Awami Jamhuri Party Pakistan
Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Awami Jamhuri Party Pakistan, Political Party, .
دارالعلوم دیوبند نے ایسا کونسا فتوی دے دیا کہ اب اس پہ بلڈوزر چلیں گے، ہندو انتہاپسندوں کا بڑا مطالبہ، NCPRC نے ایف آئی آر درج کرنے کے احکامات کیوں جاری کر دیے؟
بہت کم لوگوں کو خاص رکھتا ھوں ۔😘
مگر جسے رکھتا ھوں تاحیات رکھتا ھوں_
¿@££□◇♡
وخت چي بدل شي نظريه بدلوي
ژوند چي بدل شي فلسفه بدلوي
په يوه منډه بدلیدونکې دنيا
د زندګې هره رشته بدلوي 🌼
خوشگوار زندگی چاہتے ہو تو لوگوں سےنہ جیتو
ان کے دل جیتو لوگوں پر نہ ہنسو ان کے ساتھ ہنسو
مفتاح اسماعیل ہم غریب عوام نے ٹھیکہ نہیں لیا ہوا
ہٹے کٹے خود کفیل،
امیر ترین کروڑ پتی سیاستدان،
بیوروکریٹس،
سرکاری افسر ان
کا بوجھ اٹھانے کا۔
ہم آواز اٹھائیں گے ۔
غریب عوام کے پیسوں پر عیاشیاں بند کرو۔۔۔
آئی ایم ایف کے قرضوں کی ذمہ دار خود غرض بے حس اشرافیہ ہے۔۔
ذرا سوچئے
ایک دیہاڑی دار اپنی کمائی سے 200 روپے لیٹر پٹرول خریدےگا
تو
ماھانا لاکھوں روپے قومی خزانے سے لینے والے
صدر
وزیراعظم
وزیر اعلیٰ
وزراء
بیوروکریٹ کو بھی مفت پٹرول ملنا بند ہونا چاہئے
اگر
معیشت کو بہتر کرنا ہےاور آی ایم ایف کی ذلالت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے،
تو
اس اشرافیہ کو ملنے والی سبسٹڈی ختم کرنا ہو گی۔
اگر پاکستان میں 20000 افراد کو پٹرول فری کی سہولت میسر ہے اور اگر ایک آفیسر ماہانہ 400 لیٹر پٹرول استعمال کرتا ہے
تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ
حکومت کو ماہانہ 80لاکھ لیٹر پٹرول فری دینا پڑتا ہے
جس کو خریدنے کیلئے ماہانہ تقریبآ 50لاکھ ڈالر درکار ہوں گے۔
یہ ہے وہ ناسور جو ملک کو IMF کے چنگل سے آزاد نہیں ہونے دیتا۔
تمام سیاسی پارٹیوں سے وابستگی اپنی جگہ لیکن اب یہ:
ملک کی اشرافیہ کا فری پٹرول بند ہونا چاہیئے۔
ملک کی اشرافیہ کے فری بجلی کے یونٹ بند ہونے چاہیئں۔
ملک کی اشرافیہ کے فری ہوائی ٹکٹ بند ہونے چاہیئں۔
ملک کی اشرافیہ کا یورپ و امریکہ میں فری علاج بند ہونا چاہیے۔
ملک کی اشرافیہ کے حکومتی کیمپ آفس ختم ہونے چاہیئں۔
ملک کی اشرافیہ کو 6، 8،10 کنال کے گھر الاٹ ہونے بند ہونے چاہیئں۔
تمام سرکاری گاڑیاں نیلام ہونی چاہیئں
یقین کریں تمام سرکاری گاڑیاں ویک اینڈ پر نادرن ایریاز میں سیر وتفریح کر رہی ہوتی ہیں۔
د ہڑ غرمہ د چنار سورے او کوسہ د جانان۔۔۔۔
زما د جوند ہرہ لمحہ پہ دی ارمان تیریگی۔۔۔
سابق اسسٹنٹ کمشنر بحرین جناب ہدایت اللہ خان کو پختونخواہ ہائے وے اتھارٹی میں بطوراسسٹنٹ ڈاریکٹر تعیناتی پر مبارک باد پیش کرتا ہو
جس بلندی کی تم خواہش رکھتے ہو .
ہم اکثر وہاں سے اُڑان بھرتے ہیں 🦅
د خپلیدو پہ تدبیرونو باندے ستڑے شومہ👤
خدایہ زما دہ درلیگلی دعا ثہ چل اوشو 🤔
بلقیس ایدھی صاحبہ نے اپنی زندگی ایدھی صاحب کے مشن میں پہلے ان کا ساتھ دینے میں اور ان کے بعد اس مشن کو جاری رکھنے میں گزاری۔ پوری قوم آج سوگوار ہے مگر لاکھوں یتیم بچے اور بچیاں شاید آج پہلی بار یتیمی محسوس کریں گے۔ اللّہ تعالیٰ بلقیس ایدھی صاحبہ کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔
آمین 🤲🏼
پوری قوم کی جانب سےچیف جسٹس آف پاکستان جناب عمر عطا بندیال صاحب اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب کے نام درخواست
جناب عالی
ملک کو دنیا کے سامنے ذلیل و روسوا کیوں کیا جا رہا ہے۔۔۔۔۔؟؟؟
اگر اپوزیشن نے امریکہ سے پیسہ لیا ہے تو اس کے ثبوت بھی ہوں گے،،
اگر ایسا امر واقع ہوا تو ضرور ہماری خفیہ ایجینسی کو بھی خبر ہوگی ۔ہر ثبوت موجود ہوگا
پاکستان نہ ہی زرداری، نواز شریف، مولانا فضل الرحمن شہباز شریف کا ہے اور نہ ہی عمران خان اور اسکے چمچوں کا ہے ۔
یہ 22 کروڑ عوام اور اسکے مضبوط اداروں کا ملک ہے
پاکستان 22 کروڑ عوام کا ملک ہے اس کے ساتھ اس طرح کے کھلواڑ بند کیے جائیں
قوم کو بتایا جائے کہ اپوزیشن نے امریکہ سے پیسے لیے ہیں اور ان سے قوم کے نمائندوں کو خریدا گیا ہے۔۔۔۔؟؟؟
اگر ایسا کچھ ہے تو سب کو گرفتار کر کے ملک سے غداری کے جرم میں سب کو فوراً قوم کے سامنے سخت ترین سزا دی جائے
اور ۔۔۔۔
اگر ایسا کچھ نہیں تو دوسری جانب عمران خان اگر اپنی سیاست کے لیے پاکستان کا دنیا بھر میں مذاق اور سیکورٹی حالات کے لیے خطرہ بن رہا ہے تو تحریک انصاف کے تمام وزیروں مشیروں جن میں خاص کر عمران خان اور فواد چوہدری کو عبرت ناک سزا دی جائے ،،
پاکستان نہ ہی تحریک انصاف کا ہے اور نہ ہی کسی اپوزیشن پارٹی کا
لہٰذا ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے ہم ملک کہ دو بڑی شخصیات سے درخواست کرتے ہیں کہ اس کام کو فوری طور پر منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔۔۔۔
پاکستان کی بدنامی بحثیت قوم ہمیں کسی صورت برداشت نہیں۔۔۔
گذشتہ ایک مہینے سے پوری قوم ہیجان کا شکار ہے۔معیشت تباہ ہو چکی ہے۔مہنگائی اپنے عروج پر ہے۔عوام کا جینا محال ہوچکا ہے۔آٹا چینی گیس پیٹرول بجلی پینچ سے باہر ہوچکی ہے۔ڈالر کا ریٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔سٹاک مارکیٹ بیٹھ چکی ہے۔عالمی مالیاتی ادارے اور دوسرے ممالک ہر طرح کی تجارت سے ہاتھ کھینچے ہوئے ہیں ۔ان حالات میں حکومت وقت صرف عدم اعتماد اور سیاسی چالوں کی طرف متوجہ ہے اور ملکی امور سے یکسر لاتعلق ہے ۔ اپوزیشن جوابی کاروائیوں میں مصروف ہے۔
ملکی حالات کی طرف اور عام عوام کی زندگی کی طرف حکومت وقت کی کسی قسم کی توجہ نہیں۔
پاک فوج ملک کا محب وطن مضبوط ادارہ ہے جو ہر شکل گھڑی می قوم کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے ۔ہماری عدلیہ ہر آئینی بحران میں ازخود نوٹس لیتی ہے۔اس لئیے اس ملک کی جغرافیائی نظریاتی سرحدوں کے ساتھ ساتھ ملک کی معاشی تجارتی اور عام عوام کی خبر گیری کی سب بڑی ذمہ داری بھی پاک فوج اور عدلیہ کے کندھوں پر ہے۔
براہ کرم قوم کو اس بدترین ہجان اور بد نما سیاسی دلدل سے نکالا جاے۔ان حالات کے ذمہ داروں کو کڑی سزا دی جائے۔
منجانب
پاکستانی عوام
زندگی میں تصویریں لینا بھی ضروری ہے۔۔
کیونکہ
آئینے گزرا ہوا وقت نہیں بتایا کرتے۔
Wedding ceremony of Mr SAIFUR RAHMAN MATTA SWAT
آئیے تاریخ پر پڑے پردے کو ہٹا دیکھتے ہیں ۔۔۔۔۔
اس ملک کے اصلی ہیرو کو چھپانے والوں کے گھنائونے کردار کو دیکھتے ہیں ۔۔۔۔
ہم چوہدری رحمت علی کے چاہنے والے حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ،،حقائق کی تلاش ،،کے کیے سپریم کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل۔کمہشن مقرر کیا جائے جو تعین کرے کہ چوہدری رحمت علی کے ساتھ زیادتی کرنے والے کون ہیں ؟
قوم پوچھتی ہے کہ یونینسٹ لیڈر سر سکندر حیات نے چوہدری رحمت علی کو 23 مارچ 1940 کے اجلاس میں شرکت سے کیوں روکا تھا ؟
اور اس قوم کو یہ بھی بتایا جائے کہ خالق نظریہ پاکستان چوہدری رحمت علی ہیں جو 1915 سے واشگاف الفاظ میں دو قومی نظرئیے کی بات کرتے ہیں اور آج ہی کے دن انہوں نے NOW OR NEVER کا نعرہ ء مستانہ لگایا
۔۔۔۔۔جناب وزیر اعظم اور وزیر تعلیم Shafqat Mahmood اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں ۔۔۔۔۔
مندرجہ ذیل تحریر غور سے پڑھیں ۔۔۔ اور اس مرد درویش کے لئے فاتحہ خوانی کرنے کے بعد مطالبہ کریں
،،چوہدعی رحمت علی،، کے جسد خاکی کو پاکستان لایا جائے Asad Umar ...........
پاکستان ڈکلیئریشن ڈے
رفیق چوہدری
دنیا بھر کی قوموں نے اپنے ان محسنوں کو جنہوں نے وطن اور آزادی دلانے میں کردار ادا کیا تھا انہیں یاد رکھا ، انہیں عزت اور مقام دیا ۔لیکن ہم دنیا کی وہ واحد قوم ہیں کہ جس محسن نے وطن کا تصور دیا ، و طن کا نام دیا اور وطن کے لیے تحریک آزادی کی بنیاد رکھی اسے قبر کے لیے دو گز جگہ بھی نہ دے سکے ۔جی ہاں !وہ عظیم محسن چوہدری رحمت علی ؒ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے 1915ء میں بزم شبلی میں علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا اور پھر 28جنوری 1933ء کو تاریخی پاکستان ڈکلیئریشن Now or Never کے ذریعے پاکستان کے نام سے علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا اور پاکستان نیشنل موومنٹ کے نام سے باقاعدہ تحریک پاکستان کی بنیاد رکھی ۔
یہ وہ وقت تھا جب متحدہ ہندوستان میں مذہب کی بنیاد پر علیحدہ وطن کا تصور بھی گناہ سمجھا جاتا تھا ۔ یہاں تک کہ قائداعظم اور علامہ اقبال سمیت برصغیر کے تمام بڑے راہنما اس کے بہت بعد تک بھی متحدہ ہندوستان کے حامی رہے ۔ لیکن چونکہ مغرب کی نقالی دور غلامی سے ہی ہماری نفسیات میں رچ بس چکی ہے اس لیے ہم اسی بات کو سچ مانتے ہیں جس کا آغاز مغرب سے ہوتا ہے ۔ اسی بنیاد پر پاکستان کی واضح تاریخ کوطرح طرح سے مسخ کیا جاتارہا اور ان مسخ شدہ مغربی تصورات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ پاکستان کا تصور علامہ اقبال نے اپنے خطبہ الہ آباد میں دیا ۔ جبکہ اس ضمن میں پہلا سوال تو خود بخود پیدا ہوتاہے کہ علامہ اقبال نے اگر 1930ء میں علیحدہ وطن کا تصور دیا تھا تو پھرگول میز کانفرنسز (1930ء تا 1932ء) منعقدہ لندن میں متحدہ وفاق کے حمایتی کیوں رہے ؟ علامہ اقبال ان دنوں پنجاب کونسل میں یونینسٹ پارٹی کے رکن تھے جو مسلم لیگ کی حمایتی تھی ، ایک وفاق کی حامی تھی ،تقسیم کے سخت خلاف تھی اور اقبال خطبہ الہ آباد کے بعد بھی یونینسٹ پارٹی کے رکن رہے ۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ علیحدہ ریاست اس وقت تک نہ تو مسلم لیگ کا خوا ب تھا اور نہ ہی علامہ اقبال کا تصور تھا ۔ یہ مسلم صوبوں کا مطالبہ تھا جو اس سے قبل 1927ء میں آل پارٹیزکانفرنس(جس کے اقبال صدر رہے ) منعقدہ دہلی کی قراردادوں میں، 1928 ء میں نہرو کمیٹی کے رو برو اور اسی سال یعنی 1928 ء میں ہی یونینسٹ پارٹی کے اخبار "انقلاب" میں مرتضیٰ خاں میکش کے مضامین میں بھی پیش کیا جا چکا تھا ۔ علامہ اقبال نے بھی اسی مطالبے کو الہ آباد میں دہرایا تھا ۔
خطبہ الہ آباد دسمبر 1930ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں دیا گیااور اکتوبر 1931ء میں علامہ اقبال نے لندن کے مشہور انگریزی اخبار "دی ٹائمز " کو ایک خط لکھا جو 12 اکتوبر 1931 ء کو اس اخبار کے صفحہ نمبر 8 پر North-west India, Muslim Provinces کے عنوان سے شائع ہوا ۔ یہ خط آج بھی ریکارڈ پر موجود ہے ۔ اس کھلے خط میں علامہ اقبال نے برطانیہ کے مشہور شاعر ایڈورڈ تھامسن سے مخاطب ہو کر واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ اس نے (اسی اخبار کی 3 اکتوبر 1931ء کی اشاعت میں ) علامہ کے خطبہ الہ آباد کو "پان اسلامک سازش "ثابت کرنے لیے توڑ موڑ کر پیش کیا ہے ۔ علامہ نے ایڈورڈ تھامسن پر اس کھلے خطے میں واضح کیا کہ :’’میں نے خطبہ الہ آباد میں برطانوی سلطنت سے باہر کسی مسلم ریاست کی بات نہیں کی تھی ۔ درحقیقت مسلم صوبوں کے حوالے سے میری تجویز محض اس خیال کو آگے بڑھاتی ہے کہ ہندوستان کی شمال مغربی سرحد پر منظم مسلم صوبوں کا ایک سلسلہ ایشیا کے پہاڑی علاقوں کی بھوکی نسلوں کے خلاف ہندوستان اور برطانوی سلطنت کے لیے ایک دفاعی مورچے کا کام کرے گا ۔‘‘
یاد رہے کہ گول میز کانفرنسز کا آغاز 10 نومبر 1930ء کو ہوا اور ان کانفرنسز میں کانگریس کا مطالبہ یہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ اختیارات وفاق کو دیے جائیں جبکہ مسلم لیگ کا مطالبہ یہ تھا کہ جو متحدہ وفاق قائم ہو اس کے تحت صوبوں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دیے جائیں تاکہ مسلم اکثریتی صوبوں کو فائدہ حاصل ہو سکے ۔ اسی تناظر میں اگلے ماہ یعنی دسمبر 1930ء میں علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں شمال مغربی ہندوستان میں علیحدہ صوبوں کی بات کی تھی اور اسی بات کو انہوں نے 10 ماہ بعد یعنی اکتوبر 1931ء میں دی ٹائمز کو لکھے اپنے کھلے خط میں بھی واضح کیا ۔
اس خط سے یہ بھی واضح ہو جاتاہے کہ سب سے پہلے مغربی میڈیا نے اس پروپیگنڈا کو پھیلایا کہ خطبہ الہ آباد میں علیحدہ مسلم ریاست کا تصور دیا گیا تھا اور اس جھوٹ کومعتبر بنانے کے لیے نامور انگریزی شاعر ڈاکٹر ایڈورڈ تھامسن کا انتخاب کیا گیا تھا ۔ یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے 1940ء کی قرارداد لاہور کو انڈین میڈیا نے قرارداد پاکستان قرار دے دیا تھا ۔ بہرحال دی ٹائمز کو لکھے اس خط میں علامہ اقبال نے مغربی میڈیا اور ایڈورڈ تھامسن پر واضح کر دیا تھا کہ انہوں نے صرف مسلم صوبوں کی بات کی تھی ۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ مغربی میڈیا اس کے باوجو دبھی پروپیگنڈا پھیلانے سے باز نہیں آیا اور ایڈورڈتھامسن نے بھی علامہ اقبال کی ایک کتاب کے تبصرہ میں اس جھوٹ کو سند بخشنے کی ناکام کوشش کی ۔ اس کے بعد علامہ اقبال نے دو خطوط مزید لکھے جو تاریخی حیثیت کے حامل ہیں ۔ ان میں سے پہلا خط علامہ اقبال نے 4 مارچ 1934ء کو براہ راست ایڈورڈ تھامپسن کو لکھا۔ یہ خط بھی ریکارڈ پر موجود ہے اور اس میں علامہ نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ علیحدہ مملکت پاکستان کی سکیم چوہدری رحمت علی کی سکیم تھی اور جہاں تک خطبہ الہ آباد کا تعلق ہے تو وہ انڈین کنفیڈریشن کے اندر مسلم صوبوں کی سکیم تھی۔
اس کے دو دن بعد یعنی 6مارچ 1934ء کو علامہ نے ایک اور خط علامہ راغب احسن کے نام لکھا ۔ علامہ راغب احسن کا نام تاریخ میں کسی تعارف کا محتاج ہرگز نہیں ۔ وہ محمد علی ثانی کہلاتے تھے اور محمد علی جوہر کے رسالہ ’’کامریڈ‘‘کے اعزازی مدیر بھی رہے ۔ ان دنوں وہ بطور صحافی ’’اسٹار آف انڈیا‘‘ کے ساتھ منسلک تھے جب علامہ اقبال نے ان کو یہ خط لکھا ۔ مناسب ہوگا کہ اس خط کاوہ حصہ ترجمے کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے جو موضوع سے متعلق ہے ۔ علامہ اقبال لکھتے ہیں :
’’ میں اس خط کے ساتھ اپنی کتاب کے بارے میں ایڈورڈ تھامسن کا تبصرہ ارسال کر رہا ہوں ۔ ایڈورڈ تھامسن انگلستان کی مشہور ادبی شخصیت ہیں ۔ یہ تبصرہ مختلف وجوہات کی بناء پر دلچسپ ہے اور شاید یہ تبصرہ آپ کے جریدہ میں اشاعت کے لیے مناسب ہی رہے ۔ دوسری کاپی اسٹار آف انڈیا (کلکتہ) کو روانہ کر دیجئے ۔ براہ کرم نوٹ فرما لیں کہ اس تبصرہ کا منصف اس مغالطے کا شکار ہے کہ جیسے میری تجویز (خطبہ الہ آباد) پاکستان کی اسکیم سے تعلق رکھتی ہے ۔ جہاں تک میری تجویز کا تعلق ہے وہ یہ ہے کہ انڈین وفاق کے اندر ایک مسلم صوبہ تخلیق کیا جائے جبکہ پاکستان سکیم کا مقصد یہ ہے کہ ہندوستان کے شمال مغرب کے مسلم صوبوں کا ایک ایسا وفاق تشکیل دیا جائے جو انڈین فیڈریشن سے علیحدہ ہو اور انگلستان سے براہ راستہ وابستہ ہو ۔ آپ اپنے تعارفی کلمات میں اس نکتہ کی وضاحت کے ساتھ ساتھ ’’اسٹار آف انڈیا‘‘ کے مدیر کی توجہ بھی اس نکتہ کی جانب منعطف کروادیجئے ۔‘‘
علامہ اقبال کے اس قدر واضح موقف کے بعد مزید بحث کی ضرورت ہی نہیں رہتی ۔ تاہم تصدیق کے لیے فرزند اقبال (جاوید اقبال ) کے مختلف ٹی وی چینلز کو دیے گئے انٹرویوز بھی ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں جن میں وہ اکثر یہ کہتے نظر آتے ہیں :
’’جہاں تک الہ آباد کے خطبے کا تعلق ہے اُس میں علیحدگی کا تصور ہی نہیں ہے ۔ خطبہ الہ آباد کا تصور بالکل وہی چیز ہے جو کیبننٹ مشن پلان کا تصور تھا یعنی : Full autonomy within the Indian Union۔ یعنی انڈین یونین کے اندر رہتے ہوئے خود مختاری ۔ ۔ ہمیں دنیائے اسلام کو چھوڑ دینا چاہیے ۔ ہمیں اپنے ریجن میں یورپی یونین کی طرز پر ایک یونین بنانی چاہیے جو سارک ممالک پر مشتمل ہو تو یہ ایک مثبت قدم ہو گا۔ ۔۔۔ یہی تصور خطبہ الہ آباد میں تھا کہ ہندو مسلم مشترکہ آرمی ہو جو شمال مغرب کی حملہ آور قوتوں کے خلاف ہندوستان کا دفاع کر سکے ۔ ۔ میں سمجھتا ہوں کہ علامہ اقبال کا یہ خواب پورا نہیں ہوا ۔ ۔۔ اب بھی یہ یونین بن سکتی ہے مگر ملاں نہیں بنانے دے گا ‘‘۔
یہ فرزند اقبال کے الفاظ ہیں ۔ اب آپ علامہ اقبال کا اکتوبر 1931ء والا خط دوبارہ پڑھیے ۔ا س میں بھی عین وہی موقف ہے جو جاوید اقبال کی وضاحت میں ہے ۔
"Indeed, my suggestion regarding Muslim provinces merely carries forward this idea. A series of contented and well-organized Muslim provinces on the North-West Frontier of India would be the bulwark of India and of the British Empire against the hungry generations of the Asiatic highlands."
یعنی مسلم صوبوں کی ایک ایسی سیریز جو وسط ایشیائی بھوکی نسلوں کے خلاف ہندوستان کے لیے دفاعی مورچہ کا کردار ادا کریں ۔ یہ علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد کا اصل تصور تھا ۔ اس کے برعکس چوہدری رحمت علیؒ کا تصورِ پاکستان کیا تھا ؟ آئیے خود ان کے اپنے الفاظ میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں جو انہوں نے تاریخی پاکستان ڈکلیئریشن Now or Never میں 28جنوری 1933ء کو استعمال کیے :
"At this solemn hour in the history of India, when British and Indian delegates are laying the foundations of a Federal Constitution for that Sub-continent, we address this appeal to you, in the name of our common heritage, and on behalf of our thirty million Muslim brethern who live in PAKISTAN by which we mean the five Northern units of India viz: Punjab, North-West Frontier Province (Afghan Province), Kashmir, Sind, and Baluchistan. And we ask for your sympathy and support in our grim and fateful struggle against political crucifixion and national annihilation
چوہدری رحمت علی ؒ جانتے تھے کہ پہلی جنگ عظیم کے فوری بعد ہندوستان میں جس طرح انگریزوں نے ہندو انتہا پسند طبقہ کو عسکری تربیت کے ساتھ ساتھ اکھنڈ بھارت کی Mythکو بھی RSSکی شکل میں پروان چرھانا شروع کر دیا تھا ‘آگے چل کر یہی متھ برصغیر کی بیشتر اقوام کی موت کا پروانہ بن جائے گی ۔ اسلام مخالف جذبات سے مغلوب انگریز سرکار کی پشت پناہی میں یہ دجالی متھ پہلی بار انڈین فیڈریشن کے نام سے گول میز کانفرنسز ( 1930ء تا 1932ء ) میں زیر بحث آچکی تھی ۔یہ واضح طور پر اکھنڈ بھارت کے ابلیسی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے مترادف تھااور یہی وہ وقت تھا جب اقوام برصغیر کے سامنے صرف دو راستے تھے کہ یا تو وہ اس متھ کا مقابلہ کرکے اپنی تہذیب اور تاریخ کے ساتھ زندہ رہ لیں یا پھرسب کچھ اس متھ کی بھنیٹ چڑھا کر اکھنڈ بھارت کی بنیادوں میں دفن ہوجائیں کہ جسطرح ان سے پہلی قوموں نے اپنا نشان کھو دیا ۔چنانچہ تاریخ کی یہی وہ اہم ترین پکار تھی جس پر لبیک کہتے ہوئے چوہدری رحمت علی ؒ نے گول میز کانفرنسز کی رپورٹ آنے سے قبل ہی اکھنڈ بھارت کے نظریے کو پاکستان ڈکلیئریشن کے ان تاریخی الفاظ میں زمین بوس کر دیا :
"The Muslim Delegates at the Round Table Conference have committed an inexcusable blunder and an incredible betrayal. They have agreed, in the name of Hindu Nationalism, to the perpetual subjection of the ill-starred Muslim Millat in India. They have accepted, without any protest or demur and without any reservation or qualification, a constitution based on the principle of an All-India Federation. This acceptance amounts to nothing less than signing the death-warrant of Islam and of Muslims in India."
اسی طرح 1942ء میں تقسیم کے اُبھرتے ہوئے خدو خال کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ وارننگ بھی ببانگ دہل سنائی تھی کہ :
’’اس لیے یہ کمانڈمنٹ کہ مائنورٹی ازم سے بچئے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنی اقلیت کو ہندو علاقوں میں نہیں چھوڑنا چاہیے ، بے شک برٹش اور ہندو انہیں نام نہاد دستوری تحفظات ہی کیوں نہ دیں ۔ کیونکہ کسی قسم کے تحفظات بھی قومیت کانعم البدل نہیں ہوسکتے جو کہ ان کا پیدائشی حق ہے ۔۔۔اس کا مطلب ان کو پشت در پشت ڈی نیشنلائز کرنے والی انڈین ازم کی (ہندو) طاقتوں کے دوبدو رکھناہے ، جس کا مقصد ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا کہ وہ ہم سب کو اپنے اندر جذب کر لے ۔ ۔۔ ( اس کا مطلب ) اُس سانحہ کے نتائج کو بھلا دینا ہے جس سے ہماری اقلیتوں کو گزرنا پڑا ، جنہیں ایسے وقت میں جو ہمارے (مسلمانوں کے ) لیے آج سے زیادہ بہتر تھا اور جو گارنٹی اب ممکن ہے اس سے بہتر گارنٹی(بھی) ۔۔۔ ہم نے سسلی ، اٹلی ، فرانس ، پرتگال ، سپین، آسٹریلیا اور ہنگری میں چھوڑا ۔۔ وہ (مسلم)اقلیتیں اب کہاں ہیں ؟ ۔۔ اس سوال کے پوچھنے پر جواب نہایت چبھتے ہوئے لہجے میں ہی مل سکتا ہے ۔ ۔۔ ان حالات کی بناء پر ہمیں درج بالا صداقت کا ضرور خیال رکھنا چاہیے اور مائنورٹی ازم سے بچنا چاہیے ۔ چونکہ یہ تاریخ کا افضل ترین سبق ہے اور اس کو بھلا دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے اس راز کو بھلا دیا ہے جس میں ہماری نجات ہے ، ہمارا ڈیفنس ہے اور ملت کی حیثیت میں ہماری تقدیر پوشیدہ ہے۔ (The Millat of Islam and the Menance of Indianism, 1942)
آج بھارت پر مسلط انتہا پسند ہندو توا کی اسلام اور مسلمان دشمنی چوہدری رحمت علیؒ کے خدشات کی تصدیق کر رہی ہے ۔ چوہدری رحمت علیؒ جانتے تھے کہ اگر مسلمان ہندو اکثریت کے ہاتھوں مغلوب ہو گئے تو ان کا انجام وہی ہوگا جو یورپ میں مسلم اقلیتوں کا ہوا۔ لہٰذا اسی لیے انہوں نے 1915ء میں ہی بزم شبلی میں علیحدہ مسلم ریاست کا تصور پیش کر دیا تھا ۔ پھر جب گول میز کانفرنسز میں متحدہ وفاق کے تحت اختیارات کی بندر بانٹ ہونے لگی تو اس کے آغاز(1930ء ) سے چودھری رحمت علیؒ کی یہ کوشش تھی کہ مسلم مندوبین متحدہ وفاق کی حمایت کرنے کی بجائے علیحدہ وطن کا مطالبہ کریں اسی مقصد کے لیے چودھری رحمت علیؒ نے ہر ایک مسلم رہنما سے ملاقات بھی کی ۔ حسین زبیری تحریر کرتے ہیں : ’’چودھری صاحب نے گول میز کانفرنسوں کے مسلم مندوبین سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اور ان پر یہ بات واضح کی کہ انڈین فیڈریشن قبول کر لینے سے مسلمانوں کی انفرادیت ختم ہو جائے گی اور آپ اللہ اور رسول ﷺ کے سامنے جواب دہ ہوں گے لہٰذا انڈین فیڈریشن کو مسترد کرکے شمال مغربی وطن کے لیے ایک الگ وفاق کا مطالبہ کریں ۔‘‘ لیکن جب کسی بھی مسلم رہنما نے مطالبہ ٔ پاکستان کو تسلیم نہ کیا تو بالآخر چودھری رحمت علیؒ نے خود آگے بڑھ کر اپنے تاریخی ڈکلیئریشن Now or Neverکے ذریعے مسلمانان برصغیر کو یہ باور کرایا کہ اب اگر ہم نے اپنی آزادی کے لیے علیحدہ وطن کا مطالبہ نہ کیا تو شاید کبھی نہ کر سکیں گے ۔ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ اس وقت ہر کسی نے آپ کی مخالفت کی اور یہاں تک کہا گیا کہ یہ بچوں کی سکیم ہے ۔
تیسری گول میز کانفرنس میں متحدہ ہندوستان کے آئین پر بحث ہوئی اور مسلم رہنماؤں سمیت تمام اقلیتوں کایہ مطالبہ مان لیا گیا کہ متحدہ ہندوستان کے آئین میں تمام اقلیتوں کو آئینی تحفظات دیے جائیں گے ۔ اس کانفرنس کے اختیام پر علامہ اقبال نے وطن واپس آکر 27 فروری 1933ء کو ’’ مسلم نیوز سروس ’’ کے نمائندے کو کانفرنس کے فیصلوںکے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے کہا :
’’ میں اُمید کرتا ہوں کہ ہندوستان کی تمام سیاسی جماعتیں اس آئین کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں گی جو گول میز کانفرنس میں وضع کیا گیا ہے۔ ہندوستانیوں کے لیے یہی بہترین راستہ ہے جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو انتخابات کے لیے منظم کریں اور اپنی جماعت میں تفرقہ پیدا نہ ہونے دیں ۔ ‘‘
معلوم ہوا کہ چودھری رحمت علیؒ کے مطالبہ ٔ پاکستان کے بعد بھی علامہ اقبال سمیت مسلم لیگ کے تمام راہنمامتحدہ وفاق کے حامی تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ 1937ء تک چوہدری رحمت علی ؒ کی پاکستان اسکیم کو اعلانیہ ناقابل عمل کہتی رہی ۔ پھر جب 1937ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو شکست ہوئی اور وہ کسی بھی صوبے میں حکومت نہ بنا سکی تو اسے احساس ہو اکہ وہ خود کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کیسے ثابت کرے ۔ اسی نظریہ ضرورت نے مسلم لیگ کے اندر یہ احساس اجاگر کیا کہ کیوں نہ چوہدری رحمت علی کی پاکستان اسکیم کو کام میں لایا جائے ۔ کیونکہ اس وقت تک پاکستان کا نام ہر مسلمان کی زبان پر آچکا تھا اور 1937ء میں کانگریس کی حکومت سازی نے بھی ہندو اکثریت کی متعصبانہ ذہنیت اور مسلم دشمنی کو سب پر عیاں کر دیا تھا ۔ چنانچہ مسلم لیگ کے پاس اب سنہری موقع تھا کہ وہ خود مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ثابت کرنے اور کانگریس پر دباؤ بڑھانے کے لیے چوہدری رحمت علی کے پاکستان کے مطالبے کو کام میں لائے ۔
اسی دوران 21اپریل 1938ء کو علامہ اقبال انتقال کر گئے۔ اس وجہ سے مسلم لیگ کا دسمبر 1938ء کا سالانہ اجلاس تعزیتی اجلاس کی شکل اختیار کر گیا ۔ اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعے علامہ اقبال کو مندرجہ ذیل الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا گیا۔
’’آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس سرمحمد اقبال مرحوم کے اسلام کا ایک فلسفی صوفی و قومی شاعر ھونے کی حیثیت سے ان کی خدمات کی تحسین کرتا ہے۔ مسلمانوں کو انہوں نے یہ پیغام پہنچایا تھا کہ وہ اپنے ماضی کی روایات سے اپنے مستقبل کو بنائیں۔‘‘
اگر علامہ اقبال نے علیحدہ وطن کا کوئی تصور پیش کیا ہوتا تو مسلم لیگ کی اس قرارداد میں اس کا ذکر لازمی ہوتا ۔نواب سر محمد یامین خان جو قائداعظم کے قریبی ساتھی اور مسلم لیگ کے سینیئر رہنما تھے ان کی کتاب نامۂ اعمال میں لکھا ہے کہ :
’’یکم مارچ 1939ء کو ڈاکٹر ضیاء الدین نے مجھے، مسٹر جناح، مسٹر ظفراللہ خان، سید محمد حسین کو الہ آباد بلایا۔ دوپہر کے کھانے پر سید محمد حسین نے چیخ چیخ کر، جیسے ان کی عادت ہے، کہنا شروع کر دیا کہ چوہدری رحمت علی کی سکیم کہ پنجاب، کشمیر، صوبہ سرحد، سندھ، بلوچستان کو ملا کر بقیہ ہندوستان سے علیحدہ کر دیے جائیں۔ ان سے پاکستان اس طرح بنتا ہے کہ پ سے پنجاب، الف سے افغانیہ یعنی صوبہ سرحد، ک سے کشمیر، س سے سندھ اور تان بلوچستان کا اخیر ہے۔ چونکہ سید محمد حسین زور زور سے بول رہے تھے اس لیے مسٹرظفر اللہ خان نے آہستہ سے مجھ سے کہا کہ اس شخص کا حلق بڑا ہے مگر دماغ چھوٹا ہے۔ مسٹر ظفر اللہ خان ان کی مخالفت کر رہے تھے کہ یہ ناقابل عمل ہے، مسٹر جناح دونوں کے دلائل غور سے سنتے رہے اور پھر مجھ سے بولے کہ کیوں نہ ہم اس کو اپنا لیں اور اس کو مسلم لیگ کا نعرہ بنا لیں۔ ابھی تک ہماری عوام میں کوئی خاص مقبولیت نہیں ہے۔ اگر ہم اس کو اٹھائیں تو ہماری کانگریس سے مصالحت ہو سکے گی ورنہ وہ نہیں مانیں گے۔ ‘‘
اس اہم میٹنگ نے مسلم لیگ کے آنے والے سالانہ اجلاس کے خدو خال پہلے سے طے کر دیے تھے جس میں 23 مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور پیش کی گئی جسے انڈین میڈیا نے قرارداد پاکستان کا نام دیا ۔ اس قرارداد کا مسودہ ابتدائی طور پر پنجاب کے یونینسٹ وزیر اعلیٰ سرسکندر حیات خان نے تیار کیا ۔ یونینسٹ پارٹی تقسیم ہند کے سخت خلاف تھی اور اب تک مسلم لیگ کی اتحادی تھی اور سکندر حیات خان مسلم لیگ پنجاب کے صدر بھی تھے ۔ اس کا مطلب واضح تھا کہ مسلم لیگ ابھی تک علیحدہ وطن کی حامی ہر گز نہیں تھی ورنہ سرسکندر حیات خان اور یونینسٹ پارٹی مسلم لیگ سے الگ ہوجاتے ۔
ایک اور اہم بات نوٹ کیجئے ۔ اس اجلاس میں پہلے چوہدری رحمت علی ؒ کو بھی مدعو کیا گیا اور وہ شرکت کے لیے آرہے تھے کہ وزیراعلیٰ پنجاب سرسکندر حیات خان نے انہیں آنے سے روک دیا اور جواز خاکسار تحریک کے متوقع ہنگاموں کو بنایا ۔ سوال یہ ہے کہ خاکسار تحریک (جو تقسیم ہند کی مخالف تھی) سے صرف چوہدری رحمت علی ؒ کو ہی خطر ہ کیوں تھا ؟ قائداعظم سمیت جتنے راہنما اجلاس میں شریک ہوئے ان کو خطرہ نہیں تھا ؟
اصل بات یہ تھی کہ چوہدری رحمت علی کی پاکستان اسکیم واضح تھی ۔اگر وہ شرکت کر تے تو مبہم قرارداد لاہور واضح قرارداد ِ پاکستان میں بدل جاتی۔ جبکہ تقسیم اس وقت تک نہ تو مسلم لیگ کا ایجنڈا تھا اور نہ ہی یونینسٹ وزیر اعلیٰ سر سکندر حیات اس کو برداشت کرسکتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ سر سکندر حیات خان نے قرارداد کا جو مسودہ تیار کیا اس میں بر صغیر میں ایک مرکزی حکومت کی بنیاد پر کنفیڈریشن کی تجویز پیش کی تھی لیکن جب اس مسودہ پر مسلم لیگ کی سبجیکٹ کمیٹی میں غور کیا گیا تو قائد اعظم نے خود اس مسودہ میں واحد مرکزی حکومت کا ذکر یکسر کاٹ دیا۔اس پر سرسکندر حیات خان سخت ناراض ہوئے اور اسی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے 11 مارچ 1941ء کو پنجاب اسمبلی میں کھڑے ہو کر یہ کہا کہ:’’میں ہندوستان میں ایک طرف ہندو راج اور دوسری طرف مسلم راج کی بنیاد پر تقسیم کے سخت خلاف ہوں اور ہم (یونینسٹ پارٹی ) ایسی تباہ کن تقسیم کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔‘‘
یہ تاریخی حقائق یہ ثابت کرتے ہیں کہ مسلم لیگ نے چوہدری رحمت علیؒ کی پاکستان اسکیم کو گانگریس پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا تھا ورنہ عملی طور پر تقسیم ہند مسلم لیگ کے ایجنڈے میں شامل نہ تھی ۔
بیگم شائستہ اکرام اللہ اپنی کتاب فرام پردہ ٹو پارلیمنٹ میں بھی لکھتی ہیں کہ:’’اکثر مسلمانوں کے نزدیک پاکستان ایک تصور تھا حقیقت نہ تھی۔ بڑے بڑے مسلمان لیڈروں کا بھی یہ خیال تھا کہ کسی قسم کا باہمی سمجھوتہ ہو جائے گا اور وہ متحدہ ہندوستان کے اندر اپنی جداگانہ حیثیت برقرار رکھ سکیں گے۔ قائد اعظم کا بھی یہی خیال تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب پہلی بار اکتوبر 1941 ء میں ان سے ملی تو انہوں نے کہا کہ کینیڈا کا آئین ہمارے لیے مسائل کا بہترین حل ہے۔ قرار داد پاکستان کے سات سال بعد تک ایک طرف برطانوی حکومت اور دوسری طرف کانگریس سے وہ باہمی سمجھوتے کی بات کرتے رہے اور اس دوران میں ایک سے زائد بار تقریباً سمجھوتہ ہو بھی گیا تھا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ دو ٹوک بٹوارہ نہیں چاہتے تھے۔ باہمی سمجھوتے میں ناکامی ہوئی تو اس کی ذمہ داری قائد اعظم پر نہیں کانگریسی لیڈروں کی تنگ دلی اور تعصب پر تھی۔‘‘
تمام تاریخی حقائق سے یہ بات ثا بت شدہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے اختتام تک علیحدہ وطن مسلم لیگ کے ایجنڈے میں شامل نہ تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ قرارداد لاہور میں نہ ہی پاکستان کا لفظ استعمال ہوا اور نہ ہی کوئی نقشہ پیش کیا گیا ۔ جنگ عظیم دوم کے اختتام تک برطانیہ اور امریکہ کو روس کا خطرہ محسوس ہوا تو انہیں پاکستان کی ضرورت بھی محسوس ہوئی اور اس طرح 7اپریل 1946ء کو دہلی کے تین روزہ کنونشن میں برطانیہ سے آنے والے کیبنٹ مشن کے سامنے پاکستان کا نقشہ پہلی بار مسلم لیگ نے قرارداد کی صورت میں پیش کیاجس میں پنجاب ، سرحد ، سندھ ، بلوچستان ، بنگال اور آسام شامل تھے ۔ حیرت کی بات ہے کہ اس میں کشمیر شامل نہ تھا ۔ حالانکہ چوہدری رحمت علیؒ کی سکیم میں کشمیر شامل تھا ۔ اسی طرح چوہدری رحمت علیؒ کی پاکستان سکیم میں بنگال اور پاکستان کو علیحدہ مملکتیں شمار کیا گیا تھا ۔ جیسا کہ 1971ء میں ہو کر رہا ۔
اب رہا یہ سوال کہ اس قدر واضح تاریخی حقائق اور شواہد موجود ہونے کے باوجود چوہدری رحمت علی ؒ کو پاکستان کی سرزمین پربرداشت کیوں نہ کیا گیا اور تحریک پاکستان میں ان کے بنیادی اور تاریخی کردار کو مسخ کرنے کی کوشش کیوں کی گئی ۔ اس کا صرف ایک ہی جواب ہے کہ قائداعظم کی رحلت اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پاکستان پر انگریز کا پالا ہواوہ سیکولر طبقہ قابض ہو چکا تھا جو ہرگز نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست بنے جبکہ چوہدری رحمت علیؒ کا نظریۂ پاکستان واضح طور پر اسلامی بنیادوں پر استوار تھا ۔ اگر چوہدری رحمت علیؒ پاکستان میں رہتے یا ان کا مزار پاکستان میں بنتا تو نظریہ ٔ پاکستان پر اسلامی رنگ غالب آسکتا تھا ۔ اس لیے نہ تو مصورِ پاکستان چوہدری رحمت علی ؒ کو پاکستان میں برداشت کیا گیا اور نہ ہی ان کے جسد خاکی کو پاکستان میں دو گز زمین مل سکی ۔ان کا جسد خاکی آج بھی امانتاً برطانیہ میں دفن ہے ۔ ایک اسلامی ملک کا تصور دینے والے کے ساتھ اس کے سوا کیا سلوک ہو سکتا تھا جب دنیا میں ہر طرف باطل قوتوں کا راج ہو ۔.......
25 فروری قومی زبان اردو کے دن پر کچھ اشعار۔۔۔۔۔
*اردو زبان*
اردو ہماری قومی زبان ہے۔ جس کو دنیا کی میٹھی زبان بھی کہا جاتا ہے۔ شائستہ نرم الفاظ اور خوبصورت انداز کے ساتھ اردو زبان نے دنیا میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ اردو اپنے اندر ایک حسن لئے ہوئے ہے۔ جو ہم کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتا ہے۔
شاید آپ کو یاد ہو یا نہ ہو کہ اردو کو پاکستان کی قومی زبان کا درجہ 25فروری 1948ء کو دیا گیا تھا۔ تب سے آج تک اور جب تک دنیا ہے ان شاءاللہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہی رہے گی۔ آئیں مل کر ہم آج سب پاکستانی اپنی قومی زبان کا دن منائیں۔ اور اپنے پاکستانی ہونے اور اردو زبان ہونے پر شکر ادا کریں اور فخر کریں کہ جیسا پاکستان ایک مقدس ملک ہے ویسی ہی ہماری زبان بھی اعلی ہے۔
سلیقے سے ہواؤں کا رخ بھی موڑ دیتے ہیں۔
ابھی کچھ لوگ زندہ ہیں جو اردو بول لیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔ .......... ۔۔۔۔۔۔۔
ہم ہیں تہذیب کے علمبردار
ہم کو اردو زبان آتی ہے
(محمد علی ساحل)
۔۔۔۔۔۔۔۔
بات کرنے کا حسیں طور طریقہ سیکھا
ہم نے اردو کے بہانے سے سلیقہ سیکھا
(منیش شکلا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں کھیل اے داغؔ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
(داغؔ دہلوی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے
ایسی بولی وہی بولے جسے اردو آئے
(احمد وصی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
(داغؔ دہلوی)
۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ عطر دان سا لہجہ مرے بزرگوں کا
رچی بسی ہوئی اردو زبان کی خوشبو
(بشیر بدر)
۔۔۔۔ِ۔۔۔۔۔۔
سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں
(نامعلوم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا ہر شعر ہے اک راز حقیقت بیخودؔ
میں ہوں اردو کا نظیریؔ مجھے تو کیا سمجھا
(بیخود دہلوی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو جسے کہتے ہیں تہذیب کا چشمہ ہے
وہ شخص مہذب ہے جس کو یہ زباں آئی
(روش صدیقی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو سے ہو کیوں بیزار انگلش سے کیوں اتنا پیار
چھوڑو بھی یہ رٹا یار ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل اسٹار
(انور مسعود)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری اللہ سے بس اتنی دعا ہے راشدؔ
میں جو اردو میں وصیت لکھوں بیٹا پڑھ لے
(راشد عارفی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہد و شکر سے شیریں اردو زباں ہماری
ہوتی ہے جس کے بولے میٹھی زباں ہماری
(الطاف حسین حالی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بولتا ہے نگاہوں سے اس قدر اردو
خموش رہ کے بھی اہل زباں سا لگتا ہے
(نامعلوم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرے بچوں میں ساری عادتیں. موجود ہیں میری
تو پھر ان بد نصیبوں کو نہ کیوں اردو زباں آئی
(منور رانا)
بات کرنے کا حسیں طور طریقہ سیکھا
ہم نے اُردو کے بہانے سے سلیقہ سیکھا
نامعلوم
۔۔۔۔۔۔
ہم بھی بنیں گے اردو کہ زبان داں غزل
مستند ہوگا ہمارا بھی فرمایا ہوا
(غزالہ غزل)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچو، یہ سبق آپ سے کل بھی میں سنوں گا
وہ آنکھ ہے نرگس کی جو ہر گز نہیں سوتی
عنقا ہے وہ طائر کہ دکھائی نہیں دیتا
اردو ہے وہ زبان جو نافذ نہیں ہوتی
انور مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔
*سب میرے چاہنے والے ہیں، میرا کوئی نہیں*
*میں بھی اس ملک میں اردو کی طرح رہتا ہوں*
حسن کاظمی
ہم نے ہر شخص کو احترام کے قابل سمجھا
کسی کے دل میں کیا ہے خدا جانے...!❤🥀
د عمر سره سم نۀ دے دا عشق چې زۀ یی پريږدم
زما ځوانه زړګيه کۀ بوډا شومه نو څۀ