جھولی میں رکھے ہوئے تھے۔ ایک پیکٹ گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا۔ لیکن صبح سے اب تک اسے کوئی گاہک نہیں ملا تھا۔ اب تک اس نے ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں کمائی تھی۔ سردی سے کانپتی، بھوک سے لاغر دکھ کی تصویر بنی یہ غریب معصوم بچّی گلی گلی گاہکوں کی تلاش میں پھرتی رہی۔
گھروں سے لذیذ کھانوں کی خوشبو آ رہی تھی۔ اس کے منہ میں پانی آ رہا تھا۔ اس کی بھوک اور بھڑک اٹھی تھی۔ اب وہ جس گلی میں آئی تھی اس کے دو مکانوں کے درمیان ایک چھوٹا سا تھڑا تھا۔ تھکن سے چور بچّی سستانے وہاں بیٹھ گئی۔ اپنے یخ پاؤں کو اس نے ہاتھوں سے گرمانے کی کوشش کی، پھر اکڑوں بیٹھ کر اپنی فراک سے انہیں کسی حد تک ڈھانپا لیکن وہ ویسے ہی ٹھنڈے رہے۔
سردی شدید ہوتی جا رہی تھی۔ لیکن اس کی ہمّت نہیں پڑ رہی تھی کہ وہ گھر واپس جائے، کیسے واپس جاتی؟ اس کی تو صبح سے ایک ماچس بھی نہیں بکی تھی۔ وہ خالی ہاتھ گھر نہیں جاسکتی تھی اور ویسے بھی گھر میں سردی کون سی کم تھی۔ ایک کمرے والے گھر کے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ پڑا ہوا تھا اور چھت میں ایک بڑا سا سوراخ جس کو بھوسے اور پرانے چیتھڑوں سے بند کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن وہاں سے ہر وقت ٹھنڈی ہوا آتی رہتی۔ اب اس کے ہاتھ سردی سے بالکل سُن ہو چکے تھے۔ وہ سوچ رہی تھی کاش اس وقت کہیں سے تھوڑی سی آگ مل جائے تو اس کے ہاتھ کچھ گرم ہو جائیں۔ لیکن آگ کیسے ملے؟ کہاں سے آئے؟
اس نے لالچ بھری نظروں سے ماچس کی ڈبیہ کی طرف دیکھا۔ امید کی ہلکی سی کرن نظر آئی۔ سَر کے ایک جھٹکے سے اس نے اس خیال کو بھگانے کی کوشش کی، مگر خیال بار بار واپس لوٹتا رہا۔ اس نے جھجکتے جھجکتے ایک تیلی نکالی، ڈرتے ڈرتے اسے تھڑے کے فرش سے رگڑا۔ ایک شعلہ نمودار ہواتو اس نے جلتی تیلی کو اپنے ہاتھوں سے ڈھانپا، شعلے کی تپش کو محسوس کیا، شعلے کی چمک عجیب سی تھی۔
اس لمحے بچّی کو ایسا لگا کہ وہ ماچس کا شعلہ نہیں بلکہ ایک بہت بڑا آتش دان ہے، جس پر چمکیلے پیتل کے دستے لگے ہوئے ہیں اور سنہری جالی کے پیچھے جلتی آگ اس سجے سجائے کمرے کو تاپ رہی ہے، جہاں وہ ایک دیوان پر موٹا سا گرم اونی گاؤن پہنے بیٹھی ہے۔ اچانک شعلہ لپک کر ایک دم بجھ گیا۔ آتش دان، گرم اونی گاؤن، دیوان، سب اچانک غائب ہو گئے، تاریکی پھر سے چھا گئی۔ صرف بجھی ہوئی ماچس کی تیلی اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے ایک اور تیلی جلائی۔
تھڑے سے جڑی ہوئی دیوار کو شعلے کی روشنی نے چمکیلے موتیوں سے جڑی جھالر میں بدل دیا۔ اس کے پیچھے اسے صاف نظر آیا جیسے ایک خوش و خرم خاندان کے لوگ دستر خوان کے گرد بیٹھے ہیں اور دستر خوان پر کھانے کی پلیٹیں لگی ہیں۔ کٹوروں میں انواع و اقسام کے کھانے ہیں، ایک بڑا برتن گرم گرم سوپ سے بھرا ہوا ہے جس میں سے بھاپ نکل رہی ہے۔ ایک لڑکا سوپ کا پیالہ لے کر اس بچّی کے پاس آیا۔ لیکن جیسے ہی اس نے سوپ کا پیالہ لینے کے لیے ہاتھ بڑھائے ماچس کی تیلی بجھ گئی اور پھر سے اندھیرا چھا گیا۔ اب اس کے سامنے صرف ٹھنڈی، پتھریلی دیوار تھی۔
بچّی نے آنکھیں اوپر اٹھا کر آسمان کو دیکھا۔ ایک ستارہ ٹوٹ کر زمین کی طرف آ رہا تھا۔ بچّی کی دادی، واحد شخص تھیں جن سے اس کو پیار ملا تھا۔ وہ اسے کہانیاں سناتی تھیں۔ دادی نے ایک کہانی سناتے ہوئے اسے بتایا تھا کہ جب آسمان سے چمکتا ہوا تارہ ٹوٹ کر نیچے آتا ہے تو زمین سے کوئی روح آسمان کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ معلوم نہیں یہ تارہ کس کی موت کا پیغام لے کر میری طرف بڑھ رہا ہے؟ کوئی نہ کوئی ضرور مرنے والا ہے۔ خدا جانے کون؟
بچّی نے ماچس کی ایک اور تیلی جلائی، پھر سے روشنی ہوئی۔ اب اسے روشنی میں صاف نظر آیا کہ سَر پر روشنی کا تاج پہنے اس کی دادی اس کے سامنے کھڑی اسے پیار سے دیکھ رہی ہیں۔ ’’دادی، پیاری دادی مجھے بہت سردی لگ رہی ہے۔ میں بہت بھوکی ہوں۔ مجھے اپنے ساتھ لے چلیں دادی۔ مجھے معلوم ہے کہ جیسے ہی یہ ماچس بجھے گی آپ بھی چلی جائیں گی، جیسے وہ گرم آتش دان غائب ہو گیا، جیسے سوپ کا پیالہ ۔ آپ بھی ایسے ہی چلی جائیں گی لیکن آپ نہ جانا۔ میں اب اندھیرا نہیں ہونے دوں گی۔
میں آپ کو نہیں جانے دوں گی‘‘۔ اس سے پہلے کہ وہ تیلی بجھ جاتی اس نے ایک تیلی اور جلائی، پھر دوسری، پھر اس نے پورے ماچسوں کے بنڈل کو تیلی دکھا دی۔ ماچس کی تمام تیلیاں دم جلیں۔ ایک بہت بڑا شعلہ اٹھا، رات دن کی طرح روشن ہو گئی۔ دادی نے ہاتھ بڑھائے، بچّی کو گود میں لیا تو وہ خوشی سے نہال ہوگئی۔ اسے لگا وہ ستاروں کی طرف جا رہی ہے لیکن دو پرانے مکانوں کے درمیان بنے تھڑے پر دیوار سے لگی ایک چھوٹی سی بچّی، جس کے رخسار لال اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی، سردی کی تاب نہ لا کر مر گئی۔ اس کا بے جان جسم سردی سے جم کر اکڑ چکا تھا۔ وہ ایسے ہی بیٹھی تھی جیسے رات کو بیٹھی تھی۔ ایک طرف جلی ماچسوں کا ڈھیر تھا، دوسری طرف، جھولی میں کچھ ماچسوں کی ڈبیاں۔ جیسے کہہ رہی ہو کہ کوئی تو مجھ سے ماچس خرید لے۔
صبح کی چہل پہل شروع ہو چکی ہے۔ مرد، عورتیں، بچے تھڑے کے پاس جمع ہیں۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ بے چاری اپنے آپ کو سردی سے بچانے کی کوشش میں مر گئی۔ لیکن کسی کو نہیں پتہ کہ وہ اپنے تصور میں کتنی خوب صورت دنیا دیکھ رہی تھی اور اب کتنی مسرت سے اپنی بوڑھی دادی کی گود میں ایسی دنیا میں ہے جہاں نہ بھوک ہے نہ پیاس، نہ سردی ہے، جہاں صرف خوشی ہی خوشی ہے، محبت ہی محبت ہے۔ پیار ہی پیار ہے۔
Hans Christian Andersen
یہ پولیس اسٹیٹ، مینگورہ شہر کے وسط کا مصروف ترین بنڑ چوک ہے، جہاں ایک حوا کی بیٹی کو کسی نے قتل کیا اور فرار ہوگیا۔ مقتولہ کا بیٹا اپنی ماں کی لاش پر دھاڑیں مار مار کر رو رہا ہے، لیکن نہ تو ایمبولینس ہے اور نہ پولیس، افسران شائد محو خواب ہیں
1.4 Million people
2nd September everyone should show the power of unity
Imran Khan has been released after 24 days of illegal detention
گوجرانوالہ نہم کلاس کا رزلٹ آگیا 1 لاکھ 19 ہزار 810 سدھو موسے والا کے جانشین فیل ہو گئے
👇
کوئی نئیں مصیبت تے مرداں تے پیندی رہندی آ😂
دادا اگر ضد نہ کرتے پاکستان آنے کی تو آج ہم بھی چاند پر پہنچنے کی خوشی منا رہے ہوتے۔😁
P.s بھائی کچھ چیزوں کو مذاق سمجھ لیا کرو اتنے ٹینشن میں رہو گے تو بوڑھے ہو جاؤ گے جلدی
Can't imagine this could have happened in Islamabad...
Link in first comment...
فاطمہ کیس میں گرفتار پیر اسد شاہ کی والدہ سے حویلی میں موجود نوکرانیوں کی تعداد کے بارے میں جب معلوم کیا گیا تو اس نے جواب دیا کہ سیکڑوں ہیں، آج تک کبھی گنی ہی نہیں ہیں۔
سندھی میں اس قسم کی نوکرانیوں کو "ٻانھي" کہا جاتا ہے، جن کا باقاعدہ کوئی معاوضہ مقرر نہیں ہوتا۔ بس روٹی کے دو ٹکڑوں پر ان کے والدین اپنی بچیوں کو حویلی چھوڑ جاتے ہیں کہ مرشد کی شفاعت سے جنت کا راستہ آسان ہو جائے گا۔
اب پیر صاحب، ان کی بیگمات اور حویلی میں موجود ملازمان، ان بچیوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں، یہ وہ راز ہیں جو حویلی کی حرم سراؤں تک ہی محدود رہتے ہیں۔ والدین کبھی پلٹ کر ان کی خبر تک نہیں لیتے کہ مرشد ناراض ہوا تو دین اور دنیا دونوں ہی ختم ہو جائیں گے۔
یہ سب کچھ صدیوں سے ایک منظم نظام کے تحت ہوتا آرہا ہے اور اس میں سرکاری افسران، پولیس، ڈاکٹرز اور دیگر اہلکار اپنا حصہ وصول کرکے سہولت کاری فراہم کرتے ہیں۔
فاطمہ کیس میں بھی یہی ہوا۔ معصوم بچی کا مبینہ ریپ ہوا، ایس ایچ او اور ڈاکٹر کی مدد سے پوسٹ مارٹم کئے بغیر ہی لاش کو دفنا کر معاملہ نمٹا دیا گیا اور بچی کے والدین کو اس کی بیماری کا بتا کر چار پیسے دے کر خاموش کروا دیا گیا۔
یہ سب کچھ ایک بالکل نارمل اور روٹین پریکٹس کے تحت کیا گیا۔ کیونکہ ایسے کتنے ہی کیس ہیں جو آج تک منظر عام پر ہی نہیں آسکے۔ لیکن فاطمہ کی بات کسی نہ کسی طرح باہر نکل گئی اور سوشل میڈیا پر آگئی۔ جس کے نتیجے میں ایسا احتجاج ہوا کہ فاطمہ کی قبر کشائی کے احکامات جاری کئے گئے۔
تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ جس حویلی کے اوپر کبھی نر پرندہ بھی پرواز نہیں کرسکتا تھا، آج وہاں پولیس پکٹ قائم کردی گئی ہے۔ حویلی مکمل طور پر ویران ہے، کیونکہ اس کے سارے مکین مرد اپنی عورتوں سمیت فرار ہیں اور رانی پور کی قومی شاہراھ پر احتجاج ہورہا ہے اور ہزاروں گاڑیوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔
یہ ایسے مناظر ہیں جن کے دیکھنے کے لئے ہماری آنکھیں ترس گئیں اور امیدیں دم توڑ رہی تھیں، لیکن سوشل میڈیا کی بدولت آج ایسا ممکن ہوا ہے۔
شکریہ سوشل میڈیا، جس نے دھرتی کے خداؤں کو آج اس طرح پسپا ہونے پر پر مجبور کیا ہے ورنہ ان تاریک غلام گردشوں میں نجانے کتنی فاطمائیں بے گور و کفن ہی دفنا دی گئی ہوں گی۔
پیر کی حویلی میں تشدد اور زیادتی کے بعد جاں بحق ہونے والی فاطمہ کے پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ جاری کردی گئی ہے.
ابتدائی رپورٹ کے مطابق فاطمہ کا جسم گلنے کے مرحلے میں داخل ہو چکا تھا، فاطمہ کا چہرہ ایک طرف سے نیلا اور دوسری جانب سے ہرا ہوچکا تھا جبکہ اس کے جسم پر متعدد تشدد کے نشانات بھی موجود ہیں۔
رپورٹ کے مطابق فاطمہ کے جسم پر تشدد کے 9 نشانات ہیں، جس میں آنکھ، کمر، پیشانی، پیر، گھٹنے اور ہاتھ پر تشدد ہوا تھا، کچھ اجزاء کو مائیکرو بیالوجی کیلئے بھیجا گیا ہے.
فاطمہ کے ساتھ متعدد وقتوں میں دو طرفہ زیادتی کی جاتی رہی ہے،جس کے زخم بھرنے لگے تھے، موت سے کچھ وقت قبل بھی زیادتی کی گئی تھی، دن رات زیادتی کی وجہ موت کا سبب بھی بنی ہے.
پولیس کے مطابق میڈیکل بورڈ نے فاطمہ پر جسمانی تشدد کی تصدیق کی ہے اور بچی کے ساتھ جنسی زیادتی بھی ہوئی ہے، تفتیش میں شامل سابق ایس ایچ او رانی پور، ہیڈ محرر، ڈاکٹر اور کمپاؤڈر کا بھی ریمانڈ پر لینے کا فیصلہ کیا ہے، ملزمان کو حقائق مسخ کرنے، لاش بغیر پوسٹ مارٹم دفنانے پر نامزد کیا جائے گا۔
From the wall of Ismail Sial
Relax yourself today
Paws and Whiskers: Exploring the Adorable World of Dogs and Cats 🐾 Get ready to embark on a heartwarming journey into the enchanting world of dogs and cats! 🐶😺 In this captivating video, we bring you a delightful showcase of the heartwarming bond between our furry
ان صاحب کو دیکھیے یہ ہے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا چیف سیکورٹی آفیسر میجر اعجاز شاہ..
یہ صاحب تقریباً 7 سال سے اسلامیہ یونیورسٹی میں چیف سیکورٹی تعینات ہیں۔ اور موصوف شراب نوشی کرکے پرائیویٹ کار میں ایک لڑکی کو لیکر جارہے تھے کہ سامنے CIA پولیس بہاولپور کی چیکنگ کو دیکھ کر
رانگ سائیڈ پر گاڑی کو دوڑا کر لے گئے، جس پر پولیس نے پیچھا کر کے موصوف کو روکا تو گھبرا گئے۔ پولیس نے نشہ کی حالت میں دیکھ کر تلاشی شروع کی تو گاڑی سے آئس ، چرس اور جنسی طاقت بڑھانے والی ادویات پائی گئی۔ اور پوچھ گچھ پر معلوم ہوا کہ چیف سیکورٹی آفیسر صاحب یونیورسٹی کی لڑکی کولیکر مکان پر رنگ رلیاں منانے جارہے تھے۔ موصوف کے پاس دو عدد موبائل تھے جن میں 5500 لڑکیوں کی فحش ویڈیوز اور تصاویر تھیں۔ جس پر پولیس نے موبائل ضبط کرلیے۔ اور کار میں سوار لڑکی کو پولیس نے عزت کا لحاظ اور بدنامی سے بچانے کے لیے والدین کو بلا کر ان کے حوالے کردیا۔دوران تفتیش معلوم ہوا کہ موصوف اور ایک ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ نے یونیورسٹی میں ایک گینگ بنا رکھا ہے جو لڑکیوں کو پوزیشن اور پاس مارکس کے عوض اپنی جنسی خواہشات پوری کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اسکی ننگی ویڈیوز اور تصاویر بناکر بلیک میل کرتے ہیں۔ اس جیسے کتنے ہی جنسی بھیڑے تعلیمی درسگاہوںاور دیگر اداروں میں جنسی گدھ بن کر بہن ، بیٹیوں کی عزتوں سے کھیل رہے۔ ہماری معاشرتی اخلاقیات زوال کی طرف گامزن ہیں۔ آخر اس معاشرتی اخلاقیات کو ٹھیک کرنے کا بیڑا کون اٹھائے گا، جہاں پر بااثر قانون کو اپنے پاؤں کی جوتی سمجھتا ہو۔۔ میں تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں خاص کر عدلیہ
سے اپیل کرتا ہوں کہ اس جیسے جنسی بھیڑیوں کو قرار واقعی سزا دیکر نشان عبرت بنایا جائے۔
ضرور پڑھیں اور ضرور آگاہی دیں اپنے بچوں کو۔🙏😓
میڈیا بغیرت ستُو پی کر سو رہا ہے 🖐️🖐️🖐️
جی پاکستانی الرٹ رہیں۔۔۔
ابھی ابھی اطلاع ملی کہ فوڈ پانڈا ڈیلیوری کے روپ میں بغیر یونیفارم کچھ لڑکے موٹر بائیکس پہ گھوم رہے ہیں جو لوگوں سے کال کرنے کے بہانے موبائل مانگ کر فرار ہو جاتے ہیں، انکا طریقہ واردات یہ ہے کہ کہتے ہیں کہ انکا موبائل آف ہوگیا ہے لہٰذا آپ سے گزارش کریں گے کہ ضروری کال کیلئے موبائل دے دیں ، اگر أپ انھیں موبائل دے دیتے ہیں تو موبائل فون لیکر فرار ہو جاتے ہیں۔۔۔
سب الرٹ رہیں، محتاط رہیں، نیکی کے چکروں میں کال کیلئے اپنا موبائل کسی کو مت دیں
راولپنڈی کے سواں پل پر بڑا حادثہ... سیمنٹ سے بھرے ٹرالے کی بریک فیل ہونے سے کئی چھوٹی گاڑیوں اور انسانی جانوں کے نقصان کی اطلاعات...
محمد زبیر خان
عہدہ,صحافی
28 جون 2023، 09:02 PKT
’وہ بہت خدا ترس اور سخی انسان تھے۔ ہر ایک کی مدد کرتے تھے۔ گولی کا نشانہ بنتے وقت بھی ان کے ہمراہ تین غریب بچے تھے جن کو وہ عید کی خریداری کے لیے ساتھ لے کر گئے تھے۔‘
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے علاقے سینٹرل کراچی میں قتل ہونے والے پاکستانی نژاد کینیڈین شہری سید امین الدین علوی کے بہنوئی سید صغیر الدین علوی انھیں ان الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔
سید صغیر الدین علوی کے مطابق امین الدین علوی چند دن قبل کینیڈا سے عید کرنے پاکستان آئے تھے۔
ان کے دونوں بیٹے والد کی وفات کی خبر ملنے کے بعد کینیڈا سے کراچی کے لیے روانہ ہو چکے ہیں اور متوقع طور پر آج کراچی پہنچ جائیں گے جس کے بعد ان کی تدفین کی جائے گئی۔
Coutesy BBC URDU
کس طرح کے حیوانی دل و دماغ والے لوگ ہوں گے جنہوں ڈاکٹر عافیہ کو اغوا کرتے وقت اس معصوم کو قتل کر دیا۔۔۔ کیسے چھینا ہو گا اس معصوم کو اس کی ماں سے اور کیسے ایک کمزور ماں اپنے بچے کو بچا رہی ہو گی اغوا کے وقت۔۔۔ تصور کرنا بھی محال ہے۔۔۔
نجانے مشرف کے ساتھ اس وقت قبر میں کیا ہو رہا ہو گا؟
اسلام آباد کے علاقے I-10 میں دن دیھاڑے گھر سے چوری کی واردات۔۔۔ اس گلی میں گارڈ 24 گھنٹے موجود ہوتا ہے۔۔۔
یہ 12 سالہ بچی مسکان ایک مہینے سے اغوا ہے ، ڈیفنس c تھانہ لاہور کی حدود میں ایک گھر میں ملازمہ تھی ، گھر کے مالک کا کہنا ہے گم ہوگئی تو ہوگئی اس میں کیا بڑی بات ہے۔پولیس نے خود اس بچی کے خلاف چوری کا مقدمہ درج کردیا ،
اس کے باپ نے اس کی بازیابی کیلئے مقدمہ درج کروایا توکو بھی اغوا کر لیا گیا ہے، آخری بار پولیس اس کے غریب باپ کو ساتھ لے گئی تھی۔ ٹھوس شواہد موجود ہیں اور ہائیکورٹ کی طرف سے لڑکی کی کو ڈھونڈ کر عدالت میں پیش کرنے کا حکم نامہ بھی موجود ہے۔ وہ کیس واپس لینے کیلئے اس کی فیملی پر پریشر ڈالا جا رہا ہے۔
اس کے کیس کو توجہ اس لیے نہیں مل رہی کیوں کہ یہ ایک غریب کی بیٹی ہے۔
میڈیا والے دوستوں سے توجہ کی گزارش ہے ، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ پروگرام ریکارڈ کرنا چاہیں تو تفصیلات کیلئے رابطہ کریں اور اس پوسٹ کو شیئر کردیں تاکہ معصوم مسکان کی تلاش میں کوئی مدد ہو سکے
مہربانی کرکے اس پوسٹ کو زیادہ شیر کریں،تاکہ معصوم مسکان کی تلاش میں کوئی مدد ہو سکے
ماں کہہ رہے ہیں فیکٹری میں زکوٰۃ کی رقم تقسیم ہو رہی ہے ہر ایک کو دو ہزار ملیں گے
اگر دونوں کو دو دو ہزار مل جائیں تو چار ہزار ہو جائیں گے، کچھ پیسے ہاتھ میں ہوں گے تو ابو کی دوائی اور چھوٹی بہنوں کی عید اچھی گزر جائے گی،
یہ کہتے ہوے 9 سالہ ماہ نور کی آنکھوں میں خواہشات کی کہکشائیں جگمگا رہیں تھیں
ماہ نور اپنی پانچوں بہنوں میں سب سے حساس تھیں غربت تنگدستی اور چار پائی پر پڑے بیمار باپ کو دیکھ کر ماں کا ہاتھ بٹانے کی کوشش کرتی تھی
سکینہ بیبی نے کم سن بیٹی کی فکرمندی دیکھ کر اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور بیمار باپ کو خدا حافظ کہہ کر دونوں سائیٹ ایریا میں نارس چورنگی کے قریب کپڑے رنگنے والی فیکڑی کی جانب چل پڑیں یہاں زکوٰۃ تقسیم ہونا تھی
فیکٹری کے گیٹ پر ان جیسی سینکڑوں مجبور اور بےکس عورتیں گیٹ کھلنے کے انتظار میں لائن بنائیں کھڑی تھی
سکینہ بی بی بھی 9 سالہ ماہ نور کا ہاتھ پکڑے محو انتظار تھی اچانک فیکٹری کا گیٹ کھلا
مجبور انسانوں کا ریلا فیکٹری کی جانب لپکا ماؤں کے ہاتھ سے بچے چھوٹ گئے
فیکٹری میں جگہ جگہ کھڑا پانی ان بھاگتے پیروں کو مضبوطی دینے سے قاصر تھا
انسان انسان کے پاؤں کے نیچے مسلا جا رہا تھا
بھوک افلاس تہذیب کا پیرہن پہننے سے قاصر تھی
اس بھگدڑ میں سکینہ بی بی لوگوں کے نیچے دب کر بےہوش ہو چکی تھی
جب ہوش آیا تو عباسی شہید ہسپتال میں تھی لیکن ماہ نور نہیں تھی اسے خبر ملی کہ اسکی بیٹی اب اس دنیا میں نہیں رہی ہے۔‘
پیروں کے نیچے کچلی گئ
سکینہ بی بی کو کیا معلوم تھا کہ ان چند ہزار روپوں کے عوض اپنی بیٹی کو کھو دے گی ۔
ماہ نور کی طرح اس بھگدڑ میں 11 انسانی جانیں بھوک افلاس کو خیرباد کہہ کر اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔
آئیے ہم سب مل کر کوئی کتاب دریافت کریں کوئی آئت کوئی فتویٰ کوئی حوالہ تلاش کریں جو ان 11 خاندانوں کو صبر دے دے
آئیے کوئی ایسا گڑھا، کھائی گھاٹی، قبر کھودیں یہاں ہم اپنا احساس، ضمیر اپنی شرم اپنے سوال دفن کر دیں🖐️🥺
سی ڈی اے کا اسلام آباد کے علاقے i-10 مرکز میں غیر قانونی، ظالمانہ اور بزدلانہ قدم۔ رات کو تین بجے غریبوں کے کاروبار تباہ کر دیے گئے۔ مہنگائی کے اس دور میں جہاں پٹرول یکمشت 35 روپئے بڑھایا گیا وہاں سے ان غریبوں کی سالوں کی محنت کمائی بھی چھین لی گئی۔ تباہ کیے گئے بیشتر سٹالز PTI گورنمنٹ کے دور میں احساس پروگرام کے تحت ان لوگوں کو فراہم کیے گئے تھے۔ عوام اور غریب دکاندار روڈ بلاک کر کے سراپا احتجاج۔ اسلام آباد پولیس موقع پر موجود
Reham Khan with her new Husband....
اسلام آباد میں اقتصادی ایمرجنسی کی تجویز زیر غور:
1. تمام اقتصادی سرگرمیوں کو صبح 8 بجے سے شام 6 بجے تک محدود رکھیں۔ یعنی تمام بازار، کاروبار شام 6 بجے بند ہوں گے بشمول ریستوراں وغیرہ
2. ذاتی گاڑی کے استعمال کو صرف 3 دن تک محدود کیا جائے یا کار میں 3 افراد کا ہونا ضروری ہے۔ (تمام صوبوں میں ٹریفک پولیس کو نافذ کرنے کے معاملے پر ایک پلان بنانے کو کہا گیا ہے)
3. خلیجی ریاستوں کے لیے غیر ملکی پروازوں کو نصف تک کم کریں اور ہر سفر کرنے والے مسافر کو سفر کا جواز پیش کرنا چاہیے۔ (MOFA اور MOI نے طریقہ کار تیار کرنے کی ہدایت کی ہے) غیر ملکی کیریئرز پر ایک سال میں 2 سے زائد بین الاقوامی پروازوں کے پرانے نظام کو بھی بحال کریں، شہری کو پی آئی اے یا دیگر پاکستانی کیریئرز پر سفر کرنا ہوگا۔ اگر NTN بکنگ کے وقت فراہم نہیں کیا گیا تو فلیٹ فیس Pkr 5000/- گھریلو سفر اور Pkr 65,000/- بین الاقوامی پروازوں کے لیے عائد کی جائے گی اور بورڈنگ سے پہلے ہوائی اڈے پر جمع کی جائے گی۔
4. تمام سیلف فنانس شدہ حج و عمرہ اور زیارتوں کو روک دیں۔ شہری کو وزارت مذہبی امور سے این او سی حاصل کرنا ضروری ہے، اس کا تعین کرنے کے لیے خزانہ اور سفری تاریخ کا استعمال کیا جانا چاہیے۔
5. بیرون ملک تعلیم کے لیے کوئی بھی ڈالر کی ترسیل صرف ٹیکس کی رقم سے۔ اگر آپ کے ٹیکس گوشواروں میں شہریوں کی کسی بچے کی بیرون ملک تعلیم کی فنڈنگ کرنے کی اہلیت کا جواز نہیں بنتا ہے تو اس لین دین کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
6. ملک بھر میں منی ایکسچینجز کی کم از کم ایک سال کی بندش۔ صرف بینکوں کو ہی کرنسی تبدیل کرنے کی اجازت دی جائے گی جب کہ سٹیٹ بینک کی طرف سے مستعدی کی تیاری کی جا رہی ہے۔
7. ضروری درآمدات کی ترجیح۔ تمام ایل سیز کی اہمیت اور ضرورت کے مطابق درجہ بندی کی جائے۔ جب تک برآمد کنندہ برآمد کے لیے تصدیق شدہ آرڈرز کے ساتھ درآمد کا جواز پیش نہیں کرتا، کوئی نئی مشینری یا پلانٹ کی درآمد کی ایل سی نہیں کھولی جائے گی۔
8. تمام اندرونی تصفیے PKR میں جمع کیے جائیں گے مقامی بینکوں میں موجود تمام غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس کو عارضی ہولڈ پر رکھا جائے گا اور ایس بی پی کی مقرر کردہ شرح پر صرف PKR میں نکالا جائے گا۔
9. حکومت کے سرکاری غیر ملکی دوروں کو روک دیا جائے جب تک کہ میزبان ملک ادائیگی نہ کرے۔ دوطرفہ اہمیت کے لیے صرف سرکاری دورہ کم از کم امدادی عملے کے ساتھ کیا جائے گا اور کوئی نجی شہری یا خاندان کے افراد سفر نہیں کریں گے اور وزیر اعظم اور دیگر معززین سفر کے لیے صرف تجارتی پروازیں استعمال کریں گے۔
جب تک کہ منزل کے پاس کوئی تجارتی ایئر لائن رابطہ نہ ہو۔
مجموعی طور پر 22 نکاتی ابتدائی سمری بشمول اوپر کے 9 نکات پر وزارت خزانہ کو ہر سطح پر شدید مزاحمت کے ساتھ تجویز کیا گیا ہے۔ صورتحال سنگین ہے اور پیشی کو برقرار رکھنے اور مثبت جذبات کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے لیکن حکام کہہ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف تیزی سے مشکل ہوتا جا رہا ہے اور غیر حقیقی اقدامات کا مطالبہ کر رہا ہے۔ موجودہ حکومت ایسی تمام منفی تجاویز کا پوری طاقت سے مقابلہ کر رہی ہے لیکن اس طرح کے سخت اور ناقابل عمل اقدامات میں مزید تاخیر کرنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ دریں اثناء پاکستانی اشرافیہ خاموشی سے کاروبار قائم کر رہے ہیں اور اپنی دولت بیرون ملک منتقل کر رہے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ صرف 2 سال قبل سری لنکا کی معیشت کو دنیا کے اس حصے میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی معیشت کے طور پر بتایا جاتا تھا اور آج کھنڈرات میں پڑا ہوا ہے۔ آنے والے اہم اور بہت تکلیف دہ دن ہیں۔
ارشدشریف کی والدہ کا سپریم کورٹ میں بڑا انکشاف "ارشد شریف نے بتایا تھا کہ اگر مجھے کچھ ہوا تو جنرل ر باجوہ، جنرل ندیم انجم، میجر جنرل فیصل نصیر، بریگیڈءر شفیق ملک، بریگیڈءر فہیم رضا، کرنل رضوان اور کرنل نعمان ذمے دار ہوں گے"
FIR of Arshad Shareef
جو حالات جا رہے ہیں،آنے والے الیکشن میں ن لیگی قیادت کو حنا بٹ، اللہ رکھا پیپسی اور لاہور دا پاوا جیسی شخصیات کو ٹکٹ دینے پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا" زرتاج گل وزیر
Driverless Taxi Introduced in China
Qatar Football Stadium