Islam Zindabad
Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Islam Zindabad, Home improvement, .
رات سونے سے پہلے خوبصورت تلاوت قرآن پاک سماعت فرمائیں 💖سالم الرویلی کی خوبصورت آواز میں
Zikar of the day
اللہ کے نبی محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طائف کا سفر حضرت اداس کا قبول اسلام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طائف والوں کو معاف کرنا
.
دل محبت تو کریگا
مولانا عبد الستار حفظ اللہ کے بیان سے منتخب شدہ مختصر کلپ
#جمعہ مبارک کی سنتیں ❤
کـــــسی کو *"ذَلِیــــــل"* کرنے سے پہلے
خُود *"ذَلِیـــــــل"* ہونے کے لئے تیار رہیں
کیونکہ
اللّٰه کریم کا ترازُو
صِرف *اِنصــــاف* تَولتـا ہے
!!!_نماز ظهر ادا کر ليجئىے
اگـــر موت کـــی حقـیقت دل و دماغ میں آجائــــے تــــو نیکــــی کــــرنا آسان اور برائــــی کـــرنا مشکل ہو جائــــے گا
#نماز #فجرادا کر لیں
#فتنوں کا دور
#اللہ حفاظت فرمائے
سوال: کیا تہجد پڑھنے کے لیے سونا لازمی ہے ؟َ
الجواب حامداً و مصلیاً
تہجد کیلئے سوکر اٹھنا ضروری نہیں ہے بلکہ سوئے بغیر بھی پڑھ سکتے ہیں البتہ بہتر سوکر اٹھنے کے بعدپڑھنا ہے کیونکہ عام طور پر سوکر اٹھنے کے بعد نفل پڑھنے کو تہجد کہا جاتا ہےاور رسول اللہ ﷺ اور صحابۂ کرام کا تعامل عام طور سے یہی رہا ہے کہ آخر رات میں بیدار ہوکر نماز پڑھتے تھےاس لئے افضل صورت یہی ہوگی۔
نیز تہجد کی رکعات دو سے لیکر بارہ تک مختلف تعداد روایات میں منقول ہے۔ البتہ آنحضرت ﷺ کا عام معمول آٹھ رکعات پڑھنے کا تھا اسلئے آٹھ رکعات پڑھنی بہتر ہے ورنہ جتنی رکعات باسانی ہوسکے۔
نوٹ: یہ حکم اس وقت ہے جب بندے کو سونے سے پہلے یا بعد میں تہجد پڑھنے میں تردد ہو لیکن اگر کسی کو کسی وجہ سے نیند ہی نہیں آئی اور وہ رات کے آخری حصہ تک جاگتارہاتو اس کے حق میں تہجد کیلئے پہلے سونے کو ضروری سمجھنا بھی درست نہیں ہے۔
==================
حاشية ابن عابدين : (2 / 24)
قال في البحر فمنها ما في صحيح مسلم مرفوعا أفضل الصلاة بعد الفريضة صلاة الليل وروى الطبراني مرفوعا لا بد من صلاة بليل ولو حلب شاة وما كان بعد صلاة العشاء فهو من الليل وهذا يفيد أن هذه السنة تحصل بالتنفل بعد صلاة العشاء قبل النوم…إلي قوله…وقد ذكر القاضي حسين من الشافعية أنه في الاصطلاح التطوع بعد النوم وأيد بما في معجم الطبراني من حديث الحجاج بن عمرو رضي الله عنه قال بحسب أحدكم إذا قام من الليل يصلي حتى يصبح أنه قد تهجد إنما التهجد المرء يصلي الصلاة بعد رقدة إلي قوله أقول الظاهر أن حديث الطبراني الأول بيان لكون وقته بعد صلاة العشاء حتى لو نام ثم تطوع قبلها لا يحصل السنة فيكون حديث الطبراني الثاني مفسرا للأول وهو أولى من إثبات التعارض والترجيح لأن فيه ترك العمل بأحدهما ولأنه يكون جاريا على الاصطلاح ولأنه المفهوم من إطلاق الآيات والأحاديث ولأن التهجد إزالة النوم بتكلف مثل تأثم أي تحفظ عن الإثم نعم صلاة الليل وقيام الليل أعم من التهجد وبه يجاب عما أورد على قول الإمام أحمد هذا ما ظهر لي والله أعلم
==================
تفسير ابن كثير : (5 / 103)
فإن التهجد: ما كان بعد نوم. قاله علقمة، والأسود وإبراهيم النخعي، وغير واحد وهو المعروف في لغة العرب. وكذلك ثبتت الأحاديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: أنه كان يتهجد بعد نومه، عن ابن عباس، وعائشة، وغير واحد من الصحابة، رضي الله عنهم، كما هو مبسوط في موضعه ، ولله الحمد والمنة.
وقال الحسن البصري: هو ما كان بعد العشاء. ويحمل على ما بعد النوم.
==================
حاشية رد المحتار : (2 / 26)
قوله: (وأقلها على ما في الجوهرة ثمان) قيد بقوله: على ما في الجوهرة لانه في الحاوي القدسي قال: يصلي ما سهل عليه ولو ركعتين، والسنة فيها ثمان ركعات بأربع تسليمات …وهذا بناء على أن أقل تهجده (ص) كان ركعتين، وأن منتهاه كان ثماني ركعات أخذا مما في مبسوط السرخسي،
==================
واللہ تعالی اعلم بالصواب
*﷽*
حـــــــدیثِ رســـولﷺ
*_✒ایک دعا پڑھنے پر پانچ انعامات
💎ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ جو شخص دن میں *سو(١٠٠)* مرتبہ یہ دعا پڑھتا ہے:👇🏻
*🌹🍃لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ*
🌹🍃’’ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی کے لئے بادشاہت ہے ، اسی کے لئے ہر قسم کی تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔‘‘
تو اسے دس غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب ملتا ہے
اس کے لئے سو(١٠٠) نیکیاں لکھی جاتی ہیں
اس کے سو گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں
وہ پورا دن شام ہونے تک شیطان سے محفوظ رہے گا
اور اس سے بہتر کوئی شخص نہیں آئے گا مگر وہ جس نے اس سے زیادہ مرتبہ پڑھا ہو گا
متفق علیہ ، رواہ البخاری (۶۴۰۳) و مسلم
📚مشکاة المصابیح:2302
✾ حکم:صحیح*
*سنو!!!!!!*
اللہ والوں کے ساتھ جڑ کر رہنا بہت ضروری ہوتا ہے جانتی ہو کیسے؟ جب موسٰی علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے لئے گئے تو وہ صرف چالیس دن تھے جب وہ اپنی قوم سے جدا رہے تھے اور ان کی قوم نے ان چالیس دنوں میں بچھڑے کی پرستش شروع کر دی انکے دلوں میں بچھڑے کی محبت پہلے سے تھی لیکن ایک راہنما کے موجود ہونیکی وجہ سے وہ اس محبت کو ظاہر نہیں کر پائے تھے بلکہ چھپائے بیٹھے تھے اور جیسے ہی موسیٰ علیہ السلام کو دور پایا تو اس چھپی محبت کو باہر آنیکا موقع مل گیا...اسی طرح ہمارے اندر بھی کوئی نہ کوئی بچھڑا چھپا ہوتا ہے کہیں پہ کسی انسان کی محبت کا بچھڑا ,کہیں خواہشاتِ نفس کا بچھڑا ,کہیں عزت کی چاہ کا, تو کہیں دولت کی محبت کا بچھڑا..اگر ہم ایمان والوں کے ساتھ رہیں تو اس بچھڑے کی محبت آہستہ آہستہ ختم ہونے لگتی ہے اور اگر ہم ایمانی ماحول اور ایمان والوں سے دور ہو جائیں تو چیونٹی کی چال سے بھی آہستہ یہ محبت ہمارے اندر سرایت کرتی چلی جاتی ہے اور پھر ہم ہر وہ کام کرتے ہیں جو بچھڑے کا مطالبہ ہوتا ہے... زندگی میں ہمیشہ کسی راہنما کی راہنمائی کی ضرورت رہتی ہے...تو ایمان والوں کی صحبت اور ایمانی مجالس, اور جماعت کو خود پر لازم کر لو...
*
Beshak
Ameen
*ماتم کی حقیقت*
مصیبت پر صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔اپنی مصیبت یا مصائب اہل بیت کو یاد کرکے ماتم کرنا یعنی ہائے ہائے، واویلا کرنا، چہرے یا سینے پر طمانچے مارنا، کپڑے پھاڑنا، بدن کو زخمی کرنا، نوحہ و جزع فزع کرنا، یہ باتیں خلاف صبر اور ناجائز و حرام ہیں۔ جب خود بخود دل پر رقت طاری ہوکر آنکھوں سے آنسو بہہ نکلیں اور گریہ آجائے تو یہ رونا نہ صرف جائز بلکہ موجب رحمت و ثواب ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
ولاتقولوا لمن یقتل فی سبیل اﷲ اموات بل احیاء ولٰکن لاتشعرون
اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں، انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں (سورۃ البقرہ آیت 154)
ماتم تو ہے ہی حرام، تین دن سے زیادہ
سوگ کی بھی اجازت نہیں ہے
حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اﷲﷺ کو فرماتے ہوئے سنا۔ جو عورت اﷲ اور آخرت پر ایمان لائی ہو، اس کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ سوگ کرے۔ البتہ اپنے خاوند کی (موت پر) چار ماہ دس دن سوگ کرے (بخاری حدیث 299، الکتاب الجنائز، مسلم، حدیث 935، مشکوٰۃ حدیث 3471 کتاب الجنائز)
*شیعہ کی کتاب کا حوالہ*
امام حضرت امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:
لیس لاحد ان یعداً اکثر من ثلاثۃ ایام الا المراۃ علی زوجہا حتی تنقضی عدتہا
کسی مسلمان کو کسی کی موت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنا سوائے عورت کے کہ وہ عدت کے ختم ہونے تک اپنے خاوند کی موت پر سوگ کرسکتی ہے
(من لایحضرہ الفقیہ ج 1)
اس حدیث سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جو ہر سال حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کا سوگ مناتے ہیں اور دس دن سینہ کوبی کرتی ہیں۔ چارپائی پر نہیں سوتے، اچھا لباس نہیں پہنتے اور کالے کپڑے پہنتے ہیں۔ ہاں ایصال ثواب کرنا ان کی یاد منانا اور ذکر اذکار جائز ہے، یہ سوگ نہیں ہے۔
مسلمانوں کا شرف یہ ہے کہ صابر اور شاکر ہو
خیال و فعل میں حق ہی کا شاغل اور ذاکر ہو
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ زینب بنت رسول اﷲﷺ فوت ہوئیں تو عورتیں رونے لگیں تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے انہیں کوڑے سے مارنے کا ارادہ کیا تو انہیں حضورﷺ نے اپنے ہاتھ سے ہٹایا اور فرمایا: اے عمر چھوڑو بھی پھر فرمایا: اے عورتوں شیطانی آواز سے پرہیز کرنا پھر فرمایا:
مہما یکن من القلب والعین فمن اﷲ عزوجل ومن الرحمۃ ومہما کان من الید واللسان فمن الشیطان
جس غم کا اظہار آنکھ اور دل سے ہو، وہ اﷲ کی طرف سے ہے اور رحمت ہے اور جو ہاتھ اور زبان سے ہو، وہ شیطان کی طرف سے ہے (مشکوٰۃ کتاب الجنائز باب البکاء علی المیت 1748) احمد حدیث 3093
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا:
لیس منا من ضرب الخد وشق الحیوب ودعا بدعوی الجاہلیۃ
وہ ہم میں سے نہیں جو منہ پیٹے، گریبان پھاڑے اور ایام جاہلیت کی طرح چیخ و پکار کرے (بخاری حدیث 1297، مسلم حدیث 103، مشکوٰۃ حدیث 1725، کتاب الجنائز باب البکائ)
یعنی میت وغیرہ پر منہ پیٹنے، کپڑے پھاڑنے، رب تعالیٰ کی شکایت، بے صبر کی بکواس کرنے والی ہماری جماعت یا ہمارے طریقہ والوں سے نہیں ہے۔ یہ کام حرام ہیں۔ ان کاکرنے والا سخت مجرم۔ یہ عام میت کا حکم ہے لیکن شہید تو بحکم قرآن زندہ ہیں، انہیں پیٹنا تو اور زیادہ جہالت ہے۔
حضرت ابو مالک اشعری رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا:
میری امت میں زمانہ جاہلیت کی چار چیزیں ہیں جن کولوگ نہیں چھوڑیں گے، حسب و نسب پر فخر کرنا، دوسرے شخص کو نسب کا طعنہ دینا، ستاروں کو بارش کا سبب جاننا اور نوحہ کرنا اور نوحہ کرنے والی اگر مرنے سے پہلے توبہ نہ کرے تو اسے قیامت کے دن گندھک اور جرب کی قمیص پہنائی جائے گی (مسلم حدیث 934، مشکوٰۃ حدیث 1727، کتاب الجنائز باب البکائ) (شیعوں کی معتبر کتاب، حیات القلوب، ملا باقر مجلسی جلد 2، ص 677)
میت کے سچے اوصاف بیان کرنا ندبہ ہے اور اس کے جھوٹے بیان کرنا نوحہ ہے۔ ندبہ جائز ہے نوحہ حرام ہے۔ گندھک میں آگ بہت جلد لگتی ہے اور سخت گرم بھی ہوتی ہے اور جرب وہ کپڑا ہے جو سخت خارش میں پہنایا جاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے نائحہ پر اس دن خارش کا عذاب مسلط ہوگا کیونکہ وہ نوحہ کرکے لوگوں کے دل مجروح کرتی تھی تو قیامت کے دن اسے خارش سے زخمی کیا جائے گا (مراۃ جلد 2، ص 503)
*دو کفریہ کام*
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا:
اثنتان فی الناس ہما بہم کفر: الطعن فی النسب والنیاحۃ علی المیت
لوگوں میں دو خصلتیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے وہ کفر میں مبتلا ہیں، کسی کے نسب میں طعن کرنا اور میت پر نوحہ کرنا (مسلم حدیث 67، کتاب الایمان)
اس حدیث میں میت پر نوحہ کرنے کو کفر قرار دیا گیا ہے اور اس کی توجیہ یہ ہے کہ حلال سمجھ کر میت پر نوحہ کرنا کفر ہے اور اگر اس کام کو برا سمجھ کر کیا جائے تو یہ حرام ہے۔
*دو ملعون آوازیں*
حضرت انس رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا:
صوتان ملعونان فی الدنیا والاخرۃ مزمار عند نعمۃ ورنۃ عند مصیبۃ
دو آوازوں پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی ہے۔ نعمت کے وقت گانا بجانا اور مصیبت کیوقت چلا کر آواز بلند کرنا یعنی نوحہ اور ماتم وغیرہ (بزار حدیث 795، ترغیب امام منذری کتاب الجنائز حدیث 5179)
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا: نوحہ کرنے والی عورتوں کی جہنم میں دو صفیں بنائی جائیں گی۔ ایک صف ان کے دائیں طرف اور ایک صف ان کے بائیں طرف تو وہ عورتیں دوزخیوں پر کتوں کی طرح بھونکیں گی (طبرانی فی الاوسط ترغیب امام منذری کتاب الجنائز حدیث 5182)
*ماتم کی ابتداء کس نے کی تھی؟*
شیعہ کتب کے حوالے
سب سے پہلے ابلیس نے ماتم کیا تھا: علامہ شفیع بن صالح شیعی عالم لکھتے ہیں کہ شیطان کو بہشت سے نکالا گیا تو اس نے نوحہ (ماتم) کیا۔ حدیث پاک میں ہے کہ غناء ابلیس کا نوحہ ہے۔ یہ ماتم اس نے بہشت کی جدائی میں کیا۔ اور رسول اﷲﷺ نے فرمایا: ماتم کرنے والا کل قیامت کے دن کتے کی طرح آئے گا اور آپ نے یہ بھی فرمایا: کہ ماتم اور مرثیہ خوانی زنا کا منتر ہے۔ (شیعہ کی معتبر کتاب مجمع المعارف حاشیہ حلیۃ المتقین، ص 142، ص 162، اور حرمت غنا مطبوعہ تہران طبع جدید)
امام حسین رضی اﷲ عنہ کا پہلا باقاعدہ ماتم کوفہ میں آپ کے قاتلوں نے کیا (جلاء الیون ص 424-426 مطبوعہ ایران)
پھر دمشق میں یزید نے اپنے گھر کی عورتوں سے تین روزہ ماتم کرایا (جلاء العیون ص 445 مطبوعہ ایران)
ابن زیاد نے آپ کے سر مبارک کو کوفہ کے بازاروں میں پھرایا۔ کوفہ کے شیعوں نے رو رو کر کہرام برپا کردیا۔ شیعوں کی اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ کوفہ والوں کو روتا دیکھ کر سیدنا امام زین العابدین نے فرمایا:
ان ہولاء یبکون علینا فمن قتلنا غیرہم
یہ سب خود ہی ہمارے قاتل ہیں اور خود ہی ہم پر رو رہے ہیں ۔
(احتجاج طبرسی، جلد 2، ص 29)
حضرت سیدہ طاہرہ زینب نے فرمایا: کہ تم لوگ میرے بھائی کو روتے ہو؟ ایسا ہی سہی۔ روتے رہو، تمہیں روتے رہنے کی کھلی چھٹی ہے۔ کثرت سے رونا اور کم ہنسنا۔ یقینا تم رو کر اپنا کانا پن چھپا رہے ہو۔ جبکہ یہ بے عزتی تمہارا مقدر بن چکی ہے۔ تم آخری نبی کے لخت جگر کے قتل کا داغ آنسوئوں سے کیسے دھو سکتے ہو جو رسالت کا خزانہ ہے اور جنتی نوجوانوں کا سردار ہے (احتجاج طبرسی ج 2، ص 30)
اسی طرح شیعہ کی کتاب مجالس المومنین میں لکھا ہے کہ کوفہ کے لوگ شیعہ تھے (مجالس المومنین ج 1، ص 56)
*کیا شیعوں نے امام حسین کو چھوڑ دیا تھا؟*
امام حسین رضی اﷲ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو جمع کرکے فرمایا: کہ مجھے خبر ملی ہے کہ مسلم بن عقیل کو شہید کردیا گیا ہے اور شیعوں نے ہماری مدد سے ہاتھ اٹھالیا ہے جو چاہتا ہے ہم سے الگ ہوجائے، اس پر کوئی اعتراض نہیں (جلاء العیون ص 421، مصنفہ ملا باقر مجلسی، منتہی الاعمال مصنفہ شیخ عباس قمی ص 238)
مذکورہ بالا خطبہ سے معلوم ہوگیا کہ قاتلان حسین شیعہ تھے اور یہی وجہ ہے کہ علمائے شیعہ نے خود اس بات کو تسلیم کیا ہے۔ ملا خلیل قدوینی لکھتا ہے: ان کے (یعنی شہدائے کربلا کے) قتل ہونے کا باعث شیعہ امامیہ کا قصور ہے تقیہ سے (صافی شرح اصول کافی)
*کیا امام حسین رضی اﷲ عنہ کے قاتل شیعہ تھے؟*
ملا باقر مجلسی 150 خطوط کا مضمون بایں الفاظ تحریر کرتا ہے۔ ایں عریضہ ایست بخدمت جناب حسین بن علی از شیعان وفدویان و مخلصان آنحضرت)
ترجمہ: یہ عریضہ شیعوں فدیوں اور مخلصوں کی طرف سے بخدمت امام حسین بن علی رضی اﷲ عنہا (جلاء العیون ص 358)
ان تمام بیانات سے معلوم ہوا کہ امام حسین کے قاتل بھی شیعہ تھے اور ماتم کی ابتداء کرنے والے بھی شیعہ تھے اور ان ماتم کرنے والوں میں یزید بھی شامل تھا۔ اب اگر امام حسین کے غم میں رونے یا ماتم کرنے سے بخشش ہوجاتی ہے تو بخشش کا سرٹیفکیٹ کوفیوں کو بھی مل جائے گا اور یزیدیوں کو بھی مل جائے گا۔
بارہ اماموں کے عہد تک موجودہ طرز ماتم کا یہ انداز روئے زمین پر کہیں موجود نہ تھا۔ چوتھی صدی ہجری 352ھ میں المطیع اﷲ عباسی حکمران کے ایک مشہور امیر معزالدولہ نے یہ طریق ماتم و بدعات عاشورہ ایجاد کیں۔ اور دس محرم کو بازار بند کرکے ماتم کرنے اور منہ پر طمانچے مارنے کا حکم دیا اور شیعہ کی خواتین کو چہرہ پر کالک ملنے، سینہ کوبی اور نوحہ کرنے کا حکم دیا۔ اہل سنت ان کو منع کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے، اس لئے کہ حکمران شیعہ تھا۔ (شیعوں کی کتاب منتہی الاعمال، ج 1، ص 452، اور اہلسنت کی کتاب، البدایہ والنہایہ، ج 11، ص 243، تاریخ الخلفاء ص 378)
*بے صبری کا انجام کیا ہوتا ہے؟*
کتب شیعہ کی روشنی میں بیان کریں
حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا:
ینزل الصبر علی قدر المصیبۃ ومن ضرب یدہ علی فخذیہ عند مصیبۃ حبط عملہ
صبر کا نزول مصیبت کی مقدار پر ہوتا ہے (یعنی جتنی بڑی مصیبت اتنا بڑا صبر درکار ہوتا ہے) جس نے بوقت مصیبت اپنے رانوں پر ہاتھ مارے تو اس کے تمام اچھے اعمال ضائع ہوگئے (شیعوں کی معتبر کتاب، نہج البلاغہ، ص 495، باب المختار من حکم امیر المومنین حکم 144) (شرح نہج البلاغہ لابن میثم ج 5، ص 588)
بے صبر کے پاس ایمان نہیں
امام زین العابدین رضی اﷲ عنہ نے فرمایا
الصبر من الایمان بمنزلۃ الراس من الحسد ولاایمان لمن لا صبر لہ
صبر کا مقام ایمان میں ایساہے جیسا کہ سر کاآدمی کے جسم میں، اس کے پاس ایمان نہیں جس کے ہاں صبر نہیں ۔
(جامع الاخبار مصنفہ شیخ صدوق، ص 132 الفصل 71، فی الصبر)
فرمان امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ
الصبر من الایمان بمنزلۃ الراس من الحسد فاذا ذہب الراس ذہب الجسد کذالک اذا ذہب الصبر ذہب الایمان
صبر کا ایمان سے ایسا تعلق ہے جیسا کہ جسم انسانی کے ساتھ سر کا، جب سر نہ رہے، جسم نہیں رہتا، اسی طرح جب صبر نہ رہے، ایمان نہیں رہتا (اصول کافی جلد 2، ص 87، کتاب الایمان والکفر باب الصبر)
عن ابی عبداﷲ علیہ السلام قال قال رسول اﷲﷺ ضرب المسلم یدہ علی فخذہ عند المصیبۃ احباط لاجرہ
امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا: مصیبت کے وقت مسلمان کا اپنے ہاتھ رانوں پر مارنا اس کے اجر وثواب کو ضائع کردیتا ہے۔ یعنی ماتم سے نیکیاں برباد ہوتی ہیں (فروع کافی جلد سوم، کتاب الجنائز باب الصبر والجزع)
کیا پیغمبر، امام یا شہید کا ماتم کرنا جائز ہے؟
جواب: کسی کا بھی ماتم جائز نہیں۔
نبی کریمﷺ نے اپنی لخت جگر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو فرمایا۔
اذا انامت فلا تخمشی علی وجہا ولاتنشری علی شعراً ولا تنادی بالویل والعویل ولاتقیمی علی نائحۃ
بیٹی جب میں انتقال کرجائوں تو میری وفات پر اپنا منہ نہ پیٹنا، اپنے بال نہ کھولنا اور ویل عویل نہ کرنا اور نہ ہی مجھ پر نوحہ کرنا (فروع کافی، جلد 5، ص 527، کتاب النکاح باب صفۃ مبایعۃ النبیﷺ، حیات القلوب، ج 2،ص 687، جلاء العیون ص 65)
نبی کریمﷺ کی وفات پر حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا
لولا انک امرت بالصبر ونہیت عن الجزع لانفدنا علیک ماء الشئون
یارسول اﷲ! اگر آپ نے ہمیں صبر کا حکم نہ دیا ہوتا اور ماتم کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو ہم آپ کا ماتم کرکے آنکھوں اور دماغ کا پانی خشک کردیتے۔ (شرح نہج البلاغہ لابن میثم شیعہ، ج 4، ص 409، مطبوعہ قدیم ایران)
کربلا میں امام حسین رضی اﷲ عنہ کی اپنی بہن کو وصیت
یااختاہ اتقی اﷲ وتعزی بعزاء اﷲ واعلمی ان اہل الارض یموتون واہل السماء لایبقون جدی خیر منی وابی خیر منی وامی خیر منی واخی خیر منی ولی ولکل مسلم برسول اﷲﷺ اسوۃ فعزاً مابہذا ونحوہ وقال لہا یا اخیۃ انی اقسمت علیک فابری قسمی لاتشقی علی جیباً ولا تخمشی علی وجہا ولاتدعی علی بالویل والثبور اذا اناہلکت
حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ نے کربلا میں اپنی بہن سیدہ زینب کو وصیت کی فرمایا۔ اے پیاری بہن! اﷲ سے ڈرنا اور اﷲ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق تعزیت کرنا، خوب سمجھ لو۔ تمام اہل زمین مرجائیں گے اہل آسمان باقی نہ رہیں گے، میرے نانا، میرے بابا، میری والدہ اور میرے بھائی سب مجھ سے بہتر تھے۔ میرے اور ہر مسلمان کے لئے رسول اﷲﷺ کی زندگی اورآپ کی ہدایات بہترین نمونہ ہیں۔ تو انہی کے طریقہ کے مطابق تعزیت کرنا اور فرمایا: اے ماں جائی میں تجھے قسم دلاتا ہوں۔ میری قسم کی لاج رکھتے ہوئے اسے پورا کر دکھانا۔ میرے مرنے پر اپنا گریبان نہ پھاڑنا اور میری موت پر اپنے چہرہ کو نہ خراشنا اور نہ ہی ہلاکت اور بربادی کے الفاظ بولنا۔ (الارشاد للشیخ مفید ص 232، فی مکالمۃ الحسین مع اختہ زینب، اعلام الوریٰ ص 236 امرالامام اختہ زینب بالصبر، جلاء العیون جلد 2، ص 553 فارسی مطبوعہ کتاب فروشے اسلامیہ ایران، اخبار ماتم ص 399)
ملا باقر مجلسی لکھتے ہیں: کہ امام حسین نے میدان کربلا میں جانے سے پہلے اپنی بہن زینب کو وصیت فرمائی، اے میری معزز! بہن میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ جب میں اہل جفا کی تلوار سے عالم بقاء میں رحلت کرجائوں تو گریبان چاک نہ کرنا، چہرے پر خراشیں نہ ڈالنا اور واویلا نہ کرنا (جلاء العیون جلد 2، ص 553، فارسی مطبوعہ کتاب فروشے اسلامیہ ایران)
شاعر نے حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کی وصیت کو اپنے انداز میں پیش کیا
اﷲ کو سونپا تمہیں اے زینب و کلثوم
لگ جائو گلے تم سے بچھڑتا ہے یہ مظلوم
اب جاتے ہی خنجر سے کٹے گا میرا یہ حلقوم
ہے صبر کا اماں کے طریقہ تمہیں معلوم
مجبور ہیں ناچار ہیں مرضی خدا سے
بھائی تو نہیں جی اٹھنے کا فریاد وبکاء سے
جس وقت مجھے ذبح کرے فرقہ ناری
رونا نہ آئے نہ آواز تمہاری
بے صبروں کا شیوہ ہے بہت گریہ و زاری
جو کرتے ہیں صبر ان کی خدا کرتا ہے یاری
ہو لاکھ ستم رکھیو نظر اپنے خدا پر
اس ظلم کا انصاف ہے اب روز جزاء پر
قبر میں ماتمی کا انجام کیا ہوگا؟
قبر میں ماتمی کا منہ قبلہ کی سمت سے پھیر دیا جائے گا:
ایک روایت میں ہے رسول اﷲﷺ نے فرمایا: کہ سات آدمیوں کا قبر میں منہ قبلہ کی طرف سے پھیر دیا جاتا ہے۔
(۱) شراب بیچنے والا
(۲) شراب لگاتار پینے والا
(۳) ناحق گواہی دینے والا
(۴) جوا باز
(۵) سود خور
(۶) والدین کا نافرمان
(۷) ماتم کرنے والا (شیعہ کی معتبر کتاب، مجمع المعارف حاشیہ برحلیۃ المتقین ص 168، درحرمت غنا مطبوعہ تہران طبع جدید)
گانا گانے والے اور مرثیہ خواں کو قبر سے
اندھا اور گونگا کرکے اٹھایا جائے گا
رسول اﷲﷺ سے منقول ہے کہ غنا کرنے والا اور مرثیہ خواں کو قبر سے زانی کی طرح اندھا اور گونگا کرکے اٹھایا جائے گا۔ اور کوئی گانے والا جب مرثیہ خوانی کے لئے آواز بلند کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ دو شیطان اس کی طرف بھیج دیتا ہے جو اس کے کندھے پر سوار ہوجاتے ہیں۔ وہ دونوں اپنے پائوں کی ایڑھیاں اس کی چھاتی اور پشت پر اس وقت تک مارتے رہتے ہیں۔ جب تک وہ نوحہ خوانی ترک نہ کرے (شیعہ کی معتبر کتاب: مجمع المعارف حاشیہ برحلیۃ المتقین ص 163، درحرمت غنا مطبوعہ تہران طبع جدید)
حضورﷺ نے فرمایا: میں نے ایک عورت کتے کی شکل میں دیکھی۔ کہ فرشتے اس کی دبر (پاخانے کی جگہ) سے آگ داخل کرتے ہیں اور منہ سے آگ باہر آجاتی ہے۔ اور فرشتے گرزوں کے ساتھ اس کے سر اور بدن کو مارتے ہیں۔ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا نے پوچھا۔ میرے بزرگوار ابا جان مجھے بتلایئے کہ ان عورتوں کا دنیا میں کیا عمل اور عادت تھی کہ اﷲ تعالیٰ نے ان پر اس قسم کا عذاب مسلط کردیا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا: کہ وہ عورت جو کتے کی شکل میں تھی اور فرشتے اس کی دبر میں آگ جھونک رہے تھے۔ وہ مرثیہ خواں، نوحہ کرنے والی اور حسد کرنے والی تھی (شیعہ کی معتبر کتاب، حیات القلوب جلد 2، ص 543، باب بست و چہارم در معراج آنحضرت، عیون اخبار الرضا جلد 2، ص 11، انوار نعمانیہ جلد 1، ص 216)
کیا ماتم سننے کی بھی ممانعت ہے؟
نہ صرف ماتم کرنے بلکہ سننے کی بھی ممانعت ہے حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ
لعن رسول اﷲﷺ النائحۃ والمستمعۃ
رسول اﷲﷺ نے نوحہ کرنے والی اور سننے والی پر لعنت فرمائی (ابو دائود حدیث 3128، مشکوٰۃ حدیث 732، کتاب الجنائز باب البکائ)
کیونکہ اکثر عورتیں ہی نوحہ کرتی ہیں اس لئے مونث کا صیغہ استعمال فرمایا تو جو مرد ہوکر نوحہ کرے تو وہ مرد نہیں زنانہ ہے۔
شیعہ حضرات کے شیخ صدوق نقل کرتے ہیں۔
نہی رسول اﷲ عن الرنۃ عند المصیبۃ ونہی عن النیاحۃ والاستماع الیہا
رسول اﷲﷺ نے بوقت مصیبت بلند آواز سے چلانے، نوحہ و ماتم کرنے اور سننے سے منع فرمایا (من لایحضرہ الفقیہ ج 4، ص 3)
ایک شبہ: فرشتوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی بشارت دی۔
فاقبلت امراتہ فی صرۃ فصکت وجہہا
آپ کی بیوی چلانے لگیں، پس اپنا منہ پیٹ لیا (شیعہ ترجمہ) معلوم ہوا کہ ماتم کرنا حضرت سارہ کی سنت ہے۔
جواب: کوئی شیعہ اس آیت سے حضرت سارہ کا ماتم کے لئے پیٹنا ہرگز ثابت نہیں کرسکتا کیونکہ قدیم ترین شیعہ مفسر علامہ قمی کے مطابق مصکت پیٹنے کے معنی میں نہیں ہے۔ غطت ڈھانپنے کے معنی میں ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ حضرت سارہ عورتوں کی جماعت میں آئیں اور حیا سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا کیونکہ جبریل علیہ السلام نے انہیں اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کی خوشخبری سنائی تھی (تفسیر قمی ج 2، ص 330)
اگر اب بھی تسلی نہ ہوئی تو شیعہ صاحبان کو چاہئے کہ ماتم شہداء کی بجائے بیٹے کی پیدائش کی خوشخبری سن کر کرنا چاہئے تاکہ اپنے خیال کے مطابق سنت سارہ پر عمل پیرا ہوسکیں۔ اہل بیت کرام نے رسول اﷲﷺ کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے صبر کا مظاہرہ فرمایا۔ نہ خود ماتم کیا اور نہ کرنے کا حکم دیا اور ہم محب اہل بیت ہیں اور ان کے قول و فعل کو اپناتے ہوئے صبر کا اظہار کرتے ہیں اور جو رسول اﷲﷺ اور ائمہ کرام کے فرمان کو نہ مانے اور بے صبری کا مظاہرہ کرے وہ محب اہل بیت نہیں ہوسکتا۔
*نئے سال کا آغاز اور مبارکباد!*
نئے اسلامی سال کے آغاز پر مختلف حضرات کی طرف سے مبارکبادی کا عمل جاری رہتا ہے اور اس میں عوام و خواص سب ہی شامل ہیں، اس موضوع کی مناسبت سے کچھ تحقیق اور فتاوی خلاصہ کے ساتھ پیش پیش خدمت ہے۔
*1- سال نو کے آغاز پر مبارکباد دینے والی تین روایات اور ان کی تحقیق*
١- كان أصحابُ النَّبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يتعلَّمونَ هذا الدُّعاءَ إذا دخَلَتِ السَّنةُ أوِ الشَّهرُ *اللَّهمَّ أدخِلْه علينا بالأمنِ والإيمانِ والسَّلامةِ والإسلامِ ورِضوانٍ مِن الرَّحمنِ وجوازٍ مِن الشَّيطانِ*
(الراوي: عبد الله بن هشام المحدث: الطبراني - المصدر: المعجم الأوسط - الصفحة أو الرقم: ٢٢١/٦)
خلاصة حكم المحدث: لا يروى هذا الحديث عن عبد الله بن هشام إلا بهذا الإسناد تفرد به رشدين بن سعد
٢- كان أصحابُ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يتعلَّمون هذا الدُّعاءَ إذا دخَلَتِ السَّنَةُ أو الشَّهرُ *اللهمَّ أدخِلْه علينا بالأمنِ والإيمانِ والسَّلامةِ والإسلامِ ورِضوانٍ مِنَ الرَّحمنِ وجَوازٍ مِنَ الشَّيطانِ*
(الراوي: عبدالله بن هشام المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: ١٤٢/١٠)
خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن
٣- كان أصحابُ النَّبيِّ صلَّى الله عليهِ وآلِهِ وسلَّمَ يَتعلَّمونَ الدُّعاءَ كمَا يتعلَّمونَ القُرْآنَ إذا دخل الشَّهرُ أوِ السَّنةُ *اللَّهُمَّ أدْخِلْهُ علينا بالأمْنِ والإيمَانِ والسَّلامَةِ والإسْلامِ وجِوارٍ منَ الشَّيطَانِ ورِضْوانٍ مَنَ الرَّحمَنِ*
(الراوي: عبدالله بن هشام المحدث: ابن حجر العسقلاني - المصدر: الإصابة - الصفحة أو الرقم: ٣٧٨/٢)
خلاصة حكم المحدث: موقوف على شرط الصحيح
*2- ان تین روایات کی تحقیق*
پہلی روایت کی سند کمزور ہے، اس میں *رشدین بن سعد* نے ہی اس طریقے سے روایت کی ہے، دوسری روایت کی سند حسن ہے یعنی صحیح سے اگرچہ کمزور ہے لیکن ضعیف نہیں ہے بلکہ دلیل بننے کے قابل ہے، تیسری روایت کی سند بخاری اور مسلم کے درجے کی ہے۔
ان تینوں روایات میں سے کسی میں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ یہ حضور اکرم ﷺ سے ثابت ہے بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل بتایا گیا ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو سکھاتے تھے۔
*3- سال نو کے آغاز پر دعا*
جہاں تک سال نو کے آغاز کی دعاء کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں مختلف روایات کی طرف رجوع کرنے سے معلوم ہوا کہ صرف ایک صحابی یعنی *عبد اللہ بن ھشام رضی اللہ عنہ* کی روایت میں یہ لفظ وارد ہوا ہے (أوِ السَّنةُ) یعنی سال داخل ہونے کے وقت۔
ان کے علاوہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس طرح کی دعا صرف مہینہ کے داخل ھونے پر منقول ہے، جیسے :
*حضرت طلحة بن عبيد الله، حضرت ابن عمر، حضرت عبادة بن الصامت، حضرت أنس بن مالك، حضرت رافع بن خديج، حضرت علی بن ابي طالب اور حضرت عائشة رضی اللہ عنہم*
ان سب حضرات میں سے کسی نے سال کے شروع پر دعا پڑھنا ذکر نہیں کیا۔
اس سے پتہ چلا کہ حضرت عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ کی روایت میں سال (أوِ السَّنةُ) کا لفظ مدرج ہے، یعنی کسی بعد والے راوی نے اپنی طرف سے بڑھایا ہے اور اس سے بھی سال کے پہلے مہینہ کا چاند دیکھنے کے وقت پڑھنا مراد ہے، یعنی (أدخله علینا اور إذا دخَلَت ) سے وہ مہینہ مراد ہے نہ کہ سال کیونکہ *نئے سال کے لئے کوئی دعا صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہے،* اگر ایسا ہوتا تو دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم بھی نقل کرتے۔
*اس لئے بہتر یہ ہے کہ اس دعا پر (نئے سال کی دعا) کا عنوان نہ لگایا جائے* بلکہ یہ ہر مہینہ کے داخل ہونے پر پڑھنے کی دعا کی ترغیب دی جائے، چنانچہ صرف ذی الحج کے اخیر میں یہ پیغام شائع کرنا مناسب نہیں بلکہ ہر مہینہ کے اخیر میں بتلایا جائے اور جب ہر ماہ یہ پڑھی جائے گی تو سال کے لئے پڑھنے والی بات خود اس کے ضمن میں آجائے گی کہ ہر ماہ میں محرم کا مہینہ بھی داخل ہے اور پھر علیحدہ سے سال کا ذکر اضافی بھی ہوگیا۔
*4- نئے سال کے آغاز پر مبارکباد دینا*
جہاں تک مبارکباد دینے کا تعلق ہے تو اس کی بابت عرض ہے کہ :
● شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ نئے سال کی مبارکباد دینے کا حکم کیا ہے اور مبارکباد دینے والے کو کیا جواب دینا چاہیے تو شيخ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس مسئلہ میں صحیح یہی ہے کہ اگر کوئی شخص آپ کو مبارکباد دیتا ہے تواسے جوابا مبارکباد دو لیکن اسے نئے سال کی مبارکباد دینے میں خود پہل نہ کرو، مثلا اگر کوئی شخص آپ کویہ کہتا ہے کہ ہم آپ کو نئے سال کی مبارکباد دیتے ہیں تو آپ اسے جواب میں یہ کہیں کہ اللہ تعالی آپ کو خیر و بھلائی دے اور اسے خير و برکت کا سال بنائے، لیکن آپ لوگوں کو نئے سال کی مبارکباد دینے میں پہل نہ کریں، اس لئے کہ میرے علم میں نہیں کہ سلف رحمہم اللہ تعالی میں سے کسی ایک سے یہ ثابت ہو کہ وہ نئے سال پر کسی کومبارکباد دیتے ہوں۔
● بعض مشائخ نے ہجری سال کے شروع ہونے کی مبارکباد دینے کے بارے میں کہا ہے کہ کسی مسلمان کو تہواروں مثلا عید وغیرہ پر دعا کے الفاظ کو عبادت نہ بتاتے ہوئے مطلقا دعا دینے میں کوئي حرج والی بات نہيں اور خاص کر ایسا کرنے میں جب محبت و مودت اور خوشی وسرور مسلمان کے سے خوشدلی سے پیش آنا مقصود ہو۔
امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں مبارکباد دینے میں ابتداء نہيں کرونگا لیکن اگر مجھے کوئی مبارکباد دے تو میں اسے جواب ضرور دونگا، اس لئے کہ سلام کا جواب دینا واجب ہے لیکن مبارکباد دینے کی ابتداء کرنا سنت نہيں، نہ اس کا حکم دیا گيا ہے اور نہ ہی اس سے روکا گيا ہے، واللہ اعلم
● *کتاب النوازل* (٢٤١/١٧) میں ہے کہ اگر مبارک باد دینے کا مقصد یہ ہو کہ لوگوں کو اِسلامی مہینوں کے متعلق اَہمیت کا احساس ہو اورمحض رسم مقصود نہ ہو، تو اِسلامی سال پر مبارک باد دینے کی گنجائش ہے۔
*عن عبید اللہ عن أبیه عن جدہ طلحة بن عبید اللہ رضی اللہ عنه أن النبي صلی اللہ علیه وسلم کان إذا رأی الہلال، قال: اللّٰهم أہلِه علینا بالیمن والإیمان والسلامة والإسلام ربي وربک اللہ۔* (سنن الترمذي، أبواب الدعوات / باب ما یقول عند رؤیۃ الہلال ۲؍۱۸۳، عمل الیوم واللیلة ٥٩٦)
*خلاصہ یہ ہے کہ نئے اسلامی سال کی مبارک باد دینا جائز و مباح ہے البتہ سنت سے ثابت نہیں* (مستفاد : دارالافتاء دارالعلوم دیوبند: جواب : ٤٩٦٤٤) اور اس طرح کی مبارک باد وغیرہ سے آہستہ آہستہ وہ عمل رسم و رواج کا درجہ اختیار کرلیتا ہے، اور اسی طرح بدعتیں وجود میں آتی ہیں، ہجرت کے بعد حضور اکرم ﷺ دس سال مدینہ میں رہے اور آپ کے بعد ۳۰ سال خلافت راشدہ کا عہد رہا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نگاہ میں اس واقعہ کی اتنی اہمیت تھی کہ اسی کو اسلامی کلینڈر کی بنیاد و اساس بنایا گیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد سے ہی ہجری تقویم کو اختیار کر لیا گیا تھا، لیکن ان حضرات نے کبھی سالِ نو یا یوم ہجرت منانے کی کوشش نہیں کی، اس سے معلوم ہوا کہ اسلام اس طرح کے رسوم و رواج کا قائل نہیں ہے، کیونکہ عام طور پر رسمیں نیک مقصد اور سادہ جذبہ کے تحت وجود میں آتی ہیں، پھر وہ آہستہ آہستہ دین کا جزو بن کر رہ جاتی ہیں، اس لئے اسلام کو بے آمیز رکھنے کے لئے ایسی رسموں سے گریز ضروری ہے۔(کتاب الفتاوی ٢٧٠/١)
اعمالِ جمعہ
🔘 غسل کرنا
🔘 مسواک کرنا
🔘 صاف کپڑے پہننا
🔘 ناخن کاٹنا
🔘 تیل لگانا
🔘 سرمہ لگانا
🔘 سورہ کہف, سورہ الدخان, سورہ یٰس پڑھنا
🔘 زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھنا
🔘 ہو سکے تو صلاتہ التسبیح پڑھنا
🔘 اور تمام مظلوم مسلمانوں کے لیے اور پوری امت کے لیے دعا مانگنا
اور جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد 80 بار یہ درود شریف پڑھنے سے 80 سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں
"اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدِ نِ النَّبِیِّ
الْاُمِّیِّ وَعَلیٰ آلِہٖ وَسَلِّمْ تَسْلِیْمَا"
یا اللہ تمام مظلوم مسلمانوں کی غیبی مدد نصرت اور حفاظت فرما آمین یا اللہ پورے عالم کے انسانوں کو ہدایت عطا فرما اور تمام مسلمانوں کی مغفرت فرما اور ہم سب سے ہمیشہ کے لیے راضی ہو جا آمین ثم آمین
آج انشاءاللہ جمعے کے دن ہم سب یہ اعمال کریں گے اور دوسروں کو بھی بتائیں اور ثواب الدارین حاصل کریں جزاک اللہ خیرا کثیرا فی الدارین
وہ لٹے پٹُے سے قافلے
جو وطن بنا کر چلے گئے
جو نہ رک سکے. نہ جھک سکے
جو چمن سجاکر چلے گئے
ہمیں یاد ہیں ہمیں یاد ہیں ❤
تمام ممبرز کو آزادی مبارک ہو🎉🎊
آؤ کہ خاک میں ملا دیں ہم غرورِ باطل
نامِ محمدﷺ کیلئے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں
#ﷺ ❤
*”نماز عید“میں مسبوق*
(یعنی وہ افراد جن کی کوئی رکعت یا تکبیرات رہ گئی ہوں) کی جتنی بھی صورتیں بن سکتی ہوں
ان کو تفصیل سے بیان کر دیا جائے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ
علمائے کرام وائمہ مساجد انہیں عید المبارک سے چند روز قبل تفصیل سے بیان کر دیں،
تاکہ بہت سے صوم وصلوة کے پابند حضرات کی
نماز ِعید خراب ہونے سے بچ سکے۔
ذیل میں وہ تمام(متوقع) صورتیں جو پیش آسکتی ہیں، ان کا حکم ذکر کیا جاتا ہے:
1= اگرکوئی شخص ایسے وقت نماز میں شریک ہوا جب امام تکبیراتِ زوائد کہہ چکا تھا،
تو ایسے شخص کے لیے حکم یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھنے کے بعد فورا تین تکبیراتِ زوائد کہے اور اس کے بعد خامو شی سے امام کی قرات سنے۔(ردالمحتار:3/64،دارالمعرفہ،بیروت)
2= اگرکوئی شخص ایسے وقت نماز میں شریک ہوا جب امام رکوع میں چلا گیا تھا،
تو یہ شخص اندازہ کر ے کہ اگر وہ قیام کی حالت میں ہی تکبیرات کہہ کر امام کے ساتھ رکوع میں شامل ہو سکتا ہو، تو ایسا ہی کرے اور
اگر اس کا گمان یہ ہو کہ اگر میں نے قیام کی حالت میں تکبیرات کہیں تو امام رکوع سے اٹھ جائے گا،
تو اس آ نے والے کو چاہیے
کہ وہ رکوع میں چلا جائے اور رکوع میں تسبیحات کے بجائے تکبیرات کہے،
لیکن اس وقت تکبیرات کہتے ہوئے ہاتھ نہیں اٹھائے جائیں گے،
بلکہ ہاتھ گھٹنے پرہی رکھے رہیں،
ہاں! اگر رکوع میں تکبیرات کہنے کے بعد وقت ہو تو رکوع کی تسبیحات بھی کہہ لی جائیں
اور اگر آنے والا رکوع میں چلا گیا اور ابھی رکوع کی حالت میں ایک بار تکبیر کہہ پایاتھا، یازیادہ، یاکچھ بھی نہیں کہہ پایا تھا کہ
امام رکوع سے اٹھ گیا تو یہ بھی رکوع سے اٹھ جائے، بقیہ تکبیریں اس سے ساقط ہیں۔
(عالمگیریہ: 1/ 151، رشیدیہ)
3= اگر کوئی ایسے وقت نمازمیں شریک ہوا جب امام پہلی رکعت کے رکوع سے اٹھ گیا تھا، یا دوسری رکعت میں قرا ت شروع کرچکا تھا، تو اب آنے والا امام کی متابعت کرے،
یعنی جس طرح امام کر رہا ہے اسی طرح کرتا رہے،
پھر امام کے سلام پھیرنے کے بعد رہ جانے والی رکعت اس ترتیب سے ادا کرے گاکہ اول کھڑے ہو کر ثناء پڑھے،
پھرسورةالفاتحہ پڑھے، پھرسورت ملائے اور پھر رکوع میں جانے سے پہلے تین تکبیرات ِزوائد کہے، پھر رکوع میں جائے ،
یعنی صورت کے اعتبار سے ”امام کے ساتھ پڑھی ہوئی دوسری رکعت اور یہ رکعت جو ادا کی جا رہی ہے “دونوں رکعتیں ایک جیسی ہوں گی، یہ اصح قول ہے ۔(البحر الرائق:2/282،دارالکتب العلمیہ)
4= اگرکوئی شخص دوسری رکعت میں ایسے وقت پہنچاجب امام تکبیرات کہہ کر رکوع میں جا چکا تھا،
تو اب پھر پہلی رکعت کی طرح اندازہ کرے کہ تکبیرات کہہ کر امام کو رکوع میں پا سکتا ہے، یا نہیں؟
اگر پا سکتا ہے تو ایسا ہی کرے اور اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو رکوع میں جا کر تکبیرات کہے
اور اگرامام ر کوع سے اٹھ گیا یعنی مقتدی سے دونوں رکعتیں رہ گئیں،
تو یہ دونوں رکعتیں اسی طرح پوری کرے جیسے عام ترتیب میں امام کے پیچھے پڑھی جاتی ہیں۔
(تاتارخانیہ:2/73،قدیمی)
5= اگر کوئی ایسے وقت میں پہنچا جب امام سلام پھیرچکا تھا،
تو اب اکیلا اس نماز عید کو نہیں پڑھ سکتا،
اس شخص کو چاہیے کہ کسی ایسی مسجد، یا عیدگاہ کو تلاش کرے جہا ں ابھی تک عید کی نماز نہ ہوئی ہو ،
وہاں جا کر نماز ادا کرے
اور اگر اس کو کوئی ایسی جگہ نہ ملے تو اس کے لیے مستحب ہے کہ
چاشت کے وقت چار رکعت نفل اداکرے۔
(ردالمحتار:3/67،دارالمعرفہ)
الغرض!
مذکورہ بالا ممکنہ صورتیں ہی کسی کو پیش آ سکتی ہیں،
اگر علمائے کرام اور ائمہ مساجد انہیں” عید“ سے کچھ دن پہلے ہی سے ایک ایک کرکے بیان کر دیاکریں، تو
یقینا بہت سارے مسلمانوں کی ”عیدین“کی نماز خراب ہونے سے بچ جائے گی۔
اللہ تعالی تمام مسلما نوں کو اپنی مرضیات کے مطابق چلنے کی توفیق عطافرمائے۔
(آمین)